بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلام دین ِرحمت ہے!

اسلام دین ِرحمت ہے!

    بلاشبہ اسلام دنیا میں دین ِرحمت ہے۔ تمام ادیانِ الٰہیہ سماویہ میں رحمت بن کر آیا ہے۔ پوری انسانیت کی ہمدردی کا علمبردار ہے۔ اس کے دامن میں رأفت ورحمت اور اُخوت وشفقت کے وہ پھول ہیں جن سے مشامِ عالم معطر ہے۔ اسلام نے دنیا کو ہمدردی ومحبت کا درس دیا ہے۔ اسلام آنے کے بعد تمام اربابِ ادیان اپنے اپنے مذہب میں اصلاح کرنے پر مجبور ہوئے کہ اسلام کے آفتاب عالمتاب کے بعد وہ اس قابل نہ تھے کہ دنیا کے سامنے منہ دکھا سکیں، حدیث نبوی: ’’لایبقیٰ بیت وبر ولامدر إلا أدخلہ اللّٰہ الإسلامَ بعِز عزیزٍ وذُل ذلیلٍ‘‘۔ ’’کوئی خیمہ اور مٹی کا مکان باقی نہیں رہے گا، مگر اللہ تعالیٰ وہاں اسلام کو داخل کردے گا، کسی معزز کی عزت اور ذلیل کی ذلت کے ساتھ‘‘۔     کا اشارہ اس مضمون کی طرف بھی ہے کہ ہرہر گھر میںاسلام پہنچا اور ہر ہر مذہب نے اس کی خوبیوں سے فائدہ اٹھایا۔ اسلام جانوروں پر بھی رحم کرنے کی تعلیم دیتا ہے     اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے یہ بتلایا کہ ایک پیاسے کتے کو پانی پلا کر بھی جنت حاصل کی جاسکتی ہے اور ایک بلی کو ناحق ایذا دینے سے انسان جہنم میں پہنچ سکتا ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو جانوروں پر بھی رحم سکھاتا ہے اور جانور ذبح کرنے کے لیے چھری تیز کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو دنیا میں مظلوم بننے کو ذریعۂ نجات سمجھتا ہے اور ناقابل ِبرداشت تکالیف ومصائب میں صبر وحوصلہ کی تلقین کرتا ہے اور صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر وثواب کی بشارت سناتا ہے: ’’إِنَّمَا یُوَفّٰی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ‘‘۔انتقام لینے کا حکم اس وقت دیتا ہے جب پانی سر سے گزرجائے اور ظلم حد سے بڑھ جائے، مگر انتقام کی بھی غیر محدود اجازت نہیں دیتا، بلکہ یہ شرط عائد کرتا ہے کہ انتقام‘ ظلم کے مماثل ہو، اس سے متجاوز نہ ہو، ارشاد ہے:’’فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ‘‘ یعنی جتنا ظلم تم پر کیاگیا بس اتنا ہی انتقام لے لو۔ اور ’’جَزَائُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا‘‘ برائی کی سزا اتنی ہی برائی ہے اور اس کے باوجود بھی اعلان فرمایا:’’ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُہٗ عَلٰی اللّٰہِ‘‘ کہ جو شخص درگزر کرے اور درستگی واصلاح کی فکر کرے تو حق تعالیٰ ہی اجر عطا فرمائے گا۔ اسلام کا قانونِ رحمت وعدل     اسلام صرف اس وقت تلوار اٹھانے کا حکم دیتا ہے کہ جب اصلاح کے راستے بند ہوجاتے ہیں، تمام معاشرہ کے تباہ ہونے کا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے اور کوئی توقع خیر کی باقی نہیں رہتی، ہر طرف سے مایوسی ہی مایوسی ہوتی ہے، اس وقت شر وفساد سے عالمِ انسانیت کو بچانے کے لیے تلوار کا حکم دیتا ہے اور پھر بھی یہ اعلان کرتا ہے کہ بچوں کو بچاؤ، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل مت کرو، عبادت گاہوں میں بیٹھے ہوئے عبادت گزاروں سے درگزر کرو۔ کیا موجودہ تہذیب کے مدعی خواہ وہ فرانس ہو یا برطانیہ، امریکہ ہو یا جرمنی، روس ہو یا چین، اسلام کے قانونِ رحمت وعدل کی نظیر پیش کرسکتے ہیں؟ اسلام کی روا داری وانسانی ہمدردی کی کوئی مثال وہاں مل سکتی ہے؟ اسلامی غزوات پر اعتراض کرنے والوں کے روح فرسا کارنامے     دنیا کی جنگِ عظیم دوم نے کیا کیا تباہی نہیں مچائی؟ دو ہزار میل لمبا اور چار سو میل چوڑا میدانِ کار زار گرم ہوا، تیس ہزار ٹینک اور پچاس ہزار ہوائی جہاز انسانی خون کی ہولی کھیلنے کے لیے اُمڈ آئے۔ ۶؍برس تک انسانیت کی وہ مسلسل تباہی ہوتی رہی جس کی نظیر تاریخِ ظلم واستبداد میں نہیں مل سکتی اور جس کے سامنے چنگیز وہلاکو شرمندہ ہیں۔ دس دس، بارہ بارہ گھنٹے مسلسل ہوش ربا بمباری ہوتی رہی، سینکڑوں مربع میل میں نہ کوئی معصوم بچہ محفوظ رہا، نہ کوئی ضعیف وناتواں بوڑھا، بچے، عورتیں اور بے گناہ حیوانات تمام کے تمام ہلاک ہوئے۔ پہلے ہٹلر وہملر وگوبلز ومیسولینی نے یہ کردار ادا کیا، پھر برطانیہ کے چرچل اور امریکہ نے اس درندگی کا ثبوت دیا، تقریباً تین کروڑ نسلِ انسانی تباہ ہوئی اور لاکھوں عورتیں بیوہ ہوگئیں۔ اسٹالن نے کتنے لاکھوں، بلکہ کروڑوں انسانوں کو صرف اپنے عقیدے کمیونزم کی مخالفت کی وجہ سے تہِ تیغ کیا، روس نے سمرقند وبخارا میں کیا کیا؟ فرانس نے الجزائر میں کیاکیا؟ ان مہذب بھیڑیوں اور انسان نما درندوں نے دنیا میں کیا کیا؟ اور کیا کررہے ہیں؟ نسلِ انسانی کو تباہ وبرباد کرنے کے لیے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کے ذخائر جمع کرنے والوں نے پہلے کیا کچھ نہیں کیا؟ اور آئندہ کیا کچھ نہیں کریں گے؟ کیا ان درندوں کے دلوں میں رحمت وانسانیت کا ایک شمّہ بھی موجود ہے؟ کیا ان کو شرم نہیں آتی کہ اسلام کے مسئلہ جہاد اور آنحضرت a کے غزوات پر اعتراض کرتے ہیں؟ جبکہ ان میں دس سال کے عرصہ میں فریقین کے چند سو اَفراد سے زیادہ قتل نہیں ہوئے۔ کفر کی یہ غیر منصفانہ دھاندلی کتنی عجیب ہے کہ خود تو مظلوم اور بے گناہ انسانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے کیا کیا ظلم کررہے ہیںاور حکومتوں کے تختے اُلٹنے اور طرح طرح کے انقلابات لانے کے لیے کیا کیا ستم ڈھا رہے ہیں اور کیا کیا روح فرسا واقعات کرتے رہتے ہیں، لیکن اگر اسلام عدل قائم کرنے کے لیے کسی بدترین مجرم کو قصاص کے طور پر قتل یا زنا جیسے قبیح جرم کے مرتکب کی سنگساری کا حکم دے تو تمام کافر چیخ اٹھتے ہیں کہ یہ عدل وانسانیت کے خلاف ہے۔ اگر عقول یہاں تک مسخ ہوجائیں تو پھر جنوں کاکیا علاج؟ کیا آج کل عدالتیں پھانسی کی سزائیں نہیں دیتیں؟ صد حیف کہ اسلام کے نام سے سزا ہو تو جرم ہے اور اگر غیر اسلامی عدالت سے سزا ہو تو عینِ انصاف ہے: بریں عقل و دانش بباید گریست     اسلام میں تو کفار کی قسمیں ہیں: ۱- حربی کافر، ۲- ذمی کافر، ۳- مستأمن کافر، ۴- مرتد کافر۔ سب کے الگ الگ احکام ہیں، پھر اسی طرح مملکتوں کی اقسام ہیں: ۱- دار الاسلام، ۲- دار الحرب، ۳-دار الامان۔ سب کے علیحدہ علیحدہ شرعی احکام ہیں، بسااوقات ان احکام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ جو کافر میدانِ جنگ میں مسلمانوں سے معرکۂ آرا ہوں، ان کے ساتھ اسلام کا رویہ نسبتاً شدت آمیز ہے۔ اسی طرح وہ کافر جو اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں اور سازشیں کرنے میں مصروف ہوں، ان کے حق میں اسلام کا رویہ سخت ہے اور بلاشبہ اس موقع پر شدت وسختی ہی سراپا حکمت اور عینِ مصلحت ہے، جب ایک مسلمان زانی کے بارے میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَلَاتَأْخُذْکُمْ بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ‘ ‘۔ (النور:۲)  ’’اور دیکھو! زانی مرد وعورت پر اللہ کے دین کا حکم نافذ کرتے وقت تمہیں ان پر ترس نہیں آنا چاہیے‘‘۔     تو مفسد کفار کے حق میں شفقت وروا داری کیونکر جائز ہوسکتی ہے؟ جب کبارِ صحابہؓ اور بدری صحابہؓ کے بارے میں مکمل مقاطعہ کا حکم شرعاً واجب ہوسکتا ہے تو کفار ومرتدین کے بارے میں اگر صحیح سزا کی قدرت نہ ہو تو بدرجہ مجبوری ان کے ساتھ مقاطعہ کیوں اسلامی اصول کے خلاف ہے؟ درحقیقت اسلام کی تمام سزائیں نہ صرف یہ کہ عدل وانصاف کے فطری اصول پر مبنی ہیں، بلکہ خود مجرم کے حق میں عینِ رحمت اور سراپا حکمت ہیں، تاکہ اُسے غور وفکر کا موقع ملے اور اسلام جیسی نعمت سے محروم ہوکر ابد الآباد تک عذابِ الٰہی میں گرفتار نہ ہو۔ اصل اسلام ہی وہ دین ِسماوی ہے جس نے جرم وسزا کے درمیان فطری توازن قائم کرکے انسانیت پر عظیم الشان احسان کیا ہے۔ جو لوگ جرائم پیشہ مفسدین اور کفار ومرتدین کے ساتھ معمولی سختی پر چین بجبیں ہوجاتے ہیں، ان کے نزدیک گویا مسلمانوں کے ساتھ ظلم کرنا تو قابل ِ برداشت ہے، لیکن کافروں اور مرتدوں کے ساتھ سختی کرنا اسلامی عدل وانصاف کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کو فرضی جرائم پر مادر زاد عریاں کرنا، اُنہیں سخت سے سخت سزائیں دینا اور ان سے انسانیت سوز سلوک کرنا تو ان کے نزدیک بالکل انصاف ہے، لیکن موذی محارب کافر کو معمولی سزا دینا بھی اسلام کے خلاف ہے، یعنی اسلام ‘ مسلمانوں کو اتنی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ بددین موذیوں سے قطعِ تعلق ہی کرلیں؟ نہ معلوم عقل وانصاف اور دین ودیانت کا جنازہ کیوں نکل گیا؟ موذی کافر کے ساتھ رحمدلی اور بے گناہ مسلمان کے ساتھ بے رحمی یہ کہاں کا فلسفہ ہے؟ کچھ محسوس ہوتا ہے کہ ایمان کا نور دلوں سے نکل چکا ہے اور کفر کی عظمت ایسی چھا گئی ہے کہ حقائق کی تمیز مشکل ہوگئی ہے۔ اسلام کا دستور     ’’دین ِاسلام یا شریعتِ اسلامیہ‘‘ نام ہے اس عالمگیر نظامِ انسانیت کا جس میں تکمیلِ انسانیت کے کسی گوشہ کونظر انداز نہیں کیاگیا۔ خالق سے رشتہ ہو یا مخلوق سے اور وہ بھی شخصی زندگی سے متعلق ہو یا اجتماعی زندگی سے، غرض عبادات ہوں یا معاملات، معیشت ومعاشرت ہو یا احوال واخلاق واعمال، ان سب کے لیے ایک علمی دستور اور ایک مقصد ونصب العین ہے، دین ِاسلام کا علمی دستور قرآنِ حکیم اور مقصود رضائے الٰہی ہے۔     قرآنِ حکیم انسانیت کی تکمیل چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے اسلام کے بنیادی اصول واحکام اور اساسی اغراض ومقاصد انتہائی محیر العقول اور معجزانہ اسلوبِ بیان کے ساتھ واضح کردیئے ہیں۔ ان مقاصد واحکام کے سلسلۂ بیان میں وہ مظاہرِ فطرت اور آثارِ قدرت کو بھی اگر بیان کرتا ہے تو اس کا مقصود بھی یہی ہے کہ انسان کے فکری اور اعتقادی پہلؤوں کی تکمیل کی جائے۔ اگر وہ تاریخی حقائق بیان کرتا ہے تو اس کی غرض بھی یہی ہوتی ہے کہ ان عبرت انگیز وقائع تکوینی اور آیات الٰہیہ سے انسانی بصیرت واعتبار کی تربیت وتکمیل کی جائے۔ اگر احکامِ الٰہیہ کا ذکر ہوگا تو اس سے بھی یہی مراد ہوگی کہ اشرف المخلوقات انسان کو اکرم المخلوقات بنانے کی تدبیر ہوجائے۔ ذات وصفات کی توحید وکمال کا بیان ہو یا تذکیر وموعظت کی داستان، قانونِ عدل وانصاف کی تنظیم وتفصیل ہو یا اصول واحکام کی تمہید وانضباط، ان سب ہی سے انسان کو انسانیت کی معراجِ کمال تک پہنچانا مقصود ہے۔     قرآن کریم نہ تاریخی کتاب ہے کہ محض واقعات کی تفصیلات ہی بیان کرتا رہے اور نہ طبیعی نوامیس کی تفصیل وبیان پر مشتمل کتابِ طبیعیات ہے کہ محض علمی اور ذہنی عیاشی کے افسانوں میں وقت ضائع کرے، وہ تاریخ کی روح پیش کرتا ہے اور طبیعیات کے عقلی وفکر ی نتائج بیان کرتا ہے جن سے توحید ِ الٰہی، خَلق وربوبیت کے حقائق انسان کے دل ودماغ میں پیوست ہوں اور روح کو پاکیزگی حاصل ہو، تاکہ وہ نظامِ عالم میں خلیفۃ اللہ کے منصب اعلیٰ کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اہل بن جائے۔ قرآن اگر کائنات میں غور کرنے کی دعوت دیتا ہے تو اس کی غرض وغایت یہی ہوتی ہے کہ انسانی ذہن وفکر کے سامنے اللہ تعالیٰ کی معرفت کا راستہ کھل جائے اور اس غور وفکر کے بصیرت آموز نتائج سے ایمان بالغیب کی تائید اور پرورش ہو، اس لیے کہ ان حقائقِ کونیہ اور حقائق الٰہیہ میں غور وخوض سے ایمان قوی ہوگا، وہ ان کی طرف محض علم وفن کی حیثیت سے کبھی دعوت نہیں دیتا کہ محض فن کو مقصد بنالیا جائے۔     قرآن کے بعض جدید مفسرین کو اس سلسلہ میں بڑی غلط فہمی ہوئی ہے، انہوں نے ان موضوعات میں قرآنی مباحث کی تفسیر اور ان مباحث کی غایت وغرض بیان کرنے میں بڑے غلو سے کام لیا ہے اور یہ حقیقت ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے کہ قرآن اگر ان طبیعیات میں غور وفکر کی دعوت دیتا ہے تو اس کا مقصد بھی معرفت ِالٰہی تک پہنچنا ہے اور اگر کسی جگہ ان طبیعی وسائل کو دائرۂ عمل میں لانے کی طرف متوجہ کرتا ہے تو اس کی غرض وغایت یہی ہوتی ہے کہ ان وسائل کو خدمت ِخلق کا ذریعہ بنایا جائے، صرف مال ودولت اور ثروت کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ ظاہر ہے کہ ذات وصفاتِ الٰہی کے بحرِ بیکراں میں شناوری کا صرف یہی ایک راستہ ہے کہ انسان ان حقائق میں غور کرے، تاکہ اس وادی میں اس کی فکر ونظر کی صلاحیتیں زیادہ وسیع ہوں اور اس کے سامنے معرفت ِالٰہیہ کے نئے نئے ابواب کھلیں اور جب اس طرح قلب وروح کی تربیت ہوجائے اور انسانیت کا صحیح شعور بیدار ہوجائے تو عملی دائرہ کا صحیح مقصد بھی خود بخود متعین ہوجاتا ہے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین