بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

مقالات

مقامِ نبوت!


مقامِ نبوت!


’’نبوت‘‘ کی اصلی حقیقت تو اسی رب العزت قدوس وسبوح جل ذکرہٗ کو معلوم ہے جس نے نظامِ عالم کی ظاہری وباطنی اصلاح کے لیے اس ربانی عطیہ کی سنت عالم میں جاری کردی تھی، یا پھر اس کو جو اس عطیۂ الٰہی سے سرفراز کیا گیا ہو، کسی اور پر اس کی پوری حقیقت کا روشن ہونا حقیقت سے بعید ہے، اس لیے کہ انسان کے پاس حقائقِ اشیاء کے معلوم کرنے کے لیے عقل ہے اور ’’نبوت‘‘ ایک ایسی حقیقت ہے جو عقل سے وراء الوراء ہے۔ عقل وعقلیات کی سرحد جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے ’’نبوت‘‘ کی سرحد شروع ہوتی ہے، لیکن محققینِ اسلام اور اکابرِامت نے قرآن کریم کی روشنی میں اور امام الا نبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مقدس زندگی کے آثارواحوال کے مشاہدہ وعلم کے بعد جو تحقیقات پیش کی ہیں وہ یقینا ایک حد تک اس حقیقتِ کبریٰ کی جلوہ نمائی کے لیے کافی ہیں اور ان کی عقولِ سلیمہ نے اس حقیقت کی تفہیم میں جو عقلی پیرائے اختیار کیے ہیں اور نظائر وشواہد سے اس کو سمجھایا ہے وہ ہمارے ’’علم کلام‘‘ کا اہم ترین جزء ہیں۔
 امام ابو الحسن اشعری، ابن حزم ظاہری، قاضی ابوبکر باقلانی، ابو اسحاق اسفرائینی،ابو یعلی، ابو المعالی،امام الحرمین، عبدالکریم شہر ستانی، امام غزالی، فخر الدین رازی، سیف الدین آمدی، ابن خلدون، عزالدین بن عبدالسلام، ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ وغیرہ، محققین اسلام نے تیسری صدی ہجری کے وسط سے لے کر آٹھویں صدی کے وسط تک اس موضوع پر گرانبہاعلمی جواہرات کا ایک نادر ترین ذخیرہ چھوڑاہے۔(۱)

حاشیہ:۱…        بعض قدماء معتزلہ اور قدماء شیعہ کی بھی اس موضوع پر مستقل تصانیف ہیں، چونکہ جمہور اُمتِ محمدیہ کے مسلک کے وہ خلاف ہیں اور زیادہ تران کا طرز اس موضوع میں محض فلسفیانہ ہے، اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔

محققینِ ہند اور متاخرین علماء اسلام میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ  کے اسمائے گرامی اس سلسلہ کی صف اول میں درج ہونے چاہئیں، اور سچ تویہ ہے کہ اس موضوع پر جو جواہر پارے شاہِ دہلیؒ نے پیش کیے ہیں، اس کی ہمسری کرنے کے لیے 

قدماء میں سوائے حجۃ الا سلام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  کوئی دوسری ہستی زیادہ نمایاں نظر نہیں آتی، یا تو یہ واقعہ ہے یا ہماری نظر کا قصور ہوگا۔ یہ دوسری بات ہے کہ ایک ہزار برس کی تحقیقات کا عطر اُن کے سامنے موجود تھا اور ان کی تحقیقات کی تیز شعاعوں میں منزل مقصود کی رہنمائی آسان ہوگئی۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے حقائق کی تفہیم وافہام کے لیے جس سرچشمہ کی ضرورت تھی شاہِ دہلی خود اس سے سرشارتھے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  کی کتابوں میں یہ بحث’’المنقذ من الضلال‘‘و’’معارج القدس‘‘ میں سب سے عمدہ شکل میں موجود ہے۔ امام رازی  رحمۃ اللہ علیہ  کی ’’تفسیر کبیر‘‘ و’’مطالب عالیہ‘‘ میں کافی سامان ہے۔ شاہِ دہلیؒ نے چند کتابوں میں اس کی پوری تحلیل اور کامل تجزیہ کیا ہے، بالخصوص اپنی کتاب’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ کی پہلی جلد کے مختلف ابواب میں نبوت کی حقیقت، منصبِ نبوت کی تشریح، نبوت کے خواص ولوازم، انبیاء ومصلحین کے فروق وغیرہ کو خوب واضح کیا ہے۔(۱)
امیر یمانی  رحمۃ اللہ علیہ کی ’’إیثار الحق علی الخلق‘‘ میں اس موضوع میں کافی لمبی بحث موجود ہے۔ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کی اس موضوع پر ’’کتاب النبوات‘‘ تقریباً تین سو صفحات میں موجود ہے، لیکن حق یہ ہے کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے باوجود علمی تبحر وتدقیق او رباوجود جلیل القدر محقق ہونے کے اس موضوع کا حق نہیں ادا کیا۔ غزالیؒ کے چند صفحے اور شاہِ دہلیؒ کے چند ورق کو میں اس ساری کتاب پر ترجیح دیتا ہوں، چند ضمنی فوائد ونکات کے سوا اس میں کوئی اہم بات یا علمی تحقیق اس موضوع پر نہیں جس کی ان سے توقع تھی۔ مجھے اس وقت نبوت کی عقلی تشریح کرنی منظور نہیں، کیونکہ اس کی تشریح سے پہلے ’’روح‘‘ کی حقیقت سمجھانی ہوگی جو بجائے خود ایک مستقل دقیق وغامض علمی مضمون ہے، جس میں ارسطو نے ’’کتاب النفس ‘‘لکھی ہے اور اس کی تلخیص وتراجم وشروح ثامسطیوس، لا مقیدوروس، استیلقوس، اسکندر افرودوسی، ابن بطریق وغیرہ وغیرہ نے کی ہیں۔ (۲)

حاشیہ:۱…        ملاحظہ ہو: ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ کے حسب ذیل ابواب، ذکر الملأ الأ علٰی، ص:۱۲، باب التکلیف، ص:۱۵، انشقاق التکلیف من التقدیر، ص:۱۶، اقتضاد التکلیف من المجازاۃ، ص:۱۹، اختلاف الناس فی جبلتہم، ص:۲۰، حقیقۃ السعادۃ، ص:۳۹، اختلاف الناس فی السعادۃ، ص:۴۰، الحاجۃ إلٰی ہداۃ السبل، ص:۶۵، حقیقۃ النبوۃ، ص:۶۶ ، کیفیۃ الاستنباطات ، ص:۳۰۔۳۱، باب الارتفاق الأول، ص:۳۰)
حاشیہ:۲…    ملاحظہ ہو تفصیل کے لیے: کشف الظنون، ج:۲ ،ص:۲۴۸،۳۰۴)
اسلامی دور میں ابو العباس احمد سر خسی (المتوفی: ۳۸۶ھ) صدقۃ بن منجا الدمشقی (۲۶۰ھ) مؤرخ مشہور مسعودی (۳۴۶ھ) امام غزالیؒ (۵۰۵ھ) امام رازیؒ (۶۰۶ھ) ابن القیمؒ (۷۵۲ھ) برہان الدین بقاعیؒ (۸۸۵ھ) وغیرہ وغیرہ متکلمین اسلام اور علماء امت نے ’’روح‘‘ پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے ’’معارج القدس‘‘ غزالیؒ کی اور ’’کتاب الروح‘‘ ابن القیمؒ کی اور ’’سرالروح‘‘ 

بقاعی کی اور’’ کتاب الفتوح لمعرفۃ أحوال الروح‘‘ بعض علماء عصر کی اور ’’ألطاف القدس ‘‘  شاہ ولی اللہؒ کی ہمارے سامنے مطبوعہ موجود ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ حقیقتِ نبوت کی تشریح کے لیے ’’حقیقتِ روح‘‘ بیان کرنا ضروری ہوگی۔ اس وقت ان غامض ودقیق علمی موضوعات کی طرف جانا نہیں اور نہ فیصلہ کرنا ہے۔ صرف اپنے سلف صالحین کے چند علمی کارناموں سے طلبہ کو واقف کرانا تھا، کوئی مشکل سے مشکل، دقیق سے دقیق علمی موضوع اور خصوصاً جس کا تعلق دین اسلام سے ہو ایسا نہیں ہوگا جس پر کہ ہمارے اکابر نے اپنی بیش بہا تحقیقات کا ذخیرہ جمع نہ کیا ہو۔ 
اس وقت مقصود صرف اتنا ہے کہ یہ بتلایا جائے کہ ’’نبی‘‘ (پیغمبر) کسے کہتے ہیں؟ اور قرآن کریم میں ’’انبیائ‘‘ اور ’’نبوت‘‘ کے کیا کیا خواص بتلائے گئے ہیں؟ تاکہ آیاتِ بینات کی روشنی میں ایک مسلمان صحیح عقیدہ کو سمجھ سکے، اور جب کسی کی نبوت ثابت ہوجائے مسلمان کے لیے ان کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوگا اور جب ایمان لایا گیا اس وقت ’’نبی‘‘ ایک امتی کے لیے ایک برگزیدہ مقدس واجب الاطاعت ہستی ہوگی۔ اس کے احکام، اس کی مرضیات، اس کے اوضاع واطوار، اس کے اخلاق وعادات، غرض کل نظامِ حیات میں اس کی سنت افرادِامت میں سے ہر فرد کے لیے دلیل راہ ہوگی۔ پھر وہاں کیوں؟ اور کیوں کر؟ کا سلسلہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ سوائے تسلیم وانقیاد واطاعت وفرمانبرداری کے کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ اس کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے۔ اس کی رضا مندی خدائے تعالیٰ کی رضا مندی ہوتی ہے، اس لیے کہ خود حق تعالیٰ یوں ہی فرما چکے ہیں، جیسا کہ آئندہ ان شاء اللہ تعالیٰ! واضح ہوجائے گا۔ 
ہاں! عبادت بہر حال اللہ تعالیٰ کی ہوگی،رسول کی اطاعت سے اس کی عبادت لازم نہیں آتی،عبادت وبندگی اور چیز ہے،اطاعت وتسلیم اور چیز ہے، دونوں میں خلط نہ کرنا چاہیے۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ رسول کی رہنمائی میں اللہ تعالیٰ شانہٗ کی عبادت وبندگی کی جائے۔ اب وہ رہنمائی مختلف صورتوں میں ہوگی، کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف صاف طور پر نسبت کر کے ارشاد فرمایا جائے گا، کبھی اپنی طرف سے کچھ ارشاد فرمائیں گے، گو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوگا۔ لیکن لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی نسبت نہیں ہوگی، کبھی ان کے اتباع، ان کے طرز وطریقہ کو دیکھ کر رہنمائی حاصل کریں گے۔ غرض کہ رہنمائی حاصل کرنے کے طریقے مختلف ہوں گے۔

نبی ورسول یا پیغمبر

لغت عرب میں’’نبأ‘‘ اس خبر کو کہتے ہیں جس میں فائدہ ہو اور فائدہ بھی عظیم اور اس خبر سے سننے والے کو علم واطمینان بھی حاصل ہو۔(۱)  غرض کہ تین چیزیں اس میں ضروری ہوں:۱:… خبر فائدے  کی ہو، ۲:…فائدہ بھی عظیم الشان ہو، ۳:…سننے والے کو یقین کامل یا اطمینان قلب حاصل ہوجائے۔ قرآن کریم نے اسی لغت سے ’’نبی‘‘ کا لفظ ایک ایسے انسان کے لیے استعمال کیا جس نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے فائدے اور نفع کی ایسی عظیم الشان خبریں سنائیں جن سے ان کی عقول قاصر ہیں، صرف اپنی عقلِ نارسا سے وہاں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے کہ ایسی باتیں وہی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے ہوں گی اور پھر ان خبروں پر اطمینان یا علم جب حاصل ہوسکتا ہے کہ خبر دینے والا اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی دلیل بھی پیش کرے یا صرف اس کی زندگی ہی اتنی پاکیزہ، اتنی اعلیٰ ومقدس ہو کہ اس پر جھوٹ کا وہم وگمان بھی نہ ہوسکے، اس کی بات سنتے ہی لوگوں کو یقین آجائے۔ اب صرف ’’نبی‘‘ کا لفظ ہی لغتِ عرب کے مطابق ان سب حقائق پر روشنی ڈالتا ہے، جس کی تفصیل وتحقیق کے لیے صفحات بھی ناکافی ہیں۔ شیطانی وساوس یا طبعی جحودوعناد اگر قبول سے مانع آجائے یہ دوسری بات ہے۔

حاشیہ:۱…        ملاحظہ ہو ’’مفرداتِ راغب‘‘ ص:۴۹۹۔ابن تیمیہؒ نے’’النبوات‘‘ میں اسی کو دوسرے عنوان سے بیان کیا اور کسی قدر اور لطیف کردیا۔ دیکھو’’النبوات‘‘ ،ص:۲۲۲

’’رسالت‘‘

لغتِ عرب میں ’’رسالت‘‘ کے معنی ایک پیغام کے ہیں اور ’’رسول‘‘ کہتے ہیں پیغام پہنچانے والے کو۔ قرآن کریم نے اس لفظ کو اس پیغام پہنچانے والے کے لیے استعمال کیا جو اللہ تعالیٰ شانہٗ کی جانب سے دین ودنیا کے مصالح کے بارے میں پیغامات اس کے بندوں تک پہنچائے۔
اب خلاصہ یہ ہوا کہ اسلام کی ز بان میں ’’نبی ورسول‘‘ وہ سفیر ہے جس کا خود اللہ تعالیٰ نے انتخاب فرمایا ہو۔ خدائے تعالیٰ کے پیغامات اس کے بندوں تک پہنچاتا ہو، دین ودنیا کے مصالح ومنافع کے لیے ایک ’’قانونِ حیات‘‘ ایک ’’نظام العمل‘‘ ایک ’’دستورِ اساسی‘‘ پیش کرتا ہو۔ ایسے احکام، ایسے حقائق، ایسے امور اُن کو ارشاد کرتا ہو جن سے ان کی عقول قاصر ہوں۔ ایسی دقیق وغامض باتوں کی اطلاع دیتا ہو جہاں ان کا طائرِ عقل پر واز نہ کرسکتا ہو، ان کے شکوک وشبہات کا ازالہ کرتا ہو، نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی وعذاب سے ڈراتا ہو۔ جو حکم دیتا ہو وہ خود کرتا ہو، خود اُن کے لیے مجسم پیکرِ عمل ہو، اس قانونِ حیات و نظامِ عمل کے لیے اس کا وجود آئینہ ہو۔ یہ ہیں اسلام کی زبان میں، شریعت کی لغت میں ’’رسول ونبی‘‘ کے معنی، اسی کو ہم اپنی زبان میں ’’پیغمبر‘‘ کہتے ہیں۔ ’’رسول‘‘ و’’نبی‘‘ میں کیا فرق ہے؟ یہ ایک محض علمی چیز ہے۔ ہمارے موضوع سے خارج ہے، لیکن اجمالاً اتنا واضح رہے کہ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’کتاب النبوات‘‘ میں جو فرق بیان کیا وہ ہمیں سب سے بہتر معلوم ہوتا ہے، جس کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ: ’’ جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے صرف غیب کی خبروں سے قوم کو اطلاع دیتا ہو، ان کو نصیحت کرتا ہو، ان کی اصلاح کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کو ’’وحی‘‘ ہوتی ہو، وہ ’’نبی‘‘ کہلاتا ہے۔ اگر ان اوصاف کے ساتھ وہ کفار کی طرف اور نافرمان قوم کو تبلیغ پر مامور بھی کیا جائے تو وہ ’’رسول‘‘ بھی ہو گا۔‘‘(۱)

حاشیہ:۱…        تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو’’کتاب النبوات‘‘ص:۲۷۲تا۲۷۴)
اب ہم قرآن کریم کی روشنی میں ’’انبیاء ورسل‘‘ کے خواص ولوازم پیش کرتے ہیں، لیکن معلوم رہے کہ ’’انبیاء ورسل علیہم السلام ‘‘ کے عام خصائص بحیثیت نبوت ورسالت سب مشترک ہیں، قرآن کریم نے جتنے کمالات اور اوصاف انبیاء ورسل علیہم السلام  کے بیان کردیئے ہیں وہ سب حضرت خاتم الا نبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  میں بوجہ کمال موجودہیں، کیونکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم  سب انبیاء ورسل علیہم السلام  سے افضل ہیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم  سید الا نبیاء ہیں، خاتم الا نبیاء ہیں۔ یہ نصوصِ قطعیہ کا مفاد ہے اور اُمتِ مرحومہ کا ’’اجتماعی عقیدہ‘‘ ہے اور تاریخِ عالم کی ’’حقیقتِ ثابتہ‘‘ ہے اور اسلامی دور کے حیرت انگیز کارنامے اس کے شاہدِ عدل ہیں۔ قرآن کریم نے بہت سے انبیاء ورسل علیہم السلام  کے خصائص وکمالات بیان کرنے کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم  کو حکم دیا اور فرمایا:
’’أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہْ۔‘‘                        (الانعام:۹۰)
’’یہ حضرات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے، آپ بھی انہیں کے طریقہ پر چلئے۔‘‘
اس سے یہ صاف معلوم ہوا کہ انبیاء  علیہم السلام  کے جتنے عملی وعلمی کمالات تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم  ان سے مالا مال تھے۔ اس لیے ہم جتنی آیاتِ کریمہ مختلف انبیاء ورسل علیہم السلام  کے خصائص واوصاف میں پیش کریں گے۔ مقصود ان سے صرف نبوت کے کمالات وخصائص ہوں گے جو اصل نبوت کی وجہ سے قدرِ مشترک سب میں موجود ہیں۔

منصبِ نبوت ورسالت

نبوت ایک عطیۂ ربانی ہے جس کی حقیقت تک رسائی غیر نبی کو نہیں ہوسکتی، اس کی حقیقت کو یا تو حق تعالیٰ جانتا ہے جو نبوت عطا کرنے والا ہے یا پھر وہ ہستی جو اس عطیہ سے سرفراز ہوئی۔ مخلوق بس اتنا جانتی ہے کہ اس اعلیٰ وارفع منصب کے لیے جس شخص کا انتخاب کیا گیا ہے وہ:
۱…معصوم ہے ، یعنی نفس کی ناپسندیدہ خواہشات سے پاک صاف پیدا کیا گیا ہے اور شیطان کی دسترس سے بالاتر۔ عصمت کے یہی معنی ہیں کہ ان سے حق تعالیٰ کی نافرمانی کا صدور ناممکن ہے۔
۲…آسمانی وحی سے ان کا رابطہ قائم رہتا ہے اور وحی الٰہی کے ذریعہ ان کو غیب کی خبریں پہنچتی ہیں۔ کبھی جبریل امین کے واسطہ سے اور کبھی بلا واسطہ ،جس کے مختلف طریقے ہیں۔
۳…غیب کی وہ خبریں عظیم فائدہ والی ہوتی ہیں اور عقل کے دائرے سے بالاتر ہوتی ہیں، یعنی انبیاء  علیہم السلام  بذریعہ وحی جو خبریں دیتے ہیں ان کو انسان نہ عقل وفہم کے ذریعہ معلوم کرسکتا ہے نہ مادی  آلات وحواس کے ذریعہ ان کا علم ہوسکتا ہے۔

ان تین صفات کی حامل ہستی کو مخلوق کی ہدایت کے لیے مبعوث ومامور کیا جاتا ہے، گویا حق تعالیٰ اس منصب کے لیے ایسی شخصیت کا انتخاب فرماتا ہے جو افراد بشر میں اعلیٰ ترین صفات کی حامل ہوتی ہے، اس انتخاب کو قرآن کریم کہیں ’’اجتبائ‘‘ سے ،کہیں ’’اصطفاء ‘‘سے اور کبھی لفظ ’’اختیار‘‘ سے تعبیر فرماتا ہے، یہ عام صفات وخصوصیات توہر نبی ورسول میں ہوتی ہیں، پھر حق تعالیٰ ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرما کروہ درجات عطا کرتا ہے جن کے تصور سے بھی بشر قاصر ہے، گویا نبوت، انسانیت کی وہ معراج کمال ہے جس سے کوئی بالاتر منصب اور کمال عالمِ مکان میں نہیں، ان صفاتِ عالیہ سے متصف ہستی کو ہدایت واصلاح کے لیے مبعوث کر کے انہیں تمام انسانیت کا مطاعِ مطلق ٹھہرایا جاتا ہے، ارشاد ہے: ’’وَمَاأَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّٰہِ‘‘ (النسائ:۶۴) یعنی ’’ہم نے ہر رسول کو اسی لیے بھیجا کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے۔‘‘ پس حکمِ خداوندی یہی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے، وہ مطاع اور واجب الا طاعت متبوع ہے، اور امت اس کی ہدایت کے تابع اور مطیع فرمان۔

نبی ہر نقص و کوتاہی سے بالاتر ہوتا ہے

جب نبوت ورسالت کے بارے میں یہ صحیح تصور قائم ہوگیا کہ وہ ایک عطیہ ربانی ہے ، کسب ومحنت اور مجاہدہ وریاضت سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ حق تعالیٰ اپنے علم محیط، قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے پاک اور معصوم ومقدس ہستی کو پیدا فرما کر اس کو وحی آسمانی سے سرفراز فرماتا اور مخلوق کی ہدایت وارشاد کے منصب پر اُسے کھڑا کرتا ہے تو اس سے عقلی طور پر خود بخود یہ بات واضح ہوگئی کہ نبی ورسول کی شخصیت ہر نقص سے، ہر کوتاہی سے اور ہر انسانی کمزوری سے بالاترہوتی ہے، کیونکہ اگر خود اس کی شخصیت انسانی کمزوریوں میں ملوث ہوتو وہ ہدایت واصلاح کی خدمت کیسے انجام دے سکے گا:
آنکہ خود گم است کرا رہبری کند
چنانچہ سنت اللہ یہی ہے کہ نبی کا حسب ونسب، اخلاق وکردار، صورت وسیرت ،خلوت وجلوت اور ظاہر وباطن ایسا پاک اورمقدس ومطہر ہوتاہے جس سے ہر شخص کا دل ودماغ مطمئن ہو اور کسی کو انگشت نمائی کا بال برابر بھی موقع نہ مل سکے ، یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص شقاوتِ ازلی کی وجہ سے اس کی دعوت پر لبیک نہ کہے اور جحودوانکار میں مبتلا ہوکر ہدایت سے محروم رہ جائے، لیکن یہ ممکن نہیں کہ بدتر سے بدتردشمن بھی نبی میں کسی ’’انسانی کمزوری‘‘ کی نشاند ہی کرسکے۔