بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

الفاظِ طلاق سے متعلقہ اُصولوں کی تفہیم وتشریح (بارہویں قسط)

الفاظِ طلاق سے متعلقہ اُصولوں کی تفہیم وتشریح                                       (بارہویں قسط)

سترہواں فائدہ عرف یہ فائدہ عرف کے متعلق ہے جو بیان میںسب سے مؤخر ہے، مگر اہمیت میں سب سے مقدم ہے۔ اُسے پہلے اور نمایاں ذکر کرنا چاہیے تھا،مگر اس کی حیثیت خلاصہ اور اختتامیہ کی ہے، اس لیے اسے اختتام ہی میںذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ذیل میںچندایسے چیدہ چیدہ امور ذکر کیے جاتے ہیں، جس سے عرف کی اہمیت و وقعت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ۱:…طلا ق کے معاملے میں جو الفاظ قرآن وحدیث میں وارد ہوئے ہیں،وہ وہی ہیں جو نزولِ قرآن کے وقت عرب معاشرے میں اس مقصد کے لیے رائج تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں طلاق کے علاوہ ایلاء اورظہار کے ذریعے بھی رسم طلاق ادا کی جاتی تھی اور اس سلسلے میں شوہر کے اختیارِ طلاق پر کوئی قد غن عائد تھی نہ ہی طلاق کا جواز کسی خاص صیغہ پر موقوف تھا، بلکہ ایک کنایہ لفظ کہہ دینابھی صحت طلاق کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے تو طلاق کی گرہ مرد کے ہاتھ میں رکھی ہے اور وہی اُسے کھول سکتا ہے،مگر اس وقت کے روشن خیالوں نے گرہ کشائی کا یہ اختیار عورت کو بھی تفویض کردیا تھا اور وہ ایک خاص فعل انجام دے کرمثلاً دروازے کا رخ بدل کر شوہر کو طلاق دی سکتی تھی، گویا فعل کے ذریعے ایقاعِ طلاق کوئی جدید تصور نہیں بلکہ جاہلی ذہن کی پیداوار ہے۔  بہرحال شیوع اسلام سے قبل بھی رسم ِ طلاق جاری تھی اورمختلف طریقوں سے ادا کی جاتی تھی اور جاہلی ذہن نے اُسے بے شمار مفاسد کا مجموعہ بنادیاتھا۔ظاہر ہے کہ جب طلاق تھی تو اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ بھی تھے اور شریعت ان ہی کی زبان میں اتری ہے ،اس لیے طلاق کے لیے جو الفاظ کتاب وسنت میں وارد ہوئے ہیں، وہ وہی ہیں جو اس وقت کے عرب معاشرے میں رائج تھے۔ یہی الفاظ جو قرآن وسنت میں مذکورہیں ،وہی فقہ کی کتابوں میں منقول چلے آرہے ہیں۔اس طرح طلاق کے الفاظ کا ماخذکتب فقہ ہیں اورکتب فقہ کاماخذ کتاب وسنت اور کتاب وسنت کا ماخذ اس زمانے کی زبان ، عرف اور معاشرہ ہیں۔ ۲:…قرآن مجیدمیں طلاق کے بیان کے لیے’’ طلاق‘‘،’’فراق‘‘اور’’ سراح‘‘ وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں،جب کہ احادیث وآثار میں’’ بتۃ،بتلۃ‘‘ وغیرہ الفاظ وارد ہیں۔ مصنفات میں معمولی تلاش سے پندرہ بیس کے قریب الفاظ دستیاب ہوجاتے ہیں۔ فقہاء نے ان الفاظ کو نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ جوالفاظ ان کی مقامی زبانوں میںطلاق کا مفہوم رکھتے تھے وہ بھی درج کرلیے ہیں اور ساتھ ہی اپنے زمانے کے عرف کو مدنظر رکھتے ہوئے ان الفاظ کی نوعیت اورحیثیت بھی متعین کردی ہے، مثلاً: جو الفاظ طلا ق ہی کے لیے مروج ومستعمل تھے انہیں صریح قرار دیا اور جو طلاق کے علاوہ دوسرا مفہوم بھی رکھتے تھے اور ان کا غالب استعمال طلاق کے لیے نہ تھا ،ایسے الفاظ کو کنایہ کی فہرست میں شمارکرلیا ہے۔ اس طرح پچھلے زمانے کے الفاظ جمع اور محفوظ ہوتے رہے اور نئے الفاظ اس میںاضافہ اور زیادہ ہوتے رہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کتب فقہ وفتاویٰ میں الفاظِ طلاق کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے جو عربی، فارسی اور اردو الفاظ پر مشتمل ہے ،مگر چونکہ یہ الفاظ نہ تو ایک زمانے کے ہیں اور نہ ہی ایک زبان کے ہیں،بلکہ مختلف زمانوں اور زبانوں کے ہیں،اس لیے صرف کتب فقہ میں کسی لفظ کا مذکور ہونا اس کے طلاق کا لفظ ہونے کے لیے کافی نہیں، بلکہ متکلم کی زبان اور عرف کی رعایت ضروری ہے ۔لفظ حرام کے متعلق دیکھ لیجیے کہ کسی زمانہ میں کنایہ تھا، مگراب صریح سمجھا جاتا ہے۔ فقہاء نے صراحت کردی ہے کہ جو لفظ کسی زبان میں کنایہ ہے اس کاحکم عربی کنایہ کا اور جو صریح ہے اس کاحکم عربی کے صریح کا ہے۔اس اصول کا منشأ یہی ہے کہ عربی الفاظ متکلم پر لاگو اور نافذ نہیںہیں، بلکہ وہ رہنمائی اور رہبری کے واسطے درج ہیں اور ان سے مدد لے کر مقامی لفظ کے متعلق ہدایت اوررہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ،مثلاً: شوہر نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ اس کی زبان میں کنایہ ہے اور عربی میں کنایہ سے وقوعِ طلاق نیت یا دلالت سے مشروط ہوتا ہے، اس لیے اس مقامی لفظ سے طلاق کا وقوع بھی نیت یا دلالت سے مشروط ہوگا۔زیادہ واضح الفاظ میں ’’نکل جاؤ‘‘ کا حکم وہی ہے جو ’’اخرجی ‘‘ کا ہے۔ ۳:…طلاق کے الفاظ میں سے کچھ صریح ہیں اور کچھ صریح سے ملحق ہیں اور کچھ کنایہ ہیں۔ یہ تقسیم عرف کے پیش نظر ہے، کیوں کہ صریح اور کنایہ ہونے کا مدار معنی کے صاف اورواضح ہونے یا خفی اور پوشیدہ ہونے پر نہیں،بلکہ استعمال اور عدم استعمال پر ہے۔ کسی لفظ کا معنی کتنا ہی واضح اور روشن کیوں نہ ہو،، مگر جب وہ طلاق کے علاوہ بھی استعمال ہوتا ہے تووہ کنایہ ہے اورایک لفظ جس کا معنی پوشیدہ اور مبہم ہے، مگر اس کا عام استعمال طلاق کے لیے ہوتا ہے تو وہ صریح ہے۔الغرض مدار اور معیار عرف ہے اور اسی کی وجہ سے صریح اور کنایہ کی تقسیم بھی ہے اور اسی کی وجہ سے فقہاء کے نزدیک ان دونوں کی تعریف اصولیین کی تعریف سے مختلف ہے ۔ اگر درج بالا اصول تسلیم ہے اور انکار کی کوئی وجہ نہیںتو اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محض وضع کی وجہ سے کوئی لفظ صریح نہیں بن سکتا جب تک وضع کے ساتھ عرف ہم آہنگ نہ ہواور جب عرف وضع سے جدا ہوتا ہے تو صریح کی صراحت بھی ختم ہوجاتی ہے اوروہ پھر کنایہ کے مقام پر آجاتا ہے۔ اس بحث سے لغت میں عرف کا عمل دخل سمجھ میں آجا تاہے کہ وہ کس طرح لغت پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ ایک لفظ کا لغوی مفہوم طلا ق کا ہے مگر وہ پھر بھی نیت کا محتاج ہے، مگر جب وہ عرف کی وجہ سے صریح بن گیا تو اب نیت کی احتیاج نہ رہی اور اس سے بلا نیت بھی طلاق واقع ہے۔ ۴:…جس طرح صریح اورکنایہ کامدار عرف پر ہے ،اسی طرح صریح کے کنایہ بننے اورکنایہ کے صریح ہوجانے کامدار بھی عرف پرہے۔یہ عرف ہی ہے جوصریح کوکنایہ اورکنایہ کوصریح بنادیتاہے۔ جب صریح کنایہ بن سکتا ہے اور کنایہ صریح ہوسکتا ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ صریح ہمیشہ صریح اور کنایہ ہمیشہ کنایہ ہی رہے۔ طلاق کے معاملے میںکسی لفظ کو ابدی،دائمی، قطعی، ازلی اورحتمی حیثیت حاصل نہیںہے۔ پچھلوں کاعرف ہمارے لیے اورہماراعرف بعد والوں کے لیے حجت نہیںہے۔ اس بنا پرکسی لفظ کی نوعیت متعین کرتے وقت سوال ’’کیاتھا؟‘‘کا نہیںبلکہ ’’کیا ہے؟ ‘‘کا ہوگا۔ فقہاء بہت پہلے وضاحت فرماگئے ہیں کہ معاشرے کے دیگر احوال کی طرح عرف بھی بدلتا رہتاہے ، اور جب عرف بدلتاہے تو اس کے ساتھ حکم کی تبدیلی بھی ناگزیر ہوجاتی ہے:’’لا ینکر تغیر الأحکام بتغیر الأزمان‘‘مشہور قاعدہ ہے۔ جب مدار عرف پر ہے اور عرف ہر جگہ اور ہر زمانے میں یکساں نہیں رہتاتو صرف اس قدر جان لینا کافی نہ ہوگا کہ کوئی لفظ طلاق کے لیے سمجھا جاتا تھا، بلکہ موجودہ عرف کی تحقیق ضروری ہوگی، لہٰذاکسی قدیم کتاب میں کوئی لفظ الفاظِ طلاق کی فہرست میںدرج ہو، مگر اب وہ لفظ طلاق کا مفہوم ہی نہ رکھتاہوتو وہ طلاق کا لفظ ہی نہیںہے، اور اگرکوئی لفظ کسی زمانے میں طلاق ہی کے لیے استعمال ہوتا تھا، مگر اب اس سے طلاق دینے کاعام عرف نہ ہو تو وہ صریح نہ سمجھاجائے گااورجس کااستعمال طلاق اور غیر طلاق دونوں کے لیے تھا،مگر اب اس کا غالب استعمال طلاق کے لیے ہے تو وہ کنایہ نہیں، بلکہ صریح کہلائے گا۔ ۵:…جس طرح یہ ممکن ہے کہ ایک لفظ ایک زمانے میںطلاق کے لیے ہو ،مگر دوسرے زمانے میں وہ طلاق کے لیے نہ ہو، اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایک لفظ ایک برادری کے ہاں طلاق کے لیے ہو، مگرکسی دوسری قوم یا کمیونٹی میں وہ طلاق کے لیے نہ سمجھا جاتاہو۔یہ بھی ممکن ہے بلکہ امر واقعہ ہے کہ ایک لفظ ایک قوم کے ہاں کنایہ اور دوسری کے عرف میں وہ صریح ہو۔ اس بنا پر ایک ہی زمانہ میں ایک قوم کا عرف دوسری قوم پر حجت نہیں ہوسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے متعلق مفتیان کرام کا جواب مختلف ہوتا ہے ۔ ایک قوم یا علاقے والوںسے توکسی لفظ کے متعلق نیت دریافت کی جاتی ہے مگر دوسری قوم اور برادری والوں سے یہ ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، وجہ وہی عرف کا فرق ہوتاہے، مثال کے طورپر خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں میں جب شوہر بیوی کو کہتا ہے کہ تو مجھ پر ماں بہن ہے تو نیت دریافت کیے بغیر طلاق بائن کا فتویٰ دیا جاتا ہے، مگر جہاں کا عرف اس لفظ سے طلاق کا نہ ہو وہاں نیت معلوم کی جاتی ہے۔ ۶:…عرف کی اہمیت اس قدر ہے کہ کوئی لفظ جو شرعاً طلاق کے لیے موضوع ہو، مگر کسی قوم کی زبان میں وہ طلاق کے لیے نہ ہوتوصرف اس بنا پر اس سے طلاق واقع نہیں سمجھی جائے گی کہ شرعاً وہ لفظ طلاق کے لیے موضوع ہے۔ فرض کیجئے ایک قوم ایسی ہے جن کی زبان میں طلاق کا لفظ رشتۂ زوجیت کو ختم کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اسے مزید مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس قوم کے ہاں لفظ طلاق سے بھی طلاق واقع نہ ہوگی، اگر چہ یہ لفظ قرآن وحدیث میںاسی مقصد کے لیے وارد ہے اور طلاق کے بارے میں صریح نہیں بلکہ ’’أصرحُ صریح‘‘ ہے۔’ ’کلمہ’’ أُفْ ‘‘ اس کی نظیر ہے کہ جن لوگوں کے عرف میںیہ کلمہ ایذا رسانی کا کلمہ نہ ہو،بلکہ اعزاز واکرام کے لیے استعمال ہوتا ہوتوان کی بول چال میں یہ لفظ والدین کو کہنے میںکوئی حرج نہیں ہوگا۔ یہی حال اَیمان (قسموں)کا ہے کہ اس کا مدار بھی چونکہ عرف پر ہے، اس لیے جب عرف اور لغت کا اختلاف ہوتاہے تو برتری عرف کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ ۷:…لفظِ طلاق کا اثر اور نتیجہ کیا ہوگا، اس سے رجعی واقع ہوگی یا بائن؟اس کا تعین ایک تو معنی کی شدت اور خفت سے ہوتاہے،مثلاً: جس لفظ میں شدت اور سختی ہو اور معلوم ہوتاہو کہ شوہر رشتے کو فوری طور پر ختم کرنا چاہتاہے،اس سے بائن واقع ہوگی۔ دوسرا عامل عرف ہے،فقہاء رجعی یا بائن کا فیصلہ کرتے وقت عرف کو بطور علت کے پیش کرتے ہیں۔جن فقہاء کے نزدیک صریح سے رجعی ہی واقع ہونی چاہیے،ان کی اس دلیل کی بنیادپر تویہ کہنا بھی درست ہے کہ عرف کی بنا پرہی رجعی واقع ہوتی ہے،کیوں کہ رجعی طلاق صریح سے ہوتی ہے اورصریح عرف کی وجہ سے صریح ہوتاہے تو رجعی بھی عرف کی وجہ سے ہوتی ہے، البتہ اس دلیل میں اس پہلو سے تامل معلوم ہوتا ہے، بعض کنایہ الفاظ ہیں مگر ان سے رجعی واقع ہوتی ہے۔ ۸:…مضارع کے صیغے سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب عرف میں اس کااکثر استعمال زمانہ حال کے لیے ہوتو اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ ۹:… عرف چنداورشرائط کی بھی تکمیل کرتا ہے، مثلاً: طلاق کی اضافت بیوی کی جانب ضروری ہے، مگر کوئی لفظ عرف میں طلاق کے لیے مخصوص ہوگیا ہو تو اضافت ضروری نہیں رہتی ہے، جیسے ’’الطلاق یلزمنی‘‘ اور’’ الحرام یلزمنی‘‘وغیرہ الفاظ کے متعلق اضافت کے بیان میں تفصیل گزرچکی ہے۔ ۱۰:…کنایہ سے طلاق اس وقت واقع ہوتی ہے جب متکلم اپنی نیت کا اظہار کردے یاقرائن سے اس کی نیت معلوم ہوجائے،مگر جب کنایہ کا عمومی استعمال طلاق کے لیے ہونے لگے تو پھر نیت کی ضرورت نہیں رہتی،عرف ہی نیت کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ ۱۱:…شوہر نے تین مرتبہ طلاق کا لفظ دہرایا اور اپنی نیت تاکید کی بیان کرتا ہے اور عرف سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے توفتویٰ اس کی نیت کے مطابق دیا جائے گا۔                                                                                                 (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین