بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلامی بینک کاری اور حضرت بنوری رحمہ اللہ  مذاہبِ متبوعہ سے استفادے کی تفصیل

اسلامی بینک کاری اور حضرت بنوری رحمہ اللہ 

مذاہبِ متبوعہ سے استفادے کی تفصیل

 

{خط}

 بسم اللہ الرحمن الرحیم 
قابلِ صد احترام استاذِ مکرم حضرت مولانا مفتی رفیق احمد صاحب بالاکوٹی دامت برکاتکم 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ 

بعد از سلام مسنون! اُمید ہے کہ آ پ اور جملہ اساتذۂ جامعہ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ عرض یہ ہے کہ جامعہ کے ترجمان رسالہ ماہنامہ ’’بینات‘‘ میں ’’مروجہ اسلامی بینک کاری اور تکافل ‘‘کے موضوع پر آپ کے تحریر فرمودہ مضامین سے مستفید ہوتے رہتے ہیں، جو کہ ہم جیسے مبتدی طلبہ کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتے ہیں ۔ 
باعثِ تحریر یہ ہے کہ مؤرخہ ۲۱؍ فروری ۲۰۱۸ء کو بمقام سرینہ ہوٹل اسلام آباد میں اسلامی بینک کاری اور تکافل کے عنوان سے منعقدہ پروگرام میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہم نے اپنے خطاب کے دوران غیر سودی بینک کاری کے قیام میں علماء کرام کی جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے کچھ باتیں محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہٗ کے حوالے سے ارشاد فرمائیں جو میں حضرت شیخ الاسلام صاحب زید مجدہم کے الفاظ میں نقل کردیتا ہوں : 
’’مجھے یاد ہے کہ حضرت بنوری رحمہ اللہ - اللہ تعالیٰ نے جن کی مجھے مدتِ دراز تک رفاقت کا شرف عطا فرمایا- وہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ: کسی نہ کسی طرح تم اس سود کے نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے ائمہ اربعہ کے کسی بھی مسلک کو اختیار کرنا پڑے، کسی غیر متبوع اور مرجوح روایت کو اختیار کرنا پڑے تو اس کے لیے کوشش کرو، تاکہ کم ازکم آدمی حرام سے نکل کر حلال میں آجائے ۔ 
یہ حضرت بنوری رحمہ اللہ نے بار بار ارشاد فرمایااور ’’بینات‘‘ میں اس موضوع پر ادارئیے لکھے اور سب سے پہلا جو غیر سودی بینک قائم ہوا تھا پاکستان میں ،اس کو ’’اسلامک کو آپریٹیو بینک‘‘ کے نام سے ایک صاحب نے قائم کیا تھا ، جب وہ قائم ہوا تو حضرت مولانا بنوری رحمہ اللہ نے اس کے اوپر ’’بینات‘‘ میں ایک عظیم خوشی کا اظہار کیا،بلکہ خود بنفسِ نفیس جا کر اس کا افتتاح فرمایا، حالانکہ اس میں ابھی تک شرعی اعتبار سے بعض محلِ نظر چیزیں تھیں، لیکن مجرد یہ بات کہ قدم بڑھا ہے اسلامی بینک کاری کی طرف تو حضرت بنوری رحمہ اللہ نے اس کا خیر مقدم فرمایا ۔ ‘‘
ایک اور بات یہ ارشاد فرمائی: 
’’حضرت بنوری رحمہ اللہ کا ایک جملہ آج بھی کانوں میں گونجتا ہے، فرماتے تھے: کتابوں کی ورق گردانی کرو، چاروں ائمہ میں سے کہیں بھی تمہیں کوئی راستہ ملے تو اس کو اختیار کروـ۔‘‘(انتہیٰ بلفظہ)
حضرت بنوری نوراللہ مرقدہٗ کے ان دو ملفوظات کے پسِ منظر میں بصد ادب و احترام آپ سے سوال ہے کہ اگر حضرت بنوری رحمہ اللہ غیر سودی بینک کاری کے قیام کے لیے اس حد تک وسعت کے قائل تھے کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کا بھی کوئی قول مل جائے چاہے غیر متبوع اور مرجوح ہی کیوں نہ ہو‘ اسے ’’غیر سودی بینک کاری‘‘ کی بنیاد بنالیا جائے تو مروجہ اسلامی بینک کاری کی تردید میں کسی قسم کی کوئی گنجائش اور لچک نہ دینے والا ہمارا رویہ کس حد تک درست ہے؟ براہِ کرم اپنے قیمتی اوقات میں سے وقت نکال کر بندہ کے اس خلجان کو دور فرمائیں ۔
 

فقط والسلام 
 تلمیذکم : محمد حامد
 معرفت: مسلم دواخانہ، شاہی روڈ، نزد گورنمنٹ ہائی اسکول، خان پور،ضلع رحیم یار خان 

{جواب}

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیز القدر مولانامحمد حامد صاحب! سلّمہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

مورخہ ۷؍ رجب ۱۴۳۹ھ مطابق ۲۵؍ مارچ ۲۰۱۸ء کو تحریر کردہ آپ کا والا نامہ موصول ہوا، جواب میں قدرے تاخیر پر معذرت خواہ ہوں۔
مؤرخہ ۲۱؍ فروری ۲۰۱۸ء کومیزان بینک وغیرہ کی میزبانی میں منعقد ہونے والے پروگرام کا آپ نے حوالہ دیا، اور مخدوم العلماء حضرت اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زیدمجدہم کے بیان بابرہان کا ایک حصہ نقل فرمایا، جس میں حضرت مخدوم گرامی نے محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ کے کچھ سماعی ارشادات اپنے حافظہ و ذاکرہ سے سامعین کے سامنے نقل فرمائے تھے۔ جن کا حاصل یہ ہے کہ حضرت بنوری رحمہ اللہ بینکوں کی اسلام کاری کے لیے بلا قید وشرط مذاہبِ متبوعہ کی طرف چلے جانے کی نہ صرف اجازت دیتے تھے، بلکہ غیرمتبوع اور مرجوح قول سے استفادہ کی ایک گونہ ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: حضرت بنوری رحمہ اللہ نے اس بابت ’’بینات‘‘ میں اداریئے لکھے تھے۔ 
دوسرایہ کہ کراچی میں ’’اسلامک کوآپریٹیوبینک ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ کھلا تھا جس کا حضرت بنوری رحمہ اللہ نے افتتاح فرمایاتھا، اور ’’بینات‘‘میںادارے کے کارپردازوں کی حوصلہ افزائی، تحسین اورتشجیع بھی فرمائی تھی،باوجودیکہ اس ادارے کے تمویلی طرق مکمل اسلامی نہیں تھے، بلکہ کئی امور قابلِ اشکال بھی تھے،اس اجمال کی تفصیل آنجناب نے اپنے خط میں بطور تقریری اقتباس کے نقل فرمائی ہے۔
بلاشبہ حضرت بنوری رحمہ اللہ نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے فکر مند تھے، وہ بینکوں کی اصلاح واسلام کاری کے لیے کوشاں بھی رہے،اجتہادِ قدیم پر اجتہادِ جدید بھی آپ کا موضوع رہا، تمدنِ جدید کی تباہ کاریوں سے اُمت کی حفاظت بھی آپ کا مشغلہ رہا،مغرب اور مغرب زدہ طبقے سے علمی وقلمی نبرد آزمائی بھی آپ کا معمول تھا، تحقیق اورتجدیدِ فقہ کے نام پر اسلام کا ’’جدید ایڈیشن‘‘ تیار کرنے والے تحقیقاتی اداروں سے ہمیشہ آپ محاذ آراء بھی رہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ اس موضوع پر حضرت بنوری رحمہ اللہ نے ماہ نامہ ’’بینات‘‘ میں اداریئے لکھے، بلکہ اس کے علاوہ متعدد مضامین ومقالات بھی تحریر فرمائے تھے، جو بحمد اللہ! محفوظ بھی ہیں اور موجود بھی ۔
مزید برآںان ہی مقاصد کے لیے آپ نے’’ مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ‘‘ بھی بنائی تھی، اس مجلس کی تاریخی روئیداد ، تحقیقی اُصول اور مسائلِ جدیدہ سے بحث ومباحثہ کے بنیادی قواعد کا بیان بھی بڑی تفصیل کے ساتھ علمی وتاریخی دستاویزات کے طور پر حضرت کے ادارے میں بحمداللہ! موجود اور محفوظ ہے۔ بالخصوص بینک کے سود، انشورنس یا اس نوعیت کے جدید کہلانے والے دیگر مسائل کے حل کے لیے حضرت بنوری رحمہ اللہ نے کہیں مختصر اور کہیں طویل، اُصول ومبادی ذکر فرمائے ہیں، ان اصول ومبادی کی موجودگی میں حضرت بنوری رحمہ اللہ کے معاشی افکار یابینک کاری تصور کے بارے میں کسی قسم کے خلجان کے بغیر صحیح رائے قائم کرنا بہت ہی آسان ہے۔
حضرت بنوری رحمہ اللہ کے تحریر فرمودہ یہ اُصول جب خود حضرتؒ کے قلم سے دستیاب ہیں تو ہمیں براہِ راست ان تحریروں سے استفادہ کرلینا چاہیے، ان تحریروں میں حضرت کا موقف، نظریہ اور تصورِ بینک کاری خوب واضح انداز میں لکھا ہوا ہے۔ اگر حضرتؒ کی یہ واضح تحریریں سامنے ہوں تواجتہادِ جدید،مسائلِ جدیدہ ، جدت وقدامت، تنگ نظری ووسعت نظری اور جدیدیت واباحیت کے حوالے سے حضرت بنوری رحمہ اللہ کے رجحانات وخیالات کی بابت رائے قائم کرنے میں کوئی دشواری ہوگی اور نہ ہی کسی کو تشویش ہوگی۔ اگر کہیں خلجان ،نسیان یا غلط فہمی ہوتو اس کا ازالہ بھی ہوسکتاہے۔اس لیے کہ حضرتؒ سے متعلق آپ کے اشکال جیسا اشکال حضرت بنوری رحمہ اللہ کی حیات میں بھی پیش آیا تھا، جب ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے بعض لوگوں نے حضرتؒ کی کسی تقریر کو اپنی تحقیقات وتجدیدات کی تائید قرار دیا تھا، اس پر حضرتؒ نے خود اس کا جواب بھی دیاتھا،وہ تفصیلی ارشاد اور اس نوعیت کے دیگر ارشادات بھی کسی تفصیلی نشست میں عرض کریں گے، یہاں اختصار کے ساتھ آپ کی تشویش سے متعلق صرف چند ارشادات عنوانات کے اضافے کے ساتھ پیشِ خدمت ہیں ،ملاحظہ ہو ں:

فقہِ اسلامی کا موجودہ ذخیرہ کافی ہے، اجتہادِ مستقل کی ضرورت نہیں

۱:… ’’ فقہِ اسلامی کا یہ ذخیرہ ہمارا بڑا قیمتی سرمایہ ہے اور جہاں اس کی حفاظت کی ضرورت ہے ساتھ ہی ساتھ اس پر عمل کرنا اور اس سے منتفع ہونا بھی ہمارا فرض ہے۔منتفع ہونے سے میرا مقصد یہ ہے کہ جدید تمدن نے جو بہت سے جدید مسائل پیدا کردئیے ہیں، اب اسی فقہِ اسلامی کی روشنی میں اس کاحل تلاش کرنا چاہیے۔ اس سرمایہ کے ہوتے ہوئے اُمت کو نہ جدیدمستقل اجتہادکی ضرورت ہے اور نہ اس کا امکان۔ اس عظیم الشان ذخیرہ میں بحث وتلاش اور غوروخوض کے بعد جدید مسائل کے حل کرنے کا بہت سامان مل جائے گا ،ورنہ زیادہ سے زیادہ بعض جزوی مسائل میں علماء امت کو ان ہی کے بتائے ہوئے اُصولوں پر جدید اجتہاد کی ضرورت ہوگی۔‘‘

دشواری، ابتلاء عام، عمومِ بلویٰ کے پیشِ نظر فقہ حنفی سے عدول کیا جاسکتا ہے، مگر مذاہب کی ترتیب اور تتبُّعِ رخص وتلفیق سے احتراز کی شرط کے ساتھ

۲:…’’ اگر مسئلہ مطلوبہ سب فقہاء کے ہاں ملتا ہے، لیکن حنفی مذہب میں دشواری ہے اور بقیہ مذاہب میں نسبتاً سہولت ہے اور عوام کا عام ابتلاء ہے تو اخلاص کے ساتھ جماعتِ اہلِ علم غور کرے، اگر ان کویقین ہوجائے کہ عمومِ بلویٰ کے پیشِ نظر عصرِ حاضر میں دینی تقاضا سہولت وآسانی کا مقتضی ہے تو پھر مذہبِ مالکؒ، مذہبِ شافعیؒ، مذہبِ احمدؒ بن حنبل کو علی الترتیب اختیار کرکے اور اس پر فتویٰ دے کر فیصلہ کیا جائے۔
ہمارے عصرِ حاضر کے اکابر نے فسخِ نکاح کی مشکلات کواسی طرح حل کیا ہے اور متأخرین حنفیہ نے ’’مفقودُ الخبر‘‘میںبھی ایسا ہی کیا ہے ،البتہ تلفیق سے احتراز کرنا ضروری ہوگا اور ’’تتبُّعِ رخص‘‘کو مقصد نہ بنایاجائے گا۔‘‘

موجودہ فقہی ذخیرہ کافی ہے، اجتہادِ جدید اور تتبُّعِ رخص پر قوم کو آمادہ کرنا تدبیرِ طفلانہ ہے

۳:… ’’جوفریضہ علماء امت کے ذمہ ایسے حالات میں عائد ہوتا ہے‘ ان سے سبکدوش ہوجائیں۔ نہ جدید اجتہاد کا دروازہ کھولناہے نہ ’’تتبُّعِ رخص‘‘پر قوم کو آمادہ کرناہے،نہ ترکِ تقلید کی بنیاد رکھنا ہے، بلکہ یہ سمجھنا ہے کہ’’قرآن وسنت‘‘اور اس کے بعد’’فقہ اسلامی‘‘اور’’تفقہ فی الدین‘‘کے ذریعہ ساری مشکلات حل ہوسکتی ہیں اور فقہاء اسلام اور فقہ اسلامی سے بے نیاز ہوکر دینِ اسلام کی حفاظت کی تدبیر طفلانہ خیال ہے۔ فقہاء کرام نے دین کی بڑی خدمت کی ہے، ایک ہزار برس کے بعد بھی دنیا ان کی جلیل القدر حیرت انگیز خدمات سے مستغنی نہیں ہوسکتی، بلکہ قیامت تک ان کی منت پذیر رہے گی ۔‘‘ (بینات: ربیع الثانی ۱۳۸۳ھ مطابق ستمبر ۱۹۶۳ئ۔ جلد: ۲، عدد: ۴، ص: ۱۹۴ تا ۱۹۸)

مسائلِ شرعیہ کے نام پر ’’تتبُّعِ رخص ‘‘اور ’’تلفیق بین المسائل‘‘ پر قناعت دھوکہ ہے اور شریعت کا کھلواڑ ہے

۴:… ’’بہرحال اب بھی ہم ان تمام زیرِ بحث مسائل میں اپنا نظریہ پیش کرنے کے لیے تیار ہیں اور آپ سے اتنی توقع ضرور رکھتے ہیں کہ مسائلِ شرعیہ میں صرف ’’رخصتوں‘‘ کا تتبُّع اور ’’تلفیق بین المسائل‘‘ پر قناعت کرکے اس دھوکہ میں نہ پڑجائیے کہ ہم نے شریعت کا دامن پکڑ رکھا ہے اور اس طرح دینِ مبین کو ’’کھیل بنالینے‘‘ کی غلطی کے مرتکب نہ ہوجائیے، أعاذنا اللّٰہ منہ۔‘‘ (بینات: صفر ۱۳۸۴ھ مطابق جولائی ۱۹۶۴ئ، جلد:۴، شمارہـ: ۲، ص: ۷۵ تا ۹۳)

پیش آمدہ مسئلے کے لیے قولِ شاذ (مرجوح رائے) اور خلافِ اجماع کو لینا‘ اجتہادِ جدید اور مذاہبِ اربعہ سے خروج ہے

۵:… ’’جب کسی پیش آمدہ مسئلہ کاحل مذاہبِ اربعہ میں سے کسی میں موجود ہو ،بشر طیکہ وہ رائے شاذ اور اجماعِ امت کے خلاف نہ ہو توہمیں اسی کو اختیار کرنا ہوگا، تاکہ اجتہادِ جدید اور مذاہبِ مجتہدین سے خروج کی ضرورت نہ رہے ۔‘‘

شدید اضطرار کے بغیر فقہ حنفی سے عدول نامعقول ہے

۶:… ’’چونکہ ہمارے ملک میں حنفی مسلک رائج ہے ،اس لیے بدون شدید اضطرار کے بلاوجہ اس سے نکلنااور ’’رائے عامہ ‘‘کو خواہ مخواہ پریشان کرنا غیر معقول ہوگا۔‘‘

حلِ مسائل کا ایسا طرزِ عمل جو نصوص کو غیرمعمول بہ بنادے اور خلافِ اجماع ہو، اس کی آخری منزل الحادو تحریف ہے

۷:… ’’جن مسائل میں نصوصِ قطعیہ موجود ہوں، وہ ہر دور میں دائرۂ اجتہاد سے خارج ہیں، اجتہاد صرف ان مسائل تک محدود ہے جو نہ منصوص ہوں نہ اجماعی، اس لیے اس کی گنجائش نہیں کہ کسی حکم کی علت، مصلحت یاحکمت تراش کر اُسے ایسے طور پر مدارِحکم قرار دے لیاجائے کہ اس سے نص کا غیر معمول بہ ہونا یا اجماعِ امت کاباطل ہونالازم آئے۔ یہ طرزِ عمل تقریباً الحادوتحریف سے جاملتا ہے اور بہت سے لوگ جہل یاعناد کی بناپر اس کے مرتکب ہیں۔‘‘

حلِ مسائل میں مذاہبِ فقہاء سے چھانٹ چھانٹ کر رخصتیں تلاش کرنا ’’خروج عن الدین‘‘ کے مرادف ہے

۸:… ’’مذاہبِ مختلفہ کو ملانے (تلفیق) اور اضطراری حالت کے بغیر مذاہبِ فقہاء سے چھانٹ چھانٹ کر رخصتوں کو تلاش کرنے سے پرہیز کیا جائے ، کیونکہ یہ دین ہی سے نکل جانے کے مرادف ہے۔‘‘

تمدنِ جدیدکے تقاضوں کو اضطرار کے بہانے‘ اسلامی معاشرے میں فٹ کرنا محرمات کا اسلامی متبادل نہیں ہے

۹:… ’’جدید تمدن کی بدولت غیر اسلامی ممالک میں بیشترایسے قوانین رائج ہیں جو روحِ اسلام کے منافی اور قطعیاتِ اسلامیہ سے ٹکراتے ہیں ،انہیں ’’اضطرار‘‘کے بہانے سے اسلامی معاشرے میں جوں کاتوں فٹ نہ کیاجائے ،بلکہ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اسلام میں اس کاجو ’’بدل‘‘موجود ہے‘ اسے اختیار کیا جائے ،مثلاً،’’بینک کا سود ‘‘،’’بیمہ‘‘ اور’’کمیشن ایجنسی‘‘ کامسئلہ ہے کہ اسلام میںاس کابدل’’ شرکت‘‘،’’قراض‘‘اور ’’کفالت‘‘ وغیرہ کی صورت میں موجود ہے، جس کے ہوتے ہوئے ان حرام امور کے ارتکاب کی ضرورت نہیں رہتی ۔
اشکال کی جڑ(بنیاد)یہ ہے کہ ہم غیر اسلامی قوانین کو ان میں رتی بھر تبدیلی کیے بغیر اسلامی اُصول پر منطبق کرنے بیٹھ جاتے ہیںاور جب وہ فٹ نہیں ہوتے تو گمان کر لیا جاتاہے کہ اسلام معاذاللہ! جدید دور کے ساتھ قدم ملاکر چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔‘‘

نئے مسائل کے حل کے لیے الجاء واضطرار اور عیش پرستی وزراندوزی کے درمیان شرعی فرق کو نظر انداز کرنا مضحکہ خیزی اور ماتم انگیزی ہے

۱۰:… ’’الجاء واضطرار کے درمیان اور عیش پرستی، زراندوزی اور امیرسے امیر تر بننے کی حرص کے درمیان جو نمایاں فرق ہے، اُسے ملحوظ رکھناچاہیے، ایک بھوکاننگافاقہ کش ہے ،جسے قوت لایموت بھی میسر نہیںاور ایک وہ امیر کبیر ہے جس کا گھر طرح طرح کے اسبابِ تنعم سے پٹاپڑاہے ،مگر اس کی حرص کی جہنم کو صبر نہیں ،یہ کتنابڑاظلم ہو گاکہ دونوں کاحکم یکساں قرار دیا جائے ،پہلی صورت اضطرار کی ہے (جس میں سدِ رمق تک مردار کھانے کی بھی اجازت ہے) اور دوسری اسراف وتبذیر کی (جس کے لیے مجبوری کابہانہ مضحکہ خیز نہیں تواور کیا ہے)اور کم فہمی (اسی طرح کے )مضحکہ خیز لطیفوں بلکہ ماتم انگیز حادثوں کو جنم دیا کرتی ہے ،حق تعالیٰ رحم فرمائے اس پر جو انصاف سے کام لے ۔‘‘  (بینات:محرم الحرام ۱۳۸۸ھ مطابق ۱۹۶۸ئ، جلد:۱۲، شمارہ:۱، ص:۱۹ تا ۳۹)
حضرت محدث العصر شیخ بنوری رحمہ اللہ کے ان ارشادات کی روشنی میں ان کے ’’بیان کردہ موقف‘‘ کا جائزہ لیا جائے تو اس پر اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’بیانِ مذکور‘‘ میں حضرت بنوری رحمہ اللہ کی رائے مکمل طور پر نقل نہیں ہوسکی، بلکہ ادھوری رہ گئی ہے۔ حضرت بنوریؒ کے ارشادات کے مطابق بینک کاری کی اصلاح کے دوران مذاہبِ اربعہ متبوعہ سے استفادے کے لیے حضرت بنوریؒ کے ہاں کم از کم پانچ سلبی اور پانچ ایجابی شروط کا لحاظ لازمی قراردیا گیا تھا۔ 

ایجابی شرطیں

۵؍ ایجابی شرطیں یہ ہیں:
۱:… دشواری            ۲:… ابتلاء عام
۳:… عمومِ بلویٰ کا تحقق         ۴:… اضطرار اور عیش پرستی کے درمیان فرق کا لحاظ
۵:… مذاہبِ اربعہ کی ترتیبِ زمانی کی رعایت۔

سلبی شرطیں 

جبکہ پانچ سلبی شرطیںیہ بتائی گئی تھیں: 
۱:… اجتہادِ جدید نہ ہو         ۲:… تتبُّعِ رُخص
۳:… تلفیق بین المسائل         ۴:… قولِ شاذ
۵:… خلافِ اجماع (قولِ مرجوح) کا محظور نہ پایا جاتا ہو۔
اگر کہیں یہ ایجابی وسلبی شرطیں ملحوظ نہ رکھی گئی ہوں تو وہاں حضرت بنوری رحمہ اللہ کے نظریئے کے مطابق مذاہبِ متبوعہ سے بے دریغ اور بلاامتیاز استفادے کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔
باقی جہاں تک حضرت مفتی صاحب مدظلہم کے دوسرے ارشاد کا تعلق ہے، غالباً یہ ارشاد‘ جناب شیخ ارشاد احمد مرحوم کے پیش کردہ نظامِ بینک کاری سے متعلق ہے، اس نظام میں کیا خوبیاں اور خامیاں تھیں؟! اس کی پڑتال کے لیے موصوف کی تحریر کردہ کتاب ’’بلاسود بینک کاری‘‘کے نام سے دستیاب ہے ، اس کی عملی شکل اور جزوی سقم سے قطع نظر بینک کاری کی نظریاتی اور فکری بنیادیں تقریباً وہی ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے اکابر‘ بینکوں کی اصلاح واسلام کاری کے متمنی وخواہاں تھے، اور وہ بنیادیں ہیں: ’’سودی بینک کاری کی نقالی کی بجائے شرکت و مضاربت پر مبنی تجارتی ادارے کا قیام‘‘ اگر اس پوری کتاب کوکھنگالا جائے تو ’’میزان بینک واخواتہا‘‘کے طرقہائے تمویل (نام نہاد مرابحہ ، اجارہ اور شرکتِ متناقصہ)کادور دور تک اشارۃً ،کنایۃً یا صراحۃً نام ونشان بھی نظر نہیں آئے گا۔
اس وضاحت سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اکابر بالخصوص حضرت بنوری رحمہ اللہ کے ہاںبینک کاری کی اصلاح واسلام کاری کانظریہ، شرکت ومضاربت پر مبنی حقیقی تجارتی ادارے کے گرد گھومتاتھااور اسی نوعیت کی کاوشوں کو وہ سراہا کرتے تھے،جب کہ ہم اپنے معاصر علمائے کرام کے جن ’’بینک کاری ماٰثر‘‘ کو قابلِ تنقید سمجھتے ہیں‘ وہ بزرگوں کے تصور سے جدا دکھائی دیتے ہیں۔ بزرگوں کے ہاں تو بینک کا متبادل ایسا ادارہ سمجھاجاتاتھا جو قرضوں کے کاروبار میں بینک کی نقالی کی بجائے حقیقی تجارت کے ذریعے حقیقی نفع اندوزی کرکے نفع کی منصفانہ تقسیم کرے، ادھرتو معاملہ اس کے برعکس دکھائی دے رہاہے۔ یہاں روایتی بینک کاری کے سودی قرضے کو اپنے تمام ظواہر وخصائص کے ساتھ ’’مرابحہ مؤجلہ‘‘ کانام دیاگیا ہے اور روایتی لیزنگ کو ’’کاراجارہ‘‘ جبکہ ہاؤس فائنانس کی رائج الوقت شکل کو ’’شرکتِ متناقصہ ‘‘قرار دیاگیا ہے ۔
پس بینکوں کی اسلام کاری کی حالیہ شکلیں اور ان شکلوں میں اسلامی رنگ بھرنے کے لیے اپنائے گئے طور طریقے اکابر کی مطبوعہ تحریروں میں ہمیں چونکہ نہیں ملتے، اس لیے بینک کاری کی مروجہ اسلام کاری کو اکابر کی طرف منسوب کرناہمیں قابلِ اشکال لگتاہے، اور ہم اکابر کے نسبت بردار ہونے کے ناطے ماہ نامہ ’’بینات‘‘ میں وقتاً فوقتاً نام نہاد اسلامی بینک کاری اور انشورنس کے تکافلی نام کے بارے میں کچھ نہ کچھ عرض کرتے رہتے ہیں۔
 بنا بریں اگر اکابر نے اپنے دور میں بینکوں کی اصلاحی فکر وکاوش کی جہاں تحسین وتشجیع فرمائی ہو تو اسے بینکوں کی اسلام کاری کی حالیہ مسخ شدہ شکل کی بجائے ان کے اپنے دور کے بینک کاری تصور کے ساتھ ملحق کرنا زیادہ صاف، شفاف اور سہل ہے۔
باقی جہاں تک بزرگوارِ گرامی حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب زیدمجدہم کے ذکر کردہ بیان کا تعلق ہے،ان کی تغلیط وتردیدکی چنداں حاجت نہیں، جیسا کہ اوپر عرض کرچکے ہیں کہ ان کی آدھی مجمل بات‘ تاویل وتفصیل کے ساتھ درست قرار دی جاسکتی ہے ، وہ یوں کہ بلاشبہ حضرت بنوری رحمہ اللہ بینک کاری کی اصلاح واسلام کاری کے لیے فکر مند وکوشاں ضرور تھے، مذاہبِ متبوعہ سے استفادے کی گنجائش بھی بتاتے تھے، مگر ان قیود، شروط اور تفاصیل کے ساتھ جو درج بالا اقتباسات میں درج ہیں، اگر حضرت اقدس مخدوم مکرم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم کے بیان میں حضرت بنوریؒ کی تحریر کی قیود وشروط بیان کرنے سے رہ گئی ہوں تو اسے اُن کی بزرگی کے احترام میں اس نسیان وذھول کا حصہ قرار دیاجاسکتا ہے، جس کا اظہار خود حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم کے بعض بیانات میں ملتا ہے، اور مختلف مسائل میں اس کا ظہور بھی ہوا ہے، جوکسی بھی طور پر قابلِ نقد یاموردِ الزام نہیں بن سکتا،کیونکہ عزم وجزم کے بغیر خطأ و نسیان، عصمتِ انبیائ( علیہم الصلوۃ والسلام ) کے منافی نہیں ہے تو اسے ولایتِ اولیاء پرکیسے اثر انداز کہا جاسکتا ہے؟ بلکہ ایسے سہو ونسیان کے بعد بھی نبی کی عصمت اور ولی کی ولایت بے غبار ہی رہتی ہے، اصطفائی مقام اور اجتبائی رتبے پر حرف گیری ممنوع ہی رہتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’إِنَّ اللّٰہ اصْطَفٰی أٰدَمَ وَنُوْحًا وَّأٰلَ إِبْرَاہِیْمَ وَ أٰلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ۔‘‘ (آل عمران:۳۳)
’’وَلَقَدْ عَہِدْنَا إِلٰی أٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْماً۔‘‘ (طہٰ:۱۱۵)
’’فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ إِذْ نَادٰی وَہُوَ مَکْظُوْمٌ ۔ لَوْلَا أَنْ تَدَارَکَہٗ نِعْمَۃٌ مِّن رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَائِ وَہُوَ مَذْمُوْمٌ۔ فَاجْتَبَاہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصَّالِحِیْنَ۔‘‘ ( القلم:۴۸،۴۹،۵۰)

فقط والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کتبہ
 بندہ: رفیق احمد بالاکوٹی
 جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
 ۱۵؍رجب المرجب ۱۴۳۹ھ
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین