بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلام اور سیکولرزم (دوسری قسط)

اسلام اور سیکولرزم

               (دوسری قسط)

دوسرا باب

سیکولرزم کا منصفانہ تجزیہ

سیکولرزم کے پسِ منظر، تعریف وتعارف اور اس کے اغراض و مقاصد پر مفصل روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم مقالہ کے دوسرے باب میں قدم رکھتے ہیں، یہاں پہنچ کر ہم جہاں سیکولرزم کا نہایت دیانت دارانہ تجزیہ کریںگے، وہیں اس تحریک کے نقشہ اور اس کی مذکورہ توجیہات کا قرآن وسنت کی روشنی میں بھرپور جائزہ بھی لیں گے، تاکہ مقالہ کے تیسرے باب میں ایک مناسب لائحۂ عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے سامعین کے ساتھ ہم ایسے جادہ پر گامزن ہوسکیں، جوعقل و حکمت کی رو سے دو ر رس نتائج کا حامل اور نہایت مفید طریقہ کار ہے۔

سیکولرزم اسلام کے آئینہ میں
 

سیکولرزم اور اس کے بانی کی فکر پر مفصل روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم اس مقام پر آچکے ہیں جہاں ہمیں نہایت منصفانہ طریقہ پر اس کااسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لینا ہے، ابھی تک ہم نے اس نظریے کو الگ زاویہ سے دیکھتے ہوئے جس انداز سے بحث کی تھی، اس میں سیکولرزم کامطالعہ کرتے وقت اسلام نظروں سے اوجھل رہا ہے اور ہماری یہ کوشش بھی رہی ہے کہ پہلے سامعین کو یکسوئی کے ساتھ ایک نظریے کو سننے کا موقع دیں اور دونوں کی آمیزش کو حتی الامکان روکے رکھیں، پھر مقالے کے دوسرے باب میں آکر سیکولرزم کی متعدد توجیہات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں بے لاگ تبصرہ کریں، اس سے جہاں سامعین امتیازی عناصر کو منضبط کرتے جائیں گے، وہیں مقالے کے اس باب میں آکر ہمارے قدم سے قدم ملاکر چلیں گے، تو آئیے! اس باب کا آغاز کرتے ہوئے سیکولرزم کی متعدد توجیہات کا اسلام کی روشنی میں علمی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں، پھر لائحۂ عمل کے باب میں آکر ہم ان وجوہات پر بھی واضح انداز میں روشنی ڈالیں گے، جن کی بنا پر ہم نے موجودہ حالات کے اندر سیکولرزم سے ہندوستانی معاشرہ میں سمجھوتا کرنا مفید سمجھا۔

سیکولرزم کی توجیہات کا علمی و تحقیقی جائزہ

جہاں تک ’’ راجیو بھارگوا ‘‘ کی پہلی دو توجیہات کاسوال ہے تو ہم ان کو یہ سوچ کر نظر انداز کردیتے ہیں کہ اس نظریہ کی پوری تاریخ پرایک گہری نگاہ ڈالنے کے بعد سامعین سیکولرزم کے اُس تصور سے متفق نہیں ہوسکتے جو موصوف پہلی اور دوسری شق میں بیان کر رہے ہیں۔ رہی تیسری توجیہ تو اس کاواضح مطلب یہی ہے کہ حکومت اسٹیٹ میں ایسا ماحول پیدا کرے جو آپسی بھید بھاؤ ،مساوات او ر عوام کے درمیان ایک دوسرے کے مذہب کے بارے میں احترام و محبت کے جذبات کو فروغ دے، اجتماعی و معاشرتی طور پر مذہب کو جدا کر کے اسے انفرادی زندگی تک محدود کردے ، اور بقول پروفیسر ’’مجیب ‘‘ کے سیکولر اسٹیٹ کے تمام شہریوں کی یہ خصوصیت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ذاتی و پرائیویٹ زندگی میں چاہے مذہب کی کتنی ہی نمائش کر لیں، لیکن انفرادیت سے تجاوز کرکے وہ معاشرے میں اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے مذہب پر عمل پیرا ہونے کا مطالبہ نہیں کرسکتے ۔ ظاہر ہے حکومت کی ان کوششوں کے دیگر قوموں کی طرح مسلمان بھی مخاطب ہوں گے، اور قانون کی رو سے وہ بھی دوسرے مذاہب کا مکمل احترام کرنے پر مجبور ہوں گے، جبکہ اسلام ایک محدود دائرہ تک ہی اس احترام کی اجازت دیتا ہے جو حسنِ اخلاق کے زمرے میں آئے، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے:
’’وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔‘‘                   (آل عمران : ۱۵۹)
’’اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو لوگ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔‘‘
اسی طرح اسلام غیر مسلموں کے بارے میں نرم رویہ کی بھی تاکید کرتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشٰی۔‘‘                                         (طہٰ : ۴۴)
’’ آپ دونوں جاکر اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا عذابِ الٰہی سے ڈر جائے۔‘‘
اور ان کے ساتھ سبّ وشتم کو ممنوع قرار دیتا ہے، ارشاد ِ خدا وندی ہے:
’’وَلَا تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔‘‘                              (الأنعام : ۱۰۸) 
’’ اور یہ لوگ اللہ کے سوا جن معبودوں کی پرستش کرتے ہیں تم ان کو برا بھلا نہ کہو ۔‘‘
یہ تواسلام کی اخلاقی ومعاملاتی رواداری کی ہدایتیں ہیں، جبکہ وہ ابدی طور پر ہمیں ظالموں اور غیر مسلموں کی طرف ذرا بھی جھکنے سے منع کرتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَا تَرْکَنُوْا إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ۔‘‘                      (ہود : ۱۱۳)
’’ اور جو لوگ ظالم ہیں ان کی طرف ذرا بھی نہ جھکنا ، کبھی تم کو بھی آگ چھو جائے۔‘‘
اور اہلِ ایمان کی یہ علامت بتاتا ہے:
’’لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْأٰخِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا أٰ بَائَ ہُمْ أَوْ أَبْنَائَ ہُمْ أَوْ إِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیْرَتَہُمْ۔‘‘                                 (المجادلۃ : ۲۲)
’’ جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے، اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان کے لوگ ہوں۔‘‘
پھر ہمیں یہ حکم بھی دیتا ہے :
’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی أَوْلِیَائَ۔‘‘ (المائدۃ : ۵۱) 
’’ اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔‘‘
جہاں تک چوتھی توجیہ کا سوال ہے تو اس عبارت سے یہ بات مترشح ہے کہ رعایا انفرادی و اجتماعی طورپر مذہبی ہو یا غیر مذہبی اس سے کوئی بحث نہیں، لیکن حکومت کو سیکولرز م ہر حال میں لادینی دیکھنا چاہتا ہے۔ اس نظریے کا فطری نتیجہ دین و سیاست کی تفریق ہے جس میں دین کو نظر انداز کر کے سیکولرزم سرکاری سطح پر منتخب افراد کو وضعِ قانون کا حق دیتا ہے، حالانکہ یہ بات اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح نہیں کہی جاسکتی، کیونکہ اسلام نہ کسی انسان کو قانون سازی کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی دوسرے انسانوں کا اس قانون کو ماننا برادشت کرتا ہے۔ ا س کے نزدیک قانون ساز صرف خداوند قدوس ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قانون کے شارح وامین ہیں اور انسان محض اتباع کرنے والا ہے۔ وضعِ قانون اور اس کی شرح و وضاحت کا نہ اسے کوئی حق ہے اور نہ ہی وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سیکولرزم منتخب افراد پر مشتمل پارلیمنٹ کو وضعِ قانون کا حق دے کر اسلام کے اس بنیادی عقیدے پر ضرب لگا رہا ہے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہی اس نے دین وسیاست کی تفریق کا نظریہ قائم کیا ہے، تاکہ مذہب کو دل کے نہاں خانوں اور عبادت گھروں کی چہار دیواری میں محدود کر کے جہاں معاشرہ سے اس کی ہوا اُکھیڑ دے، وہیں غیر مذہبی رجحانات کو فروغ دے کر دینی اشاعت کی راہیں بھی مسدود کردے۔ 
دوسرے مذاہب محدود زندگی سے مطمئن ہوکر دین و سیاست کی اس تفریق کو قبول کریں تو کریں ، لیکن جہاں تک اسلام کا سوال ہے، وہ اپنے مکمل نظامِ حیات او ر جامع فکر رکھنے کی بنیاد پر اس نظریے کو ہمیشہ کے لیے قبول نہیں کرسکتا، کیونکہ جہاں وہ انفرادی اور ذاتی زندگی میں اپنی گرفت مضبوط چاہتا ہے، وہیں معاشرہ میں پوری طرح حاوی ہوکر دینی حکومت اور خلافت کی راہیں ہموار کرتا ہے ، وہ حکومت و دین کو جڑواں بھائی قرار دے کر مکمل طور سے یہ صراحت کرتا ہے کہ اسلام عقائد و اعمال کی ایک عمارت ہے، جس کا خلیفہ نگہبان ہے ۔ اسلام بنیاد ہے اور خلافتِ اسلامیہ اس کی پہرہ دار ہے۔ جس عمارت کی بنیاد نہ ہو وہ ڈھے جاتی ہے اور جس چمن کا کوئی نگہبان نہ ہو وہ لوٹ لیاجاتا ہے۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ خلافت و حکومت کو نظرانداز کر کے اسلام کو مکمل قرار دیا جائے:
’’اَلْإِسْلَامُ وَ السُّلْطَانُ أَخَوَانِ تَوْأَمَانِ لَا یَصْلَحُ وَاحِدٌ مِّنْھُمَا إِلَّا بِصَاحِبِہٖ فَالْإِسْلَامُ أُسٌّّ وَالسُّلْطَانُ حَارِسٌ ، وَمَا لَا أُسََّ لَہٗ یَھْدَمُ، وَمَالَا حَارِسَ لَہٗ ضَائِعٌ۔‘‘ ( الدیلمی عن ابن عباسؓ۔ کنز العمّال، رقم: ۱۴۶۰۹)
’’ اسلام اور حاکم دونوں آپس میں جُڑواں بھائی ہیں ، ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتا ، اسلام بنیاد ہے اور حاکم اس کے محافظ ۔ جس عمارت کی بنیاد نہ ہو، وہ منہدم ہوجاتی ہے اور جس کا محافظ نہ ہو، وہ ضائع ہوجاتا ہے۔‘‘
عہد گزشتہ کی پوری تاریخ کا جائز ہ لیجیے اور برباد شدہ قوموں کی ہلاکت پر غور کیجیے تو آپ بھی اس حقیقت کوتسلیم کیے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ انسانوں نے ہر ہر دور میں اپنے فرمانرواؤں سے متاثر ہوکر ان ہی کی عادات و اخلاق ، اطوار و نظریات اور ا ن ہی کے عقائد و شعائر کو اخذ کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے تو اس طرح ان کی بربادی میں جہاں بہت سی انفرادی بیماریاں کارفرما ہیں، وہیں ان کے قائدوں نے غلط کردار پیش کر کے ان کی تباہی میں اہم رول ادا کیا ہے، کیونکہ حکومت و سلطنت ہی وہ ذریعہ ہے جو کسی نظام کو باقی رکھنے ،اسے پھلنے پھولنے اور اس کی اشاعت وابدیت کے اسباب فراہم کرتا ہے، چنانچہ مشہور مقولہ ہے : ’’ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِہِمْ ‘‘ یعنی ’’ عوام ہمیشہ اپنے فرمان رواؤں کے طریقے کو اختیار کرتے ہیں۔‘‘
اسلام اگر حاکمیت و سلطنت سے دست بردار ہوجائے تو اس کے قوانین کا وہ حصہ معاشرہ میں کس طرح نافذ ہوگا جو دیوانی، فوجداری اور دیگر اہم معاملات پر مشتمل ہے ؟ اسی حکمت کے پیشِ نظر وہ محض ترغیب و ترہیب پر بس نہیں کرتا، بلکہ اپنی پوری طاقت معاشرے کے ان تمام جراثیم و عناصر کو مٹانے کے لیے جھونک دیتا ہے جو اس سے اصولی اختلاف کرتے ہوں ۔
پانچویں توجیہ میں ’’ راجیو بھارگوا ‘‘ کا دعویٰ ہے کہ سیکولرزم کے معنی الحاد و لا دینیت ہیں۔ پروفیسر ’’مجیب‘‘ اسی مفہوم کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں کہ اپنی تمام تر توجہات اور صلاحیتیں اس مادی دنیا پر مرکوز کرنے ، اسے سجانے اور سنوارنے کا نام ہی سیکولرزم ہے ۔ اب وہ شخص جس کو خدا نے فراستِ ایمانی ، بصیرتِ روحانی اور شرح صدر کی دولت سے نوازا ہے ، جواسلامی موقف کے مطابق اس دنیا کو سائے کی طرح ایک عارضی اور محدود زندگی سمجھ کر آخرت ہی کو اپنا نصب العین بتاتا ہو تو کیا سیکولرزم کے کہنے سے اُخروی زندگی سے منہ موڑ کر اس دنیا پراپنی صلاحیتیں کھپا دے گا؟ جو اس کے پروردگار کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ ایک خدا ترس انسان جو دنیا کو ’’مزرعۃ الآخرۃ‘‘  سمجھتا ہے، ایسی بھیانک غلطی کا ارتکاب نہیں کرسکتا، اور نہ ہی اسلام اسے کرنے کی اجازت دے سکتا ہے ، ایسا تو وہی لوگ کرسکتے ہیں جو آخرت کو فراموش کر کے دنیا ہی کو اپنا مقصد بنا چکے ہوں۔
سیکولرزم کی اس غلط روش کو محسوس کر کے ’’ راجیو بھارگوا‘‘ کے دل میں بھی اس کے تئیں نفرت و حقار ت کے جذبات اُمنڈ آئے اور وہ بغیر کسی تکلف کے یہ کہہ گزرا کہ اس نظریہ کے حامی اکثر و بیشتر وہی لوگ ہوتے ہیں جو روشن خیالی کے دھوکے میں جہاں مذہب کو ایک ڈھکوسلہ قراردیتے ہیں، وہیں حکومتی سطح پر اس کے تئیں معاندانہ رویہ اپناتے ہوئے اسے حکومت سے الگ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
اس توجیہ میں کتنی صداقت اور کہاں تک جذباتیت کارفرما ہے؟ اس پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں ، ہم تو اس نظریے کے اصول سامنے رکھ کر اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہاں ’’ راجیو بھارگوا ‘‘ کا قلم حقیقت سے تجاوز کرگیاہے ۔                                                                                                                      (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین