بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری  رحمۃ اللہ علیہ  ۔۔۔ بنام۔۔۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ    (انیسویں قسط)

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری  رحمۃ اللہ علیہ

 ۔۔۔ بنام۔۔۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ

            (اُنیسویں قسط)

{  مکتوب :…  ۳۴  }

 

مولانا، استاذِ جلیل، سید محمد یوسف بنوری  حفظہ اللّٰہ ورعاہ، وأدام انتفاع المسلمین بعلومہٖ ویمن مسعاہ (اللہ تعالیٰ آنجناب کی حفاظت فرمائے اور آپ کے علوم اور بابرکت مساعی سے مسلمانوں کو ہمیشہ مستفید فرمائے)
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ 

بعد سلام! آپ کا والا نامہ موصول ہوا، مولانا عثمانی کی وفات کا مجھے بے حد افسوس ہوا، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، تغمدہ اللّٰہ برضوانہٖ(اللہ تعالیٰ انہیں اپنے رضا کی چادر میں ڈھانپ لے)۔ میں نے ’’مجلۃ السلام‘‘ کو (مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق آپ کا لکھا) مرثیہ اور (تاثراتی) مضمون بھیج دیا تھا، مجلہ نے دو روز قبل دونوں شائع کردیے ہیں، (۱) لیکن مذکورہ شمارہ تاحال نہیں دیکھ پایا، یہ شمارہ ان شاء اللہ! جلد ہی آپ کو ارسال کردوں گا، معلوم نہیں کہ انہوں نے (اشاعت میں) کوئی غلطی کی ہے یا نہیں۔ (میری رائے میں) آپ جیسی شخصیت کو کئی گنا نشاط کا نمونہ ہونا چاہیے؛ اس لیے کہ اللہ سبحانہٗ کی توفیق سے آپ سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔
پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ نجیب (ایک کتب فروش) کو کتابیں بھیجنے سے بچئے، اس لیے مستقبل میں ان صاحب کے ساتھ آپ کے معاملات کی ذمہ داری مجھے قبول نہیں، ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ آپ سامی خانجی کے ساتھ (اسی پتے پر جو پہلے آپ کو لکھ چکا ہوں) معاملہ کیجیے۔ بطورِ ہدیہ ’’مجمع الزوائد‘‘ اور دیگر مطلوبہ رسائل ڈاک کے حوالے کردیے ہیں۔ 
ان دنوں میں ’’دائرۃ المعارف‘‘ (حیدرآباد دکن، انڈیا) کے مصحح علامہ عبدالرحمن یمانی(۲) کی کتاب ’’طلیعۃ التنکیل بما فی تأنیب الکوثري من الأباطیل‘‘ محمد نصیف (۳) کے خرچ پر شائع ہوئی ہے، اور اس کے پسِ پشت باقی لشکر بھی معرکہ آرائی کے لیے مستعد ہے، میں نے اس کا استقبال کرتے ہوئے ’’الترحیب بنقد التأنیب‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھ کر اس نادان کے ساتھ بتکلف نادانی برتی ہے، (۴) اور چھپنے کے لیے چھاپہ خانے کو دے دیا ہے، غالباً تین اجزاء پر مشتمل ہوگا، چھپائی مکمل ہونے پر ان شاء اللہ! جلد ہی اللہ جل شانہ کی توفیق سے ارسال کردوں گا۔ مستقبل میں حالات کی رعایت رکھتے ہوئے ہی دوبارہ اس موضوع کی جانب لوٹنے یا نہ لوٹنے کا فیصلہ کروں گا۔(۵)
القاب میں میانہ روی آپ کے اور میرے ذوق کے قریب تر ہے، اللہ سبحانہ ہم سب کو اپنی مرضیات کی توفیق بخشے۔ امید ہے کہ اپنی نیک دعاؤں میں فراموش نہ کریں گے، میری دعائیں تسلسل سے جاری ہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی قبول فرمانے والا ہے۔ 
                                                        آپ کا بھائی :محمد زاہد کوثری
                                             ۱۲ربیع الثانی ۱۳۶۹ھ ،شارع عباسیہ نمبر: ۱۰۴ ،قاہرہ

حواشی 

۱:- یہ مرثیہ اور تاثراتی مضمون ’’مجلۃ السلام‘‘ (بابت شمارہ نمبر :۱۴، انیسواں سال، بروز جمعہ بتاریخ ربیع الثانی ۱۳۶۹ھ مطابق ۲۷ جنوری ۱۹۵۰ء، ص: ۱۶-۱۷) میں بعنوان ’’کلمۃ عن فقید الإسلام العلامۃ مولانا شبیر أحمد العثماني، شیخ الإسلام فی الدولۃ العلیۃ الباکستانیۃ‘‘ شائع ہوا ہے۔ 
۲:- علامہ عبدالرحمن بن یحییٰ معلمی v: علمِ حدیث ورجال کے ماہر، اور تحقیق وتصحیحِ کتب کا اشتغال رکھنے والے علماء میں سے تھے، ۱۳۱۳ھ میں اس جہانِ رنگ وبو میں آنکھ کھولی اور ۱۳۸۶ھ میں راہیِ ملکِ بقا ہوئے۔ دیکھیے: ’’الأعلام‘‘ زرکلیؒ (۳/ ۳۴۲)، ’’أعلام المکیین‘‘ عبد اللہ معلمی (۲/۹۰۰-۹۰۳) ’’الجواہر الحسان‘‘ زکریا بیلا (۲/۵۶۳-۵۶۶) اور ’’مدخل إلٰی تاریخ نشر التراث العربي‘‘ محمود طناحی (ص: ۲۰۳-۲۰۵) ۔
علامہ کوثریؒ نے ’’الترحیب بنقد التأنیب‘‘ کے مقدمہ میں موصوف کے لیے ’’العلامۃ المفضال المحقق‘‘ جیسے بلند پایہ کلمات تحریر کیے ہیں اور علامہ معلمی نے بھی علامہ کوثریؒ کی وفات سے ایک ماہ قبل ہی ابن ابی حاتم  ؒ کی ’’تقدمۃ الجرح والتعدیل‘‘ کے مقدمۂ تحقیق میں کتاب کے ایک مخطوطہ نسخے کے حصول کے حوالے سے علامہ کوثریؒ کے تعاون پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ دونوں اہلِ علم میں باہم احترام کا تعلق تھا، علامہ معلمی کی ’’طلیعۃ التنکیل‘‘ تو علامہ کوثریؒ کی زندگی میں چھپ چکی تھی، لیکن اصل کتاب ’’التنکیل بما فی تأنیب الکوثری من الأباطیل‘‘ علامہ کوثریؒ کی وفات کے آٹھ برس بعد چھپی ہے، اس کتاب میں علامہ کوثریؒ کے متعلق ایسے ناشائستہ کلمات بھی درج ہیں جو علامہ معلمی کے علمی وتحقیقی ذوق اور اخلاقی مزاج ومذاق سے کسی طور مناسبت نہیں رکھتے، اور خود شیخ معلمی اس سے براء ت کا اظہار کرچکے ہیں اور ان کے بقول جب انہوں نے اپنی یہ کتاب ہندوستان سے شیخ محمد عبدالرزاق حمزہ کو بھیجی تھی تو انہوں نے از خود اس مسودے میں تصرف کیا اور ایسے تند وتیز کلمات داخل کردئیے۔ شیخ زکریا بیلا مکی نے ’’الجواہر الحسان‘‘ (۲/۵۶۴) میں اس حوالے سے کچھ تفصیل قلم بند کی ہے، نیز ’’التنکیل‘‘ کے مقدمہ میں خود علامہ معلمی کی تحریر بھی ملاحظہ کیجیے۔ 
۳:- محمد بن حسین بن عمر نصیف: جدہ کے اصحابِ وجاہت اور دریا دل اغنیاء میں سے تھے۔ سلفی دعوت کی نشر واشاعت میں ان کا مالی تعاون شامل رہا، ترکے میں ایک عظیم کتب خانہ چھوڑا، جو اَب ’’جامعۃ الملک عبدالعزیز‘‘ کا حصہ ہے۔ ۱۳۰۲ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۳۹۱ھ میں انتقال ہوئے۔ دیکھیے: ’’محمد نصیف حیاتہ وآثارہ‘‘ محمد سید احمدوعبدہٗ علوی، ’’الأعلام‘‘ زرکلیؒ (۶/ ۱۰۷-۱۰۸) اور ’’من أعلام الدعوۃ والحرکات الإسلامیۃ‘‘ عبداللہ عقیل (۲/ ۱۰۷۵ - ۱۰۸۴) 
۴:- ’’طلیعۃ التنکیل‘‘ کے پہلے طبع میں بھی علامہ کوثری v کے متعلق نازیبا کلمات تحریر کیے گئے تھے، علامہ کوثریؒ نے ’’الترحیب‘‘ میں بجاطور پر ناراضی کا اظہار کیا، اور اُنہیں یمانی اخلاق کے منافی قرار دیتے ہوئے کسی اور کا کارنامہ خیال کیا تھا، بعد میں علامہ معلمی کی براء ت سے معلوم ہوا کہ یہ استاذ محمد عبدالرزاق حمزہ کے تصرفات کا نتیجہ تھا، چنانچہ خود استاذ موصوف نے بھی اپنے رسالے ’’حول ترحیب الکوثری‘‘ (ص: ۳۷) میں اس کی صراحت کی ہے۔ 
۵:- التنکیل علامہ کوثری v کی وفات کے آٹھ برس بعد سنہ ۱۳۷۹ھ میں طبع ہوئی ہے۔

{  مکتوب :…  ۳۵  }

مولانا، استاذِ جلیل، علامہ، محقق، سید محمد یوسف بنوری حفظہ اللّٰہ ورعاہ 
سلام اللّٰہ ورحمتہ وبرکاتہ علیکم 

بعد سلام! یکے بعد دیگرے آپ کے دو گرامی نامی پہنچے، اس عنایت پر آپ کا شکر گزار ہوں، توقع ہے کہ اپنے والدِ جلیل القدر کو میرا سلام اور دست بوسی پہنچائیں گے اور جب کبھی انہیں (خط) لکھیں تو (میرے لیے) ان کی مبارک دعاؤں کا پیامِ امید (بھی لکھیں گے)۔ آنجناب سے بھی متمنی ہوں کہ مواقعِ قبولیت کی نیک دعاؤں میں مجھے فراموش نہ کیجیے گا اور خطوط ارسال کرنے کے حوالے سے کوتاہی میں مجھے معذور سمجھیے گا؛ اس لیے کہ بوڑھا ہوچلا ہوں، اب لکھتے ہوئے نظر ساتھ نہیں دیتی، بوقتِ مجبور ہی کچھ لکھتا ہوں، نیز میرے معمولی ہدایا کسی شکریہ کے مستحق نہیں۔
میرے پاس ’’التحریر الوجیز‘‘ (۱)دست یاب ہوتی تو بیاض کی جگہ پُر کروا کر آپ کے جامعہ میں ’’معانی الآثار‘‘ کے استاذ مولانا عبدالرؤوف کو بھیجتا، سرِ دست (ان کے لیے اجازتِ حدیث پر مشتمل) ایک صفحہ میں اسی مکتوب کے ساتھ لف ہے، مستقبل میں نسخے کے حصول میں کامیابی ہوئی تو ان شاء اللہ! بیاض پُر کر کے ارسال کردوں گا۔
کئی مہینوں سے استاذ مولانا ابوالوفاء کا میرے حوالے سے کوئی گرامی نامہ نہیں ملا، (میرے لیے) اتنا کافی ہے کہ آپ سب بعافیت ہیں، مولانا مفتی (مہدی حسن شاہجہان پوری v) اور تمام احباب کے لیے ہر (نوع کی) توفیق وبھلائی کا متمنی اور ان کی مبارک دعاؤں کا امیدوار ہوں، آپ کے والانامے سے ان کی صحت کا علم ہوجانا بھی کافی ہوگا۔
خواہش ہے کہ آپ ’’الترحیب‘‘ کا ایک نسخہ مولانا محمد موسیٰ میاں -اللہ ان کی حفاظت فرمائے اور انہیں علمی خدمت کی خاطر خیروعافیت کے ساتھ طویل عمر عنایت فرمائے- کو بھیج دیں، میرے عزیز تر ومحترم بھائی! وعلیکم السلام والرحمۃ والرضوان ( دعا ہے کہ آپ سلامتی اور رحمتوں ورضائے ربانی کے سائے تلے رہیں)۔ 
                                                          مخلص : محمد زاہد کوثری
                                         ۱۵جمادی الثانیہ ۱۳۶۹ھ، شارع عباسیہ نمبر: ۱۰۴، قاہرہ

حاشیہ

۱:- یہ علامہ کوثری رحمۃ اللہ علیہ کا ثبت ہے، جو سنہ ۱۳۶۰ھ میں قاہرہ سے طبع ہوا تھا، اور بعد ازاں ۱۴۱۴ھ میں شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ کی عنایت سے بیروت سے چھپا ہے، شیخ نے آخر میں علامہ کوثریؒ کے خط کے ساتھ کئی اجازات بھی منسلک کردی ہیں اور اس ثبت کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ دیکھیے : ’’الإمام محمد زاہد الکوثري وإسہاماتہ فی علم الروایۃ والإسناد‘‘ شیخ محمد آل رشید (ص: ۱۱۸-۱۲۴) 

{  مکتوب :…  ۳۶  }

جناب مولانا، استاذ، علامہ سید محمد یوسف بنوری حفظہ اللّٰہ ورعاہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ 

بعد سلام! آنجناب کا مکتوبِ گرامی موصول ہوا، آپ کے احوال معلوم ہوئے اور آپ کی عافیت پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا شکر ادا کیا، امید ہے جب بھی گرامی قدر والدِ محترم کو خط لکھیں گے تو مبارک ہاتھوں کی دست بوسی کے ساتھ میرا پرخلوص سلام بھی پہنچاتے رہیں گے۔ حضرات اساتذہ واحباب کو بھی میرا سلام پہنچائیے، خصوصاً ’’معانی الآثار‘‘ کے استاذ (مولانا عبدالرؤوف) اور استاذِ محقق (مولانا) محمد عبدالحق نافع پشاوری کو (ضرور سلام کہیے)۔ ثانی الذکر کی جانب سے اجازتِ حدیث کا مطالبہ موصول ہوا ہے، لیکن ان کا پتہ درج نہیں، اس لیے انہیں براہِ راست لکھنا میرے لیے ممکن نہیں۔ اس سے قبل برادرم علامہ شیخِ ’’معانی الآثار‘‘ کی خواہش پر آپ کے خط کے ضمن میں (ان کے لیے) اجازتِ حدیث پر مشتمل صفحہ ارسال کرچکا ہوں؛ کیونکہ اس وقت (اپنے مطبوعہ ثبت) ’’التحریر الوجیز‘‘ کا نسخہ حاصل نہیں کرسکا تھا، پھر کچھ دوستوں کو اپنی کتابوں کی پوری کھوج کرید پر مامور کیا تو بکھری کتب سے (ثبت کے) دو نسخوں کے حصول میں کامیابی حاصل ہوئی، اب ان میں سے ایک کی بیاض کو شیخِ ’’معانی الآثار‘‘ کے نام سے پُر کردیا ہے، آپ اپنے خوب صورت خط میں ان کے اسمِ گرامی کی جگہ پُر کرلیجیے گا اور دوسرا نسخہ استاذ پشاوری کے نام ہے، یہ دونوں نسخے بذریعہ ڈاک دو الگ پارسلوں میں بھیج چکا ہوں، شاید آپ تک پہنچنے میں تاخیر ہو، موصول ہونے پر ان دوستوں تک پہنچا دیجیے، آپ کا پیشگی شکریہ، اور ان کے پاس (میری) جو کتب نہ ہوں تو ان دو پارسلوں میں بھیجے گئے رسائل میں سے اُنہیں دے دیجیے۔
اساتذہ جلیل القدر مولانا مفتی (مہدی حسن) ومولانا ابوالوفاء کو میرا سلام، اور آپ سب سے توقع ہے کہ مجھے اپنی نیک دعاؤں میں نہ بھولیں گے، (خطوط کے) جواب میں تاخیر پر مواخذہ نہ کیجیے ؛ اس لیے کہ اب میری (کمزور) بینائی حسبِ منشأ بحث وتحقیق اور کچھ لکھنے کی اجازت نہیں دیتی، بہر کیف اول وآخر (ہرحال میں) اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں اور اپنی صحت کے متعلق اس سے زیادہ کچھ کہنا مجھے پسند نہیں، حسنِ خاتمہ کی دعا کا متمنی ہوں۔
                                                          مخلص: محمد زاہد کوثری
                                             ۶ شعبان سنہ ۱۳۶۸ھ، شارع عباسیہ نمبر: ۱۰۴ قاہرہ

 

{  مکتوب :…  ۳۷  }

جناب مولانا، علامہ، برادرِ مخلص، سید محمد یوسف بنوری  حفظہ اللّٰہ ووفقنا وإیاہ لما فیہ رضاہ
 (اللہ تعالیٰ آنجناب کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اور آپ کو اپنی مرضیات کی توفیق بخشے)
وعلیکم سلام اللّٰہ ورحمتہ وبرکاتہ 

بعد سلام! آنجناب کی طرف سے عمدہ اسلوبِ بیان -جس کا آپ نے ہمیں اب عادی کردیا ہے- پر مشتمل دو گرامی نامے موصول ہوئے، راہِ علم میں جہدِ پیہم اور صبرِ مسلسل پر اللہ تعالیٰ آپ کو پورا اجر مرحمت فرمائے، لیکن کسی قدر عتاب کا اظہار ہو تو مجھے معاف کیجیے۔ مجھے آنجناب کے سلسلۂ کلام میں فکری اضطراب محسوس ہوا، آپ تو بحرِ بیکراں ہیں، لازم تھا کہ رکاوٹیں آپ کو قلبی تکدر میں مبتلا ہی نہ کرسکتیں، آپ کے پاس وہ عزم وہمت ہے جو مضبوطی سے گڑے پہاڑوں کو جڑ سے اُکھیڑ دے۔ میری نگاہ میں مولانا انور شاہ کشمیری -اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رضامندی کی چادر میں ڈھانپ لے- کے روشن کیے ہوئے چمکتے دمکتے نور کے بُجھنے کا سبب بننے کی کوئی گنجائش نہیں، نامعلوم ان نئے بنیاد ڈالے ہوئے (مدارس و) معاہد کے کیا احوال ہیں؟! میری رائے ہے کہ آپ اس معاملے پر اطمینان سے غور وفکر کیجیے، اور جو کہنا ضروری ہو تو مولانا میاں سے واشگاف انداز میں کہہ دیجیے؛ کیونکہ وہی جامعہ ڈابھیل کے اُمور کی طے شدگی کا سبب ہیں، اور ہمارے وہاں کے احباب کو آپ کا دامن تھامنے کا حق حاصل ہے، پھر اگر اس ادارے سے آپ کی علیحدگی ضروری ہو تو جامعہ کی علمی سرگرمیاں برقرار رہنے کی تدبیر کرتے جائیے گا، ورنہ بڑی پوچھ ہوگی، یہ میری رائے ہے، باقی اختیار آپ کو ہے، ماہر ناخدا وہ ہے جو تلاطم خیز موجوں کے درمیان اشاعتِ علوم کے سفینے کو عمدگی سے رواں رکھے۔ 
علامہ قاسم (بن قطلوبغا v) (۱) کی ’’منیۃ الألمعي‘‘ (۲) بذریعہ جہاز ارسال کی ہے، اس میں کچھ اغلاط ہیں، لیکن آنجناب کے لیے ان کی اصلاح آسان ہے، اور ان دنوں اس کی اشاعت کا سبب، کتاب کی ابتدا میں وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے۔ 
میں آپ اور آپ کے معزز گھرانے کے لیے حجِ مبرور اور مقبول زیارت کا متمنی ہوں، ساتھ ہی امید ہے کہ مواقعِ قبولیت میں اپنی مقبول دعاؤں میں مجھے نہ بھولیے گا۔
جامعہ میں گرامی قدر احباب کو سلام، والدِ جلیل کو بھی دست بوسی کے ساتھ پُرخلوص سلام پہنچائیے، مولانا علامہ مفتی مہدی حسن -اللہ انہیں بحفاظت رکھے- کو بھی میرا سلام واحترام، سبھی سے مبارک دعاؤں کا امیدوار ہوں میرے سردار عزیز تر محترم بھائی!
                                                         مخلص: محمد زاہد کوثری
                                               ۱۲شوال سنہ ۱۳۶۹ھ، شارع عباسیہ نمبر: ۱۰۴
 

حواشی

۱:-علامہ قاسم بن قطلوبغا سودونی جمالی حنفی: ابو العدل کنیت ہے، نامور فقیہ، محدث اور مؤرخ تھے۔ سنہ ۸۰۲ھ میں اس عالمِ فنا میں آنکھ کھولی اور سنہ ۸۷۹ھ میں سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے۔ مفصل حالاتِ زندگی کے لیے ملاحظہ کیجیے: ’’الضوء اللامع‘‘ علامہ سخاویؒ (۶/ ۱۶۰-۱۸۴) اور ’’الأعلام‘‘ زرکلی  ؒ(۵/۱۸۰) 
۲:-’’منیۃ الألمعي فیما فات من تخریج أحادیث الہدایۃ للزیلعي‘‘ مراد ہے، علامہ کوثری v نے اس کتاب کو تحقیق کرکے چھاپا تھا۔

{  مکتوب :…  ۳۸  }

جناب مولانا، علامہ جلیل، سید محمد یوسف بنوری  حفظہ اللّٰہ 
وعلیکم سلام اللّٰہ ورحمتہ وبرکاتہ 

بعد سلام! آپ کا تازہ والا نامہ وصول کیا اور آپ کے صحت وعافیت کے ساتھ لوٹ آنے پر بہت مسرت ہوئی، مجھے اُمید ہے کہ مواقعِ قبولیت میں اپنی نیک دعاؤں میں فراموش نہ کریں گے، برادرِ عزیز محترم سید محمود حافظ کو دعاؤں کی تمنا کے ساتھ پُرخلوص سلام پہنچائیے۔
آلۂ مکبرہ (مائیکروفون/ لاؤڈ اسپیکر) کے متعلق سرِدست میں کوئی رائے نہیں دینا چاہتا؛ اس لیے کہ اس کے بعض پہلو مفید ہیں، مثلاً: ایک بڑی جماعت کو آواز پہنچانا، اور بلاشبہ آواز کی بلندی مطلوب ہے، (اسی بنا پر) نو بنو اذان خانوں کو بھی ناپسند نہیں کیا گیا، البتہ اس آلے میں بعض پہلو ناپسندیدہ ہیں، مثلاً: جماعت کو تشویش میں مبتلا کرنا۔ اگر قابلِ احتراز اُمور کی جانب نرمی سے توجہات مبذول کرادی جائیں تو ان شاء اللہ! مفید ہوگا، اور کلی ممانعت کا کوئی فائدہ نہیں؛ اس لیے کہ اب یہ معاملہ مختلف شہروں میں پھیل چکا ہے، (البتہ) اُسے نقصان دہ اُمور سے خالی کرنا فطری طور پر مطلوب ہے۔ آپ فقیہ النفس ہیں اور دلائل کی وسعت رکھتے ہیں، اس مسئلے کے حوالے سے جس رائے پر اطمینان ہو، بیان کرسکتے ہیں۔ 
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے حکم سے آپ کی سعی قابلِ قدر ، حج مبرور اور زیارت مقبول ہے۔ ’’مختصر الطحاوي‘‘ کی طباعت میں مطلوبہ اُمور کے متعلق آپ کی مساعی سے مسرت ہوئی، جناب برادرِ عزیز تر! ہمیشہ ہر خیر وبھلائی کے لیے باتوفیق رہیے!
                                                           مخلص: محمد زاہد کوثری
                                             ۲۲ ذیقعدہ سنہ ۱۳۶۹ھ، شارع عباسیہ نمبر: ۱۰۴ قاہرہ
پسِ نوشت: ’’المنیۃ‘‘ (منیۃ الألمعي لابن قطلوبغا ) کے طبع میں بعض اغلاط ہیں، اور اس مکتوب کے ضمن میں تصحیح کا کچھ تکملہ ہے۔
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                              (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین