بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

آؤٹ سورسنگ(خدمات فراہم کرنے والے) ادارے کی اجرت اور ابتداء ً فارمولا طے کرنا!

آؤٹ سورسنگ(خدمات فراہم کرنے والے) ادارے  کی اجرت اور ابتداء ً فارمولا طے کرنا!

    کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:     فی زمانہ ’’Out sourcing‘‘ کا ایک طریقہ کاروباری اداروں میں رائج ہے ،جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کمپنی اپنے کام کروانے کے لیے خود ملازمین رکھنے کے بجائے کسی دوسرے ’’ادارے‘‘ کو اپنا کام سپرد کردیتی ہے اور وہ ادارہ کمپنی کے کاموں کے لیے اپنے پاس سے کمپنی کے مطلوبہ معیار کے مطابق افراد مہیا کرتا ہے جو اس ادارے کے ملازمین ہوتے ہیں، لیکن وہ اس کمپنی کی ہدایات کے مطابق کام کرتے اور کمپنی کو اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ کسی کمپنی کو اپنے ہاں کسی سروس یا خدمت کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کمپنی  ’’Out sourcing‘‘ کا کام کرنے والے کسی ادارے سے معاہدہ کرتی ہے۔ کمپنی اپنے کام کے لیے مطلوبہ افراد کی تعداد بتاتی ہے او رادارہ کمپنی کی ضرورت کے مطابق مارکیٹ میں مطلوبہ مہارت کے حامل افراد تلاش کرکے ان افراد کی اجرت بتاتا ہے، اس طرح کمپنی اور ادارے کی باہمی رضامندی سے افراد کی تعداد اور ان کی اجرت طے پاتی ہے۔ اب یہ افراد کمپنی کا مطلوبہ کام کرتے ہیں، چونکہ یہ لوگ ہرلحاظ سے اسی ادارے کے ملازم ہوتے ہیں، اس لیے انہیں تنخواہیں اسی ادارے کی طرف سے ملتی ہیں، جبکہ کمپنی ادارے کو اس کی اجرت دیتی ہے جو ادارے کے خرچے سے کچھ زیادہ ہوتی ہے، اس طرح ا س ادارے کو اپنی خدمات کا معاوضہ مل جاتا ہے۔     دوسرے لفظوں میں کمپنی جس طرح عموماً براہ راست مختلف افراد کو Hire کرکے ان سے کام لیتی ہے اور وہ ملازمین کمپنی کے معیار کے مطابق کام کرنے کے پاند ہوتے ہیں، اسی طرح’’ Out sourcing‘‘ والا ادارہ کمپنی کے کام کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، جوکہ وہ اپنے ملازمین سے کراتا ہے اور ان کو اجرتیں دیتا ہے اور خود اپنی ان خدمات کے بدلے میں کمپنی سے ایک طے شدہ فارمولے کے مطابق اجرت وصول کرتا ہے۔     کمپنی اور اس ادارے کے درمیان اجرت کا فارمولا کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ معاہدے کے وقت ہی باہمی رضامندی سے یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ ادارہ کمپنی کے فلاں فلاں کام اپنے ملازمین کے ذریعے کرائے گا اور وہ ملازمین اس معیار کے ہوںگے اور ان کی تنخواہیں اتنی حد تک ہوں گی، مثلاً یہ طے ہوگیا کہ ڈرائیور کی تنخواہ ۱۳ تا ۱۵، اسٹور کیپر کی ۱۰ تا ۱۲ اور لوڈر کی ۸ تا ۱۰ ہزار ہوسکتی ہے اور یہ ملازمین کمپنی کی طلب اور کام کے پھیلاؤ کے مطابق کبھی کم یا زیادہ ہوتے رہتے ہیں۔     اب کمپنی اور ادارہ آپس میں یہ طے کرتے ہیں کہ کمپنی کے کاموں میں ادارے کے جتنے ملازمین لگے ہوئے ہوںگے ان کی کل ماہانہ تنخواہ پر ایک مقررہ فیصد  اضافہ کرکے جو رقم بنے گی وہ اس ادارے کی اجرت ہوگی،مثلاً یہ حصہ اگر10% طے ہوا اور جنوری میں ان ملازمین کی کل تنخواہیں ایک لاکھ روپے بنیں تو وہ ادارہ کمپنی سے ایک لاکھ دس خزار روپے وصول کرے گا اور یہ اس کی ماہ جنوری کی اجرت ہوگی اور فروری میں اگر ملازمین بڑھ گئے اور ان کی تنخواہیں دولاکھ روپے بنیں تو ادارہ کمپنی سے دو لاکھ بیس ہزار روپے وصول کرے گا۔ اسی طرح کمی کی صورت میں اس کے برعکس ہوگا۔     واضح رہے کہ معاہدے کے وقت ادارہ کی ایک متعین اجرت ا س لیے طے نہیں کی جاسکتی کہ کمپنی کے کاروبار میں کمی ، زیادتی اور ملازمین کے گھٹانے، بڑھانے کا عمل کام کی ضرورت کے لحاظ سے مسلسل جاری رہتا ہے، لہٰذا کمپنی اور ادارے میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ مستقبل کے بارے میں اندازے کی بنیاد پر کوئی متعین اجرت طے کی جائے، بلکہ دونوں ایک فارمولا طے کرلیتے ہیں، تاکہ ان کا یہ معاہدہ اگر کئی سال تک بھی جاری رہے تو اس میں کوئی پریشانی نہ ہو اور تمام کام بحسن وخوبی انجام پاتے رہیں۔اس میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ملازمین کی تعداد اور ان کی تنخواہوں کے بارے میں کمپنی بالکل لاعلم نہیں ہوگی، بلکہ اسے پتہ ہوگا کہ ادارے کے کتنے ملازمین میرے یہاں کام کررہے ہیں، نیز کسی پرانے ملازم کی تبدیلی کے وقت یا کسی نئے ملازم کے اضافے کے وقت بھی ادارہ کمپنی کوآگاہ کرے گا، اور اگر کسی وقت ادارے کو کمپنی کی طرف سے طے شدہ تنخواہ کی حد کے اندر ملازم نہیں ملے گا تو وہ کمپنی کو اطلاع دے گا کہ ملازم مقررہ حد سے زیادہ پر مل رہا ہے، پس اگر کمپنی اس کو منظور کرے گی تو ادارہ اس کو رکھے گا، ورنہ نہیں، البتہ جو طے شدہ حد کے اندر اندر والے ملازمین ہوںگے ان میں سے ہرایک کے بارے میں کمپنی سے پوچھا نہیں جائے گا، بلکہ صرف یہ اطلاع دی جائے گی کہ فلاں فلاں شخص آپ کے فلاں فلاں کام کے لیے رکھا گیا ہے۔     خدمات کی سہولت فراہم کرنے کا یہ طریقہ اور اس کی اجرت کو مذکورہ بالا حساب سے طے کرنا آج کل دنیا بھر میں رائج ہے، ا س میں عام طور پر اجرت کے معاملے میں کوئی شرعی معاملہ نہیں ہوتا، کیونکہ اس میں اجرت سے متعلق جو فارمولاطے کیاجاتا ہے، اس پر باہمی رضامندی سے عمل جاری رہتا ہے۔      اس صورتحال کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ کیا  ’’Out sourcing‘‘ والے ادارے کی اجرت کے حساب کے لیے مذکورہ فارمولا طے کرناشرعاً جائز ہے ؟ جبکہ اس میں ایک حد تک غرر کا شبہہ معلوم ہوتا ہے کہ اجرت کی رقم جامد نہیں، بلکہ کم یا زیادہ ہوتی رہے گی، جیساکہ اوپر بیان کیاگیا۔اور اگر یہ جائز نہ ہو تو ا س کا جائز طریقہ کیا ہوگا؟                                                         مستفتی:اظفر اقبال رشید الجواب حامدًا ومصلیًا     واضح رہے کہ’’ آؤٹ سورسنگ فارمولے‘‘ کے تحت خدمات فراہم کرنے والے ادارے کی اجرت طے کرنے میں اجرت کی پیشگی تعیین نہیں ہورہی، جس کی وجہ سے یہ معاملہ ایک گونہ غرر سے خالی نہیں۔ البتہ اگر ادارہ ملازمین کی تنخواہوں کا معاملہ ملازمین سے حتمی طور پر طے کرکے کمپنی میں کام کے لیے لگانے سے پہلے کمپنی کو اعتماد میں لے (مثلاً دس ہزار یا بارہ ہزار کا ابہام ختم کرے) تو پھر صرف دس فیصد کی اجرت کے ابہام کی وجہ سے یہ معاملہ ناجائز نہیں ہوگا، یہ طریقہ خدمات فراہم کرنے والے ادارے اور کمپنی کے لیے قابل قبول ہے اور عام طور پر دونوں کے درمیان کوئی نزاعی معاملہ نہیں ہوتا، اس لیے ادارے کی اجرت کے حساب کے لیے آؤٹ سورسنگ فارمولے کے تحت اجرت کی وصولی وادائیگی کی گنجائش ہے۔جیساکہ اعلاء السنن میں ہے: ’’وفی الحاوی: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار فقال: أرجو أنہ لابأس بہ، وإن کان فی الأصل فاسداً، لکثرۃ التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ کدخول الحمام، قلت: والحاصل أن الجہالۃ الیسیرۃ عفو فی ماجری بہ التعامل، لکونہا لاتفضی إلی النزاع عادۃ۔‘‘   ( اعلاء السنن،ج:۱۶، ص:۲۰۹،،ط: ادارۃ القرآن) الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے: ’’ینقسم الغرر من حیث تأثیرہ علی العقد إلی غرر مؤثر فی العقد وغرر غیر مؤثر، قال ابن رشد الحفید: الفقہاء متفقون علی أن الغرر الکثیر فی المبیعات لایجوز وأن القلیل یجوز وقال النوویؒ: نقل العلماء والإجماع فی أشیاء غررہا حقیر: منہا أن الأمۃ أجمعت علی صحۃ بیع الجبۃ المحشوۃ وأجمعوا علی جواز إجارۃ الدار وغیرہا شہرا مع أنہ قدیکون ثلاثین یوماً وقد یکون تسعۃ وعشرین یوماً وأجمعوا علی جواز دخول الحمام بأجرۃ۔‘‘            (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ج: ۳۱،ص:۱۵۱، تحقیق لفظ غرر) بدائع الصنائع میں ہے: ’’قال الصباغ: وإن صبغت ہذا الثوب بعصفر فلک درہم وان صبغتہ بزعفران فلک درہمان فذلک جائز لأنہ خیر بین إیفاء منفعتین معلومتین فلاجہالۃ ولأن الأجر علی أصل أصحابنا لایجب إلا بالعمل وحین یأخذ فی أحد العملین تعین ذلک الأجر وہذا عند أصحابنا الثلاثۃ۔‘‘ (ص:۱۸۵،ج:۴،ط:سعید) ۔۔۔۔’’وفیہ أیضاً: وقولہما: الأجرۃ مجہولۃ لکن الجہالۃ لاتمنع صحۃ العقد بعینہا بل لإفضائہا إلی المنازعۃ وجہالۃ الأجرۃ فی ہذا الباب لاتفضی إلی المنازعۃ لأن العادۃ جرت بالمسامحۃ مع الآظار والتوسع علیہن بالشفقۃ علی الأولاد‘‘۔         (بدائع الصنائع، ص:۱۹۴،کتاب الإجارۃ، ج:۴،ط:سعید)          الجواب صحیح                 الجواب صحیح                       کتبہٗ        ابوبکر سعید الرحمن              عبدالقادر                   رفیق احمد بالاکوٹی                                                       جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین