بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

برصغیر پاک و ہند میں رائج مصاحف کا رسم الخط

 

برصغیر پاک و ہند میں رائج مصاحف کا رسم الخط

 قرآن کریم کی جمع و کتابت تین مراحل میں نبی کریم a،حضرت ابو بکرq اور حضرت عثمانq کے زمانوںمیں ہوئی، تاہم ہردور کی جمع و کتابت میں قدرے فرق تھا۔ صحابہ کرام s نے رسول اللہ a کی زندگی میں قرآن کریم کو چمڑوں، پتھروں، ہڈیوں، کھجور کی چھالوں اور تختیوں پر لکھا، تاہم یہ متفرق صحیفے اور آیات یکجا نہ تھیں، کسی کے پاس ایک آیت، کسی کے پاس چند سورتیں اور کسی کے پاس اچھا خاصا مجموعہ تھا۔(۱)حضرت ابو بکر q کے دور مبارک میں حضرت عمرq کی جانب سے توجہ دلانے پریہ عظیم خدمت حضرت زید q کے حصے میں آئی۔ مانعین زکوۃ اور مسیلمہ کذاب کے خلاف برسر پیکار قراء صحابہؓ کے وجود کے ساتھ قرآن کریم کے ایک بڑے حصہ کا اس دنیا سے چلے جانے کا خوف صحابہ کرامq کودامن گیرہوا، جس کاحل یہ سوچا گیا کہ قرآن کریم کوایک جگہ جمع کیا جائے۔لہٰذا لوگوں کے سینوں، کاغذوں، چمڑوں، ہڈیوں اور کھجور کی چھالوںسے نقل کرکے اسے یکجاکیا گیا، اس وقت تک کوئی آیت نہیں لکھی جاتی جب تک دو صحابہؓ اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ یہ آیت نبی کریم a کے سامنے لکھی گئی ہے اور ان وجوہ کے مطابق ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ صرف حافظہ پر اعتماد کو کافی نہیں سمجھا گیا۔ اس بات کا لحاظ بھی رکھا گیا کہ آیت مبارکہ منسوخ نہیں ہوئی اور عرضہ اخیرہ میں ثابت تھی۔ یہ مجموعہ حضرت ابوبکرq کے پاس رہا، ان کی وفات کے بعد یہ حضرت عمرq اور پھر حضرت حفصہt کے پاس رہا، رضی اللہ عنہم اجمعین۔(۲) قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ آپ a ان ساتوں حروف کے ساتھ قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔ صحابہ کرام s میں سے ہر صحابیؓ نے آپa سے تمام حروف نہیں سیکھے تھے، کسی نے ایک حرف سیکھا تھا، کسی نے دو، تو کسی نے دو سے زیادہ حروف سیکھے تھے۔ جب صحابہ کرام s مختلف شہروں میں پھیلے تو تابعینؒ نے ان سے وہی حروف سیکھے جو انہوں نے نبی کریم a سے اخذ کیے تھے، جس کی وجہ سے مختلف قراء تیں پھیلیں۔ بعض ایک قراء ت نقل کرتے، جب کہ دوسرے وہ قراء ت نقل نہیں کرتے، کیوں کہ انہوں نے وہ قراء ت سنی ہی نہیں تھی۔ اہل شام ابی بن کعبq، اہل کوفہ ابن مسعود q اور دیگر لوگ حضرت ابو موسیٰ اشعری q کی قراء ت پڑھتے تھے، لوگوں کو یہ بات معلوم تھی کہ قراء ت کی یہ متعدد وجوہ ان کی آسانی کے لیے بطور انعام اور احسان ہے۔ ان میں سے ہر ایک قراء ت درست اور منزل من اللہ ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھنے لگی کہ ہماری قراء ت اصح اور اولیٰ ہے، چنانچہ بعض مواقع پر جب ان کا اجتماع ہوتا تو یہ ایک دوسرے کی قراء ت کا انکار کرنے لگتے۔(۳) حضرت عثمان q کے دور میںاہل عراق اور اہل شام‘ آرمینیہ اور آذربائیجان میں جہاد کررہے تھے، ان کے درمیان قراء ت کے سلسلے میں اختلاف ہوا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دوسرے کی قراء ت کا انکار کرنے لگے۔ حضرت حذیفہ q اس طرح کی صورت حال پہلے بھی دیکھ چکے تھے، وہ یہ تمام ماجرا دیکھ کرمزید پریشان ہوئے، حضرت عثمان q کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معاملہ سے آگاہ کیا، حضرت عثمان q بھی اس سے قبل اس بات کا مشاہدہ کر چکے تھے، قرآن کریم سکھانے والے معلم قراء بچوں کو ان لہجات و قراء ات کے مطابق قرآن کریم پڑھنا سکھاتے تھے جو انہوں نے اخذ کیے تھے، جب وہ بچے ایک جگہ جمع ہوتے تو ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگتے، بچوں کا یہ اختلاف ان کے معلمین تک جاپہنچا، وہ چوں کہ اسی قراء ت و لہجہ کو جانتے تھے، انہوں نے ایک دوسرے کی قراء ت کا انکار کرنا شروع کردیا۔ (۴) حضرت عثمانq نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ: جب تم میرے قریب رہ کر اختلاف کررہے ہو تو دور رہنے والے زیادہ اختلاف کریں گے۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے حضرت عثمانq نے حضرت حفصہt کی طرف پیغام بھیج کر وہ صحف طلب کیے جو حضرت ابوبکرq کے زمانہ میں لکھے گئے تھے۔ حضرت حفصہt نے وہ صحف بھیج دیئے۔ حضرت عثمان q نے حضرت زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشامs کو حکم دیا کہ وہ ان صحف کو مصاحف میں نقل کریں، اور یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی شئے میں تمہارا آپس میں اختلاف ہوجائے تو اسے لغت قریش میں لکھو، کیوں کہ قرآن کریم اسی لغت میں نازل ہوا ہے۔ جب تمام صحف مصاحف میں نقل ہوگئے تو حضرت عثمانq نے وہ صحف حضرت حفصہt کو واپس کردیئے۔ (۵) کل چھ مصاحف لکھے گئے۔ ایک مکہ مکرمہ کی طرف، دوسرا مدینہ، تیسرا کوفہ، چوتھا بصرہ، پانچواں شام اور چھٹا مصحف حضرت عثمان q نے اپنی ذات کے لیے خاص کیا تھا، جو مصحف امام کے نام سے مشہور ہے۔ ہر مصحف کے ساتھ ایک ایک معلم اور مقری بھی بھیجا گیا جو اس شہر کے لوگوں کو اس مصحف کے مطابق تعلیم دیتا تھا۔ چنانچہ مصحف مدنی پڑھانے کے لیے حضرت زید بن ثابتq منتخب ہوئے، مصحف مکی کے ساتھ عبد اللہ بن سائبؓ، مصحف شامی کے ساتھ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، مصحف کوفی کے ساتھ ابو عبد الرحمن السلمیؓ اور مصحف بصری کے ساتھ حضرت عامر بن القیسs کو معلم بنا کر بھیجا گیا۔ (۶) بعض علماء نے مصاحف کی تعداد چار، بعض نے سات اور بعض نے آٹھ بیان کی ہے، جس میں مذکورہ چھ کے علاوہ یمن اور بحرین کے مصاحف کا ذکر بھی ملتا ہے۔ (۷) لوگوں نے ان مصاحف سے مزید مصاحف نقل کرنا شروع کردیئے، یوں یہ مصاحف سارے عالم اسلام میں پھیل گئے۔ حضرت عثمانq کی نسبت سے ان مصاحف کو’’مصاحف عثمانیہ‘‘ کہا جانے لگا۔ ان سرکاری مصاحف کے علاوہ تمام ذاتی مصاحف کو جلانے کا اعلامیہ جاری ہوا، تاکہ امت محمدیہ l ایک مصحف پر جمع ہوجائے۔  چوں کہ یہ مصاحف نقاط اور حرکات و سکنات سے خالی تھے، لہٰذااس بات کا اہتمام کیا گیاتھا کہ رسم الخط ایسا ہو کہ اس میں حتی الامکان تمام قراء تیں جمع ہوجائیں، اگر قراء تیں اس قدر مختلف ہوں کہ ایک جیسا رسم اختیار کرنا مشکل ہو تو ایسی صورت میںہر شہر کی طرف بھیجے گئے مصحف میں اس شہر اور اس کے اطراف میں رائج قراء ت کے مطابق رسم الخط میں قرآن کریم لکھا گیا۔(۸) اس لحاظ سے ہر مصحف سات حروف پر مشتمل نہیں تھا، بلکہ یہ تمام مصاحف مل کر سات حروف پر مشتمل تھے۔(۹) حضرت ابو بکرq اور حضرت عثمان q کے اختیار کردہ منہج میں یہ فرق تھا کہ حضرت ابوبکر q نے متفرق اور منتشر لکھی آیتوںکو ایک مجموعہ میں لکھا، مختلف قراء توں کو حاشیہ اور بین السطوردرج کیا، جب کہ حضرت عثمانq نے تمام قراء توں کو ایک مصحف میں جمع کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی، اختلاف کی صورت میں ہر علاقے کی قراء ت کی رعایت کی، اختلاط و التباس سے بچنے کے لیے اس اختلاف کو حاشیہ وغیرہ میں درج نہیں کیا(۱۰) مثلاً:ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’وَوَصّٰی بِہَا إِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَ یَعْقُوْبُ‘‘ اس آیت مبارکہ کو امام نافع، امام ابن عامر اور امام ابو جعفر w نے ’’وَأَوْصَی‘‘ اور باقی قراء نے ’’وَوَصّٰی ‘‘ پڑھا ہے۔ بنا بریں یہ کلمہ مصحف مدینہ اور مصحف شام میں ’’وَأَوْصَی‘‘  اور مصحف کوفہ و مصحف بصرہ میں ’’وَوَصّٰی ‘‘  بغیر الف لکھا ہوا ہے، تاکہ رسم الخط وہاں کے لوگوں کی قراء ت کے موافق ہوجائے۔(۱۱)اسی طرح آیت مبارکہ’’ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْ أَقْتُلْ مُوْسٰی وَ لْیَدْعُ رَبَّہٗ إِنِّیْ أَخَافُ أَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ أَوْ أَنْ یُّظْہِرَ فِیْ الْأَرْضِ الْفَسَادَ ‘‘کی مثال ہے، اس آیت میں چار مختلف قراء تیں ہیں: ۱:…امام نافع، ابو عمر بصری اور امام ابو جعفر w’’وَ أَنْ یُّظْہِرَ فِیْ الْأَرْضِ الْفَسَادَ ‘‘ واو سے پہلے الف کے بغیر، یاء کے ضمہ، ہاء کے کسرے اور ’’الْفَسَادَ‘‘کی دال پر نصب دے کر پڑھتے ہیں۔ ۲:…امام ابن کثیر اور امام ابن عامر ’’وَ أَنْ یَّظْہَرَ فِیْ الْأَرْضِ الْفَسَادُ‘‘ واو کے ساتھ، یاء اور ہاء کے فتحہ اور’’الفسادُ‘‘ کی دال پر رفع دے کر پڑھتے ہیں۔ ۳:… امام حفص اور امام یعقوب ’’أَوْ أَنْ یُّظْہِرَ فِیْ الْأَرْضِ الْفَسَادَ‘‘ واو سے پہلے ہمزہ مفتوحہ کی زیادتی کے ساتھ واو ساکن، یاء کے ضمہ اور ہاء کے کسرہ کے ساتھ ’’الفسادَ‘‘ پر نصب دے کر پڑھتے ہیں۔ ۴:… امام شعبہ، حمزہ، کسائی اور خلف العاشر  ’’أَوْ أَنْ یَّظْہَرَ فِیْ الْأَرْضِ الْفَسَادُ‘‘ واو سے پہلے ہمزہ، یاء اور ہاء کے فتحہ اور ’’الفسادُ‘‘ پر رفع پڑھتے ہیں۔ لہٰذا مدنی، مکی، بصری اور شامی مصاحف میں ان شہروں کی قراء ت کے مطابق ’’وَأَنْ ‘‘واو سے قبل ہمزہ کے بغیر لکھا گیا ہے، جب کہ دیگر مصاحف میں ’’أَوْ أَنْ ‘‘واو سے قبل ہمزہ کے ساتھ لکھا گیا ہے، جب کہ باقی دو کلمات  ’’یظہر‘‘ اور ’’الفساد‘‘ کے رسم پر تمام مصاحف متحد ہیں، کیوں کہ انہیں ایک رسم میں جمع کیا جاسکتا ہے۔(۱۲) اس حساب سے پوری دنیا میں پھیلے مصاحف کا رسم تقریباً ایک ہی ہے۔ البتہ اختلافی مقامات پر ہر علاقے کے مصحف میں اس علاقے کی قراء ت کی رعایت ہے۔ ہمارے علاقوں میں چوں کہ حفص کی قراء ت رائج ہے، لہٰذا جہاں جہاں قراء ت کا اختلاف ہے اور ایک رسم الخط میں دونوں قراء توں کا اجتماع ممکن نہیں تو وہاں حفص کی قراء ت کے مطابق رسم ہے۔ قرآن کریم کے رسم الخط کے سلسلہ میں ۱۹۳۵ء میں مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلویv کی زیرقیادت تاج کمپنی نے ایک کمیٹی تشکیل دی، جنہوںنے قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کے رسم میں غور وخوض کرکے قرآن کریم شائع کیا، ایک دو مقامات پر تصحیح کی گنجائش بھی، بعد میں تصحیح بھی عمل میں لائی گئی۔ ان مصاحف کے رسم میں یہ منہج اختیار کیا گیا ہے کہ جس لفظ کے رسم میں امام ابو عمرو الدانیؒ اور ان کے شاگرد ابو داود سلیمان ابن نجاحؒ کا اتفاق ہے اس پر اعتماد کیا گیا ہے۔ جہاں دونوں حضرات کی ترجیحات میں فرق ہے وہاں امام ابو عمرو الدانیؒ کی ترجیحات کو اختیار کیا گیا ہے، چند ایک جگہ پر امام شاطبی v کی کتاب’’ العقیلۃ ‘‘کے مطابق رسم  ہے، بعض کلمات کے رسم میں ابو داود سلیمان بن نجاحؒ یا دیگر علماء رسم کی ترجیحات لی گئی ہیں، تاکہ رسم متواتر قراء ت کے مطابق ہوجائے۔ سعودی عرب میں رائج مصاحف کے رسم الخط میں ابو داود سلیمان ابن نجاحؒ کی ترجیحات کو سامنے رکھا گیا ہے، دونوں حضرات کی اکثر ترجیحات میں اختلاف کا تعلق الف کے حذف یا اثبات کے ساتھ ہے، مثلا: امام دانیؒ ’’الصراط‘‘الف کے اثبات اور امام ابوداؤد ’’الصرٰط‘‘ الف کے حذف کے ساتھ رسم کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ دونوں ترجیحات اپنی اپنی جگہ لائق قبول اور قابل عمل ہیں، ایک کی تصحیح اور دوسرے کی تغلیط درست نہیں۔ خلاصہ یہ کہ برصغیر کے علماء اور اکابرین نے قرآن کریم کے رسم الخط میں مدلل اور تحقیقی منہج اپنایا ہے، انہوں نے قرآن کریم کے ہر ہر لفظ کو انتہائی احتیاط سے لکھا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اسلاف کی علمی تحقیقات اور خدمات کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ حواشی و حوالہ جات ۱:…صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب کاتب النبی، ۲/۷۴۶،ط:قدیمی الإتقان فی علوم القرآن، النوع الثامن عشر، القول فی جمع القرآن ثلاث مرات،۱ /۱۲۹إلی ۱۳۲، ط:مؤسسۃ الرسالۃ مناہل العرفان، المبحث الثامن، جمع القرآن بمعنی کتابتہ،۱ /۲۰۲، ط: دار الکتاب العربی ۲:…صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، ۲/۷۴۵ و ۷۴۶، ط:قدیمی فتح الباری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن،۹ /۱۲ إلی ۱۵ ،ط:دارالمعرفۃ، بیروت ۳:…فتح الباری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، ۹/۱۸، ط:دارالمعرفۃ، بیروت مناہل العرفان، المبحث الثامن، جمع القرآن علی عہد عثمانؓ،۱ /۲۱۰ و ۲۱۱، ط: دار الکتاب العربی ۴:…فتح الباری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، ۹/۱۸، ط:دارالمعرفۃ، بیروت ۵:…صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن،۲ /۷۴۶ ،ط:قدیمی فتح الباری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، ۹/۲۰ ،ط:دارالمعرفۃ، بیروت البرہان فی علوم القرآن، النوع الثالث عشر، ۱/۲۴۰،ط: دارالمعرفۃ، بیروت ۶:…مناہل العرفان، المبحث المبحث العاشرفی کتابۃ القرآن ورسمہ ومصاحفہ وما یتعلق بذلک، المصاحف تفصیلا، کیف أنفذ عثمانؓ المصاحف العثمانیۃ؟، ۱/۳۳۰ ، ط: دار الکتاب العربی ۷:…البرہان فی علوم القرآن، النوع الثالث عشر، ۱/۲۳۵،ط: دارالمعرفۃ، بیروت مناہل العرفان، المبحث الثامن، جمع القرآن علی عہد عثمانؓ، ۱ /۲۱۴ و ۲۱۵، ط: دار الکتاب العربی ۸:…مناہل العرفان، المبحث الثامن، جمع القرآن علی عہد عثمانؓ، ۱/۲۱۲، ط:دار الکتاب العربی المقنع فی رسم مصاحف الأمصار، باب ذکر ما اختلفت فیہ مصاحف أہل الحجاز والعراق والشام الخ ،ص:۶۰۵، ط:دارالتدمریۃ النشر فی القراء ات العشر، ۱/۷  و ۸، ط:دارالکتب العلمیۃ        أیضا ،۱/۳۳ ،ط:دارالکتب العلمیۃ ۹:…مناہل العرفان، المبحث العاشر فی کتابۃ القرآن وورسمہ ومصاحفہ ومایتعلق بذٰلک، المصاحف تفصیلا، الحروف السبعۃ فی المصاحف العثمانیۃ، ۱/۳۲۷، ط: دار الکتاب العربی ۱۰:…مناہل العرفان، المبحث الثامن، جمع القرآن علی عہد عثمانؓ، ۱ /۲۱۴ و ۲۱۵، ط: دار الکتاب العربی ۱۱:…المقنع فی رسم مصاحف الأمصار، باب ذکر ما اختلفت فیہ مصاحف أہل الحجاز والعراق والشام الخ، ص:۵۷۱ ط:دارالتدمریۃ) ۱۲:…المقنع فی رسم مصاحف الأمصار، باب ذکر ما اختلفت فیہ مصاحف أہل الحجاز والعراق والشام الخ، ص: ۵۸۷  و ۵۸۸  ط، دارالتدمریۃ

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین