بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تحریک پاکستان میں علماء کا کردار ایک پروپیگنڈے کا جواب

تحریک پاکستان میں علماء کا کردار ایک پروپیگنڈے کا جواب

سوال پاکستان کوآزادکرانے اورپاکستان کے بننے میں اورپاکستان کوآج تک قائم اوردائم رہنے میں علمائے کرام کابہت بڑاہاتھ رہا ہے، یہ سب جانتے ہیں، لیکن اس مضمون پرقدرے تفصیل سے حوالوں کے ساتھ گفتگوکردیں تو مفیدہوگاکہ پاکستان کوآزادکرانے میں علماء کاکیاہاتھ تھا؟ اور کون کون سے علماء اس میں شامل تھے؟ اور آج تک کیا حال رہا؟ جو لوگ علماء کو دشمن سمجھتے ہیں، ان کے لیے بھی آپ کاتفصیلی جواب بہت مفید ہوگا۔ اس موضوع پر مفید کتابوں کی راہ نمائی بھی فرمادیں۔                                                     سائل: محمدعبداللہ بذریعہ ای میل جواب تحریک آزادی اورقیام پاکستان دونوں کاالگ الگ پس منظرہے، اُسے سمجھنے کے بعدہی سائل کے سوال کاجواب اور قیام پاکستان کی تاریخ کااصلی رُخ پیش کیا جاسکتا ہے۔ تحریک آزادی اور قیام پاکستان کے جداگانہ پس منظرکے سمجھے بغیر علماء کا کردار واضح نہیں ہوسکتا۔ جو تاریخی خلجان محترم سائل کو درپیش ہے یا بعض لوگ اس نوع کے مجمل سوالات کے ذریعہ مزعومہ جوابات تک رسائی کے متمنی ہوتے ہیں، یہ ان کا دیدہ دانستہ طریقہ ہے، وہ ہمیشہ قیام پاکستان اور پاکستان کی آزادی کے معاملے کوخلط ملط کرکے ہی سوالات کریں گے۔ یہ سوالات زبردست چالاک سیاسی فکرکی پیداوار ہیں۔ اس طرح کے اختلاطی سوال کرکے عام طورپرنئی نسل کو ایک تو مخصوص ذہنیت دینا مقصود ہوتا ہے، دوسرا ماضی کے آئینہ کو ایسا پراگندہ کرنا ہے کہ جس میں ہماری بعض مقدس ہستیوں کے اصل چہرے مدہم دکھائی دیں، جن کا استخلاصِ وطن(انگریزسے وطن چھڑانے) میں کوئی حصہ تو نہیں ہے، لیکن قیام پاکستان کا سہرا سر پر سجانے کے لیے اکیلے حق دار شمار ہوتے ہیں۔ عقل و دانش کا حامل ہر انسان جانتا ہے کہ آزادی قبضہ یا قید سے خلاصی کا نام ہے، اس لیے پاکستان کی جو آزادی ہمیں باور کرائی جاتی ہے، اس کاتقاضایہ ہے کہ اس سے قبل پاکستان پرقبضہ کی تاریخ بتائی جائے اورقبضہ کی تاریخ سے لے کریومِ آزادی تک قابضین سے قبضہ چھڑانے یا بالفاظِ دیگر استخلاصِ وطن کی پوری تاریخ کوسامنے رکھا جائے۔ سرزمین ہند کی تاریخ کاادنیٰ طالب علم واقف ہے کہ ہندوستان پر مغلیہ سلطنت کی اپنے عروج سے زوال تک تین صدیوں سے زیادہ عرصہ (۱۵۲۶ء تا ۱۸۵۷ئ) حکومت قائم رہی، سن۱۵۹۹ء میں مغربی شاطر، سیاسی فکر، تاجرانہ روپ میں ارضِ ہند پر وارد ہوئی، ابتدائی طور پر باقاعدہ شاہی رسوم وآداب کے مطابق بادشاہِ وقت کی خدمت میں سلامی ونذرانے پیش کرتے رہے، رفتہ رفتہ تجارتی مراسم کے ذریعہ باہمی اعتمادکی فضا بنا کر اپنے سامانِ تجارت کے لیے گودام اورگودام کی حفاظت کے لیے مسلح گارڈ کے اجازت نامہ کے ذریعہ اسلحہ وبارود لایاگیا، آگے چل کربڑے شہروں میں قائم یہی گودام درحقیقت انگریز کی عسکری چھاؤنیاں ثابت ہوئے، اور بالآخر سن ۱۸۵۷ء میں آخری مغل بادشاہ، بہادر شاہ ظفر کو معزول کرکے برطانوی سامراج ارضِ ہند کا فرمانروا بن بیٹھا، اور برطانوی سامراج کا یہ قبضہ ۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷ء تقریباً ایک صدی پر محیط رہا، اس دوران اس ناجائز قبضہ سے ارضِ ہندکی خلاصی کے لیے کئی معرکے لڑے گئے، جن میں سرفہرست بالاکوٹ کا میدان کارزار ہے، شاملی کا معرکہ اور تحریک ریشمی رومال اور دیگر چھوٹی بڑی تحریکیں بھی اسی سلسلہ کی کڑیاں تھیں۔ 1 تحریکِ استخلاصِ وطن درحقیقت ان دردمند مسلمانوں کی اندرونی کڑھن کانتیجہ تھی، جن کو ہر لحظہ یہ خیال ستاتا تھا کہ برطانوی سامراج نے اپنی شاطرانہ چالوں کے جال بن کرمسلمانوں سے اقتدار چھینا ہے، لہٰذا یہ اقتدار دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھ آنا چاہیے۔ یہ جذبہ محض حب الوطنی کا نتیجہ نہیں تھا،بلکہ مسلم قیادت اسے اپنادینی فریضہ بھی سمجھتی تھی۔ ظاہرہے کہ دورِغلامی میں حب الوطنی کایہ جذبہ آس ویاس کے بیچ ہچکولے ہی لے سکتاتھا۔ عملی میدان میں اترنے کے لیے درکار وسائل کے بغیرکوئی انقلابی قدم اٹھانا کیونکر ممکن تھا، یہی وجہ ہے کہ ارض ہندمیں ہندو اکثریت کے باوجود استخلاصِ وطن کی ابتدائی تحریک میں ہندو قیادت کی خاطر خواہ دلچسپی نہیں تھی اور مسلمانوں میں سے بھی صرف دینی قیادت ہی اپنے ایمانی جذبے اور مذہبی فریضہ کے طور پر اپنی جانوں پر کھیلنے کو تیار ہوسکتی تھی، چنانچہ انہیں نعرہائے آزادی کے اسی جرم کی پاداش میں انگریزی دورمیں مختلف مقامات پر ہزاروں علماء کو سولی پر لٹکادیا گیا، توپوں کے دھانوں پر باندھ کر اُڑایا گیا اور قیدوبند کی صعوبتوں کی تاریخ تو مالٹا سے لے کر مالدیپ تک ہر جیل کے درو دیوار پر کندہ ہے۔ استخلاصِ وطن کے لیے، پورے پورے ملک کی آزادی کے لیے ان ساری قربانیوں میںاگرکسی کا نام لیا جاسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف علمائے ہند بالخصوص علمائے دیوبند اور ان کے پیروکاروں کا ہی نام ملے گا، 2حتیٰ کہ مسلم قیادت کے غیرعلماء میں سے کوئی بھی نامی گرامی شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے آزادیٔ وطن کے لیے جان دی ہو ،یاکم ازکم جیل یاترا کی سعادت پائی ہو،کیونکہ قربانی محض مذہبی وایمانی جذبہ کا ہی ثمرہ ہوا کرتا ہے اور مذہب وایمان سے بھلا علماء سے بڑھ کس کا رشتہ ہوسکتا ہے۔ان علماء میں سرفہرست  ۱۷۵۸ء میں تحریک آزادی اور قیام خلافت کا ابتدائی بیج بونے والے شاہ ولی اللہؒ، ان کا خاندان، شاہ عبدالعزیزؒ،شاہ اسماعیل شہیدؒ اورسیداحمدشہیدؒ، ان کے بعدحاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا جعفر تھانیسریؒ، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، حضرت مولانا سیدحسین احمدمدنیؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا احمد سعیددہلویؒ،مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، مولانامحمدعلی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ،مولاناعبیداللہ سندھیؒ، مولاناعبدالباری فرنگی محلیؒ، مولاناعبدالماجدقادری بدایونیؒ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ،مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا محمدمیاں انصاریؒ، مولانا عبدالقدوسؒ، مفتی محمدصادق کراچویؒ وغیرہ (w)شامل ہیں۔ جب علماکی قربانیوں کے نتیجے میں آزادیٔ ہندکی تحریک پھیلنے لگی تواس کے وسیع دائرے میں کئی مسلم وغیرمسلم سیاسی رہنمابھی شریک سفربنتے چلے گئے، اسی طرح۱۸۸۵ء میں ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر اجنبی دشمن سے آزادیٔ ہند کے لیے ایک بڑاالائنس (کانگریس) بھی وجود میں آگیا، جس میں مسلم اور ہندو سیاسی قیادت یکجا دکھائی دینے لگی، یہ وحدت محض سیاسی وحدت تھی اور اس نکتہ پر قائم ہوئی تھی کہ ارض ہند پر اقتدار کا حق اہل ہند کو ہے، اجنبی قابضین کو ملک بدر ہونا چاہیے، 3 یہ سیاسی فکر اسلامی اصولوں سے متصادم نہیں، بلکہ ہم آہنگ تھی، اور اس اتحاد کی بنا پر ہندو اکثریت مسلمانوں کی جانب سے اُٹھائی گئی تحریک آزادی کی سپورٹر ثابت ہو رہی تھی، 4جس کے نتیجے میں قابض سامراج ملک بدری کے لیے مجبور ہورہا تھا، چنانچہ اس نے جاتے جاتے ایک اور شاطرانہ چال چلائی کہ پہلے مسلم و ہندو اتحادمیں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی جس میں کسی حد تک کامیاب رہا، لیکن انگریز کو اس سے بڑی کامیابی بایں طور حاصل رہی کہ سامراج کے خلاف بغاوت میں بنیادی کردار ادا کرنے والی مسلم قوم سے انتقام لینے کے لیے اسے ایسی راہ پرالجھا گیا کہ وہ اپنی حقیقی مطلوبہ منزل (کل ہندوستان پردوبارہ حکومت) کو ہرگز نہ پاسکیں، انگریز کو یہ بڑی کامیابی اس وقت میسر آئی جب مسلم قیادت جمعیت علمائے ہند اور مسلم لیگ کے عنوان سے تقسیم ہوکر آزادیِ ہندکے فارمولے پر ایک دوسرے سے جداگانہ مطالبے کی حامل بن گئی، جمعیت علمائے ہند اپنے پرانے مطالبے (کل ہند کی آزادی) کو آزادی سمجھنے پر مصر تھی، جبکہ مسلم لیگ تقسیم ہند کے فارمولے کو آزادی سمجھ رہی تھی۔5 ہمارے اس نظریاتی اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریز بہادر قاضیِ انصاف بن کر کرسی قضا پر براجمان ہوا اور فریقین کے طور پر فیصلہ سنانے کے لیے ہمیں سامراجی کٹہرے میں لا کھڑا کیا، انصاف سے دیکھاجائے تو تقسیم کے فارمولے پر رضامند ہونا مسلم لیگ سے زیادہ جمعیت علمائے ہند کی سیاسی و فکری خودکشی تھی، کیونکہ استخلاص وطن کے لیے ان کے آبا واجداد کی کاوشیں ملک کے کسی ایک حصہ کے لیے نہی، پوری ارضِ ہند کے لیے تھیں، اسی بنا پر ان کا مؤقف یہ تھا کہ ملک کا بٹوارا آزادیِ ہند کے شہداء کے خون اور غازیوں کی جدوجہد سے غداری ہے، نیز یہ کہ ہماری دھرتی ہم سے چھینی گئی ہے تو غاصب کو ہمارے درمیان کسی بھی نوع کے فیصلے اور انصاف کا کیا حق ہے؟ اس کا انصاف توفقط یہ ہے کہ وہ ناجائزقبضہ ختم کرے،ہماری دھرتی کی تقسیم کااسے کوئی اختیارنہیں۔ مگر دوسری طرف تقسیم کے حق میں مسلم و ہندو قومیتوں کے درمیان اشتراکی عمل کو سیاسی مسئلہ سے آگے بڑھاکر مذہبی و فقہی مسئلہ بھی بنادیا گیا تھا، اور مسلم لیگی قیادت نے مسلم و غیرمسلم کے اشتراک عمل کو ہم نوا دینی قیادت کے ذریعہ ایساحرام و ناجائز باور کرایا کہ ملک کی سیاسی تقسیم، اسلامی و فقہی جغرافیہ بن کے رہ گئی، اور پاکستان کا مطلب کیا: ’’لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ‘‘ کا جذباتی نعرہ ایسا بلند ہوا کہ مسلمانانِ ہند کی کثیر تعداد کلمہ طیبہ کے احترام میں اور اس کے ضمن میں ظاہر کردہ نیک مقاصد کی تلاش میں تقسیم ہند کے فارمولے پر رضامند ہوگئی۔ اور شاطر انگریز، مسلم قوم کو پوری ہندوستانی سلطنت و حکومت لوٹانے کی بجائے ایک ایسے حصے پر قانع کرگیا جو پہلے ہی سے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا، اگر انگریز بہادر نے اپنی روایت کے مطابق واقعی انصاف فراہمی کا فریضہ نبھانا تھا تو اولاً مساویانہ تقسیم ہوتی، آدھا ہندوستان مسلم قوم اور آدھا غیرمسلم قوم کو دے دیتا، یا کم ازکم ہندو اکثریتی علاقوں میں سے کچھ حصہ ہندوؤں سے لے کر مسلمانوں کو دے دیتا، جسے انگریز کی طرف سے مسلم قوم کے لیے ’’دین‘‘ اور ’’عطائ‘‘ کہا جاسکتا، کیونکہ انگریز سرکار کا طریقہ بھی یہی تھاکہ وہ کسی کی بھی زمین لے کراپنی وفاداری کے صلے میں کسی اور کو دے دیا کرتا تھا، مگر ایسا بھی نہ ہوا۔ اگر مسلم اکثریتی خطوں کی بنیاد پر تقسیم ہی انگریزی مذہب کے عہد عتیق میں رقم تھی تو کم ازکم تقسیم کی جغرافیائی لکیر، لفظ ’’پاکستان‘‘ کے گمنام خالق مرحوم چوہدری رحمت علی کے مجوزہ فارمولے کے مطابق ہوجاتی، یعنی عثمانستان، بانگ اسلام اورپاکستان تومسلمانوں کوبٹوارے میں فائدہ ہوتا۔ 6مگر بدقسمتی سے ایسا بھی نہ ہوسکا، بلکہ  پہلے سے ہمارے زیرملک ہماری زمین ہمیں ہی خیرات میں چھوڑ کر ہمیں اپنا ممنون احسان بناکر انگلستان سدھار گیا، اور طوقِ غلامی اپنے ہاتھ سے اپنے بڑے بھائی (امریکہ) کے ہاتھ تھماکر چلاگیا، اور ہم سادگی میں آزادی کے شادیانے ہی بجاتے رہ گئے۔ اور تقسیم کے حوالے سے اپنے نفع ونقصان کی درست تشخیص نہ کر پائے۔  اگر اس تاریخی پس منظرکے تناظرمیں دیکھاجائے توکوئی عالم دین اور سیاسی شعور کا حامل انسان شاید ہی ایسی تاریخ کا حصہ شمارہونے کے لیے رضامند ہوسکے، مگر طرفہ یہ کہ مکار دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ان کے فارمولوں کو ٹھکرانے والے انگریز دشمن علماء کو ’’قیام پاکستان کا دشمن ‘‘ قراردیا جاتا ہے، اس انگریز دشمنی کو پاکستان دشمنی کہنا ایسے ہی غلط ہے جیسے تقسیم کو آزادی کہنا۔ اگر آزادیِ وطن کے روایتی مفہوم اور قیام پاکستان کے دینی نعرے کے نام پر قربانی کے عنوان سے علماء کا کردار سمجھنا چاہیں تو بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان کے دینی نعرے کی بنیادوں سے لے کر پہلی قومی پرچم کشائی تک اکابر علمائے دیوبند میں سے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی v اوران کے متوسلین کی تائید و حمایت نہ ہوتی تو قیام پاکستان کو کبھی بھی دینی نعرے کی بنیاد پر حاصل نہ کیا جاسکتا تھا، مسلم قوم محض لیگی قیادت کے تدین کی بنیاد پر تقسیم کے فارمولے کو کفر و اسلام کا فارمولا ماننے کے لیے ہرگز تیار نہ ہوتی، یہی وجہ ہے کہ جب حضرت قائداعظم سے سوال کیا گیا کہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی صحت وسندکے لیے کون سے علمائے مذہب آپ کے ساتھ ہیں؟ تو قائد کا جواب تھا: ’’مسلم لیگ کے ساتھ ایک بہت بڑا عالم (حضرت تھانوی) ہے، جس کا علم و تقدس و تقویٰ سب سے بھاری ہے، اور وہ ہیں مولانا اشرف تھانوی، جو چھوٹے سے قصبے (تھانہ بھون) میں رہتے ہیں، مسلم لیگ کو ان کی حمایت کافی ہے۔‘‘ حضرت تھانوی v تو قیام پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے نہ دیکھ سکے، لیکن ان کی فکر کے حامل ان کے خواہرزادے شیخ الاسلام حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانیv اورعلامہ ظفراحمدعثمانیv قیام پاکستان کی باقاعدہ رسومات میں اول دستہ رہے، چنانچہ مغربی پاکستان میں علامہ شبیر احمد عثمانی v نے پرچم کشائی فرمائی اورمشرقی پاکستان میں علامہ ظفر احمد عثمانی v نے قومی پرچم لہرایا اور ان ہی بزرگوں کی کاوشوں سے قراردادِ مقاصد تیار و منظور ہوئی۔ یہاں تک پاکستان کی آزادی اور پاکستان کے قیام میں علماء کی ضرورت اور کردار کا ایک پہلو سمٹ جاتا ہے، اور قیام پاکستان کا دیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کے بعد وطن عزیز انگریز کی پروردہ تربیت یافتہ بیوروکریسی کے حوالے ہوجاتا ہے، اب پاکستان کے مطلب کی تعیین، تشریح اورعملی تطبیق انہیں ’’مخلصین دین وملت‘‘ کے سپرد ہوجاتی ہے اور گویا علماء کی ضرورت پوری ہوگئی اور ان کے ’’ناتواں کندھوں‘‘ سے پاکستان کے مطلب کی تعیین و تطبیق کا بوجھ اٹھالیا جاتا ہے، یہاں تک کہ قائداعظم کی خواہشات وسفارشات کو بھی بڑھاپے کی ناکارہ آرزؤوں کی ٹوکری میں پھینک کر مغرب کی کورانہ تقلید کی رسم بڑھائی جاتی ہے اور ماہ و سال کے گزرنے کے ساتھ یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔7 لیکن اب بھی علمائے اسلام ان حقائق سے بخوبی آگاہ و آشنا ہونے کے باوجود قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور تقسیم کے فارمولے سے دور اندیشانہ سیاسی اختلاف کے حاملین علماء ہوں یا ہندوستان کی تقسیم کو شرعی تقسیم کہنے والے علمائ‘ سب کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے کہ پاکستان کے نام سے معرضِ وجودمیں آنے والی مملکت خداداد کا تحفظ ودفاع اور اسے اس کی حقیقی منزل تک لے جانا تمام علمائے امت کا مذہبی فریضہ بن چکا ہے، تقسیم کے نتیجے میں ایک حقیقت سامنے آجانے کے بعد اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ کسی مقام پر مسجد کے بننے نہ بننے میں اختلاف ممکن ہے ، لیکن اختلاف کے باوجود جب اسی مقام پر مسجد بن جائے تو اس کا تقدس و تحفظ اور تعمیر و ترقی، مذہبی ضرورت اور فریضہ بن جاتا ہے،8 لہٰذا جمعیت علمائے ہند کے نظریۂ آزادی کے حامل علماء ہوں یا مسلم لیگ کے نظریۂ تقسیم و آزادی کے حامل علماء ہوں، بلکہ کسی بھی مسلک کے علماء ہوں، سبہی یکجا ہوکر ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ، دفاع اور بقا و استحکام کے لیے ہر ممکن تگ و دو کرتے چلے آئے ہیں، مگر انصاف سے کہا جائے تو قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو ’’لا إلٰہ إلااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ‘‘ کے مطلب و مقصد کی گم کردہ منزل کی طرف لے جانے میں ان علماء کاحصہ زیادہ ہے جو عام طور پر قیام پاکستان کی مخالفت کے الزام اور پروپیگنڈے کا نشانہ بنائے جاتے رہے ہیں۔ چنانچہ آزادی کے بعد علماء کی ایک جماعت کی پیش کردہ متفقہ قراردادِ مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے، ۱۹۵۲ء کا آئین اور ۱۹۷۳ء کا آئین علماء ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے، اور تحریک نظام مصطفی (a) کے لیے قربانیاں بھی علماء نے دیں، قراردادِ مقاصد سے لے کر یہاں تک جن علماء کے نام لیے جاسکتے ہیں، ان میں شیخ الاسلام علامہ شبیراحمدعثمانیv، محدث بے مثال علامہ ظفر احمد عثمانیv، علامہ سیدسلیمان ندویv، علامہ شمس الحق افغانیv، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیعv،مولانااحتشام الحق تھانویv ،مولانابدرعالم میرٹھیv، مولانا محمد ادریس کاندہلویv، مولانا خیر محمد جالندھریv، علامہ محمد یوسف بنوریv، مولانا احمد علی لاہوریv، ضیغم اسلام مولاناغلام غوث ہزارویv، مفکراسلام مولانامفتی محمودv، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹکv، قاضی عبدالصمد سربازیv، مولانا محمد علی جوہرv، مولانا حبیب اللہ ٹھیٹریv، مولانامحمدصادق کراچوی رحمہم اللہ جمیعاً کے اسماء گرامی پاکستان کی آئینی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اب بھی الحمدللہ! انہی بزرگوں کی روحانی اولاد وطن عزیز کو قیام پاکستان کے حقیقی مقصد تک پہنچنے کے لیے ہر محاذ پر کوشاں ہے، مگر سامراج سے متأثر طبقہ نہ صرف یہ کہ علماء دین کو قیام پاکستان کے مقصد کی طرف بڑھنے نہیں دیتا، بلکہ اس طرف توجہ دلانے کو ملک دشمنی اور ملک سے غداری قرار دیتا ہے، لیکن بہی خواہانِ پاکستان کو مژدہ ہو کہ یہ علماء کرام ان روحانی ہستیوں کے فیض یافتہ ہیں جو تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اللہ کی مدد کے ساتھ اپنے اس مقصد پر کاربند بھی رہیں گے اور قیام پاکستان کے اصل مقصد کو بھی عوام کے سامنے تازہ کرتے رہیں گے اور اس خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، کیونکہ علماء کرام کا یہ طبقہ مملکت خداداد پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے دعا گو ہے، اسی طرح اس کی نظریاتی حدود کی حفاظت کا اپنے کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔  مذکورہ بالا تاریخی حقائق کامنصفانہ اورحق جویانہ مطالعہ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں کامطالعہ مفید رہے گا: ۱:…برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا؟، ازحضرت مولانا حسین احمد مدنیv ۲:…علمائے ہندکاشاندارماضی، ازمولاناسید محمدمیاںv ۳:…تاریخ دعوت وعزیمت ،ازمولانا ابوالحسن علی ندویv ۴:…تحریک پاکستان میں علماء کا سیاسی وعلمی کاکردار،ازڈاکٹر ایچ بی خانؒ ۵:…سیاسی ڈائری از مولانا حسین احمد مدنی v حواشی وحوالہ جات 1:…ملاحظہ فرمائیے: مسلمانوں کا روشن مستقبل از طفیل احمد منگلوریؒ ، باب سوم: ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈھائی سو سال۔ --برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا؟ مولانا حسین احمد مدنیv۔ --علمائے ہند کا شاندار ماضی(جلد سوم ، چہارم وپنجم) از مولانا محمد میاں v ۔ --ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری کی کتاب’’بیسویں صدی میں ہندوستان کی ملی تحریکیں‘‘شائع کردہ: قندیل لاہور ، اسلام آباد۔ 2:…۱۸۵۷ء کی  جنگ کے حالات کے لیے خاص طور پر ملاحظہ فرمائیں: بہادر شاہ ظفر کے داروغہ ظہیر الدین ظہیر دہلوی کی کتاب ’’۱۸۵۷ء کے چشم دید حالات المعروف داستان غدر‘‘ مطبوعہ حاجی حنیف اینڈ سنز لاہور۔ --طفیل احمد منگلوریؒ نے بھی اس دور میں انگریز کے مظالم کی کچھ روداد خود فرنگی مورخین ہومز، تھامسن، ولیم میور اور فریڈرک کوپر کے اعترافات کی صورت میں نقل کی ہے، دیکھیں: مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص:۸۰ تا ۸۲۔ --غدر کی وجوہات پر سید احمد خان کی ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ بھی قابل مطالعہ ہے۔ 3:…کانگریس کے قیام کی تاریخ ومقاصد اور علمائے ہند کے اس سے تعلق کے متعلق مستند تفصیلات کے لیے دیکھئے: علمائے حق کے مجاہدانہ کارنامے، باب چہارم وپنجم، مطبوعہ الجمعیۃ پبلیکیشنز۔ 4:… اس مناسبت سے بابر کی وہ وصیت بھی پڑھتے جایئے جو مغلیہ سلطنت کا سنگ بنیاد اورکئی صدیوں کے ہندو مسلم باہمی خوشگوار تعلقات کی بنیاد واساس ہے، بابر نے ہمایوں سے کہا تھا: ’’اے پسر! سلطنت ہندوستان مختلف مذاہب سے پر ہے، الحمدللہ! اس کی بادشاہت تمہیںعطا فرمائی، تمہیں لازم ہے کہ تمام تعصباتِ مذہبی کو دل سے دھو ڈالو اور عدل وانصاف میںہر مذہب وملت کے طریق کا لحاظ رکھو،جس کے بغیر تم ہندوستان کے لوگوں پر قبضہ نہیں کرسکتے ۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح انسان کے جسم میں مل جل کر چار عناصر کام کررہے ہیں، اسی طرح مختلف مذاہب رعایا کو ملا جلاکر رکھو اور ان میں اتحادِ عمل پیدا کرو، تاکہ جسم سلطنت مختلف امراض سے محفوظ رہے ۔‘‘ ( علمائے حق کے مجاہدانہ کارنامے، ص:۴۰) اس کے برعکس’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کے فلسفے پر عمل پیرا شاطر انگریز کا طریقۂ واردات کیا تھا؟ جان میکلم کی سنئے: ’’اس قدر وسیع سلطنت میں ہماری غیر معمولی قسم کی حکومت کی حفاظت اس امر پر منحصر ہے کہ ہماری عملداری میں جو بڑی جماعتیں ہیں، ان کی عام تقسیم ہو، اور پھر ہر ایک جماعت کے ٹکڑے مختلف ذاتوں اور فرقوں اور قوموں میں ہوں، جب تک یہ لوگ اس طریقے سے جدا رہیں گے، اس وقت تک غالباً کوئی بغاوت اٹھ کر ہماری قوم کے استحکام کو متزلزل نہ کرے گی۔‘‘ (ایضا، ص:۴۱) 5:…اس اجمال کی تفصیل کے لیے دیکھئے: آزادی ہند از مولانا ابوالکلام آزاد v --برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا؟ از مولانا حسین احمد مدنی v 6:…ملاحظہ فرمائیے: چوہدری رحمت علی کا کتابچہ : ’’NOW OW NEVER‘‘ شریعہ اکیڈمی اسلام آباد نے اپنی مطبوعہ کتاب ’’تصورِ پاکستان، بانیان پاکستان کی نظر میں‘‘ کے آخر میں یہ مختصر تحریر بھی شائع کردی ہے۔ 7:… بانی پاکستان کے بعض افکار وارشادات کے لیے ملاحظہ کیجئے: ’’تصور پاکستان، بانیان پاکستان کی نظر میں‘‘ 8:… حضرت مولانا حسین احمد مدنی v کا اس نوع کا جملہ تو مشہور ہے، مولانا ابوالکلام آزادv نے بھی کہا تھا:’’پاکستان وجود میں آگیا ہے تو اب اُسے باقی رہنا چاہیے، اس کا بگڑنا سارے عالم اسلام کے لیے شکست کے برابر ہوگا۔‘‘ ( نوائے وقت،۲۳ مارچ ۱۹۷۳ئ)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین