بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تحفظِ ناموسِ رسالت قانون کو ختم کرنے کی سازش !

تحفظِ ناموسِ رسالت قانون کو ختم کرنے کی سازش !

 

الحمدللّٰہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفی

 

۲۸؍جولائی ۲۰۱۳ء بروز اتوار روزنامہ امت میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ امریکہ کے وزیرخارجہ جان کیری کے مجوزہ دورۂ پاکستان کے موقع پر جہاں اور باتیں اور نئے عہد وپیمان ہوں گے، وہاں امریکہ کی پارلیمنٹ کے سینئر۲۷؍ ارکان نے امریکی وزیرخارجہ کو لکھے ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ وہ دورۂ پاکستان کے دوران وہاں مذہبی آزادی کو یقینی بنائیں۔ اس خبر کی تفصیل یہ ہے:
’’اسلام آباد/واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک/ ایجنسیاں) امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے اس بات کی تصدیق کے باوجود کہ جان کیری ۲۹ یا ۳۰؍ جولائی کو پاکستان کا دورہ کرسکتے ہیں، حتمی تاریخ کے حوالے سے ابہام تاحال باقی ہے۔ واشنگٹن میں بریفنگ دیتے ہوئے نائب ترجمان مری ہارف نے بتایا کہ وزیرخارجہ ۲۹ اور ۳۰ جولائی کو پاکستان جانے کا سوچ رہے ہیں، جہاں وہ بہت سے معاملات پر بات چیت کرسکتے ہیں، تاہم یہ بات قطعی طور پر نہیں بتائی جاسکتی کہ وہ کب جائیں گے۔ امریکی ایلچی جیمز ڈوبنز کے رواں ہفتے اسلام آباد جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ اسی دوران ۲۷؍ سینئر ارکانِ پارلیمنٹ نے وزیرخارجہ کو لکھے ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ وہ دورۂ پاکستان کے دوران وہاں مذہبی آزادی کو یقینی بنائیں۔ خط کے متن کے مطابق امریکی ارکانِ پارلیمنٹ نے پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں خصوصاً ہندو، عیسائی، احمدی مذہب کے ماننے والوں اور شیعہ فرقے کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور زور دیا کہ محکمہ خارجہ مذہبی آزادی کے فروغ کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر اقدامات کرے، جن میں توہین رسالت کے قانون اور اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور لڑکیوں کی کم تر حیثیت کو ادارتی صورت دینے کے حوالے سے کوئی بھی آئینی شق یا قانون کی تبدیلی یا خاتمہ شامل ہیں۔خبر ایجنسی آئی این پی کے مطابق اسلام آباد میں اعلیٰ حکام نے جان کیری کے مجوزہ دورے کے حوالے سے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ بعض مذہبی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں فائنل کرلی گئیں اور حتمی شیڈول طے کرنے کے لیے ہوم ورک کیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق جے یوآئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن اور متحدہ دینی محاذ کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے روابط اور ملاقاتوں کی درخواست امریکہ کی طرف سے کی گئی۔                    (روزنامہ امت، ۲۸؍جولائی۲۰۱۳ء مطابق ۱۸؍رمضان ۱۴۳۴ھ)
اس خط کے مندرجات میں ایک ہی سانس میں بیک وقت جہاں مذہبی آزادی کا ذکر کیا گیا، قانونِ ناموسِ رسالت کو تبدیل کرنے یا ختم کرنے کی بات کی گئی، وہاں یہ خط پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے مستقبل میں پیش آمدہ خطرات کی عکاسی اور چغلی بھی کھارہا ہے۔
وہ اس طرح کہ امریکہ، مغربی استعمار اور اس کے حواری قادیانی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی مذہبی آزادی کے نام پر خلفشار ہو، اختلاف ہو، لڑائی جھگڑا اور خانہ جنگی ہو، جیسا کہ تقریباً پوری اسلامی دنیا میں یہ سب کیاجارہا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں آئین پاکستان کی رو سے ہر ایک مذہب والے کو مذہبی آزادی حاصل ہے، چاہے وہ ہندو ہوں یا عیسائی، آج تک اُنہیں اپنے مذہب کے حوالے سے مسلمانوں سے اورمسلمانوں کو ان سے اور نہ ہی حکومت سے کبھی ان کو کوئی معقول شکایت ہے اور نہ رہی ہے۔
اس کے برعکس طاقت کے غرور اور تکبر کے نشے میں بدمست ہوکر مسلمانوں کی طاقت کو توڑنے، انہیں کمزور کرنے اور اپنی ہوسِ انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے امریکہ نے پوری دنیا کے سامنے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا سفید جھوٹ بول کر اقوامِ متحدہ کو اپنے ساتھ ملاکر عراق پر چڑھائی کی ، وہاں کے مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا، ان کی آبادیوں کو تباہ وبرباد اور مسمار وویران کیا اور آج تک وہاں بم دھماکے اور فسادات ہورہے ہیں۔اسی طرح اس سے پہلے نائن الیون کا ڈرامہ رچاکر افغانستان پر یلغار کردی اور کئی سال تک وہاں بمباری اور اپنے فوجیوں کے ذریعے نہتے معصوم مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اسی طرح انہیں کی سازشوں اور شہہ سے شامی فوج سنی عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہی ہے، حتیٰ کہ وہاں صحابہ کرامؓ واہل بیتؓ کے مزارات پر بم برساکر مقدس مقامات کو مسمار کیا جارہا ہے۔ مصر میں منتخب حکومت کو بمشکل ایک سال ہی گزرا تھا کہ اس کا تختہ الٹ کر مصری عوام کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا گیا اور مظاہرین پر عین نماز کی حالت میں گولیاں برساکر ایک ایک وقت میں سینکڑوں نمازیوں کو جامِ شہادت پلادیا گیا اور ابھی تک وہاں صورتِ حال کنٹرول سے باہر ہے، نامعلوم ابھی کتنا مزید مظلوم مسلمانوں کو ظلم وستم اور تشدد وبربریت کا سامنا کرنا پڑے گا اور کتنے مصری نوجوان وبزرگ اس بربریت کی بھینٹ چڑھ کر شہداء کی فہرست میں داخل ہوں گے۔ ادھر بنگلہ دیش میں جہاں حکومت اپنے مخالفین جماعت اسلامی کے لیڈروں کو سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں سنا رہی ہے، وہاں سے کئی حلقوں کی جانب سے یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ مسلمان مظاہرین پر حملہ کراکے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کیاگیا اور ان کی نعشوں کو کنٹینروں میں بھر بھر کر سمندر برد کیا گیا۔ یہ سب کچھ مسلمان ممالک میں ہورہا ہے۔ قتل کرنے والے بھی مسلمان اور قتل ہونے والے بھی مسلمان۔ اور ادھر برما میں ایک سال سے زائد عرصہ ہوگیا کہ وہاں کے مسلمانوں کو ذبح کیا جارہا ہے، ان کی عورتوں کی عصمتیں تارتار کی جارہی ہیں، ان کے بچوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جارہا ہے، ان کے بزرگوں کو دردناک اذیتیں دی جارہی ہیں۔ امن کے ٹھیکیدار، انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور اقوام متحدہ جیساامریکہ کا طفیلی ادارہ اس تمام تر صورت حال پر نہ صرف یہ کہ مہر بلب ہیں، بلکہ محسوس یوں ہوتا ہے کہ وہ حقیقت میں اس پر خوش بھی ہیں کہ چلو مسلمان قتل اور ذبح ہورہے ہیں۔
اور اب مذہبی آزادی کا ڈرامہ رچاکر یہ خانہ جنگی پاکستان منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔دنیا کا باشعور اور دانشور طبقہ بخوبی جانتا ہے کہ یہی استعمار ہی تھا کہ جس کی درپردہ سازشوںنے پاکستان میں لسانیت، قومیت اور صوبائیت کو ایک مدت تک ہوا دی اور ہزاروں بے گناہ انسان ان تعصبات کی بھینٹ چڑھ گئے ۔اسی نے فرقہ وارانہ تعصبات کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا اور سنی، شیعہ عوام کو باہم دست وگریباں کرا کے ہزاروں قیمتی جانوں کو موت کے گھاٹ اتاراگیا، اب ایک بار پھر اس مذہبی آزادی، اقلیتوں کے حقوق اور فرقوں کی مظلومیت کے عنوان سے فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی مذموم اور مسموم سازش کی جارہی ہے۔
سنی علماء ہوں یا شیعہ ذاکرین، سب ہی جانتے ہیں کہ ہم سب دہشت گردی کاشکار ہیں اور ہمیں قتل کرنے والا کوئی تیسرا فریق ہے جو کبھی کسی لباس میں نمودار ہوتا ہے تو کبھی کسی اور لبادہ میں شب خون مارتا ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو متحد رکھیں، اس دہشت گردی سے جان چھڑانے کے لیے سر جوڑ کر کسی ایک پلیٹ فارم پر بیٹھیں اور باہم اتفاق سے اس عفریت سے جان چھڑائیں، ورنہ ہمارا مشترک دشمن چھوٹی چھوٹی باتوں کو پروان چڑھاکر اور نت نئے عنوان اور ٹائٹل لگاکر ہمیں اسی طرح باہم دست وگریباں کردے گا، جس طرح کہ عراق ، شام، مصر اور بنگلہ دیش کی عوام اور حکومت کے افراد باہم دست وگریباں ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ اسلام دشمن عناصر اس طرح فرقہ وارارانہ فسادات کراکر ناموس رسالت کے قانون کے تحفظ سے ہماری توجہات ہٹاکر اپنے مہروں کو استعمال کرکے اس قانون کو ختم کراناچاہتے ہیں،اس لیے مسلمانوں کو بیدار رہنا چاہیے اور ان کی خفیہ اسکیموں اور تدبیروں کو ہر ممکن طریقہ سے ناکام بنانے کی سعی وکوشش کرتے رہنا چاہیے۔
تاریخ شاہد ہے اور ماضی کے حالات اور واقعات بتلاتے ہیں کہ یہود ونصاریٰ اور ان کے ایجنٹ وقتاً فوقتاً آنحضرت ا کی شانِ عالی میں گستاخی کا ارتکاب کرکے مسلمانوں کو تڑپاتے رہتے ہیں۔ یقین کی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ ایسے گستاخانِ رسول اور ان کی پشت پناہی کرنے والے دین دشمن لوگ محض مسلمانوں کو مضطرب وپریشان کرنے اور ان کے دلوں کو چھلنی کرنے کے لیے ایسی گستاخیاں کرتے ہیں۔ چونکہ یہ قانون ان کے عزائم کی تکمیل اور ان کی راہ میں حائل ہے، اس لیے مختلف حیلوں بہانوں سے اس قانون کو ختم کرنے یا کم ازکم اُسے تبدیل کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔
پاکستان جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا اور آج تک ہر چودہ اگست کے دن یہ لفظ زیادہ سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لاإلٰہ إلااللّٰہ ‘‘ آج اسی پاکستان میں چور، ڈاکو، زانی، راشی، ملکی استحکام کے خلاف بولنے والے اینکروں اور ملکی سالمیت کو داؤ پر لگانے والے بعض سیاستدانوں جیسے مجرموں اور بدکرداروں وغیرہ سے لے کر ملکی خزانہ لوٹنے اور ہڑپ کرنے والے ملک دشمنوں اور غداروں تک کے کچھ نہ کچھ حقوق اور مراعات کو تحفظ اور پشت پناہی حاصل ہے، لیکن دین ِ اسلام، پیغمبر اسلام ا، صحابہ کرامؓ، دینی اقدار واخلاقیات اور مذہبی مقامات کو نہ تو کوئی خاطر خواہ تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی اُن کی صیانت وحفاظت کے لیے کوئی قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی اُن کی بے اکرامی اور توہین کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ وہ چند قوانین اور دفعات جو امت مسلمہ کی عظیم قربانیوں اور علمائے کرام کی طویل جدوجہد، کوششوں اور کاوشوں کے بعد وضع کیے گئے‘ مغربی استعمار، اُن کے زرخرید ایجنٹوں، آئین پاکستان کے باغی قادیانیوں اور قادیانی نوازٹولے نے روز اول سے ہی ان قوانین کو دل سے قبول نہ کرنے کا تہیہ کرکے اُنہیں آئین پاکستان سے خارج کرنے اور غیر مؤثر بنانے کی مسلسل مذموم سازشیں اور ناپاک جسارتیں کرتے رہے اور آج تک ہورہی ہیں۔
انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قانونِ ناموسِ رسالت راتوں رات نہیں بنایا گیا اور نہ ہی راتوں رات اُسے نافذ کیا گیا، بلکہ تمام آئینی وجمہوری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے قانون ساز اداروں میں پوری بحث وتمحیص کے بعد اُسے نافذ کیا گیا۔اس کی کچھ روئیداد اور تفصیل یہاں نقل کی جاتی ہے:
تحفظ ناموسِ رسالت کا قانون ابتدائی طور پر انگریز کے دور میں بنا، جسے ۱۹۲۷ء میں تعزیراتِ ہند میں دفعہ ۲۹۵-الف سے موسوم کیا گیا اور اب مجموعہ تعزیرات پاکستان مطبوعہ یکم جولائی ۱۹۶۲ء میں درج ذیل الفاظ میں مذکور ہے:
’’دفعہ ۲۹۵-الف۔ جو کوئی شخص ارادتاً اور اس عداوتی نیت سے کہ پاکستان کے شہریوں کی کسی جماعت کے مذہبی احساسات کو بھڑکائے بذریعہ الفاظ زبانی یا تحریری اشکال محسوس العین اس جماعت کے معتقدات مذہبی کی توہین کرے یا توہین کرنے کا اقدام کرے، اُس کو دونوںقسموں میں سے کسی قسم کی قید کی سزا دی جائے گی، جس کی میعاد دو برس تک ہوسکتی ہے یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی‘‘۔
چوہدری محمد شفیع باجوہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’یہ دفعہ ۱۹۲۷ء میں ایجاد کی گئی، تاکہ اگر کسی مذہب کے بانی پر توہین آمیز حملہ کیا جائے تو ایسا کرنے والے کو سزا دی جاسکے۔ اس سے پہلے اس قسم کے اشخاص کے خلاف دفعہ ۱۵۳-الف استعمال ہوا کرتی تھی، مگر ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کی رو سے یہ طریقہ غلط قرار پایا۔ تقریر کرنے والے یا مضمون لکھنے والے‘‘۔ 
                                                         (شرح مجموعہ تعزیراتِ پاکستان، ص:۱۲۱،۱۲۲)
اس قانون میں جو انگریز کے دور میں بنایا گیا، توہین رسالت کے جرم کی یہ سزا ناکافی تھی، اس لیے ۱۹۸۴ء میں تعزیرات پاکستان میں دفعہ ۲۹۵-سی کا اضافہ کیا گیا اور اس کے ذریعہ اس جرم کی سزا‘ سزائے موت یا عمر قید مع جرمانہ تجویز کی گئی۔ اس دفعہ کا متن حسب ذیل ہے:
’’ جو شخص الفاظ کے ذریعے خواہ زبان سے ادا کیے جائیں یا تحریر میں لائے گئے ہوں ، یا دکھائی دینے والی تمثیل کے ذریعہ یا بلاواسطہ یا بالواسطہ تہمت یا طعن یا چوٹ کے ذریعہ نبی کریم (حضرت ) محمد ا کے مقدس نام کی بے حرمتی کرتا ہے، اس کو موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا‘‘۔
قرآن وسنت کی روشنی میں توہین رسالت کی سزا صرف اور صرف موت ہی ہے اور تعزیرات پاکستان کی اس دفعہ ۲۹۵-سی میں اس جرم کی سزا ‘سزائے موت یا عمر قید مع جرمانہ تجویز کی گئی تھی، اس لیے وفاقی شرعی عدالت نے اکتوبر ۱۹۹۰ء میں اپنے ایک فیصلہ میں اس وقت کے صدرِ پاکستان کو ہدایت کی کہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۹۱ء تک اس قانون کی اصلاح کی جائے اور اس دفعہ میں ’’یا عمر قید‘‘ کے الفاظ حذف کرکے توہین رسالت کی سزا صرف’’ موت‘‘ مقرر کی جائے اور فیصلہ میں مزید کہا کہ اگر اس تاریخ تک حکومت نے قانون میں اصلاح نہ کی تو اس تاریخ کے بعد یہ الفاظ خود بخود کالعدم قرار پائیں گے اور صرف سزائے موت کا قانون قرار پائے گا۔ اس مقررہ تاریخ تک حکومت نے اس قانون کی کوئی اصلاح نہ کی، اس لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے مطابق قانون یہ بن گیا کہ توہین رسالت کے جرم کی سزا صرف موت ہے۔
اس کے بعد قومی اسمبلی نے ۲؍ جون ۱۹۹۲ء کو متفقہ قرار داد منظور کی کہ توہین رسالت کے مرتکب کو سزائے موت دی جائے۔
پھر ۸؍ جولائی ۱۹۹۲ء کو سینیٹ نے توہین رسالت کے مجرم کو سزائے موت کا ترمیمی بل منظور کیا اور بعد میں قومی اسمبلی نے بھی بحث وتمحیص کے بعد اس بل کو منظور کرلیا۔
خلاصہ یہ کہ شاتم رسول یا گستاخ رسول کو سزائے موت دینا حضور ا سے ثابت ہے۔ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ نے اسی پر فیصلے کیے ،تمام فقہائے امت اس پر متفق ہیں اور تمام اسلامی حکومتوں میں ہمیشہ اس پر عمل در آمد رہا ۔
اب رہا یہ سوال کہ کیا توہین رسالت کے مجرم یا گستاخ رسول کو ریاست، عدالت، قاضی، جج یا پبلک معاف کرسکتی ہے یا نہیں؟ حافظ ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ’’الصارم المسلول ‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’إن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان لہ أن یعفو عمن شتمہ وسبہ فی حیاتہ ولیس لأمتہٖ أن یعفو عن ذلک‘‘۔              (الصارم المسلول،ص:۱۹۵)
ترجمہ:’’آنحضرت ا کو اپنی حیاتِ طیبہ میں یہ حق حاصل تھا کہ آپ ا کو سب وشتم کرنے والے کو آپ ا معاف فرمادیں، لیکن آپ ا کے بعد امت کو معاف کرنے کا حق حاصل نہیں‘‘۔
اس لیے آپ ا نے اپنی زندگی میں کسی دریدہ دہنی کرنے والے موذی کو معاف فرمایا یا کسی سے درگزرکا معاملہ کیا تو چونکہ یہ خالص آپ ا کا حق تھا، اس لیے آپ ا نے اپنے حق کو معاف کیا تھا، لیکن امت کے حق میں یہ قانون‘قانونِ الٰہی کی حیثیت رکھتا ہے کہ شاتم رسول کو موت کی سزا دی جائے، اس لیے امت اس قانون کو منسوخ یا معطل کرنے اور شاتم رسول کو معاف کرنے کی مجاز نہیں۔
شنید ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے بھی آئین پاکستان ۱۹۷۳ء کے آرٹیکل ۲۰۳-ڈی کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے تعزیرات پاکستان مجریہ ۱۸۶۰ کی چند دفعات کااحکامِ اسلام کی روشنی میں از خود جائزہ لینے کا سلسلہ شروع کیا ہے، منجملہ ان میں دفعہ ۲۹۵، ۲۹۵-اے ، ۲۹۵-سی، اور دفعہ ۴۷۸جو توہین رسالت اور قرآن کریم کی توہین کے مجرم کے متعلق سزاؤں کو بیان کرتی ہیں ، ان کے متعلق اسلام آباد اور لاہور سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام، مفتیان عظام اور مشیرانِ فقہ کی آراء مانگی ہیں اور ان کو سن بھی چکی ہے۔
 ہم بصد ادب واحترام وفاقی شرعی عدالت سے عرض کرنا چاہیں گے کہ جن دفعات میں خود وفاقی شرعی عدالت نے حکومت سے کہہ کر اصلاح کرائی ہو اور وہ مکمل آئینی طریقہ کار اور تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے آئین کا حصہ بنی ہوں، ان کے بارہ میں نئے سرے سے بحث کا آغاز کرنا اور مختلف علمائے کرام اور دارالافتاؤں سے اس کے بارہ میں استفسار کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ اس لیے ہماری درخواست ہے کہ اس قانون کو من وعن ایسے ہی رکھا جائے اور اس میں کسی قسم کی نئی بحث کا آغاز کرکے اس قانون کو کمزور نہ کیا جائے، ورنہ ہر آدمی قانون کو خود ہاتھ میں لے لے گا اور ملک میں انارکی اس حد تک پھیلے گی کہ جس کا سد باب کرنا حکومت اور انتظامیہ کے بس میں نہیں رہے گا۔
ماضی قریب میں بھی حکومتی سطح پر اس قانون کو تبدیل کرنے کی جسارت کی گئی تھی کہ جس پر کراچی تاخیبر تحریک چلی، جس سے حکومت اور انتظامیہ بے بس ہوگئی، بالآخر اس وقت کے وزیر قانون جناب بابر اعوان صاحب کی وزارت نے اس قانون کے تمام پہلوؤں پر قرآن وسنت کی روشنی میں غور وخوض کیا اور ایک جامع رپورٹ مرتب کرکے سابق وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی صاحب کوپیش کی ، جس میں قرار دیا گیا کہ توہین رسالت کے مجرم کی سزا‘سزائے موت ہی ہے اور اس سزا کو جوں کا توں ہی برقرار رکھا جائے۔
اس لیے حکومت سے ہماری التجا اور درخواست ہے کہ چاہے بیرونی دنیا کے لوگ ہوں یا اپنے ملک کے اندر رہنے والے اس قانون سے خائف افراد‘ اُن سب پر واضح کردیا جائے کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اور تمام مسلمان اپنے آقا رحمت عالم ا سمیت تمام انبیائے کرام علیہم السلام اور قرآن کریم کی عزت وحرمت کا تحفظ چاہتے ہیں، اس لیے اس قانون میں کسی قسم کی تبدیلی یا منسوخی ہم نہیں کرسکتے۔ اس لیے اس قانون کے متعلق ہم سے کسی قسم کی بات نہ کی جائے اور نہ ہی اس بارہ میں ہماری مسلم قوم کو مزید کسی پریشانی میں مبتلا کیا جائے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

وصلی اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیرخلقہٖ سیدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین