بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسرائیلی جارحیت اور عالم اسلام!

اسرائیلی جارحیت اور عالم اسلام!

 

الحمد للّٰہ وسلام علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

عالم دنیا کے حکمرانوں پر عجیب قسم کی غنودگی، نیم بے ہوشی اور سکتہ کی کیفیت طاری ہے کہ جو بھی ظالم وجابر حکمران اور عنادی وفسادی جتھا کوئی جھوٹا افسانہ وڈراما گھڑنے اورتیار کرنے کے بعد جس پرامن اور بے ضرر قوم وملک پر حملہ اور یلغار کرکے اس کو تہس نہس کردے یا اس ملک کی بے گناہ عوام کو گولیوں، بموں اور فضائی حملوں سے بھون ڈالے، اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نہ ہی اس کا کوئی ہاتھ روکنے والاہے اور نہ ہی اس یلغار وخلفشار اور فضائی حملوں کی ان سے کوئی دلیل اور توجیہ طلب کرسکتا ہے۔  ان حالات میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ کوئی انسانوں اور شعور رکھنے والی قوموں کی دنیا نہیں، بلکہ جانوروں اور حیوانوں کے ریوڑ کا کچھار ہے کہ جہاں طاقتور کا ہر حکم اور ہر عمل درست اور کمزور کی ہر حرکت اور ہر فعل غلط، ناجائز اور قابل گردن زدنی گردانا جاتا ہے۔  عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا افسانہ برپا کرکے صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹاگیا، اس کو پھانسی کے گھاٹ اتارا گیا اور عراقی عوام کے ہزاروں افراد مردوزن صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے گئے اور کئی سال گزرنے کے بعد وہاں کی عوام یہ تمام مظالم آج تک برداشت کررہی ہے۔ افغانستان میں اسامہ بن لادن کا ہَوَّا کھڑا کرکے افغانستان کی عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا، جس کے برے اثرات دیر تک وہاں کی عوام سہتی رہے گی۔ اور پھر یہی ڈرامے پاکستان بھر میں مختلف ناموں اور ٹائٹلوں کے ساتھ دُہرا کر ہزاروں نوجوانوں کو ابدی نیند سلادیا گیا اور سینکڑوں کو پس زنداں دھکیل دیا گیا، جن کا آج تک نہ کوئی نام ونشاں ہے اور نہ ہی کوئی اتاپتا ہے۔ کچھ یہی انداز ایک بار پھر برطانیہ اور امریکہ کے لے پالک اسرائیل نے غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کے خلاف دہرایا ہے۔ اور کہا ہے کہ انہوں نے تین یہودیوں کو اغوا کرنے کے بعدقتل کردیا ہے یا انہیں ابھی تک قید میں رکھا گیا ہے۔ حماس نے بار بار اس کی تردید کی اور کہا ہے کہ گمشدہ اسرائیلی ہمارے قبضہ میں نہیں اور نہ ہی ہمیں ان کے بارے میں کچھ علم ہے، لیکن اسرائیل اس کو جواز بناکر ۸؍ جولائی سے آج تک ۱۹۰۰ سے زائد بچوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں کو شہید کرچکا ہے اور دس ہزار سے زائد فلسطینی عارضی کیمپوں اور اسکولوں میں پناہ گزین ہیں، نہ ان کے پاس غذائی اجناس پہنچ پارہی ہیں اور نہ ہی کوئی دوائی ان تک پہنچنے دی جارہی ہے۔  ۵۰ سے زائد نام نہاد اسلامی ممالک کے حکمران ہیں، وہ ایسے خوابِ غفلت اور خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں کہ نہ ان فلسطینیوں کی چیخیں اور آہیں ان کو سنائی دیتی ہیں اور نہ ہی ان کی اجتماعیں قبریں اور جنازے انہیں نظر آتے ہیں، فیاللأسف۔ اگر یہ مظلوم مسلمانوں کی حمایت یا تائید کے لیے کوئی بیان دیتے ہیں یا اپنی اسمبلیوں میں کوئی قرار داد لاتے ہیں تو وہ بھی ایسی پھسپھسی، بے مغز اور بے جان ہوتی ہے کہ جس کا نہ کوئی اثر لیتا ہے اور نہ ہی اس کی طرف کوئی توجہ کی جاتی ہے۔ اب تو عالم اسلام پر ایسی بے حسی اور مردنی چھائی ہوئی ہے کہ ان میں اجتماعیت، اتحاد اور اتفاق نام کی ڈھونڈنے سے بھی کوئی چیز نہیں ملتی۔ ہر اسلامی ملک انتشار وافتراق کا شکار ہے، کئی جماعتیں ہیں، کئی گروہ ہیں، جو آپس کی سرپھٹول میں لگے ہوئے ہیں۔ اور دوسرے ممالک‘ مسلمانوں کے بارہ میں انہیں کوئی غرض ہی نہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر اب مسلم ممالک کے حکمران اسرائیل کے بارہ میں کیا سوچ رکھتے ہیں، اس کی تھوڑی سی جھلک روزنامہ جنگ کے امریکہ میں مقیم نمائندہ اور کالم نگار جناب محترم عظیم ایم میاں صاحب کے ۶؍ اگست کے کالم میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے، جس کے چند اقتباسات یہ ہیں کہ : ’’ رہی بات مسلم حکمرانوں کی تو بطور نمونہ خود اپنے پیارے پاکستان جہاں کے عوام کے جذبات فلسطینیوں کے لیے انتہائی مخلصانہ اور برادرانہ ہیں، اس پر ۹؍ سال تک آمرانہ حکومت کرنے والے جنرل(ر) پرویز مشرف کے وہ خیالات آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں جن کا اظہار انہوں نے براہ راست مجھ سے ۲۰۰۳ء میں واشنگٹن میں کیا۔ وہ امریکی صدر جارج بش سے کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات اور مذاکرات کرکے بڑے خوش لوٹے تھے، پاکستان کے لیے امداد کا اعلان کیا گیا تھا۔ واشنگٹن کا ’’فورسیزن ہوٹل‘‘ پاکستانی وفد کی گہماگہمی اور سیکرٹ سروس کی چوکسی کے مناظر پیش کررہا تھا۔ جنرل(ر) مشرف کے ساتھ’’جیو/جنگ‘‘ کے لیے میرا یہ پہلا خصوصی انٹرویو طے تو تھا، مگر دوپہر سے سہ پہر اور پھر شام تک ملتوی کیا جاتارہا۔ بہرحال اس ماحول اور تناظر میں رات آٹھ بجے کے بعد جب میرے انٹرویو کا مرحلہ آیا تو جنرل پرویز مشرف نے دورہ، پاک-امریکہ تعلقات کی تازہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے بڑے بااعتماد لہجے میں کہا کہ: ’’ہمیں اپنا مفاد دیکھنا چاہیے، ہم فلسطینیوں سے بھی زیادہ فلسطینی بنتے ہیں۔ ہمیں فلسطینیوں نے کیا دیا ہے؟ ان کی وجہ سے ہم اسرائیل، امریکہ اور اس کے حامیوں کی ناراضگی مول لیتے ہیں‘‘ ۔ آنے والے وقت میں جنرل مشرف کے امریکی بااثر یہودی تنظیموں سے رابطے اور اسلام آباد کے خاموش دوروں اور نیویارک میں ایک یہودی تنظیم کے ڈنر سے جنرل مشرف کے خطاب نے بالکل واضح کردیا کہ وہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتے تھے۔ اس عملی مثال بلکہ حقیقت کو آپ دیگر مسلمان حکمرانوں کے خاموش رویے، ضرورتِ اقتدار پر بھی لاگو کرسکتے ہیں، ورنہ ان ممالک کے عوام تو واضح طور پر فلسطینیوں کے حق میں رائے رکھتے اور دعائیں کرتے نظر آتے ہیں، مگر یاد رکھیے کہ جس جارحانہ کام کا آغاز غزہ کی پٹی سے ہوا ہے اور جس تباہی کا شکار عراق، شام اور لیبیا ہورہے ہیں، وہ سفر کرکے جنوب مغربی ایشیا تک آنے والا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان واقع ممالک کے حکمران اور سیاست دان یاد رکھیں۔ جب ہر چیز آپ کے قابو سے باہر نکل جائے گی اور غیروں کا عالمی ایجنڈا اور آپ کی قومی شناخت کے دشمن اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاچکے ہوں گے تو پھر نظریہ سازش اور مخالفین کو برابھلا کہہ کر ہم اپنے دھر نے،اور مبہم انقلاب کے نعروں کو غلط وقت پر لگائے جانے والے نعروں کے زخم اسی طرح چاٹتے نظر آئیں گے، جس طرح مصر کے تحریر اسکوائر میں جمع ہوکر مصر میں انقلاب لانے والے چند دنوں کی حکومت کے بعد اب اپنی ہی فوج کے سربراہ کے ہاتھوں نہ صرف زنداں میں بند ہیں، بلکہ مصری فوج کا کمانڈر انچیف اب سربراہِ مملکت کے طور پر غزہ کے مسلمانوں کے بارے میں اسرائیلی خواہشات کا تابع نظر آتا ہے۔ مجھے تو غزہ کی پٹی سے لے کر افغانستان اور پاکستان تک برج اُلٹتے نظر آرہے ہیں، خدا کرے ایسا نہ ہو۔‘‘ آپ نے سابق صدر پاکستان کے خیالات ملاحظہ فرمالیے کہ: ’’ہم فلسطینیوں سے بھی زیادہ فلسطینی بنتے ہیں اور ہمیں فلسطینیوں نے کیا دیا ہے؟۔‘‘ یہی زہر پہلے عربوں میں پھیلایا گیا کہ آپ عرب ہیں، عربوں کو دیکھیں، پھر انہیں کہا گیا کہ آپ اپنے وطن کو دیکھیں، جیسے ہمارے ہاں نعرہ لگایاگیا کہ: ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک، حالانکہ حضور اکرم a کی تعلیمات بالکل اس کے برعکس ہیں، آپ a نے ارشاد فرمایا: ۱:-’’تری المؤمنین فی تراحمھم وتوادھم وتعا طفھم کمثل الجسد إذا اشتکی عضو تداعٰی لہٗ سائر الجسد با لسھر والحمی‘‘۔         (بخاری ومسلم عن النعمان بن بشیرؓ)  ’’تم با ہمی الفت ومحبت،شفقت وعنایت اور رحم وکرم میں تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند دیکھو گے،اگر جسم کے ایک حصہ میں کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘ ۲:-’’المؤمنون کرجل واحد إن اشتکی عینہ اشتکی کلہ، وإن اشتکی رأسہ اشتکی کلہ‘‘۔                                                           (صحیح مسلم)  ’’مومنوں کی مثال ایک آدمی کی ہے، اگر اس کی آنکھ کو تکلیف ہو تو سارا جسم بے تاب ہو جاتا ہے اور اگر سر میں تکلیف ہو تب بھی سارابدن بے چین ہوجاتا ہے۔‘‘ ۳:-’’المؤمن للمؤ من کالبنیان یشد بعضہ بعضًا ثم شبک بین أصابعہ‘‘۔(متفق علیہ) ’’ ایک مومن دوسرے مو من کے لیے ایسا ہے جیسے ایک عمارت کی مختلف اینٹیں کہ وہ ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انگلیاں ایک دوسرے میں ڈالیں۔‘‘ ۴:-’’المسلم أخو المسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ، ومن کان فی حاجۃ أخیہ کان اللّٰہ فی حاجتہ، ومن فرج عن مسلم کر بۃً فر ج اللّٰہ عنہ کر بۃً من کربات یوم القیا مۃ، ومن ستر مسلمًا سترہ اللّٰہ یوم القیامۃ‘‘۔            (بخاری ومسلم عن ابی ہریرۃؓ) ’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کر سکتا ہے، نہ اُسے بے سہارا چھوڑ سکتا ہے۔ اور جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے کام میں ہو، اللہ تعالیٰ اس کے کام بنا دے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی پر یشانی دور کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پر یشانی دور کر دے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی پر دہ پوشی کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پر دہ پوشی فرمائیں گے۔‘‘ ’’الرا حمون یر حمھم الرحمٰن، ارحموا من فی الأرض یرحمکم من فی السمائ‘‘۔ ( ابوداؤد) ’’ رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پررحم کرے گا۔‘‘  مسلم حکمرانوں میں یہ جمود، قنوط اور یاس کی کیفیت اس لیے پیدا ہوئی کہ انہوں نے اپنا نصب العین اورانبیاء oواولیاء w کی تقلید چھوڑ کر اغیار کی تقلید کو نظریۂ حیات بنایا اور دشمنوں پر تکیہ اور بھروسہ کیا، انہیں کی دی گئی پالیسیوں پر چلتے رہے اور بے دام غلام کی طرح ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے رہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ ان کی عوام کو امن وسکون ملا اور نہ ہی ان کے آقا وسرپرست ان سے خوش ہوئے، ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم، نہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے رہے۔‘‘ اسرائیلی مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے اور ان کی سفاکیت وبربریت کو دیکھتے ہوئے برطانیہ کی ایک رکن سعیدہ وارثی نے اپنا استعفیٰ پیش کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ اسرائیلی ہتھیاروں پر پابندی لگائے، انہوں نے کہا کہ غزہ میں مہم جوئی اور ایک ماہ میں اٹھارہ سو سے زائد فلسطینیوں کا قتل کسی بھی طرح کبھی جائز اور منصفانہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اور یہ بالکل حق بات ہے کہ جب سے اسرائیل کو اس خطہ میں آباد کیا گیا، اس وقت سے اس نے غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے اور یہ جرأت اُسے اس لیے ہوتی ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے مل کر اس سانپ کو اسلام اور مسلمانوں کو ڈسنے کے لیے جنم دیا ہے اور وہی اس کی پرورش کرتے ہیں اور آج بھی یہی دونوں ممالک اس کو دودھ پلا رہے ہیں۔ ان اسلام دشمنوں کا علاج صرف اور صرف یہ ہے کہ ان کو اقتصادی مار دی جائے، عالم اسلام احتجاجاًاقوامِ متحدہ سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنا مسلم متحدہ محاذ بنائے۔ امریکہ، برطانیہ اور ان کی لونڈی اقوام متحدہ پر واضح کردیا جائے کہ اگر وہ اسرائیل کی پشت پناہی سے باز نہ آئے تو ان سے سفارتی روابط اور تعلقات ختم کردیئے جائیں گے۔  اسرائیل نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے ضابطوں کی خلاف ورزی کی، اس کی قرار دادوں کو پائے حقارت سے ٹھکرایا۔ وہ باسٹھ سال سے فلسطین کے نہتے شہریوں کے مکانوں اور مساجد کو بے دریغ اور مسلسل بمباری کرکے تباہ کررہا ہے۔ یہ مناظر اتنے ہولناک اور دلدوز ہیں کہ امریکی اور دیگر ممالک کی غیر مسلم اقوام جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں، وہ بھی احتجاج کررہے ہیں اور اسرائیل کی مذمت کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیائے اسلام کے حکمران سرجوڑ کر بیٹھیں، ان مشکل حالات کا تجزیہ کریں اور ان کے حل کے لیے کوئی راہ نکالیں، اس لیے کہ زندہ اور بے دار مغز قومیں مشکلات میں اپنا راستہ خود نکالا کرتی ہیں، ان کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے طریق کار خود وضع کرتی ہیں، انہیں نہ کسی کو راضی کرنے کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کے ناراض ہونے کی کوئی پرواہ۔ وہ تو صرف اور صرف اپنے رب کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے سب کچھ کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے پاس پٹرول ہے، پیسہ اور دولت ہے، وہ تین کام بآسانی کرسکتے ہیں: ۱:… پٹرول کی سپلائی ان کو بند کردی جائے۔۲:… عربوں کی جو دولت اور پیسہ یہودی بینکوں میں ہے، اس کو نکال کر مسلمان ممالک کی بینکوں میں رکھا جائے اور ان سے حاصل شدہ منافع کو اسلامی ممالک کی عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جائے۔۳:… ان سے تجارت اور ان کی مصنوعات کا یکسر بائیکاٹ کیا جائے اور ان کے بالمقابل اسلامی ممالک میں ان مصنوعات کے معیار کے مطابق اپنی مصنوعات کو بروئے کار لانے کی کوشش کی جائے۔ ان تدابیر سے ان شاء اللہ! ان کا دماغ درست ہوجائے گا اور اس پر سوار مسلم دشمنی کا نشہ کافور ہوجائے گا۔ باقی رہی مسلم عوام کی ذمہ داری، ایک تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع کرے، اس کی بارگاہ میں سربسجود ہو، اس سے آہ وزاری کرے اور اپنے گناہوں سے توبہ تائب ہو اور مزید یہ کہ مغربی تہذیب کا قلع قمع کیا جائے۔ اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی مغربی تہذیب کی نقالی سے دور رکھا جائے۔ آج یہ مظالم اور مفاسد، ہلاکتیں اور تباہیاں اس لیے بھی ہم مسلمانوں کا مقدر بنی ہیں کہ اور کمیوں کوتاہیوں کے علاوہ ہم نے مسلم تہذیب کا جنازہ نکال کر مغربی تہذیب میں اپنے آپ کو رنگ لیا ہے۔ آج اکثر ممالک کی عوام وخواص کو دیکھ کر پتہ نہیں چلتا کہ یہ مسلمان ہیں یا عیسائی، نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلٰی آلہ وصحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین