بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اِک ’’نیازمند‘‘ فرزندِ بنوری ٹاؤن

اِک ’’نیازمند‘‘ فرزندِ بنوری ٹاؤن

اسلامی سال ۱۴۳۹ھ کے پہلے ’’دن‘‘ پہلا ’’جمعہ‘‘ عظیم مادرِ علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے لائق و فائق ’’استاذ‘‘ و ’’ناظمِ دارالاقامہ‘‘،’’معین و رفیقِ دارالافتاء ‘‘اور قابلِ افتخار فاضل نوجواں، گلشنِ بنوری کے ’’فرزند‘‘ مولانا مفتی محمد نیاز v اچانک حرکتِ قلب بند ہو جانے سے رحلت فرماگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔کم عمری میں ممتاز و نمایاں خوبیوں کا مالک میرا ’’چھاچھی ملا‘‘ (میں اُن کے سنگی کہنے کے جواب کے طور پہ کہتا) پاکیزہ اُلفتیں لُٹانے والا ایک ’’ہمدرد انسان‘‘ تھا۔ اس مردِ قلندر کا نام والدین نے ’’محمد نیاز‘‘ رکھا تھا۔ خمیرِ نسبت مفتی صاحب v کا آبائی علاقہ سرزمینِ چھچھ کا معروف گاؤں ’’شینکہ‘‘ تھا۔ دریائے اباسین کے ساتھ متصل شمال میں ایک سو دو گاؤں پہ مشتمل علاقہ چھچھ جس کا مرکزی شہر وتحصیل مقامِ حضرو ہے۔اس ’’فرزند‘‘ کا تعلق ’’شینکہ‘‘ گاؤں میں ایک محنتی و غیور جفاکش ’’محمد یونس‘‘ مرحوم کے گھرانہ سے ہے، پانچ بیٹے، ایک بیٹی پہ مشتمل اس کنبہ کے سب سے چھوٹے فرزند ’’مفتی محمد نیاز‘‘ کی پیدائش ۲۰؍ذو الحجہ ۱۳۹۱ھ موافق،۵؍فروری ۱۹۷۲ء بروز ہفتہ کو ہوئی، سادگی کے پیکر نیک صالح والدین نے اپنے اس بیٹے کو عظمتِ دین کی ترویج و اشاعت کے لیے وقف کرنے کا عزم کیا،والدین نے اعلیٰ اخلاقی تربیت کرتے ہو ئے علاقہ کی روایت کے مطابق ابتداء میں گاؤں کی مسجد میں ناظرہ قرآن کے ساتھ ابتدائی عصری تعلیم کے لیے مقامی اسکول میں داخل کروایا۔ عمرِ شعور کے ساتھ ہی اپنے گاؤں سے متصل دوسرے گاؤں ’’ملک مالا‘‘ میں معروف مربی استاذ العلماء حضرت ’’قاری محمد اسماعیل‘‘ مدظلہ العالی کے یہاں حفظِ قرآن کے لیے داخل کروایا۔ حضرت قاری صاحب مدظلہٗ کی خصوصی توجہ و شفقت سے ’’محمدیونس‘‘ مرحوم کے فرزند ’’محمد نیاز‘‘ ۱۹۸۶ء میں حفظِ قرآن کی تکمیل کی نعمت و سعادت سے شرف یاب ہو کر اَب ’’حافظ محمد نیاز’’ بن چکے تھے،اس عظیم انعام کی صورت میں والدین کا بھی ایک خواب حقیقت کی تعبیر کی شکل میں سامنے تھا، جس پہ پورا گھرانہ و خاندان رب تعالیٰ کے حضور شکر بجالارہا تھا۔ تکمیلِ حفظ کے بعد گردان اور ضروری عصری تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا،قرآن مجید کی پختگی کے ساتھ ساتویں جماعت تک مقامی اسکول میں پڑھائی بھی مکمل کی۔ درخت لگانا ہمارا اور پھل دینا اللہ کا کام ہے والدین و اہل خانہ نے اپنے خواب کے اگلے مرحلہ کی تکمیل کی غرض سے علومِ دینیہ کے حصول کے لیے باہمی مشاورت کے بعد عالم اسلام کے معروف مرکزِ علم وعرفاں ’’جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی‘‘ کا انتخاب کیا۔ اس عظیم ادارہ میں داخلہ کی مشکلات کی آسانی کے لیے ’’حافظ محمد نیاز‘‘ کے مرحوم والد اور ان کے بڑے بھائی ’’محمد ابراہیم‘‘ اپنے گاؤں سے متصل دوسرے گاؤں ’’بہبودی‘‘ تشریف لے گئے،جہاں برصغیر کی معروف علمی ہستی عارف باللہ حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوری v کے فرزند حضرت مولانا قاری سعیدالرحمن v سے ملاقات کی،حضرت قاری صاحب v اس علاقہ کی دینی و علمی شخصیت کے ساتھ سیاستِ اسلامی کے بھی سرخیل تھے،اور علاقہ چھچھ میں دینی و سماجی حوالہ سے معروف نام رکھتے تھے۔ آپ ’’جامعہ اسلامیہ راولپنڈی‘‘ کے ’’بانی و شیخ الحدیث‘‘ بھی تھے، علاقہ چھچھ میں عملاً اسلامی سیاست کی وجہ سے انتخاب میں فتح یاب ہو کر پنجاب کی وزارت پہ بھی فائز رہے۔ برسوں ہر ہفتہ میں بروز بدھ اور جمعرات علاقہ میں موجود ہو نے کا آپ کا معمول رہا۔ حضرت قاری صاحب v کے سب سے چھوٹے بھائی ’’امامِ اہلِ سنت حضرت مفتی احمدالرحمن v‘‘ عالمِ اسلام کے عظیم مرکز گلشنِ بنوری جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم اور اس ادارہ کے بانی ’’محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری الحسینی v‘‘ کے حیاً و میتاً جانشین وداماد تھے۔ حضرت مفتی صاحب v اپنی دینی مصروفیات و مشاغل کی بنا پہ بہت کم اپنے علاقے کی طرف تشریف لے جاتے۔ اگر اسلام آباد ،راولپنڈی یا پشاور کی طرف آپ کا جانا ہو تا اور وقت ملتا تو ضرور اپنے آبائی علاقہ میں جاتے، آپ کی گاؤں آمد اکثر اپنے بڑے بھائی حضرت قاری سعیدالرحمن v کے ساتھ ہی ہو تی۔ قاری صاحبؒ سے اسی مناسبت وتعلق اور تعارف کی بنا پہ ’’حافظ محمدنیاز‘‘ کے ’’والد مرحوم‘‘ اور بھائی ’’محمدابراہیم‘‘ ان کے پاس ’’بہبودی‘‘ ملاقات کے لیے گئے۔ انیس سو ستاسی کی بات ہے، وہاں جاکر اپنے برخوردار کے تکمیلِ حفظ اور اپنے خاندان کی خواہش کا بتلایا کہ ہم اس ’’بچے‘‘ کو دینی علوم پڑھاکر عالمِ دین بنانا چاہتے ہیں،آپ اپنے چھوٹے بھائی مفتی صاحب کے نام سفارش کے طور پہ تحریر لکھ دیں، تاکہ ہم اس کو درسِ نظامی کے حصول کے لیے کراچی بھیج دیں۔ قاری صاحب vنے فرمایا کہ :میرے بھائی ’’مفتی صاحب v‘‘ گاؤں تشریف لائے ہو ئے ہیں، اور گھر میں موجود ہیں، تھوڑی دیر میں وہاں موجود اُن کی بیٹھک میں مفتی صاحب v تشریف لائے تو اُن کے سامنے اپنے مُدعا اور خواہش کا اظہار کیا، ’’بھائی محمد ابراہیم‘‘ کے بقول ہم نے حضرت سے تحریر لکھنے کی بات کی، تاکہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ کی آسانی ہو، تو ’’حضرت مفتی صاحب v‘‘ نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ:’’درخت لگانا ہمارا کام ہے، پھل دینا اللہ کا کام ہے۔‘‘ مفتی صاحب v نے اپنے ادارہ کے منتظمین کے نام تحریر لکھ کر ان کو دی توبھائی ابراہیم نے ان سے وہ جملہ بھی اس تحریر پہ لکھنے کا کہا، حضرت v نے اُن کی خواہش پہ وہ بھی اس تحریر میں لکھ دیا، یوں ’’حافظ محمد نیاز‘‘ کو کراچی میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے کراچی کے لیے روانہ کرنے کا طے ہوا۔ بھائی محمد ابراہیم نے بتایا کہ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو تاکید کی کہ اس سفارشی تحریر کو متعلقہ ناظم صاحب کو دکھا کر ان سے لے لینا اور اس کو بطور تبرک و تاریخی یادداشت کے طور پہ اپنے پاس محفوظ رکھنا۔ ۱۹۸۸ء میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں ابتدائی درجات میں داخلے کے لیے امتحان پاس کیا، منتظمِ جامعہ نے نئی قائم ہو نے والی شاخ ’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ‘‘ملیر میں رہائشی داخلہ کا بطاقہ دے دیا۔درجہ اولیٰ سے درجہ رابعہ تک مفتی نیاز v محنت لگن اور مستقل مزاجی سے جامعہ کی ملیر شاخ میں اپنے باکمال اساتذہ کی مثالی تربیت میں درسِ نظامی کی تعلیم کا ایک مرحلہ مکمل کر کے درجۂ خامسہ میں اپنے ہم جماعت طلبہ کے ساتھ مرکز آگئے۔ اس وقت ملیر شاخ کے ناظم مولانا عبدالغفار زیدمجدہٗ نے ان کے بارے میں بتایا کہ مفتی صاحب ذی استعداد، فہیم و ذکی طلبہ میں شمار ہو تے تھے اور ان گزرے چار سالوں کے روز وشب میں کبھی بھی اپنے اساتذہ کو معمولی شکایت کا موقع نہیں دیا،نیک صالح عادات، ادب و احترام سے مزین خادمانہ طبیعت اور اخلاق وسنجیدہ گفتار کی مثالی صفات کی بنا پہ ان کا نمایاں طلبہ میں شمار ہو تا تھا۔ درجہ خامسہ سے ۱۹۹۵ء میں درجہ سابعہ تک درسِ نظامی کے اختتام کے آخری سال سے قبل ’’حافظ محمد نیاز ‘‘ اساتذہ کے مشورہ سے دورہ حدیث شریف سے قبل مینگورہ سوات میں ایک سال کے لیے فنون کی پختگی کے لیے چلے گئے،ایک سال میں مزید اعلیٰ علمی استعداد میں کمال حاصل کرکے واپس مادرِ علمی میں تشریف لائے اور ’’امام اہل سنت v ‘‘ نے علم کا جو درخت لگایا تھا وہ اب ’’حافظ محمد نیاز‘‘ سے ’’مولانا محمد نیاز‘‘ بن چکے تھے، اور اس تن آور درخت کی آبیاری کرنے والی وہ عظیم ہستیاں تھیں جو سب علم و فضل، تقویٰ و ورع، دور اندیشی اور اپنے زمانہ میں یکتا صفات و کمالات میں ممتاز درجہ پہ تھیں۔ اس عظیم مادر علمی کے نابغۂ روزگار اربابِ علم و فہم سے ’’حافظ محمد نیاز‘‘ نے کسبِ فیض کرتے ہوئے علوم نبوی کی سند حاصل کی۔ عظمتِ رفتہ کی اس عظیم مسندِ حدیث پہ جن نایاب جواہر نے اس پتھر کو تراشا اُن میں شہدائے جامعہ کے سرخیل دامادِ علامہ بنوریؐ ’’حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید و حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید w‘‘ اور باغبانِ بنوری کے مسند نشین ’’حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم العالیہ‘‘ جیسے سلاطینِ علم و عمل کے بلند نام سرِ فہرست ہیں۔ حصولِ علم کے اس پڑاؤ پہ دیگر درجات کی طرح درجہ عالمیہ میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے اختتامی امتحان میں بھی ممتاز حیثیت کے چند خوش بخت طلبہ میں شامل تھے۔’’مولانا محمد نیاز‘‘ نے اپنے  اساتذہ کے پڑھائے ہو ئے سبق کے مطابق درسِ نظامی سے فراغت کے بعد اپنی علمی سیرابی کی غرض سے فقہی ذوق کا اظہار کیا،آپ کی تربیتِ علم و عمل کے مشفق و مربی اساتذہ نے ’’درجہ تخصص فی الفقہ‘‘ کے لیے چنیدہ جید طلبہ میں آپ کا بھی انتخاب کیا۔ تخصص فی الفقہ کا پہلا سال ۱۹۹۷ء کا تھا جو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے وابستہ لاکھوں فیض یافتہ ہر چھوٹے بڑے کے لیے ’’عام الحزن‘‘ کے طور پہ بالعموم  رہا، لیکن ’’مولانا محمد نیاز‘‘ کے لیے بالخصوص کئی تکالیف و المناکیوں سے پُر تھا،اس سال جامعہ کے ’’مہتمم و شیخ الحدیث‘‘ حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدؒ اور ہردلعزیز ’’ناظم‘‘ حضرت مولانا مفتی عبدالسمیع شہید w کی شہادتیں ہو ئیں، ان شہداء کے لیے جہاں عظیم سرفرازی کی سعادت رہی، وہیں جامعہ کے لیے انتہائی مصائب و آزمائشوں کے ساتھ یہ سال اختتام پذیر ہو ا۔ ’’مولانا محمد نیاز‘‘ کے جہاں روحانی والد و شفیق اساتذہ کا سایہ سر سے اُٹھا وہیں ان کے عظیم محنتی و جفاکش والد ’’محمد یونس‘‘ مرحوم بھی اس دارِ فانی سے رحلت فرماگئے تھے۔بڑوں سے سنا ہے کہ آزمائشوں کی بھٹی سے نکل کر کندن بننے والے ہی باکمال شخصیت کے روپ میں ڈھلتے ہیں،’’مولانا محمد نیاز‘‘ کی شخصیت سازی کی صورت میں تکوینی طور پہ مقدر ہو رہا تھا، کیونکہ شہید ہو نے والے جامعہ کے عظیم ہردل عزیز فرزند ’’حضرت مفتی عبدالسمیع شہید v‘‘ کی جگہ پہ اگلے ہی سال جامعہ کے ’’افریقی دارالاقامہ‘‘ کی نظامت کے لیے اساتذہ نے ’’مولانا محمد نیاز‘‘ کی تقرری کی جو کہ اب ’’تخصص فی الفقہ‘‘ کا بڑا علمی و فقہی مرحلہ طے کر کے باقاعدہ مستند ’’مفتی‘‘ بن چکے تھے۔ ’’مفتی محمد نیاز‘‘ کو اللہ نے کم عمری میں کئی نمایاں علمی عملی و روحانی صفات کے ساتھ اعلیٰ انسانی خوبیوں سے بھی خوب نوازا تھا۔ چھبیس سال کی عمرِ شباب میں ۱۹۹۸ء میں باقاعدہ جامعہ میں بحیثیتِ ’’ناظم دارالاقامہ‘‘ تقرری ہو ئی، اس ذمہ داری کے ساتھ جامعہ کے معین طریقہ کے مطابق ’’ناظم مطبخ‘‘ کے طور پہ بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ علمی وفقہی طور پہ شعبہ تدوین و تخریج سے منسلک رہنے کے ساتھ علوم و فنونِ درس نظامی کی تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ جامعہ کے مزاج و اسلوبِ خاص کے مطابق تدریس پہ بتدریج ترقی کرتے ہو ئے درجاتِ علیا و معہد عربی میں مختلف درجات میں سلسلہ دمِ آخر تک جاری رہا۔ جامعہ کے نظامِ چرمہائے قربانی میں سالوں مکمل فعالیت کے ساتھ آپ کی خدمات بھی مثالی رہیں۔تدوینِ فقہ و تخریج کے شعبہ سے ابتدا ہی سے آپ منسلک تو تھے، لیکن آپ کے عمیق و دقیق فقہی رسوخ کی بنا پہ پانچ برس قبل مستقل آپ کو دارالافتاء کی مسند نشینی کے اعزاز کے ساتھ معین و رفیقِ دارالافتاء کے طور پہ بھی مقرر کیا گیا۔ گزشتہ دس سالوں سے کراچی کے علاقہ ناظم آباد میں ’’قدوسیہ مسجد‘‘ میں خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے، راقم کو دیگر بعض قریبی ذرائع نے بتایا کہ آپ کا اُسلوبِ بیاں شیریں، انتہائی سلیس وجامع اور اصلاحی انداز کا ہو تا جو سننے والے کو انتہائی متاثر کردیتا تھا،اخلاص سے نکلنے والی ہر بات کی تاثیر بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔’’مفتی نیاز v‘‘ سے اللہ نے اس خطابتِ جمعہ کی برکت سے دین کے اس شعبہ میں بھی کام لیا۔ اہلِ خانہ کی کراچی آمد جامعہ کی عنداللہ قبولیت و مقبولیتِ عام و خاص کی بنا پہ مکانی طور پہ قلت کا سامنا رہا ہے، عین شہر کے وسط میں موجود اس عظیم مرکزِ علم و دانش کی اب ذیلی شاخیں شہر کے مختلف علاقوں وسیع رقبوں پہ مشتمل ہو نے کے باوجود کم گنجائش سے بھی احباب واقف ہیں، اساتذہ کی سہولت کو سامنے رکھتے ہو ئے ان کی رہائش گاہوں کی تعمیر جدید بھی دیگر شعبوں کی مانند ترقی پذیر رہی ہے،جگہ کی قلت کے پیشِ نظر ترجیحی طور پہ اساتذہ کو ضرورت کے مطابق رہائش فراہم کی جاتی ہے،اسی نظم کو سامنے رکھتے ہو ئے گزشتہ سال ’’مفتی محمد نیاز v‘‘ کو بھی گھر دیا گیا،لیکن کئی ماہ گزرنے کے باوجود اُن کی اہلیہ و بچے جو کہ آبائی علاقہ میں رہائش پزیر تھے یہاں کراچی نہ آسکے، میری طرح ان کے دیگر رفقاء و اساتذہ نے بھی پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کی ضعیف والدہ محترمہ کی نگہداشت کی ذمہ داری ان کی اہلیہ محترمہ انجام دیتی ہیں، اور باوجود اصرار کے ان کی والدہ کی طرف سے کراچی آنے کا انکار رہا۔ میں نے ان سے اس بابت دو تین بار بات کی تو اپنے مخصوص اندازِ گویائی میں فرمایا کہ ’’میرے لیے اور میرے بچوں کے لیے والدہ کی خدمت بڑی سعادت ہے،اس لیے علم و دین کی خاطر بچوں سے دوری، والدہ جیسی ہستی کی خدمت کے اجر سے محروم نہیں ہو نا چاہتا، یہ اللہ کی طرف سے میرے لیے بہت بڑی سعادت و نعمت ہے۔‘‘میں نے کہا کہ ان کو بھی ساتھ یہاں آنے کا کہیں تو فرمایا کہ: ’’میں نے ان کو کہا ہے، لیکن ابھی تک وہ یہاں آنے پہ آمادہ نہیں ہیں۔‘‘ چند دن قبل عید الاضحٰی کی تعطیلات کے دنوں میں ان کو اکثر کھالوں کے امور میں مصروف دیکھا اور اس موضوع پہ پھر بات ہو ئی تو کہا کہ: ’’والدہ نے بچوں کو بھیجنے کی اجازت تو دی ہے، لیکن میری طبیعت پہ ان (والدہ) کے نہ آنے کا بوجھ ہے۔‘‘ ان کی اس فرماںبرداری و تابع داری، سعادت مندی اور خوش بختی پہ ان کی دیگر کئی نمایاں خوبیوں پہ رشک میں بہت اضافہ ہو ا۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمتوں کو بہتر جانتا ہے،ان کی زندگی کے آخری ایام میں ان کی اہلیہ اور بچوں کی کراچی آمد پہ ان کی یہاں گھر کی آبادی ہو رہی تھی اور ’’مفتی صاحب v‘‘ اپنی حیات کی متعین سانسوں کو پورا کر رہے تھے،ان کے انتقال سے ایک ہفتہ قبل ان کے اہل خانہ کراچی تشریف لائے، جس میں ان کی اہلیہ، دو بیٹیاں اور اکلوتے فرزند آٹھ سالہ ’’محمد حسن‘‘ شامل تھے، ان کے دو بھتیجے حافظ عبداللہ سلمہٗ اور محمد عمر سلمہٗ بھی گزشتہ سالوں سے ان کی زیر نگرانی ساتھ رہتے تھے۔ حافظ عبداللہ سلمہٗ بہت کم عمری سے اپنے چاچا کے ساتھ جامعہ میں تکمیلِ حفظ کے بعد اب درجہ سادسہ میں زیر تعلیم ہیں۔ انہوں نے اپنے شعور کی آنکھ مفتی نیازؒ کی آغوشِ شفقت میں ہی کھولی،انہوں نے بتایا کہ: ’’چاچا جی سادگی کا پیکر تھے، کبھی بھی میں نے ان کو دنیاوی کسی بھی خواہش کا اظہار کرتے نہیں دیکھا اور اگر میں کبھی کچھ اظہار کرتا تو ہر شرعی حدود میں جائز خواہش پوری کرتے، میں سالوں ان کے ساتھ ایک کمرے میں رہا، انہوں نے کبھی اپنی خدمت کرنے کا اشارہ بھی نہیں کیا، بلکہ وہ میری خدمت کرتے ، کپڑے دھونے ہوں یا استری کرنی ہو خود کرلیتے تھے،اب کچھ عرصہ سے میں خاموشی سے کرلیتا تھا، اگر کبھی جلدی میں ہو تے تو بغیر استری کے کپڑے پہن لیتے تھے، اب ہمارے دوسرے چچازاد بھائی محمد عمر بھی یہاں تعلیم حاصل کررہے تھے،آپ اکثر رات گئے تک دارالافتاء میں مصروف ہو تے، تاخیر سے کمرے میں آتے تو ہم سو رہے ہوتے، ہماری نیند میں حرج نہ ہو جائے، اس لیے کئی بار خاموشی سے نیچے مسجد میں جاکر آرام کرلیتے، بعض مرتبہ زیادہ تاخیر ہونے کی بنا پہ اذانِ فجر تک اپنی عبادات و معمولات میں مصروف رہتے۔‘‘ برخوردار عبداللہ سلمہٗ نے ایک حیران کن بات یہ بتائی کہ ’’جامعہ میں مقیم اساتذہ کو غیر زکوٰۃ کی مد میں کھانے کا استحقاق ہونے کے باوجود ساری زندگی آپ نے اپنے اور ہمارے کھانے کے پیسے جامعہ کے محاسب میں جمع کرواتے تھے۔‘‘ اس کی تصدیق دیگر قریبی احباب نے بھی کی۔ سبحان اللہ! اس عمر میں ایسے مثالی تقویٰ وجذبہ کے حامل تھے۔مفتی صاحب کے دوسرے بھتیجے ’’محمد عمر‘‘ ان کے انگلینڈ میں مقیم بھائی ’’محمد سعید‘‘ کے فرزند ہیں۔ اللہ نے اس برخوردار کو کم عمری سے بہت خوبصورت آواز کی نعمت سے نوازا ہے۔’’مفتی صاحب v‘‘ کے صدقہ جاریہ کی صورت میں ان کی حفظِ قرآن کی تکمیل چند دنوں میں ہو رہی تھی،ان شاء اللہ! اب ان کے دنیا سے جانے کے بعد یہ دونوں بھتیجے اور ان کی دیگر اولاد ان کے لیے صدقاتِ جاریہ کی صورت میں سرمایہ ہوں گے۔ جامعہ کے حوالہ سے انتہائی فکر مند اور حساس ہونے کی بنا پہ اپنے معاصر احباب میں منفرد تھے۔ جامعہ کے مفادات ان کی زندگی کی اولین ترجیح تھی،سالانہ و استحقاقی تعطیلات میں اکثر ان کو جامعہ میں مصروفِ خدمت دیکھا،ان تعطیلات کے مواقع پہ گاؤں نہ جانے کا پوچھتا تو وہ جامعہ کے مفادات پہ اہتمام سے ایسے تفصیل سے بات کرتے جیسے کسی لاعلم کو کوئی سمجھا رہا ہو،اور میں ازراہِ تفنن کے ان کو کہتا کہ آپ کا اصلاحی بیان ختم ہو گیا یا ابھی کچھ باقی ہے؟ تو فوراً اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہتے کہ: ’’آپ سے دل کی بات کر کے میرا مذاکرہ ہو جاتا ہے۔‘‘ اسلامی سال ۱۴۳۹ھ کا پہلا دن جمعۃالمبارک موافق ۲۲؍ستمبر۲۰۱۷ء کی صبح آپ نے حسبِ معمول نمازِ فجر واشراق کی ادائیگی کے بعد اپنے ہفتہ قبل نئے آباد ہو نے والے گھر میں ناشتہ کیا،اور اپنے محبوب مشغلہ یعنی مطالعہ میں مصروف ہو گئے،جمعہ کی تعطیل کے باوجود درمیانی وقت میں اپنے دارالاقامہ کا بھی چکر لگایا،اور واپس گھر تشریف لے آئے۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے دن آپ نے سینہ میں درد محسوس کیا تو جامعہ میں موجود کلینک میں ڈاکٹر عارف کے پاس گئے، انہوں نے معائنہ کیا اور کہا کہ آپ تفصیلی چیک اپ کے لیے جناح ہسپتال کے ہارڈ سینٹر کارڈیو چلے جائیں اور ایک پرچہ لکھ کر ان کو دیتے ہو ئے ڈاکٹر صاحب نے تاکید کی کہ فوراً جائیں اور اپنے ساتھ لازمی کسی کو لے جائیں۔ ’’مفتی صاحب v‘‘ نے ڈاکٹر صاحب کی طرف سے دی ہو ئی پرچی پہ ان کو اپنا نمبر لکھنے کا بھی کہا، تاکہ وہاں ڈاکٹر حضرات سے ان کی بات کرواسکیں،جامعہ کے شرقی گیٹ کی طرف سے جانے لگے تو وہیں ایک رکشہ خالی ہو رہا تھا،اس میں بیٹھ کر تنہا روانہ ہوگئے، درمیان میں صدر کے معروف علاقہ میں رکشہ ڈرائیور نے دیکھا کہ مفتی صاحب v پچھلی نشست پہ بیٹھے بیٹھے لیٹ گئے ہیں،اس نے رکشہ روک کر دیکھا تو ’’مفتی صاحب v‘‘ اس فانی دنیا سے دارالبقاء کی طرف جاچکے تھے۔ ڈرائیور کو اس کا اندازہ نہیں تھا، وہ ان کو بے ہو ش سمجھ کر ایمبولینس کو بلواچکا تھا اور رابطہ کرنے کے لیے مفتی صاحبv کی جیب میں موجود ڈاکٹر عارف کے پرچہ میں لکھے ہوئے ان کے نمبر پہ فون کیا۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت نمازِ جمعہ کی ادائیگی میں مصروف تھے، متصل نماز کے بعد کئی بار آنے والے اس اَن جانے نمبر پہ کال کی تو رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن کے گیٹ سے ایک مولانا صاحب کو جناح ہسپتال کے لیے اپنے رکشہ میں بٹھایا تھا اور اب میں جناح ہسپتال میں ہوں اور یہ مولانا صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً اس کی اطلاع جامعہ کے ذمہ داران کو دی جو فوری طور پہ جناح ہسپتال پہنچے تو وہاں اس فرزندِ جامعہ کی میت رکھی ہو ئی تھی۔ جامعہ کے ناظمِ تعلیمات و استاذ الحدیث حضرت مولانا امداداللہ صاحب مدظلہ العالی اور استاذ الحدیث حضرت مولانا فضل محمد صاحب زیدمجدہٗ سمیت کئی اساتذہ ہسپتال میں پہنچ چکے تھے۔ اس المناک حادثہ کی اطلاع جامعہ میں دی گئی اور یک دم سوشل میڈیا و موبائل میسجز کے ذریعہ جنگل کی آگ کی طرح منٹوں میں پہنچ گئی۔ اس اچانک خبر کی ہر کوئی تصدیق کرتے ہو ئے سکتہ کی کیفیت میں آگیا۔ اس جوانی میں اس فرزند کی جدائی پہ پورا جامعہ ہی سوگوار ہوگیا۔کراچی بھر میں موجود جامعہ کے اساتذہ، فضلاء اور محبین دیوانہ وار انداز میں جامعہ پہنچنا شروع ہو گئے۔ ہر آنکھ اشکبار، ہر دل رنجیدہ، ہر شخص غم واندوہ کی کی کیفیت میں تھا۔ راقم جب جامعہ کے مہمان خانہ میں پہنچا تو جامعہ کے نائب مہتمم حضرت مولانا سیدسلیمان بنوری الحسینی زیدمجدہٗ اور بڑے بھائی صاحبزادہ حضرت مولانا عزیزالرحمن رحمانی مدظلہٗ کی موجودگی کے ساتھ ہی جامعہ کے ناظمین اساتذہ و طلاب کی آمد شروع ہو گئی تھی۔ حزن و الم میں ڈوبا ہر شخص دوسرے سے گلے مل کر روتا ہوا نظر آیا، صبر و تسلی کا درس دیتے بڑے بھی ضبط کرتے کرتے رو پڑتے۔ طلبۂ جامعہ جن کو ’’مفتی صاحب v‘‘ اپنی اولاد کی مانند عزیز رکھتے تھے،جن کی معمولی تکلیف پہ مچل جاتے تھے،وہ سب حسرتِ غم میں پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے، پیکرِ سادگی ’’مفتی محمد نیازv‘‘ کی اچانک فرقت میں آپ کے معاصر ناظمین کی حالت بھی غیر تھی۔ جامعہ پہ ایک بڑے سانحے کی شکل میں سوگواری کی فضاء چھاچکی تھی۔چنانچہ فوری طور پہ درجہ سابعہ کی درسگاہ کو خالی کرواکر میت کی تجہیزو تکفین کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ تقریباً سہ پہر پونے چار بجے ہسپتال سے حضرت مولانا امداداللہ صاحب مدظلہ العالی اس فرزندِ جامعہ کی میت کو لے کر مہمان خانہ والے دروازہ سے داخل ہو ئے تو ضبط کے سب بندھن ٹوٹ سے گئے۔ جامعہ کی نسبت سے قائم ہو نے والے ان رشتوں کی باہمی اُلفت و محبت میں خونی و نسبی رشتے بھی کم لگتے ہیں۔ اپنے مادرِ علمی اور اس کے مفادات کے لیے حساس اور ہر دینی ادارہ میں قابلِ ستائش جذبات دیکھے ہیں، لیکن چند بہت ہی دل آفرین مناظر جو ’’علامہ بنوری v‘‘ کے اس ادارہ میں ہماری آنکھوں نے دیکھے ہیں وہ رنگِ اپنائیت کہیں دیکھنے کو نہیں ملے۔ ’’مفتی محمد نیاز v‘‘ کی میت کو اسی عمارت کی ایک درس گاہ درجہ سابعہ میں لایا گیا، جس کے آپ سالوں سے نظامت کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں، تابوت والے بھی آچکے تھے، اور وہاں موجود سیکڑوں علماء و طلبہ نے اپنی آہوں سسکیوں میں اس مردِ قلندر کا آخری دیدار کیا۔ غسل کے بعد تکفین اور تابوت میں آپ کے جسدِ خاکی کو رکھا گیا، اسی کے ساتھ ہی اذانِ عصر ہوئی اور سوا پانچ بجے نمازِ عصر کی ادائیگی کے بعد گلشنِ بنوری کے باغبان حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہ العالی نے اپنے روحانی فرزند کا جنازہ پڑھایا۔مختصر اطلاعی وقت کے باوجود ہزاروں افراد نے نمازِ جنازہ ادا کی، اور اس کے بعد میت کو لے کر ان کے تعلیمی ہم سفر ہم مکتب رفیق مفتی رفیق احمد بالاکوٹی زیدمجدہ ائیرپورٹ چلے گئے،رات نو بجے کے جہاز سے ان کے آبائی علاقہ میں میت لے جانا طے ہو ا۔ مفتی رفیق احمد و برادرِ عزیز مولانا سعید اسکندر اور راقم کا جانا طے ہو ا، دیگر اساتذہ و احباب کی بھی خواہش تھی، لیکن جہاز میں سیٹوں کی عدم دستیابی کی بنا پہ ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہمارا جانا ہوا، وقتِ مقررہ رات نو بجے اسلام آباد روانہ ہو ئے۔تقریباً پونے گیارہ بجے اسلام آباد میں موجود تھے۔ وہاں ائیرپورٹ پہ مردان سے جامعہ کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا امداد اللہ صاحب مدظلہٗ کے دو صاحبزادے مولانا حماداللہ و مولوی ضیاء اللہ سلمہم اللہ اپنے ادارے کی ایمبولینس کے ساتھ موجود تھے۔ ’’مفتی محمد نیاز v‘‘ کے بڑے بھائی ’’محمدابراہیم‘‘ اور ان کے بھتیجوں سمیت دیگر حضرات بھی موجود تھے، اسلام آباد/ راولپنڈی کے کئی غمگین فضلائے جامعہ بھی اس فرزند کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے جذبات کے ساتھ موجود تھے۔ کارگو سے میت کی وصولی کے ساتھ ایمبولینس اور گاڑیوں کے ایک قافلے کی شکل میں براستہ موٹروے روانہ ہو ئے، تقریباً ڈیڑھ بجے علاقہ چھچھ کی سرزمین میں واقع ’’شینکہ‘‘ گاؤں پہنچے تو رات کے اس سناٹے میں جب شہروں میں بھی دنیا سورہی ہوتی ہے اس وقت چھچھ کے اس دیہات میں کثیرتعدادمیں لوگ برلب سڑک موجود تھے۔میت ’’مفتی صاحب v‘‘کے آبائی گھر میں افرادِ گھرانہ لے گئے۔ ایک عجیب دردناک سی کیفیت ہم سب پہ چھائی ہو ئی تھی۔جنازہ کے بارے میں ان کے وہاں موجود برادران نے بتایا کہ پہلے صبح آٹھ بجے کا طے کیا تھا، لیکن ہمارے بھائی ’’محمد سعید‘‘ انگلینڈ سے روانہ ہو چکے ہیں،اس لیے ہم نے مشورہ کے بعد اب بعد نمازِ ظہر ڈھائی بجے کا حتمی اعلان کیا ہے۔ اس شبِ تاریک کی حالتِ غم میں بھی ان کے خاندان کے افراد نے ہم کو مہمان جان کر کھانے کا بہت اصرار کیا،لیکن اپنی ترتیب کے مطابق وہاں کم وبیش ایک گھنٹہ گزارنے کے بعد اس گاؤں سے متصل ہمارے گاؤں بہبودی جانا ہوا ۔ برادرِ محترم مولانا محمد زبیر زیدمجدہٗ جو جامعہ کے فاضل اور مفتی صاحب v کے ہم سبق بھی ہیں اور مستقل برطانیہ میں ہو تے ہیں، اپنے آبائی گاؤں تشریف لائے ہوئے تھے،اور اب ماشاء اللہ! ان کے صاحبزادہ جامعہ میں زیر تعلیم بھی ہیں،رات ڈھائی بجے ان کے گھر بغرضِ آرام جانا ہوا، ہمارے ساتھ مردان سے آئے ہو ئے احباب بھی ساتھ تھے۔ صبح نو بجے کے قریب ہم اپنے گاؤں کے قبرستان میں ہمارے دادا جان محدث کبیر حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوری v اور خاندان کے دیگر بڑوں کی قبور پہ حاضری کے بعد علاقہ چھچھ کی معروف دینی درسگاہ جامعہ علوم اسلامیہ بہبودی پہنچے۔ ادارہ کے ذمہ داران حضرت مولانا سعیدالرحمن اور مفتی عبدالحفیظ زیدمجدہم نے بتایا کہ صبح سے کافی فضلائے جامعہ دوردراز کے علاقوں سے یہاں پہنچے ہیں، ان حضرات سے ملاقات ہوئی، کافی ساتھی غم سے نڈھال تھے،مفتی رفیق احمدصاحب زیدمجدہ نے اپنے جذبات پہ قابو رکھتے ہو ئے صبر کی تلقین کی۔ جھنگ سے مفتی صاحب کے چھوٹے بھائی فاضلِ جامعہ مولانا جمیل احمد بالاکوٹی سمیت کے پی کے کے مختلف اضلاع سے بھی علماء کرام موجود تھے۔ وہاں جامعہ اسلامیہ بہبودی میں کافی حضرات جمع ہو چکے تھے ۔ ہم سب ایک بڑے قافلے کی صورت میں شینکہ گاؤں پہنچے، تو وہاں بھی بہت بڑی خلقت جمع تھی، ہماری آمد کے ساتھ ہی مفتی صاحب v کے برطانیہ سے آنے والے بھائی محمد سعید بھی اسی وقت پہنچے۔ عجیب غمگین سماء تھا، ان کے برادران سے نمازِ جنازہ و تدفین کے حوالہ سے بات ہو ئی،انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ جو حضرات جامعہ کے ساتھ آئے ہیں نمازِ جنازہ بھی وہ پڑھائیں، اور جنازہ سے قبل بیان کرنے کی بھی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم ان کے حجرہ سے قریب مسجد میں ڈیڑھ بجے نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد جنازہ گاہ کی طرف گئے۔ اس دوران جامعہ فریدیہ کے منتظم اعلیٰ مولانا عبدالغفار صاحب مدظلہٗ جو جامعہ کے فاضل و سابق استاذ اور ناظم بھی رہے،آپ کا آبائی علاقہ بھی چھچھ کا گاؤں شاہ ڈھیر ہے، اور مفتی نیاز v کے استاذ ہو نے کے ساتھ بہت قریبی تعلق بھی تھا،ان کے علاوہ مردان، سوات، پشاور، نوشہرہ، صوابی، چارسدہ، پنڈی، اسلام آباد، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، روات، گوجرخان سمیت کئی اضلاع سے جامعہ کے فضلاء و تلامذہ پہنچ رہے تھے۔ گرمی کی شدت عروج پہ تھی،اس کے باوجود گلشنِ بنوریؒ کے فیض یافتہ روحانی فرزندوں کا بہت بڑا اجتماع اس فرزندِ جامعہ کو اپنی دعاؤں کے حصار میں اس جہاں سے اُن کی شان کے مطابق رخصت کرنے آیا ہوا تھا۔ میت کو گھر سے بذریعہ ایمبولینس جنازگاہ لایا گیا تھا۔ شرکاء کی تعداد اور گرمی کی شدت کو سامنے رکھتے ہو ئے مختصر وقت کے لیے زیارت کروانے کا طے ہوا۔ علمائ، طلبہ، صلحاء و اتقیاء کے بڑے مجمع میں مفتی صاحب v کے گھرانہ کی خواہش پہ ان کے رفیقِ خاص اور جامعہ کے تخصص فی الفقہ کے مشرف ہر دلعزیز برادرِ محترم مفتی رفیق احمد بالاکوٹی زیدمجدہٗ نے غم میں ڈوبی آواز میں اپنے علمی و عملی سفر کے بے بدل ساتھی مفتی محمد نیاز v کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہو ئے ان کے اجلے و نفیس کردار کی سالوں پہ محیط باتوں کو چند منٹ میں ایسے اسلوب میں بیان کیا کہ ہر شخص کے دل کو تڑپا گیا۔ اپنے نام رفیق کی مثل اپنا حقِ رفاقت ادا کرتے ہو ئے آج رخصت ہو نے والے کے محاسن کا ایسا محبوبانہ تذکرہ کیا کہ سننے والے ہر صاحبِ دل کو رنجیدہ کرگیا۔ کئی دوستوں کو بچوں کی طرح بلک بلک کر روتے ہو ئے دیکھا، مضبوط اعصاب رکھنے والے اکابر علماء کی آنکھوں سے آنسو برستے دیکھے۔ برادرم مفتی رفیق کی رندھائی آواز کے سکوت نے کئی قریبی احباب کی آوازوں سے عجیب دردناک ماحول کا منظر بنادیا تھا، جنازہ کے وقت سے دس منٹ قبل میت کو ایمبولینس سے نکال کر اس جنازگاہ کے عین وسط میں چارپائی پہ رکھا گیا،تو بے قابو عشاق کا ہجوم دیوانہ وار ’’مفتی محمد نیاز v‘‘ کے آخری دیدار کے لیے چاروں اطراف سے آتا گیا۔ طے کردہ نظم سب اس ازدحام کثیر کی نذر ہو گیا۔ سورج کی حدت وتپش کے باوجود ہر ایک دوسرے سے مل کر روتا اور اپنے غم کا بوجھ ہلکا کرتا ہوا نظر آیا۔ وسیع و عریض ضلع اٹک کی ہر تحصیل سے آنے والے علماء و زعماء وہاں علم دوست سرزمینِ چھچھ میں ایک ولایت کی صفات والے جوان عالِم کے جانے کے نقصان کو عالَم کا المیہ بتارہے تھے۔ جنازہ سے قبل دس منٹ کا وقت دیئے جانے کے باوجود مزید اگلے آدھے گھنٹہ تک زیارت کی جاتی رہی، منتظمین کی طرف سے لوگوں کو جنازہ کے لیے صف بنانے کا اعلان کرتے ہو ئے جنازہ شروع کرنے کا کہا جاتا رہا۔ بالآخر تقریباً تین بجے صفیں بنائی گئیں،تاحدِ نگاہ ہر طرف انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔مفتی رفیق احمد بالاکوٹی زیدمجدہٗ نے اپنی شدتِ غم سے لبریز آواز میں اللہ اکبر کی صدا لگائی تو یکدم ہزاروں کے مجمع میں ایک سکوت کے ساتھ قلب پہ سکون کا بھی عجیب احساس ہو ا۔ چند قدم کے فاصلے پہ موجود قبرستان میں خاندانِ یونس کے احاطہ میں تیار کی گئی قبر کی طرف میت کو لے جانے میں بھی کافی وقت لگا۔ درختوں سے ڈھکے اس قبرستان کی جانب جاتے ہو ئے مجھے پورے تیس برس قبل امام اہلِ سنت ’’مفتی احمدالرحمن v‘‘ کا وہ تاریخی جملہ یاد آگیا جو انہوں نے ’’مفتی محمد نیاز v‘‘ کے خاندان کی علم دوستی پہ لکھا تھاکہ:’’درخت لگانا ہمارا کام ہے، پھل دینا اللہ کا کام ہے۔‘‘ قبر میں میت کو مفتی صاحب v کے بھائی اور بھتیجوں نے اُتارا۔ المناکی کی فضاء میں وہاں موجود علماء نے ’’مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرٰی‘‘ پڑھتے ہو ئے مٹی ڈالی۔ قبر کی تیاری کے بعد مفتی صاحب v کے صدقاتِ جاریہ ان کے دونوں بھتیجوں میں حافظ عبداللہ سلمہ اور محمد عمرسلمہ نے آیات کی تلاوت کی تو ضبط کے سب بندھن ٹوٹ سے گئے،اس کے بعد مولانا عبدالغفار صاحب زیدمجدہٗ نے مختصراً موت و حیات کی حقیقت پہ روشنی ڈالتے ہو ئے مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے ایصالِ ثواب کی ترغیب بھی دی، اور مفتی صاحب v کی طالب علمانہ زندگی کی سرفرازیوں کے تذکرہ کے ساتھ ان کی عملی زندگی کے گوشوں کو بیان کیا، جس میں ایک اہم انکشاف یہ کیا کہ: ’’مفتی صاحب v کی نگرانی میں تین چار سال رہنے والے ایک دو طلبہ نے بتایا کہ: ہمارے افریقی دارالاقامہ کے بیت الخلاؤں کی صفائی کے لیے جمع دار بعض دفعہ کئی دنوں کے بعد آتے تھے، ہم حیران ہو تے تھے کہ جب فجر میں اٹھ کر بیت الخلاء جاتے تو وہ بہت صاف ستھرے ہو تے۔ ایک طالب علم کو بہت تجسس ہوا تو اس نے خاموشی سے چھپ کر دیکھا تو حیرت کی انتہاء نہیں رہی کہ مفتی محمد نیاز v رات کے ڈھائی بجے کے قریب دارالاقامہ کے بیت الخلاء کو مکمل دھو رہے تھے، اس طالب علم نے وہ منظر کئی بار خاموشی سے دیکھا۔‘‘ اللہ کے مہمانوں کی ایسی خدمت کے عالی جذبہ کو ہمارے اکابر میں شیخ العرب و العجم حضرت سید حسین احمد مدنی v،محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری v اور ان کے حیاً و میتاً جانشین امام اہلِ سنت حضرت مفتی احمدالرحمن v کے بارے میں تواتر سے سنا گیا ہے،اور کئی حضرات نے اپنے اس مشاہدہ کو تحریر میں بھی لکھا ہے جو کتب میں موجود ہے۔آج علامہ بنوریv کے اس روحانی فرزند کی زندگی کا یہ اہم راز اُن کے دنیا سے جانے کے بعد میں یہاں ان کی قبر پہ افشاء کررہا ہوں۔ مولانا عبدالغفار مدظلہٗ کے اس بیان سے وہاں موجود بڑے بڑے اصحابِ نسبت نے عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہو ئے جذباتِ محبت کے آنسو بہادئیے۔ تدفین کے بعد تلاوت و بیان کے بعد مفتی نیاز v کے درجات کی بلندی کے لیے ایصالِ ثواب اور دعاء کروائی گئی۔علاقہ چھچھ کی شرعی روایت کے مطابق تین دن تک تعزیت کے لیے اہلِ خاندان اپنے آبائی حجرہ میں موجود رہے۔اس دوران دور دراز سے علمائ، عوام و فضلاء و متعلقینِ بنوری ٹاؤن کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔آزاد کشمیر سے مولانا قاضی محمودالحسن اشرف، مولانا مجیب الرحمن سمیت کئی ذی قدر علماء تشریف لائے، چار دن بعد جامعہ کے ناظمِ تعلیمات و استاذ الحدیث حضرت مولاناامداد اللہ زیدمجدہٗ بھی شینکہ گاؤں تشریف لے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب v کے حق میں کی جانے والی تمام دعاؤں کو منظور فرمائے اور اُن کے صدقاتِ جاریہ میں قیامت تک اضافہ فرمائے۔آمین یارب العالمین! ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین