بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نیاز ؒ کی چند بے نیازیاں


نیاز ؒ کی چند بے نیازیاں

 

برادرِ عزیز مولانا مفتی محمد نیاز بن محمد یونس مرحومؒ ۱۹۷۲ء کو ضلع اٹک کے مشہور قصبہ ’’شینکہ‘‘ میں پیدا ہوئے، ابتدائی دینی ودنیوی تعلیم شینکہ اور اطراف میں حاصل کی۔ سن ۱۹۸۹ء میں ’’شینکہ‘‘ قصبہ کے ذیلی گاؤں ’’بہبودی‘‘ سے تعلق رکھنے والے معروف علمی خانوادے کی ایک اہم ہستی، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مہتمم حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب رحمہ اللہ سے دینی عقیدت وعلاقائی نسبت کی بنا پر ان کے زیرِ اہتمام جامعہ میں داخلے کے لیے کراچی آئے۔ جامعہ کی شاخ مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر میں درجہ اولیٰ کے لیے داخلہ منظور ہوا، درجہ اولیٰ سے رابعہ تک سن ۱۴۰۸ھ/۱۹۸۹ء تا سن ۱۴۱۱ھ/ ۱۹۹۲ء مسلسل چار سال وہیں زیر تعلیم رہے۔ درجہ خامسہ سے سابعہ تک سن ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۳ء تا سن ۱۴۱۴ھ/۱۹۹۵ء جامعہ مرکز میں پڑھتے رہے۔ درجہ سابعہ کے اختتام پر ذاتی ذوق اور خاص اساتذۂ کرام کی مشاورت سے فنون میں پختگی اور رُسوخ کے لیے سوات صوبہ سرحد چلے گئے، ایک سال فنون کی تعلیم کے بعد ۱۹۹۶ء میں دورۂ حدیث کے لیے دوبارہ جامعہ میں آئے، یہاں سے پیشرو قافلے کا ایک علمی مسافر ہمارے قافلے میں شامل ہوگیا۔ 
داخلے کے نظم میں یہ جدید طالب علم‘ میل جول، اپنائیت واُنسیت اور اساتذہ کے قرب واعتماد میں وہی قدیم طالب علم رہا۔ رفقاء درس کے لیے بظاہر نئی جماعت کا نیا طالب علم تھا، مگر اپنے حسنِ برتاؤ سے ایسا لگتا تھا کہ گویا یہ شروع تا حال اسی جماعت کے رکنِ رکین چلے آرہے ہوں، یہاں تک کہ مجھ جیسے عزلت پسند بے نام طلبہ کے لیے بھی دیرینہ انیس وجلیس کا روپ دھارے رہتے تھے اور آپ کے کریمانہ رویّے سے مجبور ہوکر مجھے بھی ان سے اُنس ومجالست کا موقع میسر آنے لگا تھا، بالخصوص بڑے بھائیوں جیسے مخلص، خیرخواہ، مہربان وکرم فرما حضرت مولانا اعجاز احمد بن مولانا سعیدالرحمن صاحب (کاغانی) مولانا محمد نیاز صاحب کے خامسہ تا سابعہ کے ہم سبق رہے تھے اور مولانا اعجاز احمد صاحب کے ساتھ ہمارا صرف علاقائی ہی نہیں، بلکہ بڑے بھائیوں جیسا احترام کا رشتہ بھی تھا، جس کی بدولت اعجاز صاحب کی نیاز صاحب کے ساتھ بے تکلفی، نیازمندی اور بھائی بندی کا اچھا خاصا حصہ مجھے بھی میسر آیا۔ 
نیاز صاحب کے ساتھ نیازمندی کا یہ تعلق دورۂ حدیث کے سال سے قائم ہوا اور ۱۹۹۶ئ/ ۱۴۱۷ھ میں دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد تخصص فی الفقہ الاسلامی کے دوسال مزید مستحکم ہوگیا، اب کبھی کبھار کی نشستیں درسگاہ، کمرہ اور خورد ونوش کی محفلوں تک یک جا ہوگئیں اور تقریباً ہمہ وقت کی نشست وبرخاست، آمد ورفت، بلکہ مواسات ومواخات کا گہرا تعلق قائم ہوگیا، اس عرصہ میں خدمت واکرام میں ان کے کام اور مقام کو کوئی ساتھی نہیں پاسکتا تھا۔ بالخصوص راقمِ اثیم اپنے متعدد جسمانی عوارض اور طبعی کسالت کی وجہ سے کبھی محترم نیاز صاحب کے ساتھ مسابقہ ومقابلہ میں شریک ہی نہیں ہوسکا۔ دورانِ تعلیم اور اس کے بعد ایک عرصہ تک بندہ اکثر وبیشتر بیمار رہتا تھا، اس دوران جب بھی خدمت کی ضرورت پڑی یا علاج ومعالجہ میں مشاورت ومعاونت درکار ہوئی تو نیازہی نے نیازمندی سے نوازا، بلکہ وہ مختلف دیسی ٹوٹکے اور دواؤں کی اچھی خاصی معلومات بھی رکھتے تھے، اسی مناسبت سے ہم نے ان کے کسی ہم نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لفظ پڑھا تو خوش طبعی کے طور پر ہم نے ڈاکٹر کا لفظ اپنے نیاز کے نام سے جوڑ دیا اور انہیں ڈاکٹر نیاز، ڈاکٹر صاحب اور ہمارے ڈاکٹر صاحب وغیرہ کے القاب سے پکارنے لگے، ہماری بے تکلفی کی وجہ سے ہماری طرح وہ بھی ’’ڈاکٹر‘‘ کے لفظ سے محظوظ ہوتے تھے۔ 
بہرحال ’’ڈاکٹر‘‘ اور ’’مریض‘‘ کا یہ تعلق اس وقت مزید گہرا ہوچلا جب شوال ۱۴۱۹ھ مطابق۱۹۹۸ء کو تخصص فی الفقہ سے فراغت کے بعد ہمارا ایک ساتھ جامعہ کے شعبۂ تدوینِ فتاویٰ میں تقرر ہوا، اور مفتی نیاز صاحب کو ساتھ ساتھ ناظم دارالاقامہ کی ذمہ داری بھی سپرد کی گئی تو عملی زندگی میں اشتراکِ عمل کا یہ پہلا مرحلہ تھا، تقریباً دو تین سال کا عرصہ ہم نے شعبۂ تدوین میں ایک ساتھ کام کیا، جہاں دارالافتاء سے جاری شدہ پرانے فتاویٰ میں سے انتخاب، ترتیب، تنقیح، تخریج اور تبییض کا کام کرتے رہے۔ ۱۹؍ مئی ۲۰۰۰ء میں حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد ان کے بعض امورجب حضرۃ الشیخ مفتی نظام الدین شامزئی شہید رحمہ اللہ کے سپرد ہوئے تو اُنہیں معاون و خادم کی ضرورت تھی، حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید رحمہ اللہ اور حضرت مولانا امداد اللہ صاحب مدظلہم کی حضرت مفتی صاحب کے ساتھ مشاورت کے نتیجے میں بندہ کو ۱۶؍ ستمبر ۲۰۰۲ء میں مجلس شوریٰ کے فیصلے کے تحت شعبۂ تدوین سے شعبۂ تخصص فی الفقہ الاسلامی میں حضرت کے معاون و خادم کے طور پر منتقل کردیاگیا، جبکہ برادرم مفتی محمد نیاز صاحب خوب محنت، دلجمعی اور لگن کے ساتھ تدوینِ فتاویٰ کا کام کرتے رہے۔ تقریباً سن ۱۴۳۴ھ/۲۰۱۳ء تک مستقل اس شعبہ سے وابستہ رہے، اس کے بعد سن ۱۴۳۴ھ/۲۰۱۳ء کو بطور معاونِ مفتی دار الافتاء میں منتقل کردیئے گئے، اور دارالافتاء کے معاون مفتی کی حیثیت سے فتویٰ نویسی کی خدمت انجام دینے لگے۔ تمرین اور تدوینِ فتاویٰ کی مخلصانہ محنت کے بعد ’’معاون مفتی‘‘ کی حیثیت سے ان کی ترقی، سابقہ محنت پر مہرِ قبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ بہرحال صبرواستقامت اور محنت ولگن کے ساتھ آپ نے جو کام کیا وہ بھی قابل رشک ہے، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ وہ اس شعبے میں بھی اپنی کارکردگی کے ذریعہ مجھ پر فوقیت وبرتری لے گئے، جامعہ کے شعبۂ تدوین میں میرے اور ان کے کام کا تناسب شاید آٹے اور نمک کے برابر بھی نہ ہو۔
شوال ۱۴۱۹ھ مطابق ۱۹۹۸ء میں جب ہمارا تقرر ہوا تھا تو اس وقت برادرِ مرحوم، مولانا مفتی رشید احمد اوکاڑوی اور راقم الحروف کو کچھ انتظامی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں، میرے دونوں رفقاء بالخصوص ڈاکٹر نیاز اساتذہ وطلبہ کی خدمت کے سابقہ تجربہ، اساتذہ کے تعلق واعتماد کی وجہ سے ہر قسم کے انتظامی امور کی عمدہ صلاحیتوں کے مالک تھے، اسی بنیاد پر انہیں بلاتأمل دار الاقامہ، مطعم اور تکرار ومطالعہ وغیرہ کی انتظامی ذمہ داریاں شروع ہی سے سونپ دی گئیں تھیں، جبکہ اس ناکارہ کو کچھ تأمل کے بعد آہستہ آہستہ چند انتظامی ذمہ داریاں دی گئیں، جو چند سالوں کے تجربہ کے بعد تقریباً ختم بھی ہوگئیں، جبکہ برادرم مفتی محمد نیاز رحمہ اللہ نے یہاں بھی بڑی دلجمعی اور ثابت قدمی سے اپنی تمام انتظامی ذمہ داریوں کو تقرر کے وقت سے تادمِ آخر مستقل طور پر نبھایا اور خوب خوب نبھایا۔ ہر انتظامی کام میں حاضرباش اور فرد کامل کے طور پر ہمہ وقت آپ دستیاب رہتے تھے۔ انتظامی ذمہ داریوں کے پورے عرصے میں وہ جامعہ کے دار الاقامہ میں اَکیلے رہا کرتے اور سال میں ایک دو مرتبہ بچوں سے ملنے گاؤں جاتے تھے۔ ہمارے مدارس کے نظم میں جو اساتذہ اور منتظمین اس طرح اکیلے رہتے ہیں، اگرچہ طلبہ کرام ان کی خدمت کو سعادت سمجھ کر ہرقسم کی راحت رسانی کا خیال رکھتے ہیں، اس کے باوجود والدین اور بیوی بچوں سے دوری کا احساس اور کئی قسم کی دشواریوں کا سامنا بہرحال رہتا ہے، جس کا صحیح ادراک وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس مرحلے سے خود گزر چکے ہوں، بہرکیف یہ بہت ہی بڑی قربانی اور جاں فشانی کا کام ہے، اور اس میں اچھے خاصے لوگ بہت جلد ہمت ہار جاتے ہیں، مگر برادرم مفتی محمد نیاز صاحب مرحوم نے اس قربانی اور جاں فشانی میں بھی مجھ سمیت کئی رفقاء کار کو بہت پیچھے چھوڑ رکھا تھا۔ 
۲۰۰۵ء میں جب بندہ نے کچھ مشکلات اور مجبوریوں کی بناپر حضرت مہتمم صاحب (مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب) ادام اللہ فیوضہم کو جامعہ کے رہائشی مکانات میں گھر کے لیے درخواست دی تو حضرت ڈاکٹر صاحب کی کرم فرمائی سے وہ منظور بھی ہوگئی اور میںدارالاقامہ کے کمرے سے جامعہ کے رہائشی مکان میں منتقل ہوگیا، یوں بندہ تھوڑے عرصہ کی معمولی خدمت کے بعد ایک بڑی راحت ورعایت سے مستفید ہوگیا، مگر تنہائی کی زندگی کی مشکلات فراموش نہیں ہوئی تھیں، اس لیے کچھ عرصہ کے بعد از راہِ ہمدردی میں نے برادرم نیاز صاحبؒ سے کہا کہ آپ بھی جامعہ کے گھروں میں رہائش کے لیے درخواست دے دیں، باقی اکابر کو یاددہانی میں کراتا رہوں گا، حسبِ سہولت آپ کو بھی گھر مل جائے گا، میرے اس اظہارِ ہمدردی پر ڈاکٹر نیاز نے جو استغناء آمیز جواب دیا وہ مجھے کافی بھاری لگا اور میں نے خفگی کا اظہار بھی کیا اور وہ بھی ذرا سخت الفاظ میں۔ ڈاکٹر نیاز نے کہا کہ: ’’شیخ! مدرسہ والوں کو خود پتہ ہے، جب گنجائش ہوگی تو خود ہی دے دیںگے۔‘‘ برادرم نیاز کے اس استغنائی ردِ عمل کے بعد پھر اِک عرصہ تک میں نے اس موضوع پر اُن سے بات نہیں کی، لیکن میرا احساس بدستور قائم تھا، چند سال قبل ایک دفعہ پھر میں نے کہا کہ اگر آپ خود یہ مطالبہ نہیں کرسکتے تو میں آپ کے لیے درخواست بھی لکھتا ہوں اور حضرت ڈاکٹر صاحب کو پیش بھی کرتا ہوں اورموقع بموقع یاددہانی بھی کراتا رہوں گا، مگر اس مرتبہ بھی وہی پرانا جواب دُہرایا، جس پر میں نے مزید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے گستاخی کی کہ میں آئندہ اس موضوع پر آپ سے بات نہیں کروںگا اور بھی بہت کچھ کہا، جو حسبِ عادت نیاز‘ بے نیازی سے سنتارہا اور اپنی خاموشی کے ذریعہ میری ساری گستاخیوں کا جواب دیتا رہا۔ نیاز کے اس طرزِ عمل کو کئی عنوانات دیئے جاسکتے ہیں، مگر میرے نزدیک سب سے ’’اَہون عنوان‘‘ اعلیٰ درجہ کی بے نیازی، حد درجہ استغناء اور غیر ضروری خودداری کا ہوسکتا ہے، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ وہ اپنے منفرد مزاج میں جامعہ کو اپنا سب کچھ دینے اور جامعہ سے ’’کفاف‘‘ کے علاوہ کچھ نہ لینے کے عزیمانہ اُصول پر سختی سے کاربند تھا۔
 نیاز نے زمانۂ تعلیم سے تا آخر اپنی ضرورتوں اور پریشانیوں کو ہمیشہ دبیز پردوں میں چھپانے اور دبانے کی طَرح اپنا رکھی تھی جو اس کے لیے کمال سہی، مگر ہمارے لیے کوفت کا ذریعہ بھی ہوتی تھی، یہ رویہ اس کی معمولی جھلک ہے۔
بہرحال جامعہ کی شبانہ روز خدمات کے باوجود جامعہ سے مراعات کے حصول میں ڈاکٹر نیاز اپنے عزیمانہ اُصول پر زندگی بھر کاربندرہا اور گزشتہ رجب وشعبان ۱۴۳۸ھ میں جامعہ کے رہائشی مکانات میں جب گنجائش ہوئی تو اُسی کے اصول کے مطابق حضرت ڈاکٹر صاحب دامت برکاتہم نے ایک گھر اپنے صواب دیدی فیصلے کے تحت محترم مفتی محمد نیاز صاحب مرحوم کے لیے مختص کردیا اور اس کی چابیاں اُن کے حوالے کردی گئیں۔ گھر ملنے کے بعد نئے گھر کی سیٹنگ اور لوازمات کے لیے حسبِ معمول وہ خود ہی تجربات کرتا رہا اور کسی بھی ادنیٰ یا اعلیٰ ضرورت کے لیے کسی کے سامنے کوئی اظہار نہیں کیا، بلکہ اپنے محدود وسائل سے گھر کی بنیادی ضروری اشیائ، گھونسلا بنانے والی چڑیا کی طرح خود ہی جمع کرتا رہا، جس کی وجہ سے گھر ملنے کے باوجود بچوں کو یہاں لانے میں کئی مہینے لگ گئے اور ذو الحجہ ۱۴۳۸ھ کے آخری ہفتہ میں اُن کے آدھے اہلِ خانہ مہینوں کی تیاری اور انتظار کے بعد جامعہ کے گھر میں منتقل ہوئے۔ والدہ صاحبہ اور دو بڑی بچیاں وہیں گاؤںمیں رہیں، اہلیہ محترمہ، دو بچیاں اور ایک آٹھ سالہ بچہ شہری زندگی کی بہت ساری آرزوئیں دل میں بسائے ہوئے ذوالحجہ ۱۴۳۸ھ کے آخری ہفتہ میں جامعہ کے گھر میں بسنے آئے، مگر قسامِ ازل کی تقدیر بندوں کی تدبیر پر ایک ہفتہ تک مسکراتی رہی اور اگلے جمعہ یکم محرم ۱۴۳۹ھ کو عین زوال کے وقت فرشتۂ اجل اپنے پروں کے سائے میں ہمارے ڈاکٹر نیازؒ کو مقامِ اجل تک لے گیا اور پارکنگ پلازہ صدر پہنچتے ہی ’’ أمرِ ربی‘‘ کی تعمیل ہوگئی اور ڈاکٹر نیازؒ نے چپکے سے تمام شناساؤں کی نظروں سے اوجھل ہوکر جان جان آفریں کے سپرد کردی اور خالقِ حقیقی کی آغوش میں جابسا،فإنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔
ڈاکٹر نیاز کو جتنا میں جانتا ہوں کبھی زندگی میں اپنے قول ، فعل یا ضرورت وحاجت کے حوالے سے کسی پر ذرا بھی بوجھ بننے سے انتہائی پرہیز کرتا تھا، کہیں آنا جانا ہو یا سفر پر روانگی یا واپسی کا موقع، اپنی ترتیب سے اچانک آئے اور گئے، یہاں تک کہ بیماری وعلالت میں بھی کسی کے سامنے اظہار یا شکایت نہیں دُہراتے تھے، یہ زندگی کا معمول تھا، نیاز صاحب نے جب آخرت کے لیے رختِ سفر باندھا تھا، اس وقت بھی یہی معمول نظر آتا ہے، سردرد اور بلڈپریشر کی شکایت ہے، سینے اور کمر میں بھی تکلیف مگر گھر میں محوِ استراحت رہا، تکلیف کی شدت پر معمول کی ابتدائی طبی امداد کے لیے جامعہ کی کلینک آیا اور ڈاکٹر عارف احمد صاحب سے سر درد کی شکایت کی، ڈاکٹر عارف احمد صاحب نے چیک اپ کے بعد انہیں کارڈیو جناح ہسپتال جیسے ڈراؤنے مقام جانے کا مشورہ دیا اور پرچی بھی تھمادی، مگر ہمارے ڈاکٹر نیاز ہیں کہ جو اُسے معمول کی طبی مشاورت سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی کے خود ساختہ استغنائی اُصول کو اب بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر عارف احمد صاحب کی ’’کارڈیو‘‘ کی پرچی ہاتھ میں لیے ہوئے اپنے دراز قدوقامت کی جھوم دار چال چلتے ہوئے جامعہ کے شرقی گیٹ کی طرف گئے، ایک طالب علم کے ساتھ علیک سلیک ہوئی، طالب علم نے اپنی کسی ضرورت کا اظہار کیا، اُسے ہمدردانہ لہجے میں جواب بھی دیا اور طبیعت پر بوجھ ہونے کی وجہ سے طالب علم کی خدمت نہ کر سکنے پر اس سے معذرت کرتے ہوئے چند لمحے کے لیے مہمان خانہ میں بیٹھے، پھر تقریباً ۱۸:۱۲ منٹ پر وہاں سے نکلے، بلیوکراس کے سامنے روڈ پار کرکے مقامِ اجل کی طرف جانے والے رُخ سے اکیلے رکشہ میں سوار ہوئے اور صدر کے پارکنگ پلازہ پہنچ کر ’’إِذَا جَائَ أَجَلُہُمْ فَلَایَسْتَأْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَایَسْتَقْدِمُوْنَ‘‘ اور ’’وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ‘‘ کا سبق ہم سب کو یاددلاکر راہیِ سفرِ آخرت ہوگئے اور رکشہ ڈرائیور اس مسافرِ آخرت کو مریض سمجھ کر ایدھی ایمبولینس کے ذریعہ جناح ہسپتال تک لے گیا، اُدھر جمعہ کی چھٹی اور نماز کے وقت کی وجہ سے کسی سے رابطہ بھی نہیں ہوپارہا تھا، مگر ڈاکٹرعارف احمد صاحب کی پرچی پر نیاز صاحب نے فرمائش کرکے ان کا نمبر لکھوایا تھا، جو احتیاطی تدبیر سے زیادہ غیبی تقدیر کے تحت لکھوایاگیا تھا، ورنہ عام طور پر ڈاکٹر عارف احمد صاحب ان صاحب کا نام اور نمبر لکھ کردیتے ہیں جو متعلقہ ہسپتال میں ہمارے مریض کے ساتھ تعاون کی خدمت انجام دیتا ہے، چنانچہ دو بجے کے بعد ڈاکٹر عارف احمد صاحب کے نمبر پر ہسپتال سے اطلاع آئی کہ آپ کا مریض داعی اجل کو لبیک کہہ چکا ہے۔
 یہ خبر آناً فاناً جامعہ پھر شہرِ کراچی بلکہ پورے ملک میں جامعہ کے متعلقین اور فضلاء کو پہنچ گئی اور ایک دو گھنٹے کے اندر اندر تجہیز وتکفین کے سارے انتظامی اورراہداری کے مراحل طے پاکر عصر کی نمازکے ساتھ ہی نیاز کا جسدِ خاکی اپنی جائے خمیر پہنچنے کے لیے تابوت میں بند ہوکر تیار ہوگیا اور چھٹی کے باوجود عصر کی نماز تک جامعہ کے اساتذہ وطلبہ کے علاوہ مختلف مدارس کے طلبہ واساتذہ اور کثیر تعداد میں عوام نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی اور ڈاکٹر نیاز اُن خوش نصیبوں میں شامل ہوگیا جن کی نمازِ جنازہ حضرت ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب مدظلہم نے پڑھائی اور پھر حضرت ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے برادرم مولانا ڈاکٹر سعید خان اسکندر، مولانا طلحہ رحمانی اور راقم الحروف اپنے دیرینہ رفیق کے جسدِ خاکی کے ہمراہ اسلام آباد کے راستے سے اَٹک گئے، اگلے دن ظہر کی نماز میں دوبارہ اُن کی نمازِ جنازہ ہوئی،جس میں علاقے کے روایتی لوگوں کے علاوہ دور دراز سے کثیر تعداد میں علماء اور فضلاء جامعہ شریک ہوئے۔
 نمازِ جنازہ کے بعد تدفین کے موقع پر جامعہ کے قدیم فاضل‘ سابق استاذ اور جامعہ فریدیہ اسلام آباد کے منتظم اعلیٰ حضرت مولانا عبد الغفار صاحب مدظلہٗ نے تذکیر بالموت اور برادرم محمد نیاز کے تذکرے پر مشتمل وعظ بھی فرمایا ۔ مولانا عبدالغفار صاحب‘ نیاز صاحب کے ملیر کے زمانے کے ابتدائی محنتی اساتذہ میں سے ہیں، مگر انہوں نے نیاز صاحب کے بارے میں جس انداز سے اظہارِ خیال فرمایا، اس میں شفقت سے زیادہ عقیدت کا اظہار تھا، کسی طالب علم کی اس سے بڑھ کر کیا خوبی ہوسکتی ہے کہ اس کا استاذ اُسے شرافت ، امانت، دیانت اور اخلاق وکردار کی پاکیزگی کی سند مجمعِ عام میں عطا کرے، اسی پر اکتفاء نہیں، بلکہ مولانا عبد الغفار صاحب نے فرمایا کہ: میری زندگی کا بیشتر حصہ طلبۂ دین کی تعلیم وخدمت میں گزرا ہے، میرے علم میں مولانا مفتی نیاز صاحب مرحوم کی ایک پوشیدہ خدمت ہے جس کا اعزاز آج تک مجھے بھی حاصل نہیں ہوا، وہ یہ کہ جامعہ بنوری ٹاؤن میں زیرِتعلیم ہمارے کچھ شاگردوں نے بتایا کہ ہم نے متعدد بار رات کی تاریکی میں مفتی نیاز صاحب کو طلبہ کے بیت الخلاء کی صفائی کرتے دیکھا، یہ تجسس اس لیے ہوا کہ ایک عرصہ میں جامعہ کے بیت الخلاؤں کی صفائی پر مامور جمع دار اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہے ہوتے تھے، مگر بیت الخلاء رات کو مستعمل اور صبح صاف ملتے تھے، اس تجسس نے مفتی نیاز صاحب کی اس چھپی چھپائی نیکی کو آثارِ قبولیت کے طور پر ظاہر کردیا، یہ وہ سعادت اور کمال ہے جس کے لیے ہم حضرت مدنیؒ اور حضرت بنوریؒکی مثالیں دیا کرتے تھے، مگر الحمد للہ! ان بزرگوں کی روحانی اولاد میں بھی ایسے لوگ ملتے ہیں جو اس متواضع سعادت سے بھی ہم کنار ہوئے ہیں۔ اس طرح کی نجانے اور کیا کیا خوبیاں اور نیکیاں تھیں جو برادرم نیاز صاحب نے صرف اپنی آخرت کے لیے چھپا رکھی تھیں اور اُن پر داد یا اجر صرف اپنے رب سے لینے کا ایمان لے کر رخصت ہوگیا۔ 
نیاز پر اِخفاء وخمول کا حد درجہ غلبہ تھا، وہ اپنی نیکیوں اور خوبیوں کو چھپائے رکھنے میں خوب کامیاب رہتے تھے، مگر اس کے باوجود نیاز کی بعض خوبیاں ایسی ہیں جو دیرینہ رفاقت، اشتراکِ عمل اور جامعہ کے عرصۂ خدمت میں ایسی ظاہر ہوئیں کہ کسی ادنیٰ واعلیٰ فرد سے پوشیدہ نہیں رہیں اور جامعہ کا ہرفرد اس کی گواہی دے گا، یہ چند متأثر کن خوبیاں ایسی ہیں کہ دینی مدارس سے وابستہ افراد کے لیے فی زمانہ تذکیر کا درجہ رکھتی ہیں، اس لیے اُنہیں اس جذبے کے ساتھ دُہرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ شاید ان خوبیوں کی دُہرائی خود حقیر پرتقصیرکے لیے بھی تذکیر کا سامان بنے اور میرے جیسے دیگر لوگ بھی استفادہ کرسکیں اور مدرسہ کی زندگی میں کوئی ان خوبیوں سے عاری ہو تو وہ ان خوبیوں سے آراستہ ہونے کی کوشش کرے۔
ابتدائی سطور میں بتا آئے ہیں کہ برادرم مولانا مفتی محمد نیاز یونس رحمہ اللہ سے میری رفاقت کا عرصہ تقریباً دودہائیوں سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے، یہ زمانے کسی بھی انسان کی جانچ پرکھ کے لیے غیرمعمولی عرصہ ہے، اس طویل عرصہ میں طرح طرح کے نشیب وفراز بھی فطری امور کا حصہ ہیں، مگرمیں نیاز صاحب کی جو خوبیاں ذکر کرنے جارہا ہوں، جو میرے لیے قابل رشک ہیں اور قابل تقلید ہیں، میں نے کسی قسم کے اُتار چڑھاؤ کے بغیر استقلال کے ساتھ مشاہدہ کیں، وہ یہ ہیں:

۱:…تواضع وانکساری

نیاز صاحب کو میں نے انتہائی متواضع، منکسر المزاج، وضع دار اور ملنسار انسان پایا، دورانِ تعلیم وہ ہر طالب علم سے اخلاق ومروت سے پیش آتے تھے، رفقاء واساتذہ کی شہادتیں موجود ہیں کہ انہوں نے ہر چھوٹے بڑے طالب علم کے ساتھ عاجزی وانکساری کا رویہ اپنا رکھا تھا جس کی بدولت کوئی ان سے کسی معاملے میں شاکی نہیں تھا، یہی معاملہ عرصۂ خدمت میں طلبہ ، فضلاء اور اساتذہ کے سامنے بھی مستقل رکھنے میں کامیاب رہے۔ تکبر، غرور، نخوت اور احساسِ برتری کا معمولی شائبہ بھی محسوس نہیں ہونے دیتے تھے، اس وقت ’’ہم چوں ما دیگرے نیست‘‘ کی وبا ہمارے مجالِ عملی میں سرایت کرنے آرہی ہے، ہمیں احتیاط کی اشد ضرورت ہے۔

۲:…حیاء ومروت

دوستانہ ماحول میں تفریحِ طبع کے لیے محفل گرمانے کی خاطر ہرکوئی اپنا اپنا حصہ ملایا کرتا ہے، پھر اسفار یا تفریحی پروگراموں میں کبھی کبھار حیاء ومروت کے تقاضے رخصت وتسامح کی نذر ہوجایا کرتے ہیں، مگر مجھے یاد نہیں پڑتا کہ نیاز صاحب مرحوم نے کبھی گپ شپ اور محفل گرمانے کے لیے اپنے قول وفعل میں حیاء ومروت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے دیاہو، گفتگو میں، لباس وپوشاک میں، حیاء ومروت کی خلاف ورزی سے اجتناب ان کا خصوصی وصف تھا۔

۳:…صلح جوئی اور نرم خوئی

 طلبہ ، رفقاء یا عملے کے ساتھ اُلجھاؤ سے زیادہ سلجھاؤ اور صلح جوئی کی کوشش کیا کرتے تھے۔ بعض طلبہ ہرقسم کی بدنظمی ، بے قاعدگی اور بدسلیقگی کو اپنا طالب علمانہ حق سمجھا اور جتلایا کرتے ہیں اور اس پر تنبیہ وتذکیر کو سختی ودرشتی سے تعبیر کیا کرتے ہیں، یہ سوچ اور رویہ خالصۃً اُلجھاؤ اور سخت گیری کا متقاضی ہے، مگر محترم نیاز صاحب ایسے موقع پر اُلجھاؤ کی بجائے ایسی حرکتوں کو طالب علمانہ سفاہت کی ٹوکری کی نذر کردیا کرتے تھے اور اپنی ذمہ داری کو حکمت ومصلحت کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
اسی طرح کبھی رفقاء کار کے درمیان ذمہ داریوں کے تناؤب وتقسیم یا بجاآوری میں سختی نرمی کا موقع آجاتا تو نیاز صاحب ساتھیوں کے ساتھ مقابلہ اور محاذ آرائی سے ایسے گریزاں رہتے کہ باہمی بڑے سے بڑا تناؤ‘ لمحوں میں ختم ہوجاتا، اسی طرح عملے کے ساتھ نرم خوئی، رواداری اور ملنساری سے پیش آتے جس کی بدولت عملے سے کام لیناآسان ہوجاتا اور عملہ آپس میں خوش دلی سے باہمی تعاون کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھاتا۔
صلح جوئی اور نرم خوئی ہر اجتماعی کام کے لیے بنیادی ضرورت ہے، بالخصوص ہمارے حلقے میں دوسروں کے لیے مثال بننے کی خاطر از بس ضروری ہے۔

۴:…اساتذہ کا احترام

اساتذہ کا ادب واحترام ہمارے مدارس کا شعار ہے، عموماً اس کا پاس رکھا جاتاہے، مگر انتظامی ذمہ داریوں میں کبھی یہ ادب واحترام آزمائش بن جاتاہے، بسااوقات جونیئر منتظم دو مشکلوں کے بیچ پھنس جاتا ہے، ایک طرف انتظامی پریشانیوں سے بالاتر رہنے والے اساتذہ کرام کے انفرادی اذواق کی رعایت رکھنا، دوسری طرف ادارے کے نظم کا پاس پالنا‘ ایسے موقع پر ، انفرادی ذوق‘ اجتماعی نظم کے سامنے اصولاً نظر انداز ہوسکتا ہے، اجتماعی زندگی کے شرعی اُصولوں کے مطابق یہ نظر اندازی قابلِ شکوہ بھی نہیں ہوتی، مگر پھر بھی انفرادی ذوق کی رعایت کے طلب گار حضرات ایسے اصولوں کو اپنی حق تلفی سمجھتے ہیں اور ناگواری کا اظہار بھی فرمادیا کرتے ہیں، ایسے مشکل مواقع پر محترم نیاز صاحب نے حتی الوسع اساتذہ کے مقام واحترام کا پاس رکھا اور جامعہ کے نظم کو برقرار رکھنے کی کوشش بھی کی اور بعض موقعوں پر بعض اساتذہ کی بجا یابے جا ناراضگی کوخندہ پیشانی سے قبول کیا اور اپنے سے شاکی اساتذہ کے بارے میں حرفِ شکایت زبان پر لانے سے ہمیشہ مجتنب رہے۔
 اس کے علاوہ نشست وبرخاست اور میل ملاقات میں معاصر ومتقدم سب اساتذہ کے ساتھ نہایت تواضع، عاجزی اور انکساری کے ساتھ پیش آتے تھے۔
 اس وقت اجتماعی نظم میں برداشت کا مادہ کمزور ہوتا جارہا ہے اور بشمول میرے یہ کوشش ہوتی ہے کہ میرے مقام کا ہرحال میں پاس رکھا جائے، جبکہ اس سوچ کے لوگ کم ہوتے جارہے ہیں کہ میری طرح سامنے والے کا کوئی مقام بھی ہو سکتاہے، اس کاخیال رکھنا بھی دوسرے کے حقوق اور میرے فرائض میں شامل ہے۔ہمیں اپنے سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھنا چاہیے، یا کم از کم اُنہیں اپنے جتنا درجہ دینے کی عادت اپنانی چاہیے۔زندگی کا اُصول یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ’’میں اور میرے لیے سب کچھ ، آپ اور آپ کا کچھ نہیں۔‘‘ الحمد للہ ! نیاز کی زندگی کا اُصول اس کے برعکس رہا۔

۵:…غیبت وعیب جوئی سے اجتناب

غیبت و عیب جوئی جتنا بڑا اور سنگین گناہ ہے، ہمارے حلقوں میں اس کا شیوع اتنا ہی عام ہوچکا ہے، مسلمانوں کی شاید ہی کوئی مجلس ایسی ہو جس میں اس گناہ کا ارتکاب نہ ہورہا ہو، مگر مجھے یاد نہیں ہے کہ کبھی کسی مجلس میں برادرم نیاز صاحب نے کسی کی غیبت وعیب جوئی کی ہو، یا غیبت کے گناہ میں اضافہ کے لیے حصہ لیا ہو، بامرِ مجبوری ایسی مجلس میں اگر شریک ہوں تو سادگی سے یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ: ’’یار! دوسروں کے کپڑے مت دھویاکرو۔‘‘

۶:…گلے شکوے سے دوری

اجتماعی نظم میں کبھی انسان کو دوسروں کی طرف سے تعدی وزیادتی کا سامنا بھی ہو جایا کرتا ہے، ترجیحات میں نظر اندازی کا موقع بھی آجایا کرتا ہے، کبھی نوازشات ومراعات کی استحقاقی فہرست میں شامل نہ ہونے پر فطری جذبات بھی متأثر ہو ہی جایا کرتے ہیں، جن کا اظہار معمول بہ فطری امر بھی ہے، مگر ایسے کسی موقع پر میں نے انہیں شکوے شکایات کرتے ہوئے نہیں پایا، بلکہ وہ ساتھیوں سے کہا کرتے تھے کہ:’’ یار! بڑے جو فیصلہ کریں وہ ہم سے بہتر جانتے ہیں، اسی میں خیر ہوگی۔‘‘ اس وقت ہر اجتماعی نظم میں ’’علینا ماحملنا وعلیہم ما حملوا ‘‘ کا شرعی اصول ملحوظ رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

۷:…امانت داری

امانت داری نیاز صاحب کا امتیازی وصف تھا، جامعہ کے کئی امور، اسرار، اوقات، املاک، اساتذہ کے کئی معاملات اور جامعہ کی کئی اشیاء آپ کے پاس امانت ہوتیں، کبھی ارادی یا غیر ارادی طور پر امانت کے اُصولوں کی خلاف ورزی محسوس نہیں ہونے دی اور جامعہ کی ہرچیز کو اربابِ حل وعقد اور ادارے کی امانت سمجھ کر حفاظت کیا کرتے تھے، امانات کی حفاظت خود بھی کرتے تھے اور دوسروں سے بھی پابندی کروانے کی مخلصانہ کوشش کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے قول وعمل سے یہ باور کرایا کہ ادارے کی ہرہر چیز ہر ذمہ دار اور ادارے سے وابستہ ہرفرد کے حق میں امانت کا درجہ رکھتی ہے، اس میں معمولی خیانت کا ارتکاب وحدہٗ لاشریک اور کثیر تعداد مخلوق کے سامنے جواب دہی کا مستوجب ہے۔

۸:…جامعہ کی اشیاء کے استعمال میں احتیاط

جامعہ کی تمام اشیاء واملاک کو امانت کا درجہ دیتے تھے، اپنی ذات کے لیے جائز اور مباح تصرف سے بھی گریز کیا کرتے تھے۔ جامعہ کے مدرس، ناظم اور متعدد امور کے مسئول ہونے کے باوجود ادارے کی اشیاء کو ذاتی استعمال میں نہیں لاتے تھے، یہاں تک کہ ادارے کی طرف سے ملنے والے کئی ہدایا اور تحائف بھی جامعہ سے متعلق کسی اچھے مصرف میں صرف کردیا کرتے۔ جامعہ کی طرف سے طے شدہ ضابطے کے تحت آمد ورفت کے لیے جامعہ کی گاڑیاں استعمال کرنے کی اجازت ہے، مگر مجھے یاد نہیں ہے کہ کبھی انہوں نے یہ استحقاق استعمال کیا ہو، اگر کہیں آنا جانا ہو تو بس میں یا رکشے میں اپنے طور پر آیا جایا کرتے تھے، یہاں تک کہ زندگی کے آخری لمحات میں بھی ادارے سے وابستہ لوگوں کے لیے بزبانِ حال یہی سبق چھوڑ گئے کہ اگر موت جیسے مشکل سفر کے لیے بھی جامعہ کی گاڑی وغیرہ استعمال کرنے سے احتیاط ہوسکتی ہے تو کرنی چاہیے، اُسے کمالِ احتیاط واستغناء نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ دل کا مریض ’’کارڈیو‘‘ جارہاہے، باہر تک پیدل اور وہاں سے رکشہ میں بیٹھ کرجارہا ہے۔ بہرحال یہ تکلیف دہ ’’یاد‘‘ نیاز کی زندگی کے معمول کا آخری مظہر ہے۔ ہمیں اس احتیاطی برتاؤ سے یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں اپنی جان پر جتنی سختیاں جھیلنی ہوں جھیل لیں، مگر وقف اداروں کی اشیاء کے غیرمحتاط استعمال کا اخروی بوجھ لے کر جانے سے گریز کریں۔

۹:…بے نیازی اور خودداری

میں نے دو دہائیوں سے زائد عرصہ کی رفاقت میں کبھی نیاز کو اپنے دکھ درد کا اظہار کرتے ہوئے، تکالیف و پریشانیاں بیان کرتے ہوئے اور اپنی ضروریات سے دوسروں کو آگاہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا، جس انسان نے لگ بھگ دو دہائیاں چھڑے پن کے ساتھ دن رات ادارے کو دے رکھے ہوں، چوبیس گھنٹے ادارے کا وفادار مخلص چوکیدار بن کر ادارے میں دستیاب ہو، ہمہ وقت ادارے کی خدمت کے علاوہ اس کا کوئی اور مشغلہ نہ ہو، جس نے اپنا دین اور دنیا دونوں ادارے کو سمجھ رکھا ہو، ایسے شخص کا ادارے کی طرف سے ملنے والی مراعات وسہولیات میں استحقاق کیا سے کیا نہیں بنتا؟!!! آخر وہ ادارے کا کامیاب محنتی ومشاق مدرس بھی تھا، دار الافتاء کا ماہر مفتی بھی تھا، دارالاقامہ کا مسئول بھی تھا، مطعم کا ناظم بھی تھا، دن رات، چھٹی یا حاضری کے ایام میں وہ ہروقت ادارے کو دستیاب بھی رہتا تھا، ایسا شخص ادارے کی طرف سے ملنے والی مراعات نوازشات پر اگر اپنا حق جتلائے تو اسے جھٹلایا اور ٹھکرایا نہیں جاسکتا، بالخصوص وہ تو ایک قدرداں ادارے سے وابستہ تھا، مگر کبھی اس نے اپنے اس استحقاق کو استعمال نہیں کیا، دو معاملات کا تو میں عینی شاہد ہوں: ایک جامعہ کی طرف سے ملنے والے گھروں کی سہولت کی بابت جیسے اوپر ذکر ہوا کہ نیاز کا استحقاق بھی تھا اور جامعہ کے دیرینہ اصول کے مطابق گھر ملنے کی جو ترجیحات ہیں ان پر بھی پورا اُتررہا تھا، مگر پھر بھی اس نے از خود کوشش نہیں کی، بلکہ میرے مشورے پر میرا منہ بھی پھیکا کیا تھا۔
دوسرا تقسیمِ اسباق کے موقع پر ہراستاذ کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ اسے اپنی مرضی کا سبق ملے، مگر انہوں نے کبھی خواہش وکوشش کا اظہار نہیں کیا، شاید اسی خودداری کی وجہ سے ہمیشہ اُن کے لیے کوئی نہ کوئی آواز اُٹھاتا اور ان کے لیے فن کی کسی محنت طلب کتاب کی تعیین ہوجایا کرتی تھی، اسی طرح کہیں آنا جانا ہو تو رفقائ، طلبہ اور تلامذہ کی کثیر تعداد ہرخدمت انجام دینے کے لیے تیار رہتی، مگر وہ کسی کو زحمت دینے سے بے نیاز رہتے تھے، بلکہ اپنا ہر کام تقریباً خود ہی کیا کرتے تھے۔

۱۰:… مالی معاملات میں احتیاط

ہماری عمومی کمزوریوں میں مالی معاملات میں تساہل بھی ہے، مگر میں نے نیاز صاحب کو اس معاملے میں انتہائی محتاط ومتیقظ پایا، کبھی کسی سے قرض وادھار لیتے ہوئے نہیں پایا، بلکہ دوسروں کو قرض / رقم دیتے بارہا دیکھا، ادائیگی اور وصول میں ’’سمح وسہل‘‘ کا مصداق پایا، نیز ادارے کی طرف سے زکوٰۃ کی مد میں ملنے والی اشیاء سے مکمل اجتناب کیا کرتے تھے، بلکہ تخصص فی الفقہ کے زمانے (۹۹-۱۹۹۸ئ) سے ہماری ہم رکابی شروع ہوئی تھی، وہ مدرسہ کا کھانا نہیں لیتے تھے، بلکہ مجھے راز داری کے ساتھ بامرِ مجبوری یہ بتایا کہ میں صاحبِ نصاب ہوں، میں وظیفہ نہیں لیتا، اس لیے میرا مطعم سے کھانا لینا درست نہیں ہے، اس لیے میرے حصے کا کھانا نہ لایاجائے، البتہ میں ساتھیوں کی خدمت کیا کروںگا اور اس خدمت کی وجہ سے ساتھیوں کے ساتھ یا ان کے بعد کھانا کھالیا کروں گا۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ یہ معمول اُن کا جامعہ میں تقرر کے بعد بھی جاری رہا، وہ تقرر کے شروع سے آخر تک مطعم کے ناظم رہے اور ادارے کی طرف سے اس خدمت پر صبح شام ایک کھانا الاؤنس کا حصہ ہے، مگر وہ یہ بھی نہیں کھاتے تھے، وہ اپنا کھانا خود پکالیتے تھے یا باہر سے کوئی چیز منگوا کر کھا لیا کرتے تھے، نیاز یہاں بھی اپنے استحقاق سے بے نیاز ہی رہا۔
پس اگر نیاز کی ان بے نیازیوں کا خلاصہ نکالاجائے تو وہ یہی ہوگا کہ نیاز ادارے کا ہمہ وقت، ہمہ جہت ایسا کارآمد کارکن تھا جو ادارے کو اپنی خدمات دینے میں سرفہرست اور ایسے ادارے سے مراعات، سہولیات اور نوازشات سمیٹنے میں سب سے پیچھے تھا۔ بزبانِ حال یہی کہتا رہا کہ: ’’نیاز اور نیاز کا کچھ نہیں، آپ اور آپ کا سب کچھ ہے۔‘‘

فرحمہٗ اللّٰہ و رحم من یزی بزیہ وغفرہ اللّٰہ ولنا ولموتی المسلمین بحرمۃ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ، آمین!
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین