بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

فقہ اور اُصولِ فقہ کی تدریس اور ائمہ اربعہ کے بنیادی اجتہادی اُصول

فقہ اور اُصولِ فقہ کی تدریس 

اور ائمہ اربعہ کے بنیادی اجتہادی اُصول


۲۵؍ شوال ۱۴۳۹ھ کو کراچی کے ایک ادارے میں عنوانِ بالا کے تحت صاحبِ مضمون کا ایک محاضرہ ہوا تھا، جس کی تلخیص پیش خدمت ہے۔ اس تلخیص میں صرف اشارات ہیں، بعض مباحث کے مأخذ وغیرہ کی طرف بین القوسین نشاندہی کی گئی ہے، اس موضوع کی تفصیل متعلقہ تفصیلات کے ساتھ اگلے شماروں میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے، ان شاء اللہ!                                               [ادارہ]


فقہ کی تعریف
لغۃً :        ’’ھو الفھم : مَالِھٰؤُلَائِ الْقَوْمِ لَایَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ قَوْلًا ۔‘‘
اصطلاحاً:    ’’ھوالعلم بالأحکام الشرعیۃ الفرعیۃ المستنبطۃ من أدلتھا التفصیلیۃ۔‘‘


قبل الدرس۔۔۔۔۔۔۔بدایۃ السنۃ
مبادیات(درجہ ومستویٰ کی رعایت کے ساتھ) 

۱:- تعریف (المدخل الفقہي العام ،زرقاء)
۲:-اہمیتِ فقہ 
۳:-تعریف کے مندرجات کی تفہیم
۴:-تاریخ (الفکرالسامي، ثعالبي، تاریخ التشریع الإسلامي،خضري)    
۵:- فقہ حنفی کے امتیازات
۶:-امام اعظمؒ   فقہی وحدیثی مقام (مقام أبی حنیفۃؒ  لصفدرؒ، تبییض الصحیفۃ للسیوطیؒ)
۷:-تدوین (مناظر احسن گیلانی  ؒ)
قبل الدرس۔۔۔۔۔۔۔بدایۃ الدرس
 ۱:-تیاری (مدرس، طالب علم)
۲:-باب کا تعارف (اصطلاحات، اہم فقہی قواعد، خلاصۃ الباب)
۳:-تقدیر درس (یومیہ، ہفتہ وار، ماہوار)
خلال الدرس
۱:-حل عبارت(عبارت خوانی،تصحیح عبارت)
۲:-ترجمہ کی مشق                 ۳:-صورت مسئلہ
۴:-حکم                    ۵:-خلاصہ مسائل
۶:-قواعدِ عامہ(بذریعہ إمعان، الفوائد البہیۃ فی القواعد الفقہیۃ)
۷:-ضوابط خاصہ(متعلقہ مسائل باب)
۸:-اختلاف؍اقوال(بلحاظ درجہ)
۹:-دلائل(بلحاظ درجہ  -   سعید صاغرجی،  إعلاء السنن، بدائع الصنائع)
۱۰:-ترجیح(ترجیح الراجح، التصحیح والترجیح)
بعد الدرس
۱:-تمرینی سوالات        ۲:-زبانی /تحریری (اسلوب، تسہیلاتِ شیخ بدخشانی)
۳:-تطبیق وتفریع (الفقہ الحنفي فی ثوبہ الجدید، عبدالحمید طھماز)
۴:-فتاوائے اکابر سے خارجی تمثیلات
مختصر القدوری
٭:…سب سے پہلے باب کاتعارف پیش کرے۔
٭:… اس باب کے اہم اہم فقہی قواعد کی طرف رہنمائی کی جائے۔
٭:…اس باب کے محتویات کیاکیاہیں؟مختصراً بتادیئے جائیں ۔
٭:…طالب علم سے عبارت پڑھوائی جائے ،صحیح اور غلط کی نشاندہی کی جائے۔
٭:… اختلاف اوردلائل کو کتاب میں ذکرکردہ تفصیل تک محدود رکھاجائے۔
٭:…قدوری کے حل کے لیے ’’اللباب‘‘ مفید ہے۔نیز ’’الجوہرۃ النیرۃ لعلي الحداد الیمني، التصحیح والترجیح للعلامۃ قاسم بن قطلوبغا‘‘ کا مطالعہ کریں۔
کنز الدقائق
٭:… ’’کنزالدقائق‘‘ کے حل کے لیے ’’تبیین الحقائق‘‘ اور ’’البحرالرائق‘‘ مفید ہے۔
٭:… بقیہ اُمور وہی ہیں جو قدوری میں ذکر ہوئے۔
٭:… قدوری اور کنزمختصر متون ہیں، تدریس کے دوران بھی انہیں متن ہی رہنے دیا جائے۔
شرح الوقایۃ
٭:…سب سے پہلے اس فقہی قاعدے کو گرفت میں لانے کی کوشش کریں ،جس قاعدے پر متعلقہ مسائل ومباحث کی تفریع ہے۔ دوسرے نمبرپر یہ دیکھا  جائے کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور اس مسئلہ کو دوسری کتابوں میں کیسے تعبیر کیا جائے اور اس کی دلیل کیا بتائی گئی ہے؟!
٭:…’’شرح الوقایۃ‘‘ کے حل کے لیے درکانی کی شرح  -’’اختصار الروایۃ‘‘، یہ ’’شرح النقایۃ‘‘ کا اچھا متبادل بھی ہے -دیکھی جائے۔
الہدایۃ
٭:… ہدایہ کے حل کے لیے ’’العنایۃ لأکمل بابرتی‘‘ اور’’الکفایۃ إمام إسماعیل بیہقي‘‘ سے مددلی جائے، ’’النہایۃ لحسام الدین‘‘ اگر د ستیاب ہوتواس کی تفہیم سب سے شائستہ اور سہل ہے، اس کااندازہ ہدایہ کے حواشی میں ’’النہایۃ‘‘ کے حوالوں سے لگایاجاسکتاہے۔    
٭:…  نیز حل کتاب کے لیے ’’ البنایۃ للعینيؒ‘‘اور ’’فتح القدیر لابن ہمامؒ‘‘ مفید ہیں۔
٭:…  صاحبِ ہدایہ کے صنیع خاص کا لحاظ رکھا جائے، جو ہدایہ اخرین کے مقدمہ کے طور پر علامہ لکھنویؒ نے لکھا ہے۔
٭:… ہر باب کے اختتام پر تمرینات کی ترتیب بنائی جائے۔
اُصولِ فقہ/ائمہ اربعہ کے بنیادی اجتہادی اصول ومآخذ
لقبی تعریف
احکام تک پہنچانے والی بنیادیں اُصولِ فقہ کہلاتی ہیں۔
اضافی
اُصول، اساس،مأخذ،دلیل،مرجع ، قاعدہ ، اصل کے یہ سارے معانی فقہ کے مبانی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں،یہ اُصولِ فقہ کی تدریج وارتقاء کے زمانے میں مختلف ہوتے رہے ہیں،پھر فقہاء نے جو اُصول اپنی فقہی کاوشوں کے لیے متعین فرمائے اورانہیں استقرار نصیب ہوا، وہ اصول کیاہیں؟ تو وہ کل بارہ شمار کیے جاتے ہیں ، ۴؍اتفاقی اور ۸؍اختلافی ۔ 
اتفاقی اُصول
۱:-کتاب اللہ    ۲:-سنت        ۳:-اجماع     ۴:-قیاس
اختلافی اُصول
 ۱:-قولِ صحابیؓ     ۲:-شرائع من قبلنا     ۳:-استحسان     ۴:-مصالح مرسلہ 
۵:-سدِ ذریعہ     ۶:-استصحاب     ۷:-عرف    ۸:-تعاملِ اخیار
ان میں سے کن حضرات نے کس کو بنیاد بنایاہے ، اس کی تفصیل یہ ہے :
حنفیہ
۱:-قرآن        ۲:-سنتِ رسول اللہ(a)    ۳:-اقوالِ وفتاوی صحابہؓ
۴:-اجماع        ۵:-قیاسِ جلی        ۶:-قیاسِ خفی(استحسان)
۷:-مصالحِ مرسلہ        ۸:-عرف        ۹:-سدِ ذریعہ 
۱۰:-تعامل         ۱۱:-استصحاب
شافعیہ
طویل فہرست ہے ، معروف اُصول یہ ہیں:
۱:- استمداد من الکتاب     ۲:- استخراج من السنۃ / عمل بالسنۃ    ۳:- تعامل اہل مکہ
مالکیہ
۱:- کتاب اللہ        ۲:-سنتِ رسول      ۳:- تعاملِ اہلِ مدینہ ،اجماعِ اہلِ مدینہ
۴:-قولِ صحابیؓ        ۵:-استحسان    ۶:-سدِ ذریعہ    ۷:-مصالحِ مرسلہ
حنبلیہ
۱:- ظاہر نصوص        ۲:- صحابہؓ کے اتفاقی فتاویٰ یا جن کا خلاف منقول نہ ہو 
۳:- اختلافِ صحابہؓ کی صورت میں وہ فتویٰ جو قرآن و سنت کے زیادہ قریب ہو۔
۴:-اگر صحابہ کرامؓ سے صریح فتویٰ نہ مل سکے تو حدیث مرسل نیز ضعیف حدیث کو بھی لے لیتے ہیں بشرطیکہ وہ شدید الضعف و منکر نہ ہو۔
۵:-جب کوئی نص اور سلف کا قول نہ ملے تو پھر قیاس سے کام لیتے ہیں لیکن ایسا بامرِ مجبوری ہی کرتے ہیں ،جہاں نص یا قول سلف نہ ملے وہاں زیادہ تر سکوت اختیار فرماتے ہیں ،رائے سے اجتناب فرماتے ہیں۔ (اعلام الموقعین:۳۳/۲۹/۱، کتب الشیخ ابوزہرہ المصریؒ)


قبل الدرس۔۔۔۔۔۔۔بدایۃ السنۃ

۱:- موضوع کی تعریف لغۃً واصطلاحاً
۲:-تاریخ وتدوین
۳:-مباحثِ خمسہ (حاکم، حکم، ادلۂ احکام، مقاصد ومدارجِ احکام، دلالتِ احکام)
۴:-حکم کی تفصیل(امر،نہی،تساوی)
قبل الدرس۔۔۔۔۔۔۔بدایۃ الدرس
 ۱-اعدادالدرس(سبق کی تیاری)        ۲-اصطلاحات کاتعارف
۳-مباحث کاحاصل            ۴-تقدیرِ درس
خلال الدرس (توضیح وتطبیق)
۱:-عبارت کی تصحیح                ۲:-ترجمۂ عبارت
۳:-کتاب کی مثالیں
۴:-کتاب کی مثالوں کے علاوہ امثلہ کی تلاش اور بیان کرنا(وہبہ الزحیلی،علی الخفیف، الأشباہ، تقویم الأدلۃ دبوسی)
۵:-اصل کو عام فہم اندازمیں بتایاجائے، پھر فرع ذکر کریںیااس کا عکس کرلیاجائے۔
۶:-اُصولِ فقہ کی اہم اصطلاحات یاد کرائی جائیں (عام، خاص، مطلق، مقید)
۷:-متقارب المفہوم اصطلاحات کے درمیان فرق بتائیں(خاص و معرفہ، عام ونکرہ)
۸:-مباحثِ خمسہ بالاکاتعارف کرائیں،اور موقع بموقع دہرائیں، کس کتاب میں احاطہ نہیں ہے وہ بتائیں اور امتیاز ہے تو اس کی نشاندہی کریں۔ نیز طرقِ اجتہاد کی غیر معروف اصطلاحات مثلاً: تحقیقِ مناط ،تنقیحِ مناط، تخریجِ مناط وطرقِ اجتہادکا تعارف بھی کرایا جائے۔
۹:-احکامِ شرعیہ کے مقاصدِ خمسہ (حفظِ دین، حفظِ نفس،حفظِ نسل،حفظِ مال، حفظِ عقل)کو حسبِ موقع دہرایاجائے، تاکہ عللِ فقہیہ اور اسرارِ شرعیہ کی ابحاث میں فائدہ ہو۔
۱۰:-قدیم طرز پر طلبہ سے تیاری کراکے ’’آمادگی‘‘ کے اُصول کے مطابق کہلوایااور بلوایاجائے۔
بعد الدرس (تفریع وتذییل)
۱:-توضیحی مثالیں                ۲:-آیاتِ احکام سے طرقِ اثبات
۳:-تمرینی سوالات
أُصول الشاشی
اصول الشاشی میں زیادہ تر حصہ دلالۃ الکلام سے متعلق مباحث پر مشتمل ہے۔ ادلہ شرعیہ میں سے ماخذِ اصلیہ اتفاقیہ کا بیان تو ہے، لیکن ماخذِ ذیلیہ اختلافیہ سے بحث نہیں ہے۔اسی طرح مقاصدِ احکام و مدارجِ احکام کا پہلو یہاں نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اصول الشاشی کے طالب علم کو ان بھاری مباحث میں اُلجھانا تدریس کے تدریجی ضابطہ کے خلاف ہے تو یہ بات اپنی جگہ معقول ہے، لیکن خود کتاب کی ابتدائی ابحاث بھی تو ابتدائی طالب علم کے لیے کافی دشوار ہیں۔ جب ان ابحاث سے مناسبت ہوجاتی ہے تو ان ابحاث کے اشارات بھی زیادہ ناموس نہیں رہیں گے۔ اُصول الشاشی فن کی پہلی کتاب ہے، اس کی تفہیم کے لیے درج بالا تفصیل کے علاوہ ’’تسہیل أصول الشاشي للبدخشاني‘‘ اور ’’آسان اُصولِ فقہ‘‘ خالد سیف اللہ رحمانی سے استفادہ کیا جائے۔
نور الأنوار
’’ نور الأنوار‘‘، ’’المنارللنسفی‘‘ کی شرح ہے، اس میں حاکم اور احکام شریعت کے مقاصد و مدارج سے تعرض نہیں فرمایا گیا، تقریباً کتاب کا آدھا حصہ مباحثِ اصول میں سے صرف دلالتِ کلام اور اور اس کی تعریفات اور رد و قدح سے تعلق رکھتا ہے۔ فقہ کے ذیلی اصول و ذیلی ماخذ کا یہاں بھی کوئی اتا پتا نہیں ملتا، البتہ قیاس کے ساتھ استحسان کی بحث قدرے تفصیلی انداز میں مل جاتی ہے۔
یہ کتاب خود ایک اصولی کتاب کی شرح ہے، اس کے لیے زیادہ سے زیادہ شروح کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ’’کشف الأسرار‘‘ سے استفادہ مفیدہے، اور حاشیہ بھی کافی ہے۔
منتخب الحسامي
اس میں ایجاز و اغلاق حل طلب ہے جس کے حل کے لیے ’’النامی‘‘ کو کافی سمجھا جاتا ہے۔البتہ استاذبدخشانی مدظلہم کی تسہیل ’’التیسیر المہذب فی شرح المنتخب‘‘ بہت مفید ہے۔
ممکن ہو توحسامی کو شروع کی بجائے سنت کی بحث سے اختتامِ کتاب تک شامل درس رکھاجائے،ابتدائی حصہ میں توانائی صرف کرنے کی بجائے شاید یہ زیادہ مفید ہو۔
التوضیح والتلویح
توضیح تلویح کامدرس علامہ شوکانیؒ کی ’’إرشادالفحول‘‘ اور شیخ ابوزہرہؒ کی ’’علم أصول الفقہ‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے مختلف مناسبات میں محاضرے کی صورت میں طلبہ کو مستفید فرمائے۔
نیز فقہ اسلامی کے ان ذیلی مآخذ سے ضرورمتعارف کرایا جائے، جو عموماً نوپیش آمدہ مسائل کے لیے بنیادسمجھے جاتے ہیں،جیسے عرف وعادت، سدِ ذرائع،اور مصالحِ مرسلہ وغیرہ کی حقیقت اور ان کا بجا یا بے جا استعمال بتایاجائے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین