بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اسلام میں یتیم ونادار بچوں کی کفالت

اسلام میں یتیم ونادار بچوں کی کفالت

    معاشرہ میں رہنے والے قبیلے، خاندان اور برادریاں گو بہ طور شناخت ایک دوسرے سے ممتاز ہوتی ہیں، ان کی رہائش، ان کا معاش اور ان کا تمدن جداگانہ ہوتا ہے، تاہم بحیثیت معاشرت سبھی ایک ہوتے ہیں۔ غم اور خوشی میں شریک ہونا ان کا اخلاقی فریضہ ہوتا ہے۔ حوادث ِزمانہ کے تھپیڑے کھائے ہوئے لوگوں کی دیکھ بھال اور ان کی ضروریات کی تکمیل کو وہ اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور کم وبیش سماج کے لوگ اس ذمہ داری کو اس لیے بھی نبھاتے ہیں کہ وہ ان کے لیے گراں بار نہیں ہوتے، لیکن آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ سماج کے یتیم بچوں کی کفالت ہے۔ معاشرہ کے صاحب حیثیت اور متمول حضرات کے بھی قدم اس موڑ پر آکر رک جاتے ہیں، کیوں کہ ان کے سامنے یتیموں کا صرف پیٹ بھرنا ہی ایک ضرورت نہیں، بلکہ ان کی مکمل نگہداشت، تعلیم وتربیت اور ساری ضروریات کی تکمیل ایک لمبے عرصہ کی متقاضی ہوتی ہے۔ یہی سوچ کر گویا ہر ایک اپنے کو بری الذمہ قرار دیتا ہے، جس کے نتیجہ میں ان بچوں کی زندگیاں یوں ہی ضائع ہوجایا کرتی ہیں۔اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، اس میں ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ اللہ پاک نے کسی کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑا۔ ہر ایک کے لیے ایسے اسباب وذرائع مہیا کردیے ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ اللہ کی زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے ایام گزار سکے۔ یتیم ونادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں، ان کی مکمل کفالت، ان کے حقوق کی پاسداری ہے اور ان سے منہ موڑلینا ان کے حقوق کی پامالی ہے۔     یتیم ونادار بچوں کی دو حیثیتیں ہوسکتی ہیں: ۱:۔۔۔۔۔ ان کے پاس مال ہو، ۲:۔۔۔۔۔ ان کے پاس مال تو نہ ہو، لیکن ان کے عصبات، قریبی رشتہ دار یا ذوی الارحام میں سے کوئی موجود ہو۔ پہلی صورت میں یعنی اگر ان کے پاس مال ہے، تو ان کی پرورش وکفالت ان کے مال ہی سے کی جائے گی، خواہ ان کا کفیل کوئی قریبی رشتہ دار یا ذوی الارحام یا کوئی غیر ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری احتیاط کے ساتھ ان کا مال ان پر خرچ کرے اور ان کی تربیت وغیرہ کا بھی خاص خیال رکھے۔ قرآن کریم نے تاکید کی ہے کہ ان کا مال پوری ایمانداری کے ساتھ اُنہیں پر خرچ کرو، اپنی ذات میں ہرگز ان کا مال استعمال نہ کرو: ’’وَلَاتَاکُلُوْا أَمْوَالَھُمْ إلٰی أَمْوَالِکُمْ إِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْراً۔‘‘(النسائ:۲) اور جب بالغ ہوکر سوجھ بوجھ والے ہوجائیں، نفع ونقصان کی تمیز ان کے اندر آجائے تو ان کا مال ان کے حوالہ کردو: ’’فَإِنْ أٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْداً فَادْفَعُوْا إِلَیْھِمْ أَمْوَالَھُمْ۔‘‘ (النسائ:۶)      دوسری صورت جب کہ ان کے پاس مال نہیں ہے، لیکن ان کے عصبات یا ذوی الارحام موجود ہیں، تو پھر ان کی پرورش وپرداخت کے ذمہ دار یہی حضرات ہوں گے، البتہ ان میں یہ ترتیب ہوگی کہ عصبات میں زیادہ حق داروہ ہوں گے جورشتہ میں زیادہ قریب ہوںگے اور اگر عصبات موجود نہ ہوں توذوی الارحام ان کی کفالت کریں گے اور ان میں بھی قریبی رشتہ داری کو ترجیح دی جائے گی:  ’’وإذ لم یکن للحاضن أحد ممن ذکر انتقلت الحضانۃ لذوی الأرحام فی أحد الوجھین وھو الأولٰی، لأن لھم رحمًا وقرابۃً یرثون بھا عند عدم من ھو أولٰی، فیقدم أبوأم، ثم أمھاتہ، ثم أخ من أم، ثم خال۔‘‘        (الموسوعۃ الفقہیہ، ج:۱۷، ص: ۳۰۵)      ہاں! اگر عصبات اور ذوی الارحام میں سے کوئی موجود نہ ہو تو پھر حاکم وقت ان کو کسی مسلمان کے سپرد کردے گا، تاکہ وہ اس کی پرورش کرے اور اس کا خرچ بیت المال برداشت کرے گا:  ’’ثم حاکم یسلمہ إلی من یحضنہ من المسلمین۔‘‘ (الموسوعۃ، ج:۱۷، ص:۳۰۵)      البحرالرائق میں ہے کہ: اگر والدین فقیر ہوں تو باپ لوگوں سے بھیک مانگ کر اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرے گا اور ایک قول یہ ہے کہ باپ کو بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں، بلکہ ان بچوں کا نفقہ بیت المال کے ذمہ ہے:  ’’إن کان فقیرین فعند الخصاف أن الأب یتکفف الناس وینفق علی أولادہٖ الصغار، وقیل نفقتھم فی بیت المال۔‘‘                      (البحرالرائق، ج: ۴، ص: ۲۰۱)      معلوم ہوا کہ مذکورہ ترتیب کے اعتبار سے اگر ان لاوارثوں کی کفالت کے ذرائع موجود نہ ہوں تو ان کی کفالت بیت المال کے ذمہ ہے، لیکن ہندوستان جیسے ممالک میں بیت المال کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کفا لت کا مسئلہ قابل غور ہے۔ بیت الما ل کے بجائے شرعی تنظیمیں الحمد للہ! ہندوستان کے طول وعرض میں کسی نہ کسی شکل میں امت کے مسائل پر نظر رکھ رہی ہیں اور مسلمان اس امارت کے تابع ہوکر احکام شریعت پر عمل کرتے ہیں، لہٰذا اس صورت میں شرعی امارتوں کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ ان یتیم بچوں کی کفالت کا انتظام کرے، خواہ اس کے لیے جوبھی مناسب شکل اختیار کرنی پڑے، مثال کے طور پر ان بچوں کو اپنی تنظیم کے تحت چل رہے کسی ہوسٹل ویتیم خانہ میں رکھ کر ان پر امت مسلمہ کی طرف سے آئی ہوئی مدات خرچ کرے، یا پھر جہاں وہ بچے ہیں وہیں کے کسی فرد مسلم کو متعین کردے کہ وہ ان کی دیکھ ریکھ اور پرورش کرے اور ان بچوں پر خرچ کرنے کے لیے ہفتہ، مہینہ یا سال کے اعتبار سے رقم اس شخص کو ادا کرے۔ غرض بیت المال نہ ہونے کی بنا پر شرعی تنظیمیں ان کا انتظام کریں گی۔     اور اگر شرعی تنظیمیں بھی نہ ہوں یا ان کی طرف سے اس طرح کا انتظام نہ ہوسکتا ہو، تو بھی ایسے بچوں کی کفالت خود اسی علاقہ کے مسلمانوں کے ذمہ ہوگی جہاں اس قسم کے یتیم ونادار بچے ہیں۔ ا للہ پاک نے فرمایا:  ’’مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہٗ لَہٗ أَضْعَافًا کَثِیْرًا۔‘‘  ’’کون ہے جو اللہ پاک کو بہترین قرض دے تاکہ اللہ اس کے لیے اسے اور بھی زیادہ بڑھا دے۔‘‘ ’’یَتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ (الآیۃ) أی قرابۃ کما أن الصدقۃ علی الیتیم الذی لاکافل لہٗ أفضل من الصدقۃ علی الیتیم الذی یجد من یکفلہ۔‘‘  (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، ج:۲۰، ص:۶۹)  ’’عن ابن عباسؓ أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنا وکافل الیتیم لہٗ ولغیرہٖ فی الجنۃ ھکذا وأشار بالسبابۃ والوسطٰی وفرج بینھما شیئًا۔‘‘          (بخاری جلد:۲) ’’ أی ان الیتیم سواء کان الکافل من ذوی رحمہٖ وأنسابہٖ أو کان أجنبیًا لغیرہ یکفل بہٖ۔‘‘     (شرح الطیبی، ج:۱۰، ص:۳۱۷۶، للشیخ شرف الدین الحسین الطیبی، مطبع مکۃ المکرمہ الریاض)     یہ ساری آیات واحادیث گرچہ یتیم کی کفالت کے سلسلہ میں ترغیب وفضائل کی ہیں، تاہم منجملہ ان سے یہ بات ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ اس طرح کے نادار، لاوارث اور یتیم بچوں کی کفالت مسلمانو ں کے ذمہ ہے اور حسب سہولت علاقہ اور محلہ کے افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوگی۔ ان بچوں کو یوں ہی ضائع ہونے نہیں دیا جائے گا۔ اگر کچھ لوگ اس ذمہ داری کو بہ طور کفایہ نبھالیتے ہیں، تو سب بری الذمہ ہوجائیں گے، ورنہ سب کے سب مسئول ہوں گے۔                   (بشکریہ ماہنامہ دارالعلوم، دیوبند)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین