بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

الفاظِ طلاق سے متعلقہ اُصولوں کی تفہیم وتشریح (دسویں قسط)

الفاظِ طلاق سے متعلقہ اُصولوں کی تفہیم وتشریح                                       (دسویں قسط)

مباحث گزشتہ کا خلاصہ گزشتہ سطور میں اکابرکی تحقیقات ہم ملاحظہ کرچکے،اگر ان تحریرات کے ساتھ دیگر اکابر اہل فتویٰ کے فتاویٰ جات بھی سامنے رکھے جائیں تو مجموعی حیثیت سے اضافت کے مسئلے کی چند صورتیں نکلتی ہیں،اضافت کے مسئلے کو صورتوںپر تقسیم کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ مسئلے کا فہم وضبط آسان ہوجاتا ہے اور ہر جزئیہ اپنی جگہ درست معلوم ہوتا ہے۔ پہلی صورت: اگر شوہر نے طلاق کی نسبت بیوی کی طرف نہ کی ہو، مگر وہ اپنی نیت بیوی کو طلا ق دینے کی بیان کرتا ہے تو نیت کی وجہ سے اضافت موجو د تسلیم کی جائے گی اور طلاق واقع ہوگی: ’’۔۔۔عدم وقوع آں وقت است کہ ارادۂ طلاق زن نہ باشد، نہ عرف جاری باشد۔‘‘(۱) ’’وقوع طلاق کی اضافت لفظی ضروری نہیں، بلکہ اضافت معنوی بھی کافی ہوجاتی ہے، اضافت ِمعنویہ کے لیے نیت یا عرف دونوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔‘‘(۲) امداد الفتاویٰ کا جو مفصل اقتباس ماقبل میں گزرا،اس میں مذکور ہے کہ اضافت کا تحقق نیت سے بھی ہوتا ہے:’’دوم:نیت کمافی قولہ عینت امرأتی۔‘‘امداد الفتاویٰ میں ایک اورفتویٰ درج ہے، جس کا عنوان ہے :’’وقوع طلاق بلا تصریح اسم وبلا خطاب زوجہ‘‘اور جواب میں ذکر ہے کہ ’’چونکہ دل میں اپنی ہی منکوحہ کو طلاق دینے کا قصد تھا، لہٰذا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔(۳) ’’۔۔۔اس نے طلاق کی نسبت اور اضافت اپنی بیوی کی طرف نہیں کی اور نہ اس کا نام لیا، نہ اشارہ کیا اور اس کی غرض بھی اپنی زوجہ کو طلاق دینے کی نہ تھی،لہٰذا اس صورت میں اس کی زوجہ پر طلاق واقع نہیں ہوئی۔‘‘(۴) ’’۔۔۔۔ہر گاہ زید نگفتہ است کہ ازیں لفظ طلاق طلاق، زوجہ ام مراد نیست،زوجہ اش مطلقہ شودبدو طلاق،وہر گاہ بعد ازاں دراں مجلس یا مجلس دیگر گفتہ کلمات ۔۔۔۔ازیں لفظ یک طلاق بائنہ بر زوجہ اش واقع شد۔۔۔‘‘ (۵) دوسری صورت: تمام اردو اور عربی فتاویٰ اس پر متفق ہیں کہ اگر لفظوں میں اضافت ہو تو وقوعِ طلا ق میں کوئی شک وشبہ نہیں،مثلاً :شوہر اپنی بیوی کا نام لے یا اس کا نسب یا کنیت یا لقب یا عرفیت ذکر کرے: ’’۔۔۔ لو ذکر اسمھا أو اسم أبیھا أواسم أمھا أو ولدھا، فقال :عمرۃ طالق أوبنت فلان أو بنت فلانۃ أو أم فلان، فقد صرحو بأنھا تطلق۔۔‘‘ ۔(۶) تیسری صورت : تیسری صورت یہ ہے کہ شوہر کے کلام میںتو بیوی کی طرف اضافت نہ ہو،مگر اس کا کلام کسی ایسی بات کے جواب میں ہو جس میں اضافت مذکور ہوتو اصول فقہ کے قاعدے اورزبان کے محاورے کے تحت اضافت موجود مانی جائے گی،کیوں کہ یہ اصولی قاعدہ ہے کہ جواب میں سوال کااعادہ ہوتا ہے اور عرف عام میں ایک ’’ہاں ‘‘یا ’’نا‘‘کو لمبی چوڑی تقریر کا جواب سمجھا جاتاہے۔علامہ شامی vلکھتے ہیں: ’’وفی الخانیۃ:قالت لہ: طلقنی ثلاثا فقال فعلت، أو قال طلقت وقعن۔۔۔۔ان طلقنی أمر بالتطلیق،وقولہ طلقت تطلیق فصح جوابا، والجواب یتضمن إعادۃ مافی السؤال۔‘‘ (۷) امداد الفتاویٰ کے حوالے سے گزرچکا ہے کہ: ’’سوم:اضافت در کلام سائل کما فی قولہ ’’دادم‘‘ فی جواب قولھا’’مرا طلاق دہ‘‘ ولہٰذا ثلث واقع شود    لتکرارھا ثلاثا۔‘‘کفایت المفتی میںبھی اس مضمون کا فتویٰ مذکور ہے: ’’سوال:زید نے اپنی منکوحہ کے بارے میں بحالت غصہ زبان سے تین طلاق کا لفظ نکالا، بلااضافت کسی کے،زید نے جو تین طلاق کا لفظ زبان سے نکالا تو زید کے دل میں کچھ بھی نہیں تھا ؟ جواب:اگر زید نے زبان سے صرف یہ لفظ نکالا تین طلاق، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تو ظاہر ہے کہ اس میں اضافت طلاق نہیںہے، لیکن اگر یہ لفظ سوال کے جواب میں کہے ہوں،مثلاً: زوجہ یا اس کے کسی ولی یا رشتہ دار نے زید سے کہا کہ اپنی زوجہ کو طلاق دے دو اور زید نے کہا کہ تین طلاق تو اس صورت میں قرینہ حالیہ اضافت الی المنکوحہ کے ثبوت کے لیے کافی ہوگا اور قاضی طلاق کا حکم کرے گا ۔۔۔۔۔۔اب چونکہ مجلس قضا کا وجود بھی نہیں ہے، اس لیے حکم دیانت یہ ہے کہ زید کو کہا جائے گا کہ اگر تو نے اپنی بیوی کو یہ لفظ کہا تھا تو طلاق مغلظہ ہوگئی اور اگر بیوی کو نہیں کہا تھا تو طلاق نہیں ہوئی۔یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور لوگوں کے اطمینان کے لیے اس سے حلف لیا جائے گا، اگر وہ حلف سے کہہ دے کہ میں نے بیوی کو تین طلاق نہیں کہا تھا تو لوگوں کو بھی اس کے تعلق زن شوئی سے تعرض نہیںکرنا چاہیے۔۔۔۔۔‘‘  درج ذیل جزئیات میں وقوعِ طلاق کی وجہ یہ ہے کہ سوال میں اضافت موجود ہے: ’’لو قال:طالق، فقیل لہ: من عنیت ؟ فقال: امرأتی،  طلقت امرأتہ۔‘‘ (۸) ’’اگر شوہر نے کہا کہ طلاق ہے،اور جب اس سے پوچھا گیا کہ کس کو؟تو اس نے کہا کہ میری بیوی کو، تو اس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی۔‘‘ ’’قالت: طلاق بدست تو است،مرا طلاق کن‘‘فقال الزوج:’’طلاق می کنم‘‘،وکرر ثلٰثًا،طلقت ثلٰثًا۔‘‘ (۹) ’’بیوی نے کہا:’’طلاق تیرے اختیار میں ہے، مجھے طلاق دے۔‘‘تو جواب میں خاوند نے کہا:’’میں طلاق دیتا ہوں‘‘اور تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے تو تین طلاقیں بیوی کو پڑگئیں۔‘‘ ہندیہ میں بحوالہ ذخیرہ مذکورہے: ’’سئل شمس الائمۃ الأوزجندی عن امرأۃ قالت لزوجھا لو کان الطلاق بیدی لطلقت نفسی ألف تطلیقۃ۔ فقال الزوج :’’من ہزاردادم‘‘ولم یقل:’’دادم ترا‘‘ قال:یقع الطلاق۔‘‘ (۱۰) ترجمہ:۔۔۔شمس الائمہ سے سوال ہوا کہ ایک عورت نے کہا کہ اگر طلاق میرے ہاتھ میں ہوتی تو میں اپنے آپ کو ہزار طلاقیں دے ڈالتی،جس کے جواب میں شوہر نے کہا کہ میں نے ہزاردے دیں اور یہ نہ کہا کہ تجھے دیں تو امام شمس الائمہ vنے فرمایا کہ طلاق ہوگئی۔ بعض جزئیات میں شوہر کا کلام بیوی کے جواب میں ہے، مگر اس کے باوجود طلا ق واقع نہیں ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ شوہرصرف بیوی کے جواب پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ کوئی زائد بات کہہ جاتا ہے جس سے اس کا کلام بیوی کا جواب نہیں رہتا، بلکہ ابتدائی کلام بن جاتا ہے اور اضافت کی شرط مفقود ہونے سے طلاق بھی واقع نہیںہوتی: ’’سئل نجم الدین عمن قالت لہ امرأتہ مرا برگ باتوباشیدن نیست، مرا طلاق دہ، فقال الزوج :چوں توروئے طلاق دادہ شد وقال لم أنو الطلاق ھل یصدق ؟ قال: نعم، ووافقہ فی ھذا الجواب بعض الائمۃ۔‘‘ (۱۱) ’’امام نجم الدین vسے ایک ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا جس سے اس کی بیوی نے کہا کہ میرا تمہارے ساتھ گزارہ نہیں ہوتا، مجھے طلاق دے دے،شوہر نے کہا: تیری جیسی شکل والی کو طلاق دی ہوئی ہے اور کہتا ہے کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی تو کیا اس کی بات معتبر ہوگی؟ تو امام نجم الدین vنے فرمایا کہ: ہاں!بعض ائمہ کا بھی یہی جواب ہے۔‘‘ چوتھی صورت: یہ ہے کہ شوہر کے کلام میں اضافت مذکور ہو، نہ ہی اس کاکلام جواب کے طور پر ہو،لیکن عرف میں وہ لفظ یا تعبیر طلاق کے لئے مخصوص ہو اور جب وہ لفظ بولایا تعبیر اختیار کی جاتی ہو تو اس سے بیوی کو طلاق دیناہی سمجھاجاتا ہو،جیسے:’’ طلاق مجھ پر لازم ہوگی یا حرام مجھ پر لازم ہوگا‘‘۔حضرت مولانا انور شاہ کشمیری v کے جس رسالے کا پیچھے حوالہ گزرچکا ہے،وہ دراصل ایک ایسے سوال کے جواب میںتحریر کیا گیا ہے کہ شوہرنے طلاق دی مگر بیوی کی طرف اضافت نہیں کی،حضرت کشمیری vنے شوہر کے عرف کو بنیاد بناتے ہوئے لفظی اضافت کے بغیر بھی وقوع طلاق کا فتوی دیا۔ امداد الفتاویٰ میں بھی ہے کہ عرف ہو تو اضافت موجود مانی جائے گی۔ مفتی ولی حسن ٹونکی v  ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: ’’۔۔۔۔وقوع طلاق کے لیے اضافت لفظی ضروری نہیں، بلکہ اضافت معنوی بھی کافی ہوجاتی ہے،اضافت معنویہ کے لیے نیت یا عرف دونوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔آج کل عرف عام ہے کہ لوگ ان الفاظ سے بیویوں کو طلاق دیتے ہیں ۔۔۔۔حاصل کلام یہ ہے کہ یہاں نیت اور عرف موجود ہیں،اس لیے اضافت معنویہ کا تحقق ہوگیا۔۔۔۔‘‘ (۱۲) شامی میںہے: ’’وسیذکر قریبا أن من الألفاظ المستعملۃ:الطلاق یلزمنی،والحرام یلزمنی،وعلی الطلاق،وعلی الحرام،فیقع بلا نیۃ للعرف الخ، فأوقعوبہ الطلاق مع أنہ لیس فیہ إضافۃ إلیھاصریحا، فھذا مؤید لما فی القنیۃ، وظاھرہ أنہ لایصدق فی أنہ لم یرد امرأتہ للعرف، واللّٰہ أعلم۔۔۔۔وإنما کان ما ذکرہ صریحا، لأنہ صار فاشیا فی العرف استعمالہ فی الطلاق،لایعرفون من صیغ الطلاق غیرہ،ولا یحلف بہ إلا الرجال،وقد مر أن الصریح ما غلب فی العرف استعمالہ فی الطلاق، بحیث لایستعمل عرفا إلافیہ من أی لغۃ کانت۔۔۔۔‘‘ ترجمہ:’’مصنف عنقریب بیان کریں گے کہ طلاق کے لیے مستعمل الفاظ میں سے یہ بھی ہیں کہ: ’طلاق مجھ پر لازم ہوگی،حرام مجھ پر لازم ہوگا،مجھ پر طلاق اور مجھ پرحرام‘‘نیت نہ ہو پھر بھی عرف کی وجہ سے ان الفاظ سے طلاق واقع ہوجائے گی۔۔۔۔ بیوی کی طرف صریح اضافت نہ ہونے کے باوجود ان سے طلاق کو واقع قرار دینے سے قنیہ کی عبارت کی تائید ہوتی ہے۔ظاہر یہ ہے کہ اگر شوہر کہے کہ میرا مقصد اپنی بیوی کو طلاق دینا نہ تھا تواس کی تصدیق نہیں کی جائے گی، کیوں کہ عرف میں اس سے طلاق مراد ہوتی ہے۔۔۔۔مصنف نے جو لفظ ذکر کیا ہے، وہ صریح اس وجہ سے ہے کہ عرف میں طلاق کے لیے اس کااستعمال بہت ہی عام ہے،لوگ اس کے علاوہ طلاق کا کوئی لفظ جانتے ہی نہیں ہیں،اور مردوں کے علاوہ کوئی اس کے ذریعہ حلف بھی نہیں اٹھا تا ہے،پہلے گزر چکا ہے کہ صریح وہ ہے جس کا عرف میں زیادہ استعمال طلاق کے لیے ہوتا ہو،چاہے جس زبان کا بھی ہو۔‘‘ پانچویں صورت: اگرمعنوی اضافت موجود ہے، مثلاً شوہر اپنی بیوی سے مخاطب ہے، مگر وہ صاف لفظوں میں طلاق کی نسبت بیوی کی طرف نہیں کرتا ہے، نہ ہی اس کے الفاظ کسی ایسے سوال کے جواب میں ہیں جس میں اس کی بیوی کی طرف اضافت موجود ہے اور وہ طلاق کے کوئی ایسے کلمات بھی استعمال نہیں کرتا جن سے اس کے عرف میں طلاق دینے کا رواج ہے تو پھر معنوی قرائن وشواہد کو زیر غور لایا جائے گا،اگر کوئی ایسا قرینہ موجود ہو جس سے غالب قیاس یہ بنتا ہو کہ شوہر کی مراد اپنی بیوی کو طلاق دینا ہے تو طلاق کے وقوع کا حکم کیا جائے گا،البتہ اگرشوہرکا بیان یہ ہو کہ اس کا ارادہ اپنی بیوی کو طلاق دینے کا نہ تھا تو اس سے حلف لیا جائے گا، کیونکہ قرینے کی وجہ سے اگر چہ وقوع طلاق کا احتمال قوی ہوجاتا ہے، مگر یقینی نہیں ہوتا اور اس کے کلام میںبہر حال طلاق کے علاوہ کی گنجائش موجود ہوتی ہے اور جب اس کا کلام محتمل ہے تو وہ رعایت کا بھی مستحق ہے، تاہم قرینے کی اور مضبوط قرینے کی موجودگی سے چونکہ اس کے موقف کے برخلاف وقوع کا ذہن بنتا ہے، اس لیے جس قدر جان دار احتمال ہے اس کی تردید کے لیے دلیل بھی اسی قدر مضبوط ہونی چاہیے،اس لیے حلفیہ اس کے بیان کا اعتبار کیا جائے گا اور کوئی وجہ نہیں کہ حلف کے باوجوداسے سچا نہ سمجھا جائے۔اگر غور کیا جائے تو حلف کی شرط طلاق کے اصولوں کے ہم آہنگ ہے، کیوں کہ کنایا ت میں بھی جب فیصلہ شوہر کے بیان پر ہوتا ہے تو اس سے حلف لیا جاتا ہے۔ ’’لا تخرجی إلاباذنی فإنی حلفت بالطلاق فخرجت لا یقع، لعدم ذکرہ حلفہ بطلاقھا، ویحتمل الحلف بطلاق غیرھا فالقول لہ ویؤیدہ ما ففی البحر،لو قال:امرأۃ طالق،أو قال:طلقت امرأۃ ثلاثاوقال:لم أعن امرأتی یصدق ویفہم منہ أنہ لو لم یقل ذالک تطلق امرأتہ لأن العادۃ أن من لہ امرأۃ إنما یحلف بطلاقھا لا بطلاق غیرھا فقولہ: إنی حلفت بالطلاق ینصرف إلیھا مالم یرد غیرھا لأنہ یحتملہ کلامہ۔‘‘ (۱۳) ترجمہ۔۔۔شوہر نے بیوی سے کہاکہ ’’میری اجازت کے بغیر باہر نہ جانا، کیوںکہ میں نے طلاق کی قسم کھائی ہے‘‘بیوی باہر نکل گئی تو طلاق نہ ہوگی، کیوںکہ شوہر نے یہ نہیں کہا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کی طلاق کی قسم کھائی ہے،اس کے کلام میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس نے بیوی کے علاوہ کسی اور کو طلاق دینے کی قسم کھائی ہو،اس احتمال کی وجہ سے خاوند کی بات قابل قبول ہوگی۔ اس کی تائید بحر کے جزیے سے بھی ہوتی ہے کہ اگر شوہر نے کہا کہ عورت کو طلاق ہے یا کہا کہ میں نے عورت کو تین طلاقیں دیں اور وضاحت یہ کی کہ میں نے اپنی بیوی مراد نہیں لی تھی تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا،اس کامطلب یہ ہواکہ اگر شوہر انکار کرے تو اس کی بیوی کو طلاق پڑجائے گی، کیوں کہ عادت یہ ہے کہ جس کی بیوی ہو وہ کسی اور کی نہیں، بلکہ اپنی بیوی کو طلاق دینے کی قسم کھاتا ہے۔ بہر حال اس کے یہ کہنے سے کہ میں نے طلاق کی قسم کھائی ہے،اس کی اپنی ہی بیوی مراد ہوگی جب تک وہ بیوی کے علاوہ کوئی بیان نہ کرے، کیوں کہ اس کے کلام میں بیوی کے علاوہ کوئی اور مراد لینے کی گنجائش بہر حال موجود ہے۔ کفایت المفتی میں ہے: ’’۔۔۔۔اگر زید قسم کھا کر کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ نہیںکہے تھے تو اس کے قول اور قسم کا اعتبار کرلیا جائے گا اور طلاق کا حکم نہیں دیا جائے گا۔‘‘(۱۴) جواب:زید کے ان الفاظ (میں نے طلاق دی،اپنی والدہ سے مخاطب ہوکر اور پھر کہنا طلاق،طلاق،طلاق )میں جو سوال میں مذکور ہیں لفظ طلاق تو صریح ہے، لیکن اضافت الی الزوجہ صریح نہیں ہے، اس لیے اگر زید قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ نہیں کہے تھے تو اس کے قول اور قسم کا اعتبار کیا جائے گا اور طلاق کا حکم نہیں کیا جائے گا۔ (۱۵) سوال:ایک شخص کا اس کی بیوی کے بھائیوں کے ساتھ جھگڑا تھا اور جھگڑے کا سبب بیوی تھی،اس نے یہ الفاظ کہے ’’مجھ پر تین طلاق کے ساتھ مطلقہ ہے‘‘اپنی بیوی کا نام یا اس کی طرف نسبت نہیںکی تو طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ الجواب:صورت مسئولہ میں جب بیوی کے حق میں یہ الفاظ ’’مجھ پر تین طلاق کے ساتھ مطلقہ ہے‘‘کہہ دیے تو طلاق ہوگئی،اس لیے کہ طلاق بیوی کو ہی دی جاتی ہے، کسی اور کو نہیں دی جاتی،تاہم اگر شوہر قسم کھا کر کہہ دے کہ میری مراد بیوی نہیں تھی تو پھر طلاق واقع نہیںہوگی۔ ۔۔۔ اگر شوہر کہے کہ میں نے طلاق نہیں دی اور لفظ یہ بیوی کے حق میں نہیں کہا تو قسم کے ساتھ شوہر کا قول معتبر ہوگا۔ (۱۶) چھٹی صورت: اگر شوہر کے کلام میں اضافت کا احتمال بہت خفیف ہوتو طلاق کا وقوع شوہر کے بیان پر موقوف ہوگا،اگر وہ خود ہی وضاحت کردے کہ اس کی مراد اپنی زوجہ کو طلا ق دینے کی تھی تو اقرار کے موافق وقوع طلاق کا حکم دیا جائے گا اور یہ تفصیل اس صورت میں تھی کہ جب شوہر کا کلام لفظی اضافت سے توخالی ہو،مگر کوئی ایسا قرینہ موجود ہو جس سے اغلب قیاس یہ بنتاہو کہ شوہر کا مقصد اپنی بیوی تھا،لیکن اگر کوئی ایسا قرینہ بھی نہ ہو جو طلاق پر دلالت کرتا ہوتو طلاق کا وقوع شوہر کے بیان پر موقوف ہوگا،اگر وہ اضافت کا انکار کردے تو طلاق واقع نہ ہوگی اور اگر اقرار کرلے تو طلاق ہوجائے گی: ’’سکران ھربت منہ امرأتہ فتبعھا ولم یظفر بھا فقال بالفارسیۃ:’’ بسہ طلاق‘‘ إن قال: عنیت امرأتی یقع،وإن لم یقل شیئا لایقع۔‘‘ (۱۷) ’’نشے والے سے اس کی بیوی بھاگ گئی،اس نے پیچھا کیا، مگراسے پکڑ نہ سکا، تو اس نے فارسی میں کہا ’’بسہ طلاق‘‘(تین طلاق کے ساتھ)تو اس صورت میں اگر وہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی مراد لے کر کہا ہے تو طلاق ہوگئی اور اگر کچھ نہ کہا تو طلاق نہ ہوگی۔‘‘ ’’فرت ولم یظفر بھا فقال:’’ سہ طلاق‘‘،إن قال: أردت امرأتی یقع وإلا لا۔‘‘ (۱۸) ’’بیوی بھاگ گئی اور شوہر اسے پکڑ نہ سکا تو اس نے کہہ دیا ’’تین طلاق‘‘اگر شوہر کہے کہ میں نے بیوی کے ارادے سے کہا ہے تو طلاق ہوگی، ورنہ نہیں۔‘‘ ’’لوقال:’’طالق‘‘،فقیل لہ:من عنیت؟ فقال:’’امرأتی‘‘،طلقت امرأتہ۔‘‘(۱۹) ’’ایک شخص نے کہا:’’طلاق ہے۔‘‘اس سے پوچھاگیا تو نے کس کو کہا ہے ؟تو اس نے کہا: ’’اپنی بیوی کو‘‘،تو اس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی۔‘‘ ان آخری دو صورتوں کا فرق یہ ہے کہ پہلی صورت میں طلاق واقع سمجھی جاتی ہے اوراگر شوہر انکار کرتا ہے تو اسے حلف اٹھانا پڑتا ہے اور دوسری صورت میںطلاق کا وقوع ہی شوہر کے اقرار اور اظہار پر موقوف ہوتا ہے۔ اگر وہ کہہ دے کہ میراارادہ پنی بیوی کو طلاق دینے کا تھاتو طلاق کے وقوع کا حکم کیا جائے گا۔لیکن وہ خود بیان نہ کرے تو اس سے حلف لینے کی ضرورت نہیں ہے۔گویا ایک میں وقوع اصل ہے اور عدم وقوع کے لیے حلف کی ضرورت ہے، جب کہ دوسری میں عدم وقوع اصل ہے اور وقوع کے لیے صرف شوہر کے بیان کی ضرورت ہے اور یہ فرق اس لیے ہے کہ ایک میں وقوع کا احتمال قوی ہوتا ہے اور دوسری میں ضعیف ہوتاہے۔ حوالہ جات ۱:…امداد المفتین، کتاب الطلاق،رسالہ حکم الانصاف،ص:۵۰۸۔    ۲:…مفتی ولی حسن،۲۳ ربیع الثانی ۱۳۹۳ھ ماخوذ از رجسٹر:۱۰،ص:۱۴ ۳:…امداد الفتاویٰ، ج:۲،ص:۴۲۷۔            ۴:…فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،کتاب الطلاق،۹/۱۳۴۔ ۵:…فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،ج:۹،ص:۱۲۹۔        ۶:…ردالمحتار کتاب الطلاق،مطلب سن بوش یقع بہ الرجعی،۳/۲۴۸،ط:سعید۔ ۷:…ردالمحتار،۳/۲۹۴، ط:سعید۔            ۸:…ردالمحتار،کتاب الطلاق،۳/۲۴۸۔ ۹:…الفتاوی الھندیۃ،الفصل السابع، ج:۱، ص:۳۸۴۔        ۱۰:…الفصل السابع الطلاق بالالفاظ الفارسیۃ،۱/۳۸۴ط:پشاور۔ ۱۱:…الفتاوی الھندیۃ،۱/۳۸۵ط:پشاور۔            ۱۲:…کتبہ (مفتی)ولی حسن،۲۳ربیع الثانی۱۳۹۳ھ ماخوذ از رجسٹر:۱۰،ص:۱۴ ۱۳:…ردالمحتار،کتاب الطلاق،باب الصریح،۳/۴۸،ط:سعید۔    ۱۴:…کفایت المفتی،ج:۶،ص:۵۴ ،ط:دارالاشاعت۔ ۱۵:…کفایت المفتی،کتاب الطلاق،۸/۵۴ط:دارالاشاعت۔    ۱۶:…کفایت المفتی،ج:۱۲،ص:۲۷۴،مبوب ومرتب۔ ۱۷:…الفتاوی الہندیہ،کتاب الطلاق،ج۱،ص:۳۸۲،ط:رشیدیۃ۔    ۱۸:…ردالمحتار،کتاب الطلاق،باب الصریح،۳/۲۴۸،ط:سعید۔ ۱۹:…ردالمحتار،کتاب الطلاق،باب الصریح،ج:۳،ص:۲۴۸،ط:سعید۔                                                                                                   (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین