بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

تاابداُونچا رہے گا اُن کی عظمت کا نشاں

تاابداُونچا رہے گا اُن کی عظمت کا نشاں

دین و ملت کے بلا شک تھے حقیقی پاسباں تا ابد اونچا رہے گا اُن کی عظمت کا نشاں     مؤرخہ ۱۸؍ربیع الاول۱۴۳۴ھ بمطابق ۳۱؍ جنوری ۲۰۱۳ء بروزجمعرات…جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علامہ بنوری ٹاؤن،کراچی کے ’’ دارالافتاء کے ذمہ دار، واستاذالحدیث‘‘… جامعہ درویشیہ کراچی کے ’’شیخ الحدیث‘‘… معہدالخلیل الاسلامی کے ’’صدرمفتی‘‘…جامع مسجدالحمراء کے ’’امام و خطیب‘‘ … جامعہ حسینیہ شہدادپور، جامعہ عربیہ احیاء العلوم ظاہرپیر، مدرسہ عربیہ دین پوراور جامعہ اشرفیہ سکھرکے سابق مدرس…حافظ الحدیث حضرت درخواستیؒ کے خانوادہ کے عظیم فرد… قدیم روحانی سرزمین دین پور شریف کے ’’سپوت‘‘…حضرت درخواستیؒ، حضرت بنوریؒ، مولانامحمدادریس میرٹھیؒ، مولانافضل محمدسواتیؒ، مفتی ولی حسن ٹونکیؒ، مولاناعبدالرشیدنعمانیؒ، مولانا منظور احمدنعمانیؒ(طاہروالی)، مولاناعبیداللہ درخواستیؒ اورمولانامنظوراحمدنعمانی مدظلہم (ظاہرپیر)کے شاگردِ رشید… ہزاروں علماء کے محبوب استاذ… سینکڑوں مفتیان کرام کے مقتداء وراہ نما …لاتعداد لوگوں کے مربی ومحسن… فاضلِ دیوبند مولانامحمدعظیم رحمہ اللہ کے فرزندِارجمند…محمدعمیر،مولانامحمدزبیر،مولانا محمد عزیر، اور محمدشعیب کے مشفق ومہربان والد… شیخ الحدیث حضرت مولانامفتی عبدالمجید دین پوری کو دِن دیہاڑے ’’عروس البلد‘‘ (جو کہ آج کل ’’خونی شہر‘‘بنا ہوا ہے)کراچی کی معروف ومشہور ’’شاہراہِ فیصل‘‘ پر تین بدبخت وشقی القلب قاتلوں نے ٹارگٹ کلنگ کرتے ہوئے گولیاں مار کر شہید کردیا۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطی وکل شیٔ عندہ بأجل مسمی ۔      حضرت مفتی شہید رحمہ اللہ جون۱۹۵۱ء کو دین پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مولاناعبیداللہ درخواستی کے پاس حاصل کی۔ ۱۹۶۷ء میں درجہ سادسہ میں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میںداخلہ لیا اور۷۴-۱۹۷۳ء میں تخصص کرکے سند فراغ حاصل کی۔ ۱۹۸۷ء تک شہداد پور، خان پور، ظاہر پیر، دین پور وغیرہ مختلف مقامات پر تدریس کرتے رہے۔ ۱۹۸۸ء میں جامعہ اشرفیہ سکھر چلے گئے اور ۹۶-۱۹۹۵ء میں بنوری ٹاؤن کے ’’نائب رئیس دارالافتائ‘‘ مقرر ہوئے ۔ ۹۷-۱۹۹۶ء سے جامع مسجد الحمراء میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔آخری چار پانچ سال جامعہ درویشیہ کے ’’شیخ الحدیث‘‘ اوردس سال معہدالخلیل الاسلامی کے ’’صدرمفتی‘‘کے منصب پر فائز رہے۔بالآخر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔ع فردوس میں جا بیٹھا فردوس کا باشندہ جامعہ بنوری ٹاؤن سے بندہ کی محبت وتعلق:     جب سے بندہ نے ہوش سنبھالا، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن… حضرت بنوریؒ… اور حضرت لدھیانویؒ کا نام کانوں میں پڑنے لگا۔ حضرت لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کا نام تو اکثر ہی سننے کو ملتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۲۰۰۰ء میں جب حضرت لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا تو اس وقت مَیں اپنی عمر کا تقریباً بارہواںبرس عبور کررہاتھا۔ مجھے خبر ملی تو نہایت ہی رنج اور افسوس ہوا، کیونکہ حضرت کی محبت بچپنے ہی میں میرے دل وجان میں سرایت کرچکی تھی۔ حضرت کی شہادت سے اگلے جمعہ کے موقع پر میرے والد گرامی نے بہت ہی پُرجوش، غصیلا اور جذباتی بیان کیا تھا۔ وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ابھی بھی گردش کررہا ہے کہ جب لاؤڈاسپیکر باربار بند ہورہاتھا تو والد صاحب نے اپنی قمیص سے کالر مائیک اتار کرایک جانب اچھال دیا اور بغیر سپیکر دھاڑنے لگے، بالکل ایسے جیسے بپھرا ہوا شیر گرجتا ہے۔ میرے رونگٹے کھڑے ہوچکے تھے اور میں مبہوت ہوکر والد صاحب کو دیکھے جارہا تھا۔ حضرتؒ کی شہادت سے مجھے اتنا صدمہ ہوا، اتنا صدمہ ہوا کہ بیان سے باہر ہے، آج تک وہ صدمہ برقرار ہے کہ میں حضرت لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کا زمانہ پانے کے باوجود اُن کی زیارت کی سعادت سے محروم رہا۔     دوتین سال گزرے تو باغ آزادکشمیر میں داداجان امام اہل سنت مولاناسرفرازخان صفدررحمہ اللہ کے ہمراہ ’’خدمات دیوبند کانفرنس‘‘ میں شرکت کی سعادت ملی، وہاں امام المجاہدین مفتی نظام الدین شامزئی شہید رحمہ اللہ کی زیارت وملاقات کا موقع ملا، وہ مئی کا مہینہ تھا، تعلیمی سال چل رہا تھا، اور میں ابھی متوسطہ میں تھا،دوران سال ہی یہ سفر پیش آیا۔ اسی سال حضرت شامزئی شہید رحمہ اللہ کی شہادت کا دلخراش واقعہ پیش آگیا۔      جب میں گکھڑ حضرت داداجان رحمہ اللہ کی خدمت میں تھا، وہاں حضرت مفتی محمد جمیل خان شہید رحمہ اللہ کی زیارت وملاقات کا موقع بارہا ملا۔پھر باغ آزادکشمیر ’’خدمات دیوبند کانفرنس‘‘کے بعد ہم مفتی صاحب ہی کی تحریک اور اُن کے پروگرام پر داداجان رحمہ اللہ کے ہمراہ مری، ایبٹ آباد، پشاور، دیر، چترال، گلگت، سکردو، چلاس، بشام، بٹگرام، اچھڑیاں اور راولپنڈی تک کے سفر میں مفتی صاحب کے ساتھ رہے۔اس طویل اور یادگار سفر میں بھی مفتی صاحب کو کافی قریب سے دیکھا۔ بدقسمتی سے حضرت شامزئی شہیدؒ کی شہادت کے فقط چار ماہ دس دن بعد حضرت مفتی جمیل خان صاحبؒ کی شہادت کا اندوہناک حادثہ پیش آگیا۔ اس وقت بندہ نے حضرت مفتی صاحبؒ پر ایک مضمون بھی لکھاتھا، جو کہیں شائع نہ ہوسکا۔     اِن حضرات کی شہادت، بنوری ٹاؤن کی تاریخ سے واقفیت اور فضلاء وابنائے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دینی، علمی، جہادی، سیاسی، ملی اور روحانی کارناموں کو دیکھ کر میرے دل میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی محبت بڑھتی چلی گئی۔ میرا جی کہتا تھا کہ صحیح معنوں میں ’’مرکزعلم‘‘ اور ’’مرکزاسلام‘‘ تو یہی مدرسہ ہے، جس کے فضلاء ہردینی محاذ پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔تعلیم وتدریس، تبلیغ وجہاد، تصنیف وتالیف، افتاء وخطابت، سیاست و قیادت، دفاع ختم نبوت، دفاع صحابہ واہل بیت، دفاع فقہاء ومحدثین، مسلک دیوبند کی اشاعت وحفاظت، مشرب اہل سنت کی پاسبانی وترجمانی… غرضیکہ ہر میدان میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فضلاء ہی آگے نظر آتے ہیں: جرأت سے، شجاعت سے، محبت سے فراست سے باطل کو کیا تُو نے ہر ڈھنگ سے شرمندہ       شہادت کا رتبہ بھی زیادہ تراسی کے فرزندوں کو نصیب ہوا۔ جو کہ میرے خیال کے مطابق اس کی عنداللہ مقبولیت کی قوی اور وزنی دلیل ہے: پاکیزہ فطرت یہ پاک لشکر سوزِ یقیں سے سینے منوّر تصویر ہمت، جرأت کا پیکر فتح و ظفر ہے اس کا مقدر اللہ اکبر اللہ اکبر     گکھڑ ہی میں داداجان رحمہ اللہ کے ہاں حضرت جلال پوری شہیدؒ سے بھی بندہ کا تعلق جڑا، جو بڑھتا رہا، داداجان کی وفات کے بعد مزید مضبوط ہوگیا۔قسمت کی بدقسمتی، ۲۰۱۰ء میں حضرت جلال پوریؒ کو بھی شہید کردیا گیا۔اسی طرح مولانامفتی عتیق الرحمن شہید رحمہ اللہ بھی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے ہی فاضل تھے۔ان سب سے قبل مولاناعبدالسمیعؒ اور ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدؒ اپنے پاکیزہ خون سے اس سلسلے کی داغ بیل ڈال چکے تھے۔آج بھی مَیں ’’کاروانِ بنوری‘‘ کے افراد کے چمکتے دمکتے نورانی اور بے خوف چہروں کو دیکھتا ہوں تو رشک آنے لگتا ہے۔ کاش! کہ ہمیں اسی کاروان کی رفاقت نصیب ہو: خدا رکھے مرے حرف و قلم کو کاروانِ حق سے وابستہ تمہارا نقشِ پائے استقامت ہو مری منزل مرا رستہ حضرت دین پوری شہید ؒ کا غائبانہ تعارف:     جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے تعلق تو ہے ہی، اسی نسبت سے جامعہ کا ترجمان ماہنامہ ’’بینات‘‘ بھی میرا پسندیدہ رسالہ ہے۔ بینات میںاکثر فتاویٰ جات دیکھتا تو لاشعوری طور پر ’’الجواب صحیح … عبدالمجید دین پوری‘‘بھی میرے ذہن میں نقش ہوگیا، حالانکہ میرے لئے فقط اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ یہ فتویٰ ’’جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن‘‘ سے جاری ہوا ہے، بس! اس سے زیادہ کی حاجت نہیں ہوتی۔ اگرچہ میں اس پر غور نہیں کرتا کہ کون فتویٰ دینے والا ہے اور کون تائیدو تصدیق اورتصویب کرنے والا،لیکن چونکہ بینات میں شائع شدہ اکثر فتاویٰ جات شوق سے پڑھتا ہوں، اس لئے آخر میں لکھے ہوئے مفتیان کے نام بھی نظر سے گزرتے رہتے ہیں،انہی ناموں میں سے ایک نمایاں نام حضرت دین پوری شہیدرحمہ اللہ کا تھا۔     ثالثہ والے سال بندہ اپنے والد گرامی کے مشورے پر ’’دارالعلوم مدنیہ،بہاول پور‘‘ میں داخل ہوا اور دورۂ حدیث شریف تک تعلیم وہیں حاصل کی۔ اس دوران دارالعلوم مدنیہ میں حضرت دین پوری شہید رحمہ اللہ کے بھتیجوں سے تعارف ہوا، لیکن حضرت کے حوالہ سے نہیں، بلکہ حضرت درخواستی رحمہ اللہ کے حوالہ سے۔ کافی عرصہ بعد ایک روز دوران گفتگو انہی کے ذریعہ معلوم ہواکہ ’’مفتی عبدالمجید دین پوری‘‘ ان کے چاچو ہیں۔مجھے خوشگوار حیرت کا جھٹکا لگا، اس کے بعد حضرت دین پوریؒ کی زیارت کا شوق دل میں پیدا ہوا۔  زیارت وملاقات:     چنانچہ دورۂ حدیث شریف سے فراغت کے فوراًبعد استاذمحترم شیخ التفسیر حضرت مولانا منظوراحمد نعمانی دامت برکاتہم کی خدمت میں ’’دورۂ تفسیر‘‘ کے لئے کراچی حاضری دی، جاتے ہوئے ’’خان پور‘‘سے ہوکر گیا۔ حضرت دین پوری کے برادرِ مکرم، حضرت مولاناعبدالکریم صاحب مدظلہم نے کچھ سامان دیا کہ یہ حضرت مفتی صاحب کا ہے، اُن کے صاحب زادے ’’سہراب گوٹھ‘‘ اڈے سے وصول کرلیں گے۔بندہ نے سامان وصول کرلیا، اور اس کو بے ادبی سمجھا کہ وہ حضرات سامان لینے خوداڈے پر آئیں، میں نے سوچا کہ اُن کے گھر پہنچانے کی سعادت خود حاصل کروں، چنانچہ وہ سامان ان کے گھر پہنچایا۔ اس وقت حضرت مفتی شہید رحمہ اللہ ، وفا ق المدارس العربیہ کے سالانہ امتحان کے پرچوں کی چیکنگ کے لئے ملتان گئے ہوئے تھے، اس لئے زیارت وملاقات نہ ہوسکی۔      میں مسلسل رابطہ کرتا رہا، معلوم ہوا کہ فلاں دن حضرت ملتان سے واپس تشریف لائیں گے اور اس کے دودن بعد عمرے کے لئے تشریف لے جائیں گے۔ ظاہر بات ہے تھکاوٹ بھی ہوگی، مصروفیت بھی، دیگر امور بھی، پتہ نہیں وقت مل سکے گا یا نہیں، لیکن دل مچل رہا تھا کہ ابھی ملاقات کروں، اگرچہ یہ تو ذہن میں نہیں تھا کہ حضرت اتنی جلدی چلے جائیں گے، لیکن نجانے کیوں دل چاہتا تھا اسی مرتبہ میں ملاقات کرلوں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے حضرتؒ کے بھتیجے، مولاناعبدالکریم صاحب کے بیٹے اسامہ بھائی کو کہ وہ مسلسل رابطہ میں رہے، جیسے ہی حضرت کراچی پہنچے، مجھے بھی اطلاع کی اور حضرت کے صاحبزادے کو بھی میرے بارے میں بتایا۔ حضرت شہید رحمہ اللہ نے بھی حسب مزاج وعادت وقت عنایت فرمادیااور آپؒ کے صاحبزادے کے ہمراہ آپ کے گھر حاضر ہوا۔ نہایت ہی شفقت ومحبت سے پیش آئے۔ نرم خوئی، محبت، الفت، شفقت اورسادگی وتواضع دیکھ کر میں حیران رہ گیا: تمنکت ایسی وقار ایسا وجاہت ایسی لاکھ درویش سہی لیکن کسی سلطان میں ہے؟      پھر اکابر سے محبت واُن کی نسبت کا احترام بھی آپؒ کی ادا ادا سے چھلک رہا تھا۔ اگرچہ آپؒ سے ملاقات تو فقط وہی ایک ہوسکی، لیکن اس کی یادوں کے انمنٹ نقوش تادم آخر لوح دل پر ثبت رہیں گے اور اُن کی یاد دلاتے رہیں گے: میں اُن کے چہرے کی مسکراہٹ کو ایسے محسوس کررہا ہوں کہ جیسے کوثر پہ شام ہوتے کوئی دِیا جھلملا رہا ہے فتنوں کے تعاقب اور تردید کے لئے فکر مندی:     دوران ملاقات جب بندہ نے اپنے والد گرامی محقق اہل سنت حضرت مولاناعبدالحق خان بشیر مدظلہم کا ایک کتابچہ ’’امام اہل سنتؒ کا مسلک اعتدال…اور… حافظ محمدعمار خان ناصر‘‘ پیش کیا توکیا دیکھتا ہوں کہ آپؒ کے چہرے پر فکرکے گہرے اثرات نمودار ہونے لگے، پھرنہایت ہی فکرمندانہ لہجے میں فرمایا: ’’جی! یہ (عمارخان ناصر)بھی بڑی آزمائش ہے۔‘‘مزید کیا ارشاد فرمایا؟ وہ اِس وقت صحیح یاد نہیں۔ خلاصہ یہی کہ آپ اس فتنے سے متعلق نہایت فکرمند تھے اور امت کو اس کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے ہر قسم کی کوشش کے حامی تھے۔ ’’شیخ الحدیث نمبر‘‘ کا مطالعہ:     بندہ کے محبوب استاذ، پیرطریقت، پاسبانِ مسلک دیوبند، شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدحنیف صاحب رحمہ اللہ(شیخ الحدیث:دارالعلوم مدنیہ، بہاول پور) کی وفات کا دلسوز سانحہ پیش آیا تو مجلہ ’’صفدر‘‘ کے مدیر اعلیٰ مولاناجمیل الرحمن عباسی مدظلہم کی خواہش اور تحریک پر بندہ نے ’’شیخ الحدیث نمبر‘‘ مرتب کرکے شائع کیا، جو بحمد اللہ! قلیل وقت میں اپنی عقیدت کے اظہار کی بہترین صورت ثابت ہوا۔ بندہ نے ’’شیخ الحدیث نمبر‘‘ کا ایک نسخہ اسامہ بھائی کے والد اور حضرت دین پوری شہیدؒ کے برادرِ صغیرمولاناعبدالکریم صاحب مدظلہم کی خدمت میں بھجوایا۔ اسامہ بھائی نے حضرت ؒ کی شہادت کے بعد مجھے بتایا کہ: آخری مرتبہ جب حضرت مفتی صاحب شہید رحمہ اللہ ہمارے گھر تشریف لائے تھے تو قلت وقت کے باوجود آپ کا ’’شیخ الحدیث نمبر‘‘مکمل پڑھ کر گئے تھے۔ اس سے حضرت شہید رحمہ اللہ کی اکابر سے محبت اور اُن کے حالات سے آگاہی کے شوق وذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں نے اسامہ بھائی سے پوچھا کہ: حضرت شہید رحمہ اللہ نے اُس پر کوئی تبصرہ بھی فرمایاتھا؟ انہوں نے کہا یہ مجھے معلوم نہیں، کیوں کہ اُس کا مطالعہ عین اس وقت ختم کیا جب اُن کی کراچی روانگی کا وقت آپہنچا، اس لئے اُس پر ان کا تبصرہ یا رائے کا معلوم نہیں ہوسکا۔ شہادت کی اطلاع:     مؤرخہ ۱۸،ربیع الاول۱۴۳۴ھ بمطابق ۳۱؍جنوری۲۰۱۳ء بروز جمعرات ظہر کی نماز کے بعد بندہ بیٹھا کام کررہا تھا، اچانک موبائل پر نگاہ پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت شہید رحمہ اللہ کے بھتیجے حنظلہ بھائی ’’خان پور‘‘ والوںکا فون آرہا ہے، فون اٹھایا، حال احوال دریافت کیا اور اُن سے کہنے لگا کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ میں آج موبائل کی گھنٹی کھولنا بھول گیا تھا، ابھی اتفاق سے نظر پڑی ہے تو آپ کا فون آرہا تھا، انہوں نے اس پر خاموشی اختیار کی، پھر قدرے سکوت کے بعد کہا:چاچوجی مفتی عبدالمجید صاحب شہید ہوگئے ہیں! یہ سنتے ہی میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا، اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور پوچھا: کب؟ کیسے؟ حنظلہ بھائی نے بتایا : فائرنگ ہوئی ہے، ابھی ساڑھے بارہ بجے وہیں کراچی میں شہید ہوئے ہیں۔ میں ہکا بکا رہ گیا، اول تو کچھ سجھائی نہ دیا، پھر اپنے ساتھ بیٹھے ساتھیوں کو اطلاع دی اور حضرت شہید رحمہ اللہ کے بھتیجوں کو اطلاع دینے کے لئے اُن کی طرف دوڑا۔ اسامہ بھائی تو کلا س میں جاچکے تھے اور اُن کے استاد بھی اسی وقت کلاس میں داخل ہوچکے تھے۔ البتہ نعمان احمد بھائی کا سبق ابھی شروع نہیں ہوا تھا، اُن کو اُن کی کلاس میں جاکر اِس کربناک حادثہ کی خبر دی تو حیرت سے وہ بھی ساکت رہ گئے۔کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ عصر کے بعد حضرت شہیدؒ کاپہلا جنازہ بنوری ٹاؤن میں ہوگا اور دوسرا جنازہ کل بروز جمعہ کو صبح دس بجے نارمل سکول خان پور میں ہوگا، بعدازاں دین پور شریف کے قدیمی قبرستان میں تدفین ہوگی۔  خان پور روانگی:      پروگرام کے مطابق دوسرے دن صبح چار بجے مدرسہ سے روانہ ہوا، برادر محترم مولانادلشاد صاحب مدظلہ (فاضل:جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن،کراچی)کو راستے سے ساتھ لیا، اور نماز فجر سے چند منٹ قبل ’’خان پور‘‘ پہنچ گئے۔ حضرت مفتی شہید رحمہ اللہ کے بھتیجے بھائی نعمان احمد صاحب اور بھائی عمرفاروق صاحب ہمیں لینے اڈے پر موجود تھے۔ ان کے ہمراہ مولاناعبدالکریم صاحب مدظلہم کے گھر ’’رازی چوک‘‘ پہنچے، جوحضرت شہید رحمہ اللہ کا آبائی گھر ہے اور وہیں اُن کو لانا تھا۔ پہنچتے ہی وضو کیا، اور نماز فجر کے لئے مسجد میں جاپہنچے۔ اسامہ بھائی نے ’نماز میں ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَائٌ  وَّلَکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ‘‘ آیات تلاوت کیں تو دل کی عجیب سی کیفیت ہوگئی۔حضرت شہیدؒ کی جدائی کے غم کی وجہ سے آنسو بھی آرہے تھے اور’’اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ‘‘ پر عمل کی نیت سے ضبط کی کوشش بھی جاری تھی، پھر حضرات شہداء کے بلند مقام اور علو شان ومرتبہ کی وجہ سے اطمینان بھی تھااور ’’ بَلْ أَحْیَائٌ‘‘ کے حکم قرآنی کی جہ سے دل کو تسکین بھی: پڑھو اُن کے حق میں جو آیات اُتریں خدا کی طرف سے ہدایات اُتریں     نماز کے بعد حضرت شہید رحمہ اللہ کے بھائیوں، برادر زادوں اور دیگراعزہ سے ملاقات ہوئی، پھر کچھ دیر انتظامات وغیرہ میں صرف ہوگئی۔ جس ایمبولینس میں حضرتؒ کے جسدخاکی کو کراچی سے لایا جارہا تھا، اُس سے مسلسل رابطہ تھا۔ ’’رازی چوک‘‘میں سب منتظر کھڑے  تھے، احباب کی آمد جاری تھی۔ حضرت شہید رحمہ اللہ کے تلامذہ بہاول پور، لاہور اوراسلام آبادتک سے اپنے محبوب استاذ کی زیارت ونمازِجنازہ کے لئے آئے ہوئے تھے۔ تقریباً آٹھ بجکر بیس منٹ(۲۰:۸) پرایک جانب سے وہ بس آتی دکھائی دی جس میں حضرت شہید رحمہ اللہ کے اہل خانہ اور دیگر اعزہ کراچی سے آئے تھے، اور ساتھ ہی دوسری جانب سے ایمبولینس کا شور بلند ہوا، جسے استقبالی جلوس کی شکل میں پتیاں نچھاور کرتے ہوئے لایا جارہا تھا۔ آگے پیچھے موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی قطاریںتھیں،ایمبولینس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ دیوانہ وار پیدل دوڑرہے تھے اور پتیاں نچھاور کررہے تھے:  اے سید  والا شاہ!  جینا  تھا  ترا  جینا جینا تو اُنہی کا ہے جو مر کے رہیں زندہ     جسدخاکی کو ایمبولینس سے نکالاگیا تو حضرت شہید رحمہ اللہ کے تلامذہ کا دھاڑیں مار مار کے اور بلک بلک کر رونا دنیا کو بتا رہا تھا کہ جسمانی رشتے اتنے مضبوط نہیں ہوا کرتے اور اُن میں وہ طاقت نہیںہوتی جو علمی، دینی اور روحانی رشتوں میں ہوتی ہے۔ یہ رشتے بے لوث، بے غرض اور مخلصانہ ہوتے ہیں۔اور حضرت کے اعزہ واقرباء کی آپ کے ساتھ دیوانہ وار محبت ووارفتگی بھی اس بات کی غمازی کررہی تھی کہ حضرت شہید رحمہ اللہ کے ساتھ اُن کا تعلق فقط نسبی نہیں ، بلکہ علمی ودینی تھا، ورنہ آج کے اس خود غرضی ومفاد پرستی کے دور میں کون اپنے رشتہ داروں کو پوچھتا ہے؟جنازہ سے قبل خطاب کے دوران جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مولانامفتی رفیق احمد بالاکوٹی صاحب فرمانے لگے:آپ حضرات جو حضرت سے نسبی اور خاندانی تعلق رکھتے ہیں، اور حضرت کی جدائی پر مغموم ہیں، اگر کل وہاں کراچی میں حضرت کے تلامذہ اور دینی وروحانی تعلق والوں کے غم والم کا مظاہرہ کرلیتے تو آپ کے لئے تسلی کا سامان ہوجاتا، اُن کا درد آپ کے درد سے کہیں زیادہ اور اُن کا غم آپ کے غم سے کہیں بڑھ کر ہے۔      کراچی سے حضرت شہیدؒ کے ساتھ آنے والوں میں حضرت کے برادران، صاحبزادگان، اعزہ، واقرباء کے علاوہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مولانامفتی شعیب عالم صاحب، مولانامفتی رفیق احمد صاحب اور دیگر حضرات تھے۔حضرت کے جسدخاکی کو گھر کے اندر لے جایا گیا اور مردحضرات کو مسجد میں بیٹھنے کے لئے کہا گیا۔ علماء وصلحاء اور مشائخ کی آمد جاری تھی، مولانامفتی محفوظ احمد صاحب (صدرمفتی:جامعۃ الصابر،بہاول پور)حضرت کے بھائیوں اور صاحبزادوں کو تسلی دے رہے تھے۔کچھ ہی دیر میں سب حضرات مسجد میں بیٹھ گئے۔      تقریباًساڑھے نو (۳۰:۹)بجے جسدخاکی کو گھر سے باہر لایاگیا، چارہائی کے ساتھ بانس باندھ کر کاندھوں پر رکھاگیا تو ہرکوئی دیوانہ وار لپک کر چارپائی کو کندھا دینے کی کوشش میں نظر آیا، جس کو اس کا موقع نہ مل سکا،اُس نے بانس کو ہاتھ لگانے کو ہی غنیمت خیال کیا۔ کچھ احباب فرط محبت میں چارپائی کے نیچے گھس گئے، لیکن اُن کو وہاں نہیںٹھہرنے دیا گیا۔جنازہ نارمل اسکول کے گراؤنڈ کی طرف رواں دواں تھا، لوگ پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے جارہے تھے۔ گراؤنڈ میں پہنچے تو علمائ، طلبائ، صلحائ، مشائخ اور اکابر کا جم غفیر نظر آیا۔ حضرت مولاناعبدالمجید لدھیانوی، حضرت مولانا منظور احمد نعمانی (ظاہرپیر) ، حضرت مولانامیاں مسعوداحمد(دین پور شریف)، حضرت مولاناعزیزالرحمن جالندھری (ملتان)، حضرت مولانامفتی عطاء الرحمن(بہاول پور)، حضرت مولانارشیداحمدلدھیانوی(رحیم یار خان) ، وفاق المدارس کی قیادت کے نمائندہ کے طور پر حضرت مولانازبیراحمدصدیقی(شجاع آباد)، حضرت صاحبزادہ ہالیجوی، حضرت مولانامفتی ظفر اقبال(کہروڑپکا) اورحضرت مولاناسیف الرحمن درخواستی (راجن پور)، حضرت مولاناعطاء المنعم(رحیم یارخان) سمیت کراچی، سکھر،صادق آباد، رحیم یارخان، ظاہرپیر، بہاول پور، ملتان، لاہور اور اسلام آباد سے آئے ہوئے سینکڑوں علماء کرام اور ہزاروں طلبہ وعوام الناس موجود تھے۔     چارپائی رکھتے ہی لوگ زیارت کے لئے لپکے، اسٹیج سے اعلان کیا گیا کہ تمام حضرات اپنی جگہ پر کھڑے رہیں، صفوں کی ترتیب برقرا رکھیں، زیارت، نمازِ جنازہ کے بعد کرائی جائے گی۔نظم وضبط اور ترتیب نہ ہونے کی وجہ سے کثیر مجمع کو زیارت کرانا تقریبا ناممکن تھا، لہٰذا چند ہی لمحوں بعد عوام الناس کو چارپائی کے گرد سے ہٹ کر صفوں میں واپس جانے کی تلقین کی گئی۔ اکثر لوگ صفوں میں پہنچ گئے۔     جنازہ سے قبل مولانامفتی رفیق احمد بالاکوٹی، مولانارشیداحمدلدھیانوی، مولانازبیراحمدصدیقی سمیت دیگر علماء کرام کے بیانات ہوئے۔ مولانازبیراحمدصدیقی نے فرمایا:الحمدللہ ہماری قیادت، ہمارے اکابر کی حالات پہ گہری نظر ہے، وہ کبھی بھی مدارس، علماء وطلباء کے تحفظ سے غافل نہیں ہوئے، لیکن ہم نے جرأت وحکمت کے ساتھ دشمن کی کوشش کو ناکام بنانا ہے۔ اپنی قیادت پر اعتماد کریں، اور اُن کے حکم کے مطابق عمل کریں۔ انہوں نے مزید فرمایاکہ: حکومت ہوش کے ناخن لے، ہمیں کسی انتہائی اقدام پر مجبور نہ کرے۔ اگر بلوچستان کے چند لوگوں کے احتجاج اور شدید مطالبہ پر منتخب جمہوری حکومت ختم ہوسکتی ہے تو ملک عزیز پاکستان کے بیس ہزار (۰۰۰،۲۰)مدارس کے تیس لاکھ (۰۰۰،۳۰)طلباء احتجاج کرکے حکومت سے اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں یا حکومت کا تخت الٹ سکتے ہیں، اس لئے حکومت علماء وطلباء اوربے گناہ لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ سے باز رہے،قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرکے قرار واقعی سزادے، ورنہ حالات کی تمام ترذمہ داری حکو ت پر عائد ہوگی۔ مولانامفتی رفیق احمد بالاکوٹی نے فرمایا: کہ ہم صبروتحمل کے ساتھ رہیں، مشتعل نہ ہوں اور دشمن یہ نہ سمجھے کہ ہم خوف زدہ ہوکر دین کاکام چھوڑ دیں گے: سمجھ کر سوچ کر راہِ وفا میں پاؤ ں رکھا ہے یہ مت سمجھو کہ ہم واقف نہ تھے انجام سے پہلے     مزید یہ بھی فرمایاکہ: آپ حضرات نے اپنا جو فرزند ہمارے سپرد کیا تھا، ہمارے اساتذہ نے اسے پڑھایا، سکھایا، اس کی تربیت کی اور ہیرا بنا کر اُسے چمکا دیا،پھر اُس نے اپنے علم سے ایک عالَم کو منور کیا۔ علمائ، طلبائ، عوام الناس حتیٰ کہ مفتیان کرام کی ایک بڑی تعداد کو فیض یاب کیا، گویا ایک کامیاب ترین زندگی گزاری اور پھرقابلِ رشک موت سے ہمکنار ہوا۔ آج ہم ’’دین پور شریف‘‘ کی یہ امانت واپس آپ کے سپرد کرنے آئے ہیں۔ بیانات کے بعد حضرت میاں مسعوداحمدصاحب مدظلہم نے حضرت شہید رحمہ اللہ کا دوسرا جنازہ پڑھایا، اور جنازہ کے بعد زیارت کرائی گئی، کچھ دیر بعد جنازہ کندھوں پر اٹھالیا گیا، ابھی اس گراؤنڈ سے باہر بھی نہ نکلا تھا کہ پھر زیارت کے لئے نیچے رکھ دیا گیا اور لوگوں کو قطار بناکر زیارت کرائی گئی۔  رُخِ زیبا سے ہوتا ہے ہویدا نُورِ ایمانی مجاہد مرد کی صورت پیاری دیکھتے جاؤ مَلَک صورت، فلک رتبہ، سراپا اسوۂ حسنہ  گزاری جس نے حق پر عمر ساری دیکھتے جاؤ     بالآخر چارپائی کے بانس کھول کر اسے گاڑی میں ’’دین پور شریف‘‘ لے جایا گیا۔ عقیدت مند وہاں بھی ہمراہ پہنچے۔ دین پور شریف کے قدیمی قبرستان کے ایک جانب وہ احاطہ ہے جس میں حضرت خلیفہ غلام محمد صاحبؒ، حضرت مولاناعبدالہادیؒ، حضرت سندھیؒاور حضرت درخواستیؒ جیسے اساطین علم ومعرفت آرام فرما ہیں۔ اس احاطے سے باہر عام قبرستان ہے۔ حضرت شہید رحمہ اللہ کے اقارب نے بتایا کہ حضرت کو اس احاطہ کے اندر دفن کرنے کی اجازت تو مل گئی تھی، لیکن جگہ کی کمی کے باعث اس احاطے کی دیوار سے چند گز کے فاصلے پر جہاں حضرت شہید رحمہ اللہ کے دیگر اقارب آرام فرماہیں، وہاں قبر بنائی گئی۔      جب جسدخاکی کو قبر میں رکھنے کے چارپائی سے اٹھایا گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چارپائی کی سفید پھول دار چادر تازے خون سے رنگین ہے۔ اور لوگ روئی کے ساتھ وہ خون لگا لگا کر اپنے پاس محفوظ کررہے ہیں،حالانکہ حضرت کی شہادت کو۲۳/۲۴گھنٹے گزر چکے تھے، لیکن زخموں سے تازہ خون ابھی تک رَس رہا تھا: مشک نہیں اور خوشبو مہکے عرش پہ پہنچا فرش پہ بہہ کے آگ نہیں اور شعلہ دہکے دیکھ کے اس کو عالَم حیراں خونِ شہیداں خونِ شہیداں     آپؒ کو اپنے اُسی لباس میں،جس میں شہادت کی خلعت ملی، سمیت حوالہ خاک کردیا گیا:  اِک نیا گھر بسا لیا تُو نے ہم سے دامن چھُڑا لیا تُو نے     حضرتؒ کے صاحبزادے اندر اُترے اور قبلہ رُخ کروٹ دلانے لگے، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مفتی شعیب عالم صاحب ہدایات دے رہے تھے اورحضرت کے صاحبزادے کمال صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے استاذمحترم کی ہدایات پر عمل کررہے تھے، کیونکہ حضرت شہید رحمہ اللہ کی تمام زندگی ’’اتباع سنت‘‘ سے عبارت تھی، اس لئے ان حضرات کی پوری کوشش تھی کہ کوئی عمل بھی سنت سے ہٹ کر نہ ہو۔ تمام امور سنت کے مطابق انجام پائیں اور الحمدللہ اس میں کامیاب ہوئے: خدائے پاک کے امر و نواہی کی اشاعت میں رہی ہے عمر بھر تک جہد جاری دیکھتے جاؤ     میں بار بار مفتی شعیب اور دیگر رفقائے کاروان بنوری کے روشن، منور اور چمکتے چہروں کو دیکھ رہا تھا، نظر تھی کہ اُن سے ہٹتی نہیں تھی۔ اور مجھ جیسے بے علم وعمل، گناہ گار، سیاہ کار، سراپا خطاکاراور بزدل ترین شخص کی حالت بھی یہ تھی کہ حضرت شہید رحمہ اللہ کی شہادت سے کسی قسم کا خوف وڈردامن گیر ہونے کی بجائے الٹا ’’شوقِ شہادت‘‘ جوش مار رہا تھا اوردین کی خاطر سینے پر گولیاں کھانے کے لئے دِل بری طرح مچل رہا تھا، اور بار بار دُعا نکل رہی تھی کہ: ’’یااللہ! جب بھی موت آئے، اپنے دین کی خاطر مخلصانہ شہادت کی موت نصیب فرما!‘‘۔ تو متقین وصالحین کا عالم کیا ہوگا؟اور بالخصوص بنوری ٹاؤن کے روحانی ونورانی ماحول میں رہنے والے تو شہادت کے جنون کی حد تک متمنی ہوتے ہیں۔اسی سے دشمن کو سمجھ لینا چاہئے کہ : اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دو گے     اور… یہ بازی خون کی بازی ہے یہ بازی تم ہی ہارو گے ہر گھر سے غازیؔ نکلے گا تم کتنے غازیؔ مارو گے؟     دشمن ذرا اُن افراد کو تو گن لے جو قاتلانہ حملوں، فائرنگ، ٹارگٹ کلنگ اور شہادتوں سے خائف ہوکر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن چھوڑ کر جاچکے ہیں؟… ذرا  اُن طلباء کو توشمار کرے جو خوف ودہشت کی وجہ سے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ نہیں لیتے، یا داخل تھے اور چھوڑ کر چلے گئے ہیں؟ ارے پاگلو! تم احمقوں کی جنت میں رہتے ہو! کبھی کوئی اپنی محبوب چیز سے بھی بھاگتا ہے؟ یہ تمہاری بھول ہے کہ تمہارے اِن ہتھکنڈوں سے خائف ہوکر اہلِ دین ومحبانِ وطن ’’کراچی ‘‘جیسے عالمی شہر کو تم جیسے جاہلوں، درندوں اور دین ووطن کے دشمنوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر وہاں سے چلے آئیں گے، جہاں تم بے دینی، بے راہ رَوی اوردرندگی وسفاکی کی حکومت قائم کرلو۔ نہیں! ہرگز نہیں!ٹھیک ہے، ہم پر وہاں مصائب وآلام اور آزمائشوںکی بوچھاڑ ہے، لیکن   ع  جس دَور میں جینا مشکل ہو اُس دَور میں جینا لازم ہے     اور… راہِ وفا میں ہر سُو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین