بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اللہ تعالیٰ کو ’’خدا ‘‘یا کسی اور نام سے پکارنا

اللہ تعالیٰ کو ’’خدا ‘‘یا کسی اور نام سے پکارنا

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں کہ:     معارف القرآن جلد چہارم صفحہ:۱۳۰ پر سورۃ الاعراف کی آیت: ۱۸۰ ’’وَلِلّٰہِ الْأَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَذَرُوْا اللَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ أَسْمَائِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘ کے تحت معارف ومسائل میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب v نے لکھا ہے کہ ’’اس (اللہ تعالیٰ) کے پکارنے کے لیے بھی ہر شخص آزاد نہیں کہ جو الفاظ چاہے اختیار کرے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے ہمیں وہ الفاظ بھی بتلادیئے جو اس کی شایانِ شان ہیں اور ہمیں پابند کردیا کہ انہی الفاظ کے ساتھ اس کو پکاریں‘‘۔پھر چند سطور کے بعد صفحہ:۱۳۲ پر لکھا ہے کہ ’’تمام علماء حق کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام اور صفات میں کسی کو یہ اختیار نہیں کہ جو چاہے نام رکھ لے یا جس صفت کے ساتھ چاہے اس کی حمد وثناء کرے، بلکہ صرف وہی الفاظ ہونا ضروری ہیں جو قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے لیے بطور نام یا صفت ذکر کیے گئے ہیں۔‘‘     ۱:-اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انگریزی میں (God)گوڈ یا ہندی میں بھگوان یا اردو اور فارسی میں خدا کہنا جس کا عام رواج ہے، جائز نہیں۔     ۲-لفظ اللہ حق سبحانہٗ وتعالیٰ کا اسم ذات ہے، کیا اس اسم ذات کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں کرنا جیساکہ بعض تراجم میں پایا جاتا ہے، جائز ہے؟ اس مسئلہ کی پوری وضاحت فرماکر ممنون ومشکور فرمائیں۔ جزاکم اللّٰہ تعالٰی                                                                             مستفتی:عبد اللہ ،کراچی الجواب باسمہٖ تعالٰی     واضح رہے کہ کسی بھی زبان سے تعلق رکھنے والا شخص اگر ایسا لفظ بولے جو معبود حقیقی کی نشاندہی کرتا ہے اس لفظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارنا درست ہے جیسے خدا، ایزد، یزداں، گوڈ وغیرہ۔     اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات واجب الوجود ہے اور لفظ خدا واجب الوجود ہی کی ترجمانی کرتا ہے، کیونکہ لفظ خدا دو لفظوں سے مل کر بنا ہے ایک ’’خود‘‘ دوسرا ’’آ‘‘ تو معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود واجب ہے یعنی بغیر کسی کی احتیاج کے ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ خدا کا استعمال بلاکراہت جائز ہے، نیز اسی طرح لفظ گوڈ سے بھی صاحب لسان کا اللہ ہی کو پکارنا ہوتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، منع وہ لفظ ہے جو کسی قوم کا شعار بن چکا ہو اور اس سے اس قوم کی پہچان ہو، جیسے لفظ بھگوان کہ اگرچہ اس سے صاحب لسان کا اللہ ہی کو پکارنا ہو، لیکن ان کا یہ شعار بن چکا ہے، لہٰذا اس لفظ سے پکارنے سے احتراز کیا جائے۔چنانچہ تفسیر کبیر میں ہے:  ’’الاسم العاشر قولنا واجب الوجود لذاتہ…وقولہم بالفارسیۃ خدای معناہ أنہ واجب الوجود لذاتہ لأن قولنا خدای مرکبۃ من لفظتین فی الفارسیۃ، أحدہما ’’خود‘‘ ومعناہ ذات الشیئ ونفسہ وحقیقتہ والثانیۃ قولنا ’’آی‘‘ معناہ جاء ، فقولنا خدای معناہ أنہ بنفسہ جاء وہو إشارۃ إلی أنہ بنفسہ وذاتہ جاء إلی الوجود لابغیرہ وعلی ہذا الوجہ فیصیر تفسیر قولہم خدای أنہ لذاتہ کان موجودا۔‘‘( تفسیر کبیر،ص:۱۰۰،۱۰۱ الباب الثالث من ہذا الکتاب فی مباحث الاسم) شیخ عبد الوہاب شعرانی vاپنی کتاب’’الیواقیت والجواہر‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’فإن قلت: فہل یعم تعظیم الأسماء جمیع الألفاظ الدائرۃ علی ألسنۃ الخلق علٰی اختلاف طبقاتہم وألسنتہم؟ فالجواب نعم، ہی معطمۃ فی کل لغۃ مرجعہا إلی ذات واحدۃ فان اسم اللّٰہ لایعرف العرب غیرہ وہو بلسان فارسی خدا، أی بلسان الحبشۃ ’’واق‘‘ وبلسان الفرنجی ’’کریطر دروا‘‘ بحث علی ذلک فی سائر الألسن تجد ذلک اسم الإلٰہی معظما فی کل لسان من حیث لایدل علیہ‘‘۔  (الیواقیت والجواہر،ص:۷۸،ط:مصری) حضرت تھانوی v امداد الفتاویٰ میں فرماتے ہیں: ’’من الأسماء التوقیفیۃ علم ومنہا ألقاب وأوصاف وترجۃ اللفظ بمنزلتہٖ فالأسماء العجمیۃ ترجمۃ تلک الألقاب والأوصاف ولذا انعقد الإجماع علی إطلاقہا ، نعم لایجوز ترجمۃ العلم فاللّٰہ عَلَمٌ والباقی ألقاب وأوصاف بخلاف المرادف العربی للأسماء العربیۃ لأنہا لاضرورۃ إلی إطلاقہا فلا یؤذن فیہا ، أما العجم فیحتاجون إلی الترجمۃ للسہولۃ فی الفہم ، ہذا ما عندی ولعل عند غیری ماہو أحسن من ہذا‘‘۔ (امداد الفتاویٰ،ج:۴،ص:۵۱۳، ۵۱۴،ط:دارالعلوم کراچی مسائل شتی) فتاویٰ محمودیہ میں ہے: ’’مگر اس صورت میں ان ہی ناموں کو منع کیا جاسکتا ہے جو غیر قوم کا شعار ہیں اور جو شعار نہیں ان کو منع نہیں جاسکتا، جیسے خدا، ایزد، یزداں کہ یہ نام کسی مخصوص غیر مسلم کے شعار نہیں، بلکہ بکثرت اہل اسلام کی تصانیف میں موجود ہیں۔    (فتاویٰ محمودیہ،ج:۱،ص:۲۷۱،ط: ادارۃ الفاروق) نیز لفظ گاڈ سے کسی شخص کے بے ادبی کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں فرمایا: ’’اپنے محاورات اور بول چال میں اللہ تعالیٰ کا ایسا نام لینا اولیٰ اور مناسب ہے جو قرآن شریف اور حدیث شریف سے ثابت ہو، تاہم ہر زبان میں اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ان کا بھی ادب واحترام لازم ہے۔ یہ بات جانتے ہوئے کہ فلاں لفظ اللہ تعالیٰ کا نام ہے اس کی بے ادبی کرنے کا حق نہیں، اس سے پورا پرہیز لازم ہے۔‘‘(فتاویٰ محمودیہ،ج:۱،ص:۲۶۷،۲۶۸،ط:ادارۃ الفاروق)     اور حضرت مفتی شفیع صاحب v کی اس تفسیر سے مراد لفظ خدا وغیرہ کا اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کرنے کی نفی کرنا نہیں، بلکہ جو اسماء اللہ رب العزت کے توقیفی ہیں اس لفظ کو چھوڑ کر اسی عربی زبان میں اس کا ہم معنی مترادف لفظ استعمال کرنا درست نہیں، جیسے کہ اللہ رب العزت کی ایک صفت کریم ہے اس کو چھوڑ کر سخی کہنا یا شافی کے بجائے طبیب کہنا یا نور کے بجائے ابیض کہنا درست نہیں، جیساکہ امداد الفتاویٰ کے گزشتہ حوالے کی عبارت سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے اور حضرت مولانا مفتی شفیعv نے خود اس لفظ ’’خدا ‘‘کو صفحہ:۱۳۳ پر استعمال کیا ہے۔     لہذا سائل اس عبارت کے ظاہر سے جو سمجھے ہیں وہ درست نہیں۔     ۲- جی ہاں لفظ اللہ حق سبحانہ وتعالیٰ کا اسم ذات ہے جس کا ایک معنی ’’وہ ذات کہ جو مستحق ہے اس بات کی کہ اس کی عبادت کی جائے‘‘ اور ایک معنی ’’واجب الوجود ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا‘‘۔ چنانچہ تفسیر القرطبی میں ہے: ’’فاللّٰہ اسم للموجود الحق الجامع لصفات الإلٰہیۃ المنعوت بنعوت الربوبیۃ المنفرد بالوجود الحقیقی لا إلہ إلا ہو سبحانہ وقیل: معناہ الذی یستحق أن یعبد ، وقیل: معناہ واجب الوجود الذی لم یزل ولایزال والمعنی واحد‘‘۔                                      (تفسیر القرطبی،ج:۱، ص:۱۰۲،ط:دار الکتب المصریہ، القاہرۃ) تفسیر البیضاوی میں ہے: ’’وقیل علم لذاتہ المنصوصۃ لأنہ یوصف ولایوصف بہٖ‘‘۔ (تفسیر البیضاوی، ج:۱، ص:۱۳)     اور بہتر یہ ہے کہ لفظ اللہ کا ترجمہ لفظ اللہ سے ہی کیا جائے، لیکن تفہیم کی غرض سے دوسری زبان میں اس کا ایسے الفاظ سے ترجمہ کرنا جس سے حق سبحانہ وتعالیٰ کی ذات کا تعارف ہو درست ہے۔فقط واللہ اعلم        الجواب صحیح          الجواب صحیح                                   کتبہ       محمد انعام الحق        محمد عبد القادر                                  محمدنوید                                                   دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین