بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اِک ستارہ جو کہکشاں ہوگیا

اِک ستارہ جو کہکشاں ہوگیا

جب سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو وجود بخشا ہے تب سے مسلسل دو قوتیں مسلسل برسر پیکار رہی ہیں اور’’ الحرب سجال‘‘ کے تحت کبھی ایک قوت غالب رہی ، کبھی دوسری، ایک قوت رحمان کے پیغام کی علمبردار اور دوسری شیطان کے کام کی ٹھیکیدار رہی۔ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی لیکن انجام کار کامیابی رحمانی فوج کے قدم چومتی رہی اور شیطانی فوج وقتی کامیابی کے بعد اپنی ذلت ورسوائی پر دانت پیستی رہ گئی، اسی ازلی معرکہ آرائی کا ایک میدان ۱۸؍ربیع الاول ۱۴۳۴ھ مطابق ۳۱؍جنوری ۲۰۱۳ء کو شارع فیصل نزد نرسری پر سجایاگیا، جس میں شیطانی قوتوں نے رحمانی فوج کے ایک عظیم سپوت اور قافلۂ بنوری ٹاؤن کے سرخیل حضرت والد ماجد شہید نور اللہ مرقدہ کو ہم سے جدا کردیا اور یوں ۱۰؍شعبان ۱۳۷۰ھ بمطابق ۱۵؍جون ۱۹۵۱ء کو طلوع ہونے والا آفتاب وحشت وسفاکیت کا نشانہ بن کر ظلم کے سیاہ بادلوں کے پیچھے چھپ گیا اور یوں ہم ایک عظیم والد کی پدرانہ شفقتوں سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگئے۔ بیٹھے تھے گھنی چھاؤں میں اس کی خبر نہ تھی بڑھے گی دھوپ اور یہ سایہ نہ رہے گا حضرت والد ماجد شہید نور اللہ مرقدہ کی حیات وعلمی خدمات سے متعلق بہت کچھ گزشتہ شمارے میں شائع ہوچکا ہے اور اس شمارے میں بھی بہت کچھ ہوگا۔ میں کچھ سطور بطور ’’مشتے از نمونۂ خروارے‘‘ زیب قرطاس کرنا چاہتاہوں۔ ۱۹۷۳ء میں تخصص فی الفقہ سے فراغت کے بعد سے تاوقت شہادت ان کی زندگی علم کی نشر واشاعت میں گزری۔ دوسال کا عرصہ جامعہ حسینیہ شہداد پور میں گزارکر جامعہ بنوری ٹاؤن تشریف لائے، ایک سال سے کم عرصہ جامعہ کے دار الافتاء میں گزارا، پھر دادا جان کی وفات کے بعد اپنے نانا جان کے شدید اصرار پر جامعہ سے رخصت لے کر آبائی شہر خانپور چلے آئے اور وہاں قرب وجوار کے مدارس میں اعزازی تدریس کی اور ذاتی خرچ پر روزانہ بس کے ذریعے آمد ورفت رکھی اور دادا جان کی وصیت کہ ’’مسجد کو ذریعۂ معاش نہ بنانا‘‘ پر عمل کرتے ہوئے تقریباً گیارہ سال تک آبائی مسجد میں فی سبیل اللہ امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور اسی مسجد میں ۱۹۷۸ء سے ۱۹۹۶ء تک ہرسال رمضان میں اعتکاف کیا۔ اطراف سے کافی لوگ حضرت والد شہید نور اللہ مرقدہٗ کی معیت میں اعتکاف کے لئے جمع ہوجاتے اور ان کی صحبت میں اعتکاف سے خوب محظوظ ومستفید ہوتے۔ ذاتی معاش کے لئے دادا جان کے قائم کردہ مطب کو وقت دیتے اور اسی کی آمدن سے پورے گھر کا خرچ نکالتے، یہاں تک کہ اپنی ہمشیرگان اور چھوٹے بھائیوں کی شادیاں بھی اسی کی آمدن سے کیں۔ پھر ۱۹۸۸ء میں جامعہ اشرفیہ سکھر سے دعوت آنے پر دین پور شریف کے مدرسہ کے ناظم اور اپنے شیخ میاں مسعود احمد دامت برکاتہم سے اجازت چاہی، انہوں نے فرمایا کہ اگر علمی ترقی مقصود ہے تو اجازت ہے۔ والد صاحب نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ ’’مقصود چونکہ علمی ترقی تھی، اس لئے سکھر آگیا‘‘ ۔ ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۶ء تک سکھر رہے اور وہاں کتب ابتدائیہ سے کتب عالیہ مثلاً بخاری شریف، مسلم شریف کی تدریس بھی کی ۔ فقہ کی کتابوں میں ثالثہ میںپڑھائی جانے والی کتاب ’’کنز الدقائق‘‘ کے بارے میں بتاتے تھے کہ میں نے یہ کتاب از اول تا آخر بالاستیعاب کئی مرتبہ پڑھائی۔ بخاری شریف کی تدریس کے متعلق بتایا کہ وہاں کے شیخ الحدیث کے انتقال کے بعد چند بڑے اساتذہ کو تیار کرکے ایک اور استاذ کے پاس گئے کہ وہ اس کی تدریس قبول کریں کہ کہیں اس کی تدریس میرے سپرد نہ کی جائے، لیکن جامعہ اشرفیہ کی انتظامیہ نے مجھے منتخب کیا اور بخاری شریف کی تدریس میرے ذمے لگادی۔  ۱۹۹۶ء میں حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدؒ کی دعوت پر جامعہ بنوری ٹاؤن تشریف لائے اور پہلے سال ہدایہ (اول) کی تدریس کے ساتھ دارالافتاء میں تقرر ہوا۔ والد صاحب کی خودنوشت یادداشت کے مطابق تقرری کے پہلے دن ہی ایک آدمی والد صاحب کے ہاتھ کلمہ پڑھ کرمسلمان ہوا۔ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے قائمقام رئیس دار الافتاء اورترمذی ثانی کی تدریس تک پہنچے۔ جامعہ میں تدریس کے علاوہ مختلف مدارس میں خدمات انجام دیں۔ مدرسہ معہد الخلیل الاسلامی بہادر آباد کے شعبۂ دار الافتاء سے تقریباً دس سال سے منسلک تھے، گزشتہ سال تک مدرسہ عربیہ الٰہیہ لیاقت آباد میں ہفتہ کے دو دن ترمذی کا درس دیتے رہے اور تقریباً چار سال سے جامعہ اسلامیہ درویشیہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے اور روز شہادت بھی بخاری شریف کا درس دینے جارہے تھے۔ مختلف مدارس میں خدمات انجام دینے کے علاوہ معمولاتِ یومیہ کچھ یوں تھے، صبح صادق سے تقریباً پون گھنٹہ پہلے بیدار ہوکر تہجد اور ذکر واذکار میں مشغول ہوجاتے، صبح صادق ہوجانے کے بعد سے جماعت کا وقت ہونے تک تلاوت قرآن میں مصروف ہوجاتے۔ جب جماعت کھڑی ہونے میں دس منٹ رہ جاتے تو گھٹنوں میں تکلیف کی وجہ سے چلنے میں دشواری کے باوجودمسجد جاکر باجماعت نماز ادا کرتے۔ طلوع آفتاب تک تسبیحات میں مشغول رہتے اس کے بعد دارالافتاء میں بیٹھ کر سبق کا وقت ہونے تک مطالعہ کرتے اور اگر وقت کچھ زیادہ ہوتاتو کچھ دیر آرام کرلیتے، پھر سات سواسات بجے تک وضو کرکے اشراق پڑھ کر درس گاہ تشریف لے جاتے اور آٹھ بجے تک سبق پڑھاتے۔ سبق شروع کرنے سے پہلے درود شریف پڑھتے، دورانِ درس ان کے پیش نظر کمزور استعداد کے طلبہ خاص طور پر ہوتے، اس لئے عبارت پڑھوا کر سلیس اردو میں ترجمہ کرتے اور غریب الفاظ کی وضاحت فرماکر حدیث کی دلنشین شرح فرماتے۔ اگر کسی حدیث میں جانور کا ذکر ہوتا تو حیات الحیوان کے حوالے سے تمام تفصیلات بیان فرماتے۔ تمام طلبہ سے یکساں سلوک فرماتے، چاہے اپنا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔ ایک مرتبہ سبق میں پہنچنے میں مجھے معمولی تاخیر ہوگئی، جس پر گھر آکر میری سرزنش کی، حالانکہ آس پاس بیٹھنے والے طلبہ میں سے بعض اوقات کوئی پورا گھنٹہ غائب رہتا تو بھی اُسے کچھ نہ کہتے تھے۔ سبق سے فارغ ہوکر دفتر اہتمام میں بیٹھ کر اخبار دیکھتے، لیکن شہادت سے ایک ہفتہ قبل سے یہ معمول ترک کرچکے تھے، پھر گھر جاکر غسل فرماکر ناشتہ تناول فرماتے اور دار الافتاء تشریف لے آتے، جہاں فتاویٰ کی تصحیح کے ساتھ ساتھ بالمشافہہ مسائل پوچھنے والوں کو تسلی بخش جواب دیتے، اس کے علاوہ فون پر بھی مسائل بتاتے تھے۔ اس قدر مصروف ہوتے کہ ایک مولوی صاحب نے مجھے بتایا کہ میں ایک مرتبہ ملنے آیا تو تقریباً بیس منٹ انتظار کرنا پڑا۔ بارہ بجے حسان علی شاہ شہید مرحوم جامعہ درویشیہ سے لینے آجاتے، وہاں سے ایک بجے کے بعد لوٹتے اور بائیک پر سیدھا مسجد الحمراء ظہر کی نماز پڑھانے چلے جاتے، پھر گھر آکر آدھے گھنٹے کے لئے قیلولہ فرماتے اور جامعہ آکر تخصص فی الفقہ میں شرح عقود رسم المفتی پڑھا کر دار الافتاء میں بیٹھ جاتے ، پھر عصر کی نماز پڑھانے کے لئے جاتے، جہاں نماز کے بعد درس قرآن یا درس حدیث کے زمزموں سے مسجد کو رونق بخشتے، فارغ ہونے کے بعد گھر آکر کھانا تناول فرماتے (دن میں صرف دو وقت (صبح اور شام)کھانا کھاتے تھے،یعنی رات کاکھانا الگ سے نہیں کھاتے تھے) اور ہم سب کے ساتھ ہنسی مذاق یا اس کے علاوہ سبق آموز نصائح فرماتے ، پھر نماز مغرب کے لئے تشریف لے جاتے اور اوابین کا ضرور اہتمام فرماتے اور معہد الخلیل جاکر عشاء تک تحریری فتاویٰ کی تصحیح فرماتے، عشاء کے لئے واپس مسجد الحمراء آتے اور بعد عشاء جامعہ آکر دارالافتاء میں بیٹھ کر اگلے دن کے سبق کا مطالعہ کرتے اور دس بجے تک فتاویٰ دیکھتے۔ اس قدر مصروف دن گزار کر گھر آکر گیارہ بجے تک سوجاتے اور پھر سابقہ معمولات شروع ہوجاتے، جمعہ کے دن چونکہ چھٹی ہوتی تھی، اس لئے پورا دن ہمارے ساتھ گھر پر گزارتے تھے ، ناشتہ بھی اکٹھے ہوتا اور جمعہ کی نماز کے بعد دسترخوان پر سب اکٹھے ہوتے، یہی وجہ ہے کہ جمعہ کا دن ہم پر کوہِ گراں بن کرآتا ہے، گھر کے تمام افراد اشکبار ہوتے ہیں، خصوصاً والدہ محترمہ کی حالت ہم سے دیکھی نہیں جاتی (اللہ ان کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھے اور انہیں صبر جمیل عطا فرمائے) اپنے معمولات کے اتنے پابند تھے کہ سفر وحضر میں کبھی نہ چھوڑے، ایک بار کہیں سفر میں میں ان کے ہمراہ تھا، جمعہ کے دن فجر کی نماز کے بعد مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر سورۂ کہف زبانی سنائی اور مجھ سے بھی سنی۔ تلاوت قرآن کا خاص اہتمام تھا۔حضرت والد صاحب نے زمانۂ طالب علمی میں حفظ نہیں کیا تھا، بلکہ فراغت کے بعد تدریس کے دوران متفرق اوقات میں قرآن مجید کا کچھ حصہ پڑھتے اور یاد کرتے رہتے تھے،فرماتے تھے کہ والد صاحب تو قاری عبدالحئی صاحب (جو آپ کے باپ شریک بھائی ہیں) کے حفظ کی وجہ سے قیامت کے دن تاج پہنیں گے ،مگر والدہ صاحبہ کیسے پہنیں گی؟ اس لئے میںبھی حفظ کررہاہوں، چنانچہ آپ نے جامعہ میں تقرری یعنی کراچی آنے سے پہلے ۲۳ پارے حفظ کرلئے تھے، والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ آپ نے پورا قرآن مجید حفظ کرلیا تھا۔ سفر میں ہمیشہ قرآن مجید کا چھوٹا نسخہ ساتھ رکھتے اور تلاوت فرماتے رہتے، میں اتنی تلاوت نہیں کرسکتا تھاجتنی ابو جی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ عید کے دن مغرب کی نماز کے بعد کچھ دیر ہمارے ساتھ بیٹھے اور پھر اپنے کمرے میں جاکر تلاوت کرنے بیٹھ گئے۔ شہادت والے روز چونکہ سفر پر جانا تھا، اس لئے سبق سے فارغ ہوکر گھر آکر مونچھیں صاف کیں اور گال کے بال صاف کئے اور خوب اچھی طرح غسل کیا اور پھر ہمشیرہ سے کہنے لگے کہ میں نے تیری ماں کو منع کیا ہے کہ وہ مجھے یہ جوڑا پہننے کے لئے نہ دے، لیکن پھر بھی دے دیا، میں آئندہ یہ جوڑا نہیں پہنوں گا اور پھر ہمشیرہ سے فرمایا کہ ایک بجے میرا سفر شروع ہوجائے گا، میرا بیگ تیار رکھنا، پھر وہی کہہ کر ایک بجے سے پہلے ہی دنیا کا مسافر ’’فزت ورب الکعبۃ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے منزل مقصود کو جا پہنچا اور گویا بزبان حال یہ کہہ رہا تھا: ملی تھی زندگی ہم بھی لیکن اسلام پروار آئے ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے لہو اپنا چھڑک آئے ہیں گلشن کی فضاؤں میں ہمیں بھی یاد کرلینا گلوں پہ جب نکھار آئے حضرت والد شہید نور اللہ مرقدہٗ ترمذی کے اختتام پر اکثر طلبہ کو آبدیدہ ہوکر یہ شعر سنایا کرتے تھے: ہمارا خوں بھی شامل ہے تزئین گلستان میں ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے والد صاحب جب گھر سے نکلتے تو کبھی کبھاروالدہ کہتیں کہ حالات خراب ہیں، آپ زیادہ باہر نہ جایا کریںتو آپ جواب دیتے کہ ’’جورات قبر میںلکھی ہے وہ باہر نہیں آسکتی اور جو باہر لکھی ہے وہ قبر میں نہیں آسکتی‘‘ ۔ شہادت کے وقت حضرت کی جیب میں یہ اشعار اپنی تحریر سے لکھے ہوئے پائے گئے: تو غنی از ہر دو عالم من فقیر روز محشر عذرہائے من پذیر در حسابم را تو بینی ناگزیر از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین