بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

العدل جل جلالہ

العدل جل جلالہ

’’العدل‘‘ اللہ رب العزت کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے، جس کا معنی’’ انصاف کرنے والا‘‘ ہے، ایسا عادل جو وہی کام کرتا ہے جو کرنا چاہیے۔ عدل کے دوسرے معنی ’’برابر تقسیم کردینے‘‘ کے بھی ہیں۔ ’’عدل‘‘ کا مطلب جزا وبدلہ دینے میں برابری کرنا، اچھے کام پر جزائے خیر(اچھا بدلہ) دینا اور برے کام پر گرفت کرنا ہے۔ دو متحارب گروہوں، جماعتوں یا افراد کے مابین حقوق برابر تقسیم کردینا بھی عدل کہلاتا ہے اور اس طرح کا فیصلہ کرنے والے کوعادل کہا جاتا ہے۔ عادل حقیقی ’’العدل جل جلالہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے۔     یہ دنیا اور اس کی رنگینی اللہ رب العزت کے عدل وانصاف پر شاہد عدل ہے، اللہ تعالیٰ اپنے خلیفۂ ارضی ’’انسان‘‘ کو عدل وانصاف کا حکم دیتا ہے جو کہ تقویٰ کے قریب ہے۔      یہ عدل وانصاف ہوگا کہ ایک انسان دریا میں ڈوبتے ہوئے انسان کو اپنی خداداد صلاحیت وطاقت سے دریا سے باہر نکال کر اس کی زندگی بچانے کی پوری پوری کوشش کرے اور’’ ظلم‘‘ جوکہ عدل کی ضد ہے، یہ ہے کہ کسی انسان کو اسلحہ کے زور پر رات کی تاریکی میں برلبِ دریا ہاتھ پاؤں باندھ لے اور اسے دریا میں دھکا دے کر جان سے مار ڈالے یا ڈراکر اس کے زادِ راہ اور مال ومتاع کو زبردستی چھین لے۔ اس پوری کارروائی میں ملوث ڈاکو، ڈاکو کا مشیر اور ڈاکو کی کسی بھی طرح مدد کرنے والا، جاگیردار، چوہدری یا وڈیراسب ظالم ہوں گے۔ کسی بھی ظالم کا ساتھ دینا عدل وانصاف کے منافی ہے۔     اللہ رب العزت حقیقی عادل ہے ۔ قرآن وسنت میں عدل واحسان کی تاکید کی گئی ہے۔ ’’العدل جلا جلالہ‘‘ کے نظامِ عدل کا نفاذ انسانی معاشرے میں امن وعافیت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ رسول آخرین حضرت محمد a اور خلفائے راشدین المہدیین s نے عدل وانصاف کے عمدہ اور قابل تقلید مثالی نمونے پیش فرمائے، جو تمام بنی نوعِ انسان کے لیے مشعل راہ ہیں۔ نظام عالم کے انتظام وانصرام میں عدل وانصاف کو فروغ دینا انسانی معاشرے میں استحکامِ امن کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ دہشت گردی، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری کے مستقل اور پائیدار سدِ باب ہی سے حقیقی امن وسکون میسر آسکے گا۔     اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرے میں امن وعافیت اور نظم ونسق قائم رکھنے کے لیے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے نہ صرف آسمانی کتب وصحیفے نازل کرکے رہنمائی فرمائی، بلکہ ’’العدل جل جلالہ‘‘ نے عدل وانصاف کے قیام، معاشرے میں امن وعافیت اور نظم ونسق کی فضا طاری کرنے کے لیے پیغمبرانِ حق o کو مختلف ادوار میں مختلف اقوام کی جانب ضابطۂ قانون وانصاف کے ساتھ عمدہ عملی نمونے بناکر مبعوث فرمایا۔ حضرت موسیٰ m جو دنیا کے بڑے قانون ساز تھے، آسمانی احکام لے کر آئے، جن کی روسے قتل وغارت گری اور بدکاری کو ممنوع قرار دیا گیا۔ ان کے بعد دوسرے پیغمبرانِ حق’’ العدل جل جلالہ‘‘ کے نظام کو لے کر تبلیغ حق کے لیے اور مخلوقِ خدا کو راہِ ہدیٰ، صراط مستقیم دکھانے کے لیے، قیادت وسیادت کے لیے تشریف لاتے رہے، یہاں تک کہ دین اسلام کی تکمیل کے لیے تمام بنی نوع انسان کی جانب اللہ رب العزت نے اپنے آخری نبی ورسول حضرت محمد a کو قوانین واخلاق، عدل واحسان کا عمدہ نمونہ بناکر مبعوث فرمایا۔ رسول آخرین a نے عدل وانصاف کے عمدہ نمونے پیش فرمائے، جو پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔     آج بھی مہذب دنیا میں امن کے استحکام، نظم ونسق اور نظام عالم کے انتظام وانصرام میں عدل وانصاف کی ضمانت جبھی مل سکتی ہے، جب رسول آخرین a کے لائے ہوئے پیغام عدل کو، نظام عدل کو دنیا میں رائج کردیا جائے۔ عدل وانصاف واحسان کے قیام کے مثبت اثرات وثمرات سے انسان اس وقت بہرہ مند ہوسکتے ہیں، جب نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے تمام ممالک میں عدل وانصاف پر مبنی دینی نظام، اسلام کے نظام کا عملی نفاذ کیا جائے۔ اگر دنیا سے بالفرض عدل وانصاف ختم ہوجائے تو نظام عالم درہم برہم ہو جائے اور یہ بے اعتدالی دنیا کو جہنم کا نمونہ بنادے، لیکن ’’العدل جل جلالہ‘‘ نے کمالِ رحمت سے نظام عالم برقرار رکھا ہوا ہے۔     انفرادی عدل یہ ہے کہ انسان اپنے جسم وجان کے حقوق کو ادا کرے، اپنی جان کو بے محل ہلاکت میں نہ ڈالے، اجتماعی عدل وانصاف یہ ہے کہ اصحابِ اقتدار ‘ امیر وغریب کا فرق ملحوظ رکھے بغیر لوگوں کو عدل وانصاف فراہم کریں۔     ایک ڈاکو ڈاکہ ڈالتا ہے، بے قصور لوگوں کو قتل کرکے ناحق مال ومتاع لوٹ لیتا ہے، ایک چور چوری کرکے کسی گھر کے اثاثہ کو لے کر چلا جاتا ہے، جیب کترا سارا دن مزدوری کرنے والے مسافر کی جیب سے مزدوری کا معاوضہ چند منٹ میں لے کر چلا جاتا ہے، ایک راشی افسر رشوت لیے بغیر حقدار کو حق نہیں دیتا، جھوٹے مقدمات کے ذریعے مخلوقِ خدا کو مبتلائے مصائب کردیا جاتا ہے، گاؤں کے چودھری، وڈیرے، زمیندار سے غرباء ونادار ہاریوں کی عزتیں محفوظ نہیں رہتی ہیں۔ ایک بردہ فروش بچہ کوا غوا کرکے ماں باپ کی شفقتوں کا خون کردیتا ہے، ایک دکاندار غریب ونادار بچے کو لالچ دے کر اس کی قوت واستطاعت سے زیادہ کام لیتا ہے، کیا یہ سب کچھ ظلم وزیادتی نہیں ہے؟ اس ظلم وجور میں لامحالہ ملک کے اصحابِ اقتدار ملوث ہوں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنے کیے کی سزا اس دنیا میں ملے گی، پوری پوری سزا نہ سہی، لیکن ملے گی ضرور! دوسری بات یہ کہ اللہ رب العزت (جو ’’العدل‘‘ہے) نے ایک روز جزا مقرر فرمایا ہے، جس دن انسانوں کو ان کے نیک اعمال کا صلہ اور برے اعمال کی سزا ملے گی۔     اسلام عدل وانصاف کا دین ہے، اسلام نے نہ صرف اپنے جسم وجان کے ساتھ انصاف کرنا سکھایا ہے، بلکہ والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ اور اولاد کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور عدل وانصاف کا معاملہ کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ کئی بچے ہیںتو سب کے ساتھ منقولہ وغیر منقولہ جائیداد اور اثاثہ میں مساوات کا حکم دیا گیا ہے۔ شوہر کی وفات کے بعد بیوہ کو حق وراثت دینا، اولاد میں وراثت کی صحیح تقسیم، بیٹوں، بیٹیوں کو پورا پورا حقِ وراثت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ہمسایہ کے ساتھ حسن سلوک کرنا عدل وانصاف ہے۔ عدل کا تقاضا یہ بھی ہے کہ مسافر کے حقوق پورے کیے جائیں، غربائ، یتامیٰ ومساکین کی خبر گیری کی جائے، والدین کے حقوق کی بجا آوری، بھائی برادری، کنبہ وقبیلہ کے ساتھ صلہ رحمی کرنا، عدل وانصاف کے تقاضے ہیں، جوکہ ’’العدل جل جلالہ‘‘ کے رسول آخرین a کے لائے ہوئے مکمل دین، دین اسلام نے ہمیں سکھائے ہیں۔ دین اسلام دین عدل وانصاف ہے۔     معاشرے میں عدل وانصاف کے یکساں مواقع جب ہی میسر آسکتے ہیں، جب اصحاب اقتدار معاشرے میں عدل وانصاف کو فروغ دیں۔ انفرادی واجتماعی معاملات میں عدل وانصاف ہی سے امن وعافیت کا استحکام ممکن ہے۔ غریبوں، یتیموں، ناداروں، بیواؤں، بے کسوں اور بے آسرا لوگوں کی خبر گیری کرنا، معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ ہمدردی، مساوات، اخوت وبھائی چارہ کی فضا کا قائم کرنا، اصحاب اقتدار کے لیے ضروری ہے، تاکہ ظلم وجور کا خاتمہ ہو اور عدل وانصاف اور امن وعافیت کو فروغ ملے۔     ’’العدل جل جلالہ‘‘ ہمارے ملک عزیز پاکستان میں عدل وانصاف کو قائم فرمائے۔ عادل، متقی وپرہیز گار لوگوں کو برسر اقتدار لائے، تاکہ ملک میں دہشت گردی، قتل وغارت، چوری، ڈکیتی، بدامنی کا سد باب ہو اور باشندگانِ پاکستان امن وعافیت سے اسلام کے مطابق زندگیاں گزار سکیں، آمین ثم آمین۔ ٭٭٭  

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین