بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلام اور آئینِ پاکستان کی پامالی کیوں؟!


اسلام اور آئینِ پاکستان کی پامالی کیوں؟!


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

حکمران جماعت ’’پاکستان تحریکِ انصاف‘‘ کے ایک غیرمسلم معزز رکن ڈاکٹر رمیش کمار نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا کہ آئین میں ہے: ’’غیرمسلم اقلیتیں اپنی مذہبی رسومات اور تہواروں میں شراب استعمال کرسکتی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ: ’’شراب تمام مذاہب میں حرام اور ناجائز ہے۔‘‘ غیرمسلم اقلیتوں کے نام پر شراب کی فروخت کی اجازت یا پرمٹ دینا، اس سے ہماری توہین ہوتی ہے، لہٰذا شراب پر مکمل پابندی لگائی جائے۔
 ہونا تویہ چاہیے تھا کہ قومی اسمبلی کے تمام اراکین اس بل کو سنجیدگی سے لیتے اور شراب پر مکمل طور پر پابندی کے اس بل کو اتفاقِ رائے سے منظور کرتے۔ اُلٹا ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے اس بل کو ووٹنگ کے ذریعہ مسترد کرادیا اور وفاقی وزیر اطلاعات نے اس کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ فاضل رکن نے سستی شہرت کے حصول کے لیے یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، اور صرف یہی نہیں، بلکہ کہا کہ:’’ آج شراب پر پابندی لگادیں تو پھر کہیں گے کہ عورتوں کے باہر نکلنے پر پابندی لگائیں اور پھر کہیں گے کہ غیرمسلموں پر جزیہ لگائیں۔ جس نے شراب پینا ہے وہ پئے اور جس نے نہیں پینا وہ نہ پئے۔‘‘ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک
برصغیر پر جب انگریز نے زورزبردستی اور جبر و قہر کے ذریعہ تسلط جمالیا تو جہاں اور بہت ساری بیماریاں اور خرابیاں اس ملک میں پھیلائیں تو وہاں پر ہر غلط کام کرنے کے لیے حکومت کی اجازت ، اس سے لائسنس اور پرمٹ لینے کو بھی لازمی قراردیا۔ حرام کاری کا پرمٹ، جوئے اور سٹے کا پرمٹ، غرض یہ کہ ہر غلط کام‘ پرمٹ لینے اور اجازت لینے سے صحیح ہوجاتا۔ اسی طرح شراب جیسی حرام چیز کی خریدوفروخت بھی پرمٹ کے ساتھ مشروط کردی گئی۔ اس وقت سے آج تک اِس پرمٹ کی آڑ میں اُس کی خریدوفروخت کی اجازت دی گئی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ حضرت مولانا مفتی محمود قدس سرہٗ نے اپنے صوبہ میں شراب نوشی اور اس کی خریدوفروخت پر پابندی لگائی، بعد میں اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۹ء میں پورے ملک میں پابندی لگادی۔ اس کے بعد آنے والے حکمران اور صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے یہ کہہ کر کہ:’’غیرمسلم اقلیتیں اپنی مذہبی رسومات اور تہواروں میں شراب استعمال کرسکتی ہیں۔‘‘ اس کی غیرمسلموں کے لیے خریدوفروخت اور شراب نوشی کی اجازت دے دی۔
اس کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب نے پورے سندھ میں شراب کی خریدوفروخت پر پابندی لگائی تو آگے چل کر اس کی اپیل کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے اس پابندی کو ختم کردیا۔ پاکستان دنیا کے چھپن اسلامی ممالک میں وہ واحد ملک ہے جہاں شراب بنانے کی قانونی اجازت ہے۔ پاکستان میں شراب بنانے کی تین بڑی فیکٹریاں راولپنڈی، کراچی اور کوئٹہ میں واقع ہیں، جنہیں قانونی طور پر ملکی آبادی کے تین فیصد یا پچاس لاکھ غیرمسلم شہریوں کے لیے گورنمنٹ کے جاری کردہ پرمٹ کے تحت شراب بنانے اور بیچنے کی اجازت ہے۔
اب شراب کے پرمٹ جاری کیے جاتے ہیں اور شرط یہ ہے کہ ہر وہ غیرمسلم شخص جو اِکیس سال کی عمر سے تجاوز کرچکا ہے، وہ ہر ماہ باقاعدہ شراب کی پانچ بوتلیں حاصل کرسکتا ہے۔ اور کسی غیرمسلم کو اگر شراب کی خریدوفروخت کا پرمٹ اور اجازت نامہ لینا ہے تو اس کے لیے اپنے مذہبی رہنما کا تصدیق نامہ پیش کرنا ضروری ہے۔
 توجہ طلب امر یہ ہے کہ اگر اقلیتیں اپنی مذہبی رسومات میں باجازتِ مذہب وریاست شراب کا استعمال کرسکتی ہیں تو اس کی فروخت مارکیٹ میں کیوں ہورہی ہے؟ اس کے پرمٹ مسلمانوں کو کیوں دیے جارہے ہیں؟ اور ان فیکٹریوں میں مسلمان نوکر کیسے کام کرتے ہیں؟
پنجاب اسمبلی میں اقلیتی رکن پیٹرگل نے اسپیکر بیرسٹر عثمان ابراہیم سے کہا تھا کہ:
’’پاکستان کے امیرمسلم افراد غریب عیسائیوں کو ملازم رکھ کر شراب کے پرمٹ ان کے نام بنواتے ہیں اور پھر ان پرمٹوں پرحاصل ہونے والی شراب کو خود استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘(شراب، اقلیتیں اور آئین پاکستان، ص:۲۸۳)
مزید لکھا ہے کہ: ’’دولت مند شخصیات نے ملازمین کو صرف شراب لانے کے لیے ملازمت دی ہوتی ہے، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اقلیت کو ڈھال بناکر شراب کا کاروبار کیا جارہا ہے۔ ہوٹلوں میں مسلمان افراد شراب فروخت کرتے ہیں اور شراب کے پرمٹ بھی مسلمان حضرات ہی جاری کرتے ہیں، لیکن ان کی ڈھال غیرمسلم اقلیتیں ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر اقلیتوں کو بدنام کیا جارہا ہے۔‘‘ (ایضاً)
صوبہ پنجاب میں ۳۵ ہزار شراب کے پرمٹ ہولڈر ہیں، جن میں بائیس ہزار لاہور اور گردونواح کے لوگ ہیں۔ بقیہ ملک میں ان کی تعداد اس پر مستزاد ہے۔ ساٹھ فیصد مسلمان عیسائیوں اور پارسیوں کی آڑ میں شراب کا کاروبار کرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام مخصوص تمدن، ثقافت،تاریخی ورثہ، فلسفۂ حیات، اخلاقیات، سیاسیات اور اقتصادیات کی حامل ہے، کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ اس کا مملکتی مذہب اسلام ہے، اس کا دستور قرآن وسنت کے تابع ہے اور ان تمام اُمور کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر رکھی گئی ہے، اس لیے ضروریاتِ دین کا علم و عقیدہ اور ان پر عمل ہر کلمہ گو مسلمان پر فرض ہے، مثلاً: شہادتین کے بعد نماز، روزہ، زکاۃ اور حج جس طرح دینِ اسلام کے بنیادی مسائل ہیں، جن کا جاننا بھی فرض اور عمل کرنا بھی فرض ہے، اسی طرح شراب، جوا، سود، زنا، چوری وغیرہ کی حرمت بھی یقینی اور قطعی ہے۔ ہر مسلمان کو اس کا علم ہونا اور اس کی حرمت کا قطعی عقیدہ رکھنا بھی فرض ہے اور ان سے بچنا واجب ہے۔
 اسلام کے حلال وحرام کے دوسرے احکام جس طرح تدریجاً نازل ہوئے، اسی طرح شراب کی حرمت بھی تدریجاً نازل ہوئی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’یَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا إِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۔‘‘                                                    (البقرۃ:۲۱۹)
’’تجھ سے پوچھتے ہیں حکم شراب کا اور جوئے کا ، کہہ دے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور فائدے بھی لوگوں کو اور ان کا گناہ بہت بڑا ہے ان کے فائدے سے۔‘‘
اس آیت میں بتایا گیا کہ ٹھیک ہے شراب میں اگرچہ کچھ نفع ہے، لیکن اس کا گناہ بہت زیادہ ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد یہ آیت نازل ہوئی:
’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوْا الصَّلَاۃَ وَأَنْتُمْ سُکَارٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ۔‘‘ (النساء:۴۳)
’’اے ایمان والو! نزدیک نہ جاؤ نماز کے جس وقت کہ تم نشہ میں ہو، یہاں تک کہ سمجھنے لگو جو کہتے ہو ۔‘‘
اس سے شراب نوشی کی مزید ناپسندیدگی کا اظہار ہوگیا۔ بہت سے صحابہ کرامؓ نے کہا کہ: جسے پی کر ہم نماز کے قریب نہیں جاسکتے تو پھر اس کے پینے کا کیا فائدہ؟ انہوں نے شراب نوشی بالکل ترک کردی،لیکن ابھی تک شراب نوشی کی ممانعت اور حرمت کا کوئی صاف اور واضح حکم نہیں آیا تھا، اس لیے حضرت عمر q نے دعائیہ انداز میں فرمایا:
’’اللّٰہم بین لنا فی الخمر بیانا شافیا۔‘‘ (سنن النسائی، باب تحریم الخمر، ج:۵،ص:۶۱، طبع:مکتب المطبوعات الاسلامیہ، حلب)
 ’’اے اللہ! شراب کے معاملہ میں ہمیں واضح حکم عطا فرما۔‘‘
سورۃ المائدۃ جو نزول کے اعتبار سے آخری سورت ہے، اس میں ام الخبائث کی قطعی ممانعت کا حکم اس عجیب وغریب ومؤثر انداز میں دیا گیا کہ اس کی حرمت وممانعت کی حکمت اور اس کی گندگی کا درجہ سب کچھ بیان کردیا، چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْْطٰنُ أَنْ یُّوْقِعَ بَیْْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَائَ فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلَاۃِ فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ وَأَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَإِنْ تَوَلَّیْْتُمْ فَاعْلَمُوْا أَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ۔‘‘    (المائدۃ:۹۰-۹۲)
’’اے ایمان والو! یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے، سب گندے کام ہیں شیطان کے، سو ان سے بچتے رہو، تاکہ تم نجات پاؤ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ ڈالے تم میں دشمنی اور بیربذریعہ شراب اور جوئے کے اور روکے تم کو اللہ کی یاد سے اور نماز سے ، سو اب بھی تم بازنہیں آؤگے؟ اور اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور (نافرمانی سے) بچتے رہو اور اگر تم (اس حکم سے) منہ موڑوگے تو جان رکھو کہ ہمارے رسول پر صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاف صاف طریقے سے (اللہ کے حکم کی) تبلیغ کرے۔‘‘
محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ اس آیت کے ذیل میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’دیکھیے! اس آیت کریمہ میں شراب کی حرمت کس مؤثر انداز سے بیان فرمائی ہے، کسی حرام اور ممنوع چیز کی حرمت کا اعلان اس انداز سے نہیں کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ ممانعت کی علت وحکمت بھی دینی ودنیوی دونوں پہلو سے بیان فرمادی، کسی تشریح وتفسیر کے بغیر صرف ترجمہ سمجھ کر اس آیت کو بار بار پڑھئے اور سوچئے کہ کتنا بلیغ پیرایۂ بیان اختیار کیا گیا ہے۔ آیتِ کریمہ جن نکات پر مشتمل ہے، ذیل میں اجمالاً اس کا ذکر کیا جاتا ہے:
۱:-خمرومیسر کی شناعت وقباحت کو محسوس کرانے کے لیے انصاب و ازلام کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا، یعنی بت پرستی کی قباحت جس طرح واضح ہے، ٹھیک اسی طرح شراب نوشی کی شناعت بھی کھلی ہوئی ہے۔
۲:- ’’رجس‘‘ گندی چیز ہے، قابلِ نفرت ہے، ہرعقل مند کو نفرت کرنی چاہیے۔
۳:-شیطانی عمل ہے، اس میں خیرکانام تک نہیں، نہ ہی خیر کی توقع رکھنی چاہیے۔
۴:-جب اتنی بری اور قبیح چیز ہے تو اس سے اجتناب چاہیے، اس کے قریب بھی نہ جانا چاہیے۔
۵:-تمہاری فلاحِ دارین وبہبودی ہر پہلو سے اس سے بچنے پر موقوف ہے۔
۶:-خمرومیسر کے ذریعہ شیطان مومنین کے قلوب میں بغض وعداوت پیدا کرتا ہے، جن قلوب میں انتہائی محبت ومودت ہونی چاہیے، شیطان اس کے ذریعہ اس کو ختم کرتا ہے۔
۷:-شراب نوشی اور جوئے کے سبب اللہ تعالیٰ کی یاد جو مسلمان کے لیے سب سے بڑی دولت ہے، اس سے محرومی ہوتی ہے۔
۸:-نماز جیسی نعمت جو ایمان کی سب سے بڑی علامت ہے او ر دین کی عمارت کا بنیادی ستون ہے، اس سے شرابی غافل ہوجاتا ہے۔
۹:-اتنی محسوس واضح برائیوں کے بعد کیا ایمان والے شراب نوشی سے باز نہیں آئیں گے؟ کیا کوئی عاقل ان خرابیوں کے بعد اس معصیت کے ارتکاب کی جرأت کرسکتا ہے؟
۱۰:-کلمہ ’’إنما‘‘ قواعدِ بلاغت کی رو سے اس لیے لایا گیا کہ ان حقائق کے بدیہی ہونے کا دعویٰ کیا جائے، یعنی کسی عاقل کو شک وشبہ کی گنجائش ان میں نہیں، یہ حقائق اتنے یقینی ہیں کہ ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہیں، پھر اس حکم کے آخر میں اللہ ورسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا، تاکہ حجت پوری کردی جائے کہ ان احکام کا ماننا فرض ہے، پھر آخرت کے عذاب سے ڈرایا گیا۔ اتنی صاف صریح ہدایات واحکام پر بھی اگر عمل نہ کریں تو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا منصبی فریضہ پورا ہوگیا۔‘‘ (بصائروعبر، ج:۲، ص:۶۲-۶۳، طبع : مکتبہ بینات، کراچی)
خلاصہ یہ کہ شراب کی حرمت کو ایسے بلیغ اور مؤثر انداز میں بیان کیا گیا کہ اس کے سامنے ’’حرام‘‘ کا لفظ بہت ہیچ معلوم ہوتا ہے، کیونکہ شراب کو اثم، رجس، اجتناب، انتہا، عملِ شیطان، سببِ بغض وعداوت، نماز وذکرُ اللہ سے غفلت کا باعث اور اللہ ورسول کی نافرمانی جیسی تعبیرات سے بیان کیا گیا، جوکہ ایک لفظ ’’حرام‘‘سے زیادہ مؤثر اور بلیغ ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ کسی زبان میں کسی حکم کو بیان کرنے کے لیے اس کی صرف ایک تعبیر نہیں ہوتی، بلکہ کئی تعبیرات ہوتی ہیں۔اس کی بے شمار مثالیں عربی میں موجود ہیں۔
آنحضرت a کے ارشادات میں شراب نوشی کو ایسا سنگین جرم قراردیا گیا ہے کہ جسے پڑھ کر ایک مسلمان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، صحیح مسلم میں ہے:
۱:-’’عن جابرؓ قال: کل مسکر حرام ، إن علی اللّٰہ عہدًا لمن یشرب المسکر أن یسقیہ من طینۃ الخبال، قال: عرق أھل النار أو عصارۃ أھل النار۔‘‘(مشکوٰۃ، ص:۳۱۷،ط:قدیمی کتب خانہ کراچی)
 ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: ہر نشہ آور مشروب حرام ہے اور اللہ تعالیٰ نے عہد کر رکھا ہے کہ شراب پینے والوں کو دوزخیوں کے زخموں کی گندگی پلائی جائے گی۔ فرمایا کہ: ’’طینۃ الخبال‘‘ جہنمیوں کا پسینہ ہے یا جہنمیوں کا نچوڑ (گندگی، پیپ وغیرہ) ہے۔‘‘
۲:-’’عن عبداللّٰہ بن عمرؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من شرب الخمر لم یقبل اللّٰہ لہٗ صلٰوۃ أربعین صباحًا، فإن تاب تاب اللّٰہ علیہ، فإن عاد لم یقبل اللّٰہ لہٗ صلٰوۃ أربعین صباحًا، فإن تاب تاب اللّٰہ علیہ، فإن عاد فی الرابعۃ لم یقبل اللّٰہ لہٗ صلٰوۃ أربعین صباحًا، فإن تاب لم یتب اللّٰہ علیہ وسقاہ من نہر الخبال۔‘‘   (مشکوٰۃ، ص:۳۱۷،ط:قدیمی کتب خانہ کراچی)
’’جو شخص ایک بار شراب پئے اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں فرمائیںگے، اگر وہ توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی، دوبارہ شراب پئے تو پھر چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوگی اور توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیں گے، سہ بار شراب پئے تو پھر اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوگی اور توبہ کرلے تو توبہ قبول ہوگی، اور اگر چوتھی بار شراب نوشی کا مرتکب ہو تو پھر اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوگی اور اب اگر توبہ بھی کرنا چاہے تو اندیشہ ہے کہ اس کی توفیق نہ ہو، بلکہ اسی جرم پر اس کا خاتمہ ہو، اور اللہ تعالیٰ اسے ’’نہر خبال‘‘ سے (جس سے دوزخیوں کی پیپ بہتی ہے) پلائیں گے۔‘‘

 

۳:-’’عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یدخل الجنۃ عاق ولا قمار ولا منان ولا مدمن خمر۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص:۳۱۸،ط:قدیمی کتب خانہ کراچی)

’’چار شخصوں کا داخلہ جنت میں ممنوع ہے، والدین کا نافرمان، جوئے باز، صدقہ کرکے جتلانے والا، اور شرابی۔‘‘
۴:-’’عن أبی أمامۃؓ قال: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ تعالٰٰی بعثنی رحمۃً للعالمین وھدًی للعالمین، وأمرنی ربی بمحق المعازف والمزامیر والأوثان والصلب وأمر الجاھلیۃ ، وحلف ربی عز وجل بعزتی ولا یشرب عبد من عبیدی جرعۃ من خمر إلا سقیتہ من الصدید مثلھا ویترکھا من مخافتی إلا سقیتہ من حیاض القدس۔‘‘                     (مشکوٰۃ ، ص:۳۱۸،ط:قدیمی کتب خانہ کراچی)
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃٌ للعالمین اور جہانوں کا ہادی بناکر بھیجا ہے اور مجھے میرے رب نے گانے بجانے کے سامان، بتوں اور صلیبوں کے توڑنے اور اُمورِ جاہلیت کے مٹانے کا حکم فرمایا ہے اور میرے رب عزوجل نے قسم کھائی ہے کہ مجھے اپنی عزت کی قسم! میرے بندوں میں سے جو بندہ شراب کا ایک گھونٹ پئے گا، میں اسی قدر اس کو پیپ پلائوں گا اور جو بندہ اس کو میرے خوف سے چھوڑ دے گا میں اُسے بارگاہِ قدس کے حوضوں کا آبِ طہور پلائوںگا۔‘‘
۵:-’’عن ابن عمرؓ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلٰثۃ قد حرم اللّٰہ علیہم الجنۃ، مدمن الخمر والعاق والدیوث الذی یقر فی أھلہ الخبث۔‘‘ (مشکوٰۃ  ص:۳۱۸،ط:ایضا)
’’اللہ تعالیٰ نے تین شخصوں پر جنت حرام کردی ہے شراب خور،والدین کا نافرمان، اور وہ دیوث جو اپنے گھر میں گندگی کو برداشت کرتا ہے۔‘‘
۶:-’’عن دیلم الحمیريؓ قال: قلت لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا رسول اللّٰہ! إنا بأرض باردۃ ونعالج فیھا عملاً شدیدًا وإنا نتخذ شرابًا من ھٰذا القمح نتقوی بہ علٰی أعمالنا وعلٰی برد بلادنا، قال: ھل یسکر؟ قلت: نعم! قال: فاجتنبوہ۔ قلت: إن الناس غیر تارکیہ۔ قال: إن لم یترکوہ قاتلوھم۔‘‘  (مشکوٰۃ، ص:۳۱۸،ط:قدیمی کتب خانہ کراچی)
’’حضرت دیلم حمیریؓ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! ہم لوگ سرد علاقے کے باشندے ہیں اور محنت بھی بہت کرتے ہیں، سردی اور مشقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم گیہوں سے ایک مشروب تیار کرکے استعمال کیا کرتے ہیں، فرمایا: کیا وہ نشہ آور ہوتی ہے؟ عرض کیا: جی ہاں! نشہ تو اس میں ہوتا ہے، فرمایا: تو پھر اس سے اجتناب لازم ہے، عرض کیا: لوگ تو اس کو ترک نہیں کریں گے، فرمایا: ایسے لوگوں سے جنگ کرو۔‘‘
۷:-’’عن وائل الحضرمي أن طارق بن سوید سأل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الخمر، فنہاہ، فقال: إنما أصنعھا للدواء! فقال: إنہٗ لیس بدواء ولٰکنہ داء۔‘‘(مشکوٰۃ ،ص:۲۶۷،ط:ایضا)
’’حضرت طارق بن سویدؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سے شراب کشید کرنے کی بات کی تو آپa نے منع فرمایا، انہوں نے عرض کیا کہ: میں صرف علاج معالجہ اور دوا دارو کے لیے کشید کرنا چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: وہ دوا نہیں، وہ تو بیماری ہے۔‘‘
۸:-’’ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لعنت الخمر علٰی عشرۃ أوجہ: بعینہا وعاصرہا ومعتصرہا وبائعہا ومبتاعہا وحاملہا والمحمولۃ إلیہ وأٰکل ثمنہا وشاربہا وساقیہا۔‘‘         (باب لعنۃ الخمر علی عشرۃ أوجہ ، سنن ابن ماجہ ، ص:۲۴۲، ط: نورمحمد کراچی)
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ a کا ارشاد ہے: شراب کے معاملہ میں دس طرح لعنت کی گئی ہے: خود اس (شراب) کی ذات پر ، اس کے نچوڑنے والے(رس نچوڑ کر شراب بنانے والے) پر، اس کے نُچڑوانے والے (شراب بنوانے والے) پر، اس کے بیچنے والے پر، خریدنے والے پر، اس کے اُٹھانے والے پر، جس کے پاس لے جائی جائے اس پر، اس کی قیمت کھانے والے پر، اس کے پینے والے پراور اس کے پلانے والے پر۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شراب نوشی کی حرمت پر دوسرے مذاہب کیا کہتے ہیں، وہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
۱:-(الف)’’یہودی صحائف میں سب سے پہلی مرتبہ ’’مے‘‘ کا ذکر ’’شراب نوشی‘‘، شرم اور لعنت کے زمرے میں آیا ہے۔‘‘                                                  (پیدائش۹:۲۱)
(ب)یہودی صحائف میں خمیر شدہ مے کے بارے میں کئی سخت انتباہ پائے جاتے ہیں، ’’مے مسخرہ اور شراب ہنگامہ کرنے والی ہے اور جو کوئی ان سے فریب کھاتا ہے دانا نہیں۔‘‘ (امثال۲۰:۱)
۲:-(الف)مسیحیت کی مقدس کتاب (بائبل مقدس) میں شراب کی ممانعت کی گئی ہے، مقدس یسعیاہ نبی کے صحیفے میںمرقوم ہے:’’ ان پر افسوس جو صبح سویرے اُٹھتے ہیں، تاکہ نشہ بازی کے درپے ہوں اور جو رات کو جاگتے ہیں جب تک شراب ان کو بھڑکا نہ دے۔ ‘‘                (یسعیاہ ۵:۱۱)
(ب)’’اہلِ مسیحیت میں ایسا شخص لعنتی وملعون ہے، جو نشہ بازی کرتا اور خاص کر شراب نوشی۔ ایسوں پر خدا کا عذاب، افسوس اور لعنت کا حکم عائد ہوچکا ہے اور جس شخص یا قوم پر خدا افسوس کرے تو کون اس کو مخلصی ونجات دے سکتا ہے؟ دنیا میں آج بھی بہت سے شرابی موجود ہیں جن کے لیے خدا افسوس اور غم کرتا ہے، کیونکہ خدا کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا ، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ توبہ کریں اور میں ان کو ابدی زندگی اور نجات مفت دوں۔ خداوند خدا مقدس سلیمان کے ذریعہ اپنے الہام کو نازل فرماتے ہیں: ’’ تو شراب پر نظر مت کر کہ انجام کار وہ سانپ کی طرح کاٹتی اوربچھو کی طرح ڈنگ مارتی ہے۔‘‘                                                           (امثال ۲۳:۳۱-۳۲)
(ج)شراب مسخرہ بنادیتی ہے اور مست کرنے والی ہر ایک چیز کو آلودہ کرتی ہے، جو اس کا فریب کھاتا ہے وہ دانش مند نہیں۔                                                   (امثال ۲۰:۱۹)
(د)جو شخص شراب کی خواہش کرکے اس کو نوش کرتا ہے دنیا میں سب سے بڑا احمق شخص ہے۔ ’’شراب کی تلاش حاکموں کو شایاں نہیں، مبادہ وہ پی کر قوانین کو بھول جائیں اور کسی مظلوم کی حق تلفی کریں۔‘‘                                                                        (امثال۳۱:۵۴)
(ہ)’’ اور اگر کوئی بھائی کہلاکر حرام کار لالچی، بت پرستی اور گالی دینے والا یا شرابی یا ظالم ہو تو تم اس سے صحبت نہ رکھو، ایسوں کے ساتھ کھانا تک نہ کھانا۔‘‘                  (۱-کرنتھیوں۵:۱۱،۶:۱۰)
اہلِ مسیحیت میں شراب پر نظر کرنا یا اس کی خواہش کرنا بھی حرام ہے۔مسیحیت کے مطابق شرابی لعنتی اور ملعون ہے۔ مسیحیت کے مطابق شرابی احمق ہے۔ مسیحیت کے مطابق شرابی کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کا حکم ہے۔مسیحیت کے مطابق شرابی جہنمی ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کے تحت یہ کہنا کہ:’’اقلیتیں اپنے مذہبی تہواروں اور رسومات میں شراب استعمال کرسکتی ہیں۔‘‘ یہ مسیحیت کے ساتھ سراسر ناانصافی کی گئی ہے، مسیحی ملت کو مذہبی رسومات میں اُم الخبائث کے استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ خداوند تعالیٰ نے نہ صرف مسیحی ملت بلکہ بنی نوعِ انسان کو اس لعنتِ عظمٰی سے کوسوں دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے اور یہاں تک ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’شرابی خدا کی بادشاہت میں داخل نہیںہوسکتے، چاہے وہ کسی بھی مذہب وملت کے ساتھ تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں۔‘‘
۳:-(الف)ہندو ازم میں ہے کہ:’’ نشہ کرنے والا عقل کھوبیٹھتا ہے، یاوا گوئی کرتا ہے، اپنے آپ کو ننگا کرتا ہے اور ایک دوسرے سے لڑتا ہے۔‘‘                                  (رِگ وید)
(ب)’’ شراب ایک غلاظت ہے، چنانچہ کسی مذہبی رہنما،کسی حکمران، یا کسی بھی عام آدمی کو شراب نہیں پینی چاہیے۔‘‘                                                              (منوسمرتی)
(ج)’’پاکستانی ہندو برادری کی ملک گیر نمائندہ تنظیم پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست، ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار نے ہندودھرم کی مذہبی کتاب شری مدبھگواتھ پرن کے اشکنڈ دوسرا، آدھیا سترہ، اشلوک اڑتیس، انتالیس، چالیس،اکتالیس کے حوالہ سے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں کہا کہ: ہندو دھرم میں شراب ممنوع ہے، خاص طور پر نیتاوآں لیڈران کو تو کسی صورت شراب پینا جائز نہیں ہے۔                                                                       (۲۰۱۶ء)
۴:-گروصاحب ہمیں شراب کی بابت کیا بتاتے ہیں،شری گروگرنتھ صاحب ہمیں شراب نوشی سے منع کرتے ہیں:
(الف)’’شراب پینے سے عقل جاتی رہتی ہے اور انسان احمقانہ حرکات کرتا ہے۔‘‘
(ب)’’شراب پینے والا اپنے اور دوسروں میں امتیاز نہیں کرسکتا۔‘‘
(ج)’’وہ اپنے مالک اور آقا کے معیار سے گرجاتا ہے۔‘‘  (شری گروگرنتھ صاحب، صفحہ نمبر:۵۵۴)
(د)’’شراب ویسے بھی صحت پر برے اثرات ڈالتی ہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
۱:-معدے کا السر، ۲:-انتڑیوں میں گیس کی شکایت، ۳:-جسمانی شادابی کا ختم ہونا، ۴:-وزن کا بڑھ جانا، ۵:-مخصوص وٹرمینز اور منرلز کا اخراج، ۶:-ہائی بلڈ پریشر، ۷:-دل کے دورے کا خدشہ بڑھ جانا، ۸:-منہ کے کینسر کا خدشہ بڑھ جانا، ۹:-نرخرے کی بیماریاں، ۱۰:-گلے کی بیماری، ۱۱:-غذا کی نالی میں نقصان، ۱۲:-بڑی آنت کی بیماری (خاص طور پر مردوں میں)، ۱۳:-چھاتی کی بیماریاں، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔                                       (حوالہ بالا)
اب فیصلہ حکومتِ پاکستان کو کرنا ہے کہ جب شراب کاپینا، پلانا اور خریدوفروخت اسلام کے علاوہ، یہودیت، عیسائیت، ہندومت، سکھ ازم اور پارسی حضرات کے نزدیک بھی حرام ہے تو اب اس پر پابندی نہ لگانے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ کیا حکومت کے لیے یہ سنہرا موقع نہیں تھا کہ ایک اقلیت سے تعلق رکھنے والے معزز رکن قومی اسمبلی کے پیش کردہ بل کو بنیاد بناکر اس پر پابندی لگادیتے اور باہر کی دنیا کو بھی کہاجاسکتا کہ اسلام میں تو شراب ہر اعتبار سے حرام ہے ہی، لیکن ہم نے اپنے ملک کے اقلیتی بھائیوں کے لیے چند شرائط کے ساتھ اجازت دے رکھی تھی، اب جب ان کا ہی مطالبہ اس پر مکمل پابندی کا آیا تو ہم نے اس کو منظور کرلیا۔ 
اس سے پاکستان اور موجودہ حکومت کی نیک نامی اور وقار میں اضافہ ہوجاتا اور کہاجاسکتا کہ پاکستان صحیح معنوں میں ریاستِ مدینہ کی طرف آغاز کرچکا ہے، لیکن ایسی نیک نامی کے حصول کا موقع اور مشورہ اور اس کی طرف پیش رفت کرانے کے لیے موجودہ وزیراعظم کی ٹیم میں تو بظاہر کوئی نظر نہیں آتا۔ اللہ کرے کوئی مردِ قلندر ان میںپیدا ہوجائے جو ان کو اس ’’مدینہ کی ریاست‘‘ پر گامزن کرانے کے لیے ان کی صحیح رہنمائی کرے، تاکہ ان کا کہا کسی حد تک سچا ثابت ہوجائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سمجھ نہیں آرہا کہ اس حکومت اور مقتدر قوتوں نے پاکستانی قوم کے لیے کیا طے کر رکھا ہے ، اس لیے کہ نعرہ توپاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کا ہے، لیکن کام سب دینِ اسلام کے خلاف اور مذہب بیزاری کے کیے جارہے ہیں، حتیٰ کہ شراب جیسی غلیظ اور حرام چیز پر پابندی لگانے کے اقلیتوں کے جائز مطالبے کو بھی قبول نہیں کیا جارہا۔
اس حکومت نے سب سے پہلے اسلام سے مرتد ہوکر قادیانیت اختیار کرنے والے عاطف میاں کو اپنا اقتصادی مشیر مقرر کرلیا، اس پر جب پوری پاکستانی قوم اور تحریک انصاف کے اندر سے احتجاج ہوا تو اس سے یوٹرن لے لیا گیا۔ اس کے بعد سینیٹ میں یہ قانون لانے کی کوشش کی گئی کہ ’’جو توہینِ رسالت کرنے والوں کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کرے گا اور اس دعوی کو ثابت نہیںکرسکے گا تو اس کو سزائے موت دی جائے گی۔‘‘ یہ اس لیے کیا جارہا تھا، تاکہ کسی موذی اور موہن کے خلاف کوئی دعویٰ ہی دائر نہ کرسکے۔ اس پر جب سابق ڈپٹی چیئرمین اور سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری صاحب نے رکاوٹ ڈالی تو اسے واپس لے لیا گیا۔ اس کے بعد بھونڈے انداز میں ملعونہ آسیہ کو رہا کرایا گیا۔ اور اس پر احتجاج کیا گیا تو احتجاج کرنے والوں کو تو جیل میں ڈال دیا گیا، لیکن اس ملعونہ کو بڑے آرام کے ساتھ رکھا گیا ہے، تاکہ جیسے ہی قوم کسی دوسرے مسئلہ میں اُلجھے تو اسے خاموشی سے کسی دوسرے ملک بھیج دیا جائے۔ 
اس پر مزید یہ کہ پنجاب حکومت نے فروری میں سرکاری طور پر بسنت منانے کا اعلان کردیا ، جب کہ یہ تہوار ایک ہندو کی یاد میں منایا جاتا ہے جس نے حضور اکرم a اور جنت کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ t کی گستاخی کی تھی، اس کی پاداش میں اس کو سزائے موت دی گئی تھی۔ کیا سمجھا جائے کہ مدینہ کی ریاست کا نعرہ لگانے والی حکومت گستاخانِ رسول کی پشت پناہ ہے کہ ایک گستاخہ ، ملعونہ جس کو دو عدالتوں نے گستاخی پر سزائے موت کا حکم سنایا، اس کو تو رہا کردیا گیا، لیکن دوسرا گستاخ جسے اس کے کیے کی پاداش میں سزائے موت دے دی گئی تھی، اس کی یاد منائی جارہی ہے، اور اس یاد منانے میں خیر سے پنجاب کی ’’مسلمان حکومت‘‘اس کی پشت پناہ بن گئی ہے، نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ آخر حکومت کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟
دوسری طرف وزیراعظم صاحب نے اعلان کیا کہ ہم ’’ کرسمس‘‘ کا جشن سرکاری طور پر منائیں گے، جس پر ہماری حکومت کے بڑے ذمہ دارحضرات نے گرجوں میں جاکر عیسائیوں کی خوشنودی اور ہمنوائی میں کیک کاٹے۔ یہ اعلان اور اس پر عمل درآمد سے پہلے کم از کم جن علماء پر اس حکومت کو اعتماد ہے، ان ہی سے یہ پوچھ لیتے کہ کیا شرعاً ہمارے لیے اس کی کوئی گنجائش واجازت بھی ہے یا کہ نہیں؟ افسوس تو ہمیں وزیرمذہبی امور پر ہوا جو ماشاء اللہ! ایک عالم دین اور بزرگ آدمی ہیں، لیکن وہ بھی ان تقریبات میں شریک ہیں اور ان کی ہمنوائی کررہے ہیں۔ کیا کہا جائے کہ اسلام بیزاری سے اظہار کے تمام اُمور اس حکومت نے اپنے ذمہ لے لیے ہیں۔ ہائے افسوس!
شنید ہے کہ اسلامیات کا مضمون سرکاری اسکولوں میں پڑھانے کے لیے اقلیتوں کو پانچ فیصد کوٹہ دیا جارہا ہے۔ عوام حکومت سے پوچھنے کا یہ حق رکھتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت ہے؟ یہ پاکستان ہے، اسلام اس کا مملکتی مذہب ہے، قرآن وسنت اور اسلامی تعلیمات کو عام کرنا حکومت کی دستوری ذمہ داری ہے۔ اگر مسلمان یہ مضامین نہ پڑھاسکیں توکسی حد تک مجبوری ہوسکتی ہے، لیکن جان بوجھ کر اسلامی تعلیمات غیرمسلموں کے ہاتھ میں دینایہ کفر اور الحاد کا دروازہ کھولنا نہیں تو اور کیا ہے؟ مسلمان بچوں کو قادیانیوں اور عیسائیوں کے ہاتھوں میںدینے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا حکومت نے اپنے اوپر یہ لازم کرلیا ہے کہ اسلام کو اس ملک سے نکالنا ہے یا مغرب کو خوش کرنے کے لیے ان کے ایجنٹ قادیانیوں کو پاکستان پر ہر حال میں مسلط کرنا اور ان کو حاکمیت کا حق دینا ہے۔اگر ایسا ہے تو کھلے لفظوں میں بتادیاجائے، تاکہ پاکستانی قوم اپنے ایمان، عقیدہ اور اپنے ملک پاکستان کے تحفظ کا خود ہی انتظام کرلے۔ ان تمام اُمور کا جواب حکومت کے ذمہ ہے۔ 
اسی طرح سکھوں اور قادیانیوں کو خوش کرنے کے لیے کرتارپور بارڈر کھولنے کا حکومتی اعلان اور تقریب۔ معلوم نہیں کہ حقیقت میں حکومت کو معلوم نہیں یا انجانے میں حکومتِ پاکستان دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے ہوئے یہ اقدام کررہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دو ممالک کے معاملات ہمیشہ حکومتوں کی سطح پر طے ہوتے ہیں، لیکن یہاں معاملہ ایک طرف حکومت اور دوسری طرف ایک گروہ اور ایک طبقہ کے مابین ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت بظاہر اس کو نہیں مان رہا۔
 اور دوسری طرف بھارت کی پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ قرارداد منظور کرکے اپنی وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ: ’’ہماری مذہبی جگہیں جو پاکستان میں ہیں ان کو بھارت کے حصہ میںملاکر ہمیں دی جائیں اور اس کے بدلہ جتنا زمین بنتی ہے وہ پاکستان کے حوالہ کی جائے۔‘‘ یہ بات اتنا سادہ نہیں جتنا اس کو سمجھا جارہا ہے، بلکہ ہمارے احرار کے بزرگوں میں سے علامہ شورش کشمیریؒ تقریباً پچاس سال پہلے یہ لکھ چکے ہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ پاکستان کے دوسرے خطوں کے علاوہ انڈیا اور پاکستان کے پنجاب کو ایک کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ سکھوں اور قادیانیوں کے گٹھ جوڑ سے ہوگا اور ان میں یہ طے ہوگا کہ اگر صدر سکھ برادری سے ہوگا تو وزیراعظم قادیانی اور اگر صدر قادیانی تو وزیراعظم سکھ ہوگا۔ کیا حکمرانوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اسی کی طرف لے جانے کے لیے تو نہیں کیا جارہا؟
حکومت نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر بھارت نے پاکستانی حدود میں سندھی، بلوچی، پٹھان یا کسی قوم کو ساتھ ملاکر اس طرح کوئی اقدام کرلیا تو ہم کیا جواب دے سکیں گے؟ اور یہ بلوچستان میں جو بھارت کے جاسوس اور ایجنٹ تخریب کاری کررہے ہیں تو کیا اس سے ان کو سند جواز نہیں مل جائے گی؟ خدارا ملک وقوم پر رحم کریں اور ایسے اقدام نہ کریں جس سے ہمارے ملک کا استحکام اور سالمیت داؤ پر لگ جائے۔ اس ملک کے حصول میں بڑی قربانیاں دی گئی ہیں اور ملک پاکستان پوری اسلامی برادری کی امیدوں کا مرکز ہے، اسے اُجاڑنے کی راہ ہموار نہ کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ آج ایک بار پھر خاندانی منصوبہ بندی اور ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ کی مہم چلائی جارہی ہے، اس کے لیے ہماری حکومت اور کئی دوسرے سربراہان ایک سیمینار بھی منعقد کرچکے ہیں اور اس کے لیے ایک ادارہ کی تشکیل بھی کردی گئی ہے۔جب کہ خاندانی منصوبہ بندی اسلامی تعلیمات کے مخالف تحریک ہے،جسے دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کے اندر متعارف کرایا ہے۔ کیونکہ یہ عمل جس طرح قرآن کریم اور سنتِ رسول (a) کے خلاف ہے، اسی طرح ہمارے دستور اور آئین کے بھی صریحاً خلاف ہے، اس لیے کہ ہمارے آئین میں طے کیا گیا ہے کہ کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ ہم اس پر مزید تبصرہ کیے بغیر صرف اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں، جس سے واضح ہوگا کہ یہ اقدام قرآن وسنت اور آئین کے مطابق ہے یا اس کے خلاف ہے؟
پاکستان میں سرکاری طور پر جب اس محکمہ کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کانام’’خاندانی منصوبہ بندی ڈویژن’’رکھا گیا۔اس کا نوٹس لیتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک جامع رپورٹ شائع کی جس کا پیش لفظ اس کے دو چیئر مینوں جسٹس ریٹائرڈ تنزیل الرحمن اور جسٹس ریٹائرڈ محمد حلیم نے لکھا:رپورٹ میں کونسل کی حتمی رائے ظاہر کر تے ہوئے لکھا گیا:
’’ضبطِ تولید کاجسے خاندانی منصوبہ بندی(اور اب آبادی کی منصوبہ بندی ) کہا جاتا ہے ریاست کی باقاعدہ پالیسی کے طور پر اپنانا اسلامی شریعت کی روح کے خلاف ہے۔ضبطِ تولید کی وجہ سے معاشرہ اعتقادی ارتداد، بے حیائی ،قومی سطح پر جنسی بے راہ روی ،ملکی دفاع اور اقتصادی ترقی کے لیے درکار افرادی قوت میں کمی کا شکار ہوجاتاہے۔نیز اس سے نفسیاتی واعصابی تناؤ کے سبب بسا اوقات ماؤں اور بچوں کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ کونسل نے اس دلیل کو رد کرتے ہوئے -کہ آبادی میں اضافہ سے قومی وسائل کم پڑ جائیں گے- رائے ظاہر کی کہ یہ دلیل اعداد وشمار کی روسے غلط ثابت ہوچکی ہے،لیکن مغرب کے پروپیگنڈہ باز اپنی بدنیتی کے باعث اسے تیسری دنیا کے ممالک واقوام کے سامنے برابر پیش کیے جارہے ہیں، لہٰذا کونسل سفارش کرتی ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کو حکومتی سطح پر ترک کیا  جائے۔‘‘                        (رپورٹ خاندانی منصوبہ بندی، ص:۸۱)
اب بتایا جائے کہ یہ عمل کتنا غلط ہے؟ ہائے افسوس! دستور اور آئین کی حفاظت جن کی ذمہ داری تھی وہ خود ہی اس آئین اور دستور کی خلاف ورزی کرنے اور اس کی دھجیاں اُڑانے میں لگے ہوئے ہیں۔ولا فعل اللّٰہ ذٰلک، إن أرید إلا الإصلاح مااستطعت ، وما توفیقی إلا باللّٰہ علیہ توکلت وإلیہ أنیب۔

وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین