بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

قدیم تعمیر شدہ مساجد کی شرعی وقانونی حیثیت ! اکابرِ اُمت کی نظر میں

قدیم تعمیر شدہ مساجد کی شرعی وقانونی حیثیت !

اکابرِ اُمت کی نظر میں


آج سے تقریباً ۵۸/۵۹ سال قبل سنہ ۱۳۸۲ھ مطابق ۶۲/۱۹۶۳ء میں قدیم مساجد کی شرعی وقانونی حیثیت اور اُن کے سرکاری انہدام کے ارادوں سے متعلق ایک مفصل فتویٰ لکھا گیا تھا جو اُس وقت وسیع پیمانے پر طبع ہوکر اُمت کی رہنمائی کا ذریعہ بنا تھا، جس پر اُس وقت کے تقریباً تمام معروف اہلِ فتویٰ اور صاحبانِ علم کی توثیقات بھی ثبت ہیں۔ قدیم علمی ورثہ اور فی زمانہ دینی خیر خواہی اور شرعی رہنمائی کے لیے شاملِ اشاعت کیا جارہا ہے۔    (ادارہ)

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرعِ متین اس معاملہ میں کہ شہر کراچی کے وسط میں ایک ڈاک خانہ ہے اور اُس کے گوشہ میں نماز پڑھنے کا ایک چبوترہ‘ پاکستان اور تقسیم سے پہلے سے موجود تھا، جس پر لوگ نماز پڑھتے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد نمازی بکثرت جمع ہوتے اور نماز جماعت سے ادا کرتے رہے۔ عام چندہ سے اہلِ محلہ نے ایک سائبان بھی ڈال لیا، ایک گز اونچی محراب کے گرد دیوار بھی تھی۔ حوض اور ٹونٹیاں بھی وضو کے لیے موجود تھیں۔ اہلِ محلہ اور ملازمانِ ڈاک خانہ نے اس کی تعمیر کا ارادہ کیا، اور ملازمانِ ڈاک خانہ نے از سرِ نو تعمیرِ مسجد کے لیے اپنے افسرانِ اعلیٰ سے درخواست دے کر اجازت بھی طلب کی اور اس محکمہ کے افسر اعلیٰ ڈائرکٹر جنرل اور پوسٹ ماسٹر جنرل نے اجازت تعمیرِ مسجد کی دے دی اور نقشہ دو منزلہ بھی تیار ہوکر منظور ہوگیا۔ بنیاد از سرِ نو تعمیرِ مسجد کے لیے ایک جلسہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۵۲ء کو ہوا، جس میں معززینِ شہر، علماء ، حکام، عوام سب شریک تھے اور عام مسلمانوں کے چندہ سے یہ مسجد دو منزلہ تعمیر ہوکر مکمل ہوگئی۔ اور دس سال سے عام مسلمان نمازِ جمعہ بھی ادا کرتے ہیں اور عام چندہ ہی سے اخراجات اس مسجد کے پورے ہوتے ہیں۔
عدالتی قانون کے تحت اب بتایاگیا ہے کہ یہ وقف اس لیے صحیح نہیں ہے کہ ڈائرکٹر جنرل صاحب اجازت دینے کے مجاز نہیں تھے، وزارت سے اجازت لینا چاہیے تھا، عام مسلمان مسجد اور وقفِ عام ہی کی نیت سے اس کی تعمیر میں روپیہ لگا چکے ہیں۔ محکمہ نے کوئی ادنیٰ رقم بھی مسجد پر صرف نہیں کی ہے۔ از روئے شرع شریف اس مسجد کے لیے کیا حکم ہے؟بینوا توجروا۔فقط والسلام       المستفتی:محمد موسیٰ لطفی
اہلِ اسلام کے انتشار کو دور کرنے اور کلی اطمینان حاصل کرنے کے لیے اپنے مخلص احباب ودوستوں کی جد وجہد سے حضرات علماء کرام ومفتیانِ عظام سے مسجد متصل سٹی پوسٹ آفس جو کہ خالص لوجہ اللہ عام مسلمانوں نے مسجد کو مسجد اور وقفِ عام سمجھتے ہوئے از سرِ نو تعمیر کیا ہے، اور معاندین کی نظرِ بد نے آپس ہی میںاس مسجد اور وقفِ عام کو زیرِ بحث بنادیا اور یہ لفظی اور تحریری بحث طول پکڑ گئی۔
اس لیے یہ فتویٰ شرعی احکام اور کتاب وسنت کے مکمل دلائل کے ساتھ حاصل کرکے عام اطمینان اور شرعی حیثیت سے واقفیت کے لیے اس کو ہم شائع کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ اُمید ہے کہ اب کسی متنفّس کو بھی مسجد کے وقفِ عام ہونے میں شک نہ رہے گا اور ہم سب پورے اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔ إن شاء اللّٰہ تعالٰی ، وما توفیقی إلا باللّٰہ ۔
                                                 ڈاکٹر محمد موسیٰ لطفی، صدر، کراچی نمبر:۳
الجواب
مساجد شعائرِ اسلام میں سے ہیں۔ قرآن کریم اور حدیثِ نبوی (l) میں اُن کے شرف وفضل اور احکام کو مختلف جہات سے بیان فرمایا گیاہے۔ اس سلسلہ میں پہلے قرآن کریم کی آیات پر نظر ڈالیے، ارشادِ ربانی ہے:
’’وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ أَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَا۔‘‘(البقرہ:۱۳)
 ’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے منع کیا اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا نام لینے سے اور اُن کے اُجاڑنے کی کوشش کی۔‘‘
آیتِ کریمہ جہاں مساجد کے شرف وفضل کو بیان کررہی ہے وہاں مساجد کے منہدم کرنے والے اور اس کی تخریب کی کوشش کرنے والے کی شدید مذمت کررہی ہے اور ایسے شخص کو سب سے بڑا ظالم کہا جارہا ہے۔ آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ مسلمانوں کو مساجد کی تعمیر اور ان کی کثرت سے روکا نہیں جائے گا، بلکہ اس سلسلہ میں ان کی ہمت افزائی کی جائے گی، چنانچہ مفسر کبیر ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی اپنی تفسیر ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ میں اس آیت کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ولایمنع بناء المساجد إلا أن یقصدوا الشقاق والخلاف بأن یبنوا مسجدًا إلٰی جنب مسجد أو قربہ یریدون بذٰلک تفریق أہل المسجد الأول وخرابہ۔‘‘    (ج:۲،ص:۷۸)
’’مساجد کی تعمیر سے کسی کو روکا نہیں جائے گا، سوائے اس کے کہ تعمیر کرنے والوں کا ارادہ اختلاف اور پھوٹ ڈالنا ہو، اس طرح کہ وہ کسی دوسری مسجد کے پہلو میں یہ مسجد تعمیر کریں اور اُن کا مقصد پہلی مسجد کے نمازیوں میں تفریق ڈالنا ہو۔‘‘
امام رازیؒ اپنی تفسیر میں رقم فرماہیں:
’’السعي فی تخریب المسجد قد یکون لوجہین : أحدہما منع المصلین والمتعبدین و المتعہدین لہ من دخولہٖ ، فیکون ذٰلک تخریبًا۔ والثانی بالہدم والتخریب۔‘‘  (ج:۱،ص:۶۸۳)
’’مسجد کی تخریب کی کوشش دو صورتوں سے ہوتی ہے: ۱:- نماز پڑھنے والوں اور عبادت کرنے والوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکنا۔ ۲:-مسجد کو ویران اور منہدم کرنا۔‘‘
اور سورۂ توبہ میں ہے:
’’إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَآتٰی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰی أُولٰئِکَ أَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ۔‘‘           (التوبہ:۳)
’’ہاں! اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا اُن لوگوں کا کام ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائیں اور نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور بجز اللہ کے کسی سے نہ ڈریں۔‘‘
آیتِ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی مساجد حقیقۃً ایسے ہی اولوا العزم مسلمانوں کے دم سے آباد رہ سکتی ہیں جو دل سے خدائے واحد اور آخری دن پر ایمان لاچکے ہیں، جوارح سے نمازوں کی اقامت میں مشغول رہتے ہیں، اموال میں باقاعدہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، اسی لیے مساجد کی صیانت وتطہیر کی خاطر جہاد کے لیے تیار رہتے ہیں۔
آیتِ کریمہ سے یہ بھی بصراحت معلوم ہورہا ہے کہ مساجد کی تعمیر کرنا کسی کے ایمان کی بڑی شہادت ہے۔ علامہ قرطبیؒ اس آیت کے ذیل میں تفسیر ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’دلیل علی أن الشہادۃ لعمار المساجد بالإیمان صحیحۃ وقد قال بعض السلف: إذا رأیتم الرجل یعمر المسجد فحسنوا بہ الظن‘‘          (ج:۸،ص:۹)
’’آیتِ کریمہ اس امر پر دلیل ہے کہ مساجد کی تعمیر کرنے والوں کے ایمان کی شہادت صحیح اور درست ہے، اسی لیے بعض سلف کا قول ہے جب تم دیکھو کہ کوئی شخص مسجد کی آباد کاری میں کوشاں ہو تو اس کے ساتھ حسن ظن رکھو۔‘‘
سورۂ نور میں ارشادِ الٰہی ہے:
’’فِیْ بُیُوْتٍ أَذِنَ اللّٰہُ أَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ۔‘‘(النور:۵)
’’ان گھروں میں کہ اللہ نے حکم دیاہے اُن کو بلند کرنے کا اور وہاں اس کا نام پڑھنے کا، یادکرتے ہیں اس کی وہاں صبح اور شام۔‘‘
اس سے پہلے کی آیات میں بتلایاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نور سے تمام موجودات کی نمود ہے، پھر مؤمنین مہتدین کو اس نورِ الٰہی سے ہدایت وعرفان کا جو خصوصی حصہ ملتا ہے اس کو ایک بلیغ مثال سے سمجھایا گیا ہے، اس کے بعد فرمایا جارہا ہے کہ یہ روشنی اللہ کے اُن گھروں (مساجد) میں ملتی ہے، جن کو بلند رکھنے اور اُن کی تعظیم وتطہیر کا حکم دیاگیا ہے اور یہ بتلایا گیا ہے کہ اُن کو ہمیشہ ذکر، تسبیح اور عبادتِ الٰہی سے آباد رکھا جائے۔ آیتِ کریمہ سے بصراحت مساجد کی تعظیم اور اُن کو آباد کرنے کا حکم معلوم ہورہا ہے۔
آیات کے بعد جب ہم احادیث کی طرف آتے ہیں تو اس بارے میں کثرت سے احادیث ملتی ہیں۔ اختصار کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہاں چند احادیث پر اکتفا کیاجاتاہے:
’’عن أبی ہریرۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أحب البلاد إلی اللّٰہ مساجدہا وأبغض البلاد إلی اللّٰہ أسواقہا۔‘‘                                   (رواہ مسلم)
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہq روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا کہ: سب جگہوں میں پسندیدہ جگہ اللہ کے نزدیک مساجد ہیں اور مبغوض ترین جگہیں اللہ کے نزدیک بازار ہیں۔‘‘
’’عن عثمان ؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من بنٰی مسجدًا یبتغی بہٖ وجہَ اللّٰہ بنی اللّٰہ لہٗ بیتًا مثلہٗ فی الجنۃ۔‘‘                                (بخاری)
’’حضرت عثمانq روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا کہ: جو شخص اللہ کی رضا جوئی کے لیے مسجد بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں اس کے مثل گھر بنائے گا۔‘‘
’’عن بریدۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بشر المشائین فی الظلم إلی المساجد بالنور التام یوم القیامۃ۔‘‘                                    (ترمذی)
’’حضرت بریدہq روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا کہ: جو لوگ اندھیرے میں مسجد کی طرف جاتے ہیں ان کو قیامت کے روز نورِتام کی بشارت دو۔‘‘
بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہq سے وہ روایت ہے جس میں اُن سات قسم کے لوگوں کا ذکر ہے جن کو اللہ تعالیٰ قیامت میں اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے گا، ان میں سے ایک قسم یہ بھی ہے:
’’ورجل قلبہٗ معلَّقٌ بالمسجد‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’وہ شخص جس کا دل مسجد میں اَٹکا ہوا ہے۔‘‘
قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں آیتِ کریمہ ’’فِیْ بُیُوْتٍ أَذِنَ اللّٰہُ‘‘ کے ذیل میں یہ حدیث درج کی ہے:
’’رواہ أنس بن مالک عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من أحب اللّٰہ عز وجل فلیُحِبَّنی ، ومن أحبَّنی فلیحبّ أصحابی ، ومن أحب أصحابی فلیحبّ القرآن ، ومن أحب القرآن فلیحب المساجد ، فإنہا أفنیۃ اللّٰہ وأبنیتہ ، أذن اللّٰہ فی رفعہا وبارک فیہا میمونۃ میمون أہلہا محفوظۃ محفوظ أہلہا ، ہم فی صلاتہم واللّٰہ عز وجل فی حوائجہم ، ہم فی مساجدہم واللّٰہ من ورائہم۔‘‘   (ج:۱۲،ص:۲۶۶)
’’حضرت انس بن مالکq جناب رسول اللہ a سے روایت کرتے ہیں کہ آپa نے فرمایا کہ: جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ مجھ سے محبت کرے اور جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ میرے اصحابؓ سے محبت کرے اور جو میرے اصحابؓ سے محبت کرے وہ قرآن سے محبت کرے اور جو قرآن سے محبت کرے اس کو چاہیے کہ مساجد سے محبت کرے، کیونکہ یہ مساجد اللہ کے گھر ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے بلند کرنے کا حکم دیاہے اور برکت رکھی ہے اُن میں، مسجد والے بھی برکت والے ہیں، یہ مسجدیں بھی اللہ کی حفظ وامان میں ہیں اور یہاں آنے والے یہ لوگ اپنی نماز میں لگے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی کارسازی میں۔‘‘
دین میں مساجد کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الف الف تحیۃ نے اسلامی حکومت کا فریضہ رکھا کہ وہ اسلامی حکومت کے زیرِ اثر شہروں اور آبادیوں میں مساجد تعمیر کرے اور بیت المال کی خاص مد سے اس کے مصارف برداشت کرے، چنانچہ فقہاء بیت المال کے مصارف کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’ورابعہا فمصرفہ جہات ۔۔۔ من أنہ یصرف إلی المرضی والزمنی واللقیط وعمارۃ القناطر والرباطات والثغور والمساجد وما أشبہ ذٰلک۔‘‘ (رد المختار، باب العشر، ج:۲، ص:۳۳۸)
ترجمہ: ’’اور چوتھے حصے کے مصارف چند جہات ہیں کہ ان کو بیماروں، اپاہجوں اور لاوارث بچوں، پلوں، سراؤں اور سرحدوں اور مساجد پر صرف کیا جائے۔‘‘
اور علامہ قرطبیؒ اپنی تفسیر میں ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’قال أبوحنیفۃؒ : ویبدأ من الخمس بإصلاح القناطر وبناء المسجد وأرزاق القضاۃ والجند ، وروي نحو ذٰلک عن الشافعي أیضًا۔‘‘            (ج:۷،ص:۱۱)
’’امام ابوحنیفہv فرماتے ہیں کہ: پانچویں حصہ کی تقسیم‘ پلوں کی مرمت، مساجد کی تعمیر، قاضیوں اور فوج کی تنخواہوں سے شروع کی جائیں۔ امام شافعیؒ سے بھی اسی طرح روایت ہے۔‘‘
لہٰذا اسلامی حکومت کے جہاں بہت سے فرائض ہیں، وہاں یہ بھی اہم فریضہ ہے کہ لوگوں کی ضرورت وحاجت کے پیشِ نظر مساجد تعمیر کریں۔ البتہ اگر بدقسمتی سے کوئی حکومت اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی کرتی ہے تو عوام پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی ضرورت وحاجت کے پیشِ نظر مساجد کی تعمیر کرے اور امام وخطیب اور مؤذن کی تقرری اور تولیت کے انتظامات اپنے ذمہ لیں۔
دیکھئے! جمعہ اور عیدین کے انتظامات امام اور حکومتِ اسلامی کے فرائض میں سے ہے، بلکہ امامتِ کبریٰ کے مقاصد میں اس کو داخل کیاگیا ہے۔ فقہاء اسلام نے جہاں امامتِ کبریٰ (خلافت) کی ضرورت کو بیان کیاہے، وہاں تصریح کی ہے:
’’والمسلمون لابد لہم من إمام یقوم بتنفیذ أحکامہم وإقامۃ حدودہم وسد ثغورہم وتجہیز جیوشہم وأخذ صدقتہم وقہر المتغلبۃ والمتلصصۃ وقطاع الطریق وإقامۃ الجمع والأعیاد۔‘‘                            (رد المحتار،ج:۱،ص:۵۱۲)
’’مسلمانوں کے لیے ایک امام ہونا ضروری ہے جو احکام جاری کرے، حدود قائم کرے، سرحدوں کی حفاظت کرے، فوج کو تیار رکھے، زکوٰۃ وصول کرے، باغیوں، چوروں، ڈاکوؤں کو مقہور کرلے، جمعہ اور عیدین کی اقامت کرے۔‘‘
    اب اگر کوئی اسلامی حکومت اس فریضہ سے غافل رہتی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی کوتاہی ہے اور اپنے منصب سے غفلت ہے اور جب حکومت غفلت کرے تو عوام اور پبلک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس کے انتظامات کریں، چنانچہ فقہاء نے تصریح کی ہے:
’’ولہذا لو مات الوالی أو لم یحضر لفتنۃ ولم یوجد أحد ممن لہٗ حق إقامۃ الجمعۃ نصب العامۃ لہم خطیبًا۔‘‘                          (رد المحتار، ج:۱،ص:۷۴۸)
’’اسی لیے اگر کوئی مرجائے یا وہ فتنے کی بنا پر موجود نہ ہو اور کوئی ایسا آدمی بھی نہ ہو جس کو جمعہ کی اقامت کا حق ہے تو عوام اور پبلک اپنے لیے خطیب کے انتظامات کرلیں۔‘‘
اسی طرح اس قسم کے بہت سے اُمور میں شریعت نے عوام کو اختیارات دیئے ہیں، مندرجہ ذیل جزئیات پر غور کیجئے:
رد المحتار میں ہے:
’’ولہم نصب متولٍ وجعل المسجدین واحدًا أو عکسہ لصلاۃ‘‘ (رد المحتار، ج:۱، ص:۶۶۰)
’’اور عوام کو متولی مقررکرنے اور نماز کے لیے دومسجدوں کو ایک کرنے یا ایک مسجد کو دومسجدیں کرنے کا حق حاصل ہے۔‘‘
البحر الرائق میں ہے:
’’وفی الخانیۃ طریق للعامۃ وہي واسع فبنی فیہ أہل المحلۃ مسجدًا للعامۃ ولایضر ذٰلک بالطریق ، قالوا: لابأس بہٖ ، وہٰکذا روي عن أبی حنیفۃؒ ومحمدؒ أن الطریق للمسلمین والمسجد لہم أیضًا۔‘‘                          (ج:۵،ص:۲۷۶)
’’خانیہ میں ہے: عوام کا ایک راستہ ہے اور وہ وسیع ہے، محلہ والے اگر اس میں مسجد تعمیر کرلیں اور اس تعمیر سے راستے کی آمد ورفت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو فقہاء اس کوجائز سمجھتے ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ اور محمدؒ سے اسی طرح مروی ہے کہ راستہ بھی مسلمانوں کا ہے اور مسجد بھی انہی کی ہے۔‘‘
فتاویٰ عالمگیریہ میں مرقوم ہے:
’’ذکر فی المنتقٰی عن محمد رحمہ اللّٰہ فی الطریق الواسع بنٰی فیہ أہل المحلۃ مسجدًا وذٰلک لایضر بالطریق ، فمنعہم رجل ، فلابأس أن یبنوا۔‘‘ (ج:۲، ص:۴۵۶)
’’منتقٰی میں امام محمدؒ سے روایت ہے کہ ایک وسیع راستہ ہے، محلہ والوں نے اس میں مسجد تعمیر کرلی اور راستہ کی آمد ورفت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو اگر کوئی شخص منع بھی کرے، تب بھی مسجد بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
فتاویٰ حمادیہ میں ہے:
’’من الغیاثیۃ نہر لأہل قریۃ فأراد جماعۃ أن یبنوا علیہ مسجدًا فلابأس بہٖ۔‘‘ (ج:۱، ص:۳۴۸)
’’فتاویٰ غیاثیہ میں ہے کہ کسی گاؤں کی نہر ہے، ایک جماعت اس کے اوپر اگر مسجد تعمیر کرلے تو کچھ حرج نہیں ہے۔‘‘
پاکستان بن جانے کے بعد حکومت کے جہاں اور اہم فرائض تھے، وہاں یہ بھی فریضہ تھا کہ آبادی کے تناسب سے جگہ جگہ مساجد تعمیر کرتی، یہ عجیب سی صورت حال ہے کہ یہاں کالونیاں اور بستیاں تعمیر کی جاتی ہیں جن میں ہسپتالوں، اسکولوں، کھیل کے گراؤنڈ اور سینماؤں کے لیے پہلے سے جگہیں مقرر کرلی جاتی ہیں، لیکن مساجد کے لیے آبادی کے تناسب سے جتنی ضرورت ہے اتنا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باوجود اس امر کے کہ آج کل مسلمانوں میں روز بروز دینی انحطاط ہوتا جارہا ہے اور اس لیے نمازیوں کی تعداد میں برابر کمی ہوتی جارہی ہے، تاہم مساجد کی قلت میں فرق نہیں پڑتا اور نمازی اپنی ضرورت کے لحاظ سے اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ وہ مناسب جگہ پر مسجد کی تعمیر کریں، لیکن اس صورت میں ہمت افزائی کرنے کی بجائے طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ یہ عجیب سی صورت حال ہے، حکومت اس بارے میں جس قدر جلد نظر ثانی کرے بہتر ہے۔
اس تمہید کے بعد اس مسجد کے متعلق حکم شرعی تحریر کیا جاتاہے جس کے متعلق استفتاء کیا جارہا ہے۔
شریعت کے احکام کی روشنی میں یہ مسجد ہوچکی ہے، اس کو نہ اب توڑاجاسکتا ہے اور نہ دوسری جگہ منتقل کیاجاسکتا ہے، دینی اُمور میں عدالتی قانون کو شرعی قانون کے مقابلے میں کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔
اس کا مسجد ہونا چند وجوہ سے ظاہر ہے:
الف: جب ڈاک خانے والوں نے مسجد کے لیے ایک علیحدہ جگہ مقرر کردی اور نماز پڑھنے کی اجازت دے دی تو یہ مسجد ہوگئی:
’’أشار بإطلاق قولہٖ ویأذن للناس فی الصلاۃ أنہٗ لایشترط أن یقول: أذنت فیہ بالصلاۃ جماعۃ أبدًا بل الإطلاق کاف۔‘‘                 (البحر الرائق ج:۵،ص:۲۶۹) 
’’بنی فی فنائہٖ فی الرستاق دکانا لأجل الصلاۃ یصلون فیہ بجماعۃ کل وقت فلہٗ حکم المسجد۔‘‘                                     (البحر الرائق، ج:۵،ص:۲۷۰) 
’’وقد رأینا ببُخارٰی وغیرہا فی دور و سکک فی أزقۃ غیر نافذۃ من غیر شک الأئمۃ والعوام فی کونہا مساجد ، فعلی ہذا المساجد التی فی المدارس بجُرجانیّۃ خوارزم مساجد لأنہم لایمنعون الناس من الصلاۃ فیہا ، وإذا أغلقت یکون فیہا جماعۃٌ من أہلہا۔‘‘                           (البحر الرائق، ج:۵،ص:۲۶۹) 
’’جعل وسط دارہٖ مسجدًا وأذن للناس فی الدخول والصلاۃ صار مسجدًا فی قولہم۔‘‘                                                 (البحر الرائق،ج:۴، ص:۲۷۰)
ب: جیساکہ پہلے لکھا جاچکا ہے، عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے لیے اگر مناسب سمجھیں تو شارعِ عام پر مسجد تعمیر کرسکتے ہیں، بشرطیکہ آمد ورفت میں کوئی خاص رکاوٹ نہ ہو اور ایسی صورت میں حکومت کو بھی اجازت دے دینا ضروری ہے۔ اہلِ محلہ اور ڈاک خانے والوں نے اپنے شرعی حق کو استعمال کیا ہے، لہٰذا اُن کا فعل درست اور اُن کی تعمیر کردہ مسجد‘ مسجد ہے۔
ج: ڈاکخانے کے ایک ذمہ دار کی اجازت دے دینا اور نقشہ کا منظور ہوجانا سب اذن میں داخل ہے۔
د: دس سال سے حکومت کے سامنے نمازیں پڑھی جارہی ہیں اور ممانعت نہیں کی جارہی ہے۔
ھ: مسجد ایک مرتبہ تعمیر ہوجانے کے بعد ہمیشہ کے لیے مسجد ہوجاتی ہے، حتیٰ کہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر کسی نے غصب کرکے زمین حاصل کرلی اور اس پر مسجد تعمیر کرلی تو غاصب سے یہ تو کہا جائے گا کہ مالک کو ضمان ادا کردے، البتہ مسجد کو توڑا نہیں جائے گا۔ واللّٰہ تعالٰی أعلم وعلمہ أتم وأحکم
                                                 کتبہ احقر العباد : ولی حسن عفی عنہ                            
                                             دار الافتاء مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی نمبر:۵
                                                       ۱۳؍رجب ۱۳۸۲ھ 
الجواب صواب:محمد یوسف بنوری عفی اللہ عنہ
صحیح الجواب واللہ اعلم بالصواب: محمد عبد الرشید نعمانی غفر اللہ لہ
الجواب صحیح :اکبر علی اسلام آبادی
 الجواب صواب: محمد خلیل، مدرسہ اشرف العلوم باغبانپورہ، گوجرانوالہ،۳؍ربیع الثانی ۸۳ھ موافق ۶۳-۸-۲۴ء
الجواب حق صحیح:قاری محمد یوسف، ناظم تعلیماتِ قرآن، حیدر آباد اینڈ خیر پور ڈویژن، مغربی پاکستان
الجواب صحیح: عبد الغفور العباسی المہاجر بالمدینۃ المنورۃ
الجواب صحیح: محمود عفا اللہ عنہ، مفتی مدرسہ قاسم العلوم، ملتان
الجواب اصاب:محمد موسیٰ عفی عنہ، مدرسِ اعلیٰ مدرسہ قاسم العلوم، ملتان
اصاب المجیب: محمد عبد الحق نافع عفی عنہ، زیارت کاکاصاحب، تحصیل نوشہرہ، ضلع پشاور
الجواب صواب:محمد ایوب بنوری غفرلہ، شیخ الحدیث و مہتمم دارالعلوم سرحد، پشاور شہر
ماقال المجیب العلامہ فہو حق بلاریب، واللہ اعلم : عبدہ محمد شفیع عفی عنہ از سرگودھا ، (مفتی ومہتمم مدرسہ سراج العلوم وخطیب جامع مسجد سرگودھا)
 الجواب حق:سید حبیب اللہ شاہ، معلم اعلیٰ جامعہ عباسیہ، بہاولپور
الجواب صحیح: عبد الحنان خطیب جامع مسجد صدر، راولپنڈی
الجواب صواب: عبد الرقیب، مہتمم جامعہ اسلامیہ پاکستان، اکوڑہ خٹک، ضلع پشاور
الجواب صحیح:محمد مجاہد خان الحسینی، فاضل دیوبند، نوشہرہ کلاں، ضلع پشاور
الجواب صحیح: محمد عبد القادر آزاد عفا اللہ عنہ، جنرل سیکرٹری اسلامی مشن پاکستان، بہاولپور
الجواب صحیح: فضل احمد غفر لہ، صدر مدرس مدرسہ دارالعلوم الاسلامیۃ، لکی مروت، ضلع بنوں
الجواب صحیح: محمد رمضان غفرلہ، میانوالی
الجواب صحیح: عبدہ محمد صادق عفا عنہ، سابق ناظم محکمہ اُمورِ مذہبیہ، بہاولپور
الجواب صحیح: خیر محمد عفا اللہ عنہ، مہتمم مدرسہ خیر المدارس، ملتان
الجواب صحیح: عبد اللہ عفا اللہ عنہ، مفتی خیر المدارس، ملتان
الجواب صحیح: عبد اللہ غفرلہ، مدرس مدرسہ رشیدیہ، منٹگمری[ساہیوال]
الجواب صحیح: عبد الحکیم عفی عنہ، مہتمم مدرسہ فرقانیہ مدنیہ، راولپنڈی
الجواب صواب:محمد ادریس عفا عنہ، مدرس مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی نمبر:۵
الجواب صحیح: فضل محمد عفا اللہ عنہ، مہتمم مدرسہ قاسم العلوم، فقیر والی
الجواب صحیح: عبد الحق غفر لہ، مہتمم دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک
الجواب صحیح: بندہ محمد اکبر خاں، مدرس مدرسہ عربیہ اشرف المدارس، گل امام، تحصیل ٹانک، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
الجواب صحیح: قاضی عبدالصمد سربازی، قلات، قاضی القضاۃ محکمہ اُمورِ شرعیہ
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب( مفتی اعظم پاکستان کراچی)
دار الافتاء مدرسہ عربیہ نیوٹاؤن کا فتویٰ متعلقہ مسجد پوسٹ آفس کراچی دیکھا، میرے نزدیک جواب صحیح ہے، اس مسجد کا مسجدِ شرعی اور وقف ہونا متعدد وجوہ سے ثابت ہے:
۱:یہ جگہ بناء پاکستان سے پہلے انگریزی حکومت کے زمانے سے مسجد بنی ہوئی ہے جس میں باقاعدہ نماز بجماعت ہوتی ہے اور عام مسلمان اس میں شریک ہوتے ہیں جو مسجدِ شرعی ہونے کی واضح علامت ہے، خصوصاً جبکہ اس وقت کے حکام نے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔
۲:پاکستان کے ایک اسلامی مملکت بن جانے کے بعد ضرورت کے مواقع میں مساجد کی تیاری اور جو مساجد پہلے سے موجود ہیں، ا ن کی بقاء واستحکام کا فریضہ خود حکومت پر عائد ہوگیا اور اس نے بھی دس سال تک اپنے فرض کے مطابق اس کو قائم رکھا۔
۳: مسلمان اہلِ محلہ اور ملازمین پوسٹ آفس نے ضرورت محسوس کرکے اس کو پختہ بناناچاہا تو حکومت کے ذمہ دار افسر پوسٹ آفس سے اجازت طلب کی، اس کی اجازت دینے اور نقشہ پاس کرنے کے بعد مطمئن ہوکر غریب مسلمانوں نے بڑی مقدار میں چندہ جمع کرکے اس کو دو منزلہ تعمیر کرالیا۔ سال بھر سے زیادہ تعمیر کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس دوران میں بھی حکامِ بالا میں سے کسی نے ا س تعمیر کو قابلِ اعتراض نہیں سمجھا۔
مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر بلاشبہ یہ جگہ وقف اور مسجدِ شرعی ہے، اس پر کسی قسم کی دست اندازی اور خلافِ شرع تصرف نہ عام مسلمانوں کے لیے جائز ہے، نہ کسی حکومت کے لیے، یہ کہنا کہ جس افسر نے اجازت دی ہے وہ قانونی طور پر اجازت دینے کا مُجاز نہیں تھا، اول تو اس لیے صحیح نہیں کہ اس کی اجازت کا تعلق مسجد کے مسجد بننے سے نہیں، کیونکہ وہ تو پہلے ہی مسجد بنی ہوئی تھی، بلکہ اس اجازت کا تعلق اُس کے نقشہ اور موجودہ تعمیر سے ہے، اب اگر فی الواقع وہ قانونی طور پر اس اجازت کا مُجاز نہیں تھا تو اس کا فرض تھا کہ افسر متعلقہ کی طرف رجوع کرکے اجازت دیتا۔ عوام کو ان قانونی موشگافیوں سے ظاہر ہے کہ واقفیت نہیں ہوتی، جب اس نے اجازت دے دی اور اس کی بنا پر مسلمانوں کے عام چندہ سے مسجد تعمیر کرلی گئی اور سال بھر سے زیادہ اس کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا، اس درمیان میں کبھی حکامِ بالا کی طرف سے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا تو اب یہ حکومت ہی کی اجازت سمجھی جائے گی۔
اس اجازت کے بعد اس کو ہٹانا یا اس میں کوئی ایسا تصرف کرنا جو عام مساجد میں جائز نہیں حکومت کے لیے بالکل غیر اسلامی اور ناجائز اقدام ہوگا اور مسلمانوں میں اضطراب وفتنہ کا موجب ہوگا۔
اگر فی الواقع قانونی ضابطہ پوری میں کوئی کوئی کمی رہ گئی ہے تو مسلم حکام بالا کے لیے مشکل نہیں ہے کہ اس کمی کو آج پورا کرکے خود بھی ثواب میں داخل ہوں اور مسلمانوں کو بھی اضطراب وانتشار سے محفوظ رکھیں۔ واللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اعلم
                                  بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ، دارالعلوم کراچی نمبر:۱
                                                       ۱۴؍رجب ۱۳۸۲ھ
الجواب صحیح:سید اختر حسین عفی عنہ، مدرس دارالعلوم دیوبند، ضلع سہارنپور(انڈیا)
الجواب صواب: بندہ محمد بدرِعالم عفی عنہ، المدینۃ المنورۃ

 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین