بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اتحاد مجلس علمائے پاکستان

اتحادِ مجلس علمائے اسلام پاکستان!

 

الحمد للّٰہ وسلام علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

انگریز کے ہندوستان پر قبضے کے بعد حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی v نے فتویٰ دیا کہ ہندوستان دارالحرب ہے اور اہل ہندوستان پر جہاد فرض ہے۔ اس فتویٰ کی تعمیل اور اس فرض جہاد کی تکمیل کے لیے سیدین شہیدین حضرت مولانا سید احمد شہیدv اور حضرت سید اسماعیل شہیدv نے سکھوں کے خلاف جہاد کیا، جس میں انہوں نے اپنی جانوں کی قربانی پیش کی۔ کچھ وقفہ کے بعد ان کی روحانی اولاد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیv، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویv، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیv، حضرت مولانا حافظ ضامن شہیدv نے عملی طور پر انگریز کے خلاف جہاد کیا اور ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی میں حضرت ضامن صاحبؒ شہید ہوئے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیv نے اس جہاد کی پاداش میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہٗ نے حرمین شریفین کی طرف ہجرت کی اور وہاں ہند کے مسلمانوں کے ایمان واعتقاد کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں اور التجائیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویv کی تحریک اور معاونت سے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے بعد آپ کے شاگردِ رشیدشیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنv نے چالیس سال سے زائد عرصہ دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے بعد ایک ایسی جماعت تیار کرلی جس کا ہر فرد ہمہ جہت ہونے کے باوصف اپنے اپنے میدان میں سرخیل اور مقتدا سمجھا اور مانا جاتا تھا۔ خود حضرت شیخ الہندvنے تحریک ریشمی رومال، تحریک خلافت اور تحریک ترکِ موالات ہر ایک میں نہ صرف یہ کہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بلکہ اس کے لیے انہوں نے تین سال سے زائد عرصہ مالٹا کی جیل بھی کاٹی۔ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیv نے تدریس کے ساتھ ساتھ سیاسیات میں حضرت شیخ الہندv کی میراث کا حق ادا کیا۔حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویv نے تصوف وسلوک اور تصنیف وتالیف میں اپنا لوہا منوایا۔ حضرت مولانا عبیدا للہ سندھیv نے اپنے استاذ شیخ الہندv کی تحریک کو عروج تک پہنچانے میں کردار ادا کیا۔ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویv بانیِ تبلیغی جماعت نے تبلیغی جماعتوں کو اکنافِ عالم تک پہنچایا۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیv نے مفسر قرآن ہونے کے علاوہ سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آپؒ ہی کی کوششوں اور کاوشوں سے قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کو تقویت اور تحریک پاکستان کو کامیابی ملی۔ حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیریv جن کے بارہ میں علامہ اقبالv نے کہا:’’پانچ سو سال میں علامہ انور شاہؒ جیسا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا‘‘۔ انہوں نے قرآن وحدیث کی خدمت اور نشرو اشاعت کے علاوہ تحریک تحفظ ختم نبوت کی طرف اپنے شاگردوں اور علمائے کرام کو متوجہ کیا اور بنفس نفیس حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریv کے ہاتھ پر بیعت کی اورتقریباً پانچ سو علمائے کرام کو بھی شاہ صاحبؒ کے ہاتھ پر بیعت کرایا۔ خلاصہ یہ کہ دارالعلوم دیوبند کے روحانی ابناء نے ہر میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ہر علمی میدان اور مورچہ کو سنبھالا اور امت ِمسلمہ کو فتنوں سے بچایا۔ فن تدریس ہو یا فن تقریر، مناظرہ کا میدان ہو یا مباہلہ کا، تبلیغ اسلام کا فریضہ ہو یا جہاد کا۔ اسلام پر باہر سے کسی نے حملہ کیا ہو یا اسلام میں گھس کر کسی نے اسلام کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہو، ہر ایک مقام اور ہر میدان میں علمائے دیوبند نے سینہ تان کر سب کا مقابلہ کیا۔ اسی بنا پر ان کی الگ الگ تنظیمیں اور جماعتیں بنتی گئیں۔ حقیقت کے اعتبار سے تو سب ایک ہی ہیں اور سب دین اسلام کا ہی کام کررہے ہیں، لیکن انداز اور اہداف مختلف رہے ہیں۔ اب چونکہ دشمنانِ اسلام ایک ہوچکے ہیں اور سب مل کر دین اسلام کو مٹانے اور بے وقعت کرنے کے درپے ہیں، اور پاکستان کوباوجود اپنی اندرونی کمزوریوں اور خلفشار کے بیرونی دنیا میں اسلام کا قلعہ سمجھا اور کہا جاتا ہے، اس لیے مغرب‘ دین اسلام کی روح کو مٹانے اور اس ملک کو افراتفری میں مبتلا کرنے کے لیے اکٹھا ہوچکا ہے۔ ضرورت تھی کہ ابتداء ً کم از کم علمائے دیوبند کی تمام تنظیمیں اور جماعتیں متحد ہوں اور اس کے بعدتمام مسالک اور مکاتب فکر سے رابطہ کرکے ان کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر تحریک پاکستان اور تحریک ختم نبوت کی یادوں کو تازہ اور دین اسلام کے دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے۔ اس لیے ماہنامہ ’’بینات‘‘ کے گزشتہ شمارہ صفر المظفر ۱۴۳۶ھ مطابق دسمبر ۲۰۱۴ء کے اداریہ ’’خوش آئند اقدام‘‘ کے تحت لکھا گیا تھا کہ دیوبند مکتب ِفکر سے وابستہ تمام دینی ، مذہبی اور سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کے سربراہوں اور قائدین کی مشاورت سے ایک اتحاد قائم کیا گیا ہے، جس کے سربراہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم العالیہ کو بنایا گیا ہے۔ اس اتحاد کا آٹھ نکاتی ایجنڈا بھی تحریر کیا گیا تھا۔ اب مؤرخہ ۱۶؍ صفر المظفر ۱۴۳۶ھ مطابق ۹؍ دسمبر ۲۰۱۴ء بروز منگل اس کا دوسرا سربراہی اجلاس زیرصدارت حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر حفظہ اللہ بمقام دفتر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان منعقد ہوا، جس میں درج ذیل حضرات شریک ہوئے: حضرت مولانا سید عطاء المؤمن شاہ صاحب بخاری سربراہ رابطہ کمیٹی مجلس علمائے اسلام پاکستان، حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی امیر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،حضرت مولانا حافظ حسین احمد صاحب مرکزی سیکرٹری اطلاعات جمعیت علمائے اسلام (ف)، حضرت مولانا محمد احمد لدھیانوی سربراہ اہلسنت والجماعت پاکستان،حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان، حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب مرکزی راہنما جمعیت علمائے اسلام (س)، ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں سیکرٹری جنرل اہلسنت والجماعت پاکستان، حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب سربراہ شریعت کونسل پاکستان، حضرت مولانا مفتی محمد جامعۃ الرشید کراچی، حضرت مولانا امداد اللہ صاحب ناظم تعلیمات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی،حضرت مولانا محمد طیب صاحب پنج پیر، مولانا محمد عمر قریشی صاحب،حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،حضرت مولانا عبدالغفار تونسوی صاحب ،مولانا الطاف الرحمن، مولانا سید محمد کفیل شاہ بخاری، مولانا اشرف علی ، مفتی حبیب الرحمن درخواستی سربراہ مجلس علمائے اہلسنت، مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاری ثالث، مولانا بشیر شاد رہنما جمعیت علمائے اسلام اور دیگر علمائے کرام ۔ راقم الحروف بھی اس اجلاس میں شریک تھا۔ پہلی نشست کا دورانیہ ایک بجے تک رہا۔کھانے اور نماز کے وقفہ کے بعد دوسری نشست چار بجے تک جاری رہی۔ اس اجلاس کا آغاز مولانا محمد عمر قریشی صاحب کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد حضرت مولانا عطاء المؤمن شاہ بخاری حفظہ اللہ نے حاضرین مجلس کے سامنے اب تک منعقدہ اجلاسوں کی کارروائی کا خلاصہ پیش کیا ۔ صدرِ اجلاس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم نے اپنے مختصر صدارتی خطاب میں تاریخی واقعات کی روشنی میں اتحاد واتفاق کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا۔رابطہ کمیٹی نے کچھ سفارشات اور تجاویز مرتب کی تھیں، صدر اجلاس کی اجازت سے ان سفارشات اور تجاویز کو منظوری کے لیے حاضرین اجلاس کے سامنے پیش کیا گیا، بحث وتمحیص کے بعد متفقہ طور پر ان کی منظوری دے دی گئی۔وہ سفارشات وتجاویز درج ذیل ہیں: ۱-اس اتحاد کا نام ’’مجلس علماء اسلام پاکستان‘‘ ہوگا۔ ۲-اتحاد کی ایک جنرل کونسل قائم کی جائے گی، جس میں چھوٹی بڑی تمام جماعتوں کے سربراہوں کو شریک کیا جائے گا۔ ۳-سپریم کونسل کا حجم کم سے کم رکھا جائے گا جو کل اکیس افراد اور شخصیات پر مشتمل ہوگی، جس میں نو جماعتوں کے سربراہان سمیت دیگر علمی شخصیات شریک ہوں گی۔مجوزہ سپریم کونسل میں شامل جماعتوں کے نام درج ذیل ہیں: ۱:…جمعیت علمائے اسلام(ف)، ۲:…جمعیت علمائے اسلام (س)، ۳:…اہل سنت والجماعت، ۴:…عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،۵:… مجلس احرارِ اسلام پاکستان،۶:… وفاق المدارس العربیہ پاکستان،۷:… جمعیت اشاعۃ التوحید والسنۃ، ۸:… خدام اہل سنت، ۹:… پاکستان شریعت کونسل۔ اتحادِ مجلس علمائے اسلام کی سپریم کونسل میں شریک شخصیات درج ذیل ہوں گی: ۱:…مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب، ۲:… مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، ۳:… مفتی محمد زرولی خان صاحب،۴:… ڈاکٹر سید شیر علی شاہ صاحب، ۵:… مفتی حمید اللہ جان صاحب، ۶:… مفتی عبدالرحیم صاحب، ۷:… مولانا عبیداللہ صاحب جامعہ اشرفیہ لاہور،۸:… مولانا عبدالصمد ہالیجوی صاحب، ۹:… مفتی محمد نعیم صاحب، ۱۰:… مولانا سعید یوسف صاحب آزاد کشمیر، ۱۱:… مفتی غلام الرحمن صاحب، ۱۲:… مولانا عبدالحفیظ مکی صاحب۔ ۴-اس کے علاوہ گیارہ رکنی رابطہ کمیٹی بنائی گئی، جس کے ارکان یہ ہیں: ۱:…مولانا سید عطاء المؤمن شاہ صاحب بخاری سربراہ رابطہ کمیٹی،۲:…حافظ حسین احمد، ۳:…قاری محمد حنیف جالندھری، ۴:…مولانا زاہد الراشدی، ۵:…مولانا عبدالرؤف فاروقی، ۶:…مولانا مفتی محمد، ۷:…مولانا اللہ وسایا، ۸:…ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں، ۹:…مولانا اشرف علی، ۱۰:…مولانا محمد عمر قریشی، ۱۱:…مولانا الطاف الرحمن۔ رابطہ کمیٹی کا متعین دائرہ کار یہ ہوگا: ۱:…سپریم کونسل اور جنرل کونسل کے اجلاسوں کا ایجنڈا اور سفارشات مرتب کرنا۔ ۲:…سپریم کونسل کے اجلاسوں کے فیصلے مرتب کرنا اور ان کی نقول بھجوانا۔ ۳:…آٹھ نکاتی منظور شدہ ایجنڈا کی تکمیل وتنفیذ کے لیے سفارشات مرتب کرنا۔ ۴:…سپریم کونسل اور جنرل کونسل کے اراکین سے رابطہ اور ان کے فیصلوں پر عملدرآمد۔ ۵:…دیگر مکاتب فکر سے رابطے کے لیے کمیٹی قائم کرنا۔ ۵-مجوزہ دائرہ کار کی روشنی میں موجودہ رابطہ کمیٹی کا نام’’ورکنگ کمیٹی‘‘ ہوگا۔ اس اجلاس میں ایک میثاق بھی مرتب کیا گیاتھا، جس کو حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے حاضرین اجلاس کو سناکر ان سے اس پر عہد لیا کہ: ۱:…ہم آٹھ نکاتی پروگرام کو آگے بڑھانے اور اُسے عملی جامہ پہناتے ہوئے اہل حق کو متحد اور مربوط بنانے کے لیے پرخلوص محنت کریں گے۔ ۲:…ایک دوسرے کے احترام اور باہمی تعاون کی فضا کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ۳:…باہمی متنازعہ امور اور مسائل کو عوامی سطح پر زیر بحث لانے سے گریز کریں گے۔ ۴:…اپنے کارکنوں اور رفقاء کی ان امور کے حوالہ سے تربیت اور ذہن سازی کا اہتمام کریں گے۔ ۵:…خدانخواستہ کسی سانحہ کی صورت میں کسی رابطہ یا دعوت کا انتظار کیے بغیر متأثرہ جماعت اور حضرات کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔ ۶:…مشترکہ مقاصد کے لیے مشترکہ مجالس اور اجتماعات کا ماحول عام کریں گے اور اس کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔ ۷:…سپریم کونسل اور رابطہ کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد میں حتی الوسع کسی قسم کی کوتاہی کو روا نہیں رکھیں گے۔ ۸:… مشترکہ آٹھ نکاتی پروگرام کی ہر سطح پر زیادہ سے زیادہ تشہیر کی کوشش کریں گے۔ ۹:…ملک کی عوامی رائے کو اس پروگرام اور ایجنڈے کے لیے ہموار کرنے میں ہر میسر ذریعہ استعمال کریں گے۔ ۱۰:…باہمی شکایات اور تنازعات کو آپس میں مل بیٹھ کر طے کریں گے اور اُسے باہمی دائرے سے باہر لے جانے سے گریز کریں گے۔ تقریباً چار بجے یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا اور اس کے بعد پریس کانفرنس کی گئی، جس میں اس اجلاس کی غرض وغایت اور اہداف کے بارہ میں صحافیوں کو بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ مؤرخہ ۸؍ جنوری ۲۰۱۵ء کو علمائے کرام اور خطباء عظام کا ایک بھرپور کنونشن منعقد کیا جائے گا اور اس کے بعد ۱۵؍ جنوری کو کراچی میں ایک جلسہ عام ہوگا۔ جب سے دیوبند مکتب فکر کے متحد ومتفق ہونے کی پیش رفت شروع ہوئی ہے، اس دن سے علماء دشمنی میں مبتلا مریضوں کے مرض میں اضافہ اور ان کا اندرونی غیظ وغضب دیدنی ہے۔کبھی وہ اکابر علمائے دیوبند کے بارہ میں ہفوات بکتے ہیں تو کبھی موجودہ مسلک دیوبند سے وابستہ افراد اور جماعتوں کو نشانے پر رکھتے ہیں۔ خدارا! اس قوم کو مزید آزمائش میں نہ ڈالیے اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے کے رجحان کو ختم کیجیے۔ تحریک پاکستان کو اب سڑسٹھ سال گزرگئے، اب پرانے ہتھکنڈے ختم کیجیے،پاکستان بننے کے بعد اب صرف پاکستان کی بات کیجیے کہ کس نے پاکستان میں آنے کے بعد کیا کیا؟ اور کیا کرے گا؟ سب مل جل کر وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کریں، اگر اس دفعہ بھی مذہبی قوتیں متحد نہ ہوئیں تو پھر یہ وقت ہاتھ نہیں آئے گا اور خدانخواستہ قوم بے دینی کے شکنجے میں ایسی کسی اور جکڑی جائے گی کہ کوئی بھی قوت اس کو اس شکنجے سے نہیں نکال سکے گی۔ ایسے صحافی حضرات جو ہمیشہ علماء کرام کو مطعون کرتے اور کوستے رہتے ہیںان کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر علمائے کرام متحد ومتفق ہورہے ہیں اور انہوں نے اپنے ایجنڈے میں یہ بات شامل کی ہے کہ وہ دوسرے مسالک کے افراد سے بھی رابطہ کریں گے اور ان کی بھی اس ایجنڈے میں شرکت کے لیے کوشش کریں گے، اس سے تو نہ صرف یہ کہ ان کو خوش ہونا چاہیے تھا، بلکہ اپنی بساط کے مطابق اس کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا حصہ بھی ڈالنا چاہیے تھا۔ بہرحال استعماری طاقتوں اور ان کے آلہ کاروں نے پاکستان بھر میں فضا ہی ایسی بنادی ہے کہ اگر کہیں کسی فتنہ کی بات ہو اور اس سے فتنہ کی آگ بھڑک سکتی ہو تو اس کو ضرور اچھالا جائے گا۔ صحافی حضرات بھی کالم پر کالم لکھیں گے، الیکٹرانک میڈیا بھی اس پر پروگرام نشر کرے گا اور مباحثے پرمباحثے کرائے گا، لیکن اگر کہیں سے اتفاق واتحاد کی بات چلتی ہے، فتنوں کو بجھانے اور انہیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو اُسے پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا اس کو دو کالمی خبر یا دو منٹ کی کوریج بھی نہیں ملتی: وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی شمارہ پریس جانے کی تیاری میں ہی تھا کہ ۲۴؍ صفر المظفر۱۴۳۶ھ مطابق ۱۷؍ دسمبر۲۰۱۴ء کے اخبارات میں یہ المناک خبر شہ سرخیوں کے ساتھ تقریباً تمام اخبارات میں تھی کہ سفاک دہشت گردوں اور قاتلوں نے جن کی تعداد سات تھی، پشاورمیں آرمی کے اسکول پر حملہ کرکے ۱۳۲؍ طلبہ، اسکول کی پرنسپل، اساتذہ اور عملہ سمیت ۱۴۲؍ انسانی جانوں کو شہید کرکے موت کے گھاٹ اتاردیا ہے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون ، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمٰی۔ اس موقع پر مدارسِ دینیہ کے بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے بھی اس المناک اور دردناک واقعہ کی بھرپور مذمت کی اور اس کو انسانیت سوز واقعہ قراردیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بچوں کو قتل کرنے والے درندوں کو عبرت ناک سزا دی جائے، خبر کی تفصیل ملاحظہ ہو: ’’کراچی(اسٹاف رپورٹر)علمائے کرام نے سانحہ پشاور کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعہ کو پوری قوم کے لیے المناک سانحہ قرار دیا ہے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے رہنماؤں شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مولانا محمد حنیف جالندھری اور مولانا انوار الحق نے سانحہ پشاور کے حوالے سے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ پشاور سانحہ پوری قوم کے لیے المناک سانحہ ہے اور پاکستانی تاریخ میں اس قسم کے المناک اور انسانیت سوز سانحہ کی مثال نہیں ملتی۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے رہنماؤں نے سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کے خاندانوں کے ساتھ تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیااور کہا کہ پوری قوم ان کے دکھ میں برابر کی شریک ہے۔‘‘                                (روزنامہ اسلام کراچی، ۲۴؍ صفر المظفر۱۴۳۶ھ، مطابق ۱۷؍ دسمبر ۲۰۱۴ئ) ادارہ بینات بھی اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور شہید ہونے والے معصوم طلبہ کے والدین سے اظہارِ تعزیت کرتا ہے اوردعاگو ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان شہداء کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ادارہ بینات حکومت سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ اس سانحہ کی مکمل تحقیق کرکے قوم کو آگاہ کرے اور ذمہ داران کو سخت سے سخت سزا دے۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین