بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اسلامی تاریخ کے سُنہرے اوراق


اسلامی تاریخ کے سُنہرے اوراق

 

    اسلام جس کامل ترین شکل میں اُمتِ محمدیہ کے سامنے آج موجود ہے، یہ بڑی کٹھن منزلیں طے کرکے یہاں پہنچا ہے اور دین اسلام کا یہ خوب صورت باغیچہ جس شان میں آج موجود ہے اور جس طرح یہ عالم اسلام پر سایہ فگن ہورہا ہے اور اس کے شیریں پھلوں اور پھولوں سے اُمت لذت اندوز ہو رہی ہے اور اس کی روح پر ور خوشبوؤں سے قلب ودماغ کو سکون نصیب ہورہا ہے، یہ شہداء احد اور شہداء بدر کے پاکیزہ اور مقدس خونوں سے سینچ سینچ کر- سر سبز وشاداب کیا گیا ہے، اس کے پیچھے امت محمدیہ کے جان نثاروں کی عظیم الشان تاریخ ہے۔ گھر بیٹھے بٹھائے یہ نعمت ہمیں اور آپ کو آسانی سے میسر آگئی ہے، ہمیں اس کی کیا قدر ہوسکتی ہے؟! اس کی قدر وقیمت تو صدیقؓ وفاروقؓ، عثمانؓ وعلیؓ، طلحہؓ وزبیرؓ، سید الشہداء حمزہؓ ، جعفر طیارؓ،ابن رواحہؓ وخالد ابن الولیدؓ (رضی اللہ عنہم) سے پوچھئے۔ اس کی داستانیں ابوعبیدہؓ، سعد بن ابی وقاصؓ اور ابو موسیٰ اشعریؓ سے سنئے۔ خبابؓ وخبیبؓ، بلالؓ وعمارؓ، سلمانؓ وابو فکیہہؓ کی المناک زبانوں سے معلوم کیجئے۔
    آیئے! آپ بھی اسلام کی تاریخ کے سُنہری اوراق کی کچھ ورق گردانی کیجئے اور فاتحین اسلام کے عظیم الشان واقعات اور کارنامے پڑھئے، شاید کچھ اسلام کی قدر وقیمت کا احساس ہوجائے۔ کہنا یہ ہے کہ یہ نعمت بڑی مشکلوں سے ہم تک پہنچی ہے، لیکن افسوس! آج امت اس کی حفاظت کے فریضہ سے قطعاً قاصر، بلکہ غافل نظر آرہی ہے۔
    اور زیادہ گہرائی میں جایئے تو اس دین الٰہی کی تاریخ اس سے بھی زیادہ قدیم نظر آتی ہے۔ حضرت آدم علی نبینا وعلیہ السلام نے اس دین اسلام کی خِشتِ اول رکھی ہے، ان کے بعد آنے والے حضرات انبیاء کرام ؑورسولان عظام ؑپر کیا گذری ہے؟ اس کا کچھ اندازہ حضرت رسالت پناہ رسول اللہ  اکے اس ارشاد گرامی سے ہوسکتا ہے جو صحیح بخاری شریف میں امت کے سامنے ہے:
    ’’الأنبیاء أشد الناس بلائً ثم الأمثل فالأمثل‘‘۔
    ترجمہ:۔’’سب سے زیادہ تکلیفیں انبیاء کرام علیہم السلام کو اٹھانی پڑتی ہیں، پھر جو ان کے جتنا زیادہ قریب ومماثل ہو اس کو‘‘۔
    یعنی یہ ’’دین اسلام‘‘ ان تمام ادیانِ الٰہیہ سماویہ کی آخری کڑی ہے جو جامع ترین،کامل ترین شکل وصورت میں ہم تک پہنچا ہے۔ پھر صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ نے کس کس طرح اس چمن کی آبیاری فرمائی ہے، پھر محدثین کرامؒ نے حضرت نبی کریم  ا کے انفاسِ قدسیہ اور احادیث نبویہ کی کس شان سے حفاظت فرمائی ہے اور کیا کیا محنتیں اس سلسلہ میں کی ہیں، ایک ایک حدیث کے سننے اور محفوظ کرنے کے لئے کیسے کیسے طویل وشاق سفر کئے ہیں اور پھر اعداء اسلام کی سازشوں اور تحریفات وتلبیسات سے کس طرح بچابچا کر امت کے سامنے یہ امانت پہنچائی ہے، حتی کہ اس کی حفاظت وصیانت کے لئے تقریباً ایک سو علوم ایجاد کئے۔ الغرض اس امانت الٰہی کو ان حضرات نے کس طرح سینوں سے لگایا اور کس طرح تصنیفی سفینوں (کتابوں) میں امت تک پہنچایا؟ یہ اسلامی تاریخ کازریں دور ہے۔ بخاریؒ، مسلمؒ، ابوداؤدؒ، ترمذیؒ، نسائیؒ، ابن ماجہؒ، دارمی ؒ،وغیرہ، وغیرہ تو اس گلستان کے چند پھول ہیں اور اسی بوستان کے چند باثمر پودے ہیں ،جن کے ثمرات سے آج امت فائدہ اٹھا رہی ہے۔ پھر اللہ جل مجدہ نے اس امانت الٰہی کے حِکم ومصالح کو سمجھنے سمجھانے کے لئے اور اس کی روح کو محکم بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے حضرات فقہاء کرامؒ کو پیدا فرمایا ہے، کہیں علقمہؒ واسودؒ وشعبہؒ وابراہیم نخعیؒ ہیں، کہیں قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ وسلیمان بن یسارؒ وعروۃ بن الزبیرؒ وسعید بن المسیبؒ ہیں، کہیں عطاء بن ابی رباحؒ ہیں، کہیں ابن سیرین ؒوحسن بصریؒ ہیں، کہاں تک گنوائیں۔ مدینہ، مکہ، کوفہ، بصرہ، بغداد، شام، مصر، وغیرہ بلادِ اسلامیہ کے فقہاء تابعینؒ کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس اُمت مرحومہ کے ان نفوسِ طیبہ کی جن کو صحابہؓ وتابعینؒ ومحدثین نے یہ امانت الٰہیہ سپرد کی ہے، پھر جو صحیح معنی میں ان اکابرِ امت کے علوم کے وارث بنے ہیں، ان کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔ شام میں امام عبد الرحمن اوزاعیؒ، مصر میں یزید بن ابی حبیبؒ ولیث بن سعدؒ، کوفہ میں سفیان ثوریؒ، امام ابوحنیفہؒ، محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیؒ، مدینہ میں امام مالک بن انسؒ اور ان کے شیخ ربیعہؒ وغیرہ وفقہاء سبعہؒ ہیں۔پھر کچھ عرصہ بعد یہ امانت محمد بن ادریس شافعیؒ اور احمد بن حنبلؒ کو سپرد ہوئی، جن کے آراء وافکار واقوال ‘اُمت کے سامنے مرتب ومحفوظ اور مدوَّن ہوکر پہنچے اور آج تک ان کے بتلائے ہوئے طریقوں اور مسلکوں پر امت عمل پیرا ہے۔ ان میں جن کو زیادہ قبول نصیب ہوا، بلکہ حدیث نبوی کی تعبیر کے مطابق ’’ثم وضع لہ القبول فی الأرض‘‘ کے مصداق بنے، وہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ہیں۔
    امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اتفاق سے اس سرزمین میں پیدا ہوئے جہاں علوم نبوت کا سب سے زیادہ ذخیرہ پہنچا، چنانچہ خلافت فاروقی ؓکے عہد میں جب اسلام مشرق ومغرب میں پھیل گیا اور عراق میں کوفہ ایک مستقل اسلامی بستی بسائی گئی اوراُس کو مرکزیت حاصل ہوگئی تو سب سے زیادہ صحابہ کرامؓ اس سرزمین میں منتقل اور آباد ہوئے، بلکہ کوفہ صحابہ کرامؓ کا فوجی ہیڈ کوارٹر بن گیا۔ حروبِ قادسیہ میں یعنی ایران کی لڑائیوں میں آٹھ ہزارصحابہ کرامؓ بتصریحِ مورخ ابن جریر طبریؒ شہید ہوئے ہیں، وہ سب کے سب اسی سرزمین میں سکونت اختیار کر چکے تھے۔ کوفہ میں ایک علاقہ قرثیثیا کا تھا، جس میں بتصریح شیخ ابن ہمامؒ چھ سو صحابہ کرامؓ سکونت پذیر تھے۔ اسلام کے اس عالمی مرکز کے لئے حضرت عمر فاروقؓ نے تمام فقہاء صحابہؓ میں سے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو منتخب کرکے بھیجا تھا، جن کے بارے میں حسبِ روایتِ طبقات ابن سعدؒ، فاروق اعظمؓ کے یہ کلمات طیبہ انتہائی اہمیت رکھتے ہیں: ’’آثرتکم بہ یا أہل القادسیۃ‘‘۔۔۔۔’’اے مجاہدینِ قادسیہ! تم کو وہ شخص دے رہا ہوں جس کا میں خود محتاج ہوں‘‘۔
    عبد اللہ بن مسعود ؓ نے اس سرزمین میں کچھ ہی عرصہ میں ایک ایسی عظیم جماعت تیار کردی، جس کو دیکھ کر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا:’’أصحاب عبد اﷲؓ سرج ہذہ القریۃ‘‘۔۔۔۔۔’’حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے شاگرد اس شہر کے مشعل وچراغ ہیں‘‘۔
    جس وقت حضرت علیؓ کوفہ تشریف لے گئے ہیں، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ تو وفات پاچکے تھے، لیکن حضرت علیؓ کے استقبال کے لئے ان کے تلامذہ اور تلامذہ کے تلامذہ چار ہزار کی تعداد میں پہنچے تھے، جس کا ذکر امام سرخسیؒ نے مبسوط کی سولہویں جلد میں کیا ہے، حضرت علیؓ نے اُن کو دیکھ کر فرمایا:’’رحم اﷲ ابن أم عبد قد ملأ ہذہ القریۃَ علماوفقہا‘‘۔۔۔۔۔۔’’حضرت ابن ام عبد ؓیعنی ابن مسعودؓ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں جنہوں نے اس شہر کو علم (حدیث) اور فقہ سے بھر دیا ہے‘‘۔حضرت علیؓ کی اس قابل قدر اور سزا وارِ افتخار شہادت پر غور کیجئے۔
    بہرحال خلافتِ فاروق اعظمؓ کے بعد اسلامی ملکوں میں صحابہ کرامؓ کی کثرتِ تعداد کے اعتبار سے دنیا کا کوئی ملک بھی کوفہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ  اکا ہرصحابیؓ حدیث اور علم دین کا ایک سرچشمہ تھا، اس لحاظ سے جہاں جتنے زیادہ صحابہؓ پہنچے، وہاں اُسی قدر زیادہ حدیث پہنچی اور جہاں جتنے زیادہ فقہاء صحابہؓ اور کبار صحابہؓ پہنچے، وہاں اُسی قدر زیادہ علوم نبوت کے چشمے جاری ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ عہد بنی امیہ اور پھر عہد بنی عباس میں جس کثرت سے محدثین کوفہ میں موجود تھے، کوئی ملک بھی اس کی ہم سری نہیں کرسکتا۔ محدث عِجلی کا بیان ہے کہ:’’ کوفہ میں ایک ہزار پانچ سو صحابہؓ سکونت پذیر تھے ،جن میں ستر صحابہؓ بدریین تھے‘‘۔ یہ تو ان صحابہؓ کی تعداد ہے جو کہ کوفہ کے مستقل باشندے تھے اور جو صحابہؓ دینی اور ملکی ضرورت کے تحت کوفہ تشریف لائے اور کچھ عرصہ عارضی طور پر قیام فرمایا ہے ان کی تعداد کا تو اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔اور ظاہر ہے کہ ان سب کی علمی اور دینی وراثت اہل عراق کو ہی منتقل ہوئی ہے، خصوصاً جب کوفہ حضرت علیؓ کے عہد میں مرکز اسلام ومرکز خلافت بھی بن گیا تھا، اسی وجہ سے حضرت علیؓ اور حضرت ابن مسعودؓ کے علوم کے حاملین اور تلامذہ کوفہ ہی میں زیادہ رہے ہیں۔پھر باقاعدہ طور پر حضرات صحابہ کرامؓ میں سے حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت ودرایت اور ان کی فقہ کو پورے طور پر محفوظ کرنے والے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے تلامذہ ہی تھے اور پھر تلامذہ کے تلامذہ تھے، چنانچہ محمد بن جریر طبریؒ مفسر ومؤرخ فرماتے ہیں:
’’لم یکن أحد لہ أصحاب معروفون حرروا فتیاہ ومذاہبَہ فی الفقہ غیرُ ابن مسعودؓ، وکان یترک مذہبَہٗ وقولَہٗ لقول عمرؓ، وکان لایخالفہٗ فی شیئ من مذاہبہ ویرجع من قولہ إلی قولہ اھ‘‘۔
ترجمہ:۔’’حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے علاوہ کوئی صحابیؓ ایسا نہیں جس کے تلامذہ نے باقاعدہ طور پر اس کے اقوال وفتاویٰ ومذہب کو مدون ومرتب کیا ہو اورحضرت ابن مسعودؓ حضرت عمرؓ کے قول کی بنا پر اپنے قول کو چھوڑدیا کرتے تھے اور حضرت عمرؓ کے مسلک کی کسی چیز میں بھی مخالفت نہیں کرتے تھے اور اپنے قول سے عمرؓ کے قول کی طرف رجوع کرلیا کرتے تھے‘‘۔
    مسروق بن الاجدعؒ جو کبار تابعین ؒکوفہ میں شمار ہوتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ:
    ’’میں نے صحابہ کرامؓ کو قریب سے قریب ترہو کر دیکھا ہے اور ان کی صحبت حاصل کی ہے، میں اس نتیجہ پرپہنچا ہوں کہ تمام صحابہ کرامؓ کے مختلف علوم چھ صحابہ کرامؓ میں سمٹ آئے ہیں۔ عمر فاروقؓ، علی مرتضیٰؓ، عبد اللہ بن مسعودؓ، ابو الدرداءؓ، زید بن ثابتؓ، ابی بن کعبؓ ،پھر ان چھ حضرات کے علوم کو میں نے دوصحابہ کرامؓ میں مجتمع پایا ہے: حضرت علیؓ اور حضرت ابن مسعودؓ اور اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حضرات کے علوم کے وارث کو فہ والے ہی تھے‘‘۔
    بہرحال صحابہ کرامؓ کے علوم کے وارث تابعینؒ بنے اور تابعینؒ کے علومِ حدیث وفقہ کے وارث وہ ائمۂ اجتہاد ہوئے جن کے تفقہ اور مذاہب پر امت کی دینداری کا دار ومدار رہا ہے۔ ان ائمۂ مجتہدین کے دور میں جو امام سب سے زیادہ ممتاز تھے، وہ سفیان ثوریؒ، محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیؒ اور ابو حنیفہؒ ہیں۔ پھر ان سب میں تفقہ واجتہاد کے اعتبار سے امام ابوحنیفہؒ سب سے زیادہ ممتاز اور مقبول ہوئے اور حق تعالیٰ نے ان سے وہ خدمت لی کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے کمالات وخصوصیات ہمارا موضوع بحث نہیں، نہ ان کے کمالات کی تفصیل کی یہاں گنجائش ہے:’’فی طلعۃ الشمس ما یغنیک عن زحل‘‘یعنی آفتاب عالمتاب کے طلوع ہونے کے بعد زحل ستارے کی روشنی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔یہ تو ظاہر ہی ہے کہ حضرات محدثین اور فقہاء مجتہدین میں سے جو مشائخ ابوحنیفہؒ کو میسر آئے، کسی اور امام کو میسر نہیں آئے۔ پھر فطرتاً جو دقّتِ نظر، توقُّدِ فکر اور ذکاء کا حصۂ وافر ابو حنیفہؒ کو ملا ہے ،اس میں کوئی ان کا ہمسر نہیں۔ پھر صبر واستقامت اور خیر خواہی کا جذبہ، فیض رسانی کی حرص اس قدر کہ عقل حیران ہے۔ غرض حق تعالیٰ نے ابوحنیفہؒ کو وہ فطری ملکات عطا فرمائے، جن کی نظیر اُن کے معاصرین میں کہیںنہیں ملتی۔ اُن کے مذہب کی سب سے بڑی قابل قدر خصوصیت یہ ہے کہ حضرت فاروق اعظمؓ کے بعد تاریخ اسلام میں ابوحنیفہؒ پہلے امام دین ہیں ،جس نے ’’فقہی شورائی‘‘ نظام قائم کیا تھا اور چالیس فقہاء ومحدثین وائمہ کرام اس شوریٰ کے ارکان تھے، ان میں سے چند کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں:
    امام ابو یوسفؓ، زفرؒ، داؤد طائیؒ، اسد بن عمروؒ، یوسف بن خالد سمتیؒ، یحی بن زکریا بن ابی زائدہؒ، عافیۃ ازدیؒ، حمزۂ زیّاتؒ، حبان بن مندلؒ، فضیل بن عیاضؒ ،وغیرہ، وغیرہ۔
    یہ چالیس ارکان کی جماعت مسائل فقہیہ میں کما حقہ غور وخوض کے بعد مسائل متفقہ طور پر طے کرتی تھی، کبھی کبھی ہفتوں بحث وتمحیص میں لگ جاتے تھے۔ ابن ابی العوام سعدیؒ اپنی کتاب ’’اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ‘‘ میں لکھتے ہیں:’’کان أصحابُ أبی حنیفۃؒ الذین دوّنوا معہ الکتبَ أربعین رجلاً کبراء الکبراء‘‘۔…’’ امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کو مرتب کرنے والے چالیس حضرات ایسے تھے کہ جو اکابر کے اکابر تھے۔موفق مکیؒ مناقب ابوحنیفہؒ میں لکھتے ہیں:
’’وضع أبو حنیفۃؒ مذہبہ شوری بینہم لم یستبد فیہ بنفسہ دونہم، اجتہاداً منہ فی الدین ومبالغۃً فی النصیحۃ ﷲ ورسولہ والمؤمنین ، فکان یلقی المسائل مسألۃ مسألۃ ویسمع ما عندہم ویقول ما عندہ ویناظرہم شہراً أو أکثر، حتی یستقر أحدُ الأقوال فیہا ، ثم یثبتہا أبو یوسفؒ فی الأصول ، حتی أثبت الأصولَ کلَّہا، وہذا یکون أولیٰ وأصوب، وإلی الحق أقرب والقلوب إلیہ أسکن وبہ أطیب من مذہب من انفر د، فوضع مذہبہ بنفسہ ویرجع فیہ إلی رأیہٖ۔ اھ‘‘۔
ترجمہ:۔’’امام ابوحنیفہؒ نے اپنے مذہب کی بنیاد ان چالیس ارکان کے مشورہ اور اتفاقِ رائے پر رکھی تھی، ان کی آراء کو نظر انداز کرکے اپنی شخصی رائے کو کبھی بھی مدار نہیں بنایا۔ اس کا مقصد اپنی جانب سے دین کے معاملہ میں انتہائی جدوجہد کا اور اللہ، اس کے رسول  ا اور اہل ایمان کی خیر خواہی کا حق ادا کرنا تھا۔ ابوحنیفہؒ فقہی مسئلے ایک ایک کرکے اُن اراکین شوریٰ کے سامنے پیش کرتے، اُن کے دلائل سنتے، اپنے دلائل بیان کرتے ، مہینہ مہینہ بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ ان کے ساتھ بحث ومباحثہ کرتے، یہاں تک کہ متفقہ فیصلہ ہوجاتا تو اس کے بعد کتب اصول میںدرج کراتے۔ یہی سب سے بہتر، سب سے زیادہ درست اور حق سے سب سے زیادہ قریب طریق کار تھا، اسی سے دل مطمئن اور خوش ہوسکتے ہیں،بمقابلہ ایک شخصی مذہب کے جس کو ایک فرد اپنی شخصی رائے سے تجویز کرے اور اپنی رائے پر ہی اعتماد کرے اور اُسی کو مدار بنائے‘‘۔
    یہی وجہ ہے کہ امام محمد بن ادریس شافعیؒ جیسے امام کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ:’’الناس کلہم فی الفقہ عیال علی أبی حنیفۃ‘‘۔۔۔۔ تمام امت فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کی محتاج ہے…!‘‘۔
    اور اسی وجہ سے ابن خلدونؒ جیسے محقق مؤرخ کو بھی جو خود مالکی المذہب تھے اور اندلس کے مسلّم عالم تھے،کہنا پڑا کہ: ’’جو پختگی مذہب ابوحنیفہؒ کو حاصل ہوئی، مالکی مذہب کو حاصل نہ ہوسکی‘‘۔ (تفصیل کے لئے مقدمہ ابن خلدون دیکھا جائے)۔
    امام ابو حنیفہؒ نے جو شرعی مسائل واحکام امت کے لئے املاء کرکے لکھوائے تھے، ان کی تعداد کے بارے میں متعدد اقوال ہیں، ان میں ایک قول یہ ہے کہ یہ مسائل واحکام بارہ لاکھ ستر ہزار سے بھی زائد تھے، یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کو عالم اسلامی میں جو عروج وقبول نصیب ہوا ہے، تصور سے بالاتر ہے، چنانچہ کہا گیاہے کہ تمام امت میں ابو حنیفہؒ کی متابعت واقتداء کرنے والے دنیائے اسلام کے نصف سے زائد مسلمان ہیں۔ نصف اقل میں بقیہ تمام ائمہ کے متبعین شامل ہیں۔
    انہی حقائق کے پیش نظر امام یحی بن سعید القطانؒ اور امام یحی بن معینؒ اور وکیع بن الجراحؒ، وغیرہ ، وغیرہ کبار محدثین کے متعلق محققین علمائِ اسماء رجال کا بیان ہے کہ یہ ابوحنیفہؒ کا اتباع کرتے تھے۔ گویا اجتہاد ’’مطلق‘‘ کا منصب اتنا اونچا ہے اور اتنا دقیق وعمیق ہے کہ اتنے بڑے بڑے حضرات محدثین علماء بھی ابو حنیفہؒ کے اتباع سے بے نیاز نہ ہوسکے۔ بلاشبہ ان کا اتباع یا ان کی تقلید عام امت جیسی نہیں ہے کہ ہرہر مسئلے میں امام کی تقلید کریں، بلکہ جو دقیق فقہی مسائل ایسے در پیش آتے تھے کہ یہ حضرات خود از روئے حدیث فیصلہ نہ کرسکتے تھے تو ان میں ابوحنیفہؒ کا مذہب اختیار کرتے تھے اور اسی پر فتوی دے دیا کرتے تھے۔ اسی بنیاد پر امام ترمذیؒ جیسے حضرات محدثین کو شافعی مذہب کا پابند بتلایاگیا ہے اور امام ابوداؤدؒ جیسے محدث کو امام احمد بن حنبلؒ کا متبع بتلایاگیا ہے ۔ بہرحال حدیث ہو یا فقہ، دین کے الگ الگ شعبے ہیں:
ہر کسے را بہر کارے ساختند
    ’’لکل فن رجال‘‘ معروف قولہ ہے۔ اعمشؒ جو ابوحنیفہؒ اور ابو یوسفؒ کے شیخ تھے، ایک موقعہ پر ان سے ایک مسئلہ پوچھا گیا، جواب سے عاجز آئے، ابوحنیفہؒ موجود تھے، عرض کیا: ’’اجازت ہو تو جواب دوں؟‘‘ فرمایا: ’’جی ہاں!‘‘ جب ابوحنیفہؒ نے اسی حدیث سے جواب دیا جو اعمشؒ کو بھی یاد تھی تو اعمشؒ کو اس پر حیرت ہوئی اور بے اختیار فرمانے لگے:’’یا معشر الفقہاء نحن الصیادلۃ وأنتم الأطِبّاء‘‘ ۔…’’ اے فقہاء کی جماعت! ہم تو دواساز ہیں، طبیب تو تم ہو‘‘۔
    امام ابویوسفؒ کی موجودگی میں ایک دفعہ کسی نے کوئی مسئلہ دریافت کیا، پھر امام اعمشؒ جواب سے خاموش رہے تو ابویوسفؒ نے باجازتِ شیخ جواب دیا، فرمایا کہ: اے یعقوب! (امام ابو یوسفؒ کا نام ہے) تمہارے والدین نے نکاح بھی نہیں کیا تھا، اس وقت سے یہ حدیث مجھے معلوم تھی، لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے‘‘۔
    ان واقعات کو حافظِ حدیث حافظ ابن عبد البر مالکیؒ نے جامع بیان العلم میں اپنی سند سے لکھا ہے اور اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں۔ عرصہ ہوا کہ: ’’الفرقان‘‘ کے شاہ ولی اللہ نمبر میں راقم الحروف کا ایک طویل مقالہ اس موضوع پر شائع ہوچکا ہے۔ اُس وقت قلم برداشتہ چند حروف لکھ دیئے تھے، شاید اہل انصاف نے قدر فرمائی ہو۔ باقی جن حضرات نے نہ ماننے کا عزم ہی کر لیا ہو، روئے سخن اُن کی طرف نہیں ہے۔ آج کل جہاں اور فتنے اس ملک کے مسلمانوں کو گھیرے ہوئے ہیں، یہ بھی ایک فتنہ بن گیا ہے کہ ایک طرف ایک جماعت پوری جہالت کے ساتھ اتباعِ سنت کے خلاف کر تی ہے اور مذہبِ حنفی کی آڑلیتی ہے اور اس طرح یہ مذہبِ حنفی کو بدنام کرتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے حضرات بھی موجود ہیں جو مقلدینِ ائمہ اور متبعینِ مجتہدین کو مشرکین سے کم نہیں سمجھتے اور ان کے خلاف لکھتے لکھتے امام ابوحنیفہؒ کے خلاف بھی اپنا زورِ قلم خرچ کررہے ہیں۔ بڑی شدید خلیج درمیان میں حائل ہے۔انصاف اور اخلاص کے فقدان سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے ۔ آج امت کفر والحاد کے بحران میں مبتلا ہے، نئی نسل بے دینی وبداخلاقی کے گہرے گڑھے میں گر رہی ہے اور ہمیں ایک دوسرے پر لعن وطعن سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ آج کفر واسلام کا مقابلہ ہے، اسلام اور کمیونزم کا مقابلہ ہے، اسلام اور سرمایہ داری کا مقابلہ ہے، تمام دین کے اقدار مسخ کئے جارہے ہیں، ماسکو اور واشنگٹن کے ساتھ، مہبطِ وحی البلد الامین مکہ مکرمہ اور مہبط جبرئیل امین مدینہ طیبہ کا موازنہ کیا جارہاہے۔ ایک طرف سے دہریت والحاد کے ساتھ ساتھ جدید تہذیب وتمدن کا سیلاب آرہا ہے اور اسلامی اقدار کے مضبوط قلعوں کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے اور ہم تقلید اور عدم تقلید کے جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں:
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی است
أللّٰہم اہد قومی فإنہم لایعلمون۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین