بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’بیسی‘‘اور ’’کمیٹی‘‘ سسٹم کی شرعی حیثیت

’’بیسی‘‘اور ’’کمیٹی‘‘ سسٹم کی شرعی حیثیت

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں کہ:     ۱:۔۔۔۔۔ آج کل معاشرے میں رائج ’’بیسی سسٹم‘‘ یا ’’کمیٹی سسٹم‘‘کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آیا ’’بیسی اور کمیٹی‘‘سود کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں؟     ۲:۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں ایک دوست ’’بیسی ‘‘کا انتظام کرتے ہیں، جس کے کل ارکان دس ہیں۔ ہمارے دوست ہرماہ تمام ممبران سے رقم وصول کرکے بذریعہ قرعہ اندازی نکلنے والے ممبران کے حوالے کرتے ہیں، لیکن ہر مرتبہ وہ مجموعی رقم سے ۵۰۰ روپے اپنی جیب میں ڈالتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ میرا حق ہے، کیونکہ میں سب کو فون کرتاہوں، ان سے پیسے وصول کرتاہوں، اس پر خرچہ ہوتا ہے اور وقت لگتا ہے، اس لیے ۵۰۰ روپے خود لیتا ہوں۔ایسا کرنا صحیح ہے یا نہیں؟                              العارض: محمدعبید الجواب باسمہٖ تعالٰی     ۱:۔۔۔۔۔ صورتِ مسئولہ میں ’’بی سی‘‘ یا ’’کمیٹی‘‘ کا نظام شرعاً درست ہے،اس کی حیثیت قرض کی ہے، ہر شریک اتنی ہی رقم کا مستحق ہوتا ہے جتنی وہ مجموعی اعتبار سے جمع کرائے گا۔ ہاں! اگر اس میں شرائط لگائی جائیں کہ کسی کو کم، کسی کو زیادہ یا بولی لگا کر فروخت کی جائے تو یہ صورتیں درست نہیں، یہ سود کے زمرے میں داخل ہوں گی۔     ۲:۔۔۔۔۔کمیٹی جمع کرنے والا ممبر خود بھی کمیٹی میں شریک ہے تو اس کے لیے ہرماہ ۵۰۰ روپے رکھ لینا جائز نہیں، یہ قرض پر نفع ہے جو کہ حرام ہے۔ اگر کمیٹی کے ممبران سمجھتے ہیں کہ یہ جمع کرنے والا شخص واقعتا محنت ومشقت کرتا ہے تو الگ سے اس کے لیے اجرت مقرر کرسکتے ہیں،کمیٹی کی رقم سے نہیں۔فتاویٰ شامی میں ہے: ’’وفی الاشتباہ کل قرض جر نفعًا حرام (قولہ کل قرض جر نفعا حرام) أي إذا کان مشروطاً۔‘‘ (فتاویٰ شامی،ج:۵،ص:۱۶۶،ط:سعید)                                  فقط واللہ اعلم       الجواب صحیح               الجواب صحیح                            کتبہ     ابوبکرسعید الرحمن          محمد شفیق عارف                         عبد الحمید                                              دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین