بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

الفاظِ طلاق سے متعلقہ اُصولوں کی تفہیم وتشریح (آٹھویں قسط)

 

الفاظِ طلاق سے متعلقہ اُصولوں کی تفہیم وتشریح                                           (آٹھویں قسط)

چودہواں فائدہ قضاء اوردیانت دیانت بندے اور اس کے رب کے درمیان کا معاملہ ہے،جس کامدار نیت پر ہے۔اس کی حقیقت قیامت کے دن آشکارا ہوگی،کسی اورکو اس میں دست اندازی کا حق نہیں ہے۔مفتی کا اصل منصب دیانت ہی کا حکم بتانا ہے۔جوشخص جس طرح اپنی منشا بیان اور اپنی نیت کا اظہار کرے،مفتی اسی کے مطابق اُسے حکم بتانے کا پابند ہے،چاہے وہ اپنی نیت میں سچا ہو یا جھوٹا،اس کی نیت امر واقعہ کے مطابق ہویا مخالف۔حقیقتِ حال کی تفتیش اورامرِواقعہ کی تحقیق مفتی کا منصب نہیں ، وہ نیت کے مطابق حکم بتاکر اصل معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے گا۔ اگر بتانے والا اپنے بیان میں سچاہے تو اجر وثواب پائے گا اور اگر جھوٹاہے تو مفتی کا فتویٰ اسے کوئی فائدہ نہ دے گا اوروہ خدا کے ہاں ماخوذہوگا۔ اس کے برعکس قضاء بندے اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے ،جس کاتعلق ظاہر کے ساتھ ہے اورقاضی ظاہر پر عمل کا مکلف ہے۔ ’’المفتی یفتی بالدیانۃ وا لقاضی یقضی بالظاہر۔‘‘(۱) مفتی اور قاضی کا یہ فرق ہے کہ مفتی کا تقرر حاکم وقت کی طرف سے نہیں ہوتا، اس لیے وہ قوتِ نافذہ بھی نہیں رکھتا۔ اگر ریاست کی طرف سے مفتی کا تقرر ہو پھر بھی مفتی کے منصب کے لیے حاکم کی طرف سے تقرری کوئی لازمی شرط نہیں ہے۔اس کے برخلاف قاضی کے لیے تقرر شرط ہے اور وہ اس بنا پر قوتِ حاکمہ بھی رکھتاہے۔بہرحال مفتی ہر وہ شخص ہے جو فتویٰ دے، جبکہ قاضی کے لیے تقرر شرط ہے۔ مفتی فرضی اور غیر واقعی سوال پربھی فتویٰ دے سکتاہے، جب کہ قضاء کی بنیاد حقیقی اور یقینی امور پر ہوتی ہے۔قضاء کی تحدید وتخصیص ہوسکتی ہے ۔’’القضاء یختص بزمان ومکان‘‘فقہ کا مشہور مسئلہ ہے، مثلاً: خلیفۂ وقت خود یا اگر اُس نے اختیار وزیر ِعدل یا قاضی القضاۃ کو تفویض کیا ہے تو وہ اس مفوضہ اختیار کو استعمال میں لاتے ہوئے قاضی کو پابند کرسکتا ہے کہ وہ دیوانی یا صرف فوجداری مقدمات کی سماعت کرے یاایک خاص مالیت سے زیادہ یا سنگین نوعیت کے مقدمات کی سماعت نہ کرے یا پھر اس کا علاقائی اختیارِ سماعت محدود کرسکتا ہے، مثلاً: یہ کہ تحصیل یا ضلع کی حدود سے باہر کے مقدمات اس کی عدالت میں درج نہیں کیے جاسکتے، وغیرہ ۔اس کے علاوہ قضاء کا دائرہ فی نفسہ بھی محدود ہے، جب کہ فتویٰ کا دائرہ مکلف کی پوری زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر قرائن وآثار نیت کو جھٹلاتے ہیں تو قاضی انہیں نظر انداز نہیں کرسکتا، کیونکہ وہ اقرار، شہادت، اور ظاہری شواہد وقرائن کو زیر غور لانے کا پابند ہے،پھر اگر اس کا فیصلہ واقعہ کے مطابق ہے تو اس کی خلاف ورزی دنیا اور آخرت میں پکڑ کا باعث ہے اور اگر حقیقت حال کے خلاف ہے تو دنیا میں بہرحال اس کی خلاف ورزی قابل مؤاخذہ ہے۔ ایک معاملہ کب تک دیانت کا معاملہ رہتا ہے اورکب قضاء کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے؟ جب تک معاملہ قاضی کی عدالت میں پیش نہ ہو وہ دیانت کے ذیل میں آتا ہے، اگر چہ پوری دنیا اس سے باخبر ہواور جب وہ قاضی کی عدالت میں پیش ہوجاتا ہے تو وہ قضاء کی حدود میں داخل ہوجاتاہے، اگر چہ صاحب معاملہ اور قاضی کے علاوہ کوئی اور اس پر مطلع نہ ہو۔ قضاء اور فتویٰ دونوں کا وجود مسلم ریاست اور مسلمان معاشرے کے لیے ناگزیر ہے ۔دونوں اسلامی نظام عدل کا حصہ ہیں اور اس لحاظ سے ایک ہی جڑ کی شاخیں اور ایک ہی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں، دونوں ایک دوسرے کی معاون ومددگار اور ایک دوسری کو قوت وطاقت بہم پہنچاتی ہیں۔ قضاء خالص عدالتی کارروائی ہے تو فتویٰ نیم عدالتی ہے ۔بہت حد تک دونوں کی شرائط بھی یکساں اور دائرہ بھی مشترکہ ہے ،مگر اس کے باوجود یہ دونوں الگ الگ شعبے سمجھے گئے ہیں۔ نبوت کی ذات بابرکات تو تمام ہی صفات کی مالک اور ہر حیثیت کی جامع تھی۔ وحی کی ترجمانی ،سلطنت کی حکمرانی ،رعایا کی نگہبانی ،فوجوں کی سالاری، الغرض صدہا صفات سمٹ کر ایک ہی وجود میں جمع ہوگئی تھیں۔ پیغمبر m کے بعد حضرات خلفاء راشدین s میں سے بھی ہر ایک کی ذات مجموعۂ صفات اور شخصیت کئی شخصیات پر مشتمل تھی، مگر بعد میں باستثنائے ایک شخصیت کے، جامعیت اور مرکزیت کی وہ شان باقی نہ رہی، صفات بٹ کر کئی ایک میں تقسیم ہوگئیں ، مناصب علیحدہ اور شعبے متفرق ہوگئے، اس وقت سے قضاء اور افتا بھی الگ ہوگئے اور اسی طرح علیحدہ چلے آرہے تھے کہ ایک وقت ایسا آیا کہ انتظامی لحاظ سے تو یہ دونوں شعبے الگ ہی رہے، مگر علمی حیثیت سے قضاء کا شعبہ فتویٰ کے تابع ہوگیا ۔یہ وہ وقت تھا جب ایک مرتبہ پھر اس ابدی صداقت اورآفاقی اصول کا ظہورہوا کہ علم غلبہ اوربرتری ہے اور جہالت مغلوبیت اور محکومیت ہے۔ جب قاضیوں میں جہالت عام ہوگئی تواس کی تلافی مفتی کے فتوی سے کی جانے لگی ۔مفتی حکم شرعی بتادیاکرتاتھا اور قاضی اسے نافذکردیا کرتاتھا۔مگرقاضی کے لیے دیانت اور قضاء کا فرق سمجھنا دشوار تھا، جس کی وجہ سے یہ امکان تھا کہ کہیں وہ اپنے منصب کے برخلاف حکمِ دیانت پر فیصلہ نہ کردے،اس لیے مفتی حضرات دیانت کاحکم صرف زبانی بتادیاکرتے تھے،اس کی تحریر نہیں دیتے تھے اوراگر تحریر دیتے تو اس میں یہ صراحت کردیتے تھے کہ قاضی اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے۔دونوں صورتوں میں مقصد یہی ہواکرتاتھاکہ قاضی اپنی جہالت کے سبب حکم ِدیانت پر فیصلہ نہ کردے،اس طرح قضاء اور فتوی قریب آتے چلے گئے اوردھیرے دھیرے فتوی نے قضاء کی حیثیت اختیار کرلی اورآہستہ آہستہ مفتی نے قاضی کامنصب سنبھالنا شروع کردیا۔ اس کا ایک اثر یہ بھی ہواکہ جب قاضی مفتی کے فتوی کے مطابق فیصلہ کرنے لگا تو مفتی نے بھی قضاء کا حکم لکھنا شروع کردیا، تاکہ قاضی اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ اس طرح قضاء کے مسائل کو شہرت بھی ملی اوروہ مدون بھی ہوئے، جبکہ دیانت کے مسائل یہ درجہ حاصل نہ کرسکے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عام کتابوں میںزیادہ تر قضاء کے مسائل درج ہیں،دیانت کے مسائل کم مذکور ہیں۔ مفتی اگر محقق نہ ہو تو وہ اسی کے مطابق فتویٰ دے دیتاہے، اس طرح شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ قاضی کی عمل داری میں مداخلت کرجاتاہے۔یہ مداخلت کسی اہمیت کے لائق نہ ہوتی، اگر قضاء اور دیانت کے احکام ہرہر معاملے میں ایک ہوتے،مگر جب ایسانہیں ہے تو ہر ایک کو اپنی حدود تک محدود رہنا ہی مناسب ہے: ’’لکن یکتب (المفتی) بعدہٗ ولا یصدق قضائً لان القضاء تابع للفتوی فی زماننا لجھل القضاۃ ، فربما ظن القاضی أنہ یصدق قضائً أیضا۔‘‘(۲) ’’ المراد من قولھم یدین دیانۃً لا قضائً أنہ إذا استفتٰی فقیھا یجیبہ علی وفق ما نوی، ولکن القاضی یحکم علیہ بوفق کلامہ ولا یلتفت إلی نیتہ إذا کان فیما نوی تخفیف ۔۔۔۔۔۔۔ جری العرف فی زماننا أن المفتی لا یکتب للمستفتی مایدین بہ بل یجیبہ عنہ باللسان فقط ، لئلا یحکم لہ القاضی لغلبۃ الجھل علی قضاۃ زماننا۔‘‘ (۳)     حضرت مولاناسید محمد انور شاہ کشمیری v نے اپنی تحریرات میں دونوں کے فرق اور خلط پر اپنی عادت کے موافق بڑی فاضلانہ بحث اورمحققانہ تبصرہ کیا ہے۔ قضاء وافتاء میں دوتین طرح سے فرق ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’محقق علما نے لکھا ہے کہ مفتی قضاء کے مسئلے میں مداخلت نہ کرے۔عام مفتی فی زماننا اس نکتہ سے ناواقف ہیںاوروہ فتوے کے ساتھ ساتھ قضاء میں بھی مداخلت کرجاتے ہیں، حالانکہ یہ جائز نہیںہے۔اور میں اس کی وجہ یہ سمجھتا ہوں کہ عام فقہی کتابوں میں مسائل قضاء مذکور ہیں،دیانت کے مسائل موجود کتابوںمیں مہیا نہیں،ان کا اہتمام مبسوطات میں ہے۔عصر حاضر کے غریب مفتیوں کی وہاں تک رسائی نہیںتو وہ ان ہی مسائل کا ذکر کردیتے ہیں جوقضاء کی فہرست میں آتے ہیں۔ اور یہ اس وجہ سے ہواکہ سلطنت عثمانیہ میں قاضی حنفی تھااور مفتی چاروںمذاہب کے تھے، حنفی قاضی ان کے فتوے کے مطابق فیصلہ کرتا،مفتیوں نے بھی قضاء کے مسئلے لکھنا شروع کئے، تاکہ حنفی قاضی ان کی تنفیذ کرے، اس طرح قضاء کے مسئلے شائع ذائع ہوگئے اور دیانت کے مسائل عام شہرت حاصل نہ کرسکے، حالانکہ دیانت اور قضاء میںاتفاق ضروری نہیں، بلکہ کبھی دونوں کے احکام بالکل ایک دوسرے سے مخالف ہوتے ہیں۔‘‘(۴)     حضرت کشمیری v کا کلام اپنے مفہوم اور مدعا میں واضح ہے اور حاصل اس کا یہ ہے کہ مفتی اگر مختصرات اور متداولات کے ساتھ مبسوطات اور مفصلات پر نظر نہ رکھتا ہو، بالفاظ دیگر اگراس کا مطالعہ محدود ہو اورنظر وسیع نہ ہو تو وہ ایک طرح کی ’’مداخلت بے جا‘‘ کا مرتکب ہوجاتا ہے ۔ دیانت کے مسائل کیوںشہر ت حاصل نہ کرسکے اس کی بڑی اور اہم وجہ بھی حضرت v نے ارشاد فرمادی ہے، اس لیے اس پر بحث کو طول دینے اور مزید تشریح اور حاشیہ آرائی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ تاہم اس مقام پر یہ سوال ذہن میں کھلبلاتا ہے کہ جب مفتی کا منصب دیانت پر فتویٰ دینا ہے تو پھراہل افتاء دیانت کے مطابق فتویٰ کیوں نہیں دیتے ہیں؟ یہ سوال اس عموم کے ساتھ تومبالغہ پر مبنی اور خلاف حقیقت معلوم ہوتا ہے، تاہم کنایات کے متعلق اس میں کوئی خاص مبالغہ محسوس نہیں ہوتا، مطبوعہ فتاویٰ جات اور مختلف دارالافتاؤں سے جاری جوابات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔یقینا اہل افتاء اس کی کوئی معقول توجیہ پیش کریں گے اوروسعت مطالعہ رکھنے والے اہل علم کی نگاہ سے اس کا کوئی ٹھوس جواب بھی گزرا ہوگا اور وہی اس کا درست جواب ہوگا، تاہم جو وجہ فہم ناقص میں آتی ہے اور ممکن ہے کہ درست نہ ہو ،وہ یہ ہے کہ دیانت کے مسائل پر فتویٰ نہ دینے کی بڑی وجہ خود معاشرے میں دیانت کی کمی اور قضاء شرعی کی عدم دستیابی ہے۔     لوگ ظاہری قرائن اور مضبوط شواہد وآثار کے برخلاف نیت بیان کرتے ہیں، بسااوقات یہ قرائن اس حد تک مضبوط اور ناقابل تردید ہوتے ہیں کہ سب مل کرٹھوس شہادت جیسی قوت رکھتے ہیں اورانہیں ملاحظہ کرنے کے بعددل گواہی دیتاہے اورکھلی آنکھوں نظر آتاہے کہ ناقابل انکار حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر دیانت اس معیار کی ہوتی جس طرح کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی تو اسے بنیاد اور معیاربنانے میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں تھا، بلکہ عین حکم شرعی تھا،مگر جب دیانت کا وہ معیار نہیں رہااور دوسری طرف قضاء شرعی بھی موجود نہیںہے تو ایسے حالات میں مصلحت ِشرعی مفتی کو مداخلت پر مجبور کرتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو شریعت میں اس کے نظائر بھی موجود ہیں، مثلاً:دورِ نبوت میں اگر کوئی شخص اپنی زوجہ کو ایک ہی مجلس میں تین مرتبہ طلاق کے الفاظ دہراتا اور اپنی نیت تاکید کی بیان کرتا تو دیانت کے برتراور اعلیٰ معیار کے پیش نظر اس کی تصدیق کی جاتی تھی ،مگر جب قلوب کا وہ حال نہ رہاتو دورِ فاروقی میں ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی قرار دی گئیں اور صحابہ sنے اس پر اتفاق کیا۔اس فیصلے کی روح وہی زمانہ کا تغیر اور دیانت کی کمی تھی۔ جس صورت میں بیوی طلاق کا مسئلہ دریافت کرتی ہے، اس صورت میں حکم قضاء پر فتویٰ دینے کی یہ توجیہ پیش کی جاسکتی ہے کہ بیوی کی حیثیت قاضی کی ہوتی ہے، گویا وہ پوچھنا چاہتی ہے کہ بحیثیت قاضی کے میرے لیے اس مسئلے میں کیا حکم ہے؟ اس لیے اسے حکمِ قضاء بتادیا جاتا ہے۔تحکیم میں بھی قضاء کا رنگ نمایاں ہوتا ہے، اس لیے مفتی بحیثیت فیصل اورحَکم کے حکمِ قضاء پر فیصلہ کردیتاہے۔ بہر حال عوامل اور اسباب کچھ بھی ہوں،مفتی کااصل منصب دیانت کا حکم بتانا ہے،اور اپنے منصب کے تقاضے کے پیش نظر وہ طلاق کے مسائل میں شوہر کی نیت پر فتویٰ دینے کا پابند ہے۔ ظاہری قرائن جسے طلاق کے باب میں دلالت حال سے تعبیر کرتے ہیں،اس پر فیصلہ مفتی نہیں، بلکہ قاضی کا منصب ہے۔ صریح سے دیانۃً عدم وقوع صریح نیت کا محتاج نہیں ہوتا ہے، لیکن اگرشوہر صریح میںطلاق کے علاوہ کسی او رمعنی کادعویٰ کرتاہے تو اس کا دعویٰ قابل ِقبول ہے یا نامقبول ہے؟ اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے کہ صریح کے استعمال کے وقت نیت طلاق کی ہو یا کچھ نیت نہ ہو، طلاق واقع ہوجائے گی۔تاہم جس صورت میں شوہر طلاق کے علاوہ کچھ اورنیت بیان کرتا ہے، اس صورت میں اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک قضاء ً تو طلاق واقع ہوجائے گی، کیوں کہ شوہر نے صریح کااستعمال کیا ہے، مگر دیانۃً واقع نہ ہوگی،کیوں کہ اس کی نیت طلاق کی نہیں تھی، صاحب ِبحر علامہ ابن نجیم vکایہی موقف ہے۔ یہ عبارت جو ایک مسلمہ اصول کی طرح کتابوں میںمنقول چلی آرہی ہے کہ صریح نیت کامحتاج نہیں ہوتاہے، یعنی ’’الصریح لا یحتاج إلی النیۃ‘‘ شیخ ابن نجیم vفرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف قضاء ًہے،دیانۃً صریح بھی نیت کا محتاج ہے۔ صاحبِ بحر ؒکا استدلال ایک تو اس جزیے سے ہے کہ اگر شوہر نے’’أنت طالق‘‘کہا ،مگر اس کی نیت نکاح کی بندش سے آزادی دینے کی نہیں، بلکہ قید سے رہائی دینے کی تھی ،اسی طرح اگر وہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا مگر سبقت ِلسانی سے اس کی زبان سے’’أنت طالق‘‘نکل گیاتو دونوں صورتوں میںصرف قضاء ًطلاق واقع ہوگی،دیانۃً نہ ہوگی ،کیوں کہ اس کی نیت طلاق کی نہ تھی۔ صاحبِ بحر ؒکا موقف نقل کرنے کے بعد علامہ شامی v نے اس کی تردید کی ہے۔پہلے جزیے کا جواب یہ دیا ہے کہ شوہر نے صریح کے لفظ سے طلاق کے علاوہ ایک ایسا مطلب مراد لیا ہے جس کا لفظ میں احتمال ہے اور دوسرے جزیے میںشوہر کا مقصد ہی بیوی کو طلاق دینے کا نہیں ہے، اس لیے دونوں جزئیات سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ صریح سے دیانۃً طلاق کے وقوع کے لیے شرط ہے کہ شوہر صریح میں طلاق کے علاوہ کوئی اورمعقول تاویل نہ کرتا ہواوراس کا قصد طلاق کے لفظ سے طلاق دینے کا ہو، مگر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صریح میں طلاق کی نیت کرنا بھی شرط ہے۔ دونوں جزئیات کا جواب ذکر کرنے کے بعد علامہ شامی v نے اپنی رائے کی تائید میں دو دلیلیں پیش کی ہیں:ایک تو یہ کہ اگر شوہر نے’’ أنت طالق‘‘کہا اورپھر کہتاہے کہ میری نیت بیوی کو نکاح سے آزادی دینے کی نہیں، بلکہ عمل سے آزادکرنے کی تھی تو ازروئے قضاء ودیانت دونوں طرح طلاق واقع ہوجائے گی ،حالانکہ شوہرنے طلاق کے علاوہ معنی کی نیت کی تھی،اس لیے چاہیے تھا کہ طلاق واقع نہ ہوتی۔دوسرے یہ کہ اگر شوہر نے بطور’’ ہزل‘‘ طلاق دی تو قضاء ً اور دیانۃًدونوں طرح طلاق واقع ہوگی،حالانکہ ہزل (مزاح)کرنے والے کا مقصد لفظ سے اس کا مطلب نہیں ہوتا ہے۔وہ سبب کو عمل میں لاتاہے، مگر مسبب کا ارادہ نہیں کرتاہے۔ فتاویٰ شامی کا متعلقہ مقام ملاحظہ کرنے کے بعد جو کچھ فہم میں آتاہے، اس کاحاصل یہ ہے کہ صریح سے دیانۃً طلاق کا وقوع نیت پر موقوف نہیں ہے۔جن جزئیات میںعدم وقوع کا ذکر ہے، وہاں کوئی اور شرط مفقود ہے،مثلاً:  شوہرنے لفظ کا قصد نہیںکیاہے۔  یاشوہر صریح زبان پر لایا ہے، مگر وہ اس لفظ کا مطلب نہیںجانتاہے ۔ یاسبقت لسانی سے صریح اس کی زبان سے نکل گیا ہے ۔ یااس نے طلاق کی اضافت بیوی کی طرف نہیں کی ہے ۔ یا پھر وہ صریح کے معنی میں کوئی مناسب ،معقول اور قابل قبول تاویل کرتاہے۔ اگر درج بالا صورتوں میں سے کوئی صورت ہو تو صریح سے دیانۃً بھی طلاق واقع نہ ہوگی،مگر چونکہ اس نے صریح کا استعمال کیا ہے، اس لیے قضاء ً اس کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا۔(۵) صریح سے قضاء ًطلاق کا عدم وقوع دیانت پر کلام کے بعد اب ہمارے سامنے قضاء کا مسئلہ ہے کہ کن صورتوںمیںصریح سے قضاء ً بھی طلاق واقع نہ ہوگی۔اس بارے میں کوئی واضح اور متعین اصول تو معلوم نہیں، تاہم ایک اصول تشکیل دیا جاسکتاہے کہ جن صورتوں میں کسی شرط کے مفقود ہونے سے دیانۃً طلاق واقع نہ ہو،جیسا کہ پچھلے عنوان میں اس کی مثالیں گزر چکی ہیں ،ان صورتوں میں اگر کوئی ایسا منفی قرینہ بھی موجود ہو جو طلاق کے عدم وقوع پر دلالت کرتاہوتو شوہر کا قول قضاء ً بھی قابلِ قبول ہوگااور عدالت طلاق کے عدم وقوع کا حکم جاری کرے گی، مثلاً:شوہر طلاق کا لفظ استعمال کرتاہے اوراس میں کوئی معقول اور قابل قبول تاویل کرتاہے، مثلاً کہتاہے کہ میری نیت اسے نکاح سے نہیں بلکہ قید سے آزاد کرنے کی تھی تو ازروئے دیانت اس کی نیت معتبر ہے، کیونکہ لفظ میں اس کی گنجائش ہے ۔اب اگریہی لفظ اس سے جبر واکراہ کے ذریعے کہلوایا گیا ہوتو قضاء ً بھی طلاق واقع نہ ہوگی، کیونکہ جبرواکراہ عدم طلاق کا قرینہ ہے ۔قاضی چونکہ ظاہر پر عمل کا مکلف ہے، اس لیے جب خارجی ذریعے سے اس کی نیت کی تصدیق ہوگئی تو قاضی اس کے مطابق فیصلے کا پابند ہے ۔اس اصول کو مزید وسعت دی جاسکتی ہے، مثلاً شوہر طلاق کا تکرار کرتاہے اور نیت تاکید کی بیان کرتاہے تو عنداللہ اس کی نیت مقبول ہے، کیونکہ اس کا کلام تاکید کا امکان رکھتا ہے، مگر عدالت اس کی نیت کو خاطر میں نہیں لائے گی،کیونکہ اصل عدم تاکید ہے اور شوہر کا بیان ظاہر کے خلاف ہے، لیکن اگرظاہر سے بھی شوہر کی تصدیق ہوجائے اس طرح کہ عرف میں اس لفظ کو تاکیداً دہرانے کا رواج ہوتو عدالت بھی عدم وقوع کا حکم جاری کرے گی۔ اسی طرح شوہر کا کلام صریح اضافت سے خالی ہے اور وہ طلاق کی نیت کا بھی انکار کرتا ہے تو دیانت میں طلاق واقع نہ ہوئی ،اس کے ساتھ اگر کوئی قرینہ بھی ایسا نہ ہوجس سے بیوی کو طلاق دینے کا غالب ذہن بنتاہو تو قضاء ً بھی طلاق واقع نہ ہوگی۔     حاصل کلام یہ ہے کہ صریح سے اگر کوئی اور مطلب اور معنی مراد لیا جائے اور صریح میں اس کا احتمال ہو تو دیانۃً طلاق واقع نہ ہوگی اور اگر اس کے ساتھ کوئی قرینہ بھی ایسا ہو جو غیر طلاق پر دلالت کرتا ہو تو قضاء ً بھی طلاق نہ ہوگی۔(۶) کنایہ سے وقوع وعدم وقوع     کنایہ میں حل طلب سوال یہ ہوتا ہے کہ شوہر کی نیت کیا تھی؟اس نے کس غرض اور نیت سے کنایہ کا استعمال کیا ہے ؟اگر شوہر خود اظہار کرلیتاہے کہ اس کا ارادہ طلاق دینے کا تھا تو اس کی نیت معتبر اور اس کا بیان قابل قبول اور اس کی بیوی پر طلاق واقع سمجھی جائے گی،کیوں کہ خود شوہر سے بڑھ کر کون اس کے قول کا شارح اور نیت کا ترجمان ہوسکتاہے ؟ لفظ اس کی نیت کا ساتھ دیتاہے اور اس تہمت کی بھی نفی ہوجاتی ہے کہ اس نے تخفیف کی غرض سے اپنی نیت طلاق کی بیان کی ہے۔اگر وہ طلاق کی نیت کا انکار کرتا ہے تویہ بات بے غبار اور غیر اختلافی ہے کہ قاضی اس کی نیت کے مطابق نہیں، بلکہ دلالت حال کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرے گا، مگر مفتی دلالت حال کو زیر غور لانے کا پابند ہے یا نہیں؟ اصولی حیثیت سے دلالت حال پر فیصلہ مفتی کا منصب نہیںہے۔ یہ سوال کہ نیت نہ ہو تو کنایہ سے عند اللہ طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ جو اب یہ ہے کہ نیت نہ ہوتو ازروئے دیانت طلاق واقع نہ ہوگی ،اگر چہ قرائن اور آثار وقوعِ طلاق پر دلالت کرتے ہوں: ’’(قولہ قضاء )قید بہ لأنہ لا یقع دیانۃً بدون النیۃ ، ولو وجدت دلالۃ الحال ، فوقوعہ بواحد من النیۃ أو دلالۃ الحال إنما ھو فی القضاء فقط کما ھو صریح البحر وغیرہ۔‘‘(۷)     الحاصل اگر نیت اور دلالت دونوں نہ ہوں تونہ دیانۃً طلاق ہے نہ قضاء ً۔ اگر دونوں ہوں یا صرف نیت ہو تو دونوں طرح طلاق واقع ہے۔ اگر نیت نہ ہو، مگر دلالت حال موجود ہوتو دیانۃً غیر واقع اور قضاء ً واقع ہے۔ حواشی و حوالہ جات ۱:…الفتاوی البزازیۃ،کتاب الایمان،ج:۲،ص:۷۳۔ ۲:…ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج:۶،ص:۴۲۱،ط:سعید۔ ۳:…تنقیح الحامدیۃ، ج:۱،ص:۳،ط:دارالمعرفۃبیروت۔ ۴:…حیات محدث کشمیریؒ،تالیف،حضرت مولانا انظر شاہ مسعودیؒ،ص:۴۴۲،ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ،ملتان) ۵:…’’ولو قال لھا:أنت طالق ثم قال: أردت أنھا طالق من وثاق لم یصدق فی القضائ۔۔۔۔ ویصدق فیما بینہ وبین اللّٰہ تعالٰی لأنہ نویٰ مایحتملہ کلامہ فی الجملۃ۔‘‘ (بدائع الصنائع ،کتاب الطلاق،کتاب الصریح، فصل الصریح، ج:۳، ص:۱۶۱، ط:داراحیاء التراث العربی ) ’’مطلب فی قول البحر: إن الصریح یحتاج فی وقوعہ دیانۃ إلی النیۃ (قولہ أولم ینو شیئا) لما مر أن الصریح لا یحتاج إلی النیۃ، ولکن لابد فی وقوعہ قضائً ودیانۃً من قصد إضافۃ لفظ الطلاق إلیھا عالما بمعناہ ولم یصرفہ إلی ما یحتملہ کما أفادہ فی الفتح، وحققہ فی النھر،احترازاً عما لو کرر مسائل الطلاق بحضرتھا ، أو کتب ناقلا من کتاب امرأتی طالق مع التلفظ، أو حکی یمین غیرہ فإنہ لا یقع أصلا مالم یقصد زوجتہ، وعما لو لقنتہ لفظ الطلاق فتلفظ بہ غیر عالم بمعناہ فلا یقع أصلا علی  ما أفتی بہ مشایخ أوزجند صیانۃ عن التلبیس وغیرھم من الوقوع قضائً فقط،وعمالو سبق لسانہ من قول أنت حائض إلی أنت طالق فإنہ لا یقع قضائً فقط، عما لو نوی بانت طالق الطلاق من وثاق فإنہ یقع قضاء فقط أیضا۔ وأما الھازل فیقع طلاقہ قضائً ودیانۃً لأنہ قصد السبب عالما بأنہ سبب ، فرتب الشرع حکمہ علیہ أرادہ أولم یردہ کما مر، وبھٰذا ظھر عدم صحۃ مافی البحر والأشباہ من أن قولھم إن الصریح لا یحتاج إلی النیۃ إنما ھو فی القضائ، أما فی الدیانۃ فمحتاج إلیھا أخذا من قولھم: لونوی الطلاق عن وثاق أو سبق لسانہ إلی لفظ الطلاق یقع قضائً فقط أی لا دیانۃ، لأنہ لم ینوہ، وفیہ نظر، لأن عدم وقوعہ دیانۃ فی الأول لأنہ صرف اللفظ إلی یحتملہ، وفی الثانی لعدم قصد اللفظ، واللازم من ھذا أنہ یشترط فی وقوعہ دیانۃ قصد اللفظ عدم التاؤیل الصحیح۔، أما اشتراط نیۃ الطلاق فلا بدلیل أنہ لو نوی الطلاق عن العمل لا یصدق ویقع دیانۃ أیضا کما یأتی مع أنہ لم ینو معنی الطلاق وکذا لو طلق ھازلا۔‘‘ (ردالمحتار،کتاب الطلاق،باب الصریح،مطلب فی قول البحر: ان الصریح یحتاج فی وقوعہ دیانۃ الی النیۃ،ج۳؍۲۵۰، ط: سعید) ۶:…’’لو نوی بہ الطلاق عن وثاق دین إن لم یقرنہ بعدد ، ولو مکرھاصدق قضائً أیضًا ( قولہ صدق قضائً ) أی کمایصدق دیانۃ لوجود القرینۃ الدالۃ علی عدم إرادۃ الإیقاع وھی الإکراہ ۔‘‘ (المرجع السابق ،ج:۳،ص:۲۵۱،ط:سعید) ’’ولو نویٰ بہ الطلاق عن وثاق دین ( قولہ دین ) أی تصح نیتہ فیما بینہ وبین اللّٰہ تعالٰی لأنہ نوی ما یحتملہ لفظہ فیفتیہ المفتی بعدم الوقوع، أما القاضی فلا یصدقہ ، ویقضی بالوقوع لأنہ خلاف الظاھر بلا قرینۃ۔‘‘ (رد المحتار،کتاب الطلاق،ج:۳،ص:۲۵۱،ط:سعید) ۷:…ردالمحتار،باب الکنایات،ج:۳،ص:۲۹۷،ط:سعید                                                                                       (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین