بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

برقی تصویر (چھٹی اورآخری قسط)

برقی تصویر

(چھٹی اورآخری قسط)

 

تصویر : ایک عرفی حقیقت
ارسطو کے بقول ’’تعریف علم کی ابتدا وانتہا ہے‘‘۔ابتدا بایں معنیٰ ہے کہ کسی شئے کا علم حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس کا واضح اور صاف تصور حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ شئے کا واضح اور صا ف تصور اس کی تعریف سے حاصل ہوتا ہے ۔اسی وجہ سے معلمین اور مصنفین آغاز ہی میں مطلوبہ شئے کی تعریف کردیتے ہیں ۔
اس اصول کا تقاضا تھا کہ پہلے قدم پر تصویر کی تعریف ذکر کردی جاتی اور اس کے بعددیگر مباحث پر خامہ فرسائی کی جاتی ،مگر جان بوجھ کر اس فنی اصول اور علمی اسلوب کو اس لیے نظر انداز کیا گیا کہ تصویر کی تعریف کرنا اسے دھندلا اور مبہم بنانا ہے۔تصویر ایک جانی پہچانی حقیقت ہے، ہر ایک اسے جانتا اور سمجھتا ہے ۔عام لوگ جسے تصویر کہتے ہیں ،شریعت بھی اسے تصویر کہتی ہے ،اس وجہ سے تصویر کی تعریف نہ صرف مشکل ، بلکہ بہت مشکل ہے (۱)  کیونکہ تصویر کی جو بھی تعریف کی جائے گی اس سے مقصود تصویر کے مفہوم کی تعیین وتحدید اور اس کی حقیقت کا بیان اور وضاحت ہوگی، جب کہ یہ لفظ خود اتنا واضح ہے کہ اس سے زیادہ اس کی وضاحت ممکن نہیں ہے۔ واضح اشیاء اورسادہ تصورات کی تعریف اسی لیے بہت مشکل ہوتی ہے کہ ان سے زیادہ واضح ،صاف اور سادہ الفاظ دستیاب ہی نہیں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ فقہی کتابوں میں حرمت ِتصویر کی علت سے توبحث ملتی ہے،تصویر کے احکام تو مذکور ہیں ، اس کے انواع و اقسام کاتذکرہ تو موجود ہے، مگر تصویر کی کوئی جامع و مانع اورنپی تلی تعریف دستیاب نہیں ہے۔احادیث و آثارمیں بھی تصویر اور تصویر سازی کی حرمت تو مذکور ہے، مگر تصویر کی حقیقت وماہیت نہیں بیان کی گئی ہے۔
ایسے میںلغت ِعرب کی طرف رجوع لازم ٹھہرتا ہے ،کیوںکہ شریعت جب بندوں سے مخاطب ہوتی ہے تو عربی لغت کو ذریعۂ اظہار اور وسیلۂ بیان بناتی ہے۔ اگر لغت شریعت کو ایسا لفظ فراہم کردے جو شریعت کے مزاج اور مطلوبہ معیار پر پورا اترتا ہو تو لفظ کا لغوی معنیٰ ہی اس کا شرعی معنیٰ ٹھہرتا ہے ، لیکن اگر لغت قاصر رہے تو شریعت اپنے منشاء و مزاج کے مطابق لغت میں تصرف کرتی ہے ۔کبھی لفظ کے مفہوم کو وسعت دیتی ہے، جب کہ اکثر وبیشتر حدودوقیود کا اضافہ کرکے اُس کے دائرے کو تنگ کردیتی ہے۔بیع، صوم وصلاۃ وغیرہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔
اگرچہ لغت سے شریعت مقدم ہے، مگر تصویر کے معاملے میںشریعت کارویہ کچھ اس طرح ہے کہ اس نے بے جان اورجان دار کی تخصیص توکردی ہے، مگر اس نے زیادہ تحدید وتعیین سے کام نہیں لیا ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اس لفظ کے لغوی مفہوم کو برقرار رکھنا چاہتی ہے،اس لیے جو تصویر کا لغوی مفہوم ہوگا، وہی اس کا شرعی مفہوم قرار دیا جائے گا۔
تصویر ازروئے لغت:
لغت کی رو سے یہ لفظ مصدر ہے، مگر مصدری معنی میں نہیں،بلکہ مفعولی معنیٰ میں مستعمل ہے۔ ’’صورت‘‘ اس کا مادہ ہے،جس کا مطلب ،شکل،چہرہ مہرہ اور ظاہری خط وخال اور نقش ونگار ہے۔ مفردات میں امام راغبؒنے صورت کے بیان میں لکھا ہے :
’’ الصورۃ:ما ینتقش بہ الأعیان، ویتمیز بھا غیرھا ،وذلک ضربان: أحدھما: محسوس یدرکھا العامۃ والخاصۃ،بل یدرکہ الإنسان وکثیر من الحیوان،کصورۃ الإنسان والفرس والحمار بالمعاینۃ ، والثانی :معقول یدرکہ الخاصۃ دون العامۃ ،کالصورۃ التی اختص الإنسان بھا من العقل والرؤیۃ ، والمعانی التی خص بھا شیء بشیء‘‘۔  (۲)
ترجمہ :…’’کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہری نشان اور خط وخال جس سے اسے پہچانا جاسکے، اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے ،یہ دو قسم پر ہے: ۱…: محسوس،جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ،بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں، جیسے: انسا ن ،فرس ،حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں۔۲…:صورت عقلیہ : جس کا ادراک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں ، اور عوام کے فہم سے بالاتر ہوں، جیسے: انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یاوہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں‘‘۔
حجۃ الاسلا م مولانامحمد قاسم نانوتویؒ نے بھی تصویر کا یہی معنی بیان کیا ہے :
’’جیسے قابل انعکاس فقط صورتیں ہی ہو تی ہیں، مادہ کو اس سے علا قہ نہیں ،ایسے ہی قابل ادراک و احساس بھی یہ صور تیں ہی ہو تی ہیں،مادہ کو اس سے علا قہ نہیں ، چناں چہ ظا ہر ہے ،کون نہیں جا نتا ،جسم اگر نظر آتا ہے تو اس کی تقطیع اور رنگ ہی نظر آتا ہے اور کیا نظر آتا ہے؟ اور ظا ہر ہے کہ یہی تقطیع اور رنگ مسمیٰ بصورت ہے ۔۔۔۔ ’’صورت ایک تقطیع کا نام ہے۔‘‘(۳)
بہر کیف ـ صورت کا مطلب شئے کے ظاہری نقوش اور خط وخال ہیں، جس سے شئے کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے، اور وہ دوسری اشیاء سے الگ اور ممتاز ہوجاتی ہے ۔اسی ’’مابہ الامتیاز‘‘  کو صورت کہتے ہیں ۔
احادیث میںجہاں’’صورت ‘‘کا لفظ آیا ہے، اس سے مراد’’ تصویر‘‘ ہے اور تصویر سے مراد مطلق تصویر نہیں ہے، بلکہ جاندار کی تصویر ہے ۔حضرت مولانا انورشاہ کشمیری ؒ کے حوالے سے فیض الباری میں ہے ـ: 
’’ولینظر فی ھذا اللفظ لیتضح أن لفظ الصورۃ ھل یختص بالحیوان فقط أو یستعمل فی غیر ھذا أیضاً والظاھر أن أغلب استعمالہ فی الحیوانات …فدل علی أن الصورۃ فی ذہن الشارع تستعمل للحیوانات وإلا فلا بأس بصورۃ الشجرۃ‘‘  (۴)
ترجمہ:…’’اس لفظ(صورت) میں اس پہلو سے غور کرنا چاہیے کہ اس کا استعمال صرف جاندار کے ساتھ خاص ہے یا اس کے علاوہ بھی اس کااستعمال ہوتا ہے؟ظاہر یہ ہے کہ اس کا غالب استعمال جانداروں کے لیے ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ شارع کی مراد اس لفظ سے جانداروں کی تصویر ہوتی ہے، ورنہ درخت کی تصویر بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے‘‘ ۔
’’صورت‘‘ کے لفظ سے’’ تصویر‘‘ بنا ہے، جو باب تفعیل کا مصدر ہے۔ اس باب کی خاصیت ’’جعل وصنعت ‘‘ہے ،اس لیے ازروئے لغت تصویر کا مصنوع انسانی ہونا ضروری ہے ۔اسی وجہ سے تصویر کا معنی صورت بنانا ، صورت گری اورپیکر سازی کیا جاتاہے۔ ان مترادف تراجم میں انسانی صنعت گری کا مفہوم واضح طور پر پایا جاتا ہے اور اس قدر معنی پر اہل لغت کا اتفاق معلوم ہوتا ہے اور یہ معنیٰ برقی شبیہ پر بھی صادق آتا ہے۔
’’إن الوعید لاحق بالشکل والھیئۃ وذلک غیر جوھر‘‘۔(۵)
ترجمہ:…’’وعید کسی شئے کی صورت اور ہیئت کے بارے میں وارد ہے اور وہ جوھر نہیں ہے‘‘۔
’’  تستعمل ھذہ الکلمۃ فی معنٰی شکل الشیء ،فیقال مثلاً :صورۃ الأرض وصورۃحمار ‘‘۔  (۶)
ترجمہ :…’’یہ کلمہ کسی چیز کی شکل کے بارے میں استعمال ہوتا ہے ۔کہتے ہیں : زمین کی شکل اور گدھے کی شکل وغیرہ‘‘۔
’’فھذھٖ الأحادیث قاضیۃ بعدم الفرق بین المطبوع من الصور والمستقل لأن اسم الصورۃ صادقۃ علی الکل إذ ھی کما فی کتب اللغۃ الشکل ‘‘۔ (۷)
ترجمہ :ــ…’’یہ احادیث اس بارے میں فیصلہ کن ہیں کہ چھپی ہوئی اورمستقل تصویروں میں کوئی فرق نہیں ہے ،کیوں کہ صورت کا مطلب لغت میں شکل ہے اوریہ معنی سب پر صادق آتاہے‘‘۔
اس سے معلوم ہو ا کہ مصور ہونے کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ جاندار اشیاء کے مشابہ اشکال بنائے۔
’’قال الخطابی : المصور ھو الذی  یصور أشکال الحیوان ‘‘۔  (۸)
ترجمہ:…’’یعنی مصور وہ ہے جو جاندار اشیاء کی شکلیں بناتا ہے‘‘۔
اختلافی نکتہ:
اختلاف یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ بعض تعریفوں میں تصویرکی تعریف اورمصور کے بیان میں کا غذ ،کپڑے اور دیوار وغیرہ کا ذکر آ یا ہے ۔ان اشیاء کے اندر ایک مشترک خصوصیت ان کا ٹھوس ہونا بھی ہے اوراسی مشترکہ صفت اورقدرمشترک کوبنیاد بناکر تصویر کی تعریف میں ایک لازمی شرط کے طور کہاجانے لگاہے کہ تصویر کے لیے ’’کسی ٹھوس سطح پر منقش ہونا ضروری ہے ۔‘‘
 مقصود اس استدلال سے برقی شبیہ کو تصویر کی تعریف سے خارج کرنا ہوتاہے، کیوں کہ وہ اپنے محل پر اس طرح نقش نہیںہوتی، جس طرح حروف کاغذ پر ثبت رنگ دیوار پر نقش اور نقوش پتھر پر کندہ ہوتے ہیں۔مگر یہ استدلال غوروفکر چاہتاہے، کیونکہ اس کاحاصل استقراء کے ذریعہ قاعدہ کلیہ کی تشکیل یا لغت کا اثبات ہے ،جب کہ لغت کے میدان میںاس کی ممانعت ہے۔صاف لفظوں میں’’قیاس کے ذریعے لغت کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
مزید یہ کہ استقراء بھی تام نہیں، بلکہ ناتمام ہے، کیوں کہ ایک تو ایسی تعریفات دستیاب ہیں، جن میں ٹھوس اشیاء کاذکر ہی نہیںاور جن تعریفات میں ٹھوس اشیاء کاذکر ہے، ان میں بھی بعض کے اندر دیوار اور کپڑے وغیرہ کے ساتھ ’’غیرھا‘‘کا لفظ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل لغت نے تعریف کو خوب عموم اوروسعت دی ہے اور آئندہ کی امکانی صورتوں کو بھی داخل تعریف رکھنے کی گنجائش رکھی ہے۔
علاوہ بر ایں: اس شرط کی بناء پر ہمیں ایک قیاسی بنیاد حاصل ہوجاتی ہے، مگر کوئی یقینی بنیاد ہاتھ نہیں آتی ہے،جب کہ تعریف کے لیے ہمیں کسی ظنی اور تخمینی سہارے کی نہیں، بلکہ پختہ اورٹھوس بنیاد کی ضرورت ہے، کیوں کہ تعریف میں کسی شئے کی اساسی صفات اورضروری خواص کو بیان کیا جاتاہے ،جن کی موجودگی اس شئے کے لیے لازم ہوتی ہے، جب کہ ٹھوس سطح پر نقش ہونے کی شرط ایک یقینی نہیں، بلکہ ظنی سی شرط ہے اوراس ظنیت کی وجہ سے تنازع حل نہیں ہوتا، بلکہ اسی جگہ ٹھہرا رہتا ہے، جہاں سے شروع ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر ٹھوس سطح پر منقش ہونے کی شرط اتنی اہم اورضروری تھی توایک ایک لفظ کے لیے بادیہ پیمائی اورصحرانوردی کرنے والے محققین اہل لغت ایسی جوہری اور بنیادی شرط کس طرح نظر انداز کرگئے؟
 بہر کیف جو علماء کرام برقی شبیہ کوتصویر تسلیم نہیں کرتے، ان کا استدلال یہ ہے کہ برقی شبیہ چونکہ اس طرح اپنے محل پر نقش نہیں ہوتی، جس طرح رنگ دیوار پر، اور حروف کاغذ پر نقش ہوتے ہیں، اس لیے برقی تصویر حرام تصویر کے ذیل میں نہیںآتی ہے۔اس نظریے کے حامل اہل ِعلم جب قائم اورپائیدار کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان کی مراد یہی ہوتی ہے۔
اوپر ذکر ہوچکا کہ تصویر کا لفظ بذات خود اپنے اندر کوئی اجمال یا ابہام نہیں رکھتا ہے، مگر جب قائم اور پائیداری کی وہ تفسیر کی جائے جو جواز کے قائل علماء کرتے ہیں،اور اسے تصویر کے لیے لازمی شرط قرار دیا جائے تو برقی شبیہ کے تصویر ہونے یا نہ ہونے میںشک اورابہام پیدا ہوجاتا ہے ۔
اگرہم برقی شبیہ کو اس زاویہ سے دیکھیں کہ اپنے اصل کا مستقل عکس ہے جو اپنے اصل کے تابع نہیں ہے، بلکہ اس سے بے نیاز ہے توبرقی شبیہ تصویر نظر آتی ہے۔ اوراگر اس پہلو سے دیکھیں کہ اپنے محل پر چسپاں نہیں ہے، جس طرح رنگ وروغن سے بنی ہوئی تصویریں اپنے محل پر چھپی ہوئی ہوتی ہیں توعکس کے ساتھ اس کی مشابہت قوی ہوجاتی ہے ۔ان دو متضاداوصاف اورمتباین خصوصیات کی بنا پراور زاویۂ نظر کے اختلاف کی وجہ سے تصویرکا لفظ اپنے بعض مادوں (برقی شبیہ ) کے بارے میں مبہم ٹھہرتا ہے۔زیادہ صاف لفظوں میں ایک لفظ فی نفسہٖ واضح ہے، مگر اس کے ایک فرد کے بارے میں ذوجہتین ہونے کی وجہ سے شک پیدا ہوگیا ہے کہ وہ اس لفظ کے تحت داخل ہے یا نہیں؟
عرف:ایک فیصلہ کن عامل
ایسے موقع پرجب تصویر اپنے بعض مادوں میں مبہم ٹھہرتاہے ، ابہام کے ازالے،اجمال کی تفسیر، مشکل کی تعیین ،جھگڑے کے تصفیے اور نزاع کے خاتمے کے لیے عرف کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔عرف ہی اس مسئلے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتاہے۔
’’  کل ماورد بہ الشرع مطلقاً ولا ضابط لہ فیہ ولا فی اللغۃ یرجع فیہ إلی العرف ‘‘۔  
ترجمہ :…’’جوچیز شریعت میںبغیر کسی قید کے وارد ہوئی ہو اور شریعت میں اس کے متعلق کوئی قاعدہ ہو، نہ لغت میں اس کی بابت کوئی ضابطہ مقرر ہوا ہو تو اس کے متعلق عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا‘‘۔
ہر رنگ کے جامع ،فیلسوف اسلام ،شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ایسی ہی صورت حال کے بارے میںفرماتے ہیں :
’’و إذا ورد النص بصیغۃ أو اقتضٰی الحال إقامۃ نوع مداراً للحکم ،ثم حصل فی بعض المواد اشتباہ فمن حقہ أن یرجع فی تفسیر تلک الصیغۃ أو تحقیق حدجامع مانع لذلک النوع إلٰی عرف العرب،کما ورد النص فی الصوم بشھر رمضان ثم وقع الاشتباہ فی صورۃ الغیم فکان الحکم ماعند العرب من إکمال عدۃ شعبان ثلاثین وأن الشھر قد یکون تسعۃ وعشرین، وھو قولہ ا إنا أمۃ أمیۃ لا نکتب ولانحسب ، الشھر کذا‘‘۔  (۹)
ترجمہ:…’’ یعنی جب نص میں کوئی خاص لفظ وارد ہو یا صورت حال کا تقاضا ہو کہ کوئی نوع یعنی کلی بات تجویز کی جائے جسے حکم کے لیے علت قرار دیا جائے اور پھر اس کے بعض مادوں میں شبہ پیدا ہوجائے تو بھی مناسب یہی ہے کہ اس لفظ کی وضاحت معلوم کرنے کے لیے یا اس نوع کی جامع ومانع تعریف کرنے کے لیے اہل عرب کے عرف کی طرف رجوع کیا جائے، جیسا کہ روزے کے متعلق نص میں ’’شہر رمضان‘‘ آیا ہے، پھر ابر کی حالت میں اشتباہ پیدا ہوا(کہ رمضان کب شروع ہو اور کب ختم ہو؟) اس لیے اس کا حکم وہی ہوگا جو عرب کے عرف میں تھا کہ شعبان کے تیس روزے پورے کرنے چاہئیں، حالانکہ مہینہ کبھی تیس روز کا ہوتا ہے اور کبھی انتیس کا،آنحضرت ا کا ارشاد ہے کہ ہم ناخواندہ امت ہیں، نہ لکھتے ہیں، نہ حساب کرتے ہیں ۔مہینہ کبھی انتیس کا اور کبھی تیس کا ہوتا ہے‘‘۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا کلام اپنے مفہوم اورمدعامیں واضح ہے اورکسی حاشیہ آرائی اور تشریح کا محتاج نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب ؒ کے کلام سے ہم یوں رہنمائی لے سکتے ہیں کہ:’’ حدیث میں تصویر کا نام لے کر اس کا حکم بیان کیا گیا ہے، لیکن تصویر کی کوئی ایسی جامع ومانع تعریف نہیں کی گئی، جس سے تصویر کے ہر ہر فرد کا حال معلوم ہوجائے ،اس لیے ہمیں عرف پر نظر ڈالنی چاہیے کہ اہل عرف تصویرکے لفظ سے کیا سمجھتے ہیں؟جو چیز عرف میں تصویر سمجھی جاتی ہو،وہ شریعت میں بھی تصویرکہلائے گی۔
مذکورہ بالا نصوص کے تناظر میں اب ہم عرف سے اپنے نزاع کا تصفیہ کراتے ہیں، مگر عرف کی عدالت میں پیش ہونے سے قبل دو اصولوں کا استحضار ضروری ہے:
۱:…عرف اور لغت میں ٹکراؤ ہو تو پلہ عرف کا بھاری رہتاہے۔
۲:…عرف کے ذریعے لغت کا اثبات جائز ہے۔
 لغت کی رو سے تصویر کا اپنے محل پر قائم اور ثابت ہونا ضروری ہے ،اس استدلال کے وزن پر گفتگو ہوچکی ہے۔بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ایسا ضروری ہے تو عرف کی رو سے قیام اورثبات کی شرط ضروری نہیں ہے۔اس طرح عرف اورلغت آمنے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیںاوران میں میدان سج جاتا ہے اور جب دونوں میں تصادم ہوتاہے تو عرف غلبہ حاصل کرلیتا ہے، کیونکہ جب عرف اورلغت میں ٹکراؤ ہوتوپہلے اصول کی روسے پلہ عرف کا ہی بھاری رہتاہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تصویر کے لیے قیام اورثبات کی شرط ضروری نہیں ہے، کیونکہ عرف نے اس شرط کو ختم کردیا ہے، بلکہ دوسرے اصول کی روسے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہنا بھی درست ہے کہ :’’ لغت کی رو سے بھی قائم اور پائیداری کی شرط غیر ضروری ہے، کیوں کہ عرف سے لغت کاثبوت جائز ہے اور عرف میں یہ شرط غیر ضروری سمجھی جاتی ہے۔
 مزید یہ کہ عام لوگ اس فنی باریکی میں نہیں پڑتے ہیں کہ برقی تصویر پائیدار ہے یا ناپائیدار؟یہ بحث صرف علمی حلقوں تک محدود ہے،اور علمی حلقوں کو اپنے اختلاف کا فیصلہ عرف عام سے کرنا چاہیے، کیونکہ ’’عرف متفاہم‘‘ کو شریعت نے معتبر قرادیا ہے اور معتبر کیوں نہ ہوکہ اجماع عملی کی ایک قسم ہے۔ 
 ہماری اس گفتگو پر ’’مصادرۃ علی المطلوب ‘‘کا خیال ہوسکتاہے ،جس میں دعویٰ اور دلیل ایک ہی ہوتے ہیں اوردعویٰ کوہی بطور دلیل کے پیش کیا جاتاہے ۔کوئی صاحب ِ علم کہہ سکتا ہے کہ عرف میں برقی تصویر کا تصویر ہونا محض دعویٰ ہے جو ثبوت کا محتاج ہے ۔جس قدر گفتگو ہوچکی ہے، اس کے پیش نظر اس دعویٰ کو مزید مدلل کرنے کی ضرورت تو نہیں،تاہم فائدے سے خالی بھی نہیں ،اس لیے اہل ِعلم کے غوروفکر کے لیے چند نکات کا پیش کرنا مناسب معلوم ہوتاہے۔
آئینہ بنانے ،آئینے کے سامنے آنے،آئینہ کسی کے سامنے کرنے اورآئینے سے پردہ ہٹانے کو کوئی بھی تصویرکشی نہیں کہتااور نہ ہی آئینے میں نظر آنے والی پرچھائیوں کو کوئی تصویر کہتاہے، مگر برقی آلات پرہونے والے تماشوں اوران کی جلوہ گاہوں پر ہونی والی نقل وحرکت کو سب تصویر سمجھتے ہیں۔ ’’تصویر دھندلی ہے ،تصویر صاف نہیں ،آواز آتی ہے تصویر نہیں،قریب کرنے سے تصویر کے پکسلز پھٹ جاتے ہیں،تصویر ہل گئی ہے ،موبائل نہ ہونے کی وجہ سے میں تصویر نہ لے سکا،فلاں کا موبائل تصویروں سے بھر اہوا ہے۔‘‘اس قسم کے جملوں سے بخوبی عوام الناس کے عرف کا اندازہ ہوتا ہے۔
آئینے کے روبرو کھڑے شخص کو کوئی بھی نہیں کہتا کہ وہ تصویر بنوارہا ہے،اور نہ ہی وہ خود اس اہتمام سے کھڑا ہوتا ہے، جس طرح کیمرے کے سامنے لوگ کھڑے ہوتے ہیں، مگر کیمرے کے سامنے کھڑے شخص کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ تصویر بنوارہاہے۔
جو لوگ گھر میںٹی وی رکھتے ہیں، وہ اپنے اس فعل بد کے جواز کے لیے مختلف حیلے تراشتے ہیں، مثلاً: ’’خبریں سننے کو ملتی ہیں،معلومات میں اضافہ ہوتاہے،بچے باہر جانے سے محفوظ رہتے ہیںاور غلط ماحول سے ان کی حفاظت ہوتی ہے،اب یہ زمانے کی ضرورت ہے ۔‘‘مگر کوئی بھی ٹی وی  کے جواز کے لیے یہ دلیل نہیںتراشتا کہ ٹی وی دیکھنا گویاآئینہ دیکھناہے اور آئینہ دیکھنا جائز ہے تو ٹی وی دیکھنا کیسے ناجائز ہوسکتا ہے؟
عوام کے علاوہ خواص کا عرف بھی برقی شبیہ کو تصویر سمجھنے کا ہے ۔محترم افضال احمد صاحب نے اپنی کتاب میں’’ٹی وی اور ویڈیو کے شرعی احکام‘‘ماہرین کی تحقیقات علاوہ اس مضمون کے کئی حوالے نقل کیے ہیں، جن میں ٹی وی کے منظر کو تصویر قرار دیا گیا ہے۔بطور نمونہ ایک دو حوالے ملاحظہ کیجیے :
’’انسائیکلو پیڈیا انٹر نیشنل‘‘ میں ہے: 
’’ٹی وی اورریڈیو کے درمیان واضح وظاہر فرق یہ ہے کہ ٹی وی میں ایک تصویر بجلی کے کرنٹ میں مبدل ہوجاتی ہے (یعنی ذرات ) پھر وہی کرنٹ آگے چل کر دوبارہ تصویر اول کے مانند ہوجاتے ہیں ۔ ‘‘   (۱۰)
’’انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ‘‘میں تصویر کشی کے متعلق لکھا ہے :
’’ بذریعہ کیمرا شکل وصورت اتار کر اس کو بجلی وبرقی ذرات میں بدل کر ویڈیو کے ذریعہ سے یہ ذرات آلہ مسمیٰ ریسیور تک پہنچائے جاتے ہیں، پھر یہ آلہ ان ذرات کو تصویری ٹیوب کے ذریعے دوبارہ تصویر میں بدل دیتا ہے اور یہ تصویر بالکل اصل کے مطابق ہے۔‘‘  (۱۱)
’’والتلفزۃ ھی استخدام الکھرباء واللاسلکی فی نقل صور الأشیاء الثابتۃ أو المتحرکۃ واستقبالھا ثانیاً عند مسافات بعیدۃ وھذھ العملیۃ تتناول خطوات  عدیدۃ ،شرحناھا فی بعض مؤلفاتنا۔‘‘  (۱۲)
گزشتہ سطور میں عرف اور لغت کے حوالے سے جو بحث ہوئی، اس سے یہ تاثر لیا جاسکتا ہے کہ تصویر کے لیے دوام اور قیام کی شرط میں عرف اورلغت کااختلاف ہے، حالانکہ حقیقت اس طرح نہیں ہے۔ برقی تصویر کے حوالے سے دونوں میںکوئی اختلاف نہیں ہے۔اہل لغت کے بیان کردہ معانی اپنے اپنے عرف پر مبنی ہیں۔ چونکہ مختلف زمانوں میں تصویر سازی کے مختلف طریقے رائج رہے ہیں، اس لیے اہل لغت نے تصویر کے بیان میں اپنے اپنے زمانے میں مر وج شکلیں بیان کردی ہیں ،جن سے ان کامقصود حصر نہیں ہے، بلکہ اپنے عہد کا اسلوب اور طریقۂ تصویر سازی ہے۔ اگر حصر مراد ہوتا تو جدید لغات میں فوٹو اور ٹی وی کی تصویر کو تعریف میں شامل نہ کیا جاتا۔
قانون بھی عرف کی تائید کرتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی عدالت کا حوالہ بہت ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ایک مقدمہ جس کی مختصر روئیداد یہ ہے کہ ہاکنگز نامی شخص کے زیر قبضہ بچوں کی فحش ڈیجیٹل تصاویر تھیں، اورکچھ اس نے بذریعہ کمپیوٹر نشرکردی تھیں۔ ملزم پکڑا گیا،پہلے تو اس نے اعترافِ جرم کیا، جس کی بناء پر اس پر فرد جرم عائدکردی گئی،مگر پھراس نے خود ہی اپنی سزا کے خلاف بالا عدالت میںا پیل دائر کی، اور یہ موقف اختیار کیاکہ قانون کی رو سے  f g.v.  فائلز بصری تصاویر کی ذیل میں نہیں آتیں،اس لیے اس پر عائد کردہ سزا غیر قانونی ہے ۔
دراصل جس وقت یہ وقوعہ ہو ا تھا ،اس وقت کا نافذالعمل قانون یہ تھا کہ بصری تصاویر میں غیر ڈیولپ شدہ فلم اور ویڈیو ٹیپ شامل ہیں، مگر اس میں کمپیوٹر ڈیٹا کا ذکر نہیں تھا ۔ملزم نے قانون کے اس ابہام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ عذر پیش کیا کہ اس کا فعل مذکورہ قانون کے زیر اثر نہیں آتا، اس لیے اسے بری کیا جائے۔
 عدالت اپیل نے اپنے فیصلے میںنافذقانون کی یہ خامی تو تسلیم کی کہ اسے اس طرح مرتب نہیں کیا گیا ہے کہ اس میں وہ تمام مواد شامل ہوجائے جو بصری تصاویر کی ذیل میں آتا ہے اور ساتھ ہی مقننہ (کانگریس )سے قانون کا ابہام دور کرنے کی سفارش بھی کردی، مگر ہاکنگز(ملزم) کی اپیل مسترد کردی اور اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ کمپیوٹر تصویر بھی بصری تصویروں کی تعریف میں آتی ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ ۱۹۹۶ء میں قانون کی تشریح کو وسعت دے کر اس میںکمپیوٹر ڈسک میں جمع ڈیٹا کو یا وہ الیکٹرانک ذرائع جو ان کو بصری تصاویر میں بدلنے پر قادر ہوں ،شامل کردیا گیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے کی تائید میں ایک اور مقدمہ کو بھی بطور نظیر پیش کیا، جس میں ایک شخص نے کمسن بچوں کی مختلف اسٹیچزکے فوٹو گراف لیے اور پھر صفائی و دھلائی کے لیے فلم‘کمپنی کو بھیج دی ،کمپنی نے پولیس کو اطلاع دی،اس شخص نے بھی یہ عذر پیش کیا کہ تفصیلی پراسس سے پہلے اس کا فعل متعلقہ قانون کی زد میں نہیں آتا ہے،مگر عدالت نے اس کی یہ دلیل رد کردی اوراسے سزا سنائی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مواد کو اگر تصویر کی تعریف میں شامل نہ سمجھا جائے تو بچوں کے متعلق انسدادِ فحاشی کا رائج قانون متاثر ہوگا۔
بہرحال متذکرہ بالا مقدمے کی رو سے ڈیٹا بھی تصویر کی تعریف میں آتا ہے۔عدالت نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اسے تصویر قرار دیا ہے۔عدالت کے الفاظ ہیں:  
’’ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ الزام لگائے جانے والے قانون کی رو سے کمپیوٹر g.i.f files  بصری تصویر کی تعریف میں آتی ہیں۔‘‘
ان تمام شواہد سے مقصود یہ ہے کہ عرف میں برقی شبیہ تصویر ہے اور عرف کی تائید لغت کی دلالت سے بھی ہوتی ہے، ماہرین کی آراء بھی اسے تقویت پہنچارہی ہیں اور فہم عامہ بھی عرف کی پشت پناہی کررہی ہے اور خود عرف اس قدر قوت اور طاقت رکھتا ہے کہ لغت کو بھی عموم اور وسعت دے دیتا ہے، اس لیے عرف کی بدولت لغت بھی برقی تصویر کو شامل ہے۔
نتیجۂ بحث:
۱:…برقی تصویر کے عکس ہونے کے بارے میں جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں، ان کے تفصیلی اور تنقیدی جائزے کے بعد راجح یہی معلوم ہوتاہے کہ برقی تصویر بھی تصویر کی ہی ایک نوع ہے اورحرام ہے۔
۲:…یہ موقف اس وجہ سے بھی قوی معلوم ہوتاہے کہ کثرت اس جانب ہے اور اکابر کی اکثریت کا بھی یہی نظریہ ہے ۔
۳:…جو تحقیق اکابر کی تحقیق کے ہم آہنگ اور مطابق ہو اور ان کے مزاج کے موافق ہو،  اسی میں خیر اوربھلائی ہے اوراسی میں فتنوں سے بچاؤ اورحفاظت ہے ۔
۴:…اگر دونوں جانب کے دلائل مساوی تسلیم کرلیے جائیں تو احتیاط کا پہلو بھی اسی قول میں ہے۔
۵:…شریعت کا حساس مزاج اورباریک بین اور دوراندیش نگاہ صرف اس نظر سے افعال کو نہیں دیکھتی کہ اس میں فی نفسہٖ کوئی مضرت یا قباحت ہے، بلکہ اس پہلو سے بھی افعال واعمال کا جائزہ لیتی ہے کہ وہ مفاسد کا ذریعہ اورقبائح کا وسیلہ نہ بن سکیں۔اس کی طبیعت ہے کہ وہ جس طرح مفاسد سے روکتی ہے، اسی طرح مفاسد تک پہنچنے والے راستوں پر بھی چوکیا ں قائم کردیتی ہے اورپہرے بٹھادیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اصل مفسدے کے ارتکاب سے پہلے بہت سی رکاوٹوں کو عبور اوربہت سی چوکیوں پر سے گزرنا پڑتاہے۔اصولیین نے بھی اسی وجہ سے’’ ممنوع لعینہٖ اورممنوع لغیرہٖ‘‘ کی اصطلاح قائم کی ہے اورفقہاء نے بھی قانون انسداد اورسد ذرائع سے کام لیتے ہوئے  بہت سے ایسے افعال کو ممنوع گردانا ہے، جو ظاہری نگاہ میں جائز اورمباح معلوم ہوتے ہیں۔اگر چہ شارع علیہ السلام کا اصل مقصود مفاسد سے روکنا ہے، مگر مقدمات اور وسائل کی ممانعت بھی کچھ کم اہمیت نہیںرکھتی ہے۔مفاسد کی برائی تو ہر خاص وعام پر واضح ہوتی ہے اورہر ایک اسے جانتا اورسمجھتاہے، مگرمقدمات کا فریب اوراس میں چھپے زہر کا علم وحی کی رہنمائی کے بغیر نہیں ہوسکتاہے۔وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ مقدمات ہمیشہ کثرت میں ہوتے ہیں، جس طرح منزل تک وصول اورہدف کے حصول کے بہت سے راستے ہوتے ہیں، اس کے برعکس حقیقت ہمیشہ ایک ہوتی ہے۔ حقیقت کی ممانعت کی وجہ سے اس تک پہنچنے والے راستے خود بخود ممنوع ہوجاتے ہیں، مگر نام بنام ان کی ممانعت ممکن نہیںہوتی ہے، کیونکہ وہ لاتعداد اور لامحدود ہوتے ہیں، اس وجہ سے نفس کو وار کرنے اور شیطان کو اغواء کا موقع مل جاتا ہے۔یہ رواج اورسماج میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں،اور اتنے سنگین نہیں سمجھے جاتے، اس لیے انسان ان سے مانوس اور طبائع ان کی عادی ہوتی ہیں، اور ان سے پرہیز ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ یہ کبھی یکساں اورغیر متغیر نہیں رہتے ہیں، بلکہ وقت اورزمانے، حالات اورواقعات کے تحت بدلتے رہتے ہیں ، اس وجہ سے ان کا فہم مشکل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مقاصد اورحقائق ہر زمانے میں اورہر جگہ ‘غیر متغیر اورغیر متبدل رہتے ہیں۔ذرائع کا بذات خود ممنوع اورقبیح ہونا بھی ضروری نہیں، بلکہ یہ اکثر جائز شکل میں ہوتے ہیںاورانسان ان کے فی نفسہٖ جواز کی وجہ سے ان کے دام فریب میں پھنس جاتاہے۔جتنے بڑے کبائر ہیں، جیسے: زنا ،شرک پرستی،قتل اولاد وغیرہ ان کی تاریخ پر نظر ڈالیے،سب کی ابتدا وسائل اورمقدمات سے ہوئی ہے۔
اس بحث کے تناظر میں برقی تصویرکے متعلق جواز اور عدم جواز سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کے مفاسد پر نگاہ ڈالنی چاہیے ۔اگر یہ درست نہ بھی ہوکہ وہ حرام تصویر ہے، مگر اس کا غیر شرعی اورغیر تعمیری استعمال اتنا زیادہ ہے اوراس کے نتائج اتنے سنگین اور مفاسد اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اسے شرعی قانون انسداد کے تحت ممنوع ہونا چاہیے۔ماقبل میں امریکی عدالت اپیل کا فیصلہ گزرچکاہے کہ کس طرح مفاد عامہ اوراجتماعی مصلحت کی خاطراس نے ملزم کو قانون کے ابہام کا فائدہ نہیں اُٹھانے دیا اورایک چیز جو رائج قانون کے تحت خلاف قانون نہیں تھی، مگر مفاسد کی روک تھام کے لیے اسے غیر قانونی قرار دیا۔شرعاً بھی برقی تصویر کو دفع مضرت اور حصولِ مصلحت کے تحت ممنوع قرار دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور اس معاملے میں شریعت اور قانون دونوں ہم خیال اور متفق ہیں۔
حواشی وحوالہ جات
(۱)جو تعریفیں دستیاب ہیں، ان میں سے بعض کو تعریف کی بجائے تمثیل کہنا زیادہ مناسب ہے۔بعض میں مغالطہ دور ہے یعنی تعریف میں تصویر سے مشتق کوئی لفظ دہرایا گیا ہے۔بعض میں کوئی ایسا عام تر لفظ استعمال گیا ہے، جس سے تعریف کا دائرہ پھیل گیا ہے اور حد اور محدود کا توازن بگڑ گیا ہے ۔ کچھ میں علل اربعہ میں سے کوئی علت ترک کردی گئی ہے۔ الغرض کسی نہ کسی  منطقی اصول کو نظر انداز کردیا گیا ہے، جس کی بناء پر کسی تعریف پر کلی اطمینان نہیں ہوتا ہے۔دوسری طرف خود منطقیوں نے معرف اور حد کے بارے میں جو نکتہ آفرینیاں ،فنی موشگافیاںاور دقت پسندیاں کی ہیں، ان میں سے اکثر کوہ کندن اور کاہ برآوردن ہیں۔منطق کی ہزار ہا سالہ تاریخ میں سوائے حیوان ناطق کے کوئی اور ایسی تعریف وضع نہیں ہوسکی ہے جوخود منطقی معیار پر پوری اترتی ہو ۔اور یہ یکتا اور بے نظیر تعریف بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کے تابڑ توڑ حملوں سے لہو لہان ہے۔شارح بزدوی شیخ عبدالعزیز بخاریؒ ’’خاص ‘‘ کی بحث کے تحت فرماتے ہیں کہ ہمارے مشایخ منطقی اصولوں کوزیادہ درخور اعتناء نہیں سمجھتے اور ان جھمیلوں میں نہیں پڑتے ہیں،مگر شیخ زین الدین بن ابراہیم ابن نجیم ؒ نے ’’المنار ‘‘ کی شرح ’’فتح الغفار‘‘ میں اس موقف کو مسترد کیا ہے۔
(۲)مفردات القرآن (اردو) مترجم:شیخ محمد عبدہٗ فیروز پوری،ص: ۵۹۹،ج:۲، ط :شیخ شمس الحق ،کشمیر بلاک ، اقبال ٹاؤن ،لاہور)۔
(۳)قبلہ نما ،ص:۳۲،ط :کتب خانہ قاسمی ،سن ۱۹۲۶ء۔
(۴)فیض الباری علیٰ صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب عذاب المصورین یوم القیامۃ، ج:۶،ص:۱۱۱، رقم الحدیث:۵۹۵۱، ط: دارالکتب العلمیہ بیروت۔
(۵)فیض القدیر ،حرف من:۶/۱۷۳، رقم الحدیث:۸۸۲۳، ط: مطبعہ مصطفی محمد، ۱۹۳۸ء۔
(۶)دائرۃ المعارف الاسلامیہ ، مادہ:صورۃ: ۱۴/۳۷۲،ط:دارالمعرفۃ بیروت۔
(۷)الاعلام ببیان أخطاء الشیخ القرضاوی فی کتاب الحلال والحرام ،تالیف صالح بن فوزان بن عبداللہ آل فوزان ،المدرس بکلیۃ الشریعۃ بالریاض ۔
(۸)عمدۃ القاری، کتاب اللباس، باب ماوطی من التصاویر:۲۲/۷۲، ط:رشیدیہ، کوئٹہ۔
(۹)حجۃ اللہ البالغۃ ،باب ضبط المبھم وتمییز المشکل والتخریج من الکلیۃ ونحو ذلک،ج:۱ ،ص:۱۱۱ ، ط:کتب خانہ رشیدیہ دھلی۔
(۱۰)ٹی وی اور ویڈیو کے شرعی احکام،ص:۱۷۴، سن طباعت:۱۴۰۷ھ ، طابع: اسلامی کتب خانہ، کراچی۔
(۱۱)ایضاً۔            (۱۲)محاضرات الموسم الثقافی ،ص :۴۰،قدری حافظ طوفاں ،دار المعارف مصر، ۱۳۷۴ھ۔


 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین