بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

آزادیِ نسواں کی خود فریبی!

آزادیِ نسواں کی خود فریبی!

 

کون نہیں جانتا کہ اسلام نے عورت کو بے انتہا عزت سے نوازا ہے، جس سے مغرب زدہ اور این جی اوز کے بہکاوے میں آئی ہوئی عورتیں آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ قرآن کریم، احادیث رسول (l) اور فقہِ اسلامی میں عورتوں کے حقوق کے متعلق مستقل احکام موجود ہیں۔ اسلام کسبِ معاش کی خاطر عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے کو ان کی توہین وتذلیل سمجھتا ہے، اس لیے شریعت نے باپ، خاوند، بیٹے، بھائی وغیرہ محرموں پر بالترتیب لازم کیا ہے کہ وہ عورت کی کفالت کریں۔ اگر بالفرض ان میں سے کوئی موجود نہ ہو تواسلام حکومتِ وقت پر یہ فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ اس کے مصارف برداشت کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میں خاندان جڑے ہوئے ہیں، جہاں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کو بڑی قدرومنزلت اور عزت کا مرتبہ حاصل ہے، لیکن ’’حقوقِ نسواں‘‘ سے چلتا ہوا نعرہ آج ’’آزادیِ نکاح‘‘ اور ’’آزادیِ شوہر‘‘ تک پہنچ چکا ہے۔ گویا آج مسلم عورت جس کو ’’ملکہ‘‘ اور ’’شہزادی‘‘ کا مرتبہ حاصل ہے، وہ قرونِ اولیٰ کی مظلوم ومقہور عورتوں کی صف میں کھڑا ہونا چاہتی ہے۔ 
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ۸ مارچ ۲۰۱۹ء کو پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا، کئی شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں اور اس میں انہوں نے ایسے نعرے لگائے اور ایسے کتبے اُٹھائے تھے اور جو کچھ اُن پر درج تھا ایک شریف آدمی اس کو اپنی زبان پر نہیں لاسکتا اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان غلیظ، بدبودار اور فحش گالیوں کے علاوہ کئی اسلامی احکام کا بھی اعلانیہ مذاق اُڑایا گیا۔ ایک عورت نے کہا کہ: ’’اگر دوپٹہ پہننا اتنا ہی پسند ہے تو اپنی آنکھوں پر باندھ لو۔‘‘ مظاہرہ میں شریک ایک شخص نے تو یہ کہا کہ: ’’خواتین کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے، جب تک نکاح کو ختم نہیں کیا جاتا۔ خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور ظلم کے خاتمہ کے لیے ہمیں نکاح کو ختم کرنا چاہیے۔‘‘ اس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ برصغیر میں نکاح کی رسم بھی انگریز لے کر آئے، اس سے پہلے اس کا یہاں کوئی تصور نہیں تھا، نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ اسی طرح کا ایک انکشاف ہمارے وزیرِاطلاعات جناب فواد چوہدری نے بھی کیا ہے کہ مدارس کا نصابِ تعلیم امریکہ سے بن کر آیا ہے۔ یہ ہیں ہمارے وزیر موصوف کی معلومات!
 یہ سب کچھ ایسے ملک میں کیا اور کہا جارہا ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور موجودہ حکومت جو ریاستِ مدینہ جیسی ریاست کی دعویدار ہے، اس نے ایسے لوگوں کو لگام دینا تو درکنار ان سے ابھی تک پوچھا تک نہیں کہ تم نے خلافِ اسلام ایسی باتیں کیوں کیں؟ حالانکہ ایک صوبائی وزیر نے جب ہندوؤں کے بارے میں کچھ کہہ دیا تو اس سے فوراً استعفاء تک لے لیا گیا۔ لیکن ان مادر پدر آزاد لوگوں کی خلافِ اسلام باتوں کا ابھی تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ کیا کہا جائے کہ یہ سب کچھ بیرونی اشاروں اور موجودہ حکومت کی ملی بھگت سے ہورہا ہے؟!
بہرحال آزادیِ نسواں کی اصطلاح کا باقاعدہ استعمال اٹھارہویں صدی عیسوی میں ہوا، جب یورپ کے فلاسفر اور اہلِ علم نے فرد کے حقوق کے لیے معاشرہ کے خلاف آواز بلند کی اور شخصی آزادی کا نعرہ لگایا، اس کے بعد بھی آوازیں اُٹھتی رہیں۔ ۵ تا ۹ جون ۲۰۰۰ء میں نیویارک میں جو کانفرنس منعقد کی گئی، اس کانفرنس کی درج ذیل سفارشات منظر عام پر آئیں:
۱:-خاتونِ خانہ کو گھریلو ذمہ داریوں اور تولیدی خدمات پر باقاعدہ معاوضہ دیا جائے۔
۲:-ازدواجی عصمت دری پر قانون سازی اور فیملی کورٹس کے ذریعہ مردوں کو سزا دلوائی جائے۔
۳:-ممبر ممالک میں جنسی تعلیم پر زور دیا جائے۔
۴:-اسقاطِ حمل کو عورت کا حق قرار دیا جائے۔
اور یہ تمام چیزیں اور نظریات درحقیقت پانچویں صدی عیسوی میں نیشاپور میں پیدا ہونے والے ایرانی فلسفی مزدک کے ہیں (جو پہلے زرتشت کا پیروکار تھا، لیکن بعد میں اس نے اپنا نیا مذہب وضع کرلیا) جن پر مغرب اور مغرب پرست معاشرہ آج کی مسلم خواتین کو چلانا چاہتا ہے، اس نے کہا: ’’تمام انسان مساوی ہیں، کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں، ہر وہ چیز جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے بالاتر کردے، وہ اس قابل ہے کہ اُسے مٹاکر رکھ دیا جائے۔ مزدک نے کہا کہ: دو چیزیں ہیں جو انسان کے درمیان میں ناجائز امتیازات کی دیواریں چنتی ہیں: جائیداد اور عورت، اس لیے کسی کی جائیداد پر کسی کا حقِ ملکیت نہیں اور نہ کوئی عورت کسی ایک شخص سے نکاح کا حق رکھتی ہے۔ تمام لوگوں کو جائیداد سے فائدہ اُٹھانے اور عورت سے لطف اندوز ہونے کا حق ہے۔ اس وجہ سے لوگ اس کی تحریک کا حصہ بنے۔ آج جو این جی اوز اور اُن کی لے پالک خواتین ومرد اِس آزادیِ نسواں کا نعرہ لگارہے ہیں، درحقیقت یہ لوگ مزدک ایرانی کے پیروکار ہیں اور بالکل اسی نہج پر پاکستانی عورت کو بھی مشترکہ پراپرٹی بنانا چاہتے ہیں، تاکہ پاکستانی معاشرے اور خاندانی نظام کو جڑوں سے ہلایا جاسکے۔ 
مسلمانوں کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے کہ عورت آزدی مارچ جیسی سرگرمیاں دراصل مغربی اور اسلامی تہذیب کے مابین جاری جنگ کا حصہ ہیں۔ مادر پدر آزاد مغربی تہذیب کے علمبردار اور اُن کے دیسی ٹاؤٹ میدانِ جنگ سے لے کر تہذیبی وثقافتی سطح تک اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کو مغلوب کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ اس خطرناک صورت حال میں اسلامی تہذیب کی بقا وسلامتی کا واحد راستہ یہی ہے کہ مسلمان آقائے کریم a کی تعلیمات اور خاص طور پر سنتِ رسول(l) کو حرزِ جاں بنالے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے شر سے اُمتِ مسلمہ کی بہن بیٹیوں کی عزتوں کو محفوظ فرمائے اور اُن کے شر کو انہیں پر لوٹادے اور مسلم معاشرہ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے، اس کے ساتھ ساتھ ہر لحظہ یہ دعا بھی مانگتے رہنا چاہیے کہ باری تعالیٰ ہمارا، ہماری اولادوں اور نسلوں کا ایمان سلامت رکھے اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ ہی اپنے پاس بلالے، آمین
وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین