بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر اِک اجمالی نظر

امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر اِک اجمالی نظر

یا صاحب الجمال! و یا سید البشر!

من وجہک المنیر لقد نور القمر لا یمکن الثناء کما کان حقہٗ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر  اے صاحب جمالِ کل! اے سرورِ بشر !

روئے منیر سے ترے روشن ہوا قمر ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق ادا 

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ابتدائی حالات نسب شریف: سیّدنا محمد a بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔کنیت: ابو القاسم۔ والدہ کا نام: آمنہ بنت وہب۔ ولادت: بروز سوموار ۱۲؍ ربیع الاوّل عام الفیل۔ والد ماجد کا انتقال ولادت سے قبل ہی بحالت ِسفر مدینہ منورہ میں ہوچکا تھا۔ آپ a کی کفالت آپa کے دادا عبد المطلب نے کی اور حلیمہ سعدیہt نے آپ a کو دودھ پلایا، پھر آپ a کی عمر مبارک چھ سال کی ہوئی تو آپa کی والدہ ماجدہ آپa کو مدینہ آپa کے ننہال لے گئیں، واپسی میں بمقام اَبوا اُن کا انتقال ہوا اور آپa کی پرورش امّ ایمنؓ کے سپرد ہوئی۔ آٹھ سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا۔ کفالت کا ذمہ آپa کے چچا ابو طالب نے لیا۔ نو سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور ۲۵؍ سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجۃ الکبریٰ tکی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے دو ماہ بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ tسے عقد ہوا۔ ۳۵ سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیر کعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے۔ حجر اسود کے بارے میں قریش کے اُلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا، جس پر سبھی خوش ہوگئے۔ تعلیم و تربیت آپ a یتیم پیدا ہوئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا، مگر آپa بغیر کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے، بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی، یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپa کو صادق و امین کا خطاب دیا: مری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی خلوت و عبادت بچپن میں چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں بھی چرائیں، مگر بعد میں آپa کو خلوت پسند آئی۔ چناں چہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ نبوت سے پہلے آپ a سچے خواب دیکھنے لگے۔ خواب میں جو دیکھتے‘ ہو بہو وہی ہوجاتا۔ آپ aکا دستورِ تعلیم حضور اکرم a کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور امت کے لیے مینارِ ہدایت ہے۔ اگرچہ آپa کا تشریعی دور‘ نبوت کے بعد شروع ہوتا ہے، لیکن اس سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا‘ اُمت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔ آپa کے دودھ پینے کا زمانہ ہے، لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپa کو عدل و انصاف پسند ہے اور آپ a دوسروں کا خیال فرماتے ہیں۔ حضرت حلیمہ سعدیہ t ایک طرف کا دودھ پلاکر دوسری طرف پیش فرماتی ہیں، لیکن آپa اُسے قبول نہیں فرماتے، کیوں کہ وہ آپa کے دودھ شریک بھائی کا حق ہے۔ بچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگائو اور دلچسپی ہے کہ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپa بھی قریش مکہ کے ساتھ پتھر اُٹھاکر لا رہے ہیں۔ اور شرم وحیاء اتنی غالب ہے کہ جب آپa کے چچا حضرت عباس q دیکھتے ہیں کہ آپa ننگے کندھے پر پتھر اُٹھاکر لارہے ہیں تو ترس کھاتے ہوئے آپa کا تہبند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپa شرم کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑے، یہ فرماتے ہوئے کہ میری چادر مجھ پر ڈال دو۔ کسب حلال کی یہ اہمیت کہ قریش کی بکریاں چراتے اور اس کی مزدوری سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور ’’التاجر الصادق الأمین‘‘ (امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔ معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیت ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجر اسود کو اپنی جگہ رکھنے پر قریش کی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا اور قریب تھا کہ ناحق خون کی ندیاں بہہ جاتیں، لیکن آپa نے ایسا فیصلہ فرمایا جس کی سب نے تحسین کی اور اس پر راضی ہوگئے۔  صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپa’’ الصادق الأمین‘‘ کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ کے اس وصف کا اقرار کرتے تھے، چناں چہ قبائلِ قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ’’ہم نے بارہا تجربہ کیا، مگر آپ کو ہمیشہ سچا پایا۔‘‘ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی، کیوں کہ آپa کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدیٰ بنانا تھا اور اُمت کے لیے آپa کی زندگی کو بطور اُسوۂ حسنہ پیش کرنا تھا۔ ’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْأٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثیْرًا۔‘‘                                                   (الاحزاب:۲۱) ’’بلاشہ اے مسلمانو! تم کو رسول اللہ a کی چال سیکھنی ہے بالخصوص اُس شخص کو جو اللہ کی ملاقات کا اور قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔‘‘ نبوت جب سن مبارک چالیس کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے آپa کو نبوت سے سرفراز فرمایا، آپa غارِ حرا میں تھے کہ جبرئیل m سورۂ اقرأ کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے، اس کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد بند رہی، پھر لگاتار آنے لگی۔ وحی آسمانی آپa تک پہنچانے کے لیے جبریل امین m کا انتخاب ہوا جن کو ہمیشہ سے انبیاء o اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔ ’’إِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ مُّطَاعٍ  ثَمَّ أَمِیْنٍ۔‘‘(التکویر۱۹ تا ۲۱) ’’بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو بڑی قوت والا صاحب عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔‘‘ اس وحی الٰہی کی روشنی میں آپa کی ایسی تربیت ہوئی کہ آپa ہر اعتبار سے کامل بن گئے اور آپa کی زندگی کا ہر پہلو امت کے لیے ایک بہترین اُسوۂ حسنہ بن کر سامنے آگیا۔ اُمت کے ہر فرد کے لیے آپ a کی زندگی ایک اعلیٰ مثال ہے، جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کرسکتا ہے۔ دعوت و تبلیغ ابتداء ً آپ a نے پوشیدہ طور پر دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرمایا، ابتدائی دعوت پر عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ t، مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق q، بچوں میں حضرت علی q، آزاد شدہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ q اور غلاموں میں حضرت بلال q سب سے پہلے ایمان لائے۔ ان کے بعد بہت سے آزاد اور غلام اس دولت سے بہرہ مند ہوئے۔ پھر آپ a کو علانیہ دعوت و تبلیغ کا حکم ہوا، چناں چہ آپa نے تمام قوم کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی دعوت پوری قوت سے شروع کی۔ بعض نے مانا اور بعض اپنی گم راہی پر قائم رہے۔ ہجرتِ حبشہ قوم نے آپ a اور آپ کے صحابہ s کو طرح طرح سے ستانا شروع کیا، چناں چہ ۵؍ نبوی میں آپ a نے اپنے صحابہؓ   کو حبشہ ہجرت کرجانے کا حکم فرمایا، یہ سب سے پہلی ہجرت تھی، اسی سال حضرت عمر q اور آپ a کے چچا حضرت حمزہ q مشرف باسلام ہوئے۔ ۷؍ نبوی:۔۔۔۔۔ قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے خلاف ایک معاہدہ پر دستخط کیے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت a کو ہمارے حوالے نہیں کرتے، اس وقت تک ان سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں آپ a کو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شعب ابی طالب میں نظر بند کردیا گیا۔ آپ a نے اپنے صحابہ s کو ہجرتِ حبشہ کا حکم فرمایا، یہ دوسری ہجرت کہلاتی ہے۔ ۱۰؍ نبوی:۔۔۔۔۔ قریش کے بعض افراد کی کوشش سے یہ معاہدہ ختم ہوا اور آپa کو آزادی ملی، اسی سال نصاریٰ نجران کا ایک وفد مسلمان ہوا، اسی سال آپ a کے چچا ابو طالب اور آپa کی غم گسار زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ t کی وفات ہوئی۔ قریش کی ایذا رسانی اور بڑھ گئی۔ آپ a اہل طائف کی تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے ایک نہ سنی بلکہ اُلٹا در پئے ایذاء ہوئے۔ یہ سال عام الحزن (غم کا سال) کہلاتا ہے۔ ۱۱؍ نبوی:۔۔۔۔۔ اسی سال آپ a کو معراج ہوئی، پنج گانہ نماز فرض ہوئی، آنحضرت a نے حج کے موقع پر عرب کے مختلف قبائل کو دعوت دی، چناں چہ مدینہ کے قبیلہ خزرج کے چھ آدمی مسلمان ہوئے۔ ۱۲؍ نبوی:۔۔۔۔۔ اس سال اوس و خزرج کے بارہ افراد نے آپ a سے بیعت کی۔ یہ بیعتِ عقبہ اُولیٰ کہلاتی ہے۔ ۱۳؍ نبوی:۔۔۔۔۔ اس سال مدینہ کے ستر مردوں اور بیس عورتوں نے آپ a سے بیعت کی، یہ بیعتِ عقبۂ ثانیہ کہلاتی ہے۔ ہجرتِ مدینہ مدینہ میں اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل چکی تھی، آپ a نے صحابہؓ   کو ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا، قریش کو پتہ چلا تو انہوں نے دار الندوۃ میں آپ a کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپ a کے گھر کا محاصرہ کرلیا، اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا، آپ a کو ہجرت کا حکم ہوا، آپ a کافروں کے گھیرے سے باطمینان نکلے، حضرت ابو بکر q کے گھر پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، یہاں تین دن رہے، پھر ہجرت فرمائی اور مدینہ کی نواحی بستی قبا پہنچے۔   ۱ ھ ،اسلام کا نیا دور:۔۔۔۔۔یہاں سے اسلام کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے، قبا میں چودہ دن قیام رہا، وہاں ایک مسجد بنائی، وہاں سے مدینہ طیبہ منتقل ہوئے۔ حضرت ابو ایوب انصاری q کے گھر قیام فرمایا، مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی، اذان شروع ہوئی اور جہاد کا حکم ہوا اور آپ a نے دعوت و جہاد کے لیے صحابہ s کی جماعتیں بھیجنا شروع کیں۔ سرایا و غزوات جس جہاد میں آپ a خود شریک ہوئے‘ اُسے غزوہ کہتے ہیں، اور جس میں خود نہیں گئے، صحابہؓ کی جماعت کو بھیجا‘ اُسے سریہ کہتے ہیں۔ آپ a کے سرایا کی تعداد ۴۷؍ ہے اور غزوات کی تعداد ۲۷؍ ہے۔ اس سال آپa نے تین دستے (سریے) روانہ فرمائے، لیکن مقابلہ نہیں ہوا۔ ۲ھ۔۔۔۔۔اس سال غزوۂ دوّان، غزوۂ بواط، غزوۂ عشیرہ اور غزوۂ بدر صغریٰ ہوئے۔ تحویل قبلہ کا حکم ہوا، روزہ، رمضان، زکوٰۃ و فطرہ واجب ہوئے۔ اسی سال (رمضان میں) مشہور غزوۂ بدر ہوا، آپ a کے ساتھ ۳۱۳؍ جاں نثار تھے اور قریش ایک ہزار، مگر شکست قریش ہی کو ہوئی۔ ان کے ستر سردار مارے گئے اور ستر قید ہوئے۔ مسلمانوں کے چودہ آدمی شہید ہوئے۔ اسی سال غزوۂ قرقرۃ الکدر، غزوۂ بنی قینقاع اور غزوۃ السویق ہوئے، تینوں میں جنگ نہیں ہوئی۔ سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ q کا حضرت فاطمۃ الزہراء t سے نکاح ہوا اور حضرت عائشہ صدیقہ t کی حضور a کے گھر رخصتی ہوئی۔ ۳ھ۔۔۔۔۔ اس سال غزوۂ غطفان اور غزوۂ بحران ہوئے، مقابلہ نہیں ہوا، پھر مشہور جنگ اُحد ہوئی، قریش قبائلِ عرب کو اکٹھا کر کر بدر کے مقتولوں کا بدلہ لینے جبل اُحد کے پاس جمع ہوئے، آپ a ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدینہ سے باہر نکلے، ۳۰۰؍ منافق راستہ ہی میں پلٹ گئے، دامن اُحد میں دونوں فوجیں لڑیں، کفار کو شکست ہوئی۔ ایک درّہ پر آپ a نے تیر اندازوں کی ایک جماعت اس وصیت کے ساتھ مقرر فرمائی تھی کہ ہم مریں یا جئیں، تمہیں بہرحال تاحکم ثانی اپنی جگہ رہنا ہوگا۔ ان میں سے بعض نے مسلمانوں کی فتح اور کافروں کی شکست دیکھ کر جگہ چھوڑ دی، دشمن کو لوٹ کر پیچھے سے حملہ کا موقع مل گیا، جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، ستر صحابہs شہید ہوئے جن کے سردار حمزہ q ہیں۔ آپ a کا چہرۂ انور زخمی ہوا، سامنے کے دندان مبارک شہید ہوئے، اگلے دن آپ a قریش کے تعاقب میں حمراء الاسد تک گئے، مگر دشمن بچ نکلا، مقابلہ نہیں ہوا، اسی سال شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ ۴ھ۔۔۔۔۔اس سال غزوۂ بنی نضیر ہوا، آپ a نے بنی نضیر کا محاصرہ کیا اور انہیں جلا وطن کیا، پھر غزوۂ ذات الرقاع ہوا، مقابلہ کی نوبت نہیں آئی۔ اس سفر میں ’’نمازِ خوف‘‘ اور ’’تیمم‘‘ کا حکم نازل ہوا، پھر غزوۂ احد صغریٰ ہوا، گزشتہ سال جنگ اُحد سے واپسی پر قریش کہہ گئے تھے کہ آئندہ سال پھر اسی مقام پر جنگ ہوگی، آپ a حسب وعدہ اُحد کی طرف نکلے، لیکن قریش مقابلہ کے لیے نہیں آئے۔ ۵ھ۔۔۔۔۔اس سال غزوۂ دومۃ الجندل ہوا، دشمن اپنے مویشی چھوڑ کر بھاگ گئے، پھر غزوۂ بنی مصطلق ہوا، مقابلہ میں اس قبیلے کے دس آدمی مارے گئے، باقی قید ہوئے۔ انہی قیدیوں میں ان کے سردار حارث کی لڑکی جویریہ تھیں، آپ a نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا۔ یہ نکاح تمام قیدیوں کے آزاد کرنے اور ان کے اسلام لانے کا ذریعہ بنا۔ پھر غزوۂ احزاب پیش آیا، قریش نے تمام قبائل عرب اور یہود کو ساتھ لے کر دس ہزار کی تعداد میں مدینہ کا محاصرہ کیا، مسلمانوں نے اپنی حفاظت کے لیے ایک لمبی خندق کھودی۔ قریش کا محاصرہ پندرہ دن جاری رہا، بالآخر اللہ تعالیٰ نے تند ہوا اور فرشتوں کا لشکر بھیجا اور دشمن ناکام لوٹا۔ پھر غزوۂ بنی قریظہ ہوا اور یہود بنی قریظہ کو عہد شکنی کی سزا میں قتل کیا گیا، اسی سال حج فرض ہوا اور پردہ کی آیات نازل ہوئیں۔ ۶ھ۔۔۔۔۔اس سال غزوۂ بنی لحیان، غزوۃ الغابہ اور صلح حدیبیہ ہوئی۔ آپ a چودہ سو صحابہs کے ساتھ عمرہ کی نیت سے غیر مسلح مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے۔ قریش نے مقام حدیبیہ میں آپ a کو روک دیا۔ آخر کار چند شرطوں پر صلح ہوئی، ان میں سے ایک یہ تھی کہ دونوں فریق دس سال تک آپس میں جنگ نہیں کریں گے۔ اسی موقع پر ایک درخت کے نیچے بیعت رضوان ہوئی، اسی سال آپa نے مختلف بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط بھیجے، ان میں سے بعض مسلمان ہوگئے۔ ۷ھ۔۔۔۔۔اس سال حدیبیہ سے واپسی پر خیبر فتح ہوا، مہاجرین حبشہ کی واپسی ہوئی، فدک مصالحانہ طور پر فتح ہوا، غزوۂ وادی القریٰ ہوا، آپ a صحابہs کی معیت میں عمرۃ القضاء کے لیے مکہ تشریف لے گئے، وہاں تین دن قیام کے بعد واپسی ہوئی۔ ۸ھ۔۔۔۔۔اس سال جنگ موتہ ہوئی، جس میں مسلمانوں کے تین سپہ سالار، زید بن حارثہؓ، جعفر بن ابی طالبؓ، عبد اللہ بن رواحہؓ یکے بعد دیگرے شہید ہوئے۔ پھر حضرت خالد بن ولید q کو امیر لشکر مقرر کیا گیا، دشمن کو شکست ہوئی اور کافی مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔ اسی سال مکہ مکرمہ کی فتح کا عظیم واقعہ ہوا۔ قریش نے جنگ بندی کا معاہدہ توڑ ڈالا تھا، آپ a دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے۔ قریش نے ہتھیار ڈال دئیے، آپ a نے امن عام کا اعلان فرمایا، کعبۃ اللہ کے گرد و پیش سے بتوں کی نجاست کو صاف کیا، ارد گرد کے قبائل میں بت شکنی کے لیے وفود بھیجے۔ مکہ کی فتح اور آپ a کا دشمنوں سے سلوک کون نہیں جانتا کہ مکی زندگی کے تیرہ (۱۳) سالوں میں مکہ والوں نے آپa اور آپa کے صحابہ کرام s پر کیا کیا ستم ڈھائے۔ انہیں تپتی ریت اور آگ کی چنگاریوں پر لٹایا گیا، انہیں مکہ میں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، حتیٰ کہ انہیں شہید تک کردیا گیا۔ نبی کریم a کو طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں، آپa کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، نماز میں سجدہ کی حالت میں اونٹ کی اُوجھڑی سر پر ڈالی گئی۔ یہاں تک کہ نبی پاک a کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنایا اور جب آپ a اور صحابہ کرام s ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں بھی ان کے خلاف سازشیں رچیں اور جنگ بدر، جنگ اُحد اور جنگ احزاب کی نوبت آئی۔ لیکن اب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا ہے، آپ a ایک فاتح کی حیثیت سے اس شہر میں داخل ہوتے ہیں، لیکن دنیا کے فاتحین کی طرح متکبرانہ انداز میں ہر گز نہیں، بلکہ نہایت تواضع اور انکساری کے ساتھ، سر مبارک جھکائے ہوئے، ہزاروں جانثاروں کے ساتھ ربّ العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے۔ بیت اللہ کو  بتوں سے پاک فرماتے ہیں اور اس کا طواف فرماتے ہیں۔ مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے، قریش مکہ آپa کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور ان کے دل و دماغ میں وہ تمام جرائم آکھڑے ہوتے ہیں جو انہوں نے نبی پاک a اور آپa کے صحابہ کرام s کے ساتھ کیے تھے۔ آج یہ سب مجرم آپ a کے سامنے سرجھکائے بیٹھے ہیں۔ آج اگر آپ a کی جگہ کوئی اور دنیا کا فاتح حکمران ہوتا تو اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا؟ غالباً وہی کرتا جو جابر حکمران کیا کرتے ہیں، لیکن آپ اللہ کے رسول اور رحمۃٌ للعالمین ہیں، اخلاق کے اونچے مقام پر فائز ہیں، جن کے اعلیٰ اور عظیم اخلاق کی تعریف خود باری تعالیٰ نے فرمائی ہے:  ’’وَإنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘۔            (القلم:۲) ترجمہ: ’’اور بے شک آپ بڑے بلند اخلاق پر قائم ہیں۔‘‘ آپ a نے اُن سب سے مخاطب ہوکر فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے آج میں تم سے کیا سلوک کرنے والا ہوں؟ سب نے بیک زبان جواب دیا: ’’أخ کریم وابن أخ کریم۔‘‘ آپ ایک شریف بھائی ہیں اور ایک شریف بھائی کے فرزند ہیں، یعنی ہم آپ سے امید رکھتے ہیں جو ایک شریف بھائی سے رکھی جاتی ہے۔ پھر آپ a نے فرمایا: میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسفm نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی:  ’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ أَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ‘‘۔        (یوسف:۹۲) ترجمہ: ’’آج تم پر کوئی سرزنش اور ملامت نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی سزا تو سزا آج میں تمہارے جرائم بھی یاد نہیں دلاؤں گا کہ ان کا تذکرہ کر کے تم پر ملامت کی جائے۔ پھر فرمایا:’’ اذہبوا فأنتم الطلقائ۔‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’جاؤ! تم سب آزاد ہو۔‘‘  آج رحم و کرم کا دن ہے، جو شخص ابو سفیانؓ کے گھر داخل ہوجائے‘ اُسے امن ہے۔ جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کردیا‘ اُسے امن ہے۔ جو مسجد حرام میں داخل ہوگیا‘ اُسے امن ہے۔ اسی حسن اخلاق کا نتیجہ تھا کہ ان میں سے اکثر مسلمان ہوئے اور دل و جان سے آپ a سے محبت کرنے لگے اور دشمن کی بجائے دوست بن گئے۔ نبی کریم a نے جہاں امت کو کریمانہ اخلاق کی تعلیم دی ہے، وہاں اپنے عمل سے ان کے سامنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بھی پیش فرمایا ہے۔ آپa کی یہ اخلاقی تعلیمات آپ aکی زندگی میں روزِ روشن کی طرح واضح ہیں، جن کی نظیر انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ غزوۂ حنین فتح مکہ کے بعد غزوۂ حنین ہوا، قبلہ ثقیف و ہوازن کے لوگ مقابلہ کی تیاری کر رہے تھے۔ آپa کو اطلاع ملی تو بارہ ہزار کا لشکر اُن کے مقابلہ میں لے کر نکلے، بعض مسلمانوں کو خیال ہوا کہ اتنا بڑا لشکر کیسے مغلوب ہوسکتا ہے، مگر دشمن نے تیروں کی بارش شروع کی تو مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے، آنحضرت a اپنے چند صحابہؓ کے ساتھ جمے رہے، پھر مسلمانوں نے پلٹ کر حملہ کیا، دشمن کو شکست ہوئی، کچھ مارے گئے، کچھ بھاگ گئے، ان کی عورتیں اور بچے قیدی بنے، تمام مال مویشی پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا، جو بھاگ نکلے تھے، وہ طائف جاکر قلعہ بند ہوگئے۔ آپ a نے اُنیس دن تک طائف کا محاصرہ کیا، پھر آپ a جعرانہ واپس ہوئے، جنگ حنین کے قیدی یہیں تھے، اتنے میں قبیلہ ہوازن مسلمان ہوکر حاضر خدمت ہوا، آپ a نے ان کے قیدی واپس کردئیے۔ جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا اور راتوں رات عمرہ ادا کر کے مدینہ طیبہ روانہ ہوگئے۔ ۹ھ۔۔۔۔۔اس سال غزوۂ تبوک ہوا، آپ a کو رومیوں کی تیاری کی اطلاع ہوئی، آپ a تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کی سرحد پر مقام تبوک پہنچ گئے، لیکن رومی مقابلہ کے لیے نہیں آئے، ائیلہ کے سردار اور دوسرے قبائل نے جزیہ پر صلح کرلی۔ اسی سال حضرت ابوبکر q کو ’’امیر حج‘‘ بناکر بھیجا، یوم النحر میں اعلان کیا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک حج کرنے نہیں آئے گا، نہ برہنہ طواف کرے گا۔ اسی سال مختلف علاقوں کے وفود آپ a کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔ ۱۰ھ۔۔۔۔۔اس سال حضرت علی q کی امارت میں ایک دستہ بنی مدلج کے مقابلہ میں بھیجا، اُن کے بیس آدمی مارے گئے، باقی مسلمان ہوئے۔ اسی سال حضرت معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ اشعری rکو تعلیم و تبلیغ کے لیے یمن بھیجا۔ اس سال کا اہم ترین واقعہ آپ a کا آخری حج ہے، جسے حجۃ الوداع، حجۃ البلاغ، حجۃ الکمال، حجۃ التمام، حجۃ الاسلام کہا جاتا ہے۔ آپ a نے عرفات اور منیٰ کے خطبوں میں دین کے بنیادی اصولوں کی تعلیم فرمائی۔ بنیادی اصولوں کی تعلیم آپa کی زندگی‘ حاکم وقت اور قاضی کے لیے نمونہ آپ a کی زندگی پورے عالم کے لیے نمونہ ہے۔ آپ a کی زندگی ایک مسلمان حاکم کے لیے بھی اُسوۂ حسنہ ہے، کیوں کہ آپa ایک اسلامی مملکت کے ایک عادل سربراہ بھی تھے اور آپa نے اس مملکت کو نہایت کامیابی کے ساتھ چلایا۔ آپa کی سیرت ایک قاضی اور جج کے لیے بھی بہترین نمونہ ہے، کیوں کہ آپa ایک عادل اور منصف قاضی بھی تھے اور آپa نے قضاء اور عدل و انصاف کے وہ اصول بیان فرمائے، جن سے انسانیت قیامت تک مستغنی نہیں ہوسکتی، آپ a ہی کا فرمان ہے: ’’بخدا اگر محمد (a) کی بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کا ارتکاب کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔‘‘  اور آپa ہی کا فرمان ہے: ’’اگر لوگوں کو صرف ان کے دعوے اور مطالبہ پر ان کا مطلوب دے دیا جائے تو کچھ لوگ دوسروں کے خون اور مالوں کا دعویٰ شروع کردیں گے، لیکن مدعی کے ذمہ ثبوت ہے اور مدعا علیہ پر قسم ہے۔‘‘ آپ aکی زندگی فوجی جرنیل کے لیے نمونہ آپ a کی زندگی ایک فوجی جرنیل اور بہادر سپاہی کے لیے بھی اُسوۂ حسنہ ہے، کیوں کہ آپa میں ایک فوجی قائد کی شجاعت، تدبر اور شفقت جیسی اعلیٰ صفات موجود تھیں۔ آپ aکی بہادری اور شجاعت بہادری اور شجاعت ایسی کہ غزوۂ حنین میں جب دشمنوں نے تیروں کی بارش برسادی تو بہتوں کے قدم اُکھڑ گئے، لیکن آپ a اپنے جانثاروں کے ساتھ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ رہے تھے اور فرمارہے تھے: أنا النبی لا کذب أنا ابن عبد المطلب ’’میں سچا نبی ہوں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ ایک بار اہل مدینہ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کوئی دشمن حملہ کرنے والا ہے، گھبرا کر باہر نکلے، تاکہ معلومات حاصل کریں، کیا دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم a تن تنہا ایک گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار باہر سے واپس تشریف لارہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ: گھبرائو نہیں، میں سب دیکھ کر آگیا ہوں، کوئی خطرہ نہیں۔ آپ a اپنی امت کے ہر فرد کو ایک مجاہد اور مضبوط انسان دیکھنا چاہتے تھے، آپa ہی کا ارشاد ہے: ’’ایک قوی مومن اللہ کے ہاں زیادہ بہتر اور پیارا ہے کمزور مومن کے مقابلے میں اور دونوں میں خیر موجود ہے‘‘۔ سنت ِمشورہ آپ aغزوات میں تجربہ کار صحابہ کرام s سے مشورہ بھی فرماتے تھے اور اس پر عمل بھی فرماتے، جیسا کہ غزوۂ بدر اور غزوۂ خندق کے واقعات اس پر شاہد ہیں۔ آپ a کی رحم دلی اور عدل و انصاف اس شجاعت کے ساتھ رحم دلی اور عدل و انصاف کا یہ عالم ہے کہ جب کسی لشکر اور فوج کو روانہ فرماتے تو اُنہیں اس بات کی تاکید فرماتے کہ کسی عورت، بچے، بوڑھے اور عبادت میں مشغول انسان کو ہرگز قتل نہ کیا جائے۔ آپ a کا صبر و تحمل صبر و تحمل میں آپ aسب کے امام ہیں، ایک اعرابی آتا ہے اور آپ aکی چادر کو اتنا زور سے کھینچتا ہے کہ گردن مبارک پر نشانات پڑجاتے ہیں اور وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اللہ کے مال میں سے دیجیے۔ آپ aمسکرا رہے ہیں اور حکم فرماتے ہیں کہ اس کو اتنا مال دے دیا جائے۔ آپ a استقامت کے پہاڑ حق پر صبر و استقامت کی آپ aنے وہ مثال قائم فرمائی جس کی نظیر تاریخ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے، آپ aکے مخالفین نے آپ aکو مال و دولت، خوب صورت عورت اور دنیا کے جاہ و جلال کی لالچ دی، تاکہ آپa دعوت حق کو ترک کردیں، لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی آپa کو ذرہ برابر متأثر نہ کرسکی اور آپa نے ان کو اِن تاریخی کلمات سے جواب دیا جو اہل حق کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہیں گے، آپa نے فرمایا: ’’قسم بخدا! اگر یہ لوگ سورج کو میرے داہنے ہاتھ پر رکھ دیں اور چاند کو بائیں ہاتھ پر رکھ دیں، تاکہ میں اپنی اس دعوت حق کو چھوڑدوں تو میں ہرگز اُسے نہیں چھوڑوں گا، جب تک کہ اللہ اُسے غالب نہ کردے یا اسی میں میری موت آجائے۔‘‘ آپ a کا عفو و کرم عفو و کرم میں اگر دیکھا جائے تو آپa کا کوئی ثانی نہیں ملے گا، فتح مکہ کی مثال جو اوپر گزری، ایسی ہے کہ اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ خود آپa کا ارشاد ہے: ’’جو تجھ سے قطع رحمی کرے تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کر، جو تجھے نہ دے تو اُسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اُسے معاف کردے اور جو تجھ سے برا سلوک کرے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کر۔‘‘ آپ a کی سخاوت جود و سخا میں بھی آپa سب سے آگے ہیں، صحابہ کرام s فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ a سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو آپa کی جود و سخا کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا۔‘‘ اونچے اخلاق اخلاق میں آپa اتنے اونچے مقام پر تھے کہ خود باری تعالیٰ نے آپa کی اس صفت کو خصوصیت سے ذکر کیا: ’’اور یقینا آپ بڑے بلند خلق پر قائم ہیں۔‘‘ بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست اسی طرح آپa ایک بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست بھی تھے، آپ a نے اپنی زندگی کا نمونہ پیش فرماکر اُمت کو بتادیا کہ ایک مسلمان شوہر کیسا ہونا چاہیے، ایک باپ کیسا ہو اور ایک دوست کیسا ہو۔ آپ a ایک کامیاب معلم اور مربی آپ a کی ایک امتیازی صفت معلم اور مربی کی ہے۔ آپa کامل معلم، استاذ اور ایک عظیم مربی تھے، اس لیے تعلیم کے میدان میں کام کرنے والے اور جن حضرات پر نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہے، سب کے لیے آپa اسوۂ حسنہ ہیں۔ ۱۱ھ آپ a کا وصال ۱۱ ھ میں آپ a نے رومیوں کے مقابلہ میں ’’اسامہ qکا لشکر‘‘ تیار فرمایا، مگر لشکر کی روانگی سے قبل ہی آپ a کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ یہ آپ a کا مرضِ وفات تھا، اس دوران آپ a حضرت عائشہ tکے گھر رہے، نماز کی امامت کے لیے اپنی جگہ حضرت ابوبکر q کو مقرر فرمایا۔ دو شنبہ بارہ ربیع الاوّل کو ۶۳؍ سال کی عمر میں آپ a کا وصال ہوا، جب کہ آپ a اللہ کی امانت اللہ کے بندوں کو پہنچاچکے تھے اور دعوت و ہدایت کا کام پورا ہوچکا تھا۔ چہار شنبہ کی رات آپ a کو غسل دیا گیا، تین کپڑوں میں کفن دیا گیا اور مسلمانوں نے غم زدہ دلوں کے ساتھ فرداً فرداً نماز جنازہ پڑھی۔ حضرت عائشہ t کا وہی حجرہ آپ a کی آخری آرام گاہ بنی۔ صلی اللّٰہ علیہ وعلٰی آلہٖ وأصحابہٖ وأتباعہٖ وسلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا۔ اولاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین صاحب زادے تھے: قاسمؓ، عبد اللہؓ، ابراہیمؓ سب کا بچپن میں ہی انتقال ہوا۔ چار صاحب زادیاں تھیں: زینبؓ، رقیہؓ، امّ کلثومؓ اور خاتون جنت فاطمۃ الزہراؓ۔ ازواجِ مطہراتu خدیجۃ الکبریٰؓ، عائشہ صدیقہؓ، حفصہؓ، امّ سلمہؓ، سودہؓ، زینب بنت جحشؓ، میمونہؓ، زینب بنت خزیمہؓ، جویریہؓ، صفیہؓ، امّ حبیبہؓ۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ اور زینب بنت خزیمہؓ کی وفات آپ a کی حیات میں ہوئی۔ باقی نو (۹؍) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت موجود تھیں۔ (رضی اللّٰہ عنہن) حسن و جمال آپ a کے حسن و جمال کے بیان سے تو قلم و قرطاس قاصر ہیں، تاہم دو شعر قارئین کی تشنگی شوق کی تسکین کے لیے حاضر ہیں: وأحسن منک لم تر قط عینی وأجمل منک لم تلد النساء خلقت مبرأ من کل عیب کأنک قد خلقت کما تشاء ’’آپ (a) سے زیادہ حسین میری آنکھوں نے نہیں دیکھا۔ اور آپ (a) سے زیادہ جمیل کسی ماں نے کوئی بچہ نہیں جنا۔ آپ (a) ہر عیب سے فطرتاً پاک و صاف پیدا ہوئے، گویا جیسا آپ (a) چاہتے تھے ویسے ہی پیدا ہوئے۔‘‘ ۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین