بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

بینک کے آئی۔ٹی ڈِپارٹمنٹ میں ملازمت کا حکم

بینک کے آئی۔ٹی ڈِپارٹمنٹ میں ملازمت کا حکم

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: میرا سوال یہ ہے کہ مجھے آج یو۔بی ۔ایل (U.B.L) بینک میں جاب (ملازمت) ملی ہے، لیکن میرا کوئی پیسوں سے لین دین نہیں ہے۔ میں یو۔بی ۔ایل (U.B.L)کے ہیڈ آفس (مرکزی دفتر) میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈِپارٹمنٹ میں کام کرتا ہوں۔ سوفٹ وئیر پر جو لوگ یو۔بی ۔ایل (U.B.L)بینک میں کام کرتے ہیں ان کی پریشانی دور کرتا ہوں۔ میرا اور کوئی کام نہیں ہے۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ میری یہ ملازمت حلال ہے یا نہیں؟  وضاحت:       سودی کاروبار ہوتا ہے یا نہیں، میں بالکل نیا ہوں، ہم جو کام کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ جو لوگ نوکری کرتے ہیں، ہم ان لوگوں کی آئی ڈی بناتے ہیں اور ان کے پاس ورڈ بناتے ہیں، بس یہی ہمارا کام ہے۔                                                                         مستفتی:وصی مہر الجواب حامداً ومصلیاً بصورتِ مسؤلہ یو۔بی ۔ایل (U.B.L) بینک میں سائل کی ملازمت دو وجہوں سے ناجائز ہے: ۱:… بینک کے بیشتر اِمور براہِ راست سودی ہوتے ہیں، اس ملازمت کے ذریعہ سوفٹ وئیر پر کام کرنے والے بینک ملازمین کے ساتھ فنی معاونت کا عمل پایا جارہا ہے، جو کہ شریعت کی رو سے معاصی پر تعاون کے زُمرے میں آتا ہے، اس لیے یہ ملازمت شرعاً ناجائز ہے۔ امام جصاصؒ ’’آیتِ تعاون‘‘ کے ذیل میں فرماتے ہیں: ’’وقولہ تعالٰی:’’وَلَاتَعَاوَنُوْا عَلٰی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِِ‘‘ نہٰی عن معاونۃ غیرنا علٰی معاصی اللّٰہ تعالٰی‘‘۔            (احکام القرآن للجصاص،سورۃ المائدۃ،ج:۲،ص:۴۲۹،ط:قدیمی)  ۲:… بینک جب سودی لین دین کا ادارہ ہے تو بینک اپنے تمام ڈِپارٹمنٹس کے ملازمین کو تنخواہ سودی منافع ہی سے دیتا ہے، جس کا حرام ہونا واضح ہے، لہٰذا سائل کا یو۔بی ۔ایل(U.B.L) بینک کے آئی۔ ٹی ڈِپارٹمنٹ میں ملازمت کرنا بھی ناجائز ہے، اس ملازمت کے صلہ میں ملنے والی تنخواہ اور دیگر مراعات سائل کے لیے حلال نہیں ہیں، سائل کوئی اور جائز ملازمت اور پیشہ اختیار کرنے کی کوشش کرے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ   حرام پیشے والی عورت کے علاج کی اُجرت کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اور اُجرت لینا مالِ حرام سے حرام ہے۔‘‘ (امدادُالفتاویٰ،اجارہ، ج:۳،ص:۳۷۸، ط: دارالعلوم کراچی) الفتاویٰ الہندیہ (کتاب الاجارۃ)میں ہے: ’’ وسئل إبراہیم بن یوسف ؒ عمن آجر نفسہ من النصارٰی لیضرب لہم الناقوس کل یوم بخمسۃ ویعطی کل یوم خمسۃ دراہم فی ذٰلک وفی عمل آخر درہمان ، قال: لایؤاجر نفسہ منہم ویطلب الرزق من طریق آخر ۔‘‘   ( ج:۴،ص:۴۵۰، ط:رشیدیہ)  علامہ حموی رحمۃ اللہ علیہ   شرح’’أشباہ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’قولہ: وأما مسئلۃ ما إذا اختلط الحلال بالحرام الخ فی التمرتاشی فی باب المسائل المتفرقۃ من کتاب الکراہۃ مانصہ: لرجل مال حلال اختلطہ مال من الربا أو الرشاۃ أو الغلول أو السحت أو مال الغصب أو السرقۃ أو الخیانۃ أو من مال یتیم فصار مالہ کلہ شبہۃ لیس لأحد أن یشارکہٗ أو یبایعہٗ أو یستقرض منہ أو یقبل ہدیتہٗ أو یأکل فی بیتہٖ ۔‘‘               (حاشیۃ الحموی علی الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثانیۃ، ج:۱،ص: ۳۴۵، ط: ادارۃ القرآن کراتشی) احکام المال الحرام (المبحث الاول، معاملۃ اصحاب المال الحرام)میں ہے: ’’فإذا اکتسب مسلم مالا حراما من ربا أو قمار أو بیع محرم ولم یتب إلی اللّٰہ تعالٰی وأراد أن یعامل أحدا من المسلمین بہٰذا المال وکان معلومًا أنہ یرید إیقاع المعاملۃ فی عین المال الحرام، فإنہٗ یحرم علی المسلمین معاملتہٗ بہٰذا المال، لأن الحرمۃ تنتقل من ذمتہٖ إلٰی ذمۃ من یعاملہٗ۔‘‘          ( ص:۲۳۴، ط: دارالنفائس ، بیروت) تکملہ فتح الملہم (کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب لعن آکل الربا وموکلہ )میں ہے: ’’عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکلَ الربا وموکلَہٗ وکاتبَہٗ وشاہدیہ وقال: ہم سوائ۔‘‘ قولہ وکاتبہ: لأن کتابۃ الربا إعانۃ علیہ ومن ھنا ظہر أن التوظفَ فی البنوک الربویۃ لایجوز ، فإن کان عملُ الموظف فی البنک مایعین علی الربا، کالکتابۃ أو الحساب، فذٰلک حرام لوجہین: الأول: إعانۃ علی المعصیۃ، والثانی: أخذ الأجرۃ من المال الحرام ، فإن معظم دخل البنوک حرام مستجلب بالربا ، وأما إذا کان العمل لاعلاقۃ لہٗ بالربا فإنہٗ حرام للوجہ الثانی فحسب۔‘‘  ( رقم الحدیث: ۴۰۶۲، ج:۱،ص:۶۱۹، ط: مکتبہ دارالعلوم کراتشی)               فقط واللہ اعلم      الجواب صحیح          الجواب صحیح          الجواب صحیح                  کتبہٗ    ابوبکرسعید الرحمن      محمد عبد القادر         رفیق احمد                 محمد کلیم اللہ                                                                  متخصصِ فقہِ اسلامی                                            جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین