بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

بستیِٔ دین پور کا ایک دُرِّ شہوار

بستیِٔ دین پور کا ایک دُرِّ شہوار

    ۱۸ ؍ربیع الاول ۱۴۳۴ھ بمطابق ۳۱ ؍جنوری ۲۰۱۳ء کی صبح پُو پھٹنے سے کچھ دیر قبل رات کے آخری پہرایک دین دار خاتون نے خواب دیکھا کہ سورج اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ افق پر فروزاں ہے اور خلقِ خدا اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہے ،اچانک سورج دن دَہاڑے غروب ہوگیااور دنیا گھٹاٹوپ اندھیروں کی وادی میں چلی گئی ۔خاتون نے اتناہی دیکھاتھاکہ فجر کی اذان کی آواز کے ساتھ گھبرا کرآنکھ کھلی اور وہ رونے لگی،اپنے گھر والوں کو جگا کر اُنہیں خواب سنایااورتعبیر یہ لی کہ کسی بڑے عالم کی شہادت ہونے لگی ہے،خداخیرکرے!۔     اسی روز دوپہرکونصف النہار کی تھوڑی دیربعداستاذِ محترم حضرت مولانامفتی محمدعبدالمجید دین پوری اور حضرت مولانا مفتی صالح محمدکاروڑی رحمہمااللہ اپنے مخلص خادم حسّان علی شاہ رحمہ اللہ کے ساتھ ظالم وقاسی القلب انسان نمادرندوں کے ہاتھوں شہادت کے عظیم رتبہ پرفائز ہوگئے ۔فإناللّٰہ وإناإلیہ راجعون۔     بندہ نے یہ خواب استاذِ محترم مولانا محمد عادل صاحب دامت برکاتہم سے سنا،اور ان تک محض ایک قریبی عزیزخاتون کے واسطہ سے پہنچاہے۔بلاشبہ اہلِ علم کی مثال سورج کی سی ہوتی ہے ،جس سے تمام جہاں روشن اور ساری مخلوق فیض یاب ہوتی ہے۔حضرت دین پوری شہید رحمہ اللہ علم وعمل کے آفتاب ہی تو تھے، جن کے ذریعے عوام وخواص راہ یاب ہورہے تھے۔ اور الحمدللہ! ان کی شہادت سے یہ سلسلہ رکا نہیں ،بلکہ چراغ سے چراغ جل رہا ہے،ان شاء اللہ! تاقیامت یوں ہی شمعیں فروزاں رہیں گی،ان کافیض جاری رہے گا،اوروہ اپنی آرام گاہ میں اس کااجروثواب سمیٹتے رہیں گے۔     حضرت مولانارحمہ اللہ بستی دین پور کے ایک عظیم سپوت تھے،جوتقریباً گزشتہ ڈیڑھ صدی سے علماء ومشایخ اور بند گانِ خداکامرکزِ توجہ رہی ہے، ۱۲۹۲ھ بمطابق ۱۸۷۶ء میں حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوری رحمہ اللہ(۱۳۵۴ھ؍۱۹۳۶ئ)کے دستِ اقدس سے قائم ہونے والی یہ بستی ظاہری اور باطنی علوم کاایک مرکزاور مذہب اور سیاست کے حسین امتزاج سے آراستہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ کانمونہ تھی، ایک سادہ سی مسجداورنیم پختہ مکانات پرمشتمل چھوٹاساگاؤں،جس کی مجموعی آبادی چندسینکڑوں سے متجاوز نہ تھی،حضرت خلیفہ صاحب رحمہ اللہ،ان کے خلفاء اور نسبی اور روحانی اولاد کی برکت سے اس کا آوازہ چاردانگِ عالم میں گونج اٹھااور بجاطورپر’’دین پور‘‘کہلانے کامستحق ٹھہرا،اس بستی کے مشائخ کے ہاتھوں ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں میں انقلاب آیا، زندگیاں بدلیں،بدعات ورسومات کے بادل چھٹے اور راہِ سنت نکھر کر سامنے آئی۔بستی کے بانی حضرت خلیفہ غلام محمد رحمہ اللہ ،ہمارے استاذِ محترم شہید رحمہ اللہ کے نانا مولاناعبدالمنان رحمہ اللہ کے ناناتھے،اوران اکابرکے علمی ،عملی اور روحانی فیوض سے خاندان میں دین داری وپرہیزگاری موروثی چیز کی طرح قائم تھی۔حضرت شہید رحمہ اللہ ان ہی خد اشناس بزرگوں میں پلے بڑھے اور ابتدائی تعلیم وتربیت پائی،پھر محدث العصر حضرت علامہ سید محمدیوسف بنوریؒ،مفتی ولی حسن ٹونکیؒ اورمولاناادریس میرٹھی رحمہم اللہ جیسے اساطینِ علم سے رسمی طلبِ علمی کی تکمیل فرمائی اورخصوصاً فقہ و فتاویٰ میں مہارت حاصل کی۔ یوں تعلیم وتربیت دونوں پہلوؤں سے اپنے وقت کے اکابر علما ومشائخ سے استفادہ اور استفاضہ کا موقع ملا،جوعلمی میدان میں بلندیوں تک رسائی کے لئے خشتِ اول ثابت ہوا۔     حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ ظاہری اورباطنی کمالات کے حامل تھے،اخلاص و للہیت اورتقویٰ وطہارت زندگی کاحصہ تھی اورتواضع وفروتنی ان کی اداؤں سے پھوٹتی تھی۔گزشتہ سال ختمِ بخاری شریف کے موقع پر اپنے مختصرنصائح آمیزبیان کے د ورا ن نم ناک آنکھوں اورلڑکھڑاتی آواز کے ساتھ فرمانے لگے :’’یہ قیامت کی علامات میں سے ہے کہ مجھ جیسا کم علم مسندِ حدیث پر بیٹھ کر علمِ حدیث پڑھانے کا فریضہ انجام دے رہاہے۔‘‘یہ بات کہتے ہوئے تصنع اور تکلف کا کوئی اثر محسوس نہ ہوتا تھااوراہلِ مجلس کے دل ودماغ ان کی قلبی کیفیت سے متأثرتھے۔یہی تواضع ان کے حال وچال سے ٹپکتی تھی،سلام کرتے تو انداز ایساہوتاکہ گویاکوئی طالب علم اپنے استاذ سے سلام کررہاہے۔ لباس وپوشاک میں سادگی اور عادت واطوار میں بے تکلفی تھی،عمامہ کااہتمام فرماتے تھے، لیکن اتباعِ سنت کے خیال سے سادہ انداز اختیارفرماتے تھے،ایک بار دارالافتاء میں ایک عالم تشریف لائے،ان سے گفتگو کے درمیان حضرت شہید رحمہ اللہ عمامہ باندھنے لگے،انہوں نے عرض کیاکہ حضرت! آپ یہ عمامہ کیسے باندھ رہے ہیں؟مجھے اجازت دیجئے، میں باندھ دیتا ہوں،فرمانے لگے کہ:’’ بھئی!سنت اس سے بھی ادا ہوجاتی ہے‘‘۔اس موقع پربندہ کے استفسار پرفرمایا کہ ’’عمامہ باندھنے کا کوئی مخصوص طریقہ سنت نہیں‘‘۔آج کل اس سنت کی ادائیگی میں عموماًتکلفات کاجو رخ چل پڑا ہے،اس کے پیش نظر استاذِمحترم کے اس طرزِ عمل میں ہم سب کے لئے خاموش درس ہے۔نمازباجماعت کااہتمام اور ادعیہ واذکار کی پابندی معمولات کاحصہ تھی۔ دارالافتاء میں تشریف فرما ہوتے تب بھی فتاویٰ کی تصحیح وتصدیق سے فارغ اوقات ذکر وفکر سے معموررہتے۔ باوضو رہنے کابھی اہتمام فرماتے تھے۔ سہ پہر کو تخصص فی الفقہ کے طلبہ کوسبق پڑھانے کے لئے تشریف لانے سے قبل جامعہ کی مسجد کے وضوخانے میں وضوفرماتے،پھردرس گاہ تشریف لے جاتے،بندہ نے ان گنت بار یہی معمول دیکھا،معمولات کی پابندی ان کے شب وروز میں نظر آتی۔پورادن مختلف علمی سرگرمیوں میں گزرتا اور رات کو دیر تک فتاویٰ کی تصحیح میں مشغول رہتے تھے۔اس کے بعد اٹھ کر جامعہ کے باہردکان سے خودجاکرگھر کے لئے دودھ خریدتے،طلبہ نے بارہادرخواست کی کہ یہ خدمت ہمارے سپردہو ،لیکن حضرت استاذِ محترم نے یہ معمول جاری رکھا،شاید اس میں اتباعِ سنت مقصودتھی اور یہ تعلیم بھی کہ گھرکاسوداسلف خریدنے کے لئے خود بازارجاناکسی عالم اور مفتی کے لئے کوئی حقارت کی بات نہیں،بہرحال ان کی پوری زندگی جفاکشی سے عبارت تھی اور کسل مندی سے کوسوں دور تھے۔ ٍ    حضرت شہید رحمہ اللہ کاایک اہم وصف ان کی’’ فقہی بصیرت‘‘ تھا،فقہی مزاج اورمذاق ان کی رگ وپے میں سرایت کرگیا تھا۔ اپنے بزرگوں سے سنا اوراصولِ افتاء کی کتابوں میں پڑھاہے کہ یہ چیز محض کثرتِ مطالعہ یاعبارات اور حوالہ جات یاد کرنے سے پیدانہیں ہوتی،بلکہ ایک نعمتِ خداداد اور وہبی ملکہ ہے،جس میں محنت ومطالعہ کے ساتھ باطن کی صفائی اور تقویٰ وطہارت شرطِ اول کی حیثیت رکھتی ہے، جومحض ظاہری نصاب ونظام سے حاصل ہونے والی چیز نہیں،بلکہ اہل اللہ کی صحبت اورذکروفکرکے اہتمام کے ساتھ عرصہ دراز تک محنت ومجاہدہ کی چکی میں پسنے کے بعدیہ مقام حاصل ہوتاہے۔ حضرت استاذِ محترم ایک علمی اور روحانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے،پھر مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ اورمفتی عبدالسلام چاٹگامی مد ظلہ جیسے فقہی ملکہ رکھنے والوں کے صحبت یافتہ تھے، نیز کئی دہائیوں  سے فقہ و فتویٰ کے میدان سے وابستہ تھے،اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کواس علم میں خاص مہارت عطافرمارکھی تھی۔دورِ حاضر کے اکابر مفتیانِ کرام ان کی اس خوبی کابرملااعتراف فرماتے تھے اوردارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن،جس کی مرکزیت وعظمت علمی دنیا ہی میں نہیں، عوام وخواص کے مختلف طبقات میں مسلم ہے، حضرت رحمہ اللہ اس میں ایک اہم ذمہ داری پرفائز تھے اورحضرت مفتی عبدالسلام چاٹگامی مدظلہ کی وطن واپسی کے بعد عملی طور پروہی دارالافتاء کے رئیس تھے۔ان کی رائے بہت وزنی اور مدلل ہوتی تھی، مشکل وپیچیدہ مسائل میں دیگراساتذہ ومفتیانِ کرام انہی کی طرف رجوع فرماتے تھے اور فتاویٰ کی آخری تصحیح بھی استاذِمحترم کے سپرد تھی۔ان تک پہنچنے سے قبل فتویٰ تحقیق و مطالعہ کے ایک مرحلہ سے گزرچکاہوتا،لیکن اس کے باوجود بعض اوقات کوئی ایساباریک نکتہ نکال لیتے تھے کہ ان کی فقاہت کی داددینی پڑتی تھی،بسااوقات صرف ایک لفظ بدلنے کاحکم فرماتے لیکن اس ایک لفظ کی تبدیلی سے بھی فتویٰ کاتعبیری اور تشریحی رخ ہی بدل جاتاتھا،فتویٰ کی نوک پلک سنوارنے اور’’ تشقیق‘‘سے اجتناب کی ہدایت فرماتے۔ایسے فتاویٰ جن میں مزید تنقیح یاتبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ان کواپنے بائیں طرف رکھ دیتے،اس کے لئے ’’کسٹم‘‘کی اصطلاح اراکینِ دارلافتاء اورمتخصصین میں مشہورہے۔ حضرت استاذِ محترم کے فتویٰ روکنے کی اطلاع جب متخصص کو ملتی تو وہ سوچ بچار میں پڑ جاتا کہ کہاں غلطی ہوئی؟ استاذ محترم طلب فرماتے اور غلطی پر متنبہ فرماکر اپنے سامنے اسی سے تبدیلی کرواتے،یوں متخصصین کی عملی تربیت کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔افتاء میں ان کا مسلک اعتدال کا تھا،افراط وتفریط اور تشدد یا مساہلت سے نفور تھا۔دارالافتاء کے اصول وضوابط کا حد درجہ خیال فرماتے تھے۔افتاء میں عرف سے واقفیت اور حالات زمانہ سے آگاہی بھی ایک اہم پہلو ہوتا ہے، حضرت شہید رحمہ اللہ اس سلسلہ میں بھی خصوصی درک رکھتے تھے،اور افتاء کے میدان سے متعلق نت نئی معلومات بہم رکھتے تھے۔اسی طرح مختلف علاقوں کی رسوم ورواج سے واقف تھے اور ان چیزوں سے فتویٰ میں مدد لیتے تھے۔جامعہ کے دارالافتاء کا جو مرتبہ ومقام ہے،اس کے پیش نظر دارالافتاء کی کوئی ذمہ داری شاخِ نازک کی حیثیت رکھتی ہے، حضرت استاذ محترم رحمہ اللہ نے دارالافتاء کی رکنیت کو امانت خداوندی سمجھ کر گزشتہ تقریباًسترہ برس سے پوری جانفشانی و جانگدازی کے ساتھ اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے۔اللہ تعالیٰ جامعہ کے اس شعبہ کو اپنے خصائص و امتیازات کے ساتھ یوں ہی قائم دائم رکھے۔آمین!     فقہ و فتویٰ کی طرح تدریسی میدان میں بھی حضرت دین پوری رحمہ اللہ کا نمایاں مقام تھا۔ راقم الحروف کوحضرتؒ سے ہدایہ ثالث کاکچھ حصہ ،ترمذی جلد ثانی ، شمائلِ ترمذی ،ردالمحتار اورشرح عقود رسم المفتی پڑھنے کاموقع ملا۔ فقہ تو حضرت کااختصاصی مضمون تھااورہدایہ ثالث انہوں نے کافی عرصہ پڑھائی ہے،اس لئے ہدایہ میں وہ ابواب کے اصول بتلا کراس کے تحت آنے والی جزئیات روانی سے بتاتے اور عبارت حل کرواتے جاتے اور اس طرح طلبہ کی فقہی تربیت فرماتے تھے۔جزئیات کی بجائے ہرباب کے کلیات اوراصول کی طرف رہنمائی کرنا ہدایہ کے طلبہ میں فقہی مزاج پیداکرنے کاایک بہترین وقابلِ تقلید طریقہ ہے،اس لئے کہ کثرت کی بناپرجزئیات ہاتھ نہیں آتیںاوران کااستحضارنہیں ہوپاتا،اگرچہ حضرت مولاناانور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی نظر میں جزئیات کی بجائے قواعد پرانحصارسے فقہ میں رسوخ پیدانہیں ہوتا۔(ملفوظات کشمیریؒ، ص:۲۵۹،ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ)لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ طبائع میں جوتکاسل چھاگیاہے، اس کی بناپریہی صورت زیادہ مفید معلوم ہوتی ہے۔     یہ چندنمایاں اوصاف تھے جوبندہ کی کوتاہ نظر میں ممتازاورلائقِ تقلیدہیں۔ تمام اوصاف و کمالات کااحاطہ مقصود ہے، نہ اس کی استطاعت۔حضرت استاذِمحترم کی شہادت ان کے لئے توباعثِ شرف ہے، بلکہ ان کی آرزو کی تکمیل ہے، لیکن رونایہ ہے کہ ایسی شخصیات برسہابرس کی محنتوں کے بعدتیارہوتی ہیں اور جب وہ اٹھتی ہیںتواپنے پیچھے ایسا خلا چھوڑ جاتی ہیں، جس کے پر ہونے کادور دورتک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ایسی صورتِ حال میں موجودہ اکابر کی حفاظت اوردرازیٔ عمر کی دعاؤں کے ساتھ ان کے وجودسے جوعلمی وروحانی استفادہ ممکن ہو، اس میں کوتاہی برتناکفرانِ نعمت ہوگا۔اللہ تعالیٰ ان اکابرکاسایہ ہم پرتادیرقائم رکھے۔آمین!

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین