بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

انکارِ حدیث کیوں؟

انکارِ حدیث کیوں؟

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، الحمد للّٰہ وسلامٌ علی عبادہٖ الذین اصطفٰی! اما بعد:     مذہب اسلام کے لیے موجودہ دور میں جو سوالات خاص اہمیت کے حامل ہیں، ان میں حدیث نبوی (علی صاحبہا الف الف سلام) کے متعلق مندرجہ ذیل سوالات بالخصوص توجہ طلب ہیں:     ۱-حدیث کا مرتبہ اسلام میں کیا ہے؟     ۲- حدیث سے شریعت اسلامیہ کو کیا فوائد حاصل ہوئے؟     ۳-حدیث پر اعتماد نہ کیا جائے تو اس سے دین کو کیا نقصان ہوگا؟ دورِ حاضر میں انکارِ حدیث کی جو وباء پھوٹ پڑی ہے، یہ کن جراثیم کا نتیجہ ہے؟     سطور ذیل میں ہم ان سوالات پر غور کرنا چاہتے ہیں۔ واللّٰہ الموفق والمعین     لیکن اصل سوالات پر بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم چند اصولی امور ناظرین کی خدمت میں پیش کردیں، جن سے نظر وفکر کی مزید راہیں کھل سکیں۔ 1- نبی امت کی عدالت میں     ’’انکارِ حدیث‘‘ کا فتنہ ظہور میں آچکا ہے۔ بحث کرنے والے پوری قوت کے ساتھ اس بحث میں مصروف ہیں کہ حدیث حجت ہے یا نہیں؟ جن لوگوں کی طرف سے یہ بحث اٹھائی گئی ہے ان کا حال تو انہی کو معلوم ہوگا، لیکن جہاں تک میرے ایمان کا احساس ہے، یہ سوال ہی غیرتِ ایمانی کے خلاف چیلنج ہے جس سے اہل ایمان کی گردن ندامت کی وجہ سے جھک جانی چاہیے۔     اس فتنہ کے اٹھانے والے ظالموں نے نہیں سوچا کہ وہ اس سوال کے ذریعہ نبی اکرم a کی ذات کو اعتماد یا عدم اعتماد کا فیصلہ طلب کرنے کے لیے امت کی عدالت میں لے آئیںگے۔ امت اگر یہ فیصلہ کردے گی کہ نبی کریمa کی بات (حدیث) قابل اعتماد ہے، تو اس کے مرتبہ کا سوال ہوگا اور اگر نالائق امتی یہ فیصلہ صادر کردیں کہ ’’نبی کریم aکی کوئی بات (حدیث) آپ کے زمانہ والوں کے لیے لائق اعتماد ہو تو ہو، لیکن موجودہ دور کے متمدن اور ترقی پسند افراد کو نبی aکی کسی حدیث پر ایمان لانے کے لیے مجبور کرنا ملائیت ہے‘‘ تو نبی اکرم a کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ ہو جائے گا۔ (معاذ اللہ، استغفر اللہ) اگر دل کے کسی گوشے میں ایمان کی کوئی رمق بھی موجود ہے تو کیا یہ سوال ہی موجبِ ندامت نہیں کہ نبی a کی بات لائق اعتماد ہے یا نہیں؟     تُف ہے! اس مہذب دنیا پر کہ جس ملک کی قومی اسمبلی میں صدرِ مملکت کی ذات کو تو زیر بحث نہیں لایا جاسکتا (پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے متعدد دفعہ یہ رولنگ دی ہے کہ معزز ارکانِ اسمبلی صدرِ مملکت کی ذات گرامی کو زیر بحث نہیں لاسکتے) لیکن اسی ملک میں چند ننگ امت‘ آنحضرت a کی ذات اقدس کو نہ صرف یہ کہ زیر بحث لاتے ہیں، بلکہ زبان وقلم کی تمام ترطاقت اس پر صرف کرتے ہیں کہ امت رسول اللہ a کے خلاف عدمِ اعتماد کا ووٹ دے ڈالے۔ اگر ایمان اسی کا نام ہے تو مجھے کہنا ہوگا: ’’بِئْسَمَا یَأْمُرُکُمْ بِہٖ إِیْمَانُکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔‘‘     بہرحال مریض دلوں کے لیے انکارِ حدیث کی خوراک لذیذ ہو تو ہو (غلبۂ صفراء کی وجہ سے ان مسکینوں کو اس کی تلخی کا احساس نہیں ہوتا) لیکن میرے جیسے گنہگار اور ناکارہ اُمتی کے لیے یہ موضوع خوشگوار نہیں، بلکہ یہ بحث ہی تلخ ہے، نہایت تلخ!!!۔ مجھے کل ان کے دربار میں جانا ہے اور ان کی شفاعت کی امید ہی سرمایۂ زندگی ہے۔ سوچتا ہوں اور خدا کی قسم! کانپتاہوں کہ اگر ان کی طرف سے دریافت کرلیا گیا کہ ’’او نالائق! کیا میری حدیث کا اعتماد بھی محل بحث ہوسکتا ہے؟ تو میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ اسلام کے ان فرزندانِ ناخلف نے خود رسالتِ مآب a پر جرح وتعدیل کا جو راستہ اختیار کیا ہے واللہ! اس میں کفر ونفاق کے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں،’’فَمَنْ شَائَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَکْفُرْ‘‘ (اب جس کا جی چاہے نبی کی بات پر ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے۔) 2- فتنہ کی شدت     فتنہ کی کجی ملاحظہ کیجئے! دین قیم کے وہ صاف، واضح، روشن اور قطعی مسائل جن میں کل تک شک وترددکا ادنیٰ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، کل تک ملت اسلامیہ جن کو یقینی مانتی چلی آئی تھی، شکی مزاج طبیعتیں آج ان ہی مسائل کو غلط اور ناقابل قبول ٹھہراتی ہیں۔     ایک رسول اکرم a کی ذات اب تک محفوظ تھی، تمام امت کا مرجع تھی، ہر امتی آنحضرت a کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کردیا کرتا تھا، امت میں کوئی اختلاف رونما ہو، اس کے فیصلہ کے لیے آپa کی ذات آخری عدالت تھی اور آپa کا ہر فیصلہ حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن افسوس! آج کس کے پاس یہ شکایت لے جائیں کہ فتنہ کے سیلاب کی موجیں علمائ، صلحائ، صوفیائ، متکلمین، محدثین، مجتہدین، تابعین اور صحابہs ان سب کو روندتی ہوئی دین وشریعت کی آخری فیصل ذات رسالت مآب a سے ٹکرارہی ہیں اور چاہا جاتا ہے کہ انسانیت کی سب سے بڑی اور سب سے آخری عدالت کو بھی مجروح کردیا جائے ،فإلٰی اللّٰہ المشتکٰی۔     اُف! مبتلائے فتنہ امت میں یہ بحث موضوع سخن ہے کہ کیا رسول اللہ a کی حدیث حجت ہے یا نہیں؟ دینی حیثیت سے قابل قبول ہے یا نہیں؟ کیا یہ صاف اور موٹی بات بھی کسی کی عقل میں نہیں آسکتی کہ کسی ذات کو نبی اور رسول ماننا یا نہ ماننا تو ایک الگ بحث ہے، لیکن جس ذات کو رسول مان لیا جائے، ماننے والے کے ذمہ اس کی ہر بات کا مان لینا بھی ضروری ہے، جس کام کا وہ حکم کرے اس کی تعمیل بھی ماننے والے کے لیے لازم ہے اور جس فعل سے وہ منع کرے ا س سے رُک جانا ضروری ہے۔     رسول کو رسول مان کر اس کے احکام میں تفتیش کرنا ’’کہ یہ حکم آپa اپنی طرف سے دے رہے ہیں یا خدا کی طرف سے؟ اور اگر آپa اپنی طرف سے کوئی ارشاد فرماتے ہیں تو اس کی تعمیل سے معاف رکھا جائے۔‘‘ نری حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ کتنی صاف اور سیدھی بات تھی، لیکن نہیں معلوم لوگ عقل کو کہاں استعمال کیا کرتے ہیں کہ ایسے بدیہی امور میں بھی شک اور تردد کا مرض ان کو ایمان ویقین سے محروم کیے رکھتا ہے۔شرح تحریر میں ہے: ’’حجیۃ السنۃ سواء کانت مفیدۃ للفرض أو الواجب أو غیرہما (ضرورۃ دینیۃ) کل من لہٗ عقل وتمییز حتی النساء والصبیان یعرف أن من ثبت نبوتہٗ صادق فیما یخبر عن اللّٰہ تعالٰی ویجب اتباعُہٗ‘‘۔                        (تیسیر التحریر،ج:۳،ص:۲۲) ترجمہ:۔۔۔۔۔۔ ’’سنت خواہ مفید فرض ہو یا واجب یا ان کے علاوہ کے لیے مفید ہو، اس کا حجت ہونا دین کا ایسا واضح مسئلہ ہے جس میں طلب دلیل کی ضرورت نہیں۔ جس کو ذرا بھی عقل وتمیز ہو، عورتوں اور بچوں تک بھی، وہ جانتا ہے کہ جس کی نبوت ثابت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بتلائے گا اس میں قطعاً سچا ہوگا اور اس کی بات کی پیروی واجب ہوگی۔‘‘     منکرین حدیث کی کورچشمی ملاحظہ کرو! اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ a رسولِ برحق ہیں، اس پر بھی اتفاق ہے کہ علم وعرفان کے سر چشمہ ہوتے ہیں، الغرض آفتاب طلوع ہو چکنے کے بعد‘ بحث اس پر ہو رہی ہے کہ سورج نکلنے کے بعد دن ہوتا ہے، یا رات ہوتی ہے؟ زبان وقلم، عقل وفہم اور دل ودماغ کی قوتیں اس پر صرف کی جارہی ہیں کہ رسولa کو رسول ماننے کے بعد اس کی کسی بات (حدیث) پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ میں پوچھتا ہوں کہ جو خیرہ چشم طلوعِ آفتاب کا اقرار کرنے کے باوجود ’’دن نہیں رات ہے‘‘ کی رٹ لگا رہا ہو اور چاہتا ہو کہ تمام دنیا اسی کی طرح آنکھیں موند لے، بتلایاجائے کہ آپ ایسے سو فسطائی کو کس دلیل سے سمجھا سکتے ہیں؟!     اسی طرح محمد رسول اللہ a کا زبانی اقرار کرنے والوں سے جب سنا جاتا ہے کہ جس ذات کو ہم رسول مانتے ہیں اسی کا کوئی قول اور فعل ہمارے لیے حجت نہیں تو بتلائیے! ایسے محرومانِ بصیرت کے لیے کونسا سامانِ ہدایت سود مند ہوسکتا ہے؟ کاش! ان کو چشم بصیرت نصیب ہوجاتی۔ ’’فَإِنَّہَا لَاتَعْمٰی الْأَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمٰی الْقُلُوْبُ اللَّتِیْ فِیْ الصُّدُوْرِ‘‘ ۔۔۔۔۔۔’’کیونکہ ان کی آنکھیں اندھی نہیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوچکے ہیں جو ان کے سینوں میں ہیں۔‘‘ 3-منکرین حدیث کی بے اصولی     حدیث کا جو ذخیرہ اس وقت امت کے پاس محفوظ ہے، اس کے دو جز ہیں: ۱…متن، ۲…سند، یعنی ایک تو حدیث کے وہ جملے ہیں جو قولاً یا فعلاً یا تقریراً صاحب حدیث a کی طرف منسوب ہیں کہ آپa نے یہ ارشاد فرمایا تھا یا آپ نے فلاں عمل کرکے دکھایا یا آپa نے فلاں کام کی جو آپ کے سامنے کیاگیا‘ تصویب فرمائی۔ دوم اساتذۂ حدیث کا وہ سلسلہ ہے جو امت اور امت کے نبی a کے درمیان واسطہ ہیں، مثلاً امام بخاریv جس حدیث کو روایت کریںگے وہ ساتھ ہی یہ بھی بتلاتے جائیں گے کہ آنحضرت a سے یہ حدیث کن کن واسطوں سے ہم تک پہنچی۔     پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آپa کی حدیث جن لوگوں نے خود آپ a کی زبانِ فیض ترجمان سے سنی وہ سننے والوں کے حق میں اسی طرح قطعی تھی جس طرح قرآن کریم قطعی ہے۔ آپ a کی زبان مبارک سے جو حکم بھی صادر ہوا بالمشافہ سننے والوں کے لیے اس کا درجہ وحی خداوندی کا ہے اگر آپ نے اس کوقرآن میں لکھنے کا حکم دیا تو وہ وحی جلی کہلائے گا، ورنہ وحی خفی۔     قسم اول (وحی جلی) کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ تھے۔     قسم دوم (وحی خفی) کا مضمون منجانب اللہ ہوتا تھا، الفاظ آنحضرت a کے ہوتے تھے۔      بہرحال وحی کی یہ دونوں قسمیں چونکہ منجانب اللہ ہیں، اس لیے دونوں پر ایمان لانا اور دونوں کا قبول کرنا اہل ایمان کے ذمہ ضروری ہوا۔ البتہ روایتِ حدیث کے اعتبار سے حدیث کی مختلف قسمیں ہوجاتی ہیں جن کی تفصیل کو مع ان کے احکام کے اپنی جگہ بیان کیاگیا ہے۔     اب منکرین حدیث کی بے اصولی دیکھئے کہ وہ ان دونوں اجزاء (متنِ حدیث اور سندِ حدیث) کے متعلق مخلوط بحث کریں گے، حالانکہ بے اعتمادی کا زہر پھیلانے سے پہلے انصاف ودیانت کا تقاضا یہ تھا کہ محل بحث کو طے کرلیا جاتا کہ کیا ان کو نفس حدیث ہی پر اعتماد نہیں خواہ وہ کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو؟ یا نفس حدیث پر ان کو اعتماد ہے اور وہ اُسے دینی سند بھی تسلیم کرتے ہیں، لیکن موجودہ ذخیرۂ حدیث کے متعلق ان کی بے اعتمادی کا سبب یہ ہے کہ پوری امت میں ان کو ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جس نے آنحضرت a کی یہ امانت امت تک صحیح پہنچا دی ہو، اس لیے اس کو موجودہ ذخیرۂ حدیث سے ضد ہے، مثلاً: امام مالکؒ کی وہ روایت جو مالک، عن نافع، عن بن عمر، عن النبی a کی سند سے مروی ہیں، جو شخص ان روایات پر بے اعتمادی کا اظہار کرتا ہے، کیا اس کا فرض نہ ہوگا کہ وہ اپنی بداعتمادی کی وجہ بتلائے کہ آیا اسے حدیث کے ان تین نا قلین مالک، نافع، ابن عمر ؓ پر ہی اعتماد نہیں-معاذ اللہ- یا خود ذاتِ رسالت مآب a پر اعتماد نہیں!!! استغفر اللہ۔     بہرحال جب تک موضوع کی تنقیح اور تعیین نہ کرلی جائے، اس وقت تک کسی بھی مسئلہ پر بحث لغو اور لایعنی مشغلہ ہے، لیکن آپ منکرین حدیث کو پائیں گے کہ وہ کبھی نفس حدیث پر بحث کریںگے کہ محمد a کے لائے ہوئے دین میں حدیث کا کوئی مقام نہیں اور کبھی بے چارے ناقلین حدیث پر تبرا شروع کردیںگے کہ ان لوگوں نے امت کی یہ امانت بعد میں آنے والی امت تک کیوں پہنچائی، لیکن انکار حدیث کا منشأ متعین کرنے سے وہ گریز کریںگے۔ اس لیے میں کہوں گا کہ حدیث پر سے اعتماد اُٹھانے کا اصل حل تلاش کرو اور محل بحث تلاش کرنے کے بعد افہام وتفہیم کریں۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ قصور وار ناقلین روایت ہوں اور فرد جرم خود حدیث پر عائد کردی جائے،یا اعتماد نفس حدیث پر نہ ہو اور اس کی سزا حدیث روایت کرنے والی پوری امت کو دی جانے لگے۔ 4-انکارِ حدیث کا عبرتناک انجام     حدیث پر اعتمادنہ کرنے والوں کو معاذ اللہ! ثم معاذ اللہ! ذاتِ نبوی a یا پوری امت میں سے ایک کو ناقابل اعتماد قرار دینا ہوگا ’’استغفر اللہ‘‘ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ زید کا کلام عمرو نقل کرے، سننے والے کو زید کے صدق کا یقین ہو اور عمرو پر اعتماد ہو کہ وہ نقل میں جھوٹا نہیں، لیکن اس کے باوجود کہے کہ یہ کلام جھوٹا ہے۔ بہرحال یہاں یہ سوال کسی خاص حدیث کا نہیں، بلکہ مطلق حدیث کا ہے، جب ا س کا انکار کیا جائے گا اور اُسے ناقابل اعتماد قرار دیا جائے گا تو اس صورت میں یا خود صاحب حدیث a کی ذات سے اعتماد اُٹھانا ہوگا یا پوری امت کو غلط کار اور دروغ گو کہنا ہوگا۔ انکارِ حدیث کی تیسری کوئی صورت نہیں اور ان دونوں کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اگر معاذ اللہ خود صاحب حدیث a یا چودہ سو سالہ اُمت سے اعتماد اُٹھالیا جائے تو اس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ اسلام اور قرآن پر بھی ان کا اعتماد نہیں اور دین وایمان کے ساتھ بھی ان کا کچھ واسطہ نہیں۔ ان حدیث رسول a کے متعلق بے اعتمادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال دل میں نہ لانا چاہیے کہ اس تمام تر سعی مذموم کے باوجود وہ اسلام اور قرآن کو بے اعتمادی کے جھگڑے سے محفوظ رکھ سکیں گے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین