بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

برکاتِ سُنَّت

برکاتِ سُنَّت

’’سنّت‘‘ کے معنی طریقہ وعادت کے ہیں اور ہم جب سنّت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد ہوتا ہے ’’آنحضرت ا کا طریقۂ زندگی‘‘۔امام راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں: ’’وسُنّۃ النبی ا طریقتہ التی کان یتحرّاہا‘‘۔            (مفردات،ص:۲۴۵) ترجمہ:۔’’آنحضرت ا کی سنت سے مراد ہے آپ ا کا وہ طریقہ جس کو آپ ا قصداً اختیار فرمایا کرتے تھے‘‘۔ سنت کا یہ مفہوم بڑا وسیع اور جامع ہے اور پورا دین اور دین کے تمام شعبے اس کے اندر آجاتے ہیں۔ آنحضرت ا نے کن عقائد کی تعلیم فرمائی؟ عبادات کیسے ادا فرمائیں تھیں؟ معاملات ومعاشرت میں آپ ا کا طریقہ کیا تھا؟ سیاست وجہانبانی، صلح وجنگ اور فصلِ خصومات میں آپ ا کا کیا انداز تھا؟ آپ ا کی رفتار وگفتار، نشست وبرخاست کیسی ہوتی تھی؟ کیسی شکل وشباہت اور لباس وپوشاک کو آپ ا پسند یا ناپسند فرماتے تھے؟ الغرض عقائد ہوں یا عبادات، اخلاق ہوں یا معاملات، معاشرت ہو یا سیاست، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں آنحضرت ا کے نقشِ پا ثبت نہ ہوں اور آپ ا نے اس میں امت کی رہنمائی نہ فرمائی ہو۔ سُنّت کی عظمت واہمیت:     ہرمسلمان کو شاہراہِ حیات پر سفر کرتے ہوئے قدم قدم پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس معاملہ میں آنحضرت ا کی سنت اور آپ ا کا طریقہ کیا ہے؟ اس کے دلائل بے شمار ہیں، مگر میں یہاں صرف تین وجوہ کے ذکر پر اکتفا کروں گا: اول: یہ کہ ہم آنحضرت ا کے امتی ہیں۔ کلمہ طیبہ ’’لا إلٰہ إلا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘  پڑھ کر ہم آپ ا کی رسالت ونبوت پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے یہ عہد باندھا کہ ہم آپ ا کے ہر حکم اور ہر ارشاد کی تعمیل کریںگے۔ اس معاہدۂ ایمانی کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری تمام زندگی کا کوئی قدم منشائے نبوی ا کے خلاف نہ اٹھے اور ہماری تمام خواہشات سنت نبوی ا کے تابع ہوں، کیونکہ اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ آنحضرت ا کا ارشاد گرامی ہے: ’’لایؤمن أحدکم حتی یکون ہواہ تبعاً لما جئت بہ‘‘۔         (مشکوٰۃ،ص:۳۰) ترجمہ:۔’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ اس کی خواہش اس دین کے تابع ہو جائے، جسے میں لے کر آیاہوں‘‘۔ پس آنحضرت ا کے منصب رسالت ونبوت اور ہمارے اُمتی ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم آنحضرت ا کے طریقۂ زندگی کو پورے طور پر اپنائیں اور کسی دوسرے طریقۂ زندگی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے: ’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اﷲِ‘‘۔                  (النسائ:۶۴) ترجمہ:۔’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا، صرف اسی لئے بھیجا کہ بحکم خداوندی اس کی فرمانبرداری کی جائے‘‘۔ آپ ا کی سنت اور آپ ا کے طریقۂ زندگی سے انحراف، ایک لحاظ سے گویا آپ ا کی رسالت ونبوت کا انکار کردینے کے ہم معنی ہے۔ صحیح بخاری میں آنحضرت ا کا ارشاد ہے: ’’کل أمتی یدخلون الجنۃ إلا من أبیٰ، قیل ومن أبیٰ؟ قال من أطاعنی دخل الجنۃ، ومن عصانی فقد أبیٰ‘‘۔                           (مشکوٰۃ،ص:۲۷) ترجمہ:۔’’میری امت کے سارے لوگ جنت میں داخل ہوںگے، سوائے اس کے جس نے انکار کردیا، عرض کیا گیا، انکار کس نے کیا؟ فرمایا: جس نے میرا حکم مانا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے حکم عدولی کی، اس نے انکار کردیا‘‘۔ دوسری وجہ یہ کہ آنحضرت ا سے ہمارا تعلق محض قانون اور ضابطے کا نہیں، کیونکہ آپ ا ہمارے محبوب بھی ہیں اور محبوب بھی ایسے کہ حسینانِ عالم میں کوئی بھی محبوبیت میں آپ ا کی ہمسری نہیں کرسکتا، چنانچہ ارشاد ہے: ’’لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین‘‘۔                                                                   (متفق علیہ، مشکوٰۃ، ص:۱۲) ترجمہ۔’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب ہوجاؤں‘‘۔ اور محبت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ محب کو اپنے محبوب کا ہم رنگ بنا دیتی ہے۔ کسی عاشق دل دادہ سے پوچھئے کہ اس کے نزدیک محبوب کی اداؤں کی کیا قدر وقیمت ہے اور وہ چال ڈھال اور رفتار وگفتار میں اپنے محبوب سے ہم رنگی ومشابہت کی کتنی کوشش کرتا ہے؟۔ آنحضرت ا جب جانِ جہاں اور محبوبِ محبوبانِ عالم ہیں تو آپ ا کے ایک سچے عاشق کو آپ ا کی اداؤں پر کس قدر مرمٹنا چاہئے؟ ایک عارف فرماتے ہیں: پس جو لوگ آپ ا کی سنت سے انحراف کرکے یہود ونصاریٰ کی سنت کو اپناتے ہیں، ان کا دعوئ محبت بے روح ہے: تعصی الرسول وأنت تزعم حبہ ہذا لعمری فی الزمان بدیع لو کنت صادقا فی حبہ لأطعتہ فإن المحب لمن یحب یطیع ترجمہ:۔’’تم رسول اللہ ا کی نافرمانی بھی کرتے ہو اور آپ ا سے محبت کے بھی دعویدار ہو۔ بخدا! یہ بات تو زمانے کے عجائبات میں سے ہے۔ اگر تم آپ ا کی محبت میں سچے ہوتے تو آپ ا کی بات مانتے، کیونکہ عاشق تو اپنے محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے‘‘۔ تیسری وجہ یہ کہ: آنحضرت ا خاتم النبیین ہیں اور قیامت تک کے لئے دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی اور انسانیت کی فلاح وسعادت آپ ا کے قدموںسے وابستہ کردی گئی ہے۔ اگر اس دنیا میں سعادت وکامیابی کے ایک سے زیادہ راستے ہوتے تو ہمیں اختیار ہوتا کہ جس راستے کو چاہیں اختیار کرلیں، لیکن یہاں ایسا نہیں، بلکہ ہدایت وسعادت، صلاح وفلاح اور کامیابی وکامرانی کا بس ایک ہی راستہ کھلا ہے اور وہ حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ ا کا راستہ ہے، اس راستہ کے علاوہ باقی تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں: مپندار سعدی کہ راہِ صفا تواں رفت جز بر پئے مصطفیؐ حضرت عمر ؓ کا مشہور قصہ ہے کہ وہ ایک بار یہودیوں کے بیت المدراس تشریف لے گئے اور وہاں سے تورات کے چند اوراق اٹھا لائے اور انہیں آنحضرت ا کی خدمت میں پڑھنا شروع کیا۔ آنحضرت ا کے چہرۂ انور کا رنگ بدلنے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ کے توجہ دلانے پر انہوں نے آنحضرت اکے چہرۂ انور کا رنگ دیکھا تو اوراق لپیٹ کر رکھ دیئے، اور یہ کہنا شروع کیا: ’’أعوذ باﷲ من غضب اﷲ وغضب رسولہ، رضیت باﷲ ربا، وبالإسلام دینا وبمحمد ا نبیا‘‘۔ ترجمہ:۔’’میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اللہ کے غضب سے اور اس کے رسول ا کے غضب سے، میں اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مان کر، اسلام کو اپنا دین مان کر اور محمد ا کو اپنا نبی مان کر راضی ہوا‘‘۔ آنحضرت ا نے فرمایا: ’’والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسیٰ فاتبعتموہ وترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل ولو کان حیاً وأدرک نبوتی لاتبعنی‘‘۔      (مشکوٰۃ،ص:۲۲۲) ترجمہ:۔’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں محمد ا کی جان ہے، اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے سامنے آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگو تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤگے اور اگر وہ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو وہ خود میری پیروی کرتے‘‘۔ اور حضرت جابر ؓ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’أمتہوّکون أنتم کما تہوّکت الیہود والنصاریٰ؟… لقد جئتکم ببیضاء نقیۃ ولو کان موسیٰ حیا ما وسعہ إلا اتباعی‘‘۔                (مشکوٰۃ،ص:۳۰) ترجمہ:۔’’کیا تم اسی طرح بھٹکا کروگے جس طرح یہود ونصاریٰ بھٹک رہے ہیں، بخدا ! میں تمہارے پاس روشن اور صاف ستھری شریعت لے کر آیا ہوں اور اگرحضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا‘‘۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنے اپنے دور میں ہدایت وسعادت کے سرچشمے تھے، لیکن آنحضرت ا کی تشریف آوری کے بعد یہ تمام سرچشمے بند کر دیئے گئے اور ان پر خط تنسیخ کھینچ دیا گیا اور آنحضرت ا کی سنت وطریقہ کے بجائے ان حضرات کی شریعت وطریقہ پر عمل کرنا بھی ضلالت وگمراہی قرار پائی۔ اس واقعہ سے ہمیں تین عظیم الشان سبق ملتے ہیں: ایک: یہ کہ جب انبیاء گذشتہ کی پیروی بھی ہمارے لئے موجب فلاح وسعادت نہیں، بلکہ گمراہی وضلالت ہے تو ان کی بھٹکی ہوئی قوموں کے نقشِ قدم پر چلنا فلاح وسعادت کا موجب کیونکر ہوسکتا ہے؟ اسی سے اندازہ کیجئے کہ آج کے مسلمان جو سنت نبوی ا پر عمل پیرا ہونے کے بجائے یہود ونصاریٰ کی نقالی میں فخر محسوس کرتے ہیں، وہ فلاح وسعادت سے کس قدر محروم ہیں اور ان کی ضلالت وگمراہی کس قدر لائقِ صد ماتم ہے۔ آج اُمتِ مسلمہ در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے، اس کا راز یہی ہے کہ اس نے اپنا قبلہ تبدیل کرلیا۔ وہ نبی رحمت ا کے دامنِ رحمت سے کٹ کر وابستۂ اغیار ہوگئی ہے۔ وہ آنحضرت ا کے مقدس طریقۂ زندگی کو چھوڑ کر گمراہ ومغضوب قوموں کے اختراع کردہ نظامہائے زندگی کی تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے۔ اس نے آفتاب مدینہ سے منہ موڑ کر مغرب کی ظلمتوں سے روشنی کی دریوزہ گری شروع کردی ہے۔ انہوں نے اپنے آئین سیاست اور اپنے آداب معاشرت، اپنی شکل وصورت اور اپنی عقل وخرد کو یہود ونصاریٰ کے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔ آج کسی مسلمان کی شکل وصورت، اس کے رہن وسہن، اس کی نشست وبرخاست، اس کے اندازِ گفتگو اور اس کے مظاہر زندگی کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ حضرت محمد رسول اللہ ا کا امتی ہے یا کسی یہودی وعیسائی اور کسی خدا بیزار قوم کا فرد ہے۔ اپنے نبی رحمت ا سے ایسی بے وفائی واحسان فراموشی کا نتیجہ ہے کہ انفرادی طور پر ہر شخص کا ذہنی سکون غارت ہوچکا ہے اور اجتماعی طور پر ذلت وخواری ان کا مقدر بن چکی ہے۔ خرمانتواں یافت ازیں خارکہ کشتیم دیبا نتواں بافت ازیں پشم کہ رشتیم دوسرا سبق ہمیں اس سے یہ ملتا ہے کہ جب آنحضرت ا کی تشریف آوری کے بعد حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتیں بھی منسوخ ہوگئیں، تو آپ ا کے کسی نقال اور کسی جھوٹے مدعی نبوت کی پیروی کی گنجائش کب رہ جاتی ہے؟ اور اگر دورۂ محمدی ا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی بھی گمراہی وضلالت ہے تو کسی مسیلمۂ پنجاب اور اسودِ قادیان کی پیروی کے جہالت وحماقت ہونے میں کیا شبہ رہ سکتا ہے؟۔ تیسرا سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ جب آنحضرت ا کے بعد انبیاء گذشتہ کی سنتوں اور طریقوں کو اختیار کرنے کی بھی گنجائش نہیں تو بعد کے کسی انسان کی خود تراشیدہ خواہشات وبدعات کو اپنانے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ دین کے نام پر خود تراشیدہ رسوم وبدعات کی سخت مذمت کی گئی ہے اور ضلالت وگمراہی فرمایا گیاہے۔ حضرت عرباض بن ساریہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن نماز سے فارغ ہو کر آنحضرت ا نے ہمیں ایسا بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں سے سیل اشک رواں ہوگئے اور دل تھر تھرا گئے۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو ایسا وعظ فرمایا، گویا آپ ہمیں رخصت فرمارہے ہیں، اس لئے ہمیں کوئی خصوصی وصیت فرمایئے، ارشاد ہوا: ’’أوصیکم بتقوی اﷲ والسمع والطاعۃ، وإن کان عبداً حبشیاً فإنہ من یعش منکم بعدی فسیریٰ اختلافاً کثیراً، فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین، تمسکوا بہا، وعضوا علیہا بالنواجذ، وإیاکم ومحدثات الأمور فان کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ‘‘۔ (مشکوٰۃ،ص:۳۰) ترجمہ:۔’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی اور امیر کی سمع وطاعت بجالانے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ حبشی غلام ہو، کیونکہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہا، وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، پس میری سنت کو اور خلفائے راشدینؓ کی سنت کو لازم پکڑنا اور دانتوں کی کچلیوں سے مضبوط تھام لینا اور جو نئے نئے امور دین میں اختراع کئے جائیں ان سے بچتے رہنا، کیونکہ ہر ایسی ایجاد تو بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔ اکابر امت فرماتے ہیں کہ دین میں کسی نئی بدعت کی ایجاد در پردہ رسالت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیمات) کی تنقیص ہے، کیونکہ بدعت کے ایجاد کرنے والا گویا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی ایجاد کردہ بدعت کے بغیر دین نامکمل ہے اور یہ کہ نعوذ باﷲ !خدا ورسول ا کی نظر وہاں تک نہیں پہنچی، جہاں اس بدعت پرست کی پہنچی ہے، یہی وجہ ہے کہ بدعت کے ایجاد کرنے کو دین اسلام کے منہدم کردینے سے تعبیر فرمایا، حدیث میں ہے: ’’مَنْ وَقَّرَ صاحبَ بدعۃٍ فقد أعان علی ہدم الإسلام‘‘۔           (مشکوٰۃ،ص:۳۱) ترجمہ:۔’’جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم وتوقیر کی، اس نے اسلام کے منہدم کرنے پر مدد کی‘‘۔ ان ضروری امور کی وضاحت کے بعد اب ’’برکاتِ سنت‘‘ کو بیان کرتا ہوں، لیکن یہ عرض کردینا ضروری ہے کے ’’برکاتِ سنت‘‘ بے شمار ہیں، ان کا احاطہ ممکن نہیں، یہاں بطور نمونہ چند امور کو بیان کر سکوں گا۔ محبوبیتِ خداوندی: اتباع سنت کی سبب سے اہم برکت یہ ہے کہ اس کی بدولت آدمی اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہوجاتا ہے، قرآن کریم میں ہے: ’’قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘۔                                                  (آل عمران:۳۱) ترجمہ:۔’’آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو، خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیںگے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیںگے اور اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے بڑے عنایت فرمانے والے ہیں‘‘۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اس کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں: ’’یعنی اگر دنیا میں آج کسی شخص کو اپنے مالک حقیقی کی محبت کا دعویٰ یا خیال ہو تو لازم ہے کہ اس کو اتباع محمدی ا کی کسوٹی پر کس کر دیکھ لے، سب کھرا کھوٹا معلوم ہو جائے گا۔ جو شخص جس قدر حبیب خدا محمد رسول اللہ ا کی راہ چلتا، آپ ا کی لائی ہوئی روشنی کو مشعل راہ بناتا ہے اسی قدر سمجھنا چاہئے کہ خدا کی محبت کے دعویٰ میں سچا اور کھرا ہے اور جتنا اس دعویٰ میں سچا ہوگا، اتنا ہی حضور ا کی پیروی میں مضبوط ومستعد پایا جائے گا، جس کا پھل یہ ملے گا کہ حق تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگے گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور حضور ا کے اتباع کی برکت سے پچھلے گناہ معاف ہو جائیںگے اور آئندہ طرح طرح کی ظاہری وباطنی مہربانیاں مبذول ہوں گی‘‘۔ اتباع نبوی ا کی برکت سے حق تعالیٰ شانہ کی محبت ومحبوبیت حاصل ہونے کا راز یہ ہے کہ آنحضرت ا محبوب رب العالمین ہیں۔ جو شخص بھی آنحضرت ا کی شکل وشباہت، آپ ا کے اخلاق واعمال اور آپ ا کی سیرت وکردار کو اپنائے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہو جائے گا، کیونکہ محبوب کی ادائیں بھی محبوب ہوتی ہیں۔ دوسرے: یہ کہ آپ ا کی ہرہرادا اور آپ ا کا ہر قول وعمل منشأ الٰہی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، گویا اگر کوئی شخص رضائے الٰہی کو مجسم شکل میں دیکھنا چاہتا ہو، وہ آنحضرت ا کو دیکھ لے، یہی وجہ ہے کہ آپ ا کی اطاعت کو عین اطاعتِ خداوندی قرار دیا گیا، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اﷲَ، وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظاً‘‘۔                                                        (النسائ:۸۰) ترجمہ:۔’’جس نے حکم مانا رسول کا، اس نے حکم مانا اللہ کا۔ اور جو الٹا پھرا تو ہم نے تجھ کو نہیں بھیجا ان پر نگہبان‘‘۔                                (ترجمۂ شیخ الہندؒ) پس جب آپ ا کی سنت، رضائے الٰہی کا معیار ہوئی اور آپ ا کی اطاعت عین اطاعت خداوندی قرار پائی تو جو شخص بھی آپ ا کی سنت اور آپ ا کے مبارک طریقوں کو اپنائے گا اور جو شخص بھی آپ ا کی معین کردہ شاہراہ عمل پر گامزن ہوگا، وہ رضائے الٰہی کا مورد ہوگا اور ’’رضی اﷲ عنہم ورضوا عنہ‘‘ کی بشارت سے سرفراز ہوگا۔ یہ امت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیمات) کی انتہائی سعادت وخوش بختی ہے کہ انہیں آنحضرت ا کی پیروی سے محبوبیت ورضائے الٰہی کا مقام میسر آسکتا ہے۔ گوئے توفیق وسعادت درمیان افگندہ اند کس بمیدان در نمی آید سواراں را چہ شد یہاں یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ محبت دو طرفہ چیز ہے، پس جو شخص اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوگا وہ محب بھی ہوگا، جیساکہ ارشاد ہوا ہے: ’’یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ‘‘ ۔یعنی ’’اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں‘‘۔ گویا محبوب رب العالمین ا کی سنت کو اختیار کرنے والے کو دو انعام عطا ہوتے ہیں: ایک: یہ کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے اور دوسرے: یہ کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’محب صادق‘‘ ہونے کی سند عطا کی جاتی ہے۔ یہ دونوں کتنے بڑے انعام ہیں؟ اس کی قدر کسی عاشقِ صادق سے پوچھئے، حضرت اقدس عارف باللہ ڈاکٹر عبد الحئ عارفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب کبھی شوریدگانِ عشق کا ہوتا ہے ذکر اے زہے قسمت! کہ ان کو یاد آجاتا ہوں میں معیتِ نبوی ا: اتباع سنت کی ایک برکت یہ ہے کہ ایسے شخص کو جنت میں آنحضرت ا کی معیت نصیب ہوگی، آنحضرت ا نے اپنے خادم خاص حضرت انس ؓ سے فرمایا تھا: ’’یا بنی! إن قدرت أن تصبح وتمسی ولیس فی قلبک غش لأحد فافعل ثم قال: یا بنی! وذلک من سنتی، ومن أحب سنتی فقد أحبنی ومن أحبنی کان معی فی الجنۃ‘‘۔                                  (مشکوٰۃ،ص:۳۰) ترجمہ:۔’’اے بیٹا! اگر تو اس پر قادر ہو کہ ایسی حالت میں صبح وشام کرے کہ تیرے دل میں کسی کی جانب سے میل نہ ہو تو ضرور ایسا کر، پھر فرمایا: اے بیٹا! اور یہ میری سنت میں سے ہے اور جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا‘‘۔ اس حدیث پاک میں سنت نبوی ا کو محبوب ومرغوب رکھنے والے کے لئے متعدد انعامات کی بشارت ہے۔ ایک: یہ کہ ایسے شخص کا نام آنحضرت ا کے عشاق ومحبین میں لکھا جائے گا، گویا ’’عشق رسول‘‘ کا معیار ہی ’’سنت نبوی ا‘‘ سے محبت ہے، جو شخص جس قدر متبع سنت ہوگا، اسی قدر عشق رسالت میں اس کا مقام بلند ہوگا اور جو شخص جس قدر سنت نبوی کی پیروی سے محروم ہوگا، اسی قدر ’’عشق نبوی‘‘ سے بے نصیب ہوگا۔ دوسرے: یہ کہ اتباع سنت پر صادق مصدوق ا نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ ایسا وعدہ ہے جس میں تخلف کا کوئی امکان نہیں، پس عشق ومحبت کے ساتھ سنت نبوی کی پیروی جنت کا ٹکٹ ہے۔ تیسرا انعام جو تمام انعامات سے مزید تر ہے، یہ ہے کہ ایسے شخص کو جنت میں آنحضرت ا کی رفاقت ومعیّت نصیب ہوگی اور یہ مضمون قرآن کریم میں بھی منصوص ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: ’’مَنْ یُّطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اﷲُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰئِکَ رَفِیْقاً، ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اﷲِ وَکَفٰی بِاﷲِ عَلِیْماً‘‘۔                                    (النسائ:۶۸،۶۹) ترجمہ:۔’’اور جو کوئی حکم مانے اللہ کا اور اس کے رسول کا، سو وہ ان کے ساتھ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا کہ وہ نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بخت ہیں اور اچھی ہے ان کی رفاقت، یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ کافی ہے جاننے والا‘‘۔(ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ) اس نعمتِ کبریٰ اور دولتِ عظمیٰ سے بڑھ کر کونسی نعمت ہوسکتی ہے کہ کسی خوش بخت کو سرور کونین ا اور دیگر انبیاء علیہم السلام، صدیقینؓ، شہدائؒ اور صالحینؒ کی صحبت ورفاقت میسر آجائے۔ سوشہید کا مرتبہ: شہید فی سبیل اللہ کا مقام کتنا بلند ہے؟ اور اسے کس قدر انعامات سے نوازا جاتا ہے؟ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ا میں اس کی تفصیل موجود ہے، لیکن ’’سنت نبوی ا‘‘ پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرنے والے کو سو شہید کا مرتبہ عطا کیا جاتا ہے، حدیث شریف میں ہے: ’’من تمسک بسنتی عند فساد أمتی فلہ أجر مائۃ شہید‘‘۔  (مشکوٰۃ،ص:۳۰) ترجمہ:۔’’جس شخص نے میری سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھا میری امت کے بگاڑ کے وقت، اس کے لئے سو شہید کا اجر ہے‘‘۔ یہ حدیث متعدد فوائد پر مشتمل ہے: ایک: یہ کہ اس میں امت کے عمومی بگاڑ کی پیشن گوئی فرمائی گئی ہے۔ ’’عمومی بگاڑ‘‘ کا لفظ میں نے اس لئے کہا کہ لاکھ دو لاکھ آدمیوں کی جماعت میں اگر سو پچاس آدمی بگڑے ہوئے ہوں تو اس بگاڑ کو پوری جماعت کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا۔ یہاں آنحضرت ا نے ’’فساد امت‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جس میں ا س طرف اشارہ ہے کہ امت کی اکثریت میں فساد آئے گا، کہیں عقائد کا بگاڑ ہوگا، کہیں اعمال کا، کہیں اخلاق کا، کہیں معاملات اور معاشرت کا بگاڑ ہوگا، آج امت کے مجموعی حالات پر نظر ڈالی جائے تو ’’فساد أمتی‘‘ کا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ دوم: یہ کہ امت کا یہ بگاڑ ترک سنت کی وجہ سے ہوگا، یعنی امت، آنحضرت ا والے اعمال اور اخلاق وآداب کو چھوڑ کر گمراہ قوموں کے نقش قدم پر چل پڑے گی اور یہی چیز اس کے عالمگیر فساد کا سبب بن جائے گی۔ یہ امت غیر قوموں کی تقلید کے لئے وجود میں نہیں لائی گئی، بلکہ اقوامِ عالم کی امامت وقیادت کا تاج اس کے سر پر رکھا گیا تھا، اور وہ امامت وقیادت کے منصب پر اسی وقت تک فائز رہے گی، جب تک وہ خود اپنے نبی الرحمت ا کی مقتدی ہو، آپ ا کے نقش قدم کی پابند ہو اور آپ ا کی لائی ہوئی امانت کی نگہبان وپاسبان ہو، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے ہے: ’’کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ‘‘۔                                                                   (آل عمران:۱۱۰) ترجمہ:۔’’تم ہو بہتر سب امتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں، حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر‘‘۔    (ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ) افسوس ہے کہ قرآن کریم نے ’’خیر امت‘‘ کے جو اوصاف وخصوصیات اس آیت کریمہ میں بیان فرمائے ہیں، اپنے نبی رحمت ا کی سنت وطریقہ کو چھوڑنے کی وجہ سے امت ان خصوصیات سے ہاتھ دھو بیٹھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقوام عالم کی قیادت کے بجائے ان کی دریوزہ گر ہو کر رہ گئی۔ آج اس کی گراوٹ وپستی کا یہ عالم ہے کہ وہ مادیات ہی میں دوسری قوموں سے بھیک نہیں مانگ رہی، بلکہ آئین وقانون، تمدن وشہریت اور اخلاق ومعاشرت کے آداب بھی باہر سے در آمد کررہی ہے۔ فإلی اﷲ المشتکیٰ۔ سوم: یہ کہ امت کے عمومی فساد اور بگاڑ کی فضا میں بھی ہر امتی کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ وہ سنت نبوی ا سے تمسک کرے اور اس کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھے، ایسے پُر از فساد ماحول میں بھی کسی شخص کے لئے یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ ’’اجی کیا کریں؟ پورا معاشرہ ہی بگڑا ہوا ہے، ایسے ماحول میں ’’سنت نبوی ا‘‘ پر عمل کیسے کریں؟‘‘ نہیں، بلکہ چار سو ہزار فتنہ وفساد ہو، معاشرہ اور ماحول کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اتباع سنت کی پابندی بہرحال لازم ہے، یہ کبھی ساقط نہیں ہوسکتی، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ا نے امت کے عمومی بگاڑ اور فساد کے زمانے میں بھی’’سنت‘‘ کو مضبوطی، عزم اور حوصلہ کے ساتھ تھامنے کا حکم فرمایا ہے۔ چہارم: یہ کہ جو شخص ایسے فساد آمیز ماحول میں بھی ’’سنت نبوی‘‘کو سینے سے لگائے رکھے، اس کو بشارت دی گئی ہے کہ یہ قیامت کے روز سو شہیدوں کا اجر ومرتبہ پائے گا، کیونکہ شہید تو ایک مرتبہ اپنی جان عزیز کا نذرانہ بارگاہِ خداوندی میں پیش کرکے سرخرو ہوجاتا ہے اور یہ شخص کار زار زندگی میں جہادِ مسلسل کررہا ہے، اس پر ہرطرف سے طعنوں کی بارش ہو رہی ہے، کوئی ’’دقیانوسی‘‘ کہہ رہا ہے، کوئی کٹھ ملاّ کا خطاب دے رہا ہے، کوئی ’’رجعت پسند‘‘ کی پھبتی اڑا رہاہے۔ الغرض اس مجاہد کو ہزار طعنے برداشت کرنا پڑ رہے ہیں، جن سے اس کے قلب وجگر چھلنی ہیں، لیکن اس نے بھی ’’محمد رسول اللہ ا کی غلامی کا عہد باندھ رکھا ہے اور وہ ہر قیمت پر اس عہد کو نبھارہا ہے، اس لئے کوئی شک نہیں کہ اس کا کارنامہ سو مجاہدوں کے برابر شمار کئے جانے کے لائق ہے، ایسا شخص مرتے وقت پوری طعنہ زن قوم کو مخاطب کرکے کہتا ہے: میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے فقیرانہ آئے صدا کر چلے اور آنحضرت ا کی بارگاہِ عالی میں عرض کرتا ہے: جو تجھ بن نہ جینے کا کہتے تھے ہم سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے وآخر دعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین وصلی اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ صفوۃ البریۃ محمد وآلہ وأصحابہ وأتباعہ أجمعین۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین