بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

خوانِ بنوری ؒ سے مولاناامین اورکزئی  ؒکی خوشہ چینی (دوسری قسط)

خوانِ بنوری ؒ سے مولاناامین اورکزئی  ؒکی خوشہ چینی

                     (دوسری قسط)

 

٭:…’’یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ ‘‘ سے بظاہر ِ علماء کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی، اس لیے کہ’’أُوْتُوْا الْعِلْمَ‘‘ معطوف ہے ’’الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا‘‘ پر، توجو کچھ علماء کے درجات ہیں، وہی ’’الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا‘‘ کے ہیں۔ کسی نے تو یہ کہا ہے کہ یہاں تقدیر یوں ہیـ: ’’یرفع اللّٰہ الذین أٰمنوا منکم ’’درجۃ‘‘ والذین أوتوا العلم درجات‘‘مگر قرآن کریم کی معجزانہ فصاحت اس کی مقتضی ہے کہ اس قسم کے تکلفاتِ باردہ نہ کیے جائیں۔ یہاں صحیح بات حضرت ابن مسعودq کے اثر سے معلوم ہوتی ہے کہ آیت کا مقصود یہ ہے کہ یہ درجات ان لوگوں کے لیے ہیں جوکمال الایمان والعلم کے جامع ہوں۔ بغیر ایمان کے علم کی کوئی وقعت نہیں، جیساکہ شیطان باوجود بڑا عالم ہونے کے مردودہے تو جس طرح اعمالِ صالحہ بغیر ایمان کے مفید نہیں، اسی طرح علومِ نافعہ بغیر ایمان کے مقبول ومفید نہیں ہوسکتے اور درجات کے ابہام میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایمان اور علم جیسا کہ مختلف ہیں، اسی طرح درجات میں بھی تفاوت ہوگا۔ 
٭:… نبوت کمالاتِ انسانی میں معراج کا درجہ رکھتی ہے، نبوت کے بعد پھردوسرا کوئی کمال نہیں، لہٰذانبوت خاتمۃ الکمالات ہے، پھر آپ a کی نبوت خاتمۃ النبوات ہے، مگرآپ a کو نبوت اور ختم نبوت کی عظیم نعمت ملنے کے بعد بھی تلقین کی جارہی ہے کہ: ’’قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘ یعنی علم ایسی نعمت ہے کہ نبوت کے بعد بھی اس کی ضرورت ہے۔ 
٭:…’’شَجَرٌ‘‘ ان کلمات میں سے ہے جن میں مفرد اور جمع کا فرق تاء کے ساتھ ہوتا ہے، مفرد ’’شَجَرَۃٌ‘‘ جمع ’’شَجَرٌ‘‘ ۔۔۔۔کتمر وتمرۃ ونمل ونملۃ وکلم کلمۃ۔۔۔۔۔ لغویین اور نحویین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ جمع ہے یا جنس۔ 
٭:…طغرائی خط کی یہ خصوصیت ہے کہ جواوپر والالفظ ہوتا ہے وہ بعد میں پڑھا جاتا ہے اور جو حرف نیچے ہوتا ہے وہ پہلے پڑھا جاتا ہے۔ رسول اللہ a کی ’’خَاتَم‘‘ کا نقش اسی خط کے مطابق تھا اور فرمایا کہ: میں جب تقریباً چھ سال کا بچہ تھا، اس وقت گھر میں ایک کتاب جس کانام ثبوتِ خلافت تھا، اسی خط کے موافق لکھاتھا، میں نے خلافتِ ثبوت پڑھ لیا۔ والد صاحب نے کہا کہ: نہیں !یہ ’’ثبوتِ خلافت‘‘ ہے اور یہ قاعدہ بتلادیا جو ابھی تک یاد ہے۔ 
٭:…تابعین میں ایسے حضرات ملتے ہیں جو فقہ میں بعض صحابہ کرامs سے زیادہ ہیں اور افقہ ہیں، اگر چہ ہر صحابیؓ کو فضلیتِ صحبت حاصل ہے، مگر فقہ علیحدہ چیز ہے اوریہ تفاضل بعض تابعین کا بعض صحابہs پر تفقہ میں مشاہَد اور محسوس ہے، ویشیر إلٰی ذٰلک الحدیث۔
٭:…شیخ عبد القاہر جرجانیv نے اپنی کتاب ’’دلائل الإعجاز‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’إنما‘‘ حصر کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر ایسے مقام پر جبکہ متکلم مدخول ’’إنما‘‘ کی بداہت کا مدعی ہو اور یہ چیز ’’مَا‘‘ اور ’’إِلَّا ‘‘ میں نہیں پائی جاتی۔ یہ بہت عمدہ کتاب ہے، اگریہ کتاب اور ان کی دوسری کتاب ’’أسرار البلاغۃ‘‘ وجود میں نہ آتی، توفنِ بلاغت ومعانی مدون مرتب نہ ہوتا۔ بلاغت ومعانی کا ذوق پیداکرنے کے لیے شیخ کی ان کتابوں کا مطالعہ لازمی ہے، اس فن میں عمدہ کتابیں یہ ہیں: ’’شرح عقود الجمان للمرشدي‘‘ اور ’’الطرازالمتضمن لأسرارالبلاغۃ والإعجاز‘‘ اور ’’عروس الأفراح شرح تلخیص المفتاح‘‘ یہ تین کتابیں آپ کے پاس ہوں تو کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں رہے گی۔ 
٭:… ’’لَوْکُنَّا نَسْمَعُ أَوْنَعْقِلُ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ :’’نَسْمَعُ‘‘میں درجۂ تقلید کی طرف اشارہ ہے اور ’’نَعْقِلُ‘‘میں اجتہاد وتحقیق کی طرف اشارہ ہے، معلوم ہوا کہ تقلید بھی حجت ہے جب اجتہاد کی صلاحیت نہ ہو۔ 
٭:… وعظ کے لیے خاص دن مقرر کرنے کے متعلق جو حدیث وارد ہے، اس کوشروع کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’مدارس میں جو تعطیلات ہوتی ہیں، اس کی اصل یہ حدیث ہے۔ ‘‘
٭:…تفقہ فی الدین شرعاً مطلوب ہے اور اس کے لیے جو چیزیں مفید ہوں وہ بھی مطلوب ہیں، کیونکہ مقدمۃ الواجب واجب ہوتا ہے، لہٰذا تفقہ کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے جس میں علوم عربیہ وغیرہ آتے ہیں، مطلوب ہوں گے۔ الغرض مقاصد کی طرح وسائل بھی مطلوب ہوتے ہیں۔ اس سے معروف اصطلاحی فقہ مراد نہیں، بلکہ مراد وہ عام معنی ہے جو حضرت امام ابوحنیفہv نے بیان فرمایا ہے کہ:’’ الفقہ معرفۃ النفس مالہا وما علیہا۔‘‘
٭:… علماء آج کل داڑھی نہیں منڈاتے، نہ دیگرظاہری معاصی میں مبتلا ہیں، وجہ یہ ہے کہ ماحول ایسا ہے جس میں اس قسم کے معاصی کے ارتکاب کی گنجائش نہیں، مگر دوسری طرف باطنی معاصی میں گرفتار ہیں۔ علماء آج تین قلبی امراض میںخاص طور سے مبتلا ہیں: ۱:- حبِ جاہ، ۲:- حبِ مال، ۳:- بغض وحسد اور اسی طرح خانقاہوں میں رہنے والے صوفی بھی إلا ماشاء اللّٰہ، أعاذنا اللّٰہ والعیاذ باللّٰہ۔
٭:… نعمتیں دوقسم کی ہیں: ایک مادی، ایک روحانی۔ مادی نعمتوں میں قابلِ غبطہ نعمت وہ مال ہے جوراہِ حق میں خرچ کیا جائے اور روحانی نعمتوں میں قابلِ غبطہ نعمت وہ علم ہے جو نافع اور منتفع ہو۔ مجرد مال اور مجردعلم میں کوئی کمال نہیں۔ 
٭:… ’’غیث‘‘ عربی لغت میں بارش کو کہتے ہیںاور اسی طرح مطر بھی، لیکن قرآن وحدیث کی اصطلاح اور استعمال میں عموما ’’غیث‘‘ بارانِ رحمت کے لیے آتا ہے اور عذاب کے موقع پر مطر کا استعمال ہوتا ہے۔ حدیث میں ’’غیث‘‘ کا لفظ جو آیا ہے اس میں بھی علومِ نبوی کے رحمت ہونے کی طرف اشارہ ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کے الفاظ محفوظ ہوتے چلے آئے ہیں اور روایت بالمعنی نہیں کیا گیا ہے۔ 
٭:… جَدب بفتح الأول ضد الخِصب بکسر أولہ، ایسے بہت سے کلمات ہیں جوکہ اضداد میںسے ہوتے ہیں اور ایک مکسور الاول، دوسرا مفتوح الاول ہوتا ہے۔ ومنہا الجَدب والخِصب والعِلم والجَہل۔
٭:… الجزائر کے ایک عالم نے جو ایک سوسال پہلے گزرچکے ہیں، ایک کتاب لکھی ہے: ’’اللآلی والدرر فی المحاکمۃ بین الحافظ العینيؒ والحافظ ابن حجرؒ‘‘ جس میں انہوں نے حافظ عینیv اور حافظ ابن حجرv کے درمیان مختلف فیہ مقامات پر محاکمہ کیا ہے۔ یہ کتاب اب لیبیا سے چھپ گئی ہے۔ 
٭:… بخاریؒ نے ’’فضل العلم‘‘ کے عنوان سے جوباب باندھا ہے، حافظ عینیv نے ’’فضل‘‘ بمعنی ’’فضیلۃ‘‘ لیا ہے اور حافظ ابن حجرؒ نے بمعنی ’’زیادۃ‘‘ کے لیا ہے۔ یہاں پر بات حافظ ابن حجرv کی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اور علامہ عینیؒ کی بات کمزور ہے، لہٰذا’’ اتفق لہ الموافقات بکثرۃ‘‘
٭:… حضرت عمرq کا مزاج تشریعی تھا اور آپ ’’أشبہ الناس  برسول اللّٰہa  في علمہٖ‘‘تھے،  ’’وکان الصدیق من أشبہم فی خُلقہٖ a وقال علیہ السلام: بعثتُ لأتمم مکارم الأخلاق، فکان الصدیق أولی بالخلافۃ، فتفطن۔ ‘‘
٭:… عرف واستعمال میں ’’کَانَ‘‘ جب فعل پرداخل ہوتا ہے تو مفیدِ استمرار ہوتا ہے، مگر محدثین اور علم حدیث کی اصطلاح میں ’’کَانَ‘ ‘استمرار کے لیے نہیں آتا، بلکہ اگر کوئی ایک دفعہ بھی واقع ہوچکا ہو تو وہاں بھی’ ’کَانَ‘‘ لے آتے ہیں۔ 
٭:… حدیث متواتر کی تعریف میں، پھر اس کے وجود میں علماء کا اختلاف ہے، بہرحال احادیث کے ذخیرہ میں اگر کوئی حدیث متواتر ہوسکتی ہے تو وہ حدیث ’’من کذب علي متعمدا‘‘ ہے، جس کے راوی تقریبا ًایک سوصحابہs ہیں۔ حافظ سیوطیv وغیرہ نے تساہل کیا ہے اور ہر اس حدیث کو جس پر تعامل چلا آرہا ہو اس کو متواتر کہا۔ سیوطیv نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’الأزہارالمتناثرۃ فی الأخبارالمتواترۃ‘‘ رکھا ہے اور اسی میں طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ جس حدیث کے راوی دس تک صحابہؓ ہوں، اس کو متواتر کہا، اس لیے ان کا کافی ذخیرہ اس کو ہاتھ آیا۔ 
٭:… آپ a کو اگر کوئی خواب میں دیکھے اور اُسے اطمینان اور یقین ہوجائے کہ آپa ہی ہیں تو ٹھیک ہے، اس نے آپ a کودیکھا۔ شمائل میں جو حلیہ آپ a کا بیان ہوا ہے، اس صورت میں آپ a کو وہی شخص دیکھ سکتا ہے جس کا آپ a سے شدید اور صحیح تعلق ہو اور اس کے علاوہ ہر شخص آپ a کو اپنی استعداد کے موافق صورت میں دیکھتا ہے، شیطان کو یہ قدرت نہیں دی گئی کہ وہ آپ کے نام اور صورت سے نیند میں آجائے۔ تفصیلات شفاء قاضی عیاض اور وفاء الوفاء اورشروحِ شفا میں ملاحظہ ہوں۔ خلاصہ یہ کہ رائی کے برابر دل میں یقین آئے کہ آپ a ہیں توبس کافی ہے۔ 
٭:…حدیث میں جو آتا ہے کہ آپ a نے فرمایا کہ: آج جولوگ زندہ ہیں، سو سال بعد ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔ محدثین نے اس کے عموم سے فائدہ اُٹھاکر خضر m کی وفات پر استدلال کیا ہے، مگر یہ استدلال قوی نہیں ہے، اس لیے کہ ایک تو ’’مامن عام إلا وقد خص عنہ البعض‘‘، دوسری یہ کہ آپ a کے مخاطب صحابہؓ تھے، مطلب یہ تھا کہ آپ میں سے [یعنی عالم شہادت میں زندہ اور موجود لوگوں میںسے]سوسال بعد کوئی زندہ نہیں رہ سکے گا۔ اور حضرت خضر m کا تعلق عالم شہادت سے نہیں، وہ درحقیقت رجال الغیب میںسے ہیں، تو حدیث کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، تو ممکن ہے کہ وہ زندہ ہوں اور یہی صوفیاء کرام کا مذہب ہے۔ 
٭:…روح کے بارے میں امام رازیv نے کتاب لکھی ہے، جس کانام’’ لطائف القدس بمعرفۃ النفس‘‘ہے اور شاہ ولی اللہv نے بھی اس طرز پر’’ ألطاف القدس‘‘ فارسی زبان میں لکھی۔ شاہ ولی اللہ v نے حجۃ اللہ میں بھی کچھ نامکمل تفصیلات لکھی ہیں۔ شاہ صاحب ؒ کی رائے یہ ہے کہ قرآن نے روح کی حقیقت کو معلوم کرنے سے روکانہیں اور اس کی حقیقت کو پہنچنا ممکن ہے۔ انبیاء B نے تفصیلات اس لیے بیان نہیں کی ہیں کہ اس وقت کے لوگوں اور آئندہ آنے والی نسلوں کے عامۃ الناس کے اذہان اس کے ادراک سے قاصرتھے۔ شاہ انور شاہv کی رائے یہ ہے کہ روح عالم خلق میں سے نہیں، بلکہ عالم امر میں سے ہے۔ اس کے بارے میںجو کچھ لکھاجائے یا کہا جائے، تحقیقات کی جائیں تو وہ کم ہوں گی، اس کی حقیقت کو پانا مشکل ترین امر ہے۔ اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ 
٭:… مسجد کے اندر علومِ دینیہ کا درس دینا جائز ہے، غیر دینی علوم پڑھانا جائز نہیں تو اس بنا پر مسجد میں فلسفہ اور اشعارِ جاہلیت کی تعلیم دیناجائز نہیں، اگرچہ علم دین کے لیے وسیلہ ہیں، چنانچہ ہمارے اکابرِ دیوبند اس سے احتراز کیا کرتے تھے۔ منطق کا پڑھانا جائز ہے، کیونکہ اس میں کفریات وخرافات نہیں ہیں، اگر چہ بعض محدثین مثلاً ابو عمر وابن صلاح ؒ اور علامہ سیوطی ؒ وغیرہ کی شاذرائے ہے کہ منطق بھی ان علوم میں سے ہے، جن کا حاصل کرنا حرام ہے، مگریہ رائے قابلِ اعتبار نہیں۔ 
٭:…حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب کشمیریv [المتوفی ۱۳۲۳ھ] حضرت انورشاہ کشمیریv کے استاذتھے اور دارالعلوم دیوبند میں مسلم شریف وغیرہ کا درس دیا کرتے تھے، بعد میں وہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ وہاں کے لوگوںنے آپ سے کہا کہ: ہمیں منطق کی تعلیم دیں تو آپ نے فرمایا کہ: منطق کی جو مدون کتب ہیں ان کو تو نہیں پڑھاؤں گا، البتہ خود کتاب لکھ کر وہ پڑھا دوںگا، چنانچہ انہوں نے خو د ایک کتاب لکھی جس میں امثلہ قرآن وحدیث سے لیں۔ وہ کتاب چھپی ہے، اور میں نے اس کا قلمی نسخہ بھی دیکھا ہے۔ 
٭:… ’’کتاب العلم‘‘ میں امام بخاریv نے۱۰۳؍ مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن سے تقریباً ۱۵۰ تک مسائل کا استنباط کیا ہے جو علم، عالم اورمتعلم کے آداب سے متعلق ہیں۔ فجزاہ اللّٰہ خیرا
٭:… آیتِ وضو کے نزول (جو غزوۃ المریسیع کے موقع پر نازل ہوئی تھی ) سے اٹھارہ برس پہلے وضو کی تشریع آپ a کی سنت سے ہوئی ہے اور پھر اٹھارہ برس بعد قرآن نے اس کی تائید کی۔ اس سے ایک اصولی بات معلوم ہوتی ہے کہ شرائعِ الٰہیہ کا مدار نبوت اور انبیاءo کی تعلیمات پر ہوتا ہے۔ اصل میں نبی کے قول وفعل وغیر ہ سے امورِ شرعیہ کا ثبوت ہوتا ہے اور تشریع امورِ قرآن کے نزول پر موقوف نہیں۔ 
٭:… ’’تضمین‘‘کا معنی یہ ہے کہ دو متقارب المعنی فعلین کے دو معمول ہوں تو احد الفعلین کو حذف کر کے اس کے معمول کو دوسرے فعل کے معمول پر عطف کردیا جائے تو اس طرح دو معمولین‘ عاملین مختلفین کے ایک عامل کے تحت آ جائیں گی، جیسا کہ ’’علفنا ہا تبنا وماء باردا‘‘ اور ’’فزججن العیون والحو اجب ‘‘
٭:…’’إطالۃ الغرۃ‘‘والی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ جل شانہ اُمتِ محمدیہ کے افراد کے اعضائے وضو پر نور ظاہر فرمادیں گے اور یہ اعزاز صرف اسی اُمت کو حاصل ہوگا کہ ان کے وضو کا اثر اس صورت میں ظاہر ہوجائے گا، کیونکہ وضو پہلی اُمتوں کے لیے بھی تھا، مگر ان کے وضو پر یہ اثر مرتب نہیں ہوگا۔ 
 ٭:… بعض روایات کے بارے میں اما م ترمذیv نے اپنے شیخ امام بخاریv کی رائے سے اختلاف کیا ہے اور اپنی روایت کو بخاریؒ کی روایت پر ترجیح دی ہے، اس سے معلوم ہو اکہ امام بخاریv کی رائے ہر جگہ واجب التسلیم نہیںاور نہ یہ ضروری ہے کہ بخاریؒ کی ہر روایت ترمذیؒ وغیرہ کی ہرروایت سے اصح ہو، اس لیے اگر کسی حنفی محقق نے بخاریؒ کی رائے سے کہیں اختلاف کیا یاترمذیؒ وغیرہ کی روایات کو بخاریؒ کی روایات پر ترجیح دی تو اس پر چراغ پا ہوکر برسنا اور چیخنا حماقت ہے۔ 
٭:…حنفیہ کی چار شخصیتیں ایسی ہیں جن کی تصنیفات سے کوئی محقق عالم مستغنی نہیں ہوسکتا: ۱:- امام طحاویv کی ’’شرح معانی الآثار‘‘ اور ’’مشکل الآثار‘‘۲:- ابوبکر جصاصv کی ’’أحکام القرآن‘‘ اور’’الفصول فی الأصول‘‘۳:- علامہ ماردینیv کی ’’الجوہر النقی فی الرد علی البیہقي‘‘۴:- حافظ زیلعیv کی ’’نصب الرایۃ‘‘ یہ چار شخصیات تحقیق کے بارے میں حنفیہ کے ائمہ اربعہ ہیں۔ ابن الہمامؒ کی ’’فتح القدیر‘‘ میں جتنا ذخیرہ احادیث کا ہے وہ ’’نصب الرأیۃ‘‘ سے ماخوذ ہے اور حافظ عینیؒ کے ’’عمدۃ‘‘ سے بھی۔ حنفی محدث بخاری کا پڑھانے والا اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ 
٭:…صیغۂ تمریض کے ساتھ بخاریؒ جب کسی حدیث کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہاں حدیث یا تو ساقط ہوتی ہے یا ضعیف ہوتی ہے یا پھر اس حدیث سے استدلال اپنے موضوع پر کمزور ہوتا ہے۔ 
٭:… ’’زادالمعاد فی ہدي خیرالعباد‘‘ اچھی اور نفیس کتاب ہے، اس میں بہت سارے نفائس اور عمدہ ابحاث ہیں۔ ابن القیمؒ بہت ہی وسیع المطالعہ کثیر التصانیف شخصیت تھے: ’’وکان جماعا للکتب ‘‘ اور کہا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی سالہا سال تک اسی کی کتابیں بکتی رہیں، مگر تعجب یہ ہے کہ ان کی ساری تصانیف میں نفائس کے ساتھ عجائب بھی ہوتے ہیں، ’’زادالمعاد ‘‘میں عمدہ اور نفیس مباحث کے ساتھ بعض غلط اور سطحی قسم کی باتیں بھی ملتی ہیں۔ 
حضرت شیخ نے اس پر ایک لطیفہ سناتے ہوئے فرمایا کہ: شیخ (حضرت کشمیریv) نے فرمایاکہ: ایک دن میں حضرت شیخ الہندv کے پاس بیٹھاتھا، ان کے ہاتھ میں ’’زادالمعاد ‘‘تھی، مطالعہ کے دوران ان پر کچھ تعجب اور حیرت کی کیفیت طاری ہوگئی، تو میں نے عرض کیا:حضرت! کیا بات ہے؟ فرمایا کہ: بہت اوپری باتیں کررہا ہے، یعنی آپ کو تعجب ہوا کہ ایسا ذہین اور وسیع النظر شخص کس طرح اس قسم کی سطحی بات کہنے پر اُترآتاہے۔ دراصل اس قسم کی باتیں اس وقت انسان کرجاتا ہے جب تعصب اور محبت کے جذبہ میں آجاتا ہے، سچ ہے: ’’حبک الشئی یعمی ویصم۔ ‘‘
٭:…فرمایا کہ: ’’إِعلام المُوَقِّعین‘‘ بعض پہلوؤں سے اچھی کتاب ہے، لیکن بعض پہلواچھے نہیں۔ 
٭:… بخاری، ص: ۶۱، ج:۱، قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعن اللّٰہ الیہود، ترجمہ میں مذکور دعویٰ کے لیے یہ تعلیل بظاہر بہت دقیق ہے، اس لیے شارحین نے اس کو حل نہیں کیا اور جو کچھ لکھا ہے وہ ناقابلِ فہم ہے۔ بخاری ؒ کا مدعا یہ ہے کہ قبر کی موجودگی میں نماز پڑھنا ناجائز ہے، جب تک نبش نہ کی جائے نماز ناجائز ہوگی۔ دلیل یہ ہے کہ حضرات انبیاء B خود بھی واجب الاحترام ہیں اور ان کی قبور بھی قابلِ احترام ہیں، ا ن کی قبر کے پاس نماز پڑھنا اور ان کو سجدہ گاہ بنانا جائز نہیں تو مشرکین وغیرہ کی قبور کے پاس بغیر نبش کے کیسے نماز جائز ہوسکتی ہے؟!
٭:…عہدِ نبوت کے دس سالہ مدنی دور میں اصحابِ صفہ(s) کی مجموعی تعداد تین سو بیالیس تک پہنچی ہے۔ ابو نعیم اصفہانیv نے اس پر ایک کتاب لکھی ہے۔ 
٭:…شملہ میں ایک موقع پر حضرت مولانا عثمانیؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن ؒ، حضرت مولانا خلیل احمدؒ، حضرت مولانا تھانویؒ اور حضرت شاہ صاحبw جمع ہوئے، بعض لوگوں نے تقاضا کیا کہ قرآن کے اعجاز پر تقریر ہو، اس کے لیے حضرت شاہ صاحبؒ منتخب ہوئے۔ تقریر سے پہلے حضرت شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ: اعجازِ قرآن پر میری تقریر اس شخص کے سمجھ میں آئے گی جس کوبارہ ہزار اشعار دورِجاہلیت کے یادہوں اوربلاغت وفصاحت کے قواعد پرعبور ہو۔ بہرحال آپ نے ڈیڑھ یادو گھنٹہ تقریر کی، تقریر کے خاتمہ پر حضرت مولانا تھانویؒ نے فرمایا: سبحان اللہ! آج ہمیں اپنے جہل کاعلم ہوا۔ 
٭:…’’ بنی اللّٰہ لہٗ بیتا فی الجنۃ‘‘یہ حدیث تقریبا ًبیس صحابہؓ سے منقول ہے اور معناً تواتر تک پہنچی ہے، اس میں جو اشکال ہے اس کی دس توجیہات کی گئی ہیں۔ ایک توجیہ جو میں نے کی ہے وہ سب سے ظاہر ہے، وہ یہ کہ ’’بانیین‘‘ میں فرق اور ’’مبنیٰ ‘‘میں فرق اور ’’دارین‘‘ میں فرق ہے تو مماثلت ’’بناء بالمعنی المصدری‘‘ میں ہے، نہ کہ ’’بناء مبنی للمفعول‘‘ میں۔ فرمایا کہ: میںنے ڈابھیل میں حضرت مولاناعثمانیv کو یہ توجیہ سنائی توخوش ہوئے اور دعادی اورفرمایاکہ: تعجب ہے !سب سے اچھی توجیہ یہ ہے اور ظاہربھی، پھر کیسے لوگوں کی نظروں سے غائب رہی۔ 
٭:…جب امام ابوحنیفہؒ اورامام احمدؒایک قول پر متفق ہوں تو وہ ’’من حیث الحدیث‘‘ اقویٰ ترین مذہب ہوگا۔ امام ابوحنیفہ ؒاور امام مالکؒ جس قول پر متفق ہوں تو وہ ’’من حیث التعامل‘‘ اقویٰ ترین مذہب ہوگااورجب امام ابوحنیفہ ؒاورامام شافعیؒ ایک قول پر متفق ہوں تو وہ ’’من حیث التفقہ‘‘ اقویٰ ترین مذہب ہوگا۔ 
٭:… ’’فإن شدۃ الحر من شدۃ فیح جہنم‘‘ اس پر یہ سوال ہوتا ہے کہ دنیاکے تمام ممالک میں یہ مشاہدہ ہے کہ گرمی و سردی اورصیف وشتاء کا مدار سورج کے قرب وبعد پرہوتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شدۃِ حرکا باعث او ر سبب ذاتِ شمس میں ہے۔ اس کا جواب اجمالاً تو یہ ہے کہ شارع m تعلیمِ شرائع کے لیے مبعوث ہوئے تھے، جن کا ادراک عقولِ عامہ سے باہر ہے، رہے وہ اُمور جو ظاہری اسباب پر مبنی ہوں، تو انبیاءo ایسی چیزوں اور اس کے اسباب سے بحث نہیں کرتے۔ اس جواب کی تفصیل یہ ہے کہ یہ بات مشاہدہ کی ہے کہ شدتِ گرمی کا سبب سورج کاقریب آجانا ہے، اس لیے یہ بات تو پیغمبر a کی شان سے بعید تر ہے کہ وہ اس ظاہری سبب کو بیا ن فرماتے، بلکہ آپa کا منصب تو یہ ہے کہ جو چیز دوسروں کی نظروں سے مخفی ہے اور ان کی عقول سے ماوراء ہے، اس کو ظاہر فرمادیں۔ دنیا کے تمام اہلِ عقل اس پر متفق ہیں کہ اس عالم میں کرۂ شمس سے گرم ترین کوئی چیز نہیں، اگر درمیانی فضامیں موانع نہ ہوتے، تو حجر وشجر، ضرع اور زرع سب جل جاتے، کوئی بھی متنفس زندہ نہ رہ سکتا، مگر سورج کے کرہ میں یہ حرارت کہاں سے آئی؟! اس حقیقت کے ادراک سے سب کے سب قاصر ہیں۔ اب یہ پیغمبرکا مقام تھا کہ اس نے وحی کے ذریعہ سے بتلادیا کہ سورج میں یہ حرارت ذاتی نہیں بلکہ مستفاد ہے جہنم سے، اللہ تعالیٰ نے کرۂ شمس میں یہ قوتِ جاذبہ اور خاصہ پیداکردیاہے کہ وہ جہنم سے حرارت کو جذب کرلیتا ہے اور پھر شعاعِ شمس کے انعکاس سے یہ حرارت دنیا کو پہنچتی ہے اور اس کو متواز ن بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہوا وغیرہ کے کرات بنادئیے۔ اب دنیاکا نظام اس حرارت سے چل رہا ہے۔ 
٭:…مدینہ منور ہ میں ایک بزرگ رہتے تھے جو بھیڑ بکریاں پالتے تھے اور خود دودھ نکالتے تھے، ایک دن اتفاق سے وہ بکری سے دودھ نکالنے میں مصروف تھے کہ میں آگیا، اس نے مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا: ’’وکان رسول اللّٰہ a یحلب شاتہٗ‘‘ تو میں نے کہا: ’’نعم وکان یکنس بیتہٗ‘‘ اور پھر ارتجالاً میں نے یہ شعر کہا:
ألا یا صاحب الشاۃ والغنم !!!
 ہنیأً لک سنۃ ہادی الأمم

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین