بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

الفاظِ طلاق سے متعلقہ اُصولوں کی تفہیم وتشریح (گیارہویں قسط)

الفاظِ طلاق سے متعلقہ اُصولوں کی تفہیم وتشریح                                       (گیارہویں قسط)

سولہواں فائدہ دلالت ِحال سے وقوع طلاق ؟     کنایہ اگر صریح نہ ہو تو اس سے طلاق کا وقوع نیت یا دلالت پر موقوف رہتا ہے۔ مذہب حنفی اس سلسلے میں بالکل واضح ہے اور ماقبل میں تفصیل کے ساتھ اس کا بیان ہوچکا ہے، مگر خلافت عثمانیہ نے اپنی خلافت کے آخری ایام میں غیر صریح کنایہ سے طلاق کا وقوع صرف نیت کے ساتھ مشروط کرکے دلالت حال کو غیر معتبر قراردے دیا تھا۔زیر نظر سطور میں اس قانون کا جائزہ لیا جائے گا اور مقصود اس جائزے سے دلالت کی بحث کو جامع بنانا اور اس کے مختلف گوشوں کو واضح کرنا اور اہل علم کو اس پہلو سے غوروفکر کے لیے متوجہ کرنا ہے۔ مجلۃ الأحکام العدلیۃ      انیسویں صدی کے وسط میں خلافت نے اہم نوعیت کے کئی قوانین نافذ کیے، جن میں’’ قانون الجزائ‘‘ اور’’ قانون أصول ا لمحاکمات الحقوقیۃ والجزائیۃ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ خلافت نے فقہ حنفی کو سرکاری حیثیت سے اختیار کیا تھا اور اس کی تنفیذ کے لیے شرعی عدالتیں قائم تھیں، جب کہ وضعی قوانین کے نفاذ کے لیے خلافت نے ایک نیا نظام ’’مجالس تمیز حقوق‘‘ کے نام سے متعارف کرایا تھا۔ ’’مجالس تمیز حقوق ‘‘شرعی عدالتوں کے ماتحت ایک عدالتی نظام تھا اور اس کے عام ارکان براہِ راست فقہ اسلامی سے واقفیت نہیں رکھتے تھے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ جب ان ماتحت عدالتوں کے فیصلے بالائی  عدالتوں میں پیش ہوکر مسترد ہوجاتے تو وضعی اور شرعی قوانین کے مابین اختلاف اور تضادوتصادم کھل کر سامنے آجاتا اور خود ان عدالتوں کے حکام کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی۔     تجارتی وکاروباری معاملات کے سلسلے میں بھی خلافت کو اسی نوعیت کی دشواری درپیش تھی۔ اگر غور کیا جائے تو اس دشواری کا تعلق نظامِ عدل کی استواری اور عدم استواری سے تھا کہ اسے اس طرح منظم نہیں کیا گیا تھا کہ ایک کل کی مختلف اکائیاں آپس میں ٹکراتی ہوئی محسوس نہ ہوں، مگراس دشواری کے علاوہ ایک اور مشکل بھی تھی جس کا تعلق نظام عدل سے نہیں، بلکہ خود قانون کی جامعیت اور عدم جامعیت  سے تھا۔ تجارت اور کاروباری معاملات کے متعلق جو قانون رائج تھاوہ تجارت اور تجارتی معاملات کے تمام پہلؤوں کا احاطہ اوراس کے جملہ مسائل واحکام کا استیعاب نہیں کرتا تھا،چنانچہ بعض اوقات اس نوعیت کے مقدمات دائر ہوجاتے، جن کو نافذ الوقت قانون کے تحت فیصل کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔عدالتیں فصلِ خصومات اور رفعِ تنازعات کے سلسلے میں کسی اجنبی قانون سے بھی استفادہ کی مجاز نہ تھیں، کیونکہ سلطنت کی طرف سے اسے منظوری حاصل نہ تھی۔ ماتحت عدالتوں کے سامنے براہِ راست فقہ اسلامی سے رہنمائی حاصل کرنے کا راستہ کھلا پڑا تھا، مگر ارکانِ عدالت اس آسان ومختصر ،مامون ومفید اور کھلے اورکشادہ راستے کو آمدورفت کے لیے استعمال نہیں کرسکتے تھے،کیونکہ فقہ اسلامی ان کے مزاج اور ذوق کے مطابق اس عہد کے عدالتی اور قانونی طرز واسلوب میں مدون نہ تھا اور قدیم شکل میں اس بحر ناپید کنار سے استنباط واستخراج کا ان کو ملکہ اور قدرت نہ تھی۔     اس مشکل کا ایک حل یہ تھا کہ دیوانی عدالتوں میں دائر مقدمات کو پھر سے شرعی عدالتوں میں دائر کیا جاتا، مگر اس طرح شرعی عدالتوں کے بوجھ میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہوجاتا، کیوںکہ وہ پہلے سے ہی کام کے دباؤ سے جھکی چلی جارہی تھیں اور اگر شرعی عدالتیں اس اضافی بوجھ کو کسی طرح سہار جاتیں تو پھر بھی بنیادی مشکل کا ازالہ اور اصل الجھن کا خاتمہ ممکن نہ تھا، کیوں کہ اگر شرعی عدالت کا فیصلہ ماتحت عدالتی فیصلے سے برعکس آجاتا تو ایک ہی مقدمہ میں ایک ہی ملک کی دو عدالتوں کے دو متضاد فیصلے سامنے آتے، جس سے عدالتی انتشار اور عدالتی حکام کے مابین تناؤ میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ ان وجوہات کی بنا پر اور قانون سازی کی اس خوشگوار لہر کے نتیجے میں جو اس زمانے میں چلی تھی اور کچھ تجارتی ،عسکری اور سفارتی عوامل کی بنا پر سلطنت نے محسوس کیا کہ حصۂ معاملات پر بھی ایک قانونی مجموعہ مرتب کرنا انتہائی قرین مصلحت ہے، چنانچہ اعلیٰ عدلیہ،ماہرین قانون ،مجلس شوریٰ کے اراکین اور ممتاز فقہاء پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا گیا، جس نے ۱۸۶۵ء سے ۱۸۷۶ء تک بیس سال کی سعی پیہم اور جہد مسلسل سے باقاعدہ ابواب اور دفعات پر مشتمل ایک ضابطہ بند مجموعہ تیا ر کرلیا، جسے’’ مجلۃ الأحکام العدلیۃ‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ مجلہ اٹھارہ سو اکیاون دفعات، سولہ ابواب اور ایک جامع مقدمہ پر مشتمل ہے اور مروجہ عدالتی اسلوب میں پہلی اسلامی دستاویز ہے۔ مجلہ کے مدونین نے’’ مجلۃ الأحکام العدلیۃ‘‘ کی افادیت،اہمیت اور ضرورت کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:     ’’ان وجوہ کی بنا پر شدت کے ساتھ ضرورت محسوس کی جاتی رہی کہ ایک کتاب قسمِ معاملاتِ فقہیہ پر ایسی تالیف کی جائے جس میں مسائل مربوط انداز میں مرتب ہوں۔ اس سے استفادہ آسان ہو،اختلافات کا اس میں ذکر نہ ہو،مقبول ومفتیٰ بہ اقوال پر مشتمل ہو اور ہر شخص کے لیے اس کا مطالعہ سہل ہو۔ اگر ایسی کتاب تیار ہوجائے تو اس سے حکام شرعی،ارکان محاکم نظامیہ اور افسران سر رشتہ ہائے انتظامی سب کو بڑا فائدہ پہنچے گا۔اس کے مطالعے سے انہیں شرع سے یک گونہ ربط پیدا ہوجائے گا اور بقدر استطاعت دعاوی اورشرع شریف کے مابین توفیق کی ان میں قوت پیدا ہوجائے گی۔اس طرح یہ کتاب محاکم شرعیہ میں اجرائے احکام کے لیے سند کا کام دے گی اور محاکم نظامیہ میں جن مقدمات حقوق کی سماعت ہوتی ہے ،ان کے لیے کسی جدید قانون کے وضع کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔‘‘(۱)      انیسویں صدی کے ربع اول میں خلافت کے خاتمے کے ساتھ مجلہ کی حکمرانی کا سورج بھی غروب ہوگیا، مگر اس کی حرارت وتمازت ہے جو آج بھی محسوس کی جاسکتی ہے ۔ اسلامی ملکوں کویت وفلسطین خصوصاً اردن میں یہی دستاویز بعض اضافات اور مناسب اصلاحات کے ساتھ آج بھی نافذ ہے۔ مجلہ ‘ معاملات سے متعلق احکام اسلام پر مشتمل قانون ہے اور اس کا ماخذ فقہ حنفی کے راجح اور مفتیٰ بہ اقوال ہیں۔جن بعض مسائل میں مجلہ نے مذہب حنفی سے عدول کیا ہے ،مجلہ کے مدونین نے مقدمہ میں اس کے اسباب ووجوہات کا ذکر کردیا ہے۔ قرار حقوق العائلۃ     عائلی قوانین سے مجلہ یکسر خاموش ہے اور حجر اور مرض الموت جیسے مسائل کے علاوہ اس کے کسی قانون کا تعلق پرسنل لاء (شخصی قوانین )سے جوڑنا مشکل ہے۔ خلافت کا اس پہلو سے اغماض اس مصلحت سے تھا کہ اس کے قلمرو کے طول وعرض میں مختلف مذاہب ومسالک کے پیرو آباد تھے اور خلافت شخصی مسائل میں غیر مسلم رعایا کوا ن کے مذہب کے مطابق آزادی دینے کی پالیسی پر کاربند تھی۔ شخصی معاملات میںعدم تقنین اور اس کے عدم نفاذ کا یہ سلسلہ ۱۹۱۷ء تک جاری رہا، یہاں تک کہ مختلف اسباب و وجوہات کی بنا پر خلافت نے ضرورت محسوس کی کہ شخصی معاملات میں بھی اپنے قلمرو میں ایک قانون کا نفاذ ہوناچاہیے، چنانچہ یکم محرم ۱۳۳۶ھ بمطابق ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۷ء کو ’’قرار حقوق العائلۃ فی النکاح المدنی والطلاق:النکاح ، الافتراق ‘‘کے نام سے سلطنت نے ایک قانون نافذ کیا، جس میں مجلہ کی طرح غالب اقوال فقہ حنفی سے لیے گئے تھے، مگر بعض مسائل میںجہاں مذہب حنفی پر عمل سے تنگی اور دشواری پیش آرہی تھی اور احوال وظروف کی عدم رعایت سے مصالح شرعیہ فوت ہوتے محسوس ہورہے تھے ،وہاں دیگر مذاہب کے اقوال کو بنیاد بناکر قانون سازی کی گئی،ان ہی مسائل میں ایک دلالت حال سے عدم وقوع طلا ق کا مسئلہ بھی ہے، جو مذکورہ قانون کے دفعہ: ۱۰۹ میں درج ہے۔مجلہ توقدیم زمانہ سے مطبوع ومتداول ہے، مگرپچھلے چند سالوں سے بیروت کے مطبع نے مجلہ کے ساتھ مذکورہ عائلی قانون بھی طبع کرنا شروع کردیا ہے۔اس قانون کی تمہید اور مقدمے میں تفصیل سے ان اسباب و محرکات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جن کی بنا پر خلافت نے عائلی قوانین کے نفاذ کی ضرورت محسوس کی ، قانون اور فلسفہ قانون کے بہت اہم نکات بھی متذکرہ مقدمے میں زیر بحث آگئے ہیں۔دلالت حال سے عدم وقوع طلاق کے بارے میں قانون ساز مجلس اپنے خیالات کا بایں الفاظ اظہار کرتی ہے: ’’الألفاظ الکنائیۃ المستعملۃ فی الطلاق: إیقاع الطلاق بالألفاظ الکنائیۃ صحیح عند أھل جمیع المذاہب، إنما إذا کانت ھذہ الألفاظ غیر معروفۃ فوقوع الطلاق بھا علی المذہب المختار یتوقف علی نیۃ الزوج أو علی دلالۃ الحال۔ فالزوج وإن لم یکن لہ حق إیقاع الطلاق بلفظ کنائی عمدا نظرا لأھلیتہ للطلاق، غیر أنہ إذا کان لاینوی الطلاق، فاستنباط معنی من قولہ غیر مقصود منہ استنادا علی دلالۃ الحال، والقول بوقوع الطلاق مخالف للقاعدۃ القائلۃ بوجوب العنایۃ بصیانۃ النکاح ووقایۃ حیاۃ العائلۃ من الخلل۔ وقوع الطلاق بالألفاظ الکنائیۃ عند الإمام الشافعی رحمہ اللّٰہ یتوقف علی النیۃ مطلقا، وفی الحقیقۃ أن الطلاق یقع بلفظ کنائی إذا نوی الزوج سواء وجدت دلالۃ أولم توجد، والقول بوقوع الطلاق باستنباط معنی غیر مقصود من قول الزوج، ولا نوی الطلاق بہ، لم یر موافقا للمصلحۃ، ولذا نظمت المادۃ ۱۰۹ علی القول الإمام المشار إلیہ۔‘‘(۲) ترجمہ:۔۔۔’’کنایہ الفاظ جو طلاق کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں:تمام مذاہب میں کنایہ الفاظ سے طلاق دینا صحیح ہے،لیکن جب یہ الفاظ متعارف نہ ہوں تو مختار مذہب کے مطابق ان سے طلاق کا وقوع نیت یا دلالت ِحال پر موقوف رہتا ہے۔اگر چہ اس پہلو سے شوہر کو کنایہ لفظ سے جان بوجھ کر طلا ق دینے کا حق نہیں ہے کہ وہ لفظ طلاق سے طلا ق دینے کی اہلیت رکھتا ہے، مگر جب اس کی نیت طلا ق کی نہ ہو تو اس کے الفاظ سے دلالت ِحال کی بنا پر ایک ایسا معنی برآمد کرنا جو اس کا مقصد نہ ہو اور اس کی بنا پر وقوع طلاق کا حکم صادر کرنا اس عام اصول کے خلاف ہے جو نکاح کے تحفظ اور عائلی زندگی کو متاثر ہونے سے بچانے کی تاکید کرتا ہے۔امام شافعی v کے نزدیک کنایہ الفاظ سے طلاق کا وقوع بہر صورت نیت پر موقوف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب شوہر کی نیت ہو تو کنایہ لفظ سے طلاق ہوجاتی ہے چاہے دلالت حال ہو یا نہ ہو،لیکن شوہر کے قول سے ایک ایسا معنی اخذ کرکے طلاق کا حکم صادر کرنا جو معنی شوہر کا مقصودنہ ہو اور جس سے اس نے طلاق کا ارادہ بھی نہ کیا ہو،خلاف مصلحت معلوم ہوتا ہے، اس لیے دفعہ: ۱۰۹ کو امام شافعی vکے مذہب کی اساس پر مدون کیا گیا ہے۔     دفعہ: ۱۰۹ کی تمہید ملاحظہ فرمانے کے بعد اب اصل دفعہ ملاحظہ کیجیے: ’’(مادۃ:۱۰۹) یقع الطلاق بالألفاظ الصریحۃ والألفاظ الکنائیۃ المتعارفۃ بحکم الصریحۃ۔أما وقوع الطلاق بالألفاظ الکنائیۃ غیر المتعارفۃ، فمتوقف علی نیۃ الزوج۔ إذا اختلف الطرفان فی نیۃ الزوج للطلاق یصدق الزوج بیمینہ۔‘‘(۳) ترجمہ :۔۔۔’’صریح الفاظ سے اور ان کنایہ الفاظ سے جن سے طلاق دینا متعارف ہے اور وہ صریح کے حکم میں ہیں،ان سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ جن کنایہ الفاظ سے طلاق دینے کا عرف نہیں ہے ان سے طلاق کا وقوع شوہر کی نیت پر موقوف ہے۔ جب زوجین کا اختلاف ہوجائے کہ (کنایہ غیر متعارفہ کے استعمال سے )شوہر کی نیت طلاق کی تھی یا نہیں تو شوہر کے قول کا حلف کے ساتھ اعتبار کیا جائے گا۔‘‘      ’’متعارف کنایات‘‘ سے وہی الفاظ مراد ہیں جن کو گزشتہ فوائد میں ملحق بالصریح سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی وہ الفاظ جو اپنی اصل وضع کے اعتبار سے کنایہ ہیں، مگر اس کثرت سے طلاق کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں کہ اب صریح کے درجے میں آگئے ہیںاور وقوعِ طلاق کے لیے نیت کی احتیاج نہیں رکھتے ہیں۔     مذہب حنفی میں طلاق کا وقوع صریح یا نیت یا دلالت سے ہوتا ہے، جب کہ دفعہ ہذاطلاق کے وقوع کو صریح یا نیت میں منحصر کرتی ہے۔ اگرچہ دفعہ بالا دلالت حال کے غیر معتبر ہونے کی تصریح نہیں کرتی، مگر وقوع طلاق کو صرف صریح یا نیت میں منحصر کرنے کا لازمی نتیجہ دلالت کے خروج کی صورت میں نکلتا ہے۔ طلاق کے مباحث میں صریح سے مراد وہ لفظ ہوتاہے جو کثرت سے طلاق کے معنی میں استعمال ہوتا ہو اور کثرت استعمال کامعیار عرف ہے، اس لیے اس دفعہ کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ طلاق کا وقوع عرف یا نیت سے ہوگا۔ تائیدی دلائل     دفعہ بالا کی تمہید میں مقننہ نے خود ہی وضاحت کردی ہے کہ متذکرہ دفعہ کی بنیاد مذہب شافعیؒ پر رکھی گئی ہے،مگر حقیقت یہ ہے کہ امام شافعی v اس مسئلے میں تنہا نہیں، بلکہ امام مالک vکی رائے بھی ان کے موافق ہے۔حنابلہ اس مسئلے میں حنفیہ کے ہم خیال ہیں، مگر شوافع اور مالکیہ کے متفق ہونے سے ائمہ اربعہ کے درمیان آراء کا تناسب برابر ہوجاتا ہے ،اس کے ساتھ حنفی اصول افتا کی یہ شرط بھی پوری ہوجاتی ہے کہ مذاہب میں سے پہلے مذہب مالکی پھر شافعی اور پھر حنبلی کوبالترتیب اختیار کیا جائے گا۔     مذہب حنفی سے خروج کے وقت اورکسی دوسرے مذہب کو اختیار کرتے وقت ترتیب کیا ہوگی؟ یہ سوچ بعد کے مرحلے کی ہے ،اس ترتیب وانتخاب سے پہلے نفس خروج کو شرعی جواز فراہم کرنا ضروری ہے۔ شرعی جوازمہیا کرنے کے لیے سب سے پہلے اکابر اہل فتویٰ کا یہ اطمینان ضروری ہوگا کہ آیا واقعی خروج عن المذہب کی شرائط پوری ہیں ؟اورمذہب حنفی میں دشواری اور کسی دیگر مذہب میں سہولت ہے؟ اور عوام الناس کے حالات بھی سہولت کے مقتضی ہیں ؟اور مذہب حنفی پر عمل سے کوئی قابل اعتبار مصلحت فوت ہورہی ہے یا خاطر خواہ مفسدہ لازم آرہا ہے؟     آج کے حالات میںاس قسم کے سوالات موزوں ہویاغیر موزوں،اپنے اندر معقولیت رکھتے ہوںیاسراسر غیر معقول ہوں، مگر تین براعظموں پر پھیلی خلافت نے اپنے زمانۂ اقتدار میں ان سوالوں کو اہمیت دی ہے اور سب سوالات کا مثبت جواب دیا ہے ۔ ایک واقعی مسئلہ ہونے کی حیثیت سے خلافت نے نہ صرف اس کا ادراک کیا، بلکہ عملی قدم اٹھاتے ہوئے قانون سازی بھی کرڈالی، اب حل طلب سوال ہمارے سامنے یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس باعث اور محرک کی شدت و اہمیت میں اضافہ ہوا ہے یا مقتضیات ختم اور ضرورت رفع ہوگئی ہے؟      اسلامی ممالک میںسے مصر اور سوڈان وغیرہ نے بھی اس مسئلے میں خلافت کی تقلید کی ہے، متحدہ عرب امارات،شام اور اردن کا قانون بھی اس نہج پر ہے کہ کنایات میں دلالت ِحال کا اعتبار نہیں۔     شیخ علی الخفیف اپنی کتاب ’’فرق الزواج فی المذاہب الإسلامیۃ‘‘میں لکھتے ہیں: ’’وذہب المالکیۃ والشافعیۃ : إلی أن نیۃ الطلاق شرط فی وقوع الطلاق بالکنایات ، ولاعبرۃ بدلالۃ الحال عندھم ، إذ إن المطلق مختار فی إرادۃ غیر الطلاق منھا، وقیام القرینۃ لا ینفی اختیارہ فی ذلک ۔ وعلیہ العمل الاٰن بالجمہوریۃ العربیۃ المتحدۃ ، بمقتضی المادۃ رقم:۴ من القانون رقم: ۲۵ لسنۃ ۱۹۲۹ء ونصھا:’’کنایات الطلاق، وھی مایحتمل الطلاق وغیرہ، لا یقع بھا الطلاق إلا بالنیۃ، وعلی ھذا لو ادعی الناطق بأی لفظ من ألفاظ الکنایات أنہ لم ینو بہ الطلاق، لم یقع بہ طلاق، مھما کانت الحال۔ وکذلک جری العمل فی المحاکم السودانیۃ، منذ سنۃ ۱۹۳۵ء بناء علی المنشور الشرعی رقم: ۴۱۔‘‘(۴)     اردن کا قانون ملاحظہ کیجیے: ’’یقع الطلاق بالألفاظ الصریحۃ دون الحاجۃ إلی النیۃ، وبالألفاظ الکنائیۃ ، وھی التی تحتمل معنی الطلاق وغیرہ بالنیۃ۔‘‘(۵)     اہل زمانہ کے حالات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ نے اور اس کی متابعت میں برادر اسلامی ممالک نے مسلم معاشرے کی بروقت اوردرست تشخیص کی ہے۔غور کیجیے اور غور کرتے وقت دین دار اقلیت کو نہیں، بلکہ اس اکثریت کو پیش نظر رکھیں جن کا دین کے ساتھ محض رسمی تعلق ہے کہ کتنے لوگ ہیں جو ’’جا،چل،نکل،اٹھ،کھڑی ہو وغیرہ کو طلاق کے الفاظ سمجھتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت صرف لفظ طلاق اوراس کے مشتقات کواور گنتی کے چند اورالفاظ کو، جن کو سلطنت نے متعارف کنایات سے تعبیر کیا ہے، طلاق کے الفاظ سمجھتی ہے ۔اب اگر شوہر کوئی کنایہ لفظ استعمال کرے اور وہ اسے طلاق کا لفظ نہ سمجھتا ہو، مگر اس وجہ سے کہ وہ لفظ غصہ یا مذاکرہ کے وقت بولا گیا ہے ،اس سے وقوع طلاق کا حکم دیا جائے تو وہی قباحت لازم آئے گی کہ شوہر کے الفاظ سے ایک ایسامعنی کشیدکیا گیا ہے جس کا خود شوہر نے ارادہ نہیں کیا ہے۔     اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں طلاق کے مسائل میں خصوصاً طلاق کے وقوع اور عدم وقوع کے بارے میںعدالتوں سے رجوع کا رجحان بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ مفتیان حضرات سے رجوع کرتے ہیں اور مفتی کا اصل منصب دیانت پر فتوی ہے ۔ دلالت حال پر فتوی اپنے اصل کے لحاظ سے مفتی کا نہیں بلکہ قاضی کامنصب ہے۔اس لیے اگر دلالت ِحال کی بنا پر طلاق کے وقوع کو قاضی کا منصب قرار دیا جائے، جیسا کہ حقیقت میںبھی اسی کا منصب ہے اور مفتی کو دیانت پر فتوی کا پابند بنادیا جائے تواہل افتااس سے کسی ایسے شرعی حق سے محروم نہیںہوتے جو شریعت نے انہیں بخشاہو۔     طلاق کے الفاظ میں سے کنایات اور کنایا ت میںوہ کنایہ الفاظ جو صریح نہیںہیں، ان کا فہم اور تطبیق خود علما وفضلاکے لیے بھی نہ صرف مشکل بلکہ بہت مشکل ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن بہر حال حقیقت ہے اور اسے تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ خلافت کے بنائے ہوئے قانون میں اہل علم کو بڑی سہولت ہے ،کیوں کہ اس قانون کی روسے کنایا ت اور احوال کی تقسیم کی ضرورت نہیں رہے گی اورطلاق کا وقوع صرف صریح یانیت سے ہوگا اور اس کا عملی نتیجہ ہمارے معاشرے میں اس طرح ظاہر ہوگا کہ کنایہ الفاظ سے طلاق کا وقوع لفظ حرام، آزاد اور چھوڑدیا وغیرہ تک محدود ہوجائے گا اور جو غیر صریح کنایہ ہیں ان میں شوہر کی نیت لازم ہوگی۔      قانون سازی جیسے سنجیدہ اورخالص علمی بحث میں اس جیسی نکتہ طرازی اور دقیقہ سنجی کو شاید ظرافت طبع اور لطافت حس پر محمول کرکے نظر انداز کردیا جائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشایخ نے حیض وغیرہ کے مسائل میں بعض اقوال کو اس وجہ سے بھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے کہ ان کے فہم میں سہولت اور ضبط میں آسانی ہے اور اس سے زیادہ سچی حقیقت یہ ہے کہ سہولت کے لیے وجوہِ ترجیح تلاش کرنا ہی ضروری نہیں ہے، کیوں کہ سہولت خود وجہ ترجیح ہے ۔ تردیدی دلائل     یہاں تک سلطنت عثمانیہ کے بنائے ہوئے ایک ایسے قانون کا ذکر تھاجس میں دلالت حال کو غیر معتبر قرار دیاگیا تھا اور اس کی تائید میں محض رائے کے درجے میںچند طالب علمانہ گزارشات بھی کی گئیں۔ اب ہم مسئلے کا دوسرے پہلوسے جائزہ لیتے ہیں،کیوں کہ مقصود فیصلہ نہیں، بلکہ مسئلے کا ہر پہلو سے جائزہ ہے۔      کنایہ اگر صریح نہ ہو تو اس سے طلاق کا وقوع نیت یا دلالت پر موقوف رہتا ہے۔یہی مذہب حنفی ہے،اسی پر فتوی ہے اور اس پر تمام حنفی فقہاء کا اتفاق ہے اور متون وشروح اور فتاوی وحواشی سب میں اس کی صراحت ہے۔ دلالت حال کا اعتبار نہ کرنے سے مذہب حنفی کی صریح مخالفت لازم آئے گی اوراس مخالفت کا عملی نتیجہ یہ نکلے گا کہ طلاق کا وقوع صرف صریح اور نیت میں منحصر ہوجائے گااوردلالت کی بحث اور اس کے تحت فقہاء کی نکتہ سنجیاں اور دقیقہ رسیاں سب کی سب اعتاق اور تدبیر کے مسائل کی طرح محض کتابوں کی زینت رہ جائیں گی۔     خلافت عثمانیہ کے قانون ساز ادارے نے مذکورہ قانون کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے یہ دلیل دی ہے کہ دلالت کا اعتبار کرنے سے شوہر کے کلام سے ایک ایسے معنی کا استنباط لازم آتا ہے جس کا شوہر نے قصد نہیں کیا ہے ۔ یہ دلیل اس اطلاق کے ساتھ درست نہیں معلوم ہوتی ۔یہ تو درست ہے کہ کسی لفظ سے ایسا معنی برآمد کیا جاسکتا ہے جس کی لفظ میں گنجائش ہی نہ ہو، نہ ہی کلام کومتکلم کے خلافِ مقصود معنی پہنائے جاسکتے ہیں ،مگر دلالت حال میں لفظ سے متکلم کی منشا کے خلاف معنی مراد لیا جاتا ہے ،ایسا ہر گز تسلیم نہیں ،کیوں دلالت کے مسئلے میں لفظ کے اندر معنی کی گنجائش ہوتی ہے، البتہ وہ معنی شوہر کا مقصود ہے یا نہیں؟ اس بارے میں دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور دلالت کی صورت میں قرینہ اس بات کی کافی دلیل ہوتا ہے کہ شوہر کی مراد طلاق ہے۔ کنایہ کی حقیقت ہی یہ ہے کہ شوہر خاص ماحول میں خاص طرح کے الفاظ استعمال نہ کرے، بصورتِ دیگر شریعت طلاق کا قیاس کرنے میں حق بجانب ہوگی۔ اس تنبیہ کے بعد جب شوہرایک خاص قسم کے ماحول میں ایک ذو معنی لفظ استعمال کرتاہے تو طلاق اور غیر طلاق کامساوی قیاس پیدا ہوجاتا ہے، مگر قرینہ کی موجودگی سے ماحول شوہر کے خلاف بن جاتا ہے اوریہ قیاس غلبے کے ساتھ ابھر جاتا ہے کہ شوہر نے طلاق ہی کی نیت سے کنایہ کاا ستعمال کیا ہے۔ اس لیے یہ بالکل معقول ہے کہ جس طرح شوہر کے اظہار وبیان سے اس کی نیت ثابت ہوتی ہے، اسی طرح شواہد وآثار اور قرائن وعلامات سے بھی اس کی نیت اخذ کی جاسکتی ہے۔ ظاہری نگاہ میںیہ اصول کچھ بھیانک اورخوفناک معلوم ہوتاہے کہ دلالت حال سے بھی نیت برآمد کی جاسکتی ہے، مگر فقہاء نے اس اصول کی اتنی سخت تعبیر کی ہے کہ عملی طور پر کنایا ت سے طلاق کا وقوع بہت مشکل ہوجاتا ہے۔     مذکورہ قانون کے جواز پر مقننہ نے دوسری دلیل یہ دی ہے کہ شوہر کے قصد کے برخلاف طلاق کے وقوع سے عائلی زندگی سخت متاثر ہوتی ہے اور خاندانی نظام برباد ہو کر رہ جاتا ہے، مگر شریعت اس کے قصد کے برخلاف طلاق کے وقوع کا حکم نہیںکرتی، بلکہ صرف اس کے قصد کو اس پر لازم کردیتی ہے۔     ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو دلالت کو نیت کے قائم مقام قرار دینے میں بڑی حکمت پوشید ہ نظر آتی ہے۔ کنایہ الفاظ کی فہرست پر ایک نگاہ ڈال لی جائے تو ہر ہر لفظ زہر میں بجھا ہوا تیر محسوس ہوتاہے،بھاڑ میں جا، دفع ہوجا، جہنم میں جا، چاروں راستے کھلے ہوئے ہیں، مجھے تیری ضرورت نہیں، اس قسم کے الفاظ روح کو گھائل اور جذبات کو سخت مجروح کرتے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ ناچاقی اور تلخی اور ازدواجی زندگی کی ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے، اگر شوہر کو یہ ضمانت مل جائے کہ گول مول الفاظ سے اس وقت تک طلاق نہیںہوگی جب تک وہ خود طلاق کی نیت کا اظہار نہیںکرے گا تو وہ اسی طرح چبھن اور کا ٹ کے الفاظ استعمال کرتا رہے گا او ر بیوی کے پاس سوائے گھلنے،گھٹنے اورکڑوے گھونٹ پینے کے اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔     اس کے علاوہ ایک اور پہلو سے بھی یہ مسئلہ غور وفکر چاہتا ہے۔ اگر شوہر تین مرتبہ طلاق کے صریح الفاظ استعمال کرے اور اپنی نیت تاکید کی بیان کرے تو اس کے کلام میں تاکید کی گنجائش ہوتی ہے اور ازروئے دیانت اس کی نیت کا اعتبار بھی ہوتاہے، مگر پھر بھی فتوی دیانت پر نہیں بلکہ قضا پربھی دیا جاتا ہے،اس کی وجہ سوائے فسادِ زمانہ کے اور کوئی نہیں کہ دیانت کا پست معیاراور اہل زمانہ کے احوال مفتی کو قضا کی سرحد میں قدم رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اگر شوہر کی نیت پر مدار رکھا جائے اور اسے اس بارے میں امین تصور کیا جائے تو پھر یہ اصول وسعت چاہے گا اورمعاملہ صرف دلالت تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ علت کے اشتراک کی وجہ سے بہت مسائل میں شوہر کی نیت کا اعتبار کرنا ہوگا۔     دلالت ِحال کی تائید وتردید اور حمایت ومخالفت اور اس ضمن میںسلطنت عثمانیہ اوربرادر اسلامی ممالک میں رائج قوانین کے تذکرے سے مقصد یہ تھا کہ ہمارے دیار میں بھی اگر دلالت کو نیت کے قائم مقام قرار دینے میں کوئی تنگی اور دشواری ہے اور اہل علم کی جماعت خلوص کے ساتھ سمجھتی ہے کہ کسی دیگر مذہب میں یسر وسہولت اور مصالح شرعیہ کا احیاء ہے تو حالات ومقتضیات کی رعایت رکھتے ہوئے کسی دوسرے مذہب کو اختیار کیا جاسکتاہے۔ اس سلسلے میں گفتگو کا محور اور دلائل کا موضوع صرف یہی ایک امر ہونا چاہیے کہ ہمارے ہاں دلالت ِحال کا اعتبار کسی مصلحت شرعی کے فوت کا باعث بن رہاہے یا نہیں؟ حصر کے ساتھ گفتگو کو اس نقطے میں مرکوز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آج کل بعض اہل قلم ائمہ اربعہ کے درمیان بھی محاکمہ کرنے چل پڑتے ہیں اور اپنے فہم میںدلائل کی بنا پر ایک امام کے قول کو دوسرے پر ترجیح دینے لگتے ہیں،اگر یہ رسم یہاں بھی عام ہوگئی تو پھرمذہب کے بنیادی ستون بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ حوالہ جات ۱:…مجلۃ الأحکام العدلیۃ ،ص:۷۸، ط:دارابن حزم، سن ۱۴۲۴ھ۔ ۲:…قرار حقوق العائلۃ فی النکاح المدنی والطلاق: النکاح۔ التفریق علی مجلۃ الأحکام العدلیۃ، ص:۵۱۳، ط:دارابن حزم ۔ ۳:…الکتاب الثانی فی الافتراق۵۳۴،الطبعۃ الاولی۱۴۲۴ھ دارابن حزم،بیروت۔ ۴:…فرق الزواج فی المذاہب الإسلامیۃ للعلامۃ الشیخ علی الخفیف، تحت عنوان الکنایۃ فی الطلاق وحکمھا: الطبعۃ الأولی،۱۰۳، ط:دارالفکر العربی، القاھرۃ ، مصر ۔ ۵:…قانون الأحوال الشخصیۃ لسنۃ (۲۰۱۰)الباب الرابع انحلال عقد الزواج ،الفصل الأول الطلاق ،مادۃ:۴۸۔          (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین