بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اپنے حج کی حفاظت کیجیے !

اپنے حج کی حفاظت کیجیے! الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی حج ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے اور بشرطِ قدرت واستطاعت فرض ہے۔ قدرت و استطاعت کی تفصیل یہ ہے کہ اس کے پاس ضروریاتِ اصلی سے زائد اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اللہ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام کا خرچ برداشت کرسکے، اور اپنی واپسی تک ان اہل و عیال کا بھی انتظام کرسکے جن کا نفقہ ان کے ذمہ واجب ہے، نیز ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں سے معذور نہ ہو، کیونکہ ایسے معذور کو تو اپنے وطن میں چلنا پھرنا بھی مشکل ہے، وہاں جانے اور ارکانِ حج ادا کرنے پر کیسے قدرت ہوگی! اسی طرح عورت کے لیے چونکہ بغیر محرم کے سفر کرنا شرعاً جائز نہیں، اس لیے وہ حج پر قادر اس وقت سمجھی جائے گی جبکہ اس کے ساتھ کوئی محرم حج کرنے والا ہو، خواہ محرم اپنے خرچ سے حج کر رہا ہو، یا یہ عورت اس کا خرچ بھی برداشت کرے، اسی طرح وہاں تک پہنچنے کے لیے راستہ کا مامون ہونا بھی استطاعت کا ایک جزء ہے، اگر راستہ میں بدامنی ہو، جان و مال کا قوی خطرہ ہو تو حج کی استطاعت نہیں سمجھی جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ جو صراحۃً فریضہئ حج کا منکر ہو اس کا دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہونا توظاہر ہے ، اور جو شخص عقیدہ کے طور پر فرض سمجھتا ہے، لیکن باوجود استطاعت وقدرت کے حج نہیں کرتا، وہ بھی ایک حیثیت سے منکر ہی ہے کہ یہ شخص کافروں جیسے عمل میں مبتلا ہے، جیسے کافر و منکر حج نہیں کرتے یہ بھی ایسا ہی ہے، ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو باوجود قدرت و استطاعت کے حج نہیں کرتے کہ وہ اپنے اس عمل سے کافروں کی طرح ہوگئے۔ (العیاذ باللہ!) اللہ کا فضل ہے کہ عمومی طور پر مسلمان اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے بڑے شوق وجذبہ کے ساتھ اور عمر بھر کی جمع پونجی سے بچاکر روانہ ہوتے ہیں، مگر شیطان تو ہمارا ازلی دشمن ہے، وہ اپنی باطل محنت سے مایوس ہوتا ہے نہ ہمت ہارتا ہے، چنانچہ حج پر جانے والے کے حج کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ مسلمان حج کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ کرسکیں، چنانچہ مقاصد حج میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حاجی از روئے حدیث' اللہ کے دربار میں دیگر مخلوقِ خدا کا نمائندہ ہوتا ہے جو امت کے درپیش مسائل کے حل کے لیے خالق دوجہاں کے دربار میں گیا ہوا ہے۔ اس لیے حج کے کاموں میں سے ایک کام دعا کی قوت کا بڑھانا ہے، جتنا ہوسکے اس میں حاجی کا وقت صرف ہو، یہی وجہ ہے کہ طواف، سعی، دیگر مناسک حج کے مواقع پر کوئی ذکر خاص کرکے نہیں بتایا گیا، پھر دعامیں بھی ہماری حالت یہ ہے کہ وقتی ، فوری، فانی حاجت کی طرف تو ذہن جلدی چلتا ہے، مگر اُخروی معاملات یا اُمت کے اجتماعی مسائل کے متعلق مانگنا رہ جاتا ہے۔ اس لیے حجاج کرام سے گزارش ہے کہ اس استحضار سے عرفات پہنچیں کہ اس دفعہ امت کے مسائل کے حل کے لیے اللہ رب العزت سے مانگے بنا واپس نہیں آئیں گے۔ حج کو خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت، شرعی فریضہ اور ذریعہئ بخشش ومغفرت ہونے کے اعتقاد کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ اگر کسی حاجی کے عزم میں عبادت کا پہلو ذرا بھر ناقص ہوگا، مثلاً: ریاکاری، سیاحت وغیرہ کا عنصر ہوگا تو ایسے عازم حج کا عمل حج شمار نہیں ہوگا، بلکہ وقت کا ضیاع، اعمال کی بربادی اور جانی مشقت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اگر حج میں اخلاص وللّٰہیت، فریضہ کی ادائیگی تو ہو مگر منکرات سے خالی نہ ہو تو ایسا حج بھی حقیقی حج نہیں کہلائے گا۔ بنیادی منکرات جو کئی بڑی منکرات کی بنیاد، منبع اور مرکز ہیں وہ قرآن کریم کی سورہئ بقرہ کی آیت:١٩٧ میں رفث، فسوق اور جدال کے عنوان سے مذکور ہیں: ١:۔۔۔۔۔۔ ''رفث'' ''رفث'' کا مفہوم ہے : ''فحش گوئی میں مبتلا ہونا اور عورتوں سے ایسی باتیں کرنا جو جماع کا داعیہ اور اس کا پیش خیمہ بنتی ہوں۔'' عورتوں کے ساتھ ناجائز میل جول، اختلاط تو ویسے بھی حرام ہے، یہاں دوسروں کے بارے میں نہیں بلکہ بیوی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ میاں بیوی کا آپس میں بے حجاب ہونا، مباشرت کرنا یا آپس میں شہوانی باتیں کرنا حج کے دنوں میں اس کا قطعاً کوئی جواز نہیں، اس لیے دورانِ حج مرد اور خواتین حجاج کرام کو رفث سے بچنا از بس ضروری ہے، ورنہ حج کے بے مقصد ہونے، ضائع ہونے یا فاسد ہونے کا شدید اندیشہ ہے۔ اگر حج کے افعال میں کمی رہی، دیگر فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی رہی اور حج منکرات سے محفوظ نہ رہا تو یہ اس بات کی ظاہری علامت ہوگی کہ آپ کا حج ''حجِ مبرور'' نہیں ہے۔ حج ایک اجتماعی اور پر ہجوم عبادت ہے جس میں قدم قدم پر مرد وزن کا اختلاط ہوتا ہے اور پھر احرام کی حالت میں عورتوں کے چہرے ویسے بھی کھلے ہوتے ہیں، ہر وقت ایک دوسرے پر نظر پڑنے کا موقع رہتا ہے، ایسی صورت میں حاجی اگر اپنے نفس کو لگام نہ دے اور اپنی خواہشات پر تقویٰ کی زنجیر نہ باندھے تو اس کی نگاہیں کسی وقت بھی آوارہ ہوسکتی ہیں۔ فی زمانہ کثرت وازدحام کی وجہ سے طواف، سعی اور دیگر مقامات کے علاوہ راستوں میں خواتین بے پردہ ، چست یا نامناسب لباس میں بڑی جسارت کے ساتھ گھوم رہی ہوتی ہیں۔ عورتوں پر لازم ہے کہ وہ مکمل لباس اور عبایا وغیرہ کا اہتمام کریں اور رش میں مردوں کے ساتھ اختلاط سے یا التصاق سے حتیٰ الوسع بچیں ، آمدورفت کے دوران راستے کے ایک طرف چلیں اور حرم میں خواتین کے لیے مخصوص جگہ تک محدود رہیں۔ مردوں پر بھی فرض ہے کہ وہ نظروں کی حفاظت کریں، اپنے آپ کو خواتین کے ساتھ دھکم پیل سے بچائیں اور اگر خواتین کہیں بے احتیاطی کا مظاہرہ کررہی ہوں تو مرد حضرات کم از کم کوتاہی میں شریک نہ ہوں، وہ اپنا راستہ اور جگہ بدلنے کی کوشش کریں۔ اگر خدانخواستہ مردوخواتین کے اختلاط سے نفس میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی تو یہ''رفث'' کے زُمرے میں آئے گا اور حج ''فاسد'' نہ سہی ''ناقص'' ضرور ہوگا اور ان کا حج ''حجِ مبرور'' نہیں ہوگا اور حج کا جو اُخروی صلہ ہے اس سے محرومی کا ذریعہ بھی ہوگا۔ ٢:۔۔۔۔۔۔''فسوق'' ''فسوق'' فسق کی جمع ہے۔ فسق دائرہ طاعت سے نکلنے کا نام ہے، یعنی شریعت کے احکام کی نافرمانی مراد ہے۔ حج کے دوران شریعت کے کسی حکم کی بھی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں ہونا چاہیے۔ یوں تو ایک مومن کی عام زندگی بھی اللہ کے احکام کی پابند ہے، لیکن حج کے دوران اس پابندی کا احساس کئی گنا بڑھ جانا چاہیے۔ حج کے دوران حج کے تمام مناسک کے علاوہ دیگر فرائض بالخصوص نماز باجماعت کا اہتمام کرنے کے علاوہ واجبات، سنن اور نفل کا اہتمام کرنا، حسبِ توفیق صدقہ خیرات کرنایہ سب طاعات ہیں، ان کی بجاآوری کی بھرپور کوشش کی جائے۔ اگر کسی حاجی کو ایسے اعمال میں رغبت کی کمی محسوس ہو تو اُسے توبہ واستغفار کرتے ہوئے طاعات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر کوئی حاجی طاعات میں کوتاہی کاشکار ہونے کے علاوہ اگر منکرات کا مرتکب بھی ہو، ایسے اُمور کا ارتکاب کرتا ہو جو شرعاً حرام، ممنوع اور ناجائز ہیں، ایسا حاجی بھی حجِ مبرور کی سعادت سے محروم ہے۔ اس وقت حج کے دوران بعض حجاج کرام مندرجہ ذیل فسوق ومنکرات کا بہت زیادہ شکار رہتے ہیں: الف:۔۔۔۔۔۔ اپنا وقت حرمین شریفین میں گزارنے کی بجائے بازاروں میں فضول خریداری اور سیروسیاحت میں گزارتے ہیں۔ یہ خیر کا موقع ملنے کے بعد خیرسے محرومی کا مظہر ہے، اس سے اجتناب کیا جائے۔ ب:۔۔۔۔۔۔ بعض حجاج حرمین شریفین میں ہونے کے باوجود نہ صرف نیک اعمال سے محروم رہتے ہیں، بلکہ اُلٹا کئی گناہوں کا ارتکاب کررہے ہوتے ہیں۔ حرمین میں حسبِ مواقع طواف ، تلاوت، ذکرواذکار اور درود وسلام میں وقت گزارنا چاہیے، مگر بعض حاجی صاحبان یہ قیمتی مواقع ضائع کرتے رہتے ہیں اور مختلف دنیوی موضوعات پر بحث ومباحثوں میں مصروف رہتے ہیں اور بعض غیبت، عیب جوئی، لعن طعن اور گالم گلوچ اورسوقیانہ گفتگو سے بھی نہیں بچتے، یہ سب باتیں گناہ ہیںجو حرمین شریفین کی عظمت کی وجہ سے گناہِ عظیم بن جاتے ہیں اور حج کے موسم کی وجہ سے فسق کی بدترین شکل ہے۔ ج:۔۔۔۔۔۔ بعض حجاج بلکہ اکثریت حرمین شریفین میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ راز ونیاز کی بجائے تصویر سازی کے گناہ کبیرہ میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ہر مقدس مقام پر اس گناہ کبیرہ کا ارتکاب ایک معمولی عمل بلکہ فیشن بن چکا ہے۔ اس میں اچھے خاصے علماء اور دین دار لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، جن کی دیکھا دیکھی عوام کے دلوں میں اس گناہِ عظیم کا احساسِ گناہ بھی رخصت ہوچکا ہے اور اس کی حرمت پامال ہورہی ہے، جبکہ حضور a نے تصویرسازی کے عمل کو قیامت کے دن شدیدترین عذاب کا مستوجب قرار دیا تھا۔ جو حجاج کرام اپنے حج کو اور مقدس مقامات کی حاضری کو تصویرسازی کے گناہ کے ذریعہ یادگار بنانے کے درپے رہتے ہیں، اُنہیں تصویر کے گناہ کی سنگینی کا اندازہ ہے نہ اپنے حج کے ضائع ہونے کا ادراک ہے۔ حجاج کرام کو چاہیے کہ کم از کم اس مختصر سفر سعید میں تو اس گناہ کو خیرباد کہہ دیں، تاکہ حج ''فسوق'' سے خالی کہلا کر ''حجِ مبرور'' بن سکے۔ ٣:۔۔۔۔۔۔ ''جدال فی الحج'' اللہ تعالیٰ نے حج کے دوران نفس کی خواہشات کو کنٹرول کرنے اور فسق وفجور کی جملہ انواع کو ممنوع قرار دینے کے بعد جدال کو بطور خاص ذکر فرمایا، جس کی بظاہر حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ سفر کے دوران یا مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کی حالت میں پھر خصوصاً ایامِ حج میں منٰی اور عرفات میں قدم قدم پر جھگڑے کا امکان ہوتا ہے۔ انسان جو اپنی شخصیت اور طبیعت کی تہوں میں اپنی بہت ساری کمزوریوں کو چھپائے رکھتا ہے، سفر کے دوران یہ ساری کمزوریاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں اور اگر یہ سفر طویل بھی ہو اور کئی دنوں پر محیط بھی تو پھر تو شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو اپنے آپ کو سفر کے اثرات سے محفوظ رکھ سکے۔ قدم قدم پر ایسے مواقع آتے ہیں جہاں مختلف طبیعتیں باہمی طبعی اختلاف کے باعث ایک دوسرے سے اُلجھتی ہیں۔ دوسروں کو تو جانے دیجئے خود میاں بیوی اور رُفقائے سفر میں سے قریبی عزیز تک ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے تنبیہ کردی گئی ہے کہ اگر تم واقعی حج کو ایک عبادت سمجھ کر ادا کررہے ہو تو تمہیں اس کا احساس ہونا چاہیے کہ جب تک تم اپنی نگاہوں کو پاکیزہ، اپنے قلب و دماغ کو شائستہ اور اپنے جذبات کو ہرحال میں آسودہ رکھنے کی کوشش نہیں کروگے اور یہ فیصلہ نہیں کرلوگے کہ یہاں مجھے کسی کا دل نہیں دکھانا -کیونکہ اس سے بڑی برائی کوئی نہیں- مجھے ہرحال میں اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اس کی رضا کے لیے نوافل کی کثرت اور طوافوں کا کثیرسرمایہ بھی درکار ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات، اپنی عادات اور اپنے رجحانات کی اصلاح بھی ضروری ہے جو اس سفر کے ذریعے کی جارہی ہے، وہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے کہ ہم ان بنیادی کمزوریوں سے بچنے کی کوشش کریں۔ سفرِ حج کے دوران سفری تعب کے علاوہ شیطان کے حسد اور دیرینہ عداوت کے نتیجہ میں حجاج کرام کی برداشت کا معاملہ انتہائی نازک ہوجاتا ہے، معمولی معمولی باتوں پر غصہ آجانا اور ایک دوسرے سے بھڑنے کے لیے تیار ہوجانا ایک طرح سے فطری مجبوری سمجھاجاتا ہے۔ جب حاجی اپنے ملک کی ایمیگریشن سے گزرتا ہے تو یہاں کی ناگواری پر برہم ہوتا جاتا ہے، راستہ میں کسی حاجی کے سامان کی ٹرالی کسی دوسرے کی ٹرالی سے ٹکرائی تو اس پر شور شرابہ شروع ہوجاتا ہے۔ اگر کسی سے لائن میں بے احتیاطی ہوئی تو اس کی تنبیہ وسرزنش کو حج کا حصہ سمجھ کر غوغا برپا کردیا۔ ائیر پورٹ پر بے ترتیبی، بے رخی اور بدانتظامی پر جذباتی ہوجانا اور جذبات کی تسکین کے لیے ایئرپورٹ کے عملے یا دوسرے حاجیوں کے ساتھ لعن طعن، سب وشتم اور عیب جوئی کا تبادلہ شروع کردینا اور ترش روئی میں میزبانوں سے مقابلہ کرنا بھی سفرِ حج میں جدال کی ایک ممنوع شکل ہے، اس سے احتراز کیا جائے۔ نیز حرمین کے پاس مقررہ رہائش گاہ پہنچنے کے بعدحج گروپ یا ہوٹل کے عملہ کے ساتھ اخلاق واخلاقیات کا مقابلہ شروع کیا جاتا ہے، ان سے مختلف امور میں اُلجھاؤ کی نوبت بھی آتی رہتی ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ ایک کمرے میں رہنے والے سامان رکھنے اور بستر بچھانے میں اختلاف کرتے ہیں۔ بس پر چڑھتے ہوئے سیٹ کے حصول کے لیے اور معمولی آرام کی طلب میں ایک دوسرے کی عزتِ نفس پامال کرتے ہیں۔ وضو خانوں اور بیت الخلا کے سامنے لگی قطاروں میں نجانے کتنی زبانیں بے لگام ہوجاتی ہیں۔ بازاروں میں اشیائے ضرورت خریدتے ہوئے نجانے کس کس سے اُلجھاؤ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بھی ''جدال فی الحج'' کی ممانعت سے خارج نہیں ہے۔ ان تمام باتوں سے بڑھ کر مناسکِ حج کے دوران مقامی انتظامیہ کے باوردی اور بے وردی بعض منتظمین کی سختی کا جواب ترکی بہ ترکی دینے کی کوشش کی جاتی ہے یا ان کی فہمائش کے لیے ان سے بحث ومباحثہ کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے لیے بے وقعتی وبے احترامی کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور ان جذبات کا اظہار زبان سے کیا جائے یا رویّے سے کیا جائے، یہ بھی مجادلہ کی ایک شکل ہے، دورانِ حج اس سے اجتناب کیا جائے۔ گروپ انتظامیہ کے افراد کی سختی، بدخلقی یا تحقیر آمیزی کو حرمین شریفین کی عظمت کا پاس رکھنے اور اپنے حج کو جدال ونزاع سے بچانے کے لیے برداشت کیا جائے۔ سرکاری یا پرائیوٹ حج پر جانے والے حجاج وہاں رہتے ہوئے فارغ اوقات کے دوران حج گروپوں کے درمیان باہمی تقابل اورمقابلہ بازی شروع کردیتے ہیں کہ فلاں گروپ اچھا ہے ، یا فلاں گروپ میں اتنی آسائشیں ہیں ، اپنے حج گروپ کی برائی یا انتظامیہ کی غیبت یا اُن کے ساتھ جھگڑا کرنے لگ جاتے ہیں تواس نوعیت کی فضول بحث اور گفتگو سے بھی مکمل اجتناب کی ضرورت ہے ۔ بعض حجاج کرام یا کچھ میزبان نما حضرات اپنی نادانی، ناپختہ کاری اور غلبہئ جہالت کی بناپر اس مقدس سفر میں صدیوں پرانے اختلافی مسائل کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر ایک اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے کی ناروا کوشش کرتا ہے۔ ایسے تمام مسائل میں اُلجھ کر قیمتی وقت ضائع نہ کیا جائے، بلکہ ہر حاجی اپنے مسلک کے تحت جو تربیت لے کر گیا ہے، اس کے مطابق مناسک ادا کرتا رہے، کیونکہ یہ اختلافی مسائل علمی نوعیت کے ہوکر جب غیرعلمی لوگوں کے درمیان غیرعلمی انداز سے زیربحث آتے ہیں تو اس سے جاہلانہ مقابلہ ومجادلہ جنم لیتا ہے جو حج کے ان بنیادی منکرات میں ایک ہے جسے حق تعالیٰ شانہ، نے بطورِ خاص ممنوع قرار دیا تھا۔ اس لیے حجاج کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنے حج کو اخلاص وللّٰہیت سے معمور کرتے ہوئے فریضہئ خداوندی کی ایسی ادائیگی کی کوشش کریں کہ تمام ارکان، واجبات، سنن اور مستحبات کی رعایت رکھیں اور ہر قسم کے صغیرہ وکبیرہ گناہوں کی آلودگی سے اپنے حج کو بچائیں۔ اور کسی قسم کے جدال ونزاع کا حصہ نہ بنیں، یہی حج کی اصل روح ہے۔ جس حاجی کو حج کے دوران حج کی یہ روح نصیب رہی تو امید ہے کہ ان شاء اللہ!اس کا وہ حج ''من حج للّٰہ فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ'' کا مصداق ہوگا اور ''الحج المبرور لیس لہ، جزاء إلا الجنۃ'' کی ضمانت ونیک فالی ثابت ہوگا، ان شاء اللہ! وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین  

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین