بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’أماني الأحبار‘‘ مولانا محمد یوسف کاندھلوی  رحمہ اللہ اور ان کی مایہ ناز تصنیف 

’’أماني الأحبار‘‘

مولانا محمد یوسف کاندھلوی  رحمہ اللہ اور ان کی مایہ ناز تصنیف 

 


دعوت وتبلیغ کے نام سے معروف جماعت (جس نے آج پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک غیر معمولی انقلاب برپا کیا ہے) نہ کسی تعارف کی محتاج ،اور نہ اس کے سود مند اورمثمر ہونے میں کسی کو التباس۔ بہت کم مدت میں اس کی کرنیں پوری دنیا میں پھیل گئیں۔ مختلف رنگوں والے ،مختلف زبانوں والے،مختلف نسلوں والے قرنِ اول کے اس ہیرے کو اپنے سینے سے لگا کر دربدر، کوچہ بکوچہ، اقلیم باقلیم اللہ کے اس مبارک دین کو زندہ کرنے کے لیے ٹھوکریں کھاتے ملیں گے۔ 
 اس محنت نے اگر ایک طرف گرے پڑے ،ہندوانہ رسوم کی سنگلاخ وادیوں میں بھٹکے ہوئے مسلمانوں کی ایمانی کیفیات کو درجۂ احسان تک پہنچایا ،تو دوسری طرف اہلِ باطل کے دماغ پر چوٹ لگا کر ان کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح اگر ایک طرف داعیانِ تثلیث اپنی باطل پرستی سے تائب ہو کرگمراہی کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کے نور سے منور ہو گئے، تو دوسری طرف اہلِ عرب کی غیرت کو بھی للکارا اور (ھٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا) پکارتے ہوئے اس مبارک فریضے کے لیے کمر بستہ ہوئے: 

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے

ان تمام ثمرات میں اگر چہ ایک طرف عامۃ المسلمین کی قربانیاں ہیں ، تو دوسری طرف خواصِ اُمت (علماء ،صلحاء ، اہلِ قلوب) کی توجہ اور دعائیں، ان کی تائیدوحمایت اور ان کی قربانیوں اور مجاہدات کا بڑا دخل ہے، ان خواصِ اُمت اور علماء ربانیین میں سے ایک شخصیت وہ ہے جن کو آج دنیا ’’حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ‘‘ کے نام سے جانتی ہے، انہوں نے اپنی قربانیوں اور مجاہدوں سے اس مبارک محنت کو بام عروج تک پہنچا دیا ،ذیل میں ان کے حالات مختصراً پیش کیے جاتے ہیں:

پیدائش اور بچپن

حضرت مولانا محمد یوسف صاحب  ۲۵؍جمادی الاولیٰ ۱۳۳۵ ھ مطابق ۲۰؍ مارچ۱۹۱۷ء بروز بدھ کو پیدا ہوئے۔ حضرت نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں، اس میں ہر طرف علم اور تقویٰ کی فضا قائم تھی۔ صبح صبح گھروں سے کلام اللہ کی صدائیں سنائی دیتی تھیں۔ ایک طرف مولانا کی والدہ ایک معزز خاندان اور صالح بزرگ مولانا رؤوف الحسن صاحب کی صاحبزادی تھیں اور خود بھی ایک خدیجہؓ صفت اور رابعہؒ سیرت خاتون تھیں،دوسری طرف حضرت کے والد بزرگوار حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ صاحبِ دعوت اور شیخِ طریقت تھے۔ اپنے اکلوتے فرزندارجمند کی اچھی طرح تربیت کی۔ ہر چھوٹی بڑی بات کا خیال رکھا اور معمولی معمولی غیر اہم غلطیوں پر بھی تنبیہ فرماتے تھے، بطور مشتے نمونہ ازخروارے چند واقعات ہدیۂ قارئین ہیں: 
۱:-حضرت کاندہلویؒ خود اپنے قریبی دوست سے اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں: ’’مولانا الیاسؒ چائے کے موافق نہ تھے، اماں جی والدہ محترمہ ایسے وقت میں چائے بنا کر پلایا کرتی تھیں جس وقت مولانا الیاس ؒٹہلنے جاتے تھے، اسی درمیان دوسری جنگ عظیم چھڑگئی تھی تو چائے کی قیمت میں اضافہ ہو گیا تھا، میں نے خیال کیا کہ اب چائے چھوڑنی چاہیے،میں نے اپنے اس خیال کا اظہار مولانا الیاس ؒکے سامنے کر دیا ،اور عرض کیا کہ ہم آئندہ چائے نہیں پئیں گے۔ حضرت اس ارادے پر بہت خوش ہو گئے، مگر پوچھا کہ چائے کیوں چھوڑ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ چائے کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے اور اس کے پیسے آپ ہی کو ادا کرنے ہوتے ہیں، تو کیوں آپ کے بار میں اضافہ کریں؟! اس سوچ پر مولانا الیاس ؒبہت ناراض ہوگئے اور فرمایا: یہ غلط ہے ،پیسے کی کمی بیشی پر چائے مت چھوڑو، جو خدا چار آنے دے سکتا ہے، وہ پانچ کا بندوبست بھی کر سکتا ہے۔ ‘‘ (سوانح یوسفی )
۲:-دوسرا واقعہ بھی خودبیان فرماتے ہیںکہ: ’’ایک بار مہمانوں کے لیے اندر سے چائے لایا، جب برتن لے گیا تو ایک چمچی اس میں سے گم ہو گئی تھی، اماں جی نے اس بے خیالی پر نا گواری کا اظہار کیا، اس کے بعد مولانا الیاس ؒبھی گھر تشریف لائے تو اماں جی نے حضرت کے سامنے بھی کہا کہ: یوسف نے چمچی گم کر دی ہے،مولانا الیاس ؒمیری طرف متوجہ ہو ئے اور تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا یہ چمچی تمہاری ملکیت تھی کہ تم نے گم کر دی؟حضرت کی اس دن والی تنبیہ سے میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جب یہ میری ملکیت نہیں تو ان چیزوں سے میرا کیا واسطہ؟ اور یہ تأثر آج تک تازہ ہے۔ (سوانح یوسفی) 
 ایک طرف اگر والدین کی تربیت تھی ،تو دوسری طرف مشایخِ وقت اور بزرگوں کی نظریں اور شفقتیں تھیں۔ خصوصاً حضرت مولاناخلیل احمد سہارنپوری ؒ،حضرت شیخ عبدالقادر رائے پوریؒ، حضرت شیخ الحدیث زکریا، ؒان بزرگوں کی خاص توجہ نے عالی منزل تک پہنچا دیا، خود حضرت مولانا یوسف ؒحضرت سہارنپوریؒسے ایسے پیش آتے تھے جیسے کو ئی لاڈلہ بچہ اپنے مشفق باپ سے،اور حضرت سہارنپوری ؒکو ابا کہہ کر پکارتے تھے۔ گھر میں ’’رحمتی‘‘ نام کی خادمہ تھی جو کھانا پکاتی تھی،ایک دن حضرت کاندھلویؒمچل گئے اور کہنے لگے: میں تو ابا کی پکائی ہوئی روٹی کھاؤںگا ، حضرت سہارنپوری ؒاندر تشریف لے گئے اور فرمایا: میں اپنے بیٹے کے لیے روٹی پکاؤں گا اور بے تکلف روٹی اپنے ہاتھوں سے پکائی اور حضرت یوسف ؒکو کھلائی۔ (سوانح یوسفی )
 والدین کی تربیت اور بزرگوں کی توجہات نے مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒکو وہ داعیانہ زندگی عطا کی جو آفتاب نصف النہار کی طرح روشن اورمنور کرنے والی بنی، اور جس نے لاکھوں انسانوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر راہِ راست پر گامزن کیا۔ 

تعلیم

 حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒدس سال کے تھے کہ قرآن کو حفظ کیا۔ اس کے بعد قاری معین الدین صاحب نے تجوید سکھائی، پھر گیارہ سال کی عمر میں اپنے والد ماجد سے مدرسہ کاشف العلوم میں عربی پڑھنی شروع کی،اس کے ساتھ ساتھ صَرف کی تقریباً ساری کتابیں اپنے والد بزرگوار سے پڑھیں،اور فقہ کی اکثر کتابیں مولانا مقبول حسن گنگوہی صاحبؒ سے پڑھیں۔ ۱۳۵۱ھ میں حضرت مولانا الیاسؒ ؒسفرِ حج پر تشریف لے گئے اور حضرت مولانا یوسفؒکو مظاہر العلوم سہارنپور بھیج دیا۔ وہاں ہدایہ،میبذی وغیرہ کتابیں پڑھیں،مولانا الیاس ؒکی واپسی پر پھر نظام الدین آگئے اورمشکوٰۃ،جلالین وغیرہ پڑھیں، ۱۳۵۴ھ میں مولانا الیاس ؒنے صحاحِ اربعہ پڑھنے کے لیے دوبارہ سہارنپور بھیج دیا،لیکن علالت کی وجہ سے سال پورا نہ کر سکے اور دوبارہ نظام الدین آگئے اور باقی ماندہ صحاحِ اربعہ،ابن ماجہ،نسائی،شرح معانی الآثار ،مستدرک حاکم اپنے والد صاحب سے پڑھیں۔ 

حضرت کاندھلویؒ کے بیانات کے بارے میں اکابرین کے تأثرات

حضرت کاندھلویؒ کو اللہ تعالیٰ نے گوناگوں اوصاف وخصوصیات کے ساتھ جوشِ تقریر اور زورِ خطابت بھی خوب عطا فرمایا تھا۔ حضرت کاندھلویؒ تبلیغی اجتماعات میں گھنٹوں گھنٹوں بولتے اور بے تکان بولتے۔ تقریر میں مضامین کی ایسی آمد ہوتی کہ علماء تک حیرت زدہ رہ جاتے اور ایسے نکات بیان فرماتے کہ برسوں درس دینے والے بھی مستفید ہوتے تھے۔ 
مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی میاں ندویؒسوانح یوسفی کے مقدمے میں رقم طراز ہیں: راقم السطور کو اپنی بے بضاعتی اور تہی دامنی کا پورا احساس ہے، لیکن یہ ایک تقدیری بات ہے کہ اس کو ممالکِ اسلامیہ کی سیاحت اورعالم اسلامی سے واقفیت کے ایسے ذرائع اور مواقع میسر آ ئے ہیں، جو (بلاکسی تنقیص وتحقیر) اس کے ہم وطنوں اور ہم عصروںمیں سے بہت کم اشخاص کو میسر آئے ہوں گے۔ دنیائے اسلام اور بالخصوص ممالکِ عربیہ کے دینی اور روحانی حلقوں کو بہت قریب سے دیکھنے اوربرتنے کا اتفاق ہوا ہے۔ دورِ حاضر میں مشکل سے کوئی تحریک یا عظیم شخصیت ہو گی جس سے ملنے کی سعادت حاصل نہ ہوئی ہو۔ اس وسیع واقفیت کی بنا پر (جو کسی کا ذاتی کمال اورسرمایۂ فخر نہیں ہے) یہ کہنے کی جرأت کی جاتی ہے کہ ایمان بالغیب کی دعوت،دعوت کے شغف و انہماک، تاثیر کی وسعت اور قوت میں اس ناکارہ نے اس دور میں مولانا محمد یوسف صاحبؒ کا ہمسر اور مقابل نہیں دیکھا۔ یوں ان کی نادرہ روزگارشخصیت میں بہت سے ایسے کمالات پائے جاتے ہیں جن کا پایہ بہت بلند تھا۔ اس کے بعد آگے لکھتے ہیںکہ :’’ ان کی مجالس میں کبھی کبھی حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی ؒکی مجالسِ وعظ کی جھلک نظر آنے لگتی تھی۔ ‘‘
 اسی طرح حضرت مولانا محمد منظور نعمانی ؒتحریر فرماتے ہیں:
عاجز نے پڑھنے کے زمانے میں خدا کے فضل سے محنت سے پڑھا اور پڑھانے کے زمانے میں محنت سے پڑھایا۔ ذہن و حافظہ کی نعمت سے بھی اللہ نے محروم نہیں رکھا تھا۔ لکھنا ،پڑھنا اور مطالعہ ہی اصل مشغلہ رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنے استاذ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒکے بعد کسی کے علم سے مرعوب اور متأثر نہ ہوسکا۔ لیکن حضرت مولانا الیاس ؒکی خدمت میں جب حاضری نصیب ہوئی، تو محسوس ہوا کہ اللہ کی طرف سے ایک علم عطا ہوا ہے جو مدرسہ اور کتب خانے کا علم نہیں ہے۔ ان کے بعد مولانا محمد یوسفؒ کی تقریروں میں بھی صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہی علم ان کو عطا ہوا ہے۔ قوتِ بیاں مزید بر آں آپ کی تقریروں سے ایمان میں جان پڑتی تھی اور کھلی ہوئی ترقی محسوس ہوتی تھی۔ آپ کی تقریروں کو سید عبدالقادر جیلانیؒ کے مواعظ سے بڑی قریبی مشابہت تھی۔ (مجموعہ بیانات) 

تصنیفی ذوق

 حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒمولانا الیاس ؒ کی حیات کی تقریباً پوری مدت علمی اور تصنیفی مشاغل میں منہمک رہے۔ ۱۳۵۴ھ میں جبکہ مولانا ۱۹؍برس کے تھے کہ امام طحاوی ( رحمہ اللہ ) کی گراں قدر مایہ ناز کتاب ’’شرح معاني الآثار‘‘ کی شرح لکھنا شروع کی، جس کا سلسلہ آخری عمر تک رہا، اسی طرح دوسری تالیف ’’حیاۃالصحابہؓ   ‘‘ ہے۔ حضرت کاندھلوی ؒکے اتنے کثرتِ اسفار اور مشاغل کے باوجود ایسا علمی اور تحقیقی کام یقینا کرامت سے کم نہیں۔ 
بینات حضرت یوسف بنوریؒنمبر میں مولانا شاہد صاحب کا مضمون حضرت شیخ اور تبلیغی کام کے عنوان سے چھپاہے،اس میں مولانا شاہد صاحب رقم طراز ہیں:
’’حضرت محمد یوسف کاندھلویؒ جب بھی کراچی تشریف لاتے تو مولانا محمد یوسف بنوری ؒان کو مدرسے میں اہتمام سے بلاتے، ان سے بیان کراتے اور دیر تک علیحدگی میں ان سے دل کی باتیں کرتے اور فرماتے: کہ میں اس شخص کے با رے میں حیران ہوں کہ باوجود تبلیغی اسفار اورتدریسی مشاغل کے ’’أماني الأحبار‘‘ اور ’’حیاۃالصحابۃؓ  ‘‘ جیسی کتب کیسے تصنیف فرما لیں۔ ‘‘
مولانا تقی عثمانی صاحب ’’أماني الأحبار‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوتے لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ (تبلیغی جماعت کے دوسرے امیر) کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا، ان کی پوری زندگی دعوت وتبلیغ میں گزری اور اپنی ان تھک جدو جہد سے تبلیغی جما عت کا کام چار دانگ عالم میں پھیلادیا۔ اس جدوجہد میں آپ کو جن متواتر اسفار اور مصروفیات کا سامنا تھا ،ان کے پیشِ نظریہ تصور کرنا بہت مشکل لگتا ہے کہ ان مصروفیات کے عین درمیان وہ شرح حدیث کی تالیف جیسا علمی اور تحقیقی کام کر سکیں گے، جس کے لیے مکمل یکسوئی اور فراغت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے سے کام لیتے ہیں تو ان کے اوقات میں برکت عطا فرماتے ہیں، اور یہ اسی برکت کا ثمرہ ہے کہ آپ نے طحاوی شریف جیسی غیر مخدوم کتاب کی شرح لکھنے کا بیڑا اُٹھا یا اور اس کا ایک معتد بہ حصہ جو تفصیلی مباحث پر مشتمل تھا مکمل بھی فرمایا، یہ تالیف درحقیقت مولانا محمد یوسف ؒکے کارناموں میں سے ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے، ایسی کثیرالاسفار اور متنوع الاشغال شخصیت کی طرف سے یہ گراں قدر علمی تالیف بلا شبہ ایک کرامت سے کم نہیں۔‘‘ (تبصرے)
 اسی طرح حضرت مولانا کاندھلویؒکی دوسری تالیف ’’حیاۃالصحابۃؓ‘‘ ہے، ’’حیاۃالصحابۃؓ‘‘  کے بارے میں حضرت شیخ زکریا ؒکے شاگرد رشید اور خلیفہ مجاز ،مدرسہ عربیہ کے استاذالحدیث مولانا احسان الحق صاحب (دامت برکاتہم) رقم طراز ہیں: ’’اہل علم کی رائے ہے کہ سیرتِ صحابہؓ پر آج تک ایسی جامع مانع کتاب منصہ شہود پر نہیں آئی۔‘‘ (مقدمہ حیاۃالصحابہؓ ،مترجم) 

’’أماني الأحبار‘‘ کا تعارف

 اس شرح کا مطالعہ کرنے والا اس میں مولانا کی علمیت ،وسعتِ مطالعہ اور عمیق نظر کو بخوبی جان سکتا ہے،مطالعہ کرنے والے کے سامنے زیادہ ضرورت نہیں، لیکن افادۂ عامہ کی خاطر چند امور ہدیۂ ناظرین کیے جاتے ہیں ،جس سے ہر فردکتاب کے وزن کا اندازہ لگا سکتا ہے:
۱:-سب سے پہلے ہر باب کے شروع میں اس باب کے متعلق اختلاف اور فریقین کے دلائل کا اجمالی ذکر کرتے ہیں، مثلاً: ’’باب سؤر الکلب‘‘ کے شروع میں لکھتے ہیں:
’’یعنی ھل یجوز بہ الوضوء أم لا؟ وہل ہو طاہر أم نجس؟ و بکم یغسل الإناء منہ؟ وغرض المصنف بعقد ھذاالباب بیان الاختلاف بین الشافعیۃ والأحناف في أنہٗ ھل یشترط التسبیع واستعمال التراب فی إحدی الغسلات أم یغسل من ذٰلک کما یغسل من سائر النجاسات وإثبات ما ہو الحق عندہٗ، والصواب قال الشیخ ابن العربي فی شرح الترمذي: ہٰذا الباب من المہمات یجمع تفریقہٗ و تکثر مسائلہٗ من الحدیث المختلف فیہ وما تضمن من ألفاظہٖ۔ و فیہ عشر مسائل:الأولٰی النظر فی الکلب: ہل ہو طاہر أو نجس ، فقال الأئمۃ الثلاثۃ وأبو ثور و أبو عبید وسحنون: ہو نجس، وقال مالک: ہو طاہر وکذٰلک سائرالحیوانات۔ وثانیۃ فی ریقہٖ: ہو طاہر عند مالک لکنہٗ یأکل النجاسات فقد یقول: إنہٗ نجس الریق لأجل أکلہ النجاسۃ۔ و الثالثۃ فی اتخاذہٖ: فإن کان من النہي عن اتخاذہٖ فیغلظ علیہ بطردہٖ وغسل الإناء وإراقۃالماء وإن کان ما أذن فی اتخاذہٖ صار لہ حکم الہرۃ۔ والرابعۃ إن صلی بہ: لا إعادۃ علیہ عند أبی القاسم، وقیل: یعید فی الوقت عند ابن وہب، وقیل: یعید أبدا علی القول بالنجاسۃ ۔ والخامسۃ سور الخنزیر مثلہٗ: وقال مالک فی المختصر: یتوضأ بہٖ۔ والسادسۃ: ضعف مالک غسل الإناء من ولوغہٖ وقیل: لأن وجوب الغسل لایظہر فیہ لعدم سبب الوجوب لما أذن فی اتخاذہٖ ویحتمل ضعفہٗ لأجل اختلاف الروایات فیہ، لأنہٗ لا یتححق أن غسلہٗ للنجاسۃ أو العبادۃ۔ والسابعۃ روي فی حدیث أبی ھریرۃؓ بغسل الإناء من ولوغ الکلب ثلاثا أو خمسا أو سبعا تفرد بہٖ عبدالوہاب وہو ضعیف إلٰی آخر ما ذکر ، انتہٰی مختصرا۔‘‘
۲:-سندِ حدیث کے رجال پر بحث کرتے ہیں اور ان کی توثیق یا تضعیف ائمہ فن کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں ،مثلاً: پہلے باب کی پہلی حدیث کے راویوں پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’(الحجاج بن المنہال) بکسر الجیم وسکون نون الأنماطي أبو محمد السلمي وقیل: البرساني مولاہم البصري من رواۃالستۃ، قال ابن سعد والنسائي ثقۃ، وقال أحمد: ثقۃ ما أری بہ بأسا، وقال أبو حاتم: ثقۃ فاضل، وقال العجلي: ثقۃ رجل صالح، وقال الفلاس: ما رأیت مثلہٗ فضلاً ودینًا، وقال ابن قانع: ثقۃ مأمون، وقال ابن مندۃ: کان من خیار المسلمین، مات فی شوال سنۃ سبع عشر ومائتین۔ ‘‘
۳:-جو متون امام طحاوی ؒنے ذکر کیے ہیں،اگر یہی متون دوسرے ائمہ حدیث سے کسی زیادتی کے ساتھ منقول ہوں تو ان کو بھی بیان کرتے ہیں،مثلاً: اس حدیث ’’لا یبولن أحدکم في الماء الراکد ولایغتسل فیہ‘‘کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’زاد فیہ أبوداؤد: من الجنابۃ۔‘‘
۴:-جو احادیث امام طحاوی ؒذکر کرتے ہیں ، ان احادیث سے جومسائل مستنبط ہیں اور امام طحاوی ؒان کے در پے نہیں ہوئے،ایسے مسائل کو بھی اختلاف اور دلائل سمیت لاتے ہیں، مثلاً: ’’باب فرض مسح الرأس فی الوضوء‘‘ میں ’’کنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في سفر، فتوضأ للصلوات فمسح علی عمامتہٖ۔۔۔۔۔‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:
’’وفی الحدیث المسح علی العمامۃ وقد اختلف فی ذٰلک فذھب إلٰی جوازہ الأوزاعي والثوري فی روایۃ عنہ وأحمد وإسحاق وأبو ثور والطبري وابن خزیمۃ وابن المنذر وغیرہم، کذا فی الفتح، وقال الترمذي: وہو قول غیر واحد من أہل العلم من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم منہم:أبوبکر وعمر وأنس (رضوان اللّٰہ تعالٰی علیہم أجمعین) انتہٰی، واحتجو فی ذٰلک بحدیث الباب وبحدیث عمروبن أمیۃ الضمري قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یمسح علی عمامتہٖ وخفیہ، رواہ أحمد والبخاري وابن ماجۃ وبحدیث بلالؓ قال مسح رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی الخفین والخمار، وفی الباب أیضا عن سلیمان وثوبان وأبی أمامۃ وأبی موسٰی وغیرہم کما ذکر ذٰلک الشوکاني فی النیل مفصلہ ، وذہب الجمہور کما قالہ الحافظ فی الفتح إلٰی عدم جواز الاقتصار علی مسح العمامۃ ونسبہ المہدي في البحر إلی الکثیر من العلماء، کذا فی النیل، قال الترمذي: وقال غیر واحد من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یمسح علی العمامۃ إلا أن یمسح برأسہٖ علی العمامۃ وہو قول سفیان الثوري ومالک ابن أنس وابن المبارک و الشافعي، انتہی۔ وإلیہ ذہب أیضا الإمام أبو حنیفۃ وأصحابہ والحسن بن صالح۔۔۔۔۔الخ۔ ‘‘
۵:- امام طحاوی ؒکے کلام کی تلخیص کرتے ہیں، جیسے: ’’باب أکل ما غیرت النار‘‘ کے آخر میں لکھتے ہیں:
’’والحاصل أن روایات الوضوء من أکل لحوم الإبل محمولۃ علی الوضوء اللغوي وہو غسل الید والفم لما فی لحوم الإبل من رائحۃ کریہۃ ودسومۃ غلیظۃ ، فکانت أولٰی بالغسل من غیرہا کلحوم الغنم ، قال زین العرب: تأولوا الحدیث علی غسل الیدین والفم للنظافۃ کما روي أن النبی  صلی اللّٰہ علیہ وسلم تمضمض من اللبن، وقال: إنہٗ لہٗ دسما، وخص لحم الإبل لشدۃ زہومتہٖ ، انتہٰی۔‘‘
۶:-باب کی متعلقہ احادیث کی تخریج کرتے ہیں، جیسے: ’’باب مسح الفرج‘‘ کی پہلی حدیث کی تخریج کی ہے: 
’’وأخرجہ النسائي من طریق شعبۃ عن معمر عن الزہري عن عروۃ عن بسرۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا أفضی أحدکم بیدہٖ إلٰی فرجہٖ فلیتوضأ۔ ‘‘
۷:-باب میں جو موقوف احادیث ہیں ان کی تخریج کرتے ہیں، جیسے:پہلے باب کی ایک حدیث جو حضرت علی q پر موقوف ہے: ’’عن عليؓ قال: إذا سقطت الفارۃ أو الدابۃ فی البیر۔۔۔۔۔‘‘ اس کے تحت لکھتے ہیں: 
’’وقال العلامۃ ابن عابدین فی ہوامش البحر عن النہایۃ أن شیخ الإسلام ذکر في مبسوطہٖ: إن السنۃ جاء ت فی روایۃ أنس بن مالک (رضي اللّٰہ عنہ) عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہٗ قال في الفارۃ: إذا وقعت البیر فماتت فیہا ینزح منہا عشرون دلوا أو ثلاثون، ہٰکذا أبو علي السمرقندي بإسنادہٖ۔‘‘
۸:-غریب الفاظ کی لغوی ،صرفی اور نحوی تحقیق کرتے ہیں، مثلاً: ’’باب سؤر الکلب‘‘ میں ’’إذا ولغ الکلب‘‘کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’إذا ولغ وہو معروف في اللغۃ یقال: ولغ یلغ بالفتح فیہما إذا شرب بطرف لسانہٖ أو أدخل لسانہٖ فیہ فحرکہٗ وقال ثعلب: ہو أن یدخل لسانہٗ فی الماء وغیرہٖ من کل مائع فیحرکہٗ ۔ زاد ابن دستوریۃ شرب أو لم یشرب۔ وقال ابن مکي: إن کان غیرمائع یقال لعقہٗ الخ۔ ‘‘

انتقال پر ملال

 حضرت کاندھلویؒ اپنی عمر کی ۴۸بہاریں دیکھ کر بالآخر ۶؍اپریل۱۹۶۵ء کو بروز جمعہ ۲ بج کر ۵۰منٹ پر اس دنیائے فانی سے رحلت کر گئے اور لافانی خدمات کرنے والی عظیم شخصیت کی زندگی کا آفتابِ تاباں غروب ہوا۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین