بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اُمتِ اسلامیہ کی زبوں حالی اور اس کا اصل علاج!

اُمتِ اسلامیہ کی زبوں حالی اور اس کا اصل علاج!


تمام اُمتِ اسلامیہ کا شیرازہ منتشر ہو چکا ہے، ہر جگہ اضطراب ہی اضطراب ہے، نہ حکمرانوں کو چین نصیب ہے، نہ محکوم آرام کی نیند سو سکتے ہیں۔ مصیبت بالا ئے مصیبت یہ کہ کوئی بھی صحیح علاج نہیں سوچ رہا ہے۔ جو زہر ہے اس کو تر یا ق سمجھ لیا گیا ہے ،جو تبا ہی و بر بادی کا راستہ ہے اس کو نجات کا راستہ سمجھا جارہا ہے ،جو تد بیر یں شقاوت کو دعوت دے رہی ہیں انہی کو ذریعۂ سعادت خیال کیا جارہا ہے۔ ماسکو ہو یا واشنگٹن تمام جہنم کے راستے ہیں، کوئی بھی سر ورِ کونین a کے مدینہ کا راستہ جو سراسر نجات وسعادت کا اعلیٰ تر ین وسیلہ ہے‘ نہیں سوچ رہا ہے، جو صراطِ مستقیم جنت کو جارہا ہے اس سے بھٹک گئے ہیں۔ نہ معلوم کہ اربابِ عقول کی عقلیں کہاں چلی گئیں؟ اربابِ فکر کیوں فکر سے عاری ہو گئے؟ آخر تاریخ کی یہ عبر تیں کس لیے ہیں؟ حقائق سے کیوں چشم پوشی کی جارہی ہے؟ خاکم بد ہن ایسا تو نہیں کہ تکوینی طور پر اُمت پر تباہی وبربادی کی مہر لگ چکی ہے؟ اس اُمت کا زوال مقرر ہو چکا ہے؟ عروج کا دور ختم ہوگیا ہے؟ حق تعالیٰ نے تو اسلام اور صرف اسلام کی نعمت کو آخری نعمت فرمایا تھا اور یہ صاف وصریح اعلان ہوچکا تھا کہ اس کے سوا کوئی رشتہ ورابطہ، کوئی دین ومسلک قابل قبول نہ ہوگا، نجات اسی دینِ اسلام میں ہے اور اسی دینی رابطہ میں فلاح وسعادت ہے۔ باقی تمام راستے شقاوت وہلاکت اور تباہی وبربادی کے راستے ہیں اور یہ ابدی اعلان آج بھی حق تعالیٰ کے آخری پیغام میں کیا جارہا ہے:
’’وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۔‘‘                       (آل عمران:۸۵)
’’اور جو کوئی چا ہے سوااسلام کی حکم بر داری کے اور دین سو اس سے ہر گز قبول نہ ہوگا۔‘‘
اور سورۂ عصر میں تاریخ عالم کو گواہ بناکر پیش کیا گیا ہے کہ جن لوگوں میں ایمان با للہ، عمل صالح، تو اصی بالحق، اور تو اصی بالصبر، یہ چار باتیں نہیں ہوں گی ان کا انجام تبا ہی وبربادی ہے، کیا اسی اسلام سے رو گر دانی کی اتنی بڑی سزا پاکستان اور پاکستا نیوں کو نہیں ملی کہ چند لمحوں میں بارہ کر وڑ آبادی کا عظیم ملک ۵کروڑ کا چھوٹا ساملک بن گیا؟ کیا بنگلہ دیش کے قضیہ سے دونوں طرف کے مسلمان عذابِ الٰہی میں نہیں مبتلا ہوئے؟ اسلامی رابطہ، اتحاد و اُخوت ختم کر کے کیا دولت کمائی؟ آخرت سے پہلے دنیا کی رسوائی اور خسران وتباہی بھی دیکھ لی۔ افسوس کہ وہی غیر اسلامی سبق پھر یہاں مغربی پاکستان میں دوہرایا جارہا ہے، وہی سندھی، پنجا بی، بلوچ اور پٹھان کے ملعون نعرے یہاں بھی اُبھر رہے ہیں۔ ارحم الراحمین کے غضب کو دعوت دینے والی صورتیں اختیار کی جارہی ہیں۔ طاغوتی طاقتیں جن کا ڈورا باہر کے شیا طن کے ہاتھ میں ہے ،اسلام اور مسلمانوں پر ایک اور کاری ضرب لگا نے کی فکر میں لگ گئے ہیں، فإنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ نہ اربابِ حکومت مرض کا صحیح علاج سوچ رہے ہیں، نہ اربابِ دین‘ دین کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں، نہ اربابِ قلم زورِ قلم اصلاحِ حال پر خرچ کر رہے ہیں۔ غور کر نے سے یہی معلوم ومحسوس ہوتا ہے کہ اس قوم کا آخرت پر یقین یا تو ختم ہو گیا یا اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنت وجہنم اور حیاتِ ابدی کے تصور سے دل ودماغ خالی ہو گئے ہیں، تمام نعمتیں وآسائشیں صرف دنیا کی چاہتے ہیں۔ جب مر ض یہ ہے یعنی دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت تواب رہنمایانِ قوم کا فرض یہ ہے کہ اسی کا تدارک کریں اور اسی کا علاج سو چیں۔ گزشتہ چند سالوں کے تجر بات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جو طریقہ علاج کا سو چا گیا اور عملاً اس کو اختیار بھی کیا گیا، وہ صحیح قدم نہ تھا۔ اخبارات بھی جاری کیے گئے، جماعتیں بھی بنائی گئیں، جلسے بھی کیے گئے، جلوس بھی نکالے گئے، مظا ہرے بھی کیے گئے، جھنڈے بھی اُٹھائے گئے، نعرے بھی لگا ئے گئے ،الیکشن بھی لڑے گئے، کچھ ممبر بھی منتخب ہوگئے، اسمبلی ہالوں میں پہنچ گئے، کچھ تقریریں بھی کیں، کچھ تجو یز یں بھی پاس ہوئیں، لیکن یہ سب نقا رخانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئے۔ قوم سے چندے کیے گئے کروڑوں روپے خرچ بھی کیے، لیکن قوم جہاں تھی کاش! وہیں رہتی، ہزاروں میل پیچھے ہٹ گئی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تد ابیر اختیار نہ کی جائیں اور یہ بالکل عبث و ضیاعِ وقت ہے ،لیکن اتنا تو واضح ہو گیا کہ یہ پورا علاج نہیں یا اصل علاج نہیں اور یہ نسخہ مفید ثابت نہ ہوا، مرض کا ازالہ اس سے نہیں ہوسکا۔

اصلاحِ معاشرہ کا صحیح طریقہ
 

بہر حال ان سیاسی تد بیروں کے ساتھ اب دینی سطح پر کام کی ضرورت ہے، اگر آپ کا شوق اس کا متقاضی ہے کہ سیاسی تد بیر یں اختیار کی جائیں اور سیاسی حربے بھی استعمال ہوں اور آپ کی طبیعت اور ذوق ان وسائل کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں، اگر چہ ہماری دیا نت دارانہ رائے یہی ہے کہ ان کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ نہیں اور’’ کوہ کندن وکاہ بر آوردن‘‘ والی مثال صادق آتی ہے، وقتی اور سطحی عوامی فائدے ہیں۔ لیکن تاہم اگر آپ کا ذوق تسلیم نہیں کرتا تو ترک نہ کیجئے، لیکن اصلی اور حقیقی وبنیادی کام اصلاحِ معاشرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس مخلوق کو بھولا ہوا سبق یاد دلائیں اور انبیاء کرامo اور مصلحینِ اُمت کے طریقوں پر آسمانی ہدایات کی روشنی میں اصلاح کا بیڑہ اُٹھائیں اور اپنی پوری طاقت انفرادی، اجتماعی اصلاحِ اُمت پر خرچ کی جائے۔ گھر گھر، بستی بستی، پہنچ کر دعوت الی الخیر کا ربانی پیغام پہنچا ئیں، اجتماعات ہوں تو اسی مقصد کے لیے، جلسے اگر ہوں تو اسی بنیاد پر، مجلات ہوں تو اسی کا م کے لیے ،اخبارات کے صفحات ہوں تو اسی مقصد کے لیے۔ اور کاش! کہ اگر حکومت کے وسائل حاصل ہوں اور ریڈ یو وغیرہ کی پوری طاقت بھی اس پر خر چ ہو تو چندمہینوں میں یہ فضا تبدیل ہوسکتی ہے۔ بہر حال اس وقت یہ آرزو تو قبل ازوقت ہے کہ حکومت کی سطح پر جو وسائلِ نشرو اشاعت ہیں وہ ایمان کی روح سے آراستہ ہوں اور ایمانی حرارت اور نور اُن میں جلوہ گر ہو، ان کے ذریعہ اصلاح ہو۔ اب ضرورت اس کی ہے کہ کہ آج کی نسل خدا تر س بن جائے، ان کی اصلاح ہو، آج کی یہی نسل کل حکمران ہو۔ تمام تر وسائلِ نشر واشاعت اور خبر رساں ایجنسیاں سب کے سب اشاعتِ اسلام و تزکیہ و اخلاق کے سرچشمے ہوں۔ پوری قوم نہ سہی اکثر یت یا قابلِ اعتبار اہم اقلیت کی ہی اصلاح ہوجائے تو کل کرسیِ صدارت ہو یا کرسیِ وزارت، منصبِ سفارت ہو یا وسائلِ نشر واشاعت ہوں، یہ سب کے سب تعلیمِ اسلام وتعلیمِ دین کے مر اکز بن سکیں گے۔ اب تو حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پاسبان خود چور بن گئے ہیں، جو رہبر تھے وہ رہزن بن گئے ہیں۔ تفصیلات میں جانے کی حاجت نہیں، ’’عیاں راچہ بیان‘‘ جو صورت حال ہے وہ سامنے ہے۔
 خلاصہ یہ کہ اس وقت دین کی اہم تر ین پکار یہی ہے کہ خدا کے لیے اُٹھو اور خوابِ غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور سفینۂ حیات کو ساحلِ مراد تک پہنچا نے کی پوری جد وجہد کرو۔
 نیز یہ چیز پیشِ نظر رہے کہ طاغوتی طاقتیں اور تمام تر فتنہ وفساد بر سرکار ہیں اور نہایت تیزی سے سیلاب آرہا ہے، کمزور وناتواں کوشش کافی نہیں۔ فساد معاشرے میں ایٹم کی رفتار سے پھیل رہا ہے۔ ظا ہر ہے کہ کیڑے مکوڑوں کی رفتار سے مقابلہ کیا گیا تو کیونکر اصلاح ممکن ہو گی۔ خدا ر ا!یہ آگ جو لگ چکی ہے‘ جلد سے جلد بجھا نے کی کوشش کرو، ورنہ تمام قوم وملک اس کی شعلوں کی نذر ہوجائے گا۔ افسوس وتعجب سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر کسی کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے تو وہ فوراًبجھا نے کی تد بیر میں لگ جاتا ہے، کو تا ہی نہیں کرتا ،لیکن دینِ اسلام کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، صدیوں کا جمع کیا ہواذ خیر ہ نذرِ آتش ہونے کے قریب ہے، لیکن ہم اطمینان سے بیٹھ کر تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے بحرانوں کا حقیقی علاج دعوت الی اللہ ہے
 

ہمارے ملک میں جو بحران ڈیڑھ دو سال سے چل رہا ہے وہ مشرقی پاکستان کو موت کی نیند سلادینے کے بعد بھی تھمنے نہیں پایا، بلکہ اس کا سارا زور سمٹ کر اب نیم جان مغربی پاکستان پر لگا ہوا ہے۔ مریض کے حالات اتنے غیر یقینی اور مستقبل اتنا بھیا نک ہے کہ اسے ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ ہم علماء سے ،طلبہ سے، حکام سے، صحافیوں سے ،وکیلوں سے، کسا نوں سے، مزدوروں سے اور ہر ادنیٰ واعلیٰ سے خدا کے نام پر اپیل کرتے ہیں کہ اگر اس ملک کی اور خود اپنی زندگی کچھ دن اور مطلوب ہے، اگر ہمارے دل پتھر ،ہمارے ذہن مفلوج ،ہمارے دماغ ماؤف اور ہمارے اعضاء شل نہیں ہوگئے ہیں اور اگر ہمارے بدن میں زندگی کی کوئی رمق اور ہماری آنکھ میں عبرت وغیرت کا کچھ پانی ابھی موجود ہے تو ہمیں سارے دھندے چھوڑ کر، سارے ضروری کام ملتوی کر کے اور سارے مشاغل سے ہٹ کر چند دن کے لیے دعوت الی اللہ کا کام کرنا ہوگا۔ اس کے لیے سب کو نکلنا ہوگا، سب کے پاس جانا ہو گا، در بدر کی ٹھوکریں کھانی ہوں گی۔اگر ملک کا معتد بہ حصہ اس فرض کو انجام دینے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوگا تو حق تعالیٰ اس ملک کی اور اس کے ساتھ ہماری بقاء کا فیصلہ فر مادیں گے اور پھر بھارت اور روس بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور اگرہم بد ستور اپنی پنی لَے میں مست اور اپنے اپنے کام میں مگن رہے اور دعوت الی اللہ کے کام کے لیے اپنے اوقات، اپنے مال اور اپنی جان کو خرچ کرنے کی ہمت نہ کی تو خدا ہی جانتا ہے کہ اس فرض نا شنا سی کی پاداش کن کن شکلوں میں ظا ہر ہوگی۔ ہماری تدبیریں، ہماری حکومتیں، ہماری وزارتیں، ہماری اسمبلیاں، ہمارے وسائل خدا کے فیصلے کو نہیں بدل سکتے۔
میٹنگیں بلانے، عمائد کو جمع کرنے، اتحاد کے نعرے لگا نے اور مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے پر بہت وقت ضائع کیا جاچکا ہے۔ اب وقت ہمیں ایک لمحہ کی مہلت دینے کو بھی تیار نہیں۔ نہ دعوت واصلاح کے خاکے مر تب کر نے پر مز ید اضاعتِ وقت کی ضرورت ہے ۔مولانا محمد الیاس v والی تبلیغی تحریک ہی بس اُمید کی آخری کرن ہے۔ اپنے ذوق، اپنے تقاضوں اور اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیجئے۔ ملت کی شکستہ کشتی کے ٹوٹے ہوئے اس تختہ کو جس پر پانچ کر وڑ نفوس سوار ہیں، اگر بچا نا ہے تو بس یہی ایک تد بیر ہے کہ ہم سب اخلاص کے ساتھ خفافاً وثقالاً اس کام کے لیے نکل کھڑے ہوں اور دعوت کے کام کو سیکھیں اور کریں۔ ہم ایک بار پھر علماء اور دانشور طبقہ سے عرض کریں گے کہ: خدارا! مقتضائے حال کو سمجھو، ہمارے موجودہ مشاغل ہمارے پاؤں کی زنجیربن جائیں گے۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی اُمت کے لیے دعوت واصلاح کی محنت والا کام نہ سنبھالا گیا اور اگر ہماری بے التفاتی، لاپروائی اور بے اعتنا ئی کی یہی کیفیت رہی جواب تک ہے تو وقت کا فیصلہ بڑا ہی شدید اور بھیانک ہوگا۔ مشرق والوں کو اس کا تجر بہ ہوچکا ہے، ہمیں اس سے عبرت پکڑلینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں اور ملتِ بیضاء کی حفاظت کی توفیق اُمت کو نصیب فرمائیں۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین