بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

برقی تصویر (دوسری قسط)

برقی تصویر     (دوسری قسط)

رؤیت کا اصول  کیمرے کی ایجاد جس اصول کی مرہون منت ہے، وہ یہ ہے کہ آنکھ کیسے دیکھتی ہے ؟کوئی چیز کیسے نظر آتی ہے؟آ یاآنکھ سے روشنی نکلتی ہے اور چیزوںپر پڑتی ہے؟ یاچیزوں پر روشنی پڑتی ہے اور آنکھ تک پہنچتی ہے ؟بالفاظ دیگر آنکھ ڈیلیور ہے یا ریسیور؟ جب تک یہ راز دریافت اور یہ معمہ حل نہ ہوا تھا، کیمرے کی ایجاد ایک خواب وخیال سے زیادہ نہ تھی۔  اس بارے میں قدیم حکماء کا نظر یہ تھاکہ آنکھ سے روشنی کی کرنیں نکلتی ہیں اور جس چیز پر پڑتی ہیں وہ نظر آجاتی ہے،یہ لوگ اس نظریے کے حق میںجیومیٹری کے دلائل دیتے تھے، لیکن مسلمان سائنس دان’’ ابو علی حسن ابن الہیثمؒ ‘‘نے جو بصریا ت کے امام گزرے ہیں، اور جن کی کتاب ’’کتاب المناظر‘‘ اس موضوع پر درجہ اول کی کتاب ہے، اورنور اور روشنی کے بارے میں یورپ کی معلومات کا ماخذ اوران کی تصنیفات کے لئے اصل الاصول ہے،انہوں نے اس قدیم نظر یے کوغلط قرار دیا کہ آنکھ سے شعاعیں نکلتی ہیں اور اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں ثابت کیا کہ’’روشنی کی موجودگی میں آنکھوں سے کسی قسم کی شعاعیں یا کرنیں باہر نہیں نکلتی ہیں ،اور نہ ہی ایسی کرنوں کا کوئی وجود ہے۔البتہ تحقیق اور تجربے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب  روشنی کسی جسم پر پڑتی ہے تو روشنی کی شعاعیں اس جسم کی مختلف سطحوں سے پلٹ کر پھیل جاتی ہیں، ان شعاعوں میں سے کچھ شعاعیں دیکھنے والے کی آنکھوں میں داخل ہوجاتی ہیں تو وہ شئے آنکھوں کو نظر آنے لگتی ہے۔‘‘(۱) حجۃالاسلام مولانامحمد قاسم نانوتویؒ نے’’آب حیات‘‘ میںایک سادہ مگروزنی اورعام فہم دلیل اس طرح دی ہے کہ اگر آنکھ سے نور نکلتا تو پھر اندھیرے میں بھی اشیاء نظر آجانی چاہئے تھیں۔فرماتے ہیں:  ’’۔۔۔آفتاب و قمر و شمع و چراغ وغیرہ اشیاء نورانی کی شعا عیں اشیاء مبصرہ پر وا قع ہو کر بوجہ انعکاس حدقۂ چشم تک پہنچ جا تی ہیں اور پھر ذریعۂ ادراک ہو جا تی ہیں اور یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ ابصار میں انوار کی حاجت ہوتی ہے ،ورنہ ابصاربخروجِ اشعہ ہوا کرتا تو پھر ضرورتِ انوارِ خارجہ کی کو ئی وجہ بن نہیں پڑ تی۔۔۔۔‘‘(۲) شیخ محمدبن حسین الجسر الطرابلسیؒ نے بھی اپنی کتاب’’الرسالۃ الحمیدیہ‘‘میں یہی بات لکھی ہے کہ اشیاء سے نور منعکس ہوتاہے: ’’۔۔۔۔إن العامل برسم صور المرئیات فی العین ھو النور الواقع علی المرئیات والمنعکس عنھا إلی داخل العین…‘‘۔(۳) ترجمہ:’’آنکھ میں اشیاء نظر آنے کی وجہ وہ نور ہے جوچیزوں پر پڑتا ہے اور ان سے منعکس ہوکر آنکھ میں داخل ہوتاہے۔‘‘ کیمرے کی ایجاد یونانیوں اور تمام دنیا کی یہ غلطی درست کرنے کے بعد کہ آنکھ سے شعاع بصر نہیں نکلتی، بلکہ تمام چیزوں کی شبیہ آنکھ میں آکر بنتی ہے،تحقیق کا بند دروازہ دنیا پر کھل گیا اور کیمرے کی ایجاد ممکن ہوئی۔آنکھ کی ساخت کے اصول پر ہی کیمرا ایجاد کیا گیا ہے اور کیمراآج بھی اپنے طریقہ کار میں بڑی حد تک آنکھ کے اصولوں پر کام کرتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ آلات کی شکلیں بدلی ہیں ،کوالٹی بہتر ہوئی ہے اورطریقہ کار میں بھی کچھ تبدیلی آ ئی ہے ،لیکن اس کے پس پشت بنیادی قانون وہی ہے جو اولین کیمرے کی ایجاد کے وقت تھا۔ (۴) کیمرا بنیادی طورپرایک برقی آلہ ہے،جس کا تعلق باصرہ کے ساتھ ہے ۔یہ آلہ اشیاء کا ’’بصری ریکارڈ‘‘محفوظ رکھنے کی غرض سے ایجادکیا گیا تھا۔ رفتہ رفتہ اس غرض سے متعلقہ آلات بھی ایجاد ہوتے گئے۔ٹی وی اس بصری ریکارڈ کو دور سے دکھاتا ہے ۔ویڈیو کیسٹ اور سی ڈی وغیرہ میںبصری ریکارڈ محفوظ ہوتا ہے۔بصری ریکارڈ اگر بے جان اشیاء کا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیںہے،لیکن جان دار کی بصری یادداشت محفوظ کرنا جائز ہے یا نہیں؟فی الحال اس بحث کے تصفیہ کا موقع نہیں، لیکن سردست اتنا جاننا فائدہ سے خالی نہیں کہ جان دار کی شبیہ محفوظ رکھنا ہی اکثر فتنے کا باعث ہواہے۔ کیمرے کا طریقہ کار کیمرا پہلے عکس لیتا ہے، پھر اُسے محفوظ کرتا ہے اور پھر اُسے کاغذ یا اسکرین پر ظاہر کردیتا ہے، گویا کیمرا تدریجی طور پر شبیہ سازی کرتا ہے، ان تینوں مرحلوں کو درج ذیل ناموں سے موسوم کرتے ہیں: ۱:۔۔۔۔عکس کا حصول ۔ ۲:۔۔۔۔عکس کا ضبط۔ ۳:۔۔۔۔عکس کا اظہار ان تینوں مرحلوں کا اگر فنی تجزیہ کیا جائے توان میں سے ہر پہلا اگلے کے لئے بنیاد اور ہر اگلاپچھلے پر مبنی معلوم ہوتاہے اوران تینوں سے گزر کر ایک مصنوعی منظر نگاہوں کے سامنے آتا ہے، تاہم یہ تینوں مرحلے اس قدر سرعت اور سہولت کے ساتھ مکمل ہوتے ہیں کہ آنکھ کو ایک ہی مرحلہ محسوس ہوتے ہیں ۔ پہلا مرحلہ ’’حصول عکس‘‘کا ہے۔اس مرحلے پر گفتگو سے پہلے’’ نفس عکس‘‘پر گفتگو ضروری ہے، کیونکہ عکس کی حقیقت معلوم ہونے کے بعد ہی کیمرے کے آلۂ عکاسی یا تصویر سازی ہونے کے متعلق کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ عکس کی حقیقت عکس کا لفظی معنیٰ ’’ اُلٹ دینا‘‘ ہے اور انعکاس کا مطلب ’’اُلٹ جانا‘‘ ہے ۔ روشنی کا قانون یہ ہے کہ وہ بالکل سیدھ میں سفر کرتی ہے اور بے سہارا سفر کرتی ہے ، مگر دورانِ سفر جب کسی جسم سے ٹکراتی ہے تو تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت ہوتی ہے:  ۱:…یا تو جسم میں سے پار ہوجاتی ہے ،جیسے: ہوا اور صاف پانی اور شفاف شیشے سے روشنی پار ہوجاتی ہے۔ ۲:… یا اس میں جذب ہوجاتی ہے،جیسے: گیند جب گارے پر پڑتی ہے تو اس میں دھنس جاتی ہے۔ ۳:…یا پھر اُس سے ٹکرا کر لوٹ جاتی ہے، جیسے: گیند جب دیوار سے ٹکرا تی ہے تو اُدھر کو جاتی ہے جدھر سے آتی ہے۔ ابن الہیثمؒ کی تعبیر اس بارے میںبہت دقیق، علمی اور جامع ہے۔وہ لکھتے ہیںکہ جسم دو قسم پر ہوتے ہیں: ۱:…نور افشاں جسم ۔    ۲:…بے نور جسم نور افشاں جسم وہ ہوتا ہے جو خود روشنی دیتا ہے، جیسے: سورج،چراغ وغیرہ اوربے نور جسم وہ ہوتا ہے جو خود روشنی نہیں دیتا ہے، بلکہ اس پر روشنی پڑتی ہے تو وہ منور ہوجا تا ہے ۔ پھر اس جسم کی تین قسمیںہیں: ۱:…شفاف جسم،جس سے روشنی آر پار ہوجاتی ہے، جیسے: ہوا ،صاف پانی ،صاف وشفاف شیشہ وغیرہ۔ ۲:…نیم شفاف جسم،جس سے روشنی صاف نہ گزر سکے، جیسے: نہایت باریک کپڑا ،رگڑا ہو ا شیشہ وغیرہ۔ ۳:…غیر شفاف جسم،جس سے روشنی بالکل پار نہ ہوسکے اور دوسری طرف کی اشیاء بالکل نظر نہ آئیں ۔(۵) اجسام کی اقسام اورروشنی کے قانون کے بعدعکس کا سمجھناآسان ہے۔ عکس اس طرح بنتا ہے کہ روشنی جب غیر شفاف جسم پر پڑتی ہے تو اس سے ٹکرا کر مخالف سمت میں سفر شروع کردیتی ہے۔ اب اگر یہی پلٹ کرآنی والی روشنی آنکھ تک پہنچ جائے تو وہ جسم نظر آجاتا ہے اور اگر آنکھ تک بر اہ راست پہنچنے کی بجائے آئینے وغیرہ سے پلٹا کھاکر آنکھ تک پہنچے تو وہی چیز آئینے میں نظر آنے لگتی ہے،اسی آئینے میں نظر آنی والی چیز کو عکس کہتے ہیں۔جب ہم آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو روشنی کی لہریں ہمارے جسم پر پڑ تی ہیں اورہمارے جسم کی شکل وصورت بناتی ہوئی آئینے کی طرف جاتی ہیںاور آئینے سے پلٹا کر واپس آنکھ تک پہنچتی ہے ۔ یوں لہروں کے انعکاس کے نتیجے میں آئینے میں ہمیں اپنی صورت نظر آتی ہے ۔خود آئینے میں کچھ نہیں ہوتا، جو کچھ ہوتا ہے ہماری اپنی پرچھائیاں ہوتی ہیں ۔جب تک ہم آئینے کے مقابل کھڑے رہتے ہیںتب تک لہروں کے ٹکراؤ اور پلٹاؤ کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ہر لمحہ ہمارا عکس بنتا رہتا ہے اور جب ہم آئینے کے سامنے سے ہٹ جاتے ہیںتو روشنی کے آئینے تک پہنچنے اور پھر وہاں سے ٹکراکر پلٹنے کا سلسلہ بھی ختم ہوجاتا ہے،نتیجۃً ہمارا عکس بھی غائب ہوجاتا ہے ۔ اس تفصیل سے ایک تو یہ واضح ہے کہ عکس کا مادہ روشنی ہے،دوسرے یہ کہ بالواسطہ نظر آنے والی چیز عکس ہوتی ہے اوریہ نتیجہ بھی صاف نکلتاہے کہ عکس کے وجود اور تشکیل پذیری میںتین چیزوںکا دخل ہوتاہے : ۱:۔۔۔۔جسم ۔    ۲:۔۔۔۔آئینہ ۔    ۳:۔۔۔۔روشنی مثلاً آئینے کے سامنے جسم ہی نہ ہو، یا جسم تو ہولیکن آئینہ ہی نہ ہو، یا دونوں ہوں، لیکن روشنی نہ ہو تو عکس بھی نظر نہیں آسکتا، بلکہ عکس بن ہی نہیں سکتا، کیونکہ عکس کا مادہ ہی روشنی ہے۔ جسم نہ ہوں تو عکس کس کا بنے؟ اور روشنی نہ ہو تو عکس کس سے بنے؟اور آئینہ نہ ہو تو انعکاس کدھر سے ہو؟ معلوم ہوا کہ تینوں کا وجود عکس کے وجود کے لئے ضروری ہے، مگر کیمرا ایک مرتبہ عکس اتارنے کے بعد صاحب عکس سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور جوشبیہ ٹی وی کے آئینے پر نظر آتی ہے، وہ اصل سے لاتعلق اور اس کے غائب ہونے کے باوجود برقرار رہتی ہے۔ عکس کی حقیقت معلوم ہونے کے بعد اب کیمرے کے ذریعے حصولِ عکس پر گفتگو مناسب معلوم ہوتی ہے ۔ پہلا مرحلہ :عکس کا حصول پہلے گزرچکا ہے کہ کیمرا آنکھ کے اصولوں پر کام کرتا ہے۔ آنکھ قدرتی عطیہ ہے اوربینائی کا فطری آلہ ہے،اس کے باوجودر وشنی کا محتاج ہے ،تو یہ مصنوعی آلہ روشنیوں سے کیسے بے نیاز ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ قدیم ہو یاجدید،ہر کیمراروشنی کے ذریعے پہلے عکس لیتا ہے۔بعض کیمرے اسی مقصد کے لئے منظر پر سفید رنگ کی تیز روشنی ڈالتے ہیں۔روشنی جب منظر سے پلٹتی ہے تو اس کی شکل وصورت بناتی ہوئی کیمرے میں داخل ہوتی ہے اور کیمرا کا عدسہ انہیںایک نقطہ پر مرکوز کرلیتا ہے ۔یوں عکس لینے کا عمل تمام ہوجاتا ہے ۔ عکس اتارنے کے سلسلے میں تمام کیمروں کا بنیادی عمل ایک جیسا ہے ،اس لئے حصولِ عکس کے بارے میں قدیم اور جدید کیمروں پر الگ سے بحث کی ضرورت نہیں رہتی ہے، تاہم عکس محفوظ کرنے کے سلسلے میں مختلف کیمروں کا طریقہ کا ر مختلف ہوتا ہے،اس لئے اختصار کے ساتھ اس فرق کو بیان کیا جاتا ہے ۔ دوسرا مرحلہ :عکس کا ضبط روایتی کیمرے کا طریقہ کار روایتی کیمرے میں ریل کے فیتے پر کیمیائی مادے کی تہہ بچھائی جاتی ہے جو باریک باریک دانوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔عکس بناتی ہوئی روشنیاں جب ان باریک اور حساس دانوں پر پڑتی ہیں تو وہ اپنی کیمیائی ماہیت بدل لیتے ہیں اور عکس کے مطابق شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔یوں تصویری نقوش کی صورت میں عکس ان پر محفوظ ہوجاتا ہے، جو صفائی و دھلائی کے ایک طویل عمل کے بعد قابل دید ہوجاتا ہے۔ ایسے عکس کا کاغذ پر پرنٹ لیاجاسکتا ہے اوراس میں سے روشنی گزار کر پردے پر اس کا عکس ڈالا جاسکتا ہے ،مگر بحالتِ موجودہ اُسے نشر نہیں کیا جاسکتا ۔نشر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے جدید طریقے کے مطابق اس کی نقل لی جائے اور پھر اس کی برقی تقطیع کی جائے اور پھرا سے نشراوروصول کیا جائے۔ ویڈیو کیمرے کا طریقہ کار ویڈیو کیمرے میں عکس کو مقناطیسی اشاروں کی صورت میں محفوظ کیا جاتا ہے ،مگر اس میں عکس غیر مرئی ہوتاہے، جیساکہ آڈیو کیسٹ میں آواز غیر مرئی ہوتی ہے، اور جس طرح آڈیو کیسٹ میں آواز کی لہریں غیر مرئی ہونے کے باوجود محفوظ ہوتی ہیں، اسی طرح ویڈیو کیمرے میںعکس کے اشارے بھی محفوظ ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جو مشہود نہیں وہ موجود بھی نہیں ،تاہم عکس تصویر ی نقوش کی صورت میں محفوظ نہیں ہوتا،لیکن جب مطلوبہ آلے سے منسلک کرکے اُسے اسکرین پر لاتے ہیںتو وہ مقناطیسی اشارے ترتیب سے ترکیب پا کر پھر اصل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ٹی وی کیمرے کا طریقہ کار ’’ٹی وی‘‘کا لفظ ’’ٹیلی ویژن‘‘کا مخفف ہے۔ٹیلی کے معنی’’ دور‘‘ کے ہیںاور ویژن کا مطلب ’’دیکھنا‘‘ ہے، یعنی دورکی چیزوں کو دیکھنا،اسی نسبت سے اُسے ہندی میں دور درشن کہتے ہیں۔آسان لفظوں میں ’’صورتوں اور آوازوں کو دور تک پہنچانے والے آلے کو ٹی وی کہتے ہیں۔‘‘ فنی زبان میں اس سے مراد ایساطریقہ کار ہے جس میں منظر کو متعلقہ آواز سمیت ریڈیائی لہروں کی صورت میں نشر اور وصول کیا جاتا ہے ۔ ٹی وی کیمرا روشنی کی لہروں کو برقی ذرات میں بدل دیتاہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ٹی وی کے سنگنلز برقی طور پر نشر کئے جاتے ہیں، اس لئے روشنی کی لہروں کو برقی لہروں میں منتقل کرنا ضروری ہوتا ہے،بصورتِ دیگر اس کا ارسال ممکن نہیں ہے ۔برقی لہروں میں تبدیلی کے بعد ہوا کے ذریعے انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ ارسال کردیا جاتا ہے اور دوسرا آلہ انہیں وصول کرلیتا ہے۔اسکرین پر جب ان برقی لہروں کا ترتیب سے اجتماع ہوتا ہے تو وہی صورت دوبارہ بن جاتی ہے جو کیمرے نے وصول کی ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل کیمرے کا طریقہ کار ڈیجیٹل کیمرا روشنی کے معاملے میں انتہائی حساس آلہ ہوتا ہے۔ جب روشنی کی لہریں اس پر پڑتی ہیں تو وہ انہیںبرقی رو میں بدل دیتا ہے۔برقی رو کی مقدار کے متعلق تفصیل اعداد کی صورت میں محفوظ کرلی جاتی ہے اور پھر اسی تفصیل کے مطابق نئی روشنیاں پیدا کرکے اصل جیسا منظر وجود میں لایا جاتا ہے۔ڈیجیٹل کیمرے پر مزید بحث آگے آئے گی۔عکس کے ضبط کے سلسلے میں یہ مختلف کیمروں کا مختصر سا تعارف تھا۔ماہرین کے بقول عکس کے بنیادی اصول آج بھی وہی ہیں جو اولین کیمرے کی ایجاد کے وقت تھے، ان میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی ہے، جو کچھ تبدیلی آئی ہے وہ عکس محفوظ کرنے کے سلسلہ میں آئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ طریقۂ حفاظت کا فرق فنی نقطہ نظر سے کچھ اہمیت رکھتا ہو، مگر شرعی نگاہ اُسے غیر اہم سمجھتی ہے۔ تیسرا مرحلہ:عکس کا اظہار تیسرے مرحلے میں عکس کو کسی ذریعہ پر ظاہر کردیا جاتا ہے ۔یہ ذریعہ ٹی وی کی اسکرین، کمپیوٹر مانیٹر، عام کاغذ،فوٹو گرافک پیپریا پردۂ سیمیںوغیرہ کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے،بلکہ اب تو ہوا میں بھی شبیہ کو ظاہر کرنا ممکن ہوگیا ہے۔یہی اصل اور مقصودی مرحلہ ہوتا ہے۔اس مرحلے میںجو چیز نگاہ کے سامنے آتی ہے اس کی مثال شروع میں گزرچکی کہ وہ اصل میں روشنی کے چھوٹے چھوٹے نقطے ہوتے ہیں،یہ نقطے برقی ذرے ہوتے ہیں اور برقی ذرے روشنی کی لہریں ہوتی ہیں جو منظر سے خارج ہوکر کیمرے میں داخل ہوتی ہیں۔یہی روشنی کی لہریں برقی تصویر کا نقطۂ آغاز ہوتی ہیں،ان ہی میں منظر چھپاہواہوتاہے اور ان ہی کو فنی ضرورت کے تحت کبھی برقی رموزاوربرقی سنگنلزاورکبھی ذروں میں تبدیل کیاجاتاہے۔یہ وجہ تھی کہ بحث کاآغاز روشنی کے اصولوں سے کیاگیا۔روشنی کی بحث سے آنکھ اورکیمرے کا گہراربط اور مضبوط تعلق بھی معلوم ہوگیاکہ دونوں کی افادیت روشنی پر موقوف ہے اورکیمرے کی بنیاد آنکھ کے اصولوں پر ہے اورکیمرے کا طریقہ کار بڑی حد تک آنکھ کے مشابہ ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی (مختصر تعارف) شروع شروع میںفلم یاپلیٹ پرعکس محفوظ کیاجاتاتھا۔ روایتی کیمروںمیںآج بھی یہی طریقہ استعمال کیاجاتاہے۔اگرچہ اس طریقہ کارکوبہت زیادہ شہرت اورپذیرائی حاصل ہوئی،مگرایک توریل کے استعمال پراخراجات بہت آتے ہیں،دوسرے موسمی اثرات اور تغیرات سے تصویرکے نقوش متأثر بھی ہوجاتے ہیں۔ریل چڑھانے ا ور نکالنے کی محنت وشقت اس کے علاوہ ہے،اور پھر خاص طریقے سے اور خاص مقام پرریل کی صفائی ودھلائی ایک طویل اورصبرآزماکام ہے۔ ان وجوہ کی بناء پرایک ایسی ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی جومذکورہ عیوب ونقائص سے خالی ہے اور نقل وحکایت کے مقصدکی اعلیٰ پیمانے پراور عمدہ طریقے سے تکمیل کرتی ہے۔اس نئی ٹیکنالوجی کو ڈیجیٹل سسٹم کہا جاتاہے،اوراس کی خوبیوں کے اعتراف میں نوے کی دہائی کوڈیجیٹل ایج(Degital Age)کا نام دیاگیا ہے۔ ڈیجِٹ(Digit)عددکوکہتے ہیں،اس لئے ڈیجیٹل(Digital)کامطلب عددی یا عددپرمبنی ہوا،اور ڈیجیٹلائز(Digitalize) کامطلب عددی بنانایااعدادمیںڈھالنا ہے۔(۶) ڈیجیٹل گھڑی وہ ہوتی ہے جوبجائے سوئیوںکے ہندسوںمیںوقت بتاتی ہے۔اس نظام میں چونکہ آوازاورتصویرکے متعلق معلومات کوعددی طریقے سے یااعدادکے وسیلے سے محفوظ کیاجاتا ہے،اس لئے اُسے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے۔ نوے کی دَھائی کو’’ڈیجیٹل دو ر‘‘کا نام اس لئے دیاگیاہے کہ اس میںٹیکنالوجی کی تیز رفتارترقی نے برقی سازوسامان اورآلات کوڈیجیٹل بنادیا،ان میںCompact ڈسک(سی ڈی)، ڈیجیٹل کیمرہ، ڈیجیٹل ویڈیوڈسک(ڈی وی ڈی)اورسب سے بڑھ کرڈیجیٹل ٹیلویژن شامل ہیں۔ (۷) اس نظام میںڈیٹااعداد کی صورت میںمحفوظ کیاجاتاہے،مگرایک دو تین کی صورت میںہمارے معروف اورجانے پہچانے اعداداستعمال نہیںکئے جاتے ہیں،بلکہ بائنری نمبرسسٹم یعنی ثنائی نظام استعمال کیاجاتاہے۔ثنائی نظام حساب وکتاب کاایساقاعدہ ہے جس میںگنتی ایک اورصفرکے درمیان محدودرہتی ہے۔ڈیجیٹل آلات میںجب بھی ڈیٹامحفوظ کرنے کی بات ہوتی ہے تواس سے صفراور ایک کامجموعہ ہی مرادہوتا ہے۔ مزیدوضاحت کے لئے ہم کمپیوٹرکی مثال لے سکتے ہیں۔کمپیوٹرایک برقی آلہ ہے، یعنی بجلی کی مدد سے چلتاہے اور جتنے برقی آلات ہوتے ہیں انہیں چلنے کے لئے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے ۔کمپیوٹرکی خصوصیت یہ ہے کہ اس میںڈیٹابھی بجلی کی شکل میںمحفوظ ہوتاہے،کیوںکہ کمپیوٹر کی تمام بات چیت ڈیجیٹل ہوتی ہے، یعنی اس میںصرف ہندسے استعمال ہوتے ہیں،اوریہ ہندسے بھی دراصل برقی لہریں ہوتی ہیں،جو مثبت اور منفی چارج کی نمائندگی کرتے ہیںاور ان میں تصویر اور آواز کے متعلق تفصیل چُھپی ہوتی ہے۔حاصل یہ نکلاکہ تصویریں اعداد کی صورت میں محفوظ ہوتی ہیںجو دراصل برقی لہریںہوتی ہیں،اس لئے کہنا درست ہوا کہ کمپیوٹر میں ڈیٹا بجلی کی شکل میں محفوظ ہوتاہے۔زیادہ آسان لفظوںمیں یوں سمجھئے کہ کمپیوٹرمیںہرچیزمشینی زبان میںمحفوظ ہوتی ہے۔ کمپیوٹرصرف دو ہندسوں کی مدد سے ڈھیروں حروف ،مختلف آوازوں اور رنگ برنگی تصویروں کواس طرح محفوظ کرتاہے کہ کمپیوٹر دانوں نے تمام اعداد،حروف اور علامات کے لئے، یہا ں تک کہ تمام بنیادی رنگوںاورآوازوںکے لئے مشینی علامات مقررکی ہیں۔ ان ہی علامات کی صورت میںکمپیوٹر میں چیزیں محفوظ ہوتی ہیں،بلکہ جو بھی آلات ڈیٹاکومحفوظ رکھتے ہیں جیسے: ہارڈڈسک،فلاپی ڈسک،سی ڈی روم وغیرہ ان میںبھی ڈیٹااسی شکل میں محفوظ ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل سسٹم کے مختصرتعارف کے بعداب ڈیجیٹل کیمرے کے عمل کوسمجھناآسان ہے۔ ڈیجیٹل کیمرا  عکس کیاہے؟روشنیوںکامجموعہ ہے۔خودروشنیاںکیاہیں؟لطیف کرنیںہیں۔پیچھے گزرچکا ہے کہ روشنیاںمنظرکے رنگ وروپ اورشکل وصورت کی حامل ہوتی ہیں۔ یہی روشنیاںجب کیمرے میں داخل ہوتی ہیں توکیمرے کاعدسہ انہیںایک نقطے پر مرکوزکرلیتاہے،جب کہ ڈیجیٹل کیمراروشنی کے معاملے میںانتہائی حساس آلہ ہوتاہے جوروشنی کو ضبط کرکے اُسے برقی قوت میں بدل دیتا ہے اوربرقی قوت کی قدر وقیمت کو ڈسک پرمحفوظ کرلیتا ہے۔پھر ایک اورآلہ اسی قوت اورطاقت کی روشنیاںپیدا کردیتا ہے جواصل کی ہوبہوہوتی ہیں۔ یہ روشنیاںجب اسکرین پر پڑتی ہیںتوان کے اجتماع سے تصویربن جاتی ہے۔  بہرحال ڈیجیٹل کیمرے میںاورایک عام کیمرے میںابتدائی عمل بالکل یکساںہوتا ہے،تا ہم عکس محفوظ کرنے کا طریقہ دونوںکامختلف ہے۔عام کیمرے میںفلم یاپلیٹ ہوتی ہے، جب کہ ڈیجیٹل کیمرے میںکوئی فلم نہیںہوتی ہے،بلکہ روشنی کی حساسیت رکھنے والا ایک آلہ ہوتا ہے جوروشنی کو برقی رومیںبدلتاہے ۔یہی دونوںکابنیادی فرق ہے۔ علاوہ ازیں: ڈیجیٹل کیمرامنظرکے تمام رنگوںکوضبط نہیںکرتا ہے، بلکہ صرف سرخ،سبزاور نیلے رنگوںکونوٹ کرتا ہے، کیوںکہ یہ تینوںبنیادی رنگ سمجھے جاتے ہیںاوران کے مناسب امتزاج سے کوئی سا بھی رنگ تیارکیاجاسکتاہے،جب یہ تینوں ایک مرتبہ ضبط کرلئے جائیں تو پھر ان کی مدد سے دوبارہ پورا منظر تیارکیاجاسکتا ہے۔ حاصل صرف اتناہے کہ ’’روشنی کوفنی عمل سے گزارکرپھرقابل دیدبنادیاجاتاہے‘‘ مگراس فنی عمل کے نتیجے میںروشنی کی طبعی حالت(Physical State) برقرارنہیںرہتی ہے، بلکہ بجلی میں بدل جاتی ہے اورجو روشنی ناظرکو اسکرین پر نظرآتی ہے وہ منظر کی اصل روشنی نہیںہوتی ہے، بلکہ اس کی نقل اورمشابہ ہوتی ہے۔ان نقل بہ مطابق اصل روشنیوں کے ذریعے اصل جیسا منظر تشکیل دیا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل تیکنیک پرآ خری نظر  کیمرے کی ایجادسے جس فن کی ابتداہوئی تھی،ڈیجیٹل تیکنیک کی بدولت وہ اب عروج کو پہنچ گیا ہے،اورابھی فنی ترقی کایہ سلسلہ جاری ہے ۔طبیعتوںکوچین ہے، نہ ترقی کی انتہا ہے ۔ سائنس نے ابھی بعض راہوں پرچلناشروع کیا ہے،رفتارنہیںپکڑی ہے،بعض تاروںکوصرف چھواہے، چھیڑا نہیں ہے۔ عزائم بہت بلنداورارادہ بہت دورتک جانے کا ہے ۔اقبال کے الفاظ میںستاروںکے درمیان اپنی رہ گزرپیداکرنی ہے ۔ اب ایسی ٹیکنالوجی عام ہورہی ہے جس میںمنظراسکرین کے پیچھے تک محدود نہیںرہتا ہے، بلکہ انسان کے ساتھ جیتی جاگتی زندگی میںشامل ہوجاتا ہے۔منظرکوکسی ٹھوس سطح پرظاہر کرناضروری نہیںہوتاہے، بلکہ پانی اورہواپربھی اُسے ظاہرکیا جاتاہے۔انسان اسکرین کے پیچھے منظر کا مشاہدہ کرنے کی بجائے اُسے اپنے گھرکسی گوشے میںدیکھ سکتاہے،اُسے اپنے قریب لاسکتاہے ،اوراس میں سے ہاتھ بھی گزار سکتاہے۔اس ٹیکنالوجی کوہولوگرام(Holo Gram)کے نام سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔  ہولوگرام کے علاوہ ایک اورٹیکنالوجی بھی ہے،جسے ورچیول ریالٹی(Virtual Reality) کہاجاتا ہے۔ورچیول کامعنی’’ سراب‘‘ ہے، یعنی ایسی چیزجونظرتوآئے، لیکن اس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ اس ٹیکنالوجی میں انسانی جسم کے ساتھ کچھ آلات لگادیئے جاتے ہیں، جن کا تعلق انسانی جسم اور کمپیوٹردونوںکے ساتھ ہوتا ہے۔ان آلات کولگاکرانسان اپنے آپ کومنظرکاحصہ سمجھنے لگتا ہے،وہ تصوراتی طور پراسکرین کے اندرداخل ہوجاتا ہے،اس کے ساتھ وہ حرکت کرسکتا ہے ،اِدھر اُدھردیکھ سکتا ہے، اپناردعمل ظاہرکرسکتا ہے،دوردرازملکوںمیںجاکروہاںکی سیرکرسکتا ہے ،اسٹاک مارکیٹ کے ریٹ دیکھ سکتاہے،مگر وہ ہوتا اپنی جگہ پر ہے۔ طبی تحقیق میںبھی وی آر (ورچیول ریالٹی )کا عمل دخل بہت زیادہ اہم اور نمایاںہوگیا ہے۔ جونیئر سرجن کو خطرناک آپریشن کی تربیت کی بجائے آپریشن تھیٹرکے وی آرسٹوڈیو میں دی جاتی ہے،اُسے گاگلزاوردستانے پہناکے ایک مصنوعی آپریشن تھیٹرمیںپہنچادیاجاتا ہے اوروہ کسی حقیقی جسم کو ہاتھ لگائے بغیر تربیت حاصل کرلیتا ہے۔  ایک نوآموزہوابازکوقیمتی ایف سولہ دینے کی بجائے اُسے وی آر اسٹیشن پرکھڑے جہاز کے کاک پٹ میںبٹھاکراس کی آنکھوںپرآلات لگادیئے جاتے ہیں،اُسے ایک کھلا رن وے نظرآتاہے اور ساتھ انجن کی بھرپورآواز بھی سنائی دیتی ہے۔اس کے بعد وہ جہاز اڑا تا ہے اورآسمان میںجہاز کے مختلف کرتب دکھاتا ہے، حالاں کہ وہ زمین پربیٹھاہواہوتاہے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹرکوعوامی شہرت پہنچانے میںملٹی میڈیا کااستعمال بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ آج بے چارے ایک کمپیوٹر میں الیکٹرونکس کی تمام سہولیات اکٹھی کردی گئی ہیں،حالاں کہ جب پہلی دفعہ کمپیوٹرڈیزائن کیاگیاتھا تواُسے صرف حساب و کتاب کے لئے بنایاگیا تھا ۔اس وقت اس کی شکل آج کے جدید کیلکولیٹرکی طرح تھی اوراس کے ذریعے صرف اعداداور حروف کو دیکھاجاسکتاتھا ،مگرونڈوزکے پروگرام آنے کے بعدکمپیوٹر تصویر کی رنگ برنگی دنیا میں پہنچ گیا ہے۔ الغرض فنی ترقی کاسلسلہ جاری ہے،نت نئے آلات وجود پاتے رہیں گے۔مگرہمیںشکل وصورت اورروح وحقیقت کے درمیان فرق روارکھناہوگا،کیونکہ شکلیں اور صورتیں بدلتی رہتی ہیں، مگرروح اور حقیقت ہر زمانے میںیکساںرہتی ہے۔مقصدکے حصول کے لئے مختلف ذرائع اوروسائل اختیارکئے جاتے ہیں،مگرحکم کاتعین ذریعے اور وسیلے سے نہیں، بلکہ ماٰل اورنتیجے سے ہوتا ہے،اس لئے حقیقت پرنگاہ مرکوزرکھنی چاہئے اورشکل وصورت سے دھوکہ نہ کھاناچاہئے۔ ذریعے کوغیرمقصودہونے کی بناء پرنظر اندازکردیناچاہئے، مگر نتیجے سے صرفِ نظر نہیںچاہئے۔اگرفکر اتنی گہری ،فہم اتنامستقیم اورنگاہ اتنی تیزہوکہ وہ صورت سے گزر کر روح اورحقیقت تک اتر سکتی ہو توپھر برائی جس رنگ وروپ میںآجائے،اُسے پہچاننامشکل نہیںرہتا ہے۔ حواشی وحوالہ جات (۱)ابو علی حسن ابن الہیثمؒ فن طبیعیات کے مسلمان علماء میں خاص مقام رکھتا ہے۔ریاضی ،ہیئت،فلسفہ اور طب وغیرہ میں اس نے متعدد کتابیں لکھیں ہیں۔جس خاص کتاب کی وجہ سے اُسے شہرت عام اوربقائے دوام حاصل ہوا وہ اس کی تصنیف ’’کتاب المناظر ‘‘ ہے، جو علم المناظر سے متعلق ہے۔اس کتاب کا اصلی نسخہ ناپید ہے،مگر اس کا ترجمہ ۱۵۷۲ ء میں لاطینی زبان میں ہوا(اور کریمونا کے جرارڈ نے شاید اس سے بھی پہلے کیا ) جس سے قرون وسطیٰ میں علم المناظر کی ترقی میں بہت مدد ملی۔ قرون وسطیٰ کے تقریباً تمام مصنفوں نے حسنؒ کی کتاب کو اپنی تصنیفوں کا اصل اصول قرار دیا ہے۔اب تک اس کے جتنے مخطوطات کا علم ہوا ہے وہ سب استنبول کے مختلف کتاب خانوں کی زینت ہیں۔’’کتاب المناظر‘‘ کے لاطینی ترجمے کے متعدد قلمی نسخے یورپ کے کتب خانوں میں موجود ہیں ۔چودھویں صدی عیسوی میں اس کتاب کا اطالوی زبان میںبھی ترجمہ ہوا، جس کا واحد قلمی نسخہ ویٹی کن میں محفوظ ہے۔کمال الدین الفارسی نے اس کی شرح بہ عنوان ’’تنقیح المناظر‘‘ قلم بند کی تھی۔ بہر کیف اس میں شک نہیں کہ اس لاطینی ترجمے کی مدد سے ابن الہیثم کے نظریات نہایت کامیابی سے ازمنہ وسطیٰ ،نشأۃ ثانیہ اور مغرب کے سترہویں صدی عیسوی کے فلاسفہ تک منتقل ہوگئے ۔(معروف مسلم سائنسدان، ص:۵۴۹،ط:اردو سائنس بورڈ، لاہور)( ڈاکٹرزاہد علی،تاریخ فاطمیین مصر،ص:۴۰۱،ط:میر محمد کتب خانہ،کراچی) (۲)نانوتوی،مولاناقاسم، آب حیات، ص:۲۲۴، مطبع:مجتبائی،دہلی۔ (۳)الطرابلسیؒ،الشیخ حسین بن محمد الجسر،الرسالۃالحمیدیۃفی حقیقۃ الدیانۃالإسلامیۃ وحقیقۃ الشریعۃ المحمدیۃ،الکلام علیٰ ماقالوا من أن النور یرسم الصورۃ علیٰ الشبکیۃ مقلوبۃ۔ ص:۱۹۵،ط:ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، مصر) (۴)تاریک کمرا جو بیرونی منظر کو ایک اندرونی پردے پر منعکس کر تا ہے۔(آکسفورڈ) ۔تاریک عکاسہ جس سے دور کی چیزوں کا عکس ایک تاریک کمرے میں کاغذپر پڑتاہے ۔(بابائے اردو ڈکشنری ،ص:۱۴۱) Cameraاصل میں لاطینی زبان میںCamerتھا،اور قرون وسطیٰ میںیہ’’ایوان ‘‘یا ’’کمرا‘‘کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔اردوزبان میں بھی’’کمرا‘‘کا لفظ پرتگالی زبان سے آیا ہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں ایک اطالوی سائنسدان نے ایک تاریک کمرے میں چھوٹا سا سوراخ کیا اور اس میں سے سورج کی روشنی اس طرح سے آنے دی کہ وہ براہ راست کمرے کے اندر داخل نہ ہو، بلکہ کمرے سے باہر کی چیزوں سے منعکس ہو کر آئے، یعنی کمرے سے باہر کسی چیز کا عکس کمرے کی اندر کی دیوار پر ڈال دیا،جس کے نتیجے میںسوراخ کے سامنے کی دیوار پر کمرے سے باہر کی چیزوںکا الٹا عکس نظر آنے لگا ،اس کوCamera Obscura(تاریک کمرا) کا نام دیا گیا۔ Obscura لاطینی ز بان کا لفظ ہے اور اس کا معنی تاریک ہے ۔اس زمانے اسی تاریک کمرے کے ذریعے کسی چیز کا عکس کاغذ پر حاصل کر کے ہاتھ سے اس پر قلم پھیرلیا جاتاتھا،مگراس کے ذریعے آج کے کیمرے کی طرح تصویر نہیں کھینچی جاسکتی تھی ،اس کے بعد ایک وقت آیاکہ اشیا کے نقوش کاغذ پر حاصل کئے جانے لگے، لیکن یہ نقوش گہرے اور مستقل نہ تھے ۔آخر ایک وقت آیا کہ ماہر ین نیگیٹیو شبیہ لینے اور پھر اُسے پازیٹیو بنانے میں کامیاب ہوگئے،غرض بے شمار مراحل طے کرنے کے بعد کیمرا موجودہ شکل تک پہنچا ہے۔(جمیل احمد ’’سائنسی اصلاحات اور اُن کا پس منظر‘‘،ط:اردو سائنس بورڈ،لاہور) کیمرا آبسکیورا کے لفظی معنی ہے: تاریک خانہ، یہ نام ایک تاریک کمرے یا ڈبے کی وجہ سے رکھا گیا، جس میں ایک طرف سے ایک چھوٹا سا سوراخ کیا گیا، اس طرح کے ڈبے کی ابتدا دراصل سورج گرہن کو آنکھوں کے لئے کوئی خطرہ پیدا کئے بغیر دیکھنے کے لئے ہوئی تھی۔ طویل عرصہ تک لوگوں کے نزدیک اس کا یہی استعمال رہا، لیکن مصوروں نے اُسے استعمال کرنا شروع کردیا، تاکہ چیزوں کا درست ترین عکس یا شبیہ بنانے کے لئے آسانی رہے۔ (سوعظیم ایجادیں) (۵)رفیق انجم ،ابراہیم عمادی،۱۰۰ عظیم مسلم سائنسدان،ص:۱۸۷، ط:دارالشعور،لاہور۔ (۶)حقی،شان الحق ،اوکسفرڈ انگلش اردو ڈکشنری، ص:۴۲۵،ط:اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس،اشاعت سوم ۔ (۷) سید راشد اشرف،جدید صحافتی انگریزی (اردولغت ) ص: ۱۰۱، ط:مقتدرہ قومی زبان پاکستان، ۲۰۰۶ئ۔ (جاری ہے)

 

 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین