بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تحفظ خواتین بل اور اس کا تجزیہ

تحفظ خواتین بل اور اس کا تجزیہ

گزشتہ دنوں ۲۵؍ فروری ۲۰۱۵ء بروز جمعرات پنجاب اسمبلی نے خواتین کے تحفظ کے نام پر ایک بل پاس کیا، جو اَب صوبہ پنجاب کی سطح تک قانون کا حصہ بن چکا ہے۔ اس بل کی دفعات اور ان کی وضاحت جو اخبارات کے ذریعہ اب تک سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے: ’’۱:۔۔۔۔تحفظ خواتین بل کی منظوری کے بعد تشدد کا شکار خاتون کو گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا۔ اور اس کے تمام اخراجات مرد اٹھائے گا۔ ۲:۔۔۔۔ خاتون پر تشدد کرنے والے مرد کو ۲؍ دن کے لیے گھر سے نکالا جاسکے گا۔ ۳:۔۔۔۔ عورتوں پر تشدد کرنے والے مردوں کو عدالتی حکم پر ٹریکنگ کڑے لگائے جائیں گے۔  ۴:۔۔۔۔ اور ٹریکنگ سسٹم اتارنے پر مردوں کو سزادی جائے گی۔ ۵:۔۔۔۔ بل میں خواتین پر گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی، نفسیاتی، بدکلامی اور سائبر کرائمز شامل ہیں۔ ۶:۔۔۔۔ بل میں کہا گیا ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے تحفظ کے لیے شیلٹر ہوم بنائے جائیں گے، جن میں متأثرہ خواتین اور بچوں کو بورڈنگ، لاجنگ کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ ۷:۔۔۔۔ خواتین پر تشدد کی شکایات کے ازالہ کے لیے ٹال فری نمبر قائم کیا جائے گا اور خواتین کی شکایات کی تحقیقات کے لیے ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی بنائی جائے گی، جبکہ مصالحت کے لیے سینٹرز بھی قائم کیے جائیں گے۔ ۸:۔۔۔۔ تشدد زدہ خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ دوسری صورت میں وہ اپنے انتظام کردہ متبادل گھر یا شیلٹر ہوم میں رہائش رکھ سکتی ہے۔ ۹:۔۔۔۔ ضلع افسر تحفظِ خواتین متأثرہ خاتون کو بچانے کی غرض سے کسی بھی وقت کسی بھی جگہ داخل ہوسکے گی، حفاظتی افسر سے مزاحمت کرنے والے کو چھ ماہ قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکیں گی۔ ۱۰:۔۔۔۔ اگر مدعا علیہ عبوری آرڈر پروٹیکشن آرڈر وغیرہ کی حکم عدولی کرے گا تو اسے ایک سال قید یا پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکیں گی۔ سزا سے متأثرہ شخص تیس دن میں سزا کے خلاف اپیل کرسکے گا۔ حکومت اس قانون کے تحت پروٹیکشن سسٹم کی کارکردگی وقتاً فوقتاً آڈٹ کرائے گی۔ حکومت مالی سال کے اختتام پر تین ماہ کے اندر پروٹیکشن سسٹم کی سالانہ رپورٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کرے گی۔‘‘               (روزنامہ جنگ کراچی، جمعرات، ۲۵؍ فروری ۲۰۱۶ئ) یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارا ملک پاکستان اسلامی نظریہ کے تحت وجود میںآیا، اس کے آئین میں صراحۃً یہ بات درج ہے کہ: اس ملک میں قرآن وسنت سپریم لاء ہوگا اور کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔لیکن اس بل کے مندرجات بالا پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ بل درحقیقت قرآن وسنت، آئین پاکستان اورمشرقی روایات کے بالکل برعکس اور متصادم ہے۔ اب آئیے! دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے اس بارہ میں کیا راہنمائی فرمائی ہے، سورۃ النسائ، آیت نمبر:۳۴،۳۵ میں ارشادِ خداوندی ہے: ’’اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَائِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَا أَنْفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِہِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ وَاللاَّتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ أَہْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ أَہْلِہَا إِنْ یُّرِیْدَا إِصْلاَحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْْنَہُمَا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا۔‘‘                                                            (النسائ:۳۴،۳۵ ) ترجمہ:’’مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں، سو جو عورتیں نیک ہیں اطاعت کرتی ہیں، مرد کی عدم موجودگی میں بحفاظت الٰہی نگہداشت کرتی ہیں اور جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو ان کی بددماغی کا احتمال ہو تو ان کو زبانی نصیحت کرو اور ان کو ان کے لیٹنے کی جگہ میں تنہا چھوڑدو اور ان کو مارو، پھر وہ اگر تمہاری اطاعت کرنا شروع کردیں تو ان پر بہانہ مت ڈھونڈو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے رفعت اور عظمت والے ہیں اور اگر تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے بھیجو۔ اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بی بی میں اتفاق فرماویں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبروالے ہیں ۔‘‘                          (ترجمہ حضرت تھانویv) اعتقادات ہوں یا عبادات، ان میں مرد اور عورت بحیثیت ایک عبد اور مکلف مخلوق کے دونوں مساوی وہم مرتبہ ہیں۔ نماز، زکوٰۃ، روزہ،حج اور تمام عبادات جس طرح اور جس پیمانہ پر مرد کی قبول ہوسکتی ہیں، وہی ساری راہیں عورت کے لیے بھی کھلی ہوئی ہیں۔ لیکن دنیاوی معاملات، خاندانی امور کو درست رکھنے اور انتظامی حیثیت میں دونوں مساوی نہیں۔ جیسے باپ اور بیٹا بحیثیت’’عبد‘‘بالکل ایک ہیں، عند اللہ اعمال کی مقبولیت کے اعتبار سے دونوں مساوی ہیں، لیکن دنیا میں شریعت کا حکم ہے کہ باپ افسر ہوکر رہے اور بیٹا ماتحت ہوکر ، باپ حکم دے اور بیٹا حکم مانے۔ اسی طرح معاشرت کی انتظامی ریاست میں مرد کو عورت پر تفوق اور غلبہ حاصل ہے، اور عورت مرد کے ماتحت اور تابع ہے، جیسا کہ قرآن کریم نے ’’اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَائِ‘‘فرمایا ہے،یعنی مرد عورتوں کے امور کا انتظام کرنے والے، ان کی کفالت کرنے والے اور ان پر احکام نافذ کرنے والے ہیں۔ عورت اور مرد میں یہ مراتب کا فرق صرف قرآن کریم نے ہی ذکر نہیں کیا، بلکہ گزشتہ سماوی ادیان میں بھی یہ فرق ملحوظ رکھا گیا تھا، چنانچہ بائبل میں لکھا ہے: ’’خداوندے خدا نے۔۔۔۔۔عورت سے کہا: اپنے خصم کی طرف تیرا شوق ہوگا اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔‘‘ (پیدائش،۳:۱۶) ۲:۔۔۔۔۔ ’’اے بیویو! اپنے شوہروں کی ایسی تابع رہو جیسے خداوند کی ، کیونکہ شوہر بیوی کا سرہے، جیسا کہ مسیح کلیسا کا سر ہے اور وہ خود بدن کا بچانے والا ہے، لیکن جیسے کلیسا مسیح کے تابع ہے، ایسے ہی بیویاں بھی ہر بات میںاپنے شوہروں کے تابع ہوں۔‘‘ (افسیوں،۵:۳۲) ویسے بھی اجتماعی زندگی کا اصول یہ ہے کہ اگر چند لوگ مل کر رہنا اور وقت گزارنا چاہتے ہیں تو جب تک ان میں سے ایک کو مطاع، حاکم، منتظم اور سربراہ اور دوسروں کو مطیع، محکوم، تابع اور ماتحت قرار نہیں دیا جائے گا تو کسی طرح بھی اجتماعی زندگی نبھ نہیں سکتی۔ ملکوں کے بادشاہ، صدور، وزرائے اعظم، قبیلوں کے سردار اور اداروں کے سربراہان اسی اصول اور فلسفے کے ماتحت بنائے اور مقرر کیے جاتے ہیں۔جس طرح ریاستوں کا انتظام ، ملکوں کا نظام، جماعتوں کا نظام، اداروں کا نظام بغیر سربراہ، امیر اور حاکم کے درست نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح گھریلو زندگی بھی ایک چھوٹی سی ریاست ہوتی ہے، جس میں چند افراد مل کر وقت گزارتے ہیں، جب تک اس میں بھی کسی کو سربراہ اور حاکم مقرر نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک یہ خاندانی انتظام بھی درست نہیں رہ سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ سربراہ کس کو متعین کیا جائے، مرد کو یا عورت کو؟ قرآن کریم نے طے کردیا کہ مرد کو ہی سربراہ اور حاکم بنایا جائے، اور قرآن کریم نے اس کی دو وجوہ بیان کی ہیں: ۱::۔۔۔۔ذاتی اور وہبی ،         ۲:۔۔۔۔عرضی اورکسبی ۱:۔۔۔۔ ذاتی طور پر اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر بہت سی باتوں میں فضیلت دی ہے، من جملہ ان کے عقل، فہم، علم، حلم، حسن تدبر، قوتِ نظریہ، قوتِ عملیہ، اور قوتِ جسمانیہ وغیرہ مردوں کو بنسبت عورتوں کے کہیں زائد عطا کی۔ نبوت، امامت، خلافت، قضائ، شہادت، وجوبِ جہاد، جمعہ، عیدین، اذان، خطبہ، جماعت کی نماز، نکاح کی مالکیت، تعددِ ازواج، طلاق کا اختیار، میراث میں حصہ کی زیادتی، نماز اور روزہ کا پورا کرنا، حیض ونفاس، حمل اور ولادت سے محفوظ رہنا، یہ فضائل اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عطا کیے ہیں۔ چونکہ جسمانی قوت کے اعتبار سے عورتیں مردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں، قضا وقدر نے عورتوں کی سرشت میں برودت اور نزاکت رکھی ہے، مردوں میں حرارت اور قوت رکھی ہے، اس وجہ سے فوجی بھرتی، جنگ وجدال، قتال وجہاد، شجاعت وبہادری اور میدانِ جنگ میں حکومت وسلطنت کے لیے جانبازی، سرحدوں کی حفاظت ونگرانی اور حکومت کے استحکام وبقا کے لیے جس قدر اعمالِ شاقہ کی ضرورت پڑتی ہے، وہ سب مردوں ہی سے سرانجام پاتے ہیں۔ مرد کی ساخت اور بناوٹ ہی اس کی فوقیت اور فضیلت کا ثبوت دے رہی ہے اور عورت کی فطری نزاکت، اس کا حمل اور ولادت اُس کی کمزوری اور لاچاری کی دلیل ہے اور ظاہر ہے کہ کمزور اور ناتواں کو قوی اور توانا پر نہ حکومت کا حق ہے اور نہ وہ کرسکتا ہے۔ اس لیے اس کا اقتضاء یہی ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہوں اور عورتیں ان کی محکوم اور تابع ہوں۔ ۲:۔۔۔۔عرضی اور کسبی طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر حاکم اور سربراہ مقرر کیا ہے کہ انہوں نے عورتوں پر مہر کی صورت میں مال خرچ کیا اور ان کے کھانے، پینے، لباس اور مکان کا خرچ اپنے ذمہ لیا۔ مرد اپنے سے زیادہ ان کی راحت رسانی کا خیال رکھتا ہے، اس لحاظ سے بھی مرد عورتوں کے محسن ہوئے اور محسن کو حکومت کرنے کا حق ہے، کیونکہ وہ عورتوں کا آقا اور ولی نعمت ہے۔اور ظاہر ہے کہ دینے والا ہاتھ اوپر ہوتا ہے اور لینے والا ہاتھ نیچے، ان وجوہ کی بنا پر عورتوں کو مردوں کا تابع اور محکوم بنایا۔ اس سوال پر کہ مرد کو حاکم بنایاجائے یا عورت کو؟ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اس کے عقلی احتمالات تین ہوسکتے ہیں: ۱:۔۔۔۔مرد حاکم اور عورت محکوم ہو، ۲:۔۔۔۔عورت حاکم اور مرد محکوم ہو، ۳:۔۔۔۔ مرد اور عورت دونوں مساوی اور برابر ہوں۔ قرآن کریم اور شریعت اسلامیہ نے پہلے احتمال کو اختیار کیا، یعنی مرد حاکم ہو اور عورت کو اس کا محکوم قرار دیااور اس پر یہ حکم دیا کہ چونکہ مرد حاکم اور بالادست ہے، اس لیے عورت کے تمام مصارف کی ذمہ داری مرد پر ہے اور مرد ہی پر مہر واجب ہے۔ اگر دوسرا احتمال لیں اور عورتیں یہ چاہیں کہ ہم حاکم بنیں اور مرد ہمارے محکوم بنیں تو پھر عورتوں کو چاہیے کہ مرد کے تمام مصارف کی کفیل اور ذمہ دار وہ خود بنیں اور عورتوں پر ہی مردوں کا مہر واجب ہو اور نکاح کے بعد اولاد کے مصارف، ان کی خورد ونوش، تعلیم وتربیت کے اخراجات کی وہ کفیل ہوں، حتیٰ کہ مکان کا کرایہ بھی عورتوں کے ذمہ ہو، جس طرح مرد حاکم ہونے کی صورت میں ان تمام مصارف کو برداشت کرتا ہے۔ اور اگر عورتیں تیسرا احتمال اختیار کریں کہ مرد اور عورت دونوں برابر ہوں، نہ کوئی حاکم ہو اور نہ کوئی محکوم، تو پھر اس کا تقاضا یہ ہے کہ مہر تو پہلے ہی مرحلہ میں ختم ہوجائے گا اور پھر نان، نفقہ، لباس اور رہائش کا مسئلہ بھی ختم ہوگا۔ اس لیے کہ برابری کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ایک اپنا اپنا ذمہ دار رہے اور خانگی مصارفِ خوردو نوش، بچوں کی تعلیم وتربیت کے مصارف آدھے مرد پر اور آدھے عورت پر واجب ہوں۔ غرض یہ کہ شریعت نے جو مرد کے حاکم ہونے کا فیصلہ کیا ہے، وہ نہایت ہی عادلانہ اور حکیمانہ فیصلہ ہے اور عورتوں کے حق میں اس سے زیادہ نافع اور مفید کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ عورتوں پر اس فیصلہ کا شکر واجب ہے کہ حق تعالیٰ نے ان کے ضعف اور کمزوری اور وسائلِ معاش سے لاچاری اور مجبوری کی بنا پر اس کو شوہر کا محکوم بناکر پیکرِ محبوبیت ونزاکت بنایا کہ عورت مرد پر ناز کرے اور تمام مصارف اور ذمہ داریوں سے سبکدوش رہے۔ قرآن کریم نے مہذب، شریف، شائستہ،نیک، اور فرمانبردار بیویوں کی علامت یہ بتلائی ہے کہ وہ شوہر کی غیرموجودگی میں اس کی عزت وناموس اور اس کے مال وجائداد کی نگہداشت کرنے والیاں ہوتی ہیں۔اس کے بالمقابل غیر مہذب، ناشائستہ سلوک اور نافرمانی کرنے والی عورتوں کو سمجھانے کے لیے قرآن کریم نے تین طریقے اور درجے بتلائے ہیں:  ۱:۔۔۔۔ان کو وعظ ونصیحت، ہمدردی وخیرخواہی اور نفع ونقصان بتلاکر سمجھایا جائے۔ اگر بات ان کی سمجھ میں آجائے اور وہ اپنی روش اور رویہ تبدیل کرلیں تو ٹھیک ہے، ورنہ دوسرے درجہ پر ان کے بستر تنہا کردو۔ اس سے وہ اپنے آپ کو درست اور ٹھیک کرلیں تو صحیح ہے، ورنہ تیسرے درجہ پر ان کو مارپیٹ کے ذریعہ تنبیہ کرو اور مارپیٹ ایسی ہو کہ اس سے زخم نہ آئے اور نہ ہی منہ پر مارا جائے، اگر وہ فرمانبرداری اور اطاعت شروع کردیں تو ان پر تنگی نہ کرو، اور اگر اس سے بھی معاملہ نہ سنبھل سکے تو پھر دو منصف دونوں طرف سے اس معاملہ کو سلجھائیں۔ بہرحال یہ قرآن کریم کی ہدایات ہیں، جن سے گھریلو زندگی کو خوش اسلوبی سے چلایا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم کا یہ خطاب رومی وجاپانی، اعلیٰ وادنیٰ، شریف ورذیل، عالم وجاہل، دیہاتی اور شہری، نیک بخت اور بدباطن، ہر طبقہ ، ہر سطح اور ہر ذہنیت کے لوگوں کے لیے ہے، پہلی صدی سے لے کر قیامت تک ہر زمانہ اور ہر دور والوں کے لیے ہے، اور اس کے احکام ومسائل میں ہر انسانی ضرورت اور ہر بشر کے ماحول کا لحاظ کیا گیا ہے۔ اور یہ مشاہدہ ہے کہ بہت سے معاشرے اور طبقے ایسے ہیں جہاں عورت کے لیے جسمانی سزائیں عام ہیں، علاج کی یہ صورت ظاہر ہے کہ انہی طبقوں کے لیے ہے۔ پھر اتنی اجازت بھی ضرورت پڑنے پرہی ہے، ورنہ سیاقِ عبارت نرمی کی سفارش کرتا ہے۔ اب اس تحفظِ خواتین بل کا شق وار جائزہ لیتے ہیں کہ آیا یہ قرآن وسنت، آئین پاکستان اور مشرقی روایات سے کوئی میل اور تعلق رکھتا ہے یا نہیں؟ اس بل کی پہلی شق ہے کہ : ۱:- ’’تحفظِ خواتین بل کی منظوری کے بعد تشدد کا شکار خاتون کو گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا ۔ اوراس کے تمام اخراجات مرد اٹھائے گا۔‘‘۱:۔۔۔۔ اس شق میں یہ معلوم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ تشدد کے اسباب اور جوہات کیا تھیں، بالفرض اگر اس کا سبب عورت کا کوئی گھناؤنا فعل ہو تب بھی مرد ہی مجرم ہوگا؟۲:۔۔۔۔ تشدد کرنے والا کون ہے؟ عورت یا مرد؟یا اس کی ساس، سسر، دیور یا اس کی نند یا کوئی بیرونی شخص؟ ظاہر ہے وہ عورت تو اپنے شوہر کے گھر میں ہی رہے گی، اگر اس عورت کے میکے والے زبردستی اس عورت کو اپنے گھر لے گئے تو اس صورت میں بھی شوہر قصور وار ہوگا؟ اور پھر ان اخراجات سے کون سے اخراجات مراد ہیں، اگر عورت شوہر کے گھر میں ہے تو ظاہر ہے اخراجات شوہر ہی کے ذمہ ہوں گے اور اگر وہ عورت بغیر شوہر کے تشدد کے شوہر سے روٹھ کر اپنے میکے یا کہیں اور چلی جاتی ہے تو کیا اس صورت میں بھی اس کے اخراجات شوہر دے گا؟ یا اگر عورت نے مرد پر تشدد کیا یااس کو زدوکوب کیا تو اس صورت میں کیا ہوگا؟پھر اگر وہ شوہر پہلے ہی سے روزانہ مزدوری کرکے بڑی مشکل سے گھر کا گزارہ چلا رہا ہے تو اس صورت میں وہ جرمانے کے اخراجات کہاں سے لائے گا؟ ۲:- ’’ خاتون پر تشدد کرنے والے مرد کو ۲؍ دن کے لیے گھر سے نکالا جاسکے گا۔‘‘ ۱:۔۔۔۔شوہر کو اس کے گھر سے کون نکالے گا؟پھر جب شوہر کو گھر سے نکالا جائے گاتو گھر اور بیوی بچوں کے اخراجات کا کون ذمہ دار ہوگا؟، ۲:۔۔۔۔ گھر تو شوہر کی ملکیت ہے، نہ کہ عورت کی ملکیت یا اگر گھر کرائے کا ہے تو اس کا کرایہ تو شوہر ادا کرتا ہے تو کیا کسی کو اس کی ملکیت یا گھر سے بے دخل کرنا شرعاً، اخلاقاً وقانوناً جائز ہے؟، ۳:۔۔۔۔ شوہر دو دن باہر کہاں گزارے گا؟ ، ۴:۔۔۔۔ جب شوہر دو دن باہر گزار کر گھرآئے گا تو کیا اس عورت کو وہ اپنے نکاح میں رکھے گا؟،۵:۔۔۔۔ اگر نہیں رکھے گا اور طلاق دے کر اس کو فارغ کردے گا تو وہ عورت اپنا سر کہاں چھپائے گی؟، ۶:۔۔۔۔اس کے روز مرہ کے اخراجات کا کفیل کون ہوگا؟ کیا ایسی عورت پھر بے رواہ روی کا شکار نہ ہوگی؟ ۳،۴:- ’’عورتوں پر تشدد کرنے والے مردوں کو عدالتی حکم پر ٹریکنگ کڑے لگائے جائیں گے اور ٹریکنگ سسٹم اتارنے پر مردوں کو سزادی جائے گی۔‘‘ اس شق میں یہ وضاحت نہیں کہ عورتوں پر تشدد کرنے والوں کو جو کڑا پہنایا جائے گاوہ عورت کا شوہر ہے یا کوئی اور ؟،۲:۔۔۔۔ اگر اس تشدد کا سبب عورت ہو، مثلاً: وہ شوہر کے گھروالوں سے لڑرہی ہو، یا مرد کی عزت وناموس اور اس کے مال میں خیانت کی مرتکب ہو ،تب بھی یہ ٹریکنگ کڑا اس کے شوہر کو پہنایا جائے گا؟ اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ کیا اس لیے کہ وہ اپنی عورت کے قریب نہ جائے؟ اگر اسے حقوقِ زوجیت کی ضرورت ہو تو پھر بھی وہ اس کے قریب نہیں جاسکے گا؟ اگر ایسا ہے تو کیا شریعت میں اس کی اجازت ہے؟ حالانکہ احادیث میں تو یہ آتا ہے: ۱:-’’وعن أبی ہریرۃq قال:قال رسول اللّٰہ a :إذا دعا الرجل امرأتہٗ إلی فراشہٖ فأبت، فبات غضبان لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح۔‘‘(متفق علیہ) ’’وفی روایۃ لہما قال: والذی نفسی بیدہٖ ما من رجل یدعو امرأتہٗ إلٰی فراشہٖ فتأبٰی علیہ إلا کان الذی فی السماء ساخطا علیہا حتی یرضی عنہا ۔‘‘                     (متفق علیہ، مشکوٰۃ،ص:۲۸۰) ’’حضرت ابوہریرہq سے روایت ہے، کہتے ہیں: رسول اللہ a نے فرمایا: جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے، وہ انکار کرے اور شوہر ناراضی کی حالت میں رات گزارے تو اس عورت پر فرشتے صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔اور صحیح بخاری ومسلم کی ایک روایت میں ہے، آپ a نیفرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، کوئی آدمی جو اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلاتا ہے اور وہ انکار کرتی ہے تو آسمان والا (یعنی اللہ تعالیٰ) اس پر ناراض رہتا ہے، یہاں تک کہ شوہر اس سے راضی ہوجائے۔‘‘ ۲:-’’وعن أبی ہریرۃq قال:قال رسول اللّٰہ a :لو کنت آمر أحدا أن یسجد لأحد لأََمَرْتُ المرأۃَ أن تسجد لزوجہا۔‘‘                           (مشکوٰۃ،ص:۲۸۱) ’’حضرت ابوہریرہq سے روایت ہے، کہتے ہیں: رسول اللہ a نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم دیتا کہ وہ کسی کے سامنے سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘ ۳-’’وعن طلق بن علیq قال: قال رسول اللّٰہ a :إذا الرجل دعا زوجتہٗ لحاجتہٖ فلتأتہٖ وإن کانت علی التنور۔‘‘                            (مشکوٰۃ،ص:۲۸۱) ’’حضرت طلق بن علیq سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ a نے فرمایا: جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی ضرورت کے لیے بلائے تو وہ (فوراً) آجائے، خواہ وہ تنور پر کھڑی(روٹیاں لگارہی) ہو۔‘‘ کیا اس شق سے یہ تأثر نہیں ملتا کہ قرآن وسنت کے برعکس عورت کو بے حیائی اور بے غیرتی کا کھلا لائسنس دیا جارہا ہے کہ اس کا شوہر تو اس کے قریب نہ آئے اور عورت جہاں چاہے‘ جائے، جس سے چاہے‘ ملے۔اس بل کے بعد اس پر کوئی پابندی نہیں، اس لیے کہ کوئی اگر اُسے روکے گا تو پھر اُسے کڑا پہنایا جائے گا۔ ۵:- ’’بل میں خواتین پر گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی، نفسیاتی، بدکلامی اور سائبر کرائمز شامل ہیں۔‘‘یہ شق بھی بالکل مبہم ہے کہ گھریلو تشدد کے زمرہ میں کون آتا ہے؟ معاشی استحصال ، جذباتی، نفسیاتی، بدکلامی سے کیا مراد ہے؟اگر یہ تمام چیزیں عورت کررہی ہے، تو پھر قانون کس کے خلاف حرکت میں آئے گا؟ ۶:- ’’بل میں کہا گیا ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے تحفظ کے لیے شیلٹر ہوم بنائے جائیں گے، جن میں متأثرہ خواتین اور بچوں کو بورڈنگ، لاجنگ کی سہولت فراہم کی جائے گی۔‘‘گویا عورتوں کو ان کے شوہروں سے نجات دلاکرشیلٹر ہوم میں انہیں رکھا جائے گا اور پھر وہ آزاد ہوں گی، جو چاہیں کریں یا جہاں چاہیں پھریں، ان کو کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہوگا اور پھر یہ وضاحت نہیں جن کو شیلٹر ہوم میں رکھا جائے گا، ان کو شوہروں سے طلاق دلوائی جائے گی یا بغیر طلاق ان کو ایک دوسرے سے جدا کیا جائے گا؟پھر یہ کہ قانون تو ابھی بن گیا، لیکن شیلٹر ہوم بعد میں بنائے جائیں گے؟ اور وہ شیلٹر ہوم بھی کیا ہوں گے؟ گویا بے غیرتی اور بے حیائی کے اڈے ہوں گے، جیسا کہ مشہور ہے کہ پہلے سے جو دارالامان بنے ہوئے ہیں، وہاں پہنچنے والی عورت بمشکل محفوظ رہ پاتی ہے، تو کیا ایسے شیلٹر ہوم اور دارالامانوں کی کثرت کردی جائے گی؟ ۷:-’’ خواتین پر تشدد کی شکایات کے ازالہ کے لیے ٹال فری نمبر قائم کیا جائے گا اور خواتین کی شکایات کی تحقیقات کے لیے ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی بنائی جائے گی، جبکہ مصالحت کے لیے سینٹرز بھی قائم کیے جائیں گے۔‘‘گویا عورتیں جس وقت چاہیں وہ اپنے شوہروں کو پولیس کے حوالے کرنے کے لیے فون نمبر لگاکر اُن کو حوالۂ پولیس کراسکتی ہیں؟ ۸،۹:- ’’تشدد زدہ خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ دوسری صورت میں وہ اپنے انتظام کردہ متبادل گھر یا شیلٹر ہوم میں رہائش رکھ سکتی ہے۔ ضلع افسر تحفظ خواتین متأثرہ خاتون کو بچانے کی غرض سے کسی بھی وقت کسی بھی جگہ داخل ہوسکے گی، حفاظتی افسر سے مزاحمت کرنے والے کو چھ ماہ قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکیں گی۔‘‘ گویا خاتون کے فون کرنے کی دیر ہے، یا اس کا کڑا پہنا ہوا شوہر جیسے ہی اپنی بیوی کے پاس جائے گا اور اس کا سگنل متعلقہ افسر کے سامنے آئے گا تو وہ فوراً گھر میں گھس سکتا ہے اور اس کے روکنے پر اس کو مزید جرمانہ یا قید کاٹنا پڑے گی، نعوذباللّٰہ من ذٰلک۔ ۱۰:-’’ اگر مدعا علیہ عبوری آرڈر پروٹیکشن آرڈر وغیرہ کی حکم عدولی کرے گا تو اسے ایک سال قید یا پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکیں گی۔‘‘گویا مدعیٰ علیہ ہمیشہ جیل جانے کے لیے تیار رہے یا پھر اپنی آنکھیں، اپنے کان اور اپنا منہ بند رکھے ، اگر اس نے ایسا نہ کیا تو پھر اس کے لیے جیل تیار ہے۔ یہ ہے تحفظ خواتین کا بل، جس کے بارہ میں کہا گیا کہ اس سے عورتوں کا تحفظ ہوگا، حالانکہ ایک سنجیدہ اور باشعور آدمی اسے پڑھتے ہی بآسانی اندازہ لگاسکتا ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے یہ بل نہیں لایا گیا، بلکہ اس بل سے دین اسلام کے صریح احکامات سے بغاوت کا درس دیا گیا۔ مغرب کی گندی تہذیب کی تقلید کی گئی۔اس کے علاوہ ایک پرامن گھریلو نظام کو توڑنے اور بے حیائی وبے شرمی کو سند جواز دینے کے لیے اس بل میں پوری پوری کوشش کی گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس بل کا ہدف خاندانی نظام کو درہم برہم کرنا، عورت کو تحفظ کے نام پر خاندان کے تحفظ سے نکال کر بے راہ روی کی راہ پر دھکیلنا، آزادی کے نام پر اسے عفت وحیا اور پاکدامنی سے آزاد کرکے کاروباری جنس بنانا، برابری کے نام پر اس پر وہ بوجھ ڈالنا ہے، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا ہی نہیں کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری قوم کے ایمان، حیا، عفت، غیرت اور پاک دامنی کی حفاظت فرمائیں ، ان کے گھریلو نظام زندگی کو ٹوٹنے سے محفوظ فرمائیں اور ہمارے حکمرانوں کو ایمانی غیرت اور عقل سلیم عطا فرمائیں۔ وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین