بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ذکرِ ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور ماہِ ربیع الاول کے تقاضے

 

ذکرِ ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور ماہِ ربیع الاول کے تقاضے!

 

 

رسول اللہ a سے حضرات صحابہ کرام s کی محبت کسی ثبوت کی محتاج نہیں، چشمِ فلک نے رسول اللہ a کے خدام وجاںنثاران جیسے صاحبِ کمال افراد نہیں دیکھے۔ 

سیدنا علی المرتضیٰ q (متوفی:۴۰ھ) سے کسی نے پوچھا کہ: ’’آپ (صحابہ کرام ؓ) کو رسول اللہ a سے کس قدر محبت تھی؟۔سیدنا علی q نے فرمایا: 

’’اللہ کی قسم! رسول اللہ a ہمیں اپنے اموال، اولاد، باپ، داد اور ماؤں سے بھی زیادہ محبوب تھے۔ کسی پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے جو محبت ہوتی ہے، ہمیں رسول اللہ a اس سے بھی بڑھ کر محبوب تھے۔‘‘

اسی لیے سیدنا ابوسفیان q نے اسلام لانے سے قبل حضراتِ صحابہؓ کی جاںنثاری کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا تھا: 

’’مارأیت من الناس أحدا یحب أحدا کحب أصحاب محمد محمدا۔‘‘

’’میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا کہ دوسروں سے ایسی محبت کرتا ہو جیسی محبت اصحابِ محمد‘ محمد a سے کرتے ہیں۔‘‘                          (معرفۃ الصحابہؓ لابی نعیم، ج:۳،ص:۱۱۸۴)

مولانا ابوالکلام آزاد v لکھتے ہیں:

’’دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا، جیساکہ صحابہ کرامs نے اللہ کے رسول a سے راہِ حق میں کیا، انہوں نے اس محبت میں وہ سب کچھ قربان کر دیا، جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اس راہ سے انہوں نے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے۔‘‘ 

               (ابو الکلام آزادؒ، ترجمان القرآن، کراچی: شیخ غلام علی اینڈ سنز،س-ن جلد:۲،ص:۱۱۹)

صحابیاںؓ کہ برہنہ بہ پیشِ تیغ شدند

خراب و مست بدند از محمدِؐ مختار

’’صحابہ کرامs برہنہ تلوار کے آگے خود کو پیش کردیتے تھے، کیونکہ وہ محمد مختار a کی محبت میں بے خود ومدہوش تھے۔‘‘

رسول اللہ a سے تمام تر محبت کے باوصف ان حضرات کی مقدس زندگیوں سے کوئی ایک مثال ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ عشق کی دارفتگی اور سرمستی میں وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے ہوں اور اظہارِ محبت کے نت نئے انداز وضع کرنے لگے ہوں۔ اطاعت کس طرح محبت کے بے محابا اظہار کی راہ میں کھڑی ہوکر حقیقی عشق کا ثبوت پیش کرتی ہے، اس کی صداقت صحابیِ رسول ؐ سیدنا حضرت انسq کے ایک بیان سے ملاحظہ فرمایئے، وہ فرماتے ہیں:

’’لم یکن شخص أحب إلیہم من رسول اللّٰہ a وکانوا إذا رأوہ لم یقوموا لما یعلمون من کراہیتہٖ لذلک۔‘‘        (جامع الترمذی، کراچی: قدیمی کتب خانہ، جلد: ۲، ص:۱۰۴)

’’ہمیں رسول اللہ a کی ذاتِ گرامی سے بڑھ کر کوئی بھی محبوب نہ تھا، مگر ہم آپ a کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ ہم جانتے تھے کہ یہ بات آپ a کو پسند نہیں ہے۔‘‘

دین کے لیے لازم ہے کہ شریعت‘ احوال وکیفیات اور مابعد الطبیعیات پر غالب اور حَکَم رہے۔ مقصودِ شریعت رضائے حق کے اسباب میں خلل اندازی سے محفوظیت ہے۔ اور محبوبِ خداa کی طبعی محبت کے علاوہ تشریعی اُمور میں مکمل اتباع واطاعت کا نام ہی حقیقی محبت ہوسکتا ہے، اسی لیے حضراتِ فقہاء ؒ جو رمز آشنائے شریعت ہیں، فرماتے ہیں کہ: التزام خواہ اعتقادی ہو یا عملی، دونوں کے لیے اذنِ شریعت ضروری ہے اور یہی مسلک محقق صوفیہ کا ہے، شیخ سعدیv فرماتے ہیں :

مپندار سعدی کہ راہِ صفا

تواں رفت جز درپے مصطفی

خلافِ پیمبر کسے رہ گزید

کہ ہرگز بہ منزل نہ خواہد رسید

’’سعدیؒ! اس گمان میں مت رہنا کہ راہِ اخلاص حضرت محمد مصطفی a کی اتباع کے بغیر طے ہوسکتی ہے، جو شخص رسول اللہ a کے خلاف راستہ اختیار کرے گا، کبھی منزلِ مراد تک نہ پہنچ سکے گا۔‘‘

آپ a کی ولادت سے لے کروصال تک ایک ایک واقعے کا ذکر اور رُخِ مصطفی a کی ایک ایک جھلک کا تذکرہ سرمۂ چشمِ بصیرت، رحمتِ الٰہی اور برکاتِ ربانی کے نزول کا موجب ہے۔ ایک مسلمان کے لیے تو رسول اللہ a سے وابستہ ومتعلق اشیاء کا تذکرہ بھی عین عبادت ہے، خواہ ان کی ظاہری حیثیت کیسی ہی فروتر کیوں نہ ہو۔ جب رسول اللہ a سے نسبت رکھنے والی چیزوں کا تذکرہ عین عبادت ہوا تو آپ a کا ذکرِ ولادت کیوں باعثِ تسکینِ ایمان نہ ہوگا؟ دنیا کا کوئی مسلمان، خواہ اس کا تعلق کسی مکتبِ فکر سے ہو، آپ a کے ذکرِ ولادت اور اس ماہِ مقدس سے- جب آپ a عالمِ قدس سے عالمِ امکان میں رونق افروز ہوئے- تَنفُّر اختیار نہیں کرسکتا۔ امام اہلِ سنت مولانا عبد الشکور لکھنویv (متوفی:۱۳۸۳ھ) النجم، لکھنو، دورِ جدید، ربیع الاول ۱۳۵۰ھ میں لکھتے ہیں:

’’بعض جُہلاء نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی گروہ حضور انور a کے ذکرِ مولد شریف کو بدعت کہتا ہے۔میرے خیال میں وہ مسلمان‘ مسلمان ہی نہیں جو حضورِ پاک a کے تذکرے کو منع کرے یا برا کہے۔ مولد شریف کا بیان طبعاً اور شرعاً ہر طرح سے عبادت ہے، بلکہ ہم خستہ جانوں کے لیے یہی تذکرہ باعثِ بالیدگیِ حیات اور غذائے روح ہے۔ جو شخص آپ a کے ذکر شریف کو منع کرے، یا بدعت قرار دے ہمیں اس کے خارج از اسلام ہونے میں ذرہ بھر کلام نہیں۔‘‘ 

(محمد عبد الحی فاروقی، علامہ عبد الشکور لکھنویؒ: حیات وخدمات، لاہور:ادارہ تحقیقاتِ اہل سنت، ۲۰۰۹ئ، ص:۶۰۰-۶۰۱)

رسول اللہ a کی ولادت وطفولیت کے واقعات کا بیان ایمان کی پختگی اور رُسوخ کا ذریعہ اور شروع سے صحابہ کرامs اور سلفِ صالحین سے ثابت ہے۔ باعثِ نزاع تو مروجہ محافلِ میلاد ہیں، جسے پہلے ’’میلادُ النبیؐ  ‘‘ اور اب ’’عیدِ میلاد‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ رسول اللہ a کا یومِ ولادت ہرسال آتا تھا، لیکن حضراتِ صحابہؓ سے لے کر چھٹی صدی تک التزاماً محافلِ میلاد کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ اُس کے اسباب ومحرکات سب موجود تھے۔ ویسے لوگوں میں آنحضرت a کی ولادت وطفولیت اورمعجزات وخصائص کا تذکرہ رہے تو یہ کوئی امرِ نا مشروع نہیں، بلکہ مندوب، جائز اور مستحسن ہے۔ جب تک اس سلسلے میں افراط وتفریط نہیں تھی، اہلِ سنت کے یہاں ولادتِ نبوی (l) کا تذکرہ مباح ومستحب حیثیت سے تاریخی حقیقت کے طور پر کیا جاتا تھا۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویv (متوفی:۱۳۶۲ھ) فرماتے ہیں کہ:

’’حضرت مولانا شاہ فضل رحمن صاحب گنج مراد آبادی قدس سرہٗ[ متوفی:۱۳۱۳ھ] سے کسی نے کہا: حضرت! مولود سننے کو جی چاہتا ہے، فرمایا: لو ہم اَبھی سناتے ہیں، یہ کہہ کر کھڑے ہوئے اور نہایت مزے سے یہ شعر پڑھا:

تر ہوئی باراں سے سوکھی زمیں

یعنی آئے رحمۃ للعالمینa

(اشرف علی تھانویؒ، مواعظِ میلاد النبیؐ، لاہور، المکتبۃ الاشرفیہ، ۱۹۹۲ئ، ص:۲۲۶۔۲۲۹)

مولانا نے بتلادیا کہ ہم ذکرِ ولادت کے منکر نہیں، بلکہ تخصیصات وقیودات کے منکر ہیں۔

رفتہ رفتہ اس میں قیود لگتی گئیں، اہتمام وانصرام بڑھتا گیا اور مسئلہ اباحت واستحباب سے وجوب تک لے جایا گیا اور حق وباطل کے مابین نشانِ امتیاز بنادیاگیا، ان محافل کا تارک‘ رسول اللہa کا گستاخ اور دائرۂ سُنیت سے خارج قرار دیا جانے لگا۔ قاضی فضل احمد صاحب اپنی کتاب ’’انوارِ آفتابِ صداقت‘‘ جو مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم سمیت چالیس بریلوی علماء کی مصدقہ ہے، میں فرماتے ہیں:

’’پہلے زمانے میں مولود شریف کا کرنا صرف مستحسن یا مستحب اور مسنون تھا، لیکن اب اس زمانے میں (علماء نے) اس کو ضروری تصور کرکے فرضِ کفایہ تحریر فرمایا ہے۔‘‘   (ص:۳۹۸)

مباح، سنت، واجب اور فرض یہ سب شرعی درجات ہیں، جن کا تعین شریعت ہی کر سکتی ہے، امرِ مستحب کو اصرار سے وجوب کے درجے تک لے جانا نہایت سنگین جسارت اور مداخلت فی الدین ہے۔ علامہ ابراہیم حلبیv (متوفی:۷۳۵ھ) علامہ طیبیv (متوفی:۷۴۳ھ) حافظ ابن حجر عسقلانیv (متوفی:۸۵۲ھ) علامہ ابن نجیمv (متوفی:۹۶۹ھ) علامہ طاہر پٹنیv (متوفی: ۹۸۶ھ) اور ملا علی قاریv (متوفی:۱۰۱۴ھ) کی تصریحات دیکھنے والے جانتے ہیںکہ یہ سب حضرات قاطبۃً اس پر متفق رہے ہیں کہ شریعت کے کسی حکم کو اس کے درجے سے اوپر نہیں لایاجاسکتا، مندوبات اپنے مرتبے سے اوپر اُٹھا دینے سے مکروہات بن جاتے ہیں۔

دین جذبات کا نام نہیں ہے، رسول اللہ a سے غایت درجے عشق ومحبت کے اظہار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا دائرہ ضد اور معکوس تک وسیع کردیا جائے۔ حقیقی محب‘ کامل متبع ہوتا ہے، وہ محبت کی روانی اور جوش وخروش میں فکر وہوش کا دامن نہیں چھوڑتا، بلکہ محب کے اظہار کے سب طریقے محبوب کے مزاج کی رعایت اور مطاع کے بیان فرمودہ آداب وہدایات کے تحت ہی بجالاتا ہے، اس میں اپنی طرف سے اضافے یا ازالے کو روانہیں جانتا، اُسے معلوم ہے کہ نگاہِ محبوب میں اِضافہ ’’بدعت‘‘ ہے اور اِزالہ ’’الحاد‘‘ ہے۔ حضرت ملا علی قاریv (متوفی:۱۰۱۴ھ) لکھتے ہیں:

’’والمتابعۃ کما تکون فی الفعل تکون فی الترک أیضاً ، فمن واظب علٰی فعل لم یفعلہ الشارع فہو مبتدع۔‘‘         (ملا علی قاریؒ، مرقات المفاتیح، ملتان: مکتبہ امدادیہ، س-ن، جلد:۱، ص:۴۱)

’’اور پیروی جس طرح کسی کام کے کرنے میں ہوتی ہے، اسی طرح کسی کام کے نہ کیے جانے میں بھی ہوتی ہے، سو جو شخص کسی کام کو اہتمام سے کرے اور رسول اللہ a نے ایسا نہ فرمایا ہو تو وہ بدعتی ہے۔‘‘

آنحضرت a کا ذکرِ ولادت ایک امر مستحب تھا۔ خود مولانا عبد السمیع صاحب رام پوری کو اعتراف ہے کہ حضراتِ صحابہؓ وسلفِ صالحین میں آپ a کے تذکرۂ ولادت کے باوجود امرِ اجتماعی کی کوئی شکل موجود نہ تھی، وہ صاف لفظوں میں اقرار کرتے ہیں:

’’حضرت a نے ماہِ ربیع الاول میں کوئی عمل مقرر نہیں فرمایا۔‘‘ 

                             (انوارِ ساطعہ دربیانِ مولود وفاتحہ، مراد آباد، مطبع نعیمیہ، س-ن، ص:۱۷۰)

اسلام کی ابتدائی چھ صدیاں جو علم وعمل اور عشق ومحبت کے لحاظ سے مسلمانوں کے عروج کا زمانہ ہے، ولادت کی اجتماعی خوشی کے جلسوں اور حلقوں سے خالی رہیں، ساتویں صدی ہجری میں اسے ایک بادشاہ نے جشن کے طور پر پہلی مرتبہ منایا، عمر بن دحیہ کے سوا کسی نے اس کا ساتھ نہ دیا، بلکہ علماء نے صراحت کی کہ کسی مباح یا مندوب کو اس کے درجے سے اوپر نہیں لایاجاسکتا، تو آج اسے فرضِ کفایہ کیسے قرار دیاجاسکتا ہے؟ اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ صرف یومِ ولادت پر اجتماعی خوشی کا اہتمام والتزام ہی نہیں کیاجاتا، بلکہ اُسے ایک مستقل تہوار کی صورت میں منایاجاتا ہے اور ’’عید‘‘ کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے۔ اب تک اہل سنت والجماعت کہلانے والوں میں یہ جرأت کسی کو نہیں ہوئی تھی۔ عید ایک اسلامی اصطلاح ہے، جس کا انطباق کسی بھی غیر منقول رسم پر اپنی مرضی سے نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تحریف فی الدین اور روافض کا شعار ہے۔ شیعہ حضرات کے ہاں ’’عیدِ بابا شجاع، عیدِ نوروز، عیدِ غدیر، عیدِ مباہلہ، عیدِ میلاد امام العصر والزمان‘‘ کے نام سے کئی عیدوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ علمائے اہل سنت نے ہمیشہ اُسے اِحداث فی الدین سمجھتے ہوئے اس کی تردید ومخالفت کی ہے۔ ماضی قریب میں لاہور کے ایک مشہور عالم، مولانا غلام دستگیر نامی(۱) (متوفی: ۱۳۸۱ھ)نے روافض کی ان خود ساختہ عیدوں کے رد میں ایک مستقل کتاب بہ عنوان ’’اسلامی اور شیعی عیدیں‘‘ (مطبوعہ: لاہور ، کریمی سٹیم پریس، ۱۳۴۴ھ) تحریر فرماکر واضح فرمادیا کہ اسلام نے تمام تہواروں کی نفی فرماتے ہوئے مسلمانوں کو دو تہوار عطا کیے: عید الفطر اور عید الاضحی۔ مسلمانوں نے ان دو تہواروں کے سوا کسی واقعے کو ’’ہرسال عَود کرنے والی خوشی‘‘ نہیں بنایا، یہ دونوں عیدیں خوشیوں کے ساتھ ساتھ عبادات بھی ہیں، جس کا تعین شریعت ہی کرسکتی ہے۔ اس کے برعکس رسول اللہ a کا یومِ ولادت ایک ایسا تاریخی واقعہ اور عظیم الشان دن ہے جو ایک ہی دفعہ وقوع پذیر ہوا، اس کی عظمت اور شان ہرسال آنے والے ربیع الاول کو نہیں دی جاسکتی، اس دن کی عظمت اور اختصاص ہی یہی ہے کہ وہ عدیم النظیر ہے، جس کی برکت سے اور صدقے میں مسلمانوں کو یہ دو عیدیں 

 

(۱)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا غلام دستگیر نامی کے حالات وکمالات کو ایک سنی بریلوی عالم کی حیثیت سے مولانا عبد الحکیم شرف قادری نے اپنی کتاب ’’تذکرۂ اکابر اہل سنت‘‘ مطبوعہ، لاہور: فرید بک سٹال، ۲۰۰۰ئ، ص:۳۳۱۔۳۱۴ میں درج فرمایاہے۔

عطا ہوئی ہیں۔ ہاں! اس سہانی گھڑی اور فقید المثال وقوعے کا ذکر تاریخی پیرائے میں جب چاہے کیا جاسکتا ہے، جو باعثِ مسرت وابتہاج اور وجہِ تسکینِ ایمان ہے۔ لیکن صد افسوس ہے کہ اسی تجدد پسندی کا مظاہرہ آج بعض حلقوں سے ہورہا ہے اور اُسے شعارِ سُنیت باور کرایا جارہا ہے کہ ’’عیدِ میلاد النبی ؐ   ‘‘اسلام کی سب سے بڑی اور اَولین عید ہے۔

کوئی بدعت تنہا نہیں آتی، بلکہ بہت سی نئی بدعتوں کے ظہور کا سبب بنتی ہے اور بہ نصِ حدیث سنتوں کے اُٹھ جانے کا سبب بھی:

’’ما أحدث قومٌ بدعۃً إلا رفع مثلہا من السنۃ۔‘‘

                         (احمد بن حنبلؒ، مسند احمد، بیروت: مکتب اسلامی ۱۳۹۸ھ جلد:۴، ص:۱۰۵) 

’’جو قوم کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے اس سے اسی طرح ایک سنت اُٹھالی جاتی ہے۔‘‘

عصرِ حاضر میں محافلِ میلاد کی جو صورت وہیئت ہے، وہ کتاب وسنت تو درکنار خود مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم (متوفی:۱۳۴۱ھ) ہی کی تصریحات کے عین منافی و مخالف ہے۔ جن حرکات وسکنات کا التزام آج محافلِ مولود میں ہوتا ہے، مولانا احمد رضا خان نے سختی کے ساتھ اُن اعمال سے منع فرمایا تھا، مولانا کی ایک ہی کتاب سے ان ہدایات کی تلخیص معہ حوالہ ہدیۂ قارئین ہے:

۱- ایسی محافل ہر قسم کے ناجائز اُمور سے پاک ہوں، بالخصوص ان میں مزامیر، گانے، باجے بالکل نہ ہوں۔ (احمد رضا خان، احکام شریعت (کامل)، کراچی: مدینہ پبلشنگ کمپنی (س-ن)، صفحات: ۶۰-۶۵)

۲- مجمعِ زنان نہ ہو کہ عورتیں بغیر محرم کے کسی غیر محرم کے گھر جاکر شامل ہوں، یہ بھی اس ذکر کے آداب کے خلاف اور ناجائز ہے۔                          (ایضاً، صفحات:۲۸۸-۲۹۰)

۳- ان محافلِ مبارکہ میں اَمارد یعنی بے ریش لڑکے نہ ہوں۔               (ایضاً،صفحہ:۲۲۵)

۴- اُجرت پر میلاد کرانا جائز نہیں، آدابِ محفل کے خلاف ہے۔   (ایضاً، صفحات:۱۴۴-۱۴۶)

۵- ذکرِ مبارک نہایت خلوص سے ہونا چاہیے، کوئی حال بناوٹ پر نہ ہو، نہ کسی کی نیند خراب ہو، نہ مریض کو ایذاء پہنچے اور نہ کسی کی نماز میں خلل واقع ہو۔       (ایضاً، صفحات:۱۷۴،۱۷۵)

مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی مرحوم کی بیان فرمودہ تصریحات اور آداب وہدایات کے بالمقابل، عہدِ حاضر میں منعقد ہونے والی محافلِ مولود کا جائزہ لے لیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ اب ان محافل کا مقصد رسمی مظاہرے اور نمائشی کارروائیاں ہی رہ گیا ہے۔ سیرتِ طیبہ (l) اور ذکرِ رسول اللہ a کی حقیقی روح جو اِن محافل کے قیام کا اصلی مقصود تھا، الا ماشاء اللہ! اب عنقاء ہے۔ اس سلسلے میں چند نکات پر غور کر لینا ہی کافی ہوگا:

۱ - عہدِ حاضر میں ان محافل کا اصلی مقصود، مختلف ادیان کی تقلید اور ان کے سامنے اس احساس کمتری کا ازالہ ہے کہ ہم بھی اپنے نبی کا یومِ ولادت بہ صورتِ جشن منا سکتے ہیں۔ یہ صورتِ حال نحیف ونزار اعصاب کی تسکین کا ایک سبب ہے، اور ان ادیان وملل سے حد درجے مرعوبیت کا ثبوت ہے۔ بہ ظاہر یہ طرزِ عمل کیسا ہی خوش نما معلوم ہو اور محبت کے اظہار کا قوی ذریعہ نظر آئے،لیکن یہ رونقیں اور زینتیں اس فطری سادگی اور اخلاص سے میل نہیں کھاتیں جو اسلام کی عطا ہے۔ اسی لیے اُمت کے مجموعی مزاج نے ا س طرزِ عمل کو کبھی قبول نہیں کیا۔

۲- ان محافل میں عموماً عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہوتا ہے، عورتیں مردوں کے دوش بہ دوش بے محابا، بلاحجاب، زینت وآرائش کے ساتھ شریکِ محفل ہوتی ہیں، خصوصاً ذرائعِ ابلاغ کی آزادی اور ترقی نے جس طرح ہمتیں بڑھائی ہیں، نوجوان لڑکیاں برہنہ سر، بزعمِ خود بڑے جذبۂ تقدس کے ساتھ بڑے ترنم اور خوش گلولی کے ساتھ نعتیں سامعینِ کرام کی سماعتوں کی نذر کرتی ہیں۔

۳- میلاد کے نام پر کی جانے والی تقاریر کا موضوع، الا ماشاء اللہ! تطہیرِ عقائد، درستگیِ اعمال، رسول اللہ a کی ذاتِ گرامی کے ساتھ محبت کے جذبے کو اُبھارنے اور آنحضرت a کے طفیل اپنی زندگیوں میں موجود اندھیروں کو اُجالنے کی مسلسل اور پیہم جد وجہد کی تلقین نہیں ہوتا، بلکہ ان مجالس میں دیگر مسالک ومکاتب -جو اِن التزامی واجتماعی محافلِ میلاد پر اصرار سے اختلاف رکھتے ہیں- پر طعن وتشنیع اور سب وشتم کے مظاہر زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں۔

۴- جوشِ مسرت اور فرطِ عقیدت میں آپے سے باہر ہوجانا‘ عشاق کا شیوہ نہیں، آج ان محافل کے نام پر بڑے بڑے جلوس نکالے جاتے ہیں، قائدینِ جلوس گلے میں ہار ڈالے ہوتے ہیں، نوجوان سرِعام اپنے علماء کی موجودگی میں مبتذل حرکات کا ارتکاب کرتے ہیں، بھنگڑا ڈالتے اور ناچتے ہیں۔

۵- مولانا احمد رضا خان نے تصریح فرمائی تھی کہ محافلِ میلاد میں بے ریش لڑکے شریک نہ ہوں، لیکن ہر شخص مشاہدہ کرسکتا ہے کہ ان محافل میں اَمارد شریک ہوتے ہیں، خصوصاً گزشتہ چند سالوں سے ایک منظم کوشش کے تحت ہرسال گلیوں اور محلوں سے بے ریش لڑکوں پر مشتمل کئی جلوسوں کا جھنڈے اُٹھائے اور غلط سلط نعتیں پڑھتے ہوئے ہر پاک ناپاک مقام پر گھومنا اور جھومنا معمول بنا ہوا ہے۔

۶- مروجہ محافلِ میلاد کا سب سے بڑا ’’کارنامہ‘‘ یہ ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول کو جگہ جگہ بیت اللہ شریف اور روضۂ منورہ کی شبیہ بنائی جاتی ہے۔ بڑے بڑے چوکوں پر سانگ بناکر رکھے جاتے ہیں، عوام اُن پر نذرانیں پیش کرتے ہیں، منتیں مانتے ہیں، بوسہ لیتے ہیں، طواف کرتے ہیں اور شبیہِ روضۂ اطہر کے سامنے صلوٰۃ وسلام پیش کرتے ہیں، یہ سب کچھ علماء کی موجودگی ونگرانی میں ہوتا ہے۔ ہزاروں روپیہ اس پر خرچ کیا جاتاہے، اس سے ہونے والی اسراف وتبذیر تو رہی ایک طرف، اگرچہ اس کا وبال بھی کچھ کم نہیں ، لیکن اگربہ نظرِ عمیق دیکھا جائے تو یہ عمل کئی سنگین اُمور کا سبب ہے۔

اول:۔۔۔۔۔۔ یہ فعل روافض کی تقلید ہے۔ شیعہ حضرات سیدنا حسینq کی یاد میں تعزیہ، دلدل اور علَم نکالتے ہیں۔ اگر بیت اللہ اور روضۂ منورہ (l) کی شبیہ بنانا جائز ہے، اس کا سوانگ بناکر بازاروں میں پھرانا ٹھیک ہے تو روافض کے تعزیے اور دلدل کا سوانگ رچانا کیوں غلط ہے؟! اور کیا آج ان شبیہوں کے نکالنے سے روافض سے مشابہت نہیں پائی جارہی؟! اور کیا یہ اُن کی ایجاد کردہ بدعت کی تقلید کرکے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے کی کوشش نہیں ہے؟!

دوم:۔۔۔۔۔۔ یہ روضۂ اطہر(l) اور بیت اللہ کی شبیہ تعزیے کی طرح جعلی اور مصنوعی ہیں، جن شبیہوں پر ۱۲؍ ربیع الاول کو مقدس جان کر نذرانیں چڑھائے جاتے ہیں، اگلے روز خود اپنے ہی ہاتھوں سے اُنہیں توڑدیا جاتا ہے۔ کیا اس مصنوعی وجعلی شبیہ سے خیر وبرکت کا حصول جاہلیتِ جدیدہ نہیں؟ اور خیر وبرکت کا صدور مان لینے کے بعد اُنہیں توڑدینا توہین نہیں؟ یہ اُن سنگین بدعنوانیوں کی ایک مختصر سی فہرست ہے جن کا ارتکاب آج کل ’’میلاد النبیؐ   ‘‘ کے مقدس نام پر ’’سُنیت‘‘ کی علامت جان کرکھلے بندوں کیاجاتا ہے:

چہ دِلاور اَست دُزدے کہ بکف چراغ دارد

’’کیا دلیر چور ہے کہ ہاتھ میں چراغ لیے ہوئے ہے۔‘‘

کیا یہی وہ جذبۂ ذکرِ ولادت ہے جو اسلام کے مزاج اورروح کے ساتھ ہم نوا ہے؟! رسول اللہ a کے نامِ نامی کے زیر سایہ منعقد ہونے والی محافل اور آپ a کے ذکرِ جمیل سے مشامِ جان وایمان کو معطر ومنور کرنے والی مجالس کے آداب اور رنگ ڈھنگ یہی ہوتے ہیں؟

ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزیدؒ ایں جا 

جناب کوثر نیازی مرحوم نے جو اِن التزامی محافلِ میلاد پر بریلوی مسلک کے ہم سنگ ہیں، خود انہوں نے آدابِ محفل سے بے پروائی کو ناروا، ناجائز، نامعقول اور غیر اسلامی حرکات قرار دیتے ہوئے اس کی نہایت درست وجہ تحریر فرمائی ہے:

’’پوری سنجیدگی اور سچائی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہم صدیوں سے بزرگوںکے عرس اور میلے کچھ اس انداز سے منانے کے عادی ہیں اور غیر شعوری طور پر ’’عید میلاد النبی ؐ  ‘‘ کو بھی ہم نے اسی قسم کے میلوں میں سے ایک میلہ سمجھ لیا ہے۔ یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ ’’عیدِ میلاد‘‘ کا جلوس حال ہی کی پیداوار ہے اور بانیِ جلوس کے بہ قول یہ ہندوؤں کی رام لیلا کے جواب میں ایجاد کیا گیا تھا، اس لیے جوش وخروش، شان وشوکت، اور دبدبے وطنطنے کے لیے اس میں کچھ باتیں شامل ہوگئیں جو اسلام کے مزاج کے موافق نہ تھیں، لیکن جنہوں نے اب روایت کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یہ وجہ بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ بیان کی جاسکتی ہے کہ جذبات کے اخراج کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ ملنا چاہیے۔ اتنے بڑے ہجوم پر قابو پانا اور اُسے نظم وضبط کا پابند بنانا ممکن نہیں ہوتا۔ تفریح کے بھوکے اور ہاؤ ہو کے ذریعے جذبات کے اخراج کے متلاشی لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہیں اور اس قسم کی حرکتیں کرجاتے ہیں، لیکن ان تمام وجوہ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ سب مٹ کر ایک نقطے پر مرکوز ہوجاتی ہیں کہ صبح  وشام اسلام کے غلغلۂ بلند کے باوجود ہم اپنے آپ کو اسلام کے مزاج کے مطابق منظم نہیں کرسکے۔ ہم کلمۂ طیبہ پڑھنے، پیغمبر اسلام a کی عزت وحرمت پر قربان ہوجانے کے لیے ہردم تیار رہنے اور پورے فخر کے ساتھ سینہ تان کر اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے باوجود ان ذمے داریوں اور فرائض کو نہیں سمجھ سکے، جو یہ دعوے اور یہ جذبات ہم پر عائد کرتے ہیں۔‘‘                        (کوثر نیازی، ذکر رسول a، کراچی، جنگ پبلشرز، ۱۹۸۹ئ، ص:۱۲۹)

بہرحال سارے اَدوار اور تمام اشخاص ایک جیسے نہیں ہوتے۔ آج بریلوی حلقے کے سنجیدہ صاحبانِ علم اور اہلِ قلم بھی اس طرزِ عمل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صورتِ حال کی اس سنگینی اور عشقِ رسول (a) کے نعوذ باللہ! گستاخانہ مظاہر کا ذمے دار کون ہے؟ کیا یہ تمام خرافات اور شوروشر علماء کی نگرانی میں دیوبندیوں اور اہلِ حدیث حضرات کے بالمقابل ’’شعارِ سُنیت‘‘ بناکر پیش نہیں کیا جاتا رہا؟ اور اُنہیں جو اس خود تراشیدہ اور نوایجاد ’’شعارِ سُنیت‘‘ سے اختلاف رکھتے ہوں، دشمنانِ رسول باور نہیں کرایا جاتا رہا؟ ورنہ یہ حقیقت ہے کہ اُمتِ مسلمہ کی مسلسل روایت، موجودہ صورتِ حال سے قبل ذکرِ ولادتِ مصطفی (a) کے حوالے سے ہمیشہ متحد رہی ہے، ان میں کبھی انتشار وافتراق پیدا نہیں ہوا۔ ولادت کے ذکر کا اہتمام کرنے والے اُسے واجب نہ سمجھتے تھے اور نہ کرنے والے تقییدِ مطلق کے قائل نہ تھے۔ جب اس میں قیود لگتی گئیں اور اہتمام بڑھتا گیا اور اُسے تیسری عید کے طور پر متعارف کیا جانے لگا، تب علمائے اہلِ سنت نے محض صیانتِ شریعت کے لیے، رسول اللہa کے حکم کے بہ موجب حکمِ شرعی جاری کیا، رسول اللہ a کا ارشاد ہے کہ:

’’إذا أحدث فی أمتی البدع وشتم أصحابیؓ فلیظہر العالم علمہٗ ، فمن لم یفعل فعلیہ لعنۃ اللّٰہ والملٰئکۃ والناس أجمعین۔‘‘ 

                       (ابو اسحاق الشاطبی، الاعتصام، بیروت: دار الکتب العلمیۃ س-ن، ج:۱،ص:۵۸)

’’جب میری اُمت میں بدعات شائع ہوجائیں اور میرے صحابہ ؓ  کو برا بھلا کہا جانے لگے، عالم پر لازم ہے کہ (ان محدثات وخرافات کی تردید میں) اپنا علم ظاہر کرے، جو ایسا نہ کرے، اس پر اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت۔‘‘

حضرات علمائے اہلِ سنت نے ہمیشہ بدعات کی ظلمتوں کے بالمقابل سنت کے چراغ جلائے ہیں اور صحابہ کرامs پر تبرے کے جواب میں تَوَلّٰی کی اذان دی ہے، تحفظِ سُنت اور ردِ بدعات کی ان ہی متعدد کاوشوں اور مستعد محنتوں نے اُمتِ مسلمہ کے مجموعی مزاج کو جادۂ مستقیم سے کبھی بھٹکنے نہیں دیا۔ گستاخِ رسول کا ٹائٹل اور مولود النبی a کے بیان کے انکار کا الزام تو یاروں کی طرف سے ان بدعات وخرافات کی تردید کا جواب تھا، جو اَب بالکل ہی سرد پڑ چکا ہے، شکوک وشبہات کے بادل اب پوری طرح چھٹ چکے ہیں، لیکن الحمد للہ! حضرات علمائے اہلِ سنت نے ان الزامات واتہامات کی کبھی پروانہ کی اور شرک وبدعات کے مقابلے میں حق کی حجت کو تمام کیا۔ حافظ ابن تیمیہv (متوفی:۷۲۸ھ) اور علامہ شاطبیv (متوفی:۷۹۰ھ) سے لے کر حضرت مجدد الف ثانیv (متوفی:۱۰۳۵ھ)، شاہ ولی اللہ دہلویv (متوفی:۱۱۷۶ھ)، شاہ اسماعیل شہیدv، مولانا رشید احمد گنگوہیv (متوفی:۱۳۷۱ھ)، مولانا عبد الغنی شاہ جہاں پوریv، مولانا محمد منظور نعمانیv (متوفی:۱۴۱۷ھ) مولانا سرفراز خان صفدرv اور علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہم نے بدعت کے ظلمت کدے میں ہمیشہ سنت کے چراغ روشن کیے اور کسی بھی الزام واتہام کی پروا نہ کی اور جہاں تک مولود شریف اور صلوٰۃ وسلام کا تعلق ہے، وہ ان حلقوں میں حدودِ شریعت کے مطابق برابر جاری رہا، اس لیے کہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ رقیبوں کے خوف سے محبوب کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔ حکیم الامت، مجددُ الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویv(متوفی: ۱۳۶۲ھ) فرماتے ہیں:

’’میرا اکثر مذاق یہ ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں حضور a کے متعلق کچھ بیان کرنے کو جی چاہتا ہے، کیونکہ یہ مہینہ حضور a کی ولادت وتشریف آوری کا ہے۔ اس وقت حضور a کی یاد تقاضے کے ساتھ دل میں پیدا ہوتی ہے اور ایک خاص تحریک حضور a کے ذکر کی ہوتی ہے۔ اگر اس کے ساتھ منکرات منضم نہ ہوتے، تو اس ماہ یہ حالت اور اس حالت میں آپ a کا ذکر علامتِ محبت ہوتی، مگر افسوس ہے کہ منکرات کی وجہ سے اہلِ فتویٰ کو اس ذکرکی ہیئتِ مخصوصہ سے روکنے کی ضرورت ہوئی، ورنہ یہ مسئلہ فی نفسہا اختلافی ہونے کے لائق نہ تھا، مگر اہلِ فتویٰ کو روکنے کی ضرورت ہوئی کہ یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ دفعِ مضرت جلبِ نفع سے مقدم ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو حضور a کی محبت حاصل ہے، اس لیے اس کی تبلیغ وجوب کے درجے میں نہیں ہے، صرف مستحب اور اَحبُّ المستحبات ہے اور منکرات سے بچنا واجب ہے، تو اس حالت میں حضور a کا ذکر اسی وقت مستحب ہوسکتا ہے، جب کہ منکرات سے خالی ہو۔‘‘ 

              (اشرف علی تھانویؒ، مواعظ میلاد النبی، لاہور: المکتبۃ الاشرفیہ، ۱۹۹۲ء صفحات:۱۸۴-۱۸۵)

رسول اللہ a کی شانِ اقدس میں عظمت ومحبت کے پھول بچھانا اور عقیدت کا نذرانہ پیش کرنا ادبیاتِ تاریخ اسلامی کا روشن اور نمایاں عنوان رہاہے۔ مسلمان مصنفین وشعرانے جذبۂ محبت کی سرشاری وبے تابی، تاثیرِ عشق اور محبوبِ دوجہاں(a) سے دوری کو مہجوری کے عالم میں زورِ تعبیر اور حسنِ تصویر کے ساتھ بیان کرنے میں قلب وقلم اور نظر ووجدان کی مکمل اور اعلیٰ صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے، لیکن اب مغرب کے نئے اہداف میں ’’کلچرل اسلام‘‘ کے تصور نے ان پاکیزہ ومقدس نعتیہ محافل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر اسلام کو ثقافتی مذہب باور کرانے کی باضابطہ کوشش شروع کر رکھی ہے۔ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے ذریعے اس منصوبے کے مسلم دنیا میں انجداب کی راہیں استوار کی جارہی ہیں، تاکہ اسلامی دینی تعلیمات کا وہ حصہ جو معاشرت، ریاست اور حکومت سے متعلق ہے،جسے مغرب سخت ناپسند کرتے ہوئے ’’سیاسی اسلام‘‘ کہتا ہے، اُسے تبدیل کرکے اس کا نیا چہرہ متعارف کروایا جائے۔ تبدیلی کی اس کوشش کا نیا نام ’’اسلام کا ثقافتی چہرہ‘‘ ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کی اس آفاقیت کو مغربی اہداف وعزائم کے مطابق مقامی سازورنگ کے بدلنے کی اس سازش میں چالاکی یا نادانی سے مسلم برادران ہی استعمال ہورہے ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے پہلے مرحلے میں گلوکاروں کا ایک گروپ ترتیب دیاگیاہے جو ناکام ہوگیا، لیکن امریکی محکمۂ اطلاعات اسلام آباد کا ترجمان[خبرونظر]، ’’کلچرل اسلام‘‘ کی کامیابی کا دعویٰ کرتا ہے، اس کا کہنا ہے:

’’گلوکاری میں ریپ (Rap) کا انداز مکمل طور پر امریکی انداز ہے اور ہرعمر کے لوگوں میں مقبول ہے۔ یہ تین نوجوان واشنگٹن ڈی سی کے مضافات سے تعلق رکھتے ہیں اور نوجوان مسلمانوں کو اپنے فن کے ذریعے ان کے عقیدے پر عمل کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں ’’NativeDeem ‘‘نامی اس گروپ کی آواز اور موسیقی امریکی نوجوانوں میں بہت پسند کی جاتی ہے، لیکن ان نغمات میں منشیات اور تشدد کے بدنام موضوعات کے بجائے نیکی کا پیغام ہوتا ہے۔ یہ گروپ اسلامی کانفرنسوں، عطیات جمع کرنے کی تقریبات، شادی بیاہ اور چھٹی کی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ کہیں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، جہاں مذہبی تفریح کی ضرورت ہو۔ وہ نائٹ کلبوں، شراب خانوں، ڈسکو اور ایسی جگہوں پر جانے سے گریز کرتے ہیں جہاں اسلام میں ممنوعات جیسے: شراب نوشی، رقص وسرود اور موسیقی کی بہت سی دوسری اقسام موجود ہوں۔ ان کے اکثر نغموں کے موضوعات امریکا میں پلنے بڑھنے والے مسلمان، صبح کی نماز اور عبادت کو یاد رکھنے کی تلقین اور مادی آلائشوں سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے مذہب کی پیروی کے متعلق ہوتے ہیں۔ تینوں گلوکاروں نے یہ گروپ ۲۰۰۰ء میں تشکیل دیا تھا، اس سے پیش تر وہ اکٹھے یا الگ الگ مسلم یوتھ آف نارتھ امریکا کی تقریبات میں اور دیگر مذہبی مواقع پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں۔ اس شہرت کے لیے وہ ریڈیوکے ایک پروگرام ’’آن دی سین ودینٹو وڈین‘‘ کے مرہونِ منت ہیں جو مقامی ریڈیو اسٹیشن سے ہر جمعے کی شام ہوا کے دوش پر بکھرتا ہے اور اسلامک براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک کی ویب سائٹ کے ذریعے دنیا بھر میں بہ ذریعہ ویب سائٹ نشر کیاجاتا ہے۔ اس گروپ کے ایک اہم رکن ’’سلام‘‘ کہتے ہیں کہ نوجوان پرستاروں کے شوق اور حوصلہ افزائی سے ہمیں بڑی ڈھارس ہوتی ہے، لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح ان نغموں سے اُنہیں نویں جماعت میں کامیابی ملی یا کس طرح ان نغمات کو سن کر اپنے عقیدے اور وجودِ باری تعالیٰ کی یاد آئی اور ان کی زندگی یک سر بدل گئی۔ ’’NativeDeem‘‘سے امریکا میں مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ان کی اپنی موسیقی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ہم اپنی تقریبات میں بھی تفریح کرسکتے ہیں اور یہ عربی نوعیت کی نہیں ہے۔ ہماری موسیقی امریکی ہے اور ہرایک اس میں اپنائیت محسوس کرتا ہے۔‘‘ (مصنف فلس مکین توش واشنگٹن میں مقیم ایک فری لانس رائیٹر ہیں، ماہنامہ ’’خبر ونظر‘‘ اسلام آباد، جولائی ۲۰۰۵ئ)

اس ثقافتی اسلام کی چند شکلیں پاکستان میں بعض مذہبی تنظیموں کی وہ بدعات ہیں جن میں دعاؤں، مناجات اور صلوٰۃ وسلام کو قلب کی کیفیات، خونِ جگر کی آمیزش اور اشکِ ندامت سے خالی وعاری کرکے گابجا کر ادا کیا جاتا ہے۔ گویا پہلے دعائیں اور مناجات ہدایتِ قلبی وعملی کا سبب بنتے تھے اور اب راگ رنگ عقیدے اور دل بدل رہے ہیں۔

مغرب کے اس سارے منصوبے اور عزائم کی حتمی شکل پاکستان کے ذرائعِ ابلاغ کے ذریعے کی جارہی ہے۔ ایک مخصوص طبقے کے نمائندہ مذہبی چینل کے ذریعے ایسی نعتیہ محافل کو وسیع پیمانے پر فروغ دیا جارہا ہے، جن میں اگرچہ آلاتِ موسیقی استعمال نہیں ہوتے، لیکن آوازوں کے تانے بانے اور زیروبم کے ذریعے راگ رنگ، سرتال اور موسیقی کاسا آہنگ پیدا کیا جاتا ہے۔ جدید مغربی ثقافتی یلغار کی اس منصوبہ بندی کا مقصد موسیقی کی شدت وحِدَّت کو نعتوں میں سموکر، نعتیہ اشعار کو ہندوستانی گانوں کی دُھن اور قافیہ پیمائی میں ضم کرکے نعتوں سے نورانیت وروحانیت کو رخصت کرکے اُسے گانوں کا متبادل بنانا ہے۔ الحاد کی اس لطیف ترین شکل کے اپنانے اور اختیار کرنے کا بنیادی مقصد اس مفروضے پر قائم ہے کہ چونکہ لوگوں کا موسیقی اور گانوں سے دور ہونا تو اب ممکن نہیں رہا، لہٰذا نعتوں اور مقدس کلام کو موسیقی کے طرز پر پیش کرکے ان کے نفس کے حظ اور تسکین کا سامان دینی جواز کے ساتھ مہیا کردیا جائے۔ بالفاظِ دیگر اُمت سے موسیقی اور آلاتِ لہو ولعب کو ختم کرنے کی کوشش کی بجائے موسیقیت کی اسلام کاری کرکے نعوذ باللہ! گانوں اور نغموں کو ’’اسلامی‘‘ بنا دیا جائے، اس طرز کی نعتیہ محافل کی ترویج وتشہیر اور فروغ ومقبولیت نے دوہولناک اثرات ونتائج پیدا کیے:

۱:۔۔۔۔۔۔۔۔ جدید نعتیہ محافل کے قیام نے (جو فی الحقیقت پورے مکتبِ فکر کا نمائندہ ہے) ان حلقوں سے سیرت النبی (a) کے جلسوں کی روایت کو الا ما شاء اللہ! معدوم کردیا ہے، ان حلقوں میں وعظ وتقریر کی جگہ نعتوں کو فوقیت واہمیت دی جاتی ہے اور علماء کی جگہ ثناخوانوں کو پذیرائی ملتی ہے۔ اس افسوس ناک صورت حال نے اس حلقے میں علماء کو صفِ دوم اور مغنیوں اور گلوکاروں کو صفِ اول میں کھڑا کرکے بچی کھچی علمی روایت کو بھی فنا کرنے کا عملی سامان مہیا کردیا ہے۔ بریلوی حضرات کے مرکزی دار الافتاء منظر الاسلام بریلی انڈیا سے نعت کی اس جدید قسم کی حرمت وممانعت پر مولانا اختر رضا خان صاحب (نبیرہ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی ) سمیت مولانا ضیاء المصطفیٰ قادری، مولانا مظفر حسین قادری اور مولانا محمد کمال کا فتویٰ شائع ہوچکا ہے کہ ایسی نعتیں جن میں آلاتِ لہو ولعب کی صدائیں پیدا ہوتی ہوں اشدناجائز اور طریقۂ فُساق ہے۔                    (ماہنامہ ’’ساحل‘‘ کراچی، دسمبر ۲۰۰۵ئ، صفحات:۴۴-۴۶)

پاکستان میں مولانا الیاس قادری اس کے رَد میں پورا ایک رسالہ سپرد قلم فرما چکے ہیں، لیکن یہ نعتیہ مجالس چونکہ علماء کے بجائے کاروباری طبقات کے ہاتھوں میں ہیں، اس لیے وہ بریلی کے ’’فتوے‘‘ اور فیضانِ مدینہ کی ’’اسلامی‘‘ دعوت کو وقت دینے کو تیار نہیں، بعض نعت خواں(جن کی شہرت وثروت اور توانگری کا ذریعہ ہی مولانا احمد رضا خان صاحب کی نعتیں ہیں) بریلی کے فتوے کے برعکس اپنی پوری ٹیم کے ساتھ نعتوں کو موسیقی کی دھنوں پر پیش کرنے کا ’’کارِ خیر‘‘ بڑے دھوم دھڑ کے سے سرانجام دے رہے ہیں، جس جمالیات کے ذریعے نعت خواں علماء پر فائق وبرتر قرار پائے۔ علماء کی اس بے توقیری اور فتوے کی بے وقعتی کا یہ ارتقائی سفر ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ علماء عزت سے محروم قرار پائیں اور نعت خواں منصبِ قیادت سنبھال لیں۔ اس داخلی انقلاب اور تبدیلی کے بہت سے اسباب میں ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بریلوی حلقوں میںجدید نعت خوانی کو فروغ علماء کی اس خطابت سے ہوا جو دیگر مکاتبِ فکر کے اکابر اور بزرگوں پر دشنام والزام سے پُر تھیں، لہٰذا محافلِ نعت کو فروغ ہوا کہ بس منعقد ہونے والی محفل ذکرِ رسالتِ مآب a سے منور ومعطر رہے اور کسی پر طنز وتعریض نہ ہو، یہ اگرچہ اس کا مثبت پہلو ہے، مگر رفتہ رفتہ یہ نعتیہ محافل موسیقی اور دھنوں سے منقلب ہوگئیں اور علماء کے فتووں کی تاثیر‘ بے مغز خطابات، الزام تراشی اور سب ودشنام کی بدولت ختم ہوگئی ، بلکہ کئی حلیم الطبع اور لطیف المزاج حضرات نے تو اس طرزِ خطابت سے مایوس ہوکر ا س مکتب فکر سے تعلق ہی منقطع کرلیا۔ مدیرِ ’’فاران‘‘ ماہر القادری مرحوم نے بھی اپنی بریلویت سے برگشتگی کا سبب یہی بتلایاہے، وہ لکھتے ہیں:

’’ایک سال رجبی میں بریلوی عقائد کے چوٹی کے علماء کو بلایا گیا، میں بھی اپنے گاؤں کے چند آدمیوں کے ساتھ گنور پہنچا، دو روز رجبی شریف کی کئی نشستیں ہوئیں، مولانا عبد القادر بدایونی، مولانا عبد الماجد بدایونی، مولانا نثار احمد کانپوری، مولانا فاخر شاہ الٰہ آبادی، مولانا عبد المجید (آنولہ) اور دوسرے علماء کی وعظ وتقریریں سنیں۔ہر وعظ وتقریر میں دیوبندیوں اور وہابیوں پر طنز وتعریض اور لعنت وملامت کی جاتی، مولانا فاخر شاہ نے اپنی تقریر میں فرمایا: ’’وہابی اوردیوبندی کہتے ہیں کہ اولیاء اللہ اولاد نہیں دے سکتے، ہم ان سے کہتے ہیں کہ تم اپنی عورتوں کو ہمارے یہاں بھیجو، ان کو اولاد مل جائے گی۔‘‘                                          (ماہنامہ ’’فاران‘‘ کراچی، جولائی ۱۹۷۶ئ)

اب ان ہی ماہر القادری صاحب سے حضرات علمائے دیوبند کی تقریروں کے احوال بھی سن لیجیے، باوجود اس کے کہ ماہر مرحوم نے خود کو کبھی دیوبندیت سے منسوب نہیں فرمایا، وہ لکھتے ہیں:

’’جب راقم الحروف کا حیدر آباد دَکن جانا ہوا اور علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا قاری محمد طیب اور دوسرے دیوبندی علماء کی تقریریں سنیں، تو ان میں نہ تو بریلوی علماء پر طنز کی جاتی اور نہ ان کے عقائد کا شد ومد کے ساتھ رد کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، رسول اللہ a کی سیرتِ مقدسہ، صحابہ کرامs کے حالات، اولیاء اللہ کے اقوال واحوال بیان کیے جاتے۔ علمِ غیب، استمداد لغیر اللہ وغیرہ مسائل کا کبھی کبھار ذکر آبھی جاتا تو نہایت سادہ انداز میں اپنی بات فرما دیتے اور ان کی زبان سے یہ کبھی نہیں سنا گیا کہ جن کے ہمارے جیسے عقائد نہیں‘ وہ کافر ہیں۔ بریلی کا تو نام ہی ان کی تقریروں میں نہیں آتا تھا۔‘‘     (ماہنامہ ’’فاران‘‘ کراچی، جولائی، ۱۹۷۶ئ)

اب ظاہر ہے کہ ہرانسان میں ماہر القادری جیسی جرأت وہمت تو نہیں ہوسکتی کہ احقاقِ حق کے لیے مسلکِ آباء سے برگشتگی اختیار کرلے، آخر سماجی دباؤ اور تاریخی جبر بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے، لہٰذا نوجوانوں نے اپنے علماء کے اس مشغلۂ تکفیر اور سب وشتم کی بوچھاڑ سے تنگ آکر اپنے حلقوں میں نعتیہ محافل کی طرح ڈالی، جو بہرحال جمالیاتی حس کو تحریک دیتی ہے اور اس کی تسکین کی فراہمی کا سامان مہیا کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے ان کی سادہ لوحی نے اُنہیں رفتہ رفتہ مغرب کی ثقافتی یلغار کا شکار بناکر مغربی اہداف کی تکمیل کے لیے آلۂ کار بنادیا، ان نعتیہ محافل میں جس طرح ثناخوانوں پر اور بعض اوقات واعظین پر یوں نوٹ نچھاور کیے جاتے ہیں، جیسے عیاش اور اوباش تماش بین طوائفوں کے مجروں میں کیا کرتے ہیں۔ نوٹ دست بہ دست ایک سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے ہاتھ میں پہنچتے ہیں، یہاں تک کہ پورا ایک مجمع حلقہ بناکر نوٹ نچھاور کرنے پہنچ جاتاہے اور محافلِ نعت کے لیے نعت خوانوں کے لیے جو بڑی بھاری رقمیں مختص ہوتی ہیں، کم آمدنی والی محافل کو آئندہ برس کے لیے نشان زدہ ٹھہرایاجاتا ہے کہ پھر وہاں قدم نہ رکھیں گے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے وعظ کہنے اور نعت پڑھنے کے عوض ’’مالی منفعت‘‘ پر یوں فتویٰ جاری فرمایاہے:

’’اگر وعظ کہنے اور حمد ونعت پڑھنے سے مقصود یہی ہے کہ لوگوں سے کچھ مال حاصل کریں تو بے شک یہ اس آیتِ کریمہ ’’أولٰئک الذین اشتروا الحیٰوۃ الدنیا بالآخرۃ‘‘ کے تحت داخل ہے اور وہ آمدنی اُن کے حق میں خبیث ہے، خصوصاً جب کہ یہ ایسے حاجت مند نہ ہوں جن کو سوال کی اجازت ہے کہ اب تو بے ضرورت سوال دوسرا حرام ہوگا اور وہ آمدنی خبیث تر وحرام مثلِ غصب ہے۔‘‘ 

              (احمد رضا خان، فتاویٰ رضویہ، لاہور، رضا فاؤنڈیشن [س-ن] ج:۲۳، ص:۳۸۰-۳۸۱)

ان محافل سے مستقل معاشی مفادات کو وابستہ کرکے اس کے انسداد کی ہرراہ بند کر دی گئی ہے، باوجود اختلافِ مسلک کے اس دو طرفہ نقصان پر دل خون کے آنسوں روتا ہے کہ ایک طرف علمی روایت نے جو اپنی مضمحل صورت ہی میں قائم تھی، ان حلقوں میں دم توڑ دیا ہے۔ دوسری طرف سادہ لوح نوجوان پورے ایمانی جوہر اور مسلکی حمیت کے باوصف عشقِ رسول a کے نام پر مغربی ثقافت کی اسلام کاری کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

۲:۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ان محافل نے ان حلقوں میں عبادات کے اہتمام اور ذوق وشوق کو ختم کردیا ۔ پہلے جاگنے والی راتوں میں لوگ شب بیداری کر کے تلاوت ونوافل اور اذکار وتسبیح کے ذریعے قربتِ الٰہی کی راہیں ڈھونڈتے تھے۔ اب جاگنے والی راتوں میں ان حلقوں کا جائزہ لیجیے، پوری رات گھروں، مسجدوں یا کیوٹی وی پر منعقد محافلِ نعت میں گزر جائے گی ۔

اگر اب بھی اس حلقے کے علماء اس طرزِ عمل پر مہر بلب رہے کہ چلو اور کچھ نہ سہی یہ نعتیہ حلقے عوام میں بریلویت کو زندہ رکھنے اور میڈیا کی چمک دمک کو گرفت میں رکھنے کا سبب تو ہیں، تو انہیں اپنے ہی حلقے کے ہاتھوں اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ آغا شاعر قزلباش نے قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کرکے لسان العصر اکبر الہ آبادیؒ کو تبصرے کے لیے بھیجا تو اکبر نے برجستہ جواب لکھا تھا کہ:’’ اب اس کلام کو گا بجا کر سنوارنے کا اہتمام بھی کر دیجیے۔‘‘ پاکستان کے متجددین پہلے ہی فتویٰ دے چکے ہیں کہ موسیقی حلال ہے اور پاکیزہ کلام موسیقی کے ساتھ سنایاجائے تو سفلی جذبات نہیں بھڑکتے، بلکہ روح کو طراوت نصیب ہوتی ہے، گویا اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مغنیوں اور گویوں کے ذریعے استوار کیا جائے، نعوذ باللہ! اگر یہی صورت رہی اور اس کا بروقت اِزالہ نہ کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے الیکٹرونک میڈیا پر کلام پاک بھی موسیقی پر نشر کیا جائے گا اور اس وقت سوائے آنسوں بہانے اور کفِ افسوس ملنے کے اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس خطرناک طرزِ عمل سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ عبادات واذکار کے ذوق وشوق اور اہتمام کے ساتھ جائز اور مستحسن طریق پر نعتیہ محافل کے انعقاد کی توفیق ارزانی فرمائے، آمین ! بجاہ النبی الأمین وصلی اللّٰہ علیہ وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ و بارک و سلّم۔

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین