بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

موجودہ ملکی صورت حال میں کرنے کا کام!


موجودہ ملکی صورت حال میں کرنے کا کام!


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمارے اکابر کو وہ فراست، تدبر، دوراندیشی، معاملہ فہمی، ہمت، جرأت، استقلال اور استقامت عطا فرمائی تھی کہ ان کی نظیر ملنا دنیا میں ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ انہوں نے اپنی مستقل مزاجی، برداشت، صبر، تحمل، تقویٰ، اخلاص اور للّٰہیت کی بنا پر بظاہر فردِ واحد ہونے کے باوجود طوفانوں اور ہواؤں کے رُخ کو موڑا ہے، لیکن کبھی ہواؤں اور طوفانوں کے جھکڑ اور یلغارمیں بہے نہیں۔ اس طائفہ منصورہ میں سے ایک ایک فرد نے وہ وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جو ایک جماعت یا ادارہ نہیں، بلکہ ایک ریاست تمام وسائل اور تمام مشینری بھی جھونک دے تو وہ کامیابیاں اور نتائج حاصل نہ کرسکے۔
یوں لگتا ہے کہ ہمارے اکابر کی بصیرت اور خداداد فراست کی بنا پر پورا منظر نامہ اُن کے سامنے تھا، جس میں مستقبل کے تمام مناظر ان کے سامنے آرہے ہیں اور وہ اُسے دیکھ دیکھ کر پوری انسانیت کو عموماً اور اُمتِ مسلمہ کو خصوصاً ان خطرات سے آگاہ اور اس کے بچاؤ کی تدبیریں بتلارہے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ انسانیت نے جب بھی ان کی باتوں پر اعتماد کیا، ان خطرات سے بچنے کے لیے ان کو راہنما بنایا اور ان کی اقتداء میں چلے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے نہ صرف ان خطرات اور حوادثات سے انہیں بچایا، بلکہ کامیابیاں بھی ان کا مقدر بنیں اور جب جب انسانیت اور اُمتِ مسلمہ نے ان کی باتوں پر کان نہیں دھرے تو اس وقت نہ صرف انہیں ناکامیاں ہوئیں، بلکہ اپنا وجود برقرار رکھنا بھی ان کے لیے مشکل بنادیا گیا۔
دور جانے کی ضرورت نہیں، صرف برصغیر پاک وہند کی تقسیم سے پہلے یہاں کے بادشاہوں، حکمرانوں اور شاہزادوں کی عیاشیوں اور خرمستیوں کی بناپر انگریز عیار نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ پورا ملک ان سے چھین لیا تھا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اس نے یہ اعلان کردیا: ’’خلقت خدا کی، سلطنت بادشاہ کی اور حکم ایسٹ انڈیا کمپنی کا۔‘‘لیکن آگے چل کر ان کے اطاعت گزار بادشاہوں کو صرف جلاوطن ہی نہیںکیا گیا، بلکہ ان کی گردنوں کو بھی اُڑادیا گیا، یہ نتیجہ تھا ان کی غلامی قبول کرنے کا اور زمینی حقائق نہ دیکھنے کا۔ 
یہ حق اور سچ ہے کہ ایک عام آدمی غلطی کرے تو اس کا خمیازہ اور بھگتان صرف اسی فردِ واحد پر آتا ہے اور اگر کوئی حاکم یا عالم غلطی کرے تو اس کا نقصان اور تاوان صرف اسی کو نہیں، بلکہ پوری قوم کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ عیاشیاں، بدمعاشیاں اور غلامی کی بدادائیں تو صرف حکمرانوں کی تھیں، لیکن غلامی کا طوق پوری قوم کے گلے میں آپڑا، اب اس غلامی سے اسے کون نکالے؟ کوئی زمین دار، ٹھیکیدار، جاگیردار، کوئی وڈیرا، یا مل آنراور کوئی انگلستان کی درس گاہوں سے سبق لے کر آنے والا آگے نہیں آرہا، آگے آرہا ہے تو ایک درویش، چٹائی پر بیٹھنے والا، قرآن وسنت کا علم رکھنے والا جسے دنیا شاہ عبدالعزیز محدث دہلویv کے نام سے جانتی اور مانتی ہے۔آپؒ نے فتویٰ دیا: ’’ہندوستان دارالحرب ہے، انگریز کی فوج میں بھرتی ہونا حرام ہے، اپنے ملک کو ان سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کرنا فرض ہے۔‘‘
آج اگر ہندوستان اور پاکستان آزاد ہیں تو ان کی آزادی میں بنیادی پتھر یہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلویv کا فتویٰ ہے۔ اس فتویٰ کی برکت تھی کہ ان کے مریدین اور مجاہدین نے جن کی قیادت سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کررہے تھے، ملک کے طول وعرض کا سفر طے کرکے اس فتویٰ پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لیے بالاکوٹ میں جامِ شہادت نوش کیا۔
بظاہر یہ قافلہ بکھر گیا، لیکن ان کی شہادت اور خون کی برکت نے پورے ملک میں آزادی کی لہر دوڑادی، پھر اُنہیں کے خوشہ چین اور شاگرد ۱۸۵۷ء میں آزادیِ وطن کے لیے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی v کی قیادت میں انگریز سے برسرپیکار ہوئے۔انہیں تحاریک کی برکات ہیں کہ آج صرف برصغیر ہی نہیں، بلکہ برطانیہ جس کی سلطنت سے سورج غروب نہیں ہوتا تھا، آج وہ تمام ممالک اس سے آزاد ہوچکے ہیں اور برطانیہ سمٹ کر ایک جزیرہ تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اگر غور کریں تو نظر آئے گا کہ ہمارے اکابر کی حکمت عملیوں کی بدولت انگریز کو برصغیر سے دُم دباکر بھاگنا پڑا، ورنہ دوسرے قسم کے تمام لوگ تو ان کے حاشیہ بردار، کاسہ لیس، اور خوشامدی بن چکے تھے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد ہمارے اکابر نے اپنا رُخ تعلیمی میدان کی طرف موڑا، کیونکہ انگریز نے مشرقی تعلیم اور مشرقی تہذیب سمیت سب کچھ تہہ وبالا کردیا تھا، آج مسلمانوں میں جوگروہی، عصبی، علاقائی، لسانی، صوبائی اور فرقہ وارانہ تصادم موجود ہے، ان سب کی تخم ریزی انگریز ہی نے کی تھی، پورے ہندوستان کوعیسائیت میں دھکیلنے کے لیے اپنے عیسائی مبلغ مردوزن پورے ملک میں پھیلادیئے۔ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے قادیانیت کا پودا کاشت کیا گیا، جو آج تک ان کی نمک حلالی اور مسلمانوں کی نمک حرامی کررہا ہے۔ مسلمانوں کو دین وایمان سے دور کرنے کے لیے ان کا علمی ورثہ تباہ کردیا اور ان کو اپنی دینی تعلیمات سے ناآشنا رکھنے کے لیے لارڈ میکالے کا نصاب اور انگریزی کو اُن پر مسلط کیا، آج اسی کی نحوست ہے کہ اس نصاب کا خواندہ، اور ان کی زبان میں تعلیم پانے والا آج انہیں کے گن گاتا ہے، نہ اپنی مذہبی تعلیم کو سمجھتا ہے، نہ ہی اپنی مشرقی اور اسلامی تہذیب اور آزادی کو سمجھتا ہے، بس وہ انگریز اور مغرب کی غلامی پر قناعت کیے ہوئے ، اپنی گردن میں ان کی ذہنی غلامی کا طوق ڈالے ہوئے فرحاں وشاداں اور اس کو اپنی کل کائنات سمجھے ہوئے ہے۔ علامہ اقبالؒ نے سچ کہا تھا کہ:’’ تعلیم سے تہذیب بدلتی ہے اور تہذیب کے بدل جانے سے مذہب بدل جاتا ہے۔‘‘ آج اس کے نتائجِ بد سامنے آرہے ہیں۔ ہم انگریزی کے مخالف نہیں، علم‘ علم ہوتا ہے، چاہے وہ کسی زبان میں ہو، لیکن اس کے پردے اور آڑ میں جو کچھ نوجوان نسل کے ذہنوں میں انڈیلا جارہا ہے، کوئی ذی ہوش اور عقل مند آدمی اس کو گوارا نہیں کرسکتا۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہٗ گویا ان تمام حالات وواقعات کو کھلی آنکھوں مشاہدہ کررہے تھے، انہوں نے اس کے تدارک کے لیے ایک مدرسہ کا قیام کیا جس کو دنیا آج دارالعلوم دیوبند کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ اسی ادارہ اور مدرسہ کا انقلاب ہے کہ آج صرف برصغیر ہی نہیں، بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کا وجود اسی ادارہ کا مرہونِ منت اور فیضانِ نظر آتا ہے ، اور یہ حقیقت ہے آپ تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کرکے سوچیں اور غور کریں، تو یہ بات آپ کو سورج کی روشنی سے زیادہ واضح اور کھلی ہوئی نظر آئے گی کہ آج کسی اسکول، کسی کالج اور کسی یونیورسٹی میں دینِ اسلام کی تعلیمات، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دوسرے اسلامی احکامات نہ پڑھائے جاتے ہیں اور نہ ہی سکھائے جاتے ہیں۔ اگر آج یہ مدارس، مساجد، خانقاہیں، دینی ادارے اور تبلیغ کے نام سے چلت پھرت نہ ہوتی تو دین اسلام کا وجود تو بہت پہلے اس خطہ سے ختم ہوگیا ہوتا، آج کوئی کلمہ اور نماز پڑھنے والا نہ ہوتا، جیسا کہ بہت سے ممالک اس پرشاہد ہیں کہ جہاں دینی مدارس نہ رہے، علماء نہ رہے، دین کی بات کرنے والے نہ رہے، آج وہاں کے مسلمان لادین اور ارتداد کا شکار ہوچکے ہیں۔
اسی دارالعلوم کا فیض ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویv کے شاگرد شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیv بیٹھے ہندوستان اور دیوبند میں ہیں، لیکن ہندوستان کو آزادی دلانے کے لیے اپنے ایک شاگرد مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی تشکیل افغانستان کے لیے کرتے ہیں،جس کے نتیجہ میں تحریکِ ریشمی رومال برپا ہوتی ہے، جسے دیکھ کر انگریز پشیماں ہوا اور حضرت کو قیدوبند کی صعوبتیں اُٹھانی پڑیں۔ اس کے علاوہ کئی اور شاگردوں کی بھی مختلف جہات کی طرف تشکیلیں فرمائیں۔
 دارالعلوم دیوبند کے ایک فاضل جنہیں آج دنیا حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویv سے جانتی ہے، جنہوںنے قرآن کی تفسیر، احادیث کی شروحات، فقہی مسائل اور تصوف کی تجدید سمیت ایک مسلمان کی دینی اور دنیوی ضروریات کے جتنے مسائل اور ضروریات پیش آسکتی ہیں، سب کی راہنمائی فرمائی، ایک ہزار سے زائد کتب کا علمی ذخیرہ چھوڑا، حتیٰ کہ تحریکِ پاکستان میں بھی آپ نے خود بھی شرکت فرمائی اور اپنے شاگردوں بھی کو اس کے لیے تیار کیا۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ نے اپنے شیخ ومربی حضرت شیخ الہندv کی فکر کو اپناتے ہوئے مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی کو آگے بڑھایا اور آپ ہی کے دور میں انگریز ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ اس ادارہ کا فیض تھا کہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہٗ نے پوری زندگی درس وتدریس میں گزاردی اور انگریز کے خودکاشتہ پودا قادیانیت کو نیست ونابود کرنے کے لیے شاگردوں کی ایک کھیپ سمیت بذات خود حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریv کے ہاتھ پرنہ صرف بیعت کی، بلکہ ان کو امیرِ شریعت کا لقب بھی دیا، پھر حضرت شاہ صاحبؒ نے زندگی بھر اپنے بیانات کے ذریعہ قادیانیت کو چاروں شانے چت کیا اور آپ کے شاگردوں نے تحریری اور عملی میدان میں اتنا علمی ذخیرہ اور واضح راستہ متعین کردیا کہ آج ہر جہت سے قادیانیت کے خلاف کام کرنے کے لیے علمی مواد اور واضح عملی میدان موجود ہے۔ 
حضرت انور شاہ صاحب نور اللہ مرقدہٗ کی مجلسِ بیعت میں پانچویں نمبر پر حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی بیعت کرنے والے محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ ہیں اور آگے چل کر آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے پانچویں امیر مقرر ہوئے۔ 
۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں جہاں قومی اسمبلی کے اندر حضرت مولانا مفتی محمود، حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اور آپ حضرات کے دوسرے رفقاء قادیانیت کے خلاف مقدمہ لڑرہے تھے، تو باہر محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے چلائی گئی تحریک میں تمام مسالک کے علمائے کرام اور عوام الناس کی قیادت وسیادت کررہے تھے اور آپ ہی کی امارت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قادیانیت کے خلاف مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی تھی۔ 
اسی طرح اسی دارالعلوم دیوبند کا ایک فیض یافتہ بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس قدس سرہٗ جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے القاء کیا کہ مسلمانوں کی عمومی دینی حالت جو کمزور ہوچکی ہے، اسے پھر سے پروان چڑھایا جائے، کیونکہ اس وقت ایسے مسلمان بھی تھے جو مردم شماری اور اپنے نام کے اعتبار سے مسلمان کہلاتے تھے، لیکن انہیں کلمہ تک نہیں آتا تھا، نماز پڑھنا نہیں آتی تھی، یا وہ نماز، روزہ وغیرہ سے دور تھے۔ ایک ایک بستی، ایک ایک قریہ اور ایک ایک گاؤں تک گئے اور اصول ایسا بنایا کہ اللہ کے راستے میں سہ روزہ، چلہ، چار مہینے اور سال کے لیے اپنا مال، اپنی جان اور اپنا وقت اس میں لگے، تب اس کے اثرات دوسروں پر پڑیں گے۔ ایک بستی سے چلنے والا یہ کام آج تقریباً پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ اس تبلیغ کی چلت پھرت اور اس چلتے پھرتے مدرسہ سے ہزاروں نہیں لاکھوں فیض یاب ہوچکے ہیں اور اصول یہ بنایا کہ بلاتفریقِ مسلک ومشرب ہر ایک جو کلمہ پڑھنے والا ہے اس تک یہ دعوت پہنچ جائے۔ اور الحمد للہ! تبلیغ میں لگنے والے ہر بھائی کی یہی محنت اور کوشش ہے کہ ہم نے پوری دنیا کے لیے فکر کرنی ہے کہ ہر انسان جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والا بن جائے۔
موجودہ ملکی صورت حال میں کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک فرد، افراد، جماعت اور پوری قوم کو آج اللہ تعالیٰ پر توکل، بڑوں پر اعتماد اور ان کے بتائے ہوئے نہج اور راستہ پر استقامت اور استقلال کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے متحد اور متفق ہونا چاہیے۔خصوصاً علمائے کرام کو بلاتفریقِ مسلک ومذہب اور اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی اور قیادت کرتے ہوئے سیاست کے میدان میں موجود اپنی قیادت اور سیادت پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے ان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملاکر کھڑا ہونا چاہیے، اس سے ان شاء اللہ! ہم ملک، قوم، مساجد، مدارس، خانقاہوں، دینی اداروں اور ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدات کا تحفظ اور نگرانی کرسکیں گے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج بھی ہماری دینی وسیاسی قیادت دور اندیش، مدبر اور آنے والے حالات کا مکمل ادراک اور ان حالات سے نبرد آزما ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، بس ضرورت اس کی ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور اپنی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے اغیار کی چالوں اور سازشوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، ورنہ ملک دشمن قوتیں اور ان کے آلۂ کار ہمیں سبز باغ دکھا کر اور اپنی عیارانہ چالوں میں پھنساکر ہمارے ملک، ہماری قوم، ہماری سرحدات، دینی تعلیمات اور مشرقی و اسلامی تہذیب سب کچھ نیست ونابود کردیں گے اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلے گا،ولا فعل اللّٰہ ذٰلک۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین