بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلام کی اَساس کو مٹانے کی کوشش!

اسلام کی اَساس کو مٹانے کی کوشش!

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے تسلط کے بعد سے ہی جو ملکی حالات اَبتر ہونا شروع ہوئے آج تک وہ سنبھلنے میں نہیں آرہے۔ پشاور، کوئٹہ، کراچی، لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد کے علاوہ ملک کے کئی ایسے نامور شہر ہیں جو خودکش حملوں، بم دھماکوں، قتل وقتال، لوٹ کھسوٹ اور ٹارگٹ کلنگ کے طوفانِ بلاخیز کے تھپیڑوں میں جَکڑے ہوئے ہیںاور ان سے نکلنے کی تاحال کوئی سعی و کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ۔ اس لیے کہ ۲۷؍ مارچ۲۰۱۶ء بروز اتوار شام کے وقت لاہور کے گلشن اقبال پارک میں مبینہ ایک اور خودکش دھماکہ ہوا، جس کی زَد میں آکر ۷۰؍ سے زائد افراد شہید اور ساڑھے تین سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پچھلے بارہ سال میں لاہور تین درجن سے زائد دھماکوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ اس دھماکے میں بھی سب سے زیادہ شکار خواتین اور بچے بنے جو اتوار کی چھٹی گزارنے کے لیے اس پارک میں سیر و تفریح اور جھولے جھولنے کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔ دھماکہ کے بعد افراتفری پھیلنے سے اکثر بچے والدین اور سرپرستوں سے بچھڑگئے اور ان میں سے کئی ایک پاؤں تلے روندے جانے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ یہ وہی پارک ہے جس میں ایک ہفتہ بعد وفاق المدارس العربیہ کے تحت استحکامِ مدارس وپاکستان کانفرنس ہونا تھی، جس کی ابتدائی تیاریاں بھی کی جاچکی تھیں، لیکن وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ نے ان شہداء کے ورثاء سے اظہار یکجہتی اور ملکی حالات کے پیش نظر اس کانفرنس کو غیر معینہ مدت تک کے لیے مؤخر کردیا اور ۳۱؍ مارچ ۲۰۱۶ء کو استحکامِ پاکستان ویومِ دعا کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ ہر باشعور اور سلامتیِ فکر کا حامل شخص جانتا ہے کہ یہ مدارس اور ان میں تعلیم وتعلم میں مصروف لوگ سب سے زیادہ ملکی سلامتی اور استحکامِ پاکستان کے متمنی اور کوشاں ہیں اور اس کے لیے صبح وشام اپنے رب سے دعائیں اور التجائیں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک مخصوص لابی ہمیشہ ان کے خلاف تہمتیں اور غلط پروپیگنڈے کرکے ان کو موردِ الزام ٹھہراتی آرہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے حکومتی حلقوں کی طرف سے ایک اشتہاردیا گیا اور اس میں تصاویر کے ذریعہ یہ دکھلانے کی کوشش کی گئی کہ دہشت گرد کیسا ہوتا ہے؟ اس میں دہشت گرد کی جو تصویر دکھائی گئی، اس میں داڑھی اور پگڑی کو خوب واضح کیا گیا کہ دہشت گرد ایسے حلیہ کا ہوتا ہے، نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ اور اب اس دھماکہ میں شہید ہونے والا محمد یوسف جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس پارک میں سیروتفریح کی غرض سے آیا تھا، شناختی کارڈ اس کی جیب میں تھا، محض اس کے چہرہ پر داڑھی ہونے کی وجہ سے اس کو خودکش حملہ آور باور کرایا گیا۔ اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ کہ جن اداروں میں وہ پڑھتا رہا، اُن داروں کی کردار کشی کی گئی، ان پر چھاپے مارے گئے، منتظمین کو خوفزدہ کیا گیا، محمد یوسف کے آبائی علاقہ کا محاصرہ کرکے ان کے چار بھائیوں کو گرفتار کرکے انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا، ان کے عمر رسیدہ والدین جو عمرہ پر گئے ہوئے تھے ان کو گالیاں دی گئیں، یہ تو اللہ بھلا کرے اس کے ساتھی محمد یعقوب کا جو اس حملہ میں زخمی ہوا، اس نے بتایا کہ ہم تین دوست گھومنے آئے تھے، ہم نے نماز پڑھی، کھایا پیا، اچانک خوفناک دھماکہ ہوا، اور میرا دوست ہمیشہ کے لیے مجھ سے بچھڑ گیا۔ یہ بات لوگوں کی دلچسپی کا باعث بنی رہی کہ خودکش تو مارا گیا، لیکن اس کا شناختی کارڈ ایسا آگ اور بم پروف تھا کہ وہ جلنے سے بچ گیا۔ اگرچہ بعد میں تحقیقاتی اداروں نے محمد یوسف کو کلئیر قرار دے دیا، لیکن اس سے اتنی بات تو ثابت ہوگئی کہ ملک کے مقتدر اداروں میں اور میڈیا میں ایک متعصب اور انتہا پسند طبقہ موجود ہے جو دہشت گردی کو مذہب اور دینی مدارس سے جوڑنے پر کمربستہ دکھائی دیتا ہے اور یہ لادین اور مذہب بیزار طبقہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور حکام وقت پر اتنا حاوی ہوچکا ہے کہ جو چاہے ان سے منوالے۔ کچھ عرصہ قبل تک پاکستانی عوام یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ اچانک ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ملکی معیشت سے سودی کاروبار اور لین دین ختم کرنے سے انکاری ہورہے ہیں؟ لبرل ازم کا نعرہ لگا رہے ہیں، ہندؤوں کے مذہبی تہواروں میں شمولیت ہورہی ہے، ہندؤوں کے ہاتھوں اپنے اوپر رَنگ پھینکوانے کی خواہش کا اظہار ہورہا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے نام کی چھٹی منسوخ اور ہندؤوں وعیسائیوں کے مذہبی تہواروں کی چھٹی کی قومی اسمبلی سے قرارداد پاس کرائی جارہی ہے۔ سندھ حکومت نے ہندؤوں کے تہوار کی چھٹی بھی دے دی ہے۔ اور ایک جماعت کا لیڈر برملا کہہ رہا ہے کہ بھارت میں ایک مسلمان صدر بن سکتا ہے تو پاکستان میں اقلیتی کیوں صدر نہیں بن سکتا؟ اسی طرح پنجاب اسمبلی سے آناً فاناً تحفظِ خواتین بل پاس کراکر اس کو قانون کا حصہ بنادیا گیا ہے، جس میں ایک شق یہ بھی ہے کہ پروٹیکشن کمیٹی میں سول سوسائٹی سے چار افراد لیے جائیں گے، یعنی اب براہِ راست این جی اوز کو حکومتی اختیارات مل جائیں گے۔ اسی طرح جدیدیت کے دلدادہ لوگوں کو منظر عام پر لاکر ان کے خلافِ دین اور خلافِ اسلام نظریات کو پروان چڑھایا جارہا ہے اور میڈیا ان کو خوب کوریج دے رہا ہے۔ محبِ دین اور محبِ وطن صحافی حضرات اور علمائے کرام اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس بات کو خوب عیاں کرتے رہتے تھے کہ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے، یہ بیرونی ایجنڈا ہے اور کئی ایک مقاصد کے تحت اُسے مخفی رکھا گیا ہے، لیکن اب یہ بات امریکی تھنک ٹینک نے خود ہی طشت از بام کردی ہے، جس کو ملک کے نامور صحافی اور روزنامہ جنگ کے کالم نگار جناب انصار عباسی صاحب نے ۲۸؍ مارچ ۲۰۱۶ء کو اپنے کالم ’’امریکی پالیسی پیپر نے لبرل ازم کے اصل ایجنڈے کو بے نقاب کردیا‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انہوںنے کہا: امریکا اسلام کو کس شکل میں ڈھالنے کا خواہاں ہے اور کن کن ذرائع، پالیسیوں اور سوچ کے ذریعے اپنے من پسند اسلام کا فروغ دنیا میں کررہا ہے، اس پر کسی سازشی تھیوری یا تجزیہ کی بجائے اس دستاویز پر ہی نظر ڈال لیں جو اس امریکا و یورپ کی پالیسی کا ’’Focus‘‘ہے اور جسے امریکا و یورپ اسلامی ممالک پر مسلط کرنے کے لیے پورے طریقے سے سرگرم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ: میری تو قارئین کرام کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاسی و مذہبی راہنمائوں، فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کے اعلیٰ افسران، پارلیمنٹ کے ممبران اور حکمرانوں کے علاوہ میڈیا کے بڑوں سے بھی گزارش ہوگی کہ اس دستاویز کا ضرور مطالعہ کریں، تاکہ لبرل ازم اور جدت پسندی کے اس بخار کی وجہ کو بھی سمجھا جاسکے جو آج کل کئی دوسرے اسلامی ملکوں کے علاوہ ہمارے حکمرانوں و میڈیا کو بھی چڑھا ہوا ہے اور جہاں اسلام کے نفاذ اور شریعت کی بات کرنے والوں کو بنیاد پرستی اور شدت پسندی کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس رپورٹ کو اس لیے بھی پڑھ کر حیران ہوں گے کہ کس طرح ایک پالیسی کے تحت مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جارہا ہے، تاکہ امریکا کے ورلڈ آرڈر اور مغربی تہذیب کو اسلامی ممالک میں بھی لاگو کیا جاسکے، جس کے لیے اسلام کے اصل کو بدلنا شرط ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھ کر اپنے اردگرد اُن چہروں کو پہچاننے کی بھی کوشش کریں جو اسلام کو امریکا کی خواہش کے مطابق بدلنا چاہتے ہیں۔ لیجیے! آپ بھی اس رپورٹ کو پڑھئے اور سر دھنئے: ’’رینڈ کارپوریشن ’’Rand Corporation‘‘ امریکا کا ایک اہم ترین تھنک ٹینک ہے جو امریکی حکومت کے لیے پالیسیاں بناتا ہے۔ نائن الیون کے بعد رینڈ کارپوریشن کی نیشنل سیکورٹی ریسرچ ڈویژن نے’’Civil Democratic Islam Partners, Resources & Strategies ‘‘کے عنوان سے ۷۲؍ صفحات پر مشتمل ایک پالیسی پیپر تیار کیا، جسے انٹرنیٹ پر اس تھنک ٹینک کی ویب سائٹ پر پڑھا جاسکتا ہے۔ اس پالیسی پیپر کے ابتدا ہی میں بغیر کسی لگی لپٹی یہ لکھا گیا کہ امریکا اور ماڈرن انڈسٹریل ورلڈ کو ایسی اسلامی دنیا کی ضرورت ہے جو مغربی اصولوں اور رولز کے مطابق چلے، جس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں میں موجود ایسے افراد اور طبقہ کی پشت پناہی کی جائے جو مغربی جمہوریت اور جدیدیت کو ماننے والے ہوں۔ ایسے افراد کو کیسے ڈھونڈا جائے؟ یہ وہ سوال تھا جس پر رینڈ کارپوریشن نے مسلمانوں کو چار ’’Categories‘‘ میں تقسیم کیا: پہلی قسم بنیاد پرست ’’Fundamentalists‘‘ جن کے بارے میں رینڈ کارپوریشن کہتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مغربی جمہوریت اور موجودہ مغربی اقدار اور تہذیب کو ماننے کی بجائے اسلامی قوانین اور اسلامی اقدار کے نفاذ کے خواہاں ہیں۔ دوسری قسم قدامت پسند ’’Traditionalists‘‘ مسلمانوں کی ہے جو قدامت پسند معاشرہ چاہتے ہیں، کیونکہ وہ جدیدیت اور تبدیلی کے بارے میں مشکوک رہتے ہیں۔  رینڈ کارپوریشن کے مطابق تیسری قسم ایسے مسلمانوں کی ہے جنہیں جدت پسندی ’’Modernists‘‘ کا نام دیا گیا جو بین الاقوامی جدیدیت ’’Global Modernity‘‘کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں اسلام کو بھی جدید بنانے کے لیے اصلاحات کے قائل ہیں۔  چوتھی قسم ہے سیکولر مسلمانوں ’’Secularists‘‘کی جو اسلامی دنیا سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی مغرب کی طرح دین کو ریاست سے علیحدہ کردیں۔  پہلی قسم کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی تھنک ٹینک کا اسٹریٹیجک پیپر لکھتا ہے کہ بنیاد پرست امریکا اور مغرب کے بارے میں مخالفانہ رویہ رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے ’’Foolnotes‘‘ میں مرحوم قاضی حسین احمد اور جماعت اسلامی کا حوالہ بنیاد پرستوں کے طور پر دیا گیا اور یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ضروری نہیں کہ ’’Fundamentalists‘‘ دہشت گردی کی بھی حمایت کرتے ہوں۔ اس رپورٹ نے امریکی حکمرانوں کو تجویز دی کہ بنیاد پرست مسلمانوں کی حمایت کا کوئی آپشن نہیں۔ قدامت پسند مسلمان رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ اعتدال پسند ہوتے ہیں، لیکن ان میں بہت سے لوگ بنیاد پرستوں کے قریب ہیں۔ امریکی پالیسی رپورٹ کے مطابق اعتدال پسندوں میں یہ خرابی ہے کہ وہ دل سے جدت پسندی کے کلچر اور مغربی ویلوز کو تسلیم نہیں کرتے۔ جدت پسند اور سیکولر مسلمانوں کے بارے میں رپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مغربی اقدار اور پالیسیوں کے قریب ترین ہیں، لیکن رینڈ پالیسی رپورٹ کے مطابق یہ دونوں طبقے ’’Secularists , Modernists‘‘ مسلمانوں میں کمزور ہیں اور نہ ان کو زیادہ حمایت حاصل ہے اور نہ ہی ان کے پاس مالی وسائل اور موثر انفرا اسٹریکچر موجود ہے۔ پالیسی رپورٹ نے اسلامی دنیا میں مغربی جمہوریت، جدت پسندی اور ورلڈ آرڈر کے فروغ اور نفاذ کے لیے کئی تجاویز دیں اور کہا کہ امریکا اور مغرب کو بڑی احتیاط کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اسلامی ممالک اور معاشروں میں کن افراد، کیسی قوتوں اور کیسے رجحانات کو مضبوط بنانے میں مدد دینی ہے، تاکہ مقررہ اَہداف حاصل ہوسکیں۔ ان اہداف کے حصول کے لیے امریکا و یورپ کو پالیسی دی گئی کہ وہ جدت پسندوں ’’Modrnists‘‘ کی حمایت کریں، اس طبقہ کے کام کی اشاعت اور ڈسٹریبوشن میں مالی مدد کریں، ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ عوام الناس اور نوجوانوں کے لیے لکھیں، ایسے جدت پسند نظریات کو اسلامی تعلیمی نصاب میں شامل کریں، جدت پسندوں کو پبلک پلیٹ فارم مہیا کریں، بنیاد پرست اور قدامت پرست مسلمانوں کے برعکس جدت پسندوں کی اسلامی معاملات پر تشریحات، رائے اور فیصلوں کو میڈیا، انٹرنیٹ، اسکولوں، کالجوں اور دوسرے ذرائع سے عام کریں، سیکولر ازم اور جدت پسندی کو مسلمان نوجوانوں کے سامنے متبادل کلچر کے طور پر پیش کریں، مسلمان نوجوانوں کو اسلام کے علاوہ دوسرے کلچرز کی تاریخ پڑھائیں، سول سوسائٹی کو مضبوط کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پالیسی میں امریکا و یورپ کو یہ بھی تجویز دی گئی کہ قدامت پسندوں کو بنیاد پرستوں کے خلاف سپورٹ کریں، ان دونوں طبقوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دیں، پوری کوشش کریں کہ بنیاد پرست مسلمان اور قدامت پرست آپس میں اتحاد نہ قائم کرسکیں، قدامت پسندوں کی دہشت گردی کے خلاف بیانات کو خوب اُجاگر کریں، بنیاد پرستوں کو اکیلا کرنے کے لیے کوشش کریں کہ قدامت پسند اور جدت پسند آپس میں تعاون کریں، جہاں ممکن ہو قدامت پسندوں کی تربیت کریں، تاکہ وہ بنیاد پرستوں کے مقابلہ میں بہتر مکالمہ کرسکیں، بنیاد پرستوں کی اسلام کے متعلق سوچ کو چیلنج کریں، بنیاد پرست طبقوں کا غیر قانونی گروہوں اور واقعات سے تعلق کو سامنے لائیں، عوام کو بتائیں کہ بنیاد پرست حکمرانی کرسکتے اور نہ اپنے لوگوں کو ترقی دلواسکتے ہیں، بنیاد پرستوں میں موجود شدت پسندوں کی دہشت گردی کو بزدلی سے جوڑیں۔ اس پالیسی رپورٹ میں یہ بھی تجویز دی گئی کہ بنیاد پرستوں کے درمیان آپس کے اختلافات کی حوصلہ افزائی کریں، بنیاد پرستوں کو مشترکہ دشمن کے طور پر لیا جائے۔ رینڈ کارپوریشن نے اپنی پالیسی رپورٹ میں امریکا و یورپ کو یہ بھی تجویز دی کہ اس رائے کی حمایت کی جائے کہ ریاست اور مذہب کو جدا کیا جائے اور اُسے اسلامی طور پر بھی صحیح ثابت کیا جائے اور یہ بھی مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اسلام کو ریاست سے جدا کرنے سے ان کا ایمان خطرہ میں نہیں پڑے گا، بلکہ مزید مضبوط ہوگا۔‘‘         (روزنامہ جنگ کراچی ، ۲۸؍ مارچ ۲۰۱۶ئ) اس رپورٹ کو پڑھنے سے اتنا تو اندازہ ہوا ہوگا کہ ہمارے ملک میں میڈیا سے لے کر حکمرانوں تک ، صحافیوں اور اینکروں سے لے کر جدیدیت کے دلدادہ لوگوں تک، مذہبی طبقات کی آپس میں کش مکش سے لے کر سیاستدانوں کا غیروں کے ایجنڈے پر متفق ہونے تک، مدارس ودینی اداروں میں پڑھنے والوں کو شدت پسندی کا طعنہ دینے کے علاوہ ہر دہشت گردی انہیں کی طرف منسوب کرنے تک اور تحفظ خواتین بل اسمبلی سے پاس کرنے سے لے کر ہندوانہ مذہبی رسومات میں شرکت کے جواز تک، بنیاد پرستوں کو مشترکہ دشمن کے طور پر بسنے سے لے کر اسلام کو ریاست سے جدا کرنے کے نظریہ تک، بنیاد پرست طبقوں کا غیر قانونی گروہوں سے تعلق جوڑنے سے لے کر بنیاد پرستوں کے درمیان آپس میں اختلافات کی حوصلہ افزائی تک سب کچھ ایک منصوبے اور پالیسی کے تحت کیا جارہا ہے، گویا عوام کی آنکھوں میں مسلسل دھول جھونکی جارہی ہے اور ان سے جھوٹ بولا جارہا ہے کہ ہم سب عوام اور ملک کے مفاد میں کررہے ہیں، حالانکہ ان سب باتوں کا اسلام، مسلمانوں، اسلامی اقدار اور پاکستان کی سالمیت اور تحفظ سے ذرہ بھر بھی کوئی تعلق نہیں، بلکہ سب کے سب خلافِ اسلام اور خلافِ آئین کام کیے جارہے ہیں، جن کا ان حکمرانوں کو ذرہ برابر بھی کوئی احساس نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پنجاب اسمبلی نے تحفظ خواتین بل ۔۔۔۔۔ جو سراسر قرآن وسنت، اسلامی معاشرہ اور مشرقی روایات کے بالکل برعکس ہے۔۔۔۔۔ بڑی عجلت میں پاس کیا۔ یہ بل کہاں سے آیا؟ کب کا بنا ہوا ہے؟ کہاں کہاں اور کب پاس ہوا؟ قائدِ جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے ان سب باتوں سے پردہ اُٹھاتے ہوئے سکھر میں جامعہ حمادیہ منزل گاہ میں دستارِ فضیلت کانفرنس کے موقع پر ایک بڑے جلسہ عام میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’۔۔۔۔۔۔۔ ہم بھی تشدد کے خلاف ہیں، لیکن تشدد کی آڑ میں حقوقِ نسواں بل لایا گیا ہے، اُسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ جب میرے سامنے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے پوچھا گیا کہ اس قانون کو ڈرافٹ کس نے کیا؟ مسودہ کس نے لکھا؟ تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ دعا کرتا ہوں کہ خدا پاکستان پر کوئی امتحان نہ لائے، اگر کوئی امتحان آیا تو یہی پگڑی، داڑھی والے میدان میں ہوں گے اور اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے اور یہ سیکولر دنیا کہیں بھی نظر نہیں آئے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اس موقع پر انہوں نے گلشن اقبال لاہور واقعہ کے حوالے سے کہا کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آج پاکستان کو این جی اوز کے حوالے کردیا گیا ہے، جو ہر طرف اس طریقے سے کام کررہی ہیں کہ پاکستان کی اسلامی شناخت کو ختم کیا جائے، اب یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ وہ پاکستان کی اسلامی شناخت کو باقی رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ پنجاب کے حقوقِ نسواں بل کے پس منظر کا انکشاف کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ وہ قانون ہے جو ۱۹۹۸ء میں جنوبی افریقا کی پارلیمنٹ نے پاس کیا اور یہ وہ قانون ہے جسے ۲۰۰۵ء میں بھارت کی پارلیمنٹ نے پاس کیا اور یہ وہ قانون ہے جو ۲۰۱۲ء میں قومی اسمبلی میں لایا گیا جس کی جمعیت علماء اسلام نے بھرپور مزاحمت کی اور حکومت کو پسپائی پر مجبور کرتے ہوئے اس قانون کو رُکوایا گیا۔ اگر یہ بل پنجاب اسمبلی نے پاس کیا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام نہیں ہے، تشدد کے خلاف ہم بھی ہیں، گھریلو تشدد پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ جرم ہے، لیکن جو قانون سازی تم کررہے ہو، تم نے اپنی قانون سازی میں تشدد کے لفظ کو متنازع بنادیا ہے۔ گھر کے نظام کو کنٹرول کرنے کے لیے مرد کو، باپ کو، خاوند کو، بڑے بھائی کو جو حق قرآن کریم نے دیا ہے، تم نے وہ حق اپنی قوم کے گھروں سے چھین لیا ہے، تم جو قانون بنارہے ہو اس میں کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ اس کی بیوی یا بیٹی رات دیر سے کیوں آئی ہے؟ کیونکہ بیٹی یا بیوی پولیس کو فون کرکے باپ اور شوہر کو گرفتار کراسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔‘‘                          (روزنامہ جنگ کراچی، بروز بدھ، ۳۰؍ مارچ ۲۰۱۶ئ)     ہم اربابِ حکومت واربابِ سیاست سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ پاکستان دشمنوں نے پہلے ہی پاکستان کو تنہا کردیا ہے۔ وہ افغانستان جس کے لیے پاکستان نے ان کی عوام کے لیے پچیس سال سے زیادہ میزبانی کا فریضہ سرانجام دیا، ان کی عوام کو پناہ دی، اُنہیں روزگار دیا اور عالم اسلام کے علاوہ بیرونی دنیا میں ان کے لیے سفارت کاری کی، وہ بھی پاکستان کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ ہندوستان ایک طرف سرحدوں پر اپنی فوج جمع کیے ہوئے ہے، دوسری طرف افغانستان اور ایران سے اپنے جاسوسوں کو پاکستان میں بھیج رہا ہے، جس کے ثبوت کے لیے گلبھوشن کا یہ اعتراف اور اقرارِ جرم کہ ’’پانچ سو ’’را‘‘ کے ایجنٹ پاکستان میں موجود ہیں‘‘ میڈیا میں آچکا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ایران بھی پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے بجائے بھار ت کی ہمنوائی کی طرف زیادہ جھکا ہوا ہے۔ ان حالات میں آپ پاکستان میں اصل مسائل کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے ہی لوگوں کے خلاف امریکی ویورپی ایجنڈے کو آگے بڑھائیں گے تو پاکستان کو مشکلات میں دھکیلنے کے علاوہ اور کوئی خدمت بجا نہیں لائیں گے۔ اس لیے ہماری درخواست ہے کہ نظریۂ پاکستان کا لحاظ رکھتے ہوئے عوامی اُمنگوں کے مطابق اسلام کے نفاذ کے لیے پالیسی مرتب کریں اور اس کے لیے عملی جدوجہد کریں۔ ان شاء اللہ! پاکستانی عوام آپ کا بھرپور ساتھ دے گی۔ إِنْ أُرِیْدُ إِلَّا الإِصْلَاحَ مَااسْتَطَعْتُ وَمَاتَوْفِیْقِیْ إِلَّا بِاللّٰہِ۔ وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔  

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین