بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اقرأ وعلم بالقلم کے ثقافتی جلوے ( تذکرہ ایک کتاب کا )

’’اِقْرَأْ وَ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ‘‘ کے ثقافتی  ۱؎ جلوے  (تذکرہ ایک کتاب کا)

ہر زمانہ میں امتِ مسلمہ کے درمیان کچھ عبقری اور نابغہ روزگار شخصیات کا وجود رہا ہے، جنہوں نے اپنی اَنتھک اور بے لوث خدمات کی بنیاد پر اسلام کے علمی وقلمی رنگ کو کبھی بھی ماند اور پھیکا نہیں پڑنے دیا، جنہوں نے خدمت ِدین کے مخلص جذبہ کو سینوں میں بسا کر اپنی قلمی ولسانی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہر عہد میں تاریخ اسلام کے روشن علمی باب کو نئے نئے عنوان عطا کیے اور جن کی اَنمٹ کاوشوں اور شب و روز کی عرق ریزی کے طفیل علمی و تحقیقی دنیا کے دبستان میں صدا سیرابی و شادابی کا سامان ہوتا رہا۔  انہی میں سے ایک نام شیخ العرب والعجم حضرت مدنی vکے تلمیذ ِرشید حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی مدظلہٗ العالی کا ہے، جوکہ علمی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں۔ اب تک آپ کے زورآور اورسُبک گام سیّال قلم سے بیسیوں کتب اور مضامین منظرِعام پر آکر قارئین سے غیر معمولی دادِتحسین اور شرفِ قبولیت پاچکے ہیں، جن میںسرِفہرست ’’فوائدجامعہ‘‘، ’’تذکرہ جلال الدین سیوطیؒ‘‘ ، ’’عہدِرسالت میں صحابہ کرامؓ کی فقہی تربیت‘‘ اور ’’مقدمہ ابوداؤد طیالسی‘‘ وغیرہا شامل ہیں۔ موصوف کے علمی ودرسی فیضان کا اثر یہ ہے کہ آپ کے خوانِ علم سے سینکڑوں فضلاء و علماء علمی و تحقیقی ذوق سے آشنا و سیر ہوکر صرف پاک و ہند ہی نہیں، بلکہ دیگر کئی ممالک میں مختلف شکلوں میں خدمتِ دین کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ موصوف کی حیاتِ مستعار کا ایک طویل حصہ کتب خانوں میں اسلاف کی کتابوں سے گلِ حکمت چنتے چنتے گزرا ہے۔ مطالعۂ کتب آپ کے شب و روز کا محبوب و دائمی مشغلہ رہا ہے، آپ کے پاس قدماء کی کتب کا ضخیم ذخیرہ اسی ذوق کا واضح ثبوت ہے۔ مزاولتِ کتب و کثرت ِ مطالعہ کا نتیجہ ہے کہ آپ کی ہر ہر کتاب اپنے موضوع کی معلومات سے پُر اور اٹااٹ بھری ہوئی ہے، اور تحقیق و تفحص کا ایک انمول گنجینہ ہے۔

۱؎   ’’ ثقافت‘‘ سے مراد ’’تحریری ادب ‘‘ہے۔ موصوف ایک دقیقہ رس اور نکتہ پرداز مصنّف ہیں، اس لیے آپ کی تصنیفات دقتِ مطالب کی آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے گوناگوں اور مفید لطائف و نکات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں جن تک عام مصنفین کی نظرنہیں پہنچ پاتی۔ مزید یہ کہ موصوف کو اردو ادب پر بھی خوب دستگاہ حاصل ہے۔ آپ کا علمی و تحقیقی اندازِ نگارش جدید ادیبانہ اُسلوب سے ہم آ ہنگ ہے۔ ایک ایک لفظ اردو ادب کا ترجمان اورقابلِ داد ہے۔ مصنف ایک عام سے عام بات یا واقعہ کو اردو ادب کے قالب میں اس طرح ڈھال دیتے ہیں کہ قاری اسی عام سی بات کو پڑھ کر محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ فوائدِ جامعہ سے ایک تراشہ نذرِقارئین ہے، موصوف شاہ عبد العزیز v کے سوانحی خاکہ پر نظر ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شاہ صاحب کو علومِ متداولہ اور عقلی و نقلی فنون میں کامل دستگاہ حاصل تھی، حافظہ بھی بلا کا تھا، تقریر معنیٰ خیز، سحر انگیز، مرتب ودل نشین ہوتی تھی، جس نے ان کی ذات کو مرجع عام و خواص بنادیا تھا۔ علوّ ِسند کی وجہ سے دور دور سے لوگ سفر کرکے حلقۂ درس میں شرکت کرتے اورسند ِ فراغت حاصل کرتے تھے۔ درس و تدریس، افتاء و تصنیف، شاگردوں اور سالکین کی تربّیت میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ موصوف کی ذات سے ہندوستان میں علومِ اسلامیہ خصوصاً حدیث و تفسیر کا خوب چرچا ہوا، مسلمانوں کی اصلاح ہوئی اور فتنوں کا سدِّباب ہوا۔ انہی کی مساعیِ جمیلہ، نالۂ نیم شب اور توجہ نے شاگردوں اور مریدوں میں وہ روح پھونکی جس نے مسلمانوں میں انقلاب پیدا کیا اور مسلمانوں کی دینی، تعلیمی اور ثقافتی حالت کو اس درجہ بنا دیا کہ ایک مرتبہ پھر قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ ہوگئی۔   (فوائدِجامعہ،ص:۲۵)  حال ہی میں آپ کی ایک اور تصنیف ’’اِقْرَأْ وَ عَلَّمَ بِالْقَلَمِکے ثقافتی جلوے‘‘ جدید اضافات کے پیراہن میں ڈھل کر، زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر، منصہ شہود پر آنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ کتاب کیا ہے؟ معلومات کا بحرِزخّار ہے، نکاتِ بدیعہ کا انمول مرقّع اور تحقیقاتِ نافعہ کا خوبصورت نقش ہے۔ سات سو(۷۰۰)کتابوں کے حوالوں سے مزیّن ’’اسلامی کتب خانوں‘‘ کے تذکرے کا جامع مجموعہ ہے۔ ایک ایسی علمی و رسیلی سوغات جس کا ہر باب ان گنت معلومات سے معمور و لبریز ہے، جس کی سطر سطراندازِنگارش کا خوبصورت نمونہ ہے، جس کا لفظ لفظ محفوظ اور یاد رکھنے کے قابل اور آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے۔ مذکورہ بالا کتاب مؤلف کے والد ماجد محمد عبد الرحیم خاطر ؒ (متوفی:۱۳۷۲ھ) کی طرف منسوب ہے، اور مولانا عبد القدوس ہاشمی ندوی کے پیش لفظ،مصنف کے اظہارِ تشکّر کے ساتھ گیارہ ضخیم ابواب پر مشتمل ہے۔ صفحات کی تعداد تقریباً گیارہ سو (۱۱۰۰) کے لگ بھگ ہے ۔     یادرہے کہ مذکورہ بالا کتاب حضرت کاوہ مقالہ ہے جس پر جامعہ کراچی نے لائبریری سائنس میں انہیں ڈاکٹریٹ کی سند دی ہے۔ ذیل میں اس کے ابواب کا اجمالی خاکہ پیش کیا جارہا ہے:     پہلاباب:۔۔۔۔۔جس کا عنوان ہے:’’ تمہید و تعارف‘‘ اس باب کے دو حصے ہیں: پہلا حصہ جس کی سرخی ’’تمہید‘‘ ہے، اس میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ کتب خانے تمدن کی پیداوار اور ذہنی طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ عہدِ عباسی کتب خانوں کی ترقی، کثرت و تنوع، حُکمِ ’’اِقْرَأْ وَ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ‘‘ کی عالمگیر تحریک ِکتب خانہ سازی کے نقوش واثرات کا مرہونِ منت ہے۔ دورِ عباسی میں کتب خانوں کی ترویج و اشاعت کے آٹھ اور کتب خانوں کی نشاندہی کے تین اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نیز پہلی مرتبہ کتب خانوں کی شناخت کے پینسٹھ (۶۵) بنیادی رہنما اصول اور ایک سو دو (۱۰۲) فروعی جن کی مجموعی تعداد ایک سو سڑسٹھ (۱۶۷) ہے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اور عہدِعباسی میں کتب خانوں کے ذخائر کی عددی حیثیت کو بتایا گیا ہے۔ دوسرا حصہ ’’تعارف‘‘ پر مشتمل ہے، جس میں: ۱- مقصدِ مطالعہ، ۲- انتخابِ موضوع، ۳- سابقہ مطالعہ اور ۴- ماخذوں کا سرسری جائزہ، ۵- وسعت و طریق کار کی وضاحت کی گئی ہے۔     دوسرا باب:۔۔۔۔۔ اس باب کا موضوع ’’ فروغِ علم اور کتب خانوں کا ارتقائ‘‘ ہے۔ یہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ’’فروغِ علم‘‘ علم کی اہمیت، کتب خانے کے عناصر اربعہ، علم، کتابت، کتاب و قرا ء ت کوشامل ہے۔ دوسرا حصہ کتب خانوں میں انبیاء علیہم السلام کی سرگرمیاں، ان کے کتب خانے اور عہدِ جاہلیت میں عربوں کے کتب خانے اور قیامِ کتب خانہ کے عوامل و محرکات پر مشتمل ہے۔     تیسرا باب :۔۔۔۔۔ باب سوم ’’عہد ِعباسی (۱۳۲-۶۵۶ھ / ۷۵۰-۱۲۵۸ئ) میں خلفاء کے کتب خانے ‘‘کے نام سے موسوم ہے۔ اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے :     پہلا حصہ خلفاء ِ عباسیہ کے کتب خانوں پر اور دوسرا حصہ خلفائے بغداد سے الحاق رکھنے والوں اور ان سے ہمسری کرنے والے خلفاء کے کتب خانوں پر محیط ہے۔ حصہ اوّل میں پہلے عہدِ ِعباسی کی تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے، پھر سترہ (۱۷) خلفاء ِبغداد کے کتب خانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔     دوسرا حصہ خلفاء ِبغداد سے الحاق رکھنے والے بیس (۲۰) شاہی سلسلوں، طاہریہ، صفاریہ، سامانیہ، طولونیہ، حسنویہ، دیالمہ، بنوکاکویہ، شاہان بنو مزید، خوارزم، غزنہ، سلاجقہ، غور، نیمروز سجستان، آل نہاوند، زیدیہ یمن، شاہ ماردین، حسام الدین، حاکم جزرہ محمد، ایوبیہ، اغالبہ کے مشہور و معروف تینتیس (۳۳) کتب خانوں کا اور خلفاء عباسیہ سے ہمسری کرنے والے چار (۴) شاہی سلسلوں، فاطمین مصر، بنو حمدان، بنو عمار اور اموی خلفاء اندلس کے نو (۹) کتب خانوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس طرح بابِ سوم میں عہدِ عباسی کے مشہور خلفاء کے کل اُنسٹھ (۵۹) کتب خانوں کو بیان کیا گیا ہے۔     چوتھاباب:۔۔۔۔۔ مصنف نے اس باب کو ’’انفرادی و عمومی اور فنی و خصوصی کتب خانے‘‘کا نام دیا ہے، جس میں ’’انفرادی و عمومی کتب خانے،وزیروں کے کتب خانے،عمال کے کتب خانے،حکام کے کتب خانے،دربانوں کے کتب خانے، موچی، رنگریز، عطاروں سے شہرت رکھنے والوں کے کتب خانے، وراقوں کے کتب خانے، خوشنویسوں کے کتب خانے، خازنوں(مہتمم کتب خانہ) کے کتب خانے، فنکاروں کے کتب خانے، تاجروں کے کتب خانے، دولت مندوں کے کتب خانے، نادار وغریبوں کے کتب خانے‘‘ کے عنوانات کو مختلف فصلوں کے تحت بہت ہی معلومات آفریں انداز میں تحریر کیا ہے ۔     پانچواں باب:۔۔۔۔۔ باب پنجم کو ’’ادارہ جاتی اور علمی کتب خانے‘‘کاعنوان دیا گیا ہے۔ اس کے دو حصے ہیں: پہلے حصے میں عوامی کتب خانوں کا بیان ہے جن میں اوقاف، مساجد، خانقاہوں، سرایوں اور مزاروں کے کتب خانے داخل ہیں۔ دوسرے حصے میں علمی کتب خانوں کا ذکر ہے جن میں درسگاہوں، دانش گاہوں، شفاخانوں، طبی مدرسوں اور رصد گاہوں کے کتب خانے شامل ہیں۔     چھٹا باب:۔۔۔۔۔ اس باب کے صفحۂ اول کی پیشانی پر ’’کتاب سازی: وراقت ‘‘ کا عنوان جلی حروف میں لکھا ہواہے۔ پھر اُسے دو حصوں میں منقسم کرکے پہلے حصہ میں کاغذ سازی، کاغذ کے اقسام، صنعتِ کاغذ سازی کے مراکز، کاغذ کی مقامی نسبتوں سے شہرت، بہترین کاغذ کی پہچان، سامانِ کتابت، قلم، دوات، سیاہی، نقل و ضبط کا اہتمام، کتابت و خوشنویسی اور اقسامِ خط و تحریر شناسی، مدارس میں خوشنویسی کا قیام، کتابوں میں اعراب کا اہتمام، مقابلہ و تصحیحِ کتاب، محوِ عبارت اور کمی کو پورا کرنا، قواعد ِ کتاب، تصحیح میں احتیاط و اصطلاحات، کاتب کا ضابطۂ اخلاق، ناقل و کاتب کی شروط کا ذکر کیاہے، جبکہ دوسرے حصہ میں صنعتِ وراقت، سوق الوراقین (کتابوں کے بازار) کی نوعیت، کثرتِ مراکز اور ان کی علمی و ثقافتی حیثیت، تجارتِ کتب، کتب فروشوں کی خصوصیات، فروغِ تجارتِ کتب کے عوامل، معیاری و مستند ناشرین، گراں و ارزاں قیمتِ کتب کے عوامل، انتخاب ِکتب کے اصول و مبادی اور تبصرۂ کتب جیسے عنوانات پر بحث کی گئی ہے ۔     ساتواں باب:۔۔۔۔۔ اس باب کے شروع میں ’’تنظیم وترتیب ِعلوم اور درجہ بندی‘‘ کا بنیادی عنوان درج کرکے کی اس کی مباحث کو دو حصوں میں ذکر کیا گیا ہے، پہلے حصے میں علمی درجہ بندی کا بیان ہے، دوسرے حصے میں کتابیاتی، کتابی واِفادی درجہ بندی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔اس سے عہدِ  عباسی میں متداول علوم کی نہیں بلکہ علومِ اوائل کی توسیع و تنویع کی جو کوششیں کی گئی ہیں ان کا خاکہ ذہن میں مرتسم ہوجاتا ہے۔ عہدِ عباسی میں جن علوم سے اعتناء رہا اور علوم کے ذخائر کو جن شعبوں میں تقسیم کیا گیا ان سے علوم میں ترتیب و تنظیم اور ہم آہنگی کا بھی پتہ چلتا ہے، چنانچہ علمی تقسیموں میں چوتھی صدی ہجری میں فارابی و خوارزمی کی، پانچویں صدی ہجری میں رسائل اخوان الصفا، ابنِ سینا، ابنِ حزم کی اور چھٹی صدی ہجری میں راغب اصفہانی، ابوحامد غزالی اور ساتویں صدی ہجری میں فخر رازی اور ابنِ ابی الربیع کی علمی تقسیموں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ کتابیاتی تقسیم میں ابن الندیم کا، کتابی تقسیم میں ابن الکوفی کا، اِفادی اور مصنوعی درجہ بندی میں صولی وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔     آٹھواںباب:۔۔۔۔۔ اس کے شروع میں ’’کیٹلاگ سازی‘‘ کا عنوان رقم کیا گیا ہے اور اس کے تحت عہدِ ِعباسی میںکتابوں کی درجہ بندی کے لیے جو کوششیں کی گئی ہیں، اس باب میں اس کے بنیادی اصول کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اسمائ، کنیت، القاب وغیرہ اور ان کے اقسامِ ترتیب و اندراج کے اصول، شہرت کی صورت میں نام کے مشہور ترین حصہ کا انتخاب، حروفِ ہجا کی ترتیبِ فہرست (کیٹلاگ) میں کتاب کے متعلق معلومات کی تفصیل اور کتابوں کے نام میں اختلاف کے اسباب وغیرہ پربھی روشنی ڈالی گئی ہے۔      نواںباب:۔۔۔۔۔ اس باب کے شروع میں ’’کتابیات‘‘ کا اساسی عنوان لگاکر آئندہ صفحات میں کتابیات کے مختلف نام، کتابیات کی تعریف، اس کی ا قسام، نامور کتابیات نگار، کتابیاتی سرگرمیاں، فہرست ِ عنوانات اور فنِ کتابیات کی اصطلاحات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔     دسواں باب:۔۔۔۔۔ باب ِدہم کا عنوان انتظامیہ منتخب کیا گیا ہے۔ یہ باب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں کتب خانے کی مالیت، بجٹ، عمارت ِکتب خانہ، اسٹاک، کتب خانوں میں کاغذ کی درآمد، ذخیرہ اندوزی کا نظام، اندراجِ کتب، ترتیب ِ کتب، اوقاتِ کتب خانہ، کتب خانہ میں کتب و سامان کتابت کی سہولت، تدوین ِکتب، مجلسِ کتب خانہ، استعارۂ کتب، اجراء ِ کتب کا نظام، عاریتاً کتابیں لینے والوں کی اخلاقی ذمہ داریاں اور مستعار کتابوں کے قوانین کو بیان کیا گیا ہے۔     دوسرے حصے میں عملہ، خازن کے فرائض عہدِ  عباسی کے مشہور خازن، مشرف و مناول وغیرہ، تحفظِ کتب کی احتیاطی تدابیر، کتابیں رکھنے کے ظروف، کتابوں کی درستی کے لیے مسالوںکا استعمال، جلد سازی، تزئین و آرائشِ کتب اورکتابوں کی تباہی کے داخلی و خارجی اسباب سے بحث ہے۔     گیارہواں باب: ۔۔۔۔۔ کتاب کا اختتام جس باب پر کیا گیا ہے، وہ ہے ’’نتائج تحقیق‘‘ اس باب میں ’’اِقْرَأْ وَ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ‘‘ کے حکم نے صفحۂ عالم پر جو علمی و تاریخی نقوش ثبت کیے اور اسلامی تہذیب وتمدن پرجو دیر پا اثرات مرتب کیے ہیں، نیز رجال سازی میںاس علمی ذوق نے جو کردار ادا کیا، اس پر خوب بسط و تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔     دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کتاب کو طباعت کے تمام مراحل سے باآسانی گزار کر جلد قارئین کے ہاتھوں میںپہنچائے، اُسے شرف قبولیت عطاء کرنے کے ساتھ ساتھ مصنف کو اپنی شایانِ شان اجر سے نوازے۔ آمین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین