بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ایک دیا اور جلا میر کے مے خانے میں

ایک دیا اور جلا میر کے مے خانے میں

         جنگ اُحد میں جب مسلمانوں کو سخت تکالیف پہنچیں اور نعوذ باللہ یہ مشہور کردیا گیا کہ رسول اللہ ا کو شہید کردیا گیا، اس وقت ابوسفیان نے جو مشرکین کی کمانڈ کر رہے تھے، یہ آواز لگائی :’’ ہل فیکم محمد؟‘‘ صحابہؓ نے جواب کی اجازت چاہی، لیکن دربار رسالت سے اس کی اجازت نہیں ملی۔ ابوسفیان نے دوبارہ آواز دی ’’ ہل فیکم أبو بکر؟‘‘ جواب کی اجازت نہ ملی ، ابو سفیان نے ’’ ہل فیکم عمر؟‘‘ کی صدا لگا کر فیصلہ سنا دینے کی ٹھانی۔ صحابہؓ کی نگاہیں پھر پیغمبر خدا پر جمیں، جواب نفی کے سوا کچھ نہ تھا، در حقیقت آج پیغمبر خدا ا کچھ اور سبق دینا چاہتے تھے، ابوسفیان ظاہری نگاہوں کے اعتبار سے فیصلہ کر بیٹھے ، گرجے اور ’’أعل ہبل! ‘‘کانعرہ لگایا۔رحمۃ للعالمین ا فاروق اعظمؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: جواب دو ’’أﷲ أعلیٰ وأجل‘‘ ابوسفیان نے کہا ’’لنا العزیٰ ولا عزیٰ لکم‘‘ فاروق اعظمؓ نبوی ارشاد سناتے ہوئے للکارے: ’’اﷲ مولانا ولا مولیٰ لکم‘‘ ۔                                                            (مستدرک حاکم، تفسیر سورۂ آل عمران،ج:۲،ص:۳۲۴)     آج ایک پیغام دینا تھا، ایک ترتیبِ خداوندی سکھانی تھی، کوئی رہے نہ رہے، اللہ ہر حال میں باقی رہیں گے اور اللہ کا دین ہرحال میں زندہ وسالم رہے گا، مخلوقِ خدا جس کیفیت میں رہے خدا کا دین ہر حال میں غالب رہے گا۔ ذرا غور کریں پیغمبر خدا ا کے بارے میں پوچھا جارہا ہے اور جواب دینے کی اجازت نہیں، اس کے بعد جن دو بڑے حضرات پر مدار سمجھا گیا اُن کا پوچھا، جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی، لیکن جب بات دین کی آئی، لمحہ بھر تأمل نہ کیا اور جواب ترکی بہ ترکی دیا گیا۔      اصل حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اشخاص کو اپنے دین کے لئے استعمال فرماتے ہیں، دین کا مدار اشخاص پر نہیں رکھتے۔ اگر دین کا مدار محض اشخاص پر ہو تا تو شاید آج دین موجود ہی نہ ہوتا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دین اسی طرح موجود ہے، جس طرح حضور ا ہم تک پہنچا کر گئے تھے۔ وجہ واضح اور سبب ظاہر ہے کہ دین کا مدار اللہ نے افراد پر نہیں رکھا، افراد کو اللہ تعالیٰ نے دین کی وجہ سے عزت بخشی۔     اللہ تعالیٰ نے اس دین کے لئے جن افراد کو استعمال کیا، وہ ان کا اعزاز اور اکرام تھا، ورنہ ہر شخص وفرد کو یہ دولت نصیب نہیں ہوتی۔ دین کی بقاء کا تعلق اُن کے وجود سے نہیں، ہاں! چناؤ ہر شخص کا نہیں ہوتا، بلکہ خاص خاص افراد کا ہوتا ہے۔ اگر دین افراد کے چلے جانے سے مٹ جاتایا ادارے شہادتوں کی وجہ سے بند ہوتے تو شاید آج جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں موجود نہ ہوتا، اس دھرتی میں کوئی بنوری ٹاؤن کے نام تک سے واقف نہ ہوتا، بلکہ قصۂ پارینہ کی طرح کچھ لوگ اُسے جانتے، اس کی ثناء خوانی کرتے۔      یہ مادرِ علمی اپنے خدام وطلبہ سے لے کر مہتمم تک قربانی دے چکا ہے۔ڈرائیوروں کے جذبے اور بوڑھے ماں باپ کی جوان ہمتوں سے لے کر مہتمم اور رئیس دارالافتاء تک کے خون میں لت پت جسم کو اپنے آغوش میں پناہ دی۔ اگر یہ واقعات دین کو نقصان پہنچا تے تو یہ ادارے کبھی نہ چلتے، اس کے چاہنے والے کم سے کم ترہوتے چلے جاتے، اس میں داخلہ لینے سے طلبہ گھبراتے، والدین اپنے بچوں کو اس کے سائے سے بھی بھگاتے، اس کی آغوش میں پناہ دینے کی بجائے اس ادارے کو ایک ڈراؤنا جن بھوت بناکر اپنے بچوں کو بتاتے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دشمن بے وقوفی کرتا رہا، وہ لاشوں کے انبار لگانے پر تلارہا، وہ شہداء کی تعداد بڑھانے کے لئے تدبیریں کرتا رہا، وہ یہ بھول گیاکہ: فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے     قصہ مختصر! نہ دین ان تدبیروں سے مٹاہے، نہ ان طریقوں سے ختم ہوا،بلکہ یہ دین اللہ تعالیٰ کا ہے، وہ اس کی حفاظت خود جانتا ہے، ایک فرد کے چلے جانے کے بعد وہ دوسرے فرد کو پیدا کرنا بھی جانتا ہے اور ایک شخص کو دوسرے کی نیابت دینا بھی جانتا ہے، البتہ چہرے مختلف ہوتے ہیں، کبھی مولانا حبیب اللہ مختارشہیدؒ کی صورت میں، کبھی مفتی عبد السمیع شہیدؒ کی صورت میں،کبھی حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی صورت میں، کبھی مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ کی صورت میں، کبھی مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ ومفتی سعید احمد جلال پوری شہیدؒ کی صورت میں، کبھی مفتی عبد المجید دین پوری شہیدؒ اور مفتی صالح محمد کاروڑی شہیدؒ کی صورت میں۔      شہداء کا دنیا سے جانا بعد والوں کے لئے مشعل راہ کا کام دیتا ہے، ان کی شہادتیں چراغوں کا بجھنا نہیں، بلکہ شمعوں کا جلنا ہے۔ کسی نے حضرت استاذ شہیدؒ کی شہادت پر خوب کہا کہ:  ع ایک دیا اور جلا میر کے مے خانے میں     البتہ ہم حقیقت سے اللہ تعالیٰ کی طرح واقف نہیں ہوتے، ان کی طرح ہمیں ہرچیز اور ہر نعمت ان آنکھوں سے نظر نہیں آتی اور ہمارے سامنے اپنے شہداء کی خوبیاں اور کمالات ہوتے ہیں، ان کی نیک ادائیں اور دعائیں ہوتی ہیں، ان کی نیک سیرت اور چمکتادمکتا چہرہ ہوتا ہے، ان کے پڑھائے ہوئے الفاظوں کی گونجیں ہوتی ہیں، ان کی شفقت ورحمت ہوتی ہے، ان کے اُلفت بھرے بول ہوتے ہیں، اُن کے معصومانہ چہرے ہوتے ہیں، پھر ہم ہیں بھی انسان، الفت کے بجاری، محبتوں کے بھکاری ، اس لئے ہم ان کے دنیا سے چلے جانے پر اشک بار بھی ہوتے ہیں، روتے بھی ہیں، ان کی اداؤوں کو یاد کرکے، ان کے کمالات کو گن گن کر پریشان بھی ہوتے ہیں۔ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی چند صفات     حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ بھی ہمارے اُنہیں مشفق ومہربان اساتذہ میں سے تھے، جو بہت ساری صفات کے مالک تھے، قدرتِ خداوندی نے اُنہیں بہت سے کمالات سے نوازا تھا۔ اُن کی فقاہتِ نفس، حکیمانہ رائے،مدبرانہ فراست،پہلی نظر میں غلطی کو پکڑ لینا،قوت حافظہ، طرزِ گفتار، چلنے کی رفتار،معصومانہ کردار،تواضع، اورنہ جانے کیا کیا صفات تھیں جو ہم نہیں جانتے۔     اُن کے علم پر اُن کی تواضع نے اور ذہانت ومعاملہ سنجی پر سادگی نے پردہ ڈال رکھا تھا۔ وہ گفتگو کرتے ہوئے تو سادہ معلوم ہوتے، لیکن جب معاملہ کو حل کرتے تو اُن کے مخفی جوہر سامنے آتے۔ وہ چلتے ہوئے تو کسی شان والے معلوم نہ ہوتے تھے، لیکن جب کسی اُلجھے ہوئے مسئلہ کو سلجھاتے تو اُن کی فقاہت ظاہر ہوتی۔ وہ تشریح تو مختصر کرتے، لیکن جب تحقیق کرنے والا تہہ میں جاتا تو عش عش کررہ جاتا۔ کوئی ان کی مصروفیات کو دیکھ کر یہ اندازہ تو نہ کرسکتا کہ وہ مطالعہ کرتے بھی ہوںگے یا نہیں، لیکن جب طالب علم کو کسی کتاب کا حوالہ دیتے تو ان کی وسعت مطالعہ کا پتہ چلتا۔تواضع کی ایسی چادر اوڑھے ہوئے تھے کہ دیکھنے والا یہ اندازہ ہی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ جامعہ جیسے عظیم ادارے کے صدر مفتی ہیں۔      کبھی چال ڈھال سے، کبھی نشست وبرخاست سے یہ ظاہر ہونے ہی نہ دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی دولت سے نوازا ہے۔ رات کو گھر کے لئے دودھ خود لے جاتے، اپنی موٹر سائیکل پر نماز کے لئے اکیلے چلے جاتے۔ حالات کی خرابی کے باوجود معہد الخلیل جاکر فتووں کی تصحیح فرماتے تھے۔     بندہ رات کے وقت کبھی مسئلہ پوچھنے دار الافتاء حاضر ہوتا تو کبھی مزاحاً فرماتے: بھئی دن بھر بھی مسئلے ہوتے ہیں، رات کو بھی مسئلے پوچھتے رہتے ہو؟ کبھی فرماتے: بھئی بس کرو، اب خود بھی مسئلہ بتادیا کرو۔ رات کے وقت میں فتاویٰ کی تصحیح فرماتے، لیکن درجہ رابعہ کے طلبہ نے جب ان سے شرح وقایہ بیوع کا حصہ پڑھنے کی خواہش کی تو رات کے وقت باوجود اپنی مصروفیات کے اُنہیں پڑھانے میں تأمل نہ کرتے  تھے اور یہ معمول استاذجی رحمہ اللہ کا کئی سال جاری رہا اور کئی طلبہ نے ان سے شرح وقایہ رات کے وقت میں سمجھی۔     استاذ محترمؒ اپنے وظائف کے ایسے پابند تھے کہ کبھی کہیں جاکر بھی اس میں کمی نہ آتی، چند بار رات کو استاذ محترمؒ کے ساتھ کہیں قیام ہوا، بندہ کوشش کرتا کہ معمولات کا پتہ چلے کہ کس وقت جاگ کر اپنے رب کے سامنے گڑ گڑائیںگے، اکثر دیکھا کہ رات کو سب سے پہلے اُٹھتے اور نماز میں مصروف ہوجاتے اور صبح صادق کا وقت ہوتا تو ہم طلبہ کو بھی جگا لیتے اور نماز کے بعد بھی اپنے وظائف میں مصروف رہتے۔ اکثر سال کے اختتام پر یہ شعر پڑھتے: آئے تھے ہم مثل بلبل سیر گلشن کر چلے سنبھالو مالی! باغ اپنا ہم تو اپنے گھر چلے     جب استاذ محترمؒ کی شہادت ہوئی اور چہرہ دیکھا تو ایسا لگتا تھا گویا آج ایک طویل مشکلات کا سفر پورا کرکے آرام وراحت کی نیند کررہے ہیں۔      اپنے آبائی گاؤں دین پور میں اولیاء اللہ کے مقبرہ کے احاطے کے ساتھ متصل احاطے میں جب درخت کے سائے میں انہیں اُتارا گیا اور لوگ مٹی ڈال کر فارغ ہوکر چلے گئے تو اس وقت ان کے رفیق دار الافتاء جن سے اکثر دار الافتاء میں مزاح فرمایا کرتے تھے، ان کے پاس اسی انداز سے کھڑے ہوئے، جیسا دار الافتاء میں ان کی کرسی کے پاس آکر کھڑے ہوجاتے تھے، اس وقت بالکل ایسا محسوس ہورہا تھا، جیسے مفتی صاحبؒ ان سے مخاطب ہوکر یہ شعر دوبارہ پڑھ رہے ہوںگے: آئے تھے ہم مثل بلبل سیر گلشن کر چلے سنبھالو مالی! باغ اپنا ہم تو اپنے گھر چلے     اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحبؒ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائیں اور ہم پسماندگان کو ان کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ فرمائیں اور جامعہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائیں۔ آمین۔ ٭٭۔۔۔۔٭٭

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین