بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

برقی تصویر (پانچویں قسط)

برقی تصویر
 

    (پانچویں قسط)

 

اصل اور عکس کافرق

اس عنوان کے تحت بالترتیب تین امور پر گفتگو کرنی ہے:
۱:۔۔۔اصل اور عکس کے حکم میں فرق ہے۔
۲:۔۔۔دونوں کا فرق روشنی کی وجہ سے ہے۔
۳:۔۔۔عکس اوربرقی تصویر کافرق زیادہ جوہری اور بنیادی ہے۔
فقہاء اصل اور عکس کے حکم میں فرق کر تے ہیں ۔ کوئی چیز پانی میں ہو اُسے دیکھنے کا حکم کچھ ہے تو پانی کے اندر کسی شئے کاعکس دیکھنے کا حکم کچھ اور ہے۔درج ذیل عبارت میں وضاحت کے ساتھ اس فرق کو بیان کیا گیا ہے:
’’۔۔۔۔لو نظر إلی الأجنبیۃ من المرآۃ أوالماء وقد صرحوا فی حرمۃ المصاھرۃ بأنھا لاتثبت برؤیۃ فرج من مرآۃ أوماء لأن المرئی مثالہٗ لا عینہٗ بخلاف مالو نظر من زجاج أو ماء ھی فیہ لأن البصر ینفذ الزجاج والماء فیری ما فیہ ۔۔۔۔‘‘۔           ( ــفتاوی شامی، فصل فی النظرواللمس،۶؍۳۷۲،ط:ایچ ایم سعید )
ترجمہ:۔۔۔۔’’اگر اجنبی عورت کا عکس آئینے یا پانی میں دیکھے،فقہاء نے حرمت مصاہرت کی بحث میں تصریح کی ہے کہ عورت کی شرمگاہ کا عکس آئینے یا پانی میںدیکھنے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہو گی، کیو نکہ نظر آنے والی چیز شرمگاہ کا عکس ہے، بذات خود شرمگاہ نہیں ہے۔البتہ جس صورت میں عورت کو شیشے میں یا پانی میں دیکھے تواس سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی ،کیوںکہ نظر شیشہ اور پا نی سے پار ہوجاتی ہے اور جو چیز ان میں ہو وہ نظر آجاتی ہے‘‘۔
اس فرق کا حاصل یہ ہے کہ چونکہ دیکھنے دیکھنے میں فرق ہے، اس لیے اصل اور عکس کے احکام میں بھی فرق ہے ۔اس فرق کی وضاحت اس طرح ہے کہ دیکھنا تین طرح پرہوتاہے:
۱:۔۔۔آنکھ اور شئے کے در میان کوئی حائل نہ ہو۔اس صورت میں روشنی براہِ راست آنکھ تک پہنچتی ہے۔ 
۲:۔۔۔شیشے میںیا عینک لگا کر دیکھنا۔ اس صورت میں روشنی شیشے سے پار ہو کر آنکھ تک پہنچتی ہے۔
 ۳:۔۔۔۔آئینے یا اسٹیل وغیرہ میںکسی شئے کا نظر آنا۔اس صورت میں روشنی منعکس ہوکرآنکھ تک پہنچتی ہے۔ 
ان تینو ں صورتوں میں سے پہلی دو صورتوں میں آنکھ اصل شئے کو دیکھتی ہے،اس لیے اس پر اصل کو دیکھنے کے احکام جاری ہوتے ہیں،جب کہ تیسری صورت میں آنکھ پر چھائیوں کو دیکھتی ہے،اس لیے اس پر عکس کودیکھنے کے احکام جاری ہوتے ہیں۔
 قابل غور امر یہ ہے کہ اصل اور عکس کا فرق صرف روشنی کے براہِ راست آنکھ تک پہنچنے اور نہ پہنچنے کی وجہ سے ہے ،جس سے معلوم ہو تا ہے کہ روشنی کا ذرا سا فرق حکم کی تبدیلی میں اثر رکھتا ہے تو جس صورت میںروشنی با لکل تبدیل ہوجائے تووہ تبدیلی یقینا حکم کی تبدیلی میں مؤثر ہوگی۔
اب جن تین صورتوں کا اوپربیان ہوا،ان میں تو روشنی اپنی طبعی حالت(Physical State) پر برقراررہتی ہے اور آنکھ تک پہنچنے سے پہلے وہ کسی اور قوت مثلاً: برقی یا مقنا طیسی یا ریڈ یائی قوت میں تبدیل نہیں ہوتی، جب کہ کیمرا روشنی کی کرنوں کو برقی لہروں میں بدل دیتاہے، جس سے روشنی کی حقیقت وما ہیت بدل جاتی ہے اور عکس کا وہ بنیادی وصف فوت ہوجاتا ہے جوعکس کے وجود کے لیے ضروری ہے ۔ عکس میں روشنی اُلٹے پاؤں لوٹ جاتی ہے، لیکن جب روشنی روشنی نہ رہی، بلکہ بجلی بن گئی تو اس کا لوٹنا کیسے ہوسکتا ہے؟
’’والعکس فی اللغۃ :عبارۃ عن ردالشیء علی سننہ بطریقہ الأول مثل عکس المرآۃ ،إذا ردت بصرک إلی وجھک بنور عینک‘‘۔
                                               (التعریفات للجرجانیؒ،ص:۶۶،طبع اولیٰ،مطبع خیریہ مصر )
خلاصہ یہ کہ عکس قدرتی لہروں کا مجموعہ ہوتا ہے، جبکہ برقی تصویر مصنوعی اور بنا وٹی لہروں کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے ۔یہ ایک واضح فرق ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ برقی منظرکو عکس کہنا درست نہیں ہے ۔ مگر اس قدرتی اور بناوٹی لہروں کے فرق کو فیصلہ کن حیثیت دینے سے پہلے دواور نتائج بھی غور و فکر چاہتے ہیں، جو اسی فرق کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں:
الف:۔۔۔۔۔۔ ڈیجیٹل تصویر کی طرح آج کل ڈیجیٹل سا ئونڈ کا استعمال بھی عام ہے۔ اگر امام ڈیجیٹل آلہ استعمال کرکے نماز پڑھائے تو مقتدیوں کو امام کی اصل آواز پہنچے گی یا اصل آواز کی باز گشت؟ کیو نکہ ڈیجیٹل سسٹم میں تصویر کی طرح آواز کو بھی برقی لہروں میں بدلا جاتاہے اور پھر اصل لہروں کی طرح لہریں پیداکر کے امام کی آواز کی طرح آواز پیدا کی جا تی ہے ، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ نمازیوں نے بعینہٖ امام کی آواز نہیں سنی، بلکہ ایک اور آواز سنی جو امام کی آواز کا چربہ اور نقل تھی اور نمازیوں نے اس نقل مشابہ اصل آواز کو سن کرقیام ،رکوع اور سجدہ کیا ،جس سے ان کی نماز فاسد ہوگئی۔
ب:۔۔۔۔۔۔جو پروگرام براہِ راست نشر ہوتے ہیں، ان میں بھی منظر کو برقی ذروں میں تبدیل کر کے نشر کیا جا تا ہے ۔ اب اگر قد رتی اور مصنوعی لہروں کے فرق کو اس قدر اہمیت دی جائے تو براہِ راست پروگرام بھی عکس نہیں ٹھہرتے ہیں، کیو نکہ وہ بھی بناوٹی لہروں کا مجموعہ ہوتے ہیں ۔اس کے ساتھ کلوز سرکٹ کیمرے کابھی اضافہ کیجیے، کیونکہ وہ بھی روشنی کی شعاعوں کو برقی لہروں میں بدل دیتاہے۔
پہلے اعتراض کا جواب آسان ہے،کیوںکہ نماز ی کا خارجِ نماز شخص کے حکم کی تعمیل کرنا اس وقت اس کی نماز کو فاسد کرتا ہے، جب عمل درآمد سے مقصود اس شخص کی اتباع اور دل جوئی ہو،لیکن اگر مقصود اس شخص کی اتباع نہ ہو، بلکہ شریعت کی ا تباع ہواور وہ شخص محض واسطہ بن گیا ہوتو پھر نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ظاہر ہے کہ کوئی شخص اس بے جان آلے کی اتباع نہیں کرتا ہے، بلکہ شریعت کی اتباع کرتا ہے، کیونکہ حکم ہے کہ امام کی نقل وحرکت کے ساتھ تم بھی نقل وحرکت کرو ،اس آلے سے صرف اتنا معلوم ہوجاتا ہے کہ اب امام رکوع میں ہے، اب سجدے میں ہے۔یہ ایک طے شدہ مسئلہ ہے،اس لیے زیادہ تفصیل کی حاجت معلوم نہیں ہوتی۔تفصیل کے طالب حضرات مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کارسالہ’’ آلاتِ جدیدہ اور ان کے شرعی احکام‘‘  ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
جو پروگرام براہِ راست نشرہوتے ہیں، اُنہیں جب تک محفوظ نہ کرلیاجائے، وہ تصویر کی تعریف میں نہیں آتے ،اورجب اُنہیں محفوظ کرلیا جائے تو پھروہ تصویر کی ذیل میں آجاتے ہیں۔یہی حکم کلوز سرکٹ کیمرے کا بھی ہے کہ جب تک منظرکو محفوظ نہ کیا جائے، وہ تصویر نہیںہے، مگر جوں ہی اُسے محفوظ کرلیاجائے تووہ تصویر کی تعریف میںداخل ہوجاتاہے۔ البتہ اس طرح کے کیمرے سیکورٹی خدشات اور جان ومال کے تحفظ کی غرض سے لگائے جاتے ہیں،اس لیے جہاں ایسی ضرورت ہو وہاں’’شریعت کاقانونِ ضرورت ‘‘متوجہ ہوگا۔اگر ضرورت واقعی ضرورت ہویعنی معقول ہواورشریعت کی نگاہ میںقابل قبول ہو، توایسے کیمروں کے استعمال کی اوران کے ذریعے مناظر کو محفوظ کرنے کی اجازت ہوگی، اورجہاں ضرورت شریعت کے معیارات اوراصولوں پر پوری نہ اترتی ہو،وہاں اجازت نہ ہوگی ۔
یہ سوال کہ کون سی ضرورت شرعی ضرورت ہے اورکون سی ضرورت اردو محاورے والی ضرورت ہے؟ کون سی ضرورت حقیقی ضرورت ہے اورکون سی دنیا کے شور اورپروپیگنڈے کے زور پر اسلام کی ضرورت جتائی جارہی ہے ؟اس کاتعین ہمارے موضوع اور بحث سے خارج ہے۔
یہ جو کہا گیا کہ براہِ راست پروگرام کو جب محفوظ کرلیا جائے تووہ بھی تصویر کے زمرے میں آجاتاہے،اس  کے ثبوت میں وہ تمام دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں جن کاماقبل میں ذکر ہوا، تاہم خاص طور پر اس فقرے کے پسِ پشت استاذجی مرحوم مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ کی سوچ کارفرما ہے، جب کبھی ان سے استفسارہوتاکہ برقی تصویر پائیدار نہیںہوتی توحضرت شہیدؒ کاجواب ہوتا کہ: ’’محفوظ توہوتی ہے۔‘‘کبھی یہ بھی فرماتے کہ :’’اگریہ عکس ہے تو اصل کہاں ہے؟‘‘مطلب یہ ہوتا تھا کہ عکس تو ذی عکس کے غائب ہونے سے ختم ہوجاتاہے، مگر برقی تصویر پھربھی برقرار رہتی ہے۔
یہ اکابر کا کمال ہے کہ وہ سادہ اورمختصر لفظوں میں بہت بڑی اورگہری حقیقت بیان کرجاتے ہیں۔ اوراق کے اوراق سیاہ کرنے کے باوجود حقیقت وہی ہے جو حضرتِ استاذؒنے ایک چھوٹے سے فقرے اورمعنویت سے بھرپور جملے میں ارشاد فرمادی ہے کہ :’’محفوظ توہوتی ہے۔‘‘
یہ اس قدر گہرا اوربلیغ جملہ ہے کہ اس میں کیمرے کے مقصد کا بیان بھی ہے ، اختلاف کی رعایت بھی ہے ،حقیقت کی وضاحت بھی ہے اوریہی جملہ تمام فنی تفصیلات کا مغز ،نچوڑ،لب لباب اورحاصل ہے ۔
پہلے گزر چکاہے کہ کیمرے کی ایجاد کامقصد اشیاء اورمناظر کابصری ریکارڈ محفوظ رکھنا ہے۔ پچھلوں کے علوم وفنون تحریر کے ذریعے ہمارے پاس محفوظ ہیں،ماضی کے حالات اورواقعات سے زبانی حکایات اورسینہ بہ سینہ روایات کے ذریعے ہم باخبر ہیں، مگراشیاء کا بصری ریکارڈمحفوظ رکھنا اس دن سے ممکن ہوا ہے، جب سے کیمرے کی ایجاد ممکن ہوئی ہے۔کسی بے جان شئے کی بصری یادداشت محفوظ رکھنے میںتو حرج نہیںہے، لیکن بصری ریکارڈاگرجان دار کا ہوتواس کی ممانعت ہے اور شریعت کواس سے سخت نفرت ہے، کیوں کہ یہی چیز اکثر فتنے کا باعث بنتی ہے،طویل انسانی تاریخ اس پر شاہد ہے۔
استاذ محترم کا تبصرہ اس لحاظ سے حقیقت پسندانہ بھی ہے کہ اس کی صداقت سے موافق کے علاوہ مخالف کوبھی انکار کی گنجائش نہیںہے۔برقی شبیہ حرام تصویر ہے یا نہیں؟اس بحث سے قطع نظر کیا وہ محفوظ عکس ہے یا نہیں ؟جواب صرف اور صرف اثبات میں ہے اورجب برقی شبیہ محفوظ عکس ضرورہے تواس سے بندھا اگلا سوال یہ ہے کہ عکس تو جائز ہے، لیکن محفوظ عکس بھی جائز ہے ؟
غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ’’ پائیدار اورمحفوظ‘‘ میںلفظی فرق اورتعبیر کا اختلاف ضرور ہے، لیکن مقصد اورنتیجے میں دونوں برابر ہیں۔پائیدار ی کامقصد بھی حفظ اورضبط ہے اورجب یہی مقصد ہے تو دونوں میں سوائے لفظی اختلاف کے کوئی اورفرق نہیں ہے۔ اور یہ بحث بھی اس صورت میں ہے جب تصویر کے لیے قیام ودوام کی شرط کو ایک لازمی شرط کے طور پر تسلیم کیا جائے، ورنہ اگر اس شرط کو وزن نہ دیا جائے یاکم از کم اسے فیصلہ کن حیثیت نہ دی جائے، جیسا کہ ہم بحث کرآئے ہیں، تو پھر کوئی اختلاف ہی نہیں رہتاہے۔
                                                                     (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین